بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران عزیز، ملک کی سب سے برتر اور باعظمت صنف کا ایک نمونہ اور ملک کے خادمین! بہت بہت خوش آمدید۔ اپنے عزیز بھائي اور وزارت تعلیم و تربیت کے محترم کیئر ٹیکر کی گفتگو پر ان کا شکر گزار ہوں، انھوں نے بہت اچھی اور اہم باتیں بیان کیں۔ انھوں نے انجام پانے والے کاموں کے بارے میں جو معلومات فراہم کیں، جن میں سے بعض کے بارے میں مجھے اطلاع نہیں تھی، وہ بہت اہم ہیں۔ جن کاموں کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ بھی ہونے والے ہیں اور ان کے بارے میں اقدام کیا جانے والا ہے، وہ بھی بہت اہم ہیں۔ کمر کس لینی چاہیے، یہ سارے کام ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئي یہ سوچے کہ یہ خیالی بلند پروازی ہے اور ان آفاق کی طرف جانا ہے جہاں تک ہمارے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے تو یقینا وہ غلط سوچ رہا ہے۔ یہ ساری چیزیں جو انھوں نے کہیں، وہ ہماری توقعات ہیں اور قابل عمل ہیں، بس عزم و حوصلے کی ضرورت ہے، کام کی معلومات کی ضرورت ہے، لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور ان شاء اللہ اس طرح کی کوششوں کو اللہ کامیاب کرے گا۔ آپ لوگوں نے جو ترانہ پڑھا، میں اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، ایک الگ طرح کا ترانہ تھا جو توحید الہی سے شروع ہوا، استاد کی مدح و ثنا کرتے ہوئے آگے بڑھا، انصاف کی بات تو یہی ہے کہ حمد الہی کے بعد انسان، اساتذہ کی مدح و ثنا کرے، بہت اچھا ترانہ تھا۔

ہم اپنے عزیز شہید مرحوم آیت اللہ مطہری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو حقیقی معنی میں ایک استاد تھے۔ وہ تمام خصوصیات، جن کی توقع ہم اپنے اسکولوں کے ٹیچروں یا یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے رکھتے ہیں، ان میں موجود تھیں۔ ان کے پاس علم تھا، وہ فرض شناس تھے، دقت نظر سے کام کرتے تھے، تسلسل سے کام کرتے تھے، ان کے کاموں میں نظم و ضبط ہوتا تھا۔ بحمد اللہ ان کی شہادت بھی ملک کے لیے برکتوں کا سرچشمہ بنی۔ خود وہ تو اعلی درجے پر فائز ہوئے اور اس شہادت کی وجہ سے ان کی کتابیں، سماج کے دل میں گھر کر گئيں اور میں سفارش کرتا ہوں کہ ان کی تحریریں اور ان کی تقریروں سے تیار کی گئي کتابیں ضرور پڑھیں، خاص طور پر اساتذہ ضرور انھیں دیکھیں۔

خیر یہ نشست اصل میں اول تو ملک کی ٹیچرز سوسائٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے اور میں ہر سال یہ خراج عقیدت پیش کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس میں تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کچھ نکات پیش کیے جاتے ہیں اور آج بھی میں اس سلسلے میں کچھ جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

میرے خیال میں، ٹیچر کے سلسلے میں مجھے سب سے پہلے جو بات عرض کرنی چاہیے، وہ ٹیچرز سوسائٹی کا شکریہ ادا کرنا ہے، ملک کے اطراف و اکناف میں، دور دراز کے علاقوں میں اسلامی نظام، اسلام اور مسلمین کے یہ گمنام سپاہی خاموشی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، مجاہدت کر رہے ہیں، بہت زیادہ دشواریوں اور پریشانیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں۔ درحقیقت ٹیچرز کی یہ سوسائٹی قوم کے بچوں کی تربیت کر رہی ہے اور انھیں ایک روشن مستقبل کے لیے تیار کر رہی ہے۔ سارے ٹیچرز بھی، دوسری تمام سوسائٹیوں اور مختلف صنفوں کی طرح، ایک جیسے نہیں ہیں لیکن عام طور پر ٹیچر کے سلسلے میں عمومی رائے وہی ہے جو میں نے عرض کی۔ انھیں وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے جو صرف آج کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ٹیچر مختلف طرح کی آزمائشوں میں سرخرو ہوکر نکلے۔ مقدس دفاع میں ملک کے تقریبا پانچ ہزار ٹیچر شہید ہوئے، چار ہزار نو سو کچھ ٹیچر جنگ میں شہید ہوئے، ان طلباء کی تعداد، جو زیادہ تر ٹیچروں کی نصیحتوں کے تحت محاذ پر گئے اور شہید ہوئے، تقریبا چھتیس ہزار ہے۔ یہ اسٹوڈنٹس ہو سکتا ہے کہ فیملی، مسجد اور ساتھیوں کے زیر اثر بھی گئے ہوں لیکن اسکول اور کالج کے وہ زیادہ تر جوان جو محاذ پر گئے، انھیں ٹیچروں کی نصیحت کے نتیجے میں گئے تھے۔

جو کام ٹیچر نے اپنے ذمے لیا ہے،  فرض شناس ٹیچر نے، وہ میرے خیال میں ملک کا سب سے اہم کام ہے یعنی ملک کے بچوں کی تعلیم و تربیت، یعنی ملک کے مستقبل کی تعمیر کا کام۔ ٹیچر، در حقیقت ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ آج آپ ملک کے 'کل' کی تعمیر کر رہے ہیں۔ اگر آپ ایک آگاہ، عالم، غوروفکر کرنے والے، مفکر، معاملہ فہم، باایمان، پر عزم، شریعت کے پابند، اسلامی اخلاقیات کے پابند، قومی فرائض کے پابند انسان کی تربیت کر سکیں تو یہ ملک کی سب سے بڑی خدمت ہوگي، مطلب یہ کہ کسی بھی دوسری خدمت کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے بچوں کی تربیت کا یہ معاملہ، ایرانی بچے کی ذہانت کے پیش نظر کئي گنا بڑھ جاتا ہے اور دوہری اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ اگر ہمارے سامنے ذہنی لحاظ سے اوسط درجے کے بچوں اور نوجوانوں کی سوسائٹی ہوتی تو وہ ایک دوسری بات ہوتی، اب جبکہ ہمارے سامنے ذہانت کی عالمی اوسط سط سے بالاتر نوجوان سوسائٹی ہے تو بات الگ ہے۔ یہ ایک عظیم ثروت ہے۔ اگر ہم اس گرانقدر وجود، یعنی ذہین جوان کی، جس نے اپنی ذہانت اولمپیاڈز میں، عالمی مقابلوں میں اور ہر چیز میں ثابت کی ہے، تربیت نہ کریں اور اسے اس کے شایان شان مقام تک نہ پہنچائيں تو واقعی یہ ظلم ہوگا، یہ ایک قیمتی ہیرا ہے، اسے اچھی طرح سے تراشنا چاہیے۔

تو یہ ٹیچر کا کردار اور مقام ہے۔ بہت اہم مقام ہے، بہت اونچا مقام ہے، ذمہ داری بھی اسی کے حساب سے زیادہ ہے، ذمہ داری بھی سنگین ہے۔ چونکہ ہم نے اس سلسلے میں کافی باتیں کی ہیں، میں نے بھی باتیں کی ہیں اور سبھی نے باتیں کی ہیں، اس لیے میں اختصار سے کچھ اہم باتیں عرض کرتا ہوں۔

ایک بات یہ کہ ٹیچر، اسٹوڈنٹ کو اپنے بچے کی طرح سمجھے۔ اپنے بیٹے کے بارے میں، اپنی بیٹی کے بارے میں آپ کی ‏کیا آرزو ہے؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ وہ کامیاب ہو؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ وہ سربلند ہو؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ وہ عاقل ہو؟ ‏کیا آپ نہیں چاہتے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ اس کے روئے کی بنا پر اس کا احترام کیا جائے، معاشرے میں، ‏گھرانے میں؟ اپنے بچے کے بارے میں انسان یہی چیزیں تو چاہتا ہے۔ یہی چیزیں اپنے اسٹوڈنٹ کے بارے میں بھی چاہیں۔ یعنی پہلے مرحلے میں آپ کا کام پڑھانا ہے لیکن ہر کلاس کے دوران، میں نے بارہا کہا ہے کہ مثال کے طور پر ریاضیات یا فزکس کا ٹیچر، پڑھاتے ہوئے ایک لفظ کہتا ہے، جس کا اثر اس جوان پر، مجھ جیسے واعظ کی ایک گھنٹے کی تقریر سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، صرف ایک لفظ سے، یہ چیزیں ہم نے دیکھی ہیں، اپنے کردار سے، رویے سے، بیان سے، ایمان سے، خیرخواہانہ جذبے سے اس شاگرد میں انسانی صلاحیتوں کو پروان چڑھائيے۔ فرض کر لیجیے کہ یہ آپ ہی کا بیٹا یا بیٹی ہے جس کی آپ پرورش کر رہے ہیں۔ یہ ٹیچر سے انسان کی پہلی توقع ہوتی ہے۔ البتہ یہ چیز تربیت کے مسئلے سے الگ ہے، جسے میں بعد میں عرض کروں گا، وہ تربیتی امور ایک الگ اور مستقل موضوع ہے، بعض لوگ انھیں آپس میں گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ جو لوگ تربیتی پہلو کو ختم کرنا چاہتے تھے وہ کہتے تھے کہ ٹیچر، تعلیم دینے کے ساتھ ہی تربیت بھی کرے، یہ بات ناقص اور نامکمل ہے لیکن تعلیم کے دوران حقیقی معنی میں، تربیت بھی کی جا سکتی ہے، مگر تربیت اپنی جگہ پر۔

ایک دوسری بات اسٹوڈنٹس کو ان مراکز میں حاضری کے لیے ترغیب دلانا ہے جو برکت پیدا کرنے والے ہیں، نور آفریں ہیں جیسے مسجدیں، جیسے انجمنیں۔ یہ بات تجربے سے ثابت ہو چکی ہے کہ جو نوجوان مسجد آتا جاتا ہے، مسجد سے جڑا ہوا ہے، وہ معاشرے کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے یعنی اس کا امکان زیادہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسجد میں جانے والا نوجوان یا کوئي اور منحرف نہیں ہو سکتا، کیوں نہیں، سارے امکانات پائے جاتے ہیں لیکن یہ بیک گراؤنڈ، بڑا گرانقدر ہے۔

ٹیچر کے رویے کے بارے میں ایک دوسری بات، پابندی سے اسکول جانے کے لئے اسٹوڈنٹ کا کوشاں رہنا ہے۔ اس کورونا کی بیماری نے اور ان آنلائن کلاسوں نے واقعی نقصان پہنچایا، ملک میں تعلیم کے کام میں گڑبڑ پیدا کر دی۔ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ سائبر اسپیس، ویڈیو کانفرنسنگ اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے پڑھایا جا سکتا ہے لیکن شاگرد کو، اسٹوڈنٹ کو، پڑھنے اور سبق سننے کے علاوہ تعلیمی ماحول میں حاضر ہونے کی ضرورت ہے، اسے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ہم سن بچوں کے درمیان، اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے درمیان اور اپنے جیسے اسٹوڈنٹس کے درمیان رہے، اس سے تعاون بڑھتا ہے، یہ بہت اہم ہے۔ کوشش کی جائے کہ اسٹوڈنٹ اسکول جائے، اسکول بہت اہم ہے۔ یہ ایک بات ہوئي، ہم نے عرض کیا کہ کورونا نے نقصان پہنچایا، یہ فتنے، ہنگامے اور ایسی ہی دوسری چیزیں بھی نقصان پہنچاتی ہیں، سڑکوں وغیرہ پر جو یہ لوگ بدامنی پیدا کرتے ہیں اس سے ملک کو جو نقصانات ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہی ہے کہ اسکولوں کو غیر محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ یا یہی پوائزننگ اور اسی طرح کے دوسرے مسائل، اب چاہے ان میں حقیقت ہو یا یہ افواہ ہو، اگر اس میں دشمن کا ہاتھ ہو اور بظاہر ایسا ہی ہے تو یہ واقعی ملک پر اور تعلیم و تربیت کے ادارے پر ایک کاری ضرب ہے کیونکہ یہ چیز اسکول جانے سے روکتی ہے۔

عزیز اور محترم ٹیچروں سے جن چیزوں کی توقع رکھی جاتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس ملک کے بچوں کے اندر ایرانی و اسلامی تشخص اور قومی تشخص کے احساس کو زندہ کریں۔ زبان کا مسئلہ اہم ہے، قومیت کا مسئلہ اہم ہے، قومی پرچم کا مسئلہ اہم ہے، بچے کو ان سے دلبستہ ہونا چاہیے، یہ ضروری چیزیں ہیں، بنیادی چیزیں ہیں۔ اسٹوڈنٹ میں اس شناخت کو، قومی اور ذاتی تشخص کو زندہ کیجیے، اسٹوڈنٹ کو اپنے ایرانی ہونے پر فخر کرنا چاہیے، البتہ اسے فخر ہے۔ یہ چیز صرف یہ کہنے سے کہ "فخر کیجیے" اور تاکید کرنے سے صحیح نہیں ہوگي۔ میں بعد میں جب درسی کتابوں کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا، اسی وقت اس بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، قابل فخر قومی شخصیات، ثقافتی ماضی، تاریخی عزت و اقتدار جب بچوں اور نوجوانوں کو دکھایا جاتا ہے تو ان میں عزت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ دوسروں کے پاس کوئي تاریخ ہی نہیں ہے تو وہ اپنے لیے تاریخ گڑھتے ہیں اور اس کی فلم یہاں بھیجتے ہیں جو ہمارے ٹیلی ویژن سے نشر ہوتی ہے، نہ ان کے پاس ایسے قومی ہیروز ہیں اور نہ ایسی شخصیات ہیں لیکن وہ گڑھتے ہیں، آرٹ ہے، فلم بنانے کا آرٹ ہے۔ ہمارے یہاں شجاعت و بہادری سے بھرا ہوا اور اعلی انسانی و سماجی صفات سے مالامال اتنا شاندار تاریخی ماضی ہے، ان کے بارے میں کوئي نہیں جانتا۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔

تو میں نے عرض کیا کہ ٹیچروں سے ہماری کچھ توقعات ہیں۔ ٹیچر سے ہمیں توقع ہے کہ وہ ذمہ داری محسوس کرے گا اور یہ ایک بجا توقع ہے لیکن اس کے مقابلے میں، ٹیچر کے سلسلے میں بھی ذمہ داری محسوس کی جائے، انصاف سے کام لینا چاہیے، جب نظام کو ٹیچرز سوسائٹی سے کوئي توقع ہے تو اسے اس سوسائٹی کے سلسلے میں ذمہ داری کا بھی احساس ہونا چاہیے۔ ذمہ داری کا یہ احساس تمام پہلوؤں میں ہو، صرف معیشت کا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ معیشت کا مسئلہ بہت اہم ہے لیکن صرف وہی نہیں ہے، تجربات کا حصول ہے، مہارت کا حصول ہے، وہی چیزیں جن کے بارے میں تعلیم و تربیت کی وزارت کے محترم کیئر ٹیکر نے اپنی تقریر میں کہا کہ ٹیچرز کے بارے میں یہ کام ہونے چاہیے یا ہم انجام دینا چاہتے ہیں، یہ فرائض میں شامل ہیں، یہ وہ کام ہیں جنھیں کیا ہی جانا چاہیے، یہ ٹیچر کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے ذمہ داری کا احساس ہے، جیسے ڈیوٹی کے دوران تعلیم یا ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کے مسائل پر توجہ، یہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی بھی بہت اہم ہے اور ٹیچرز ٹریننگ سے متعلق سبھی ادارے بہت اہم ہیں، ان کا خیال رکھا جانا بہت ضروری اور اہم ہے۔

کچھ جملے خود تعلیم و تربیت کے مسئلے کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک موضوع، ملک کے مینیجنگ سسٹم میں تعلیم و تربیت کے ادارے کے مقام کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کا انتظام چلانے میں تعلیم و تربیت کے ادارے کا کیا مقام ہے؟ پہلے یہی بات کچھ لوگوں کو سمجھانی چاہیے۔ میرے خیال میں اب بھی بعض لوگ، ملک کی ہمہ گیر پیشرفت میں تعلیم و تربیت کے ادارے کے کردار کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ماضی میں ملک کے بعض عہدیداروں کے درمیان ایک اسٹریٹیجک غلطی پائي جاتی تھی جس نے ہمیں نقصان بھی پہنچایا ہے اور وہ اس حیاتی اور بنیادی اہمیت کے ادارے کو معمولی سمجھنا ہے۔ کچھ عہدیدار اس حیاتی ادارے کی قدر و عظمت اور اس کے اثرات کو نہیں سمجھ پائے، بعض نے اسے ایک پریشان کرنے والے اور ایک خرچیلے ادارے کے طور پر دیکھا۔ یہ باتیں جو میں عرض کر رہا ہوں، یہ میں نے خود لوگوں سے سنی ہیں، مجھ سے کہا جاتا تھا کہ مثال کے طور پر ملک کے بجٹ کا اتنا حصہ، تعلیم و تربیت پر خرچ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کا نتیجہ آؤٹ سورسنگ ہے جس کے بارے میں، میں بعد میں کچھ عرض کروں گا۔ مطلب یہ کہ تعلیم و تربیت کے ادارے کو ایک ڈسٹرب کرنے والے ادارے کے طور پر دیکھتے تھے، اس کا نتیجہ جو ہے وہ بہت واضح ہے۔

میرے خیال میں پیشرفت کے دشوار گزار موڑ سے گزرنا -چونکہ ہم ملک کی ہمہ گير پیشرفت کے لیے کوشاں ہیں اور اس راہ میں دشوار گزار موڑ موجود ہیں- تعلیم و تربیت کے ادارے کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آج ہم معاشی، سماجی، ثقافتی یہاں تک کہ سیاسی میدانوں کے ماہرین اور صاحبان رائے سے سنتا ہیں کہ جب ملک کی بنیادی مشکلات اور سخت دشواریوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ ان کا حل اسکول میں تلاش کرتے ہیں۔ اگر بیس سال پہلے یا پچیس سال پہلے ہم نے اسکول پر کما حقہ توجہ دی ہوتی تو آج فلاں مشکل نہ ہوتی، یہ بات ماہرین کہتے ہیں، یہ بات صاحب رائے افراد کہتے ہیں اور صحیح کہتے ہیں، یہ بالکل صحیح خیال ہے۔ علاج یہ ہے کہ اسکول کی اصلاح کی جائے، اسکول کے لیے اور بچوں اور نوجوانوں کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور پروگرامنگ کی جائے، یہ وہ حقیقت ہے جو پائي جاتی ہے۔ تو تعلیم و تربیت کے ادارے کے سلسلے میں یہ سوچ ہونی چاہیے اور اگر یہ سوچ ہوئي تو امید ہے کہ اسی بنیاد پر منصوبہ بندی ہوگی اور اگر منصوبہ بندی ہوئي اور عزم ہوا تو جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ چیز قابل عمل ہے، عملی جامہ پہن سکتی ہے، یعنی ایسی کوئي چیز نہیں ہے جو ناممکن ہو، یہ ساری چیزیں ممکن ہیں۔ مگر سب سے پہلے صحیح سوچ ہونی چاہیے، اس کے بعد عزم اور مسلسل کام ہونا چاہیے۔ تو ہماری پہلی بات، تعلیم و تربیت کے اہم اور حیاتی ادارے کی اہمیت کو سمجھنے کی ہے، یہ بات سبھی سمجھ لیں، عوام بھی، خود تعلیم و تربیت کا ادارہ بھی اور ملک کے ذمہ داران بھی – مقننہ اور زیادہ تر انتظامیہ میں پالیسی سازی کی زمین تیار کرنے والے، فیصلہ کرنے والے بھی جان لیں کہ اس ادارے کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔

ایک اور اہم نکتہ جسے تعلیم و تربیت کے ادارے میں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اس پر توجہ نہیں دی جاتی، اس ادارے کی انتطامیہ کے استحکام کا مسئلہ ہے۔ اتنے بڑے اور اتنے اہم ادارے میں ہمیں عدم استحکام کا سامنا ہے۔ بقول شاعر:

ہر کہ آمد عمارتی نو ساخت

رفت و منزل بہ دیگری پرداخت (2)

جو بھی آیا اس نے ایک نئي عمارت بنائي، پھر وہ گھر دوسرے کے حوالے کر کے چلا گيا۔

کوئي آتا ہے، ایک پروگرام تیار کرتا ہے، ایک کام شروع کرتا ہے، اس کے چلے جانے سے کام ادھورا رہ جاتا ہے، پھر دوسرا آ جاتا ہے۔ یہاں مجھے رپورٹ دی گئي ہے – البتہ یہ بات میں خود بھی سمجھ سکتا تھا لیکن یہ بات رپورٹوں میں بھی تھی – کہ سنہ  2013 سے اب تک، دس برس میں ہم نے تعلیم و تربیت کے ادارے میں پانچ وزیر اور چار کیئر ٹیکر دیکھے! یہ بڑی عجیب چیز ہے۔ ہماری دوسری وزارتوں میں جیسے وزارت خارجہ میں یا وزارت زرعی جہاد میں سات سال، آٹھ سال، کبھی اس سے بھی زیادہ ایک وزیر دو دو حکومتوں میں کام کرتا رہتا ہے، تو وزارت تعلیم و تربیت میں انتظامیہ میں اس طرح کا عدم استحکام کیوں ہے؟ دیکھیے، دیر میں نتیجے دینے والی تمام سرگرمیوں کے لئے انتظامیہ میں استحکام ضروری ہوتا ہے، منجملہ تعلیم و تربیت کا ادارہ جس کے کام کے نتائج بہت دیر میں سامنے آتے ہیں، یعنی آج آپ ایک نوجوان کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اس کا اثر اگلے بیس سال میں یا تیس سال میں ظاہر ہوگا۔ ایسے کاموں کو انتظامیہ میں استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وزیر بدل جاتا ہے تو بہت سے دوسرے لوگ بھی بدل جاتے ہیں، اس کے معاونین بدل جاتے ہیں، دوسرے عہدیدار بدل جاتے ہیں، اوسط درجے والے عہدیدار بدل جاتے ہیں، میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وزیر کے آنے جانے سے اسکول کا پرنسپل تک بدل جاتا ہے۔ یہ بھی ایک مشکل ہے۔

تعلیم و تربیت کے ادارے کے سلسلے میں ایک دوسرا نکتہ – اور یہ بھی اس ادارے سے متعلق بنیادی نکات میں سے ایک ہے– تعلیم و تربیت کے سسٹم اور اس کے ڈھانچے کا ملک کی ضروریات کے مطابق ہونا یا نہ ہونا ہے۔ ہمارا تعلیم و تربیت کا ڈھانچہ – مثال کے طور پر اسکول اور کالج کی کلاسوں کی صورتحال یا علاقوں کے لحاظ سے پروگرامنگ اور ایسی ہی دوسری چیزیں– اور اسی طرح اس عظیم ادارے میں درسی و علمی ترتیب، ملک کی ضرورتوں سے کتنی میل کھاتی ہے؟ یہ بہت اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ ملک کے اعلی ثقافتی عہدیداران خاص طور پر خود تعلیم و تربیت کے ادارے کے عہدیداران اس پر غور کریں۔ البتہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں بھی اس پر غور کیا جانا چاہیے اور تعلیم و تربیت کی اعلی کونسل بھی اس پر غور کرے، تعلیم و تربیت کے شعبے کے انتظامی عہدیداران بھی اس مسئلے کے بارے میں سوچیں۔ ہمیں ملک میں کس چیز کی ضرورت ہے اور ہم اس وقت اپنے بچوں کو کیا چیز سکھا رہے ہیں؟ کیا یہ چیز اس کے کل کے لیے سودمند ہوگي؟ ملک کو مفکر اور دانشور افرادی قوت کی ضرورت ہے لیکن کیا کام کرنے والی افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہے؟ ملک کو جتنی ذہنی قوت کی ضرورت ہے، اتنی ہی کام کرنے والے بازوؤں کی بھی ضرورت ہے، ملکی سطح پر، تمام شعبوں میں اسے کس طرح منظم بنایا جائے؟ ہمیں جتنی سوچنے والی قوت کی ضرورت ہے، اتنی ہی عمل کرنے والی قوت کی ضرورت ہے۔

اس وقت ہمارے کالجوں میں جو عمومی تعلیم رائج ہیں، کیا تکنیکی اور فنی تعلیم سے ان کی نسبت متوازن ہے؟ میں نے اس سے پہلے کی حکومتوں کو تکنیکی اور فنی تعلیم کے بارے میں کتنی سفارش کی!(3) خیر اب انھوں نے بتایا ہے کہ اس میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن نسبت، متوازن ہونی چاہیے۔ یا مثال کے طور پر کیا ہمارے تعلیمی سسٹم میں کام کی ماہر افرادی قوت کی تربیت ہوتی ہے؟ کام میں مہارت، مختلف ضروری سروسز، پروڈکشن وغیرہ میں۔ تعلیم و تربیت کے ادارے کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ یا ہمارے کالجوں کی موجودہ راہ، یونیورسٹی کی طرف جانے والی ایک راہ ہے، مطلب یہ کہ اس وقت جو راستہ ہے وہ اسکول اور کالج سے یونیورسٹی کی طرف جانے والا ایک کاریڈور ہے، کیا یہ ضروری ہے؟ کیا واقعی سبھی کو اس راستے سے گزرتے ہوئے یونیورسٹی پہنچنا چاہیے؟ یہ ضروری ہے؟ کیا یہ ملک کے لیے سودمند ہے؟ میں نے کچھ دن پہلے، عزیز مزدوروں کے اجتماع میں، جو یہاں تھے، کہا تھا(4) کہ ہم انٹرمیڈیئٹ کرنے والی ایک بڑی تعداد کو گریجویٹ اور گریجویٹس کو بے روزگار، ناخوش اور معترض ماسٹرز میں تبدیل کر رہے ہیں، جو حق بجانب بھی ہیں، انھوں نے اتنی زیادہ پڑھائي کی ہے اور ان کی تعلیم کے لحاظ سے مناسب روزگار نہیں ہے۔ واقعی ان باتوں پر غور کیا جانا چاہیے، ان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

کیا ہم اپنے انسانی وسائل کو، جو مادی وسائل سے زیادہ گرانقدر ہیں، صحیح طریقے سے تقسیم کر رہے ہیں؟ ہمارے انسانی وسائل ہمارے یہ بچے اور نوجوان ہی تو ہیں، تعلیم کے مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم، صحیح تقسیم ہے؟ یہ اہم بات ہے۔ بہرحال تعلیم و تربیت کے ادارے میں بنیادی پالیسی یہ ہو کہ ملک کے مستقبل کے لیے تعلیم سودمند ثابت ہو؟ ہمیں کل ملک میں کس چیز کی ضرورت ہے؟ اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ کچھ سال پہلے ایک دوست نے، جو تعلیم وغیرہ کے کام میں ہی تھے، کہا کہ ہمارے ملک میں، آبادی کے تناسب سے، امریکا سے زیادہ انجینیئر ہیں! وہ لوگ کس چیز پر زیادہ کام کرتے ہیں؟ انسانی علوم (humanities) پر، کیوں؟ اس لیے کہ جو چیز دنیا کو چلاتی ہے وہ انسانی علوم ہیں، سیاست ہے، مینیجمنٹ ہے، یہ چیزیں ہیں جو دنیا کی پالیسیوں کو، دنیا کے اقدامات کو آگے بڑھا رہی ہیں اور انھیں چلا رہی ہیں، وہ لوگ ان پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ میں اس کی سفارش نہیں کرنا چاہ رہا ہوں، میں یہ نہیں کہنا چاہ رہا ہوں کہ انجینیرنگ کو روک دیا جائے یا مثال کے طور پر انسانی علوم کے ساتھ کیا کیا جائے، نہیں، بلکہ اس چیز پر توجہ دی جائے کہ ملک کو آج اور کل کس چیز کی ضرورت ہے، ہمیں اس نوجوان کی کس چیز کے لیے تربیت کرنی چاہیے۔ مفید علم، وہ علم جو ملک کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہو، یہ بات تعلیم و تربیت کے ادارے کے ذمہ داروں کے لیے سب سے زیادہ قابل توجہ ہونی چاہیے۔ یہ ایک بات۔

دوسری بات تعلیم و تربیت کے ادارے میں تغیر کا مسئلہ اور اصلاحات کے اس دستاویز(5) کا مسئلہ ہے جو آخرکار عرصے بعد اور کافی تاخیر سے تیار ہوئي۔ اصلاحات کی دستاویز کے بارے میں میں نے پچھلے برسوں میں جب ہماری یہ ملاقات ہوتی تھی، بارہا کہا ہے(6) پھر کہوں گا، اب اس بات کی امید ہے کہ ان شاء اللہ ادارے میں اس بات کا عزم ہوگا کہ ان کاموں کو انجام دے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اصلاحات کے دستاویز کو مسلسل اپڈیٹ ہونا چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ اصلاحات کی دستاویز تیار ہو گئي ہے اور وہ اچھی دستاویز بھی ہے لیکن وہ قرآن کی آیت نہیں ہے، یہ بھی نہ ہو کہ ہر دن اسے ایک نئي شکل دے دیں لیکن صاحب رائے افراد اسے اپڈیٹ کرتے رہیں، اس کی تکمیل کرتے رہیں۔

دوسرے یہ کہ اصلاحات کی دستاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک روڈ میپ کی ضرورت ہے، یہ روڈ میپ اب تک تیار نہیں ہوا ہے، یعنی مجھے اس کی تیاری کی خبر نہیں ہے، جو کچھ مجھے بتایا گيا ہے وہ یہی ہے۔ تغیر کی دستاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے روڈ میپ تیار نہیں ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسکول میں اصلاحات کی دستاویز کی عملی شکل دکھائي نہیں دیتی۔ اصلاحات کی دستاویز اچھی چیز ہے، اس میں بڑی اچھی باتیں ہیں لیکن حقیقت میں، ہمیں تعلیم و تربیت کے ماحول میں اس دستاویز کا کوئي اثر یا کوئي نشان نظر نہیں آتا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ روڈ میپ تیار نہیں ہوا ہے۔ بنابریں اصلاحات کی دستاویز کے سلسلے میں اگلا نکتہ یہ ہے کہ اس کے لیے روڈ میپ تیار کیا جائے، اس کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس روڈ میپ کی حکومت اور پارلمینٹ کی طرف سے حمایت اور مدد کی جائے۔ اگر تعلیم و تربیت کے ادارے میں کچھ لوگوں نے بیٹھ کر ماہرین اور صاحب رائے افراد سے صلاح و مشورہ کیا، گفتگو کی، ہمفکری کی اور آخرکار اصلاحات کی دستاویز پر عمل درآمد کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا لیکن جب اس کے لیے بجٹ طے کرنا چاہا تو لگاتار مسائل پیدا ہوئے، حکومت میں اس کے بارے میں مشکل پیدا ہوئي، پارلمینٹ میں اس پر اعتراض کیا گيا، تو یہ کام آگے نہیں بڑھے گا۔ حکومت اور پارلیمنٹ مدد کریں۔

دوسرے یہ کہ اصلاحات کی دستاویز کے لیے کوئي حریف اور رقیب نہ بنایا جائے۔ اصلاحات کی دستاویز ایک ٹھوس، مضبوط اور اچھی دستاویز ہے، اب کسی کونے سے کوئي دوسری دستاویز تغیر کے لیے سر نہ ابھار لے اور سبھی کو چکرا دے کہ اب کیا کریں، کیا نہ کریں۔

ایک اور بات یہ کہ اس روڈ میپ میں، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، قابل پیمائش اشاریے ہونے چاہیے۔ عام طور پر قابل پیمائش اشاریے، کوانٹٹی والے اشاریے ہوتے ہیں لیکن بعض موقعوں پر شاید کوانٹٹی والا اشاریہ ممکن نہ ہو لیکن اسی چیز کی معیار کے لحاظ سے پیمائش ممکن ہو سکتی ہے، مطلب یہ کہ اس کے لیے کچھ اشاریوں کو طے کر دیا جائے اور پھر لگاتار تعلیم و تربیت کے ادارے کی کارکردگي کو دیکھا جائے کہ کیا اس چیز نے عملی جامہ پہنا؟ کیا اس راہ میں پیشرفت حاصل ہوئي؟ کام ہوا یا نہیں ہوا؟ یہ سب ضروری ہے۔یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے ایک دستاویز تیار کر دی ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے – جناب نے(7) بھی کہا – کہ گیارہ سال بعد اس دستاویز پر عمل درآمد کے لیے بجٹ میں ایک علیحدہ رقم مختص کر دی گئي ہے، بہت اچھی بات ہے، خدا مبارک کرے! اگر یہ عملی جامہ پہن لے، کام آگے بڑھ جائے ان شاء اللہ تو بہت اچھا ہے۔ تو یہ بھی تعلیم و تربیت کے ادارے کے سلسلے میں ایک اہم بات تھی۔

تعلیم و تربیت کے ادارے کے مسائل کے سلسلے ایک دوسری اہم بات، ٹیچروں کی بھرتی ہے اور یہ واقعا بہت اہم معاملہ ہے۔ آج ہمیں کارآمد اور فرض شناس ٹیچرز کی کمی کا سامنا ہے۔ پورے ملک میں بہت زیادہ ٹیچرز جی جان سے کام کر رہے ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے، ہم جانتے ہیں، ہمیں اطلاع ہے لیکن اسی کے ساتھ ہمیں اس کمی کی بھی اطلاع ہے۔ ہمیں کمی کا سامنا ہے اور یہ کمی اس وجہ سے ہے کہ ماضی میں اس کا اندازہ نہیں لگایا گيا۔ دیکھیے، یہ جو میں نے کہا "طویل مدتی کام" ان میں سے ایک یہی ہے، ماضی میں اس کا اندازہ نہیں لگایا گيا۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی جب طے پایا تھا کہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آئے، بعض لوگ کہتے تھے کہ اس یونیورسٹی کا کوئي فائدہ نہیں، اس سے کچھ نہیں ہو سکتا، بحمد اللہ یونیورسٹی کی پیشرفت اچھی رہی ہے، حالانکہ اس کی گنجائش کم ہے۔ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کی گنجائش اگر دوگنا بھی ہو جائے تب بھی شاید کم ہی ہو، اس کی گنجائش بڑھائے جانے کی ضرورت ہے، اس کا انفراسٹرکچر بڑھائے جانے کی ضرورت ہے، واقعی اس کی مدد ہونی چاہیے۔ اس کی راہ حل یہ ہے: ہمیں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اگر کارآمد، فرض شناس اور ذمہ دار ٹیچر کی ضرورت، تسلیم ہے – جو کہ یقینا ہے اور اسے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئي چارہ نہیں ہے یعنی سبھی ٹیچر کی ضرورت کو تسلیم کریں – تو اس کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے، کوشش ضروری ہے۔ ٹیچرز ٹریننگ کے مراکز کی، جن میں سب سے اہم یہی ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی ہے، تقویت ہونی چاہیے تاکہ وہ کام کو آگے بڑھا سکیں، ان کے انفراسٹرکچر کی بھی تقویت ہونی چاہیے اور ان کی گنجائش بھی بڑھائي جانی چاہیے۔

البتہ ان کے علاوہ نوکری کے پورے دورانیے میں ٹیچر کی پیشہ ورانہ لیاقتوں اور عمومی لیاقتوں پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے، یعنی صرف بھرتی کے وقت لیاقتوں کو دیکھنے کی اہمیت نہیں ہے،  شروع میں دیکھنا بھی اہم ہے لیکن اس کی ملازمت کے پورے دورانیے میں بھی ان لیاقتوں کا جاری رہنا اہم ہے اور اس کا راستہ یہ ہے کہ بھرتی کے وقت انتخاب کے جو اصول ہیں، ان کا رنگ پھیکا نہ پڑنے پائے، اس میں کچھ سختیاں ہیں، اصولوں کے تناظر میں کی جانے والی بھرتیاں تھوڑی سخت ہوتی ہیں لیکن اس سختی کو، اصولوں کا رنگ پھیکا پڑنے کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔

پرانے تجربہ کار مومن ٹیچروں سے بھی فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ میں ایک ایسے ٹیچر کو جانتا تھا جنھوں نے تقریبا ستر سال تک پورے اخلاص کے ساتھ ٹیچنگ کی تھی، یہ کوئي معمولی بات ہے؟ وہ نوے سال سے کچھ اوپر کے ہو کے اس دنیا سے رخصت ہوئے، عمر کے اواخر تک، شاید اپنی عمر کے آخری حصے تک انھوں نے اسکول کو ترک نہیں کیا تھا، اسکول جاتے آتے تھے، ایسے لوگ بہت گرانقدر ہیں۔ ایسا ٹیچر اگر اسکول میں ایک لفظ بھی سکھائے اور چند اسٹوڈنٹس کو ہی دیکھے تب بھی اس کی بہت قدر و قیمت ہے، انھیں محفوظ رکھیے۔

ایک دوسری بات، اور یہ بھی کافی اہم ہے، درسی کتب سے متعلق ہے۔ ان برسوں میں اس سلسلے میں بہت سی باتیں کہی گئي ہیں، ان کا اثر بھی ہوا ہے، کتابوں میں اچھے کام بھی انجام پائے ہیں لیکن ایک درسی کتاب سے انسان کو جو توقع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ درسی کتاب، بچوں اور نوجوان نسل کے لیے ترغیبات سے بھری ہوئي ہو، مطلب یہ کہ وہ کتاب ایسی ہو کہ بچوں اور نوجوانوں میں شوق پیدا کر دے۔ کتاب کی تالیف کی روش، چاہے جس موضوع کی ہو کوئي فرق نہیں ہے، چاہے ہیومینٹیز (بشریات) کی ہو، ریاضیات کی ہو، طبیعیات کی ہو، ایسی ہونی چاہیے کہ طالب علم میں شوق پیدا کر دے، ٹیچر کی کیفیت اور اس کے رویہ کا اہم رول ہے لیکن کتاب اس سلسلے میں کافی بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔

اسلامی موضوعات کو کتابوں میں شامل ہونا چاہیے، جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ سبھی نصابی موضوعات میں آ سکتے ہیں لیکن ایک تناسب کے ساتھ، ہیومینٹیز کی کتابوں میں ایک طرح سے، طبیعیات کے موضوعات کی کتابوں میں دوسری طرح سے، لیکن آ سکتے ہیں، اسلامی موضوعات بھی اور مایہ ناز اسلامی و ایرانی شخصیات بھی۔ سائنسی کتابوں میں ایران کی قابل فخر شخصیات کا تعارف کرایا جائے۔ ہم کبھی پوری دنیا میں علم وسائنس کے علمبردار تھے۔ میں نے باخبر افراد سے سنا ہے کہ کچھ سال پہلے، یعنی دس بیس یا تیس سال پہلے، مجھے صحیح سے یاد نہیں ہے، یورپ کے اہم سائنسی مراکز میں ابو علی سینا کی کتاب 'قانون'، بہت اہم مانی جاتی تھی اور اس کا ترجمہ کیا گيا تھا۔ جس وقت مجھ سے یہ بات کہی گئي تھی، کتاب قانون کا، جسے ابو علی سینا نے عربی میں لکھا ہے، فارسی میں بھی ترجمہ نہیں ہوا تھا جبکہ یورپی زبانوں میں، انگریزی میں، فرانسیسی میں اس کا ترجمہ ہو چکا تھا۔ البتہ بعد میں اس کا فارسی میں ترجمہ ہوا، ایک بہت ہی اچھے مترجم(8) نے زحمت کی اور واقعی کتاب قانون کا بڑا ہی عمدہ ترجمہ کیا جو میرے پاس موجود ہے۔ مطلب یہ کہ یہ حالت ہے، ہم اپنی اہم اور قابل فخر علمی و سائنسی شخصیات سے اپنے بچوں اور نوجوانوں کو متعارف کرائیں، ان کے سائنسی انکشافات سے متعارف کرائيں۔ دنیا کی سائنسی تاریخ میں ایرانیوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، یہ باتیں ہم اپنے بچوں کو بتائيں، یہ چیز انھیں ترغیب دلاتی ہے، شوق دلاتی ہے۔

البتہ کتاب لکھنے کی روش بھی دلچسپ ہونی چاہیے، اپ ٹو ڈیٹ ہونی چاہیے، اس میں نیا پن ہونا چاہیے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ وقت بدل گيا ہے اور وقت بدلتا ہے – جسے میں بھی تسلیم کرتا ہوں – مگر بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وقت بدل جاتا ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ اصول بدل جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصول نہیں بدلتے، صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اصول نہیں بدلتے۔ انصاف کا اصول، دنیا کے آغاز سے اب تک ایک معتبر اصول کے طور پر موجود رہا ہے، یہ اصول تو نہیں بدلتا، محبت کا اصول بھی اسی طرح ہے، اصول اور بنیاد نہیں بدلتی۔ جو چیز بدلتی ہے وہ عمارت کا اوپری حصہ ہے، ان میں سے ایک یہی ہے، لباس پہننے کا طریقہ، پڑھنے کا طریقہ، کتاب لکھنے کا طریقہ، مقالہ لکھنے کا طریقہ، شعر کہنے کا طریقہ، یہ بدلتے ہیں۔ کتاب کو نئی روش اور نئے طریقے سے لکھیے۔

ایک اور بات، جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا، آؤٹ سورسنگ کا مسئلہ ہے۔ یہ سوچ ماضی میں ملک کے بعض عہدیداروں میں تھی کہ ہم تعلیم و تربیت کے ادارے کو حکومت سے الگ کر دیں اور پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیں اور ان بھاری اخراجات اور سنگین بجٹ کے بوجھ کو تعلیم و تربیت کے ادارے کے کندھے پر سے ہٹا دیں! ان کا بہت شکریہ! ملک کو تباہ کرنے کے لیے یہ بڑی اچھی سوچ ہے۔ تعلیم و تربیت، حکومتی ذمہ داری ہے اور کوئی بھی سسٹم اس سے خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتا، یہ سسٹم کا جزو لا ینفک ہے۔ ملک کی تعلیم و تربیت، اس ملک کے حکمراں سسٹم کے ذمے ہے، پوری دنیا میں ایسا ہی ہے۔ بعض چیزوں میں استثنی ہے جیسے یہی پرائيویٹ اسکولز جو ملک میں موجود ہیں، یہ استثنائي چیز ہے۔ تعلیم و تربیت کا کام اور تعلیم و تربیت کا نظام چلانا حکومتی کام ہے، ہمارے آئين نے بھی اسے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ بنابریں تعلیم و تربیت کی آؤٹ سورسنگ کا کوئي مطلب ہی نہیں ہے، حکمراں سسٹم کی یہ ذمہ داری کسی دوسرے کو نہیں سونپی جا سکتی۔ یہ ایک بات ہوئي۔

اس بارے میں کہ یہ ذمہ داری، حکومتی ذمہ داری ہے – میں دو ذیلی نکات عرض کرنا چاہتا ہوں اور یہ دو ذیلی نکات بھی اہم ہیں۔ ایک مسئلہ سرکاری اسکولوں کا ہے۔ سرکاری اسکولوں کو مضبوط بنانا اہم ہے۔ ملک میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب کہا جائے کہ سرکاری اسکول تو پہلا نقش جو انسان کے ذہن میں ابھرے وہ اسکول کی کمزوری کا ہو، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اچھے ٹیچر، اچھے مربّی، تربیت کرنے والے اچھے افراد، فرض شناس ٹیچر اور اطمینان بخش تعلیمی ماحول سرکاری اسکولوں میں ہونا چاہیے۔ یہ پہلی بات۔ جب ہم سرکاری اسکول پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس مالی استطاعت اتنی نہ ہو کہ اس اسکول میں نام لکھوا سکے جس میں فیس لی جاتی ہے تو وہ کمزور اسکول میں جانے پر مجبور ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کی مضبوط مالی بنیاد نہ ہو، اس کی علمی بنیاد بھی نہ ہو۔ یہ سراسر ناانصافی ہے، یہ ناانصافی کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ تو ایک بات یہ ہوئي کہ سرکاری اسکول کو اچھی تعلیم، اچھے ٹیچر، تعلیم کے اچھے ماحول سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ پرائیویٹ اسکولوں کا ہے۔ البتہ بعض غیر سرکاری اسکولوں نے واقعی دلچسپ جدت عمل سے کام لیا ہے، وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ان کی جدت طرازیوں سے استفادہ کیا جانا چاہیے لیکن غیر سرکاری اسکولوں کی بھی نگرانی کی جانی چاہیے۔ تعلیم و تربیت کے ادارے کو ان اسکولوں کی نگرانی سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھنا چاہیے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے بعض اسکولوں کی جدت طرازیوں اور ان میں انجام پانے والے نئے کاموں کو نظر انداز کر دیا جائے یا انھیں روک دیا جائے، اس کے یہ معنی قطعی نہیں ہیں۔

آخری اور بہت ہی اہم مسئلہ، تربیتی امور کا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تعلیم و تربیت کے ادارے میں تربیتی امور پر اچھی توجہ دی جاتی ہے اور دی گئي ہے – کہ جو غنیمت ہے اور ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے – لیکن یہ تربیتی پروگرام، اسکولوں میں دکھائي دینے چاہیے۔ اسکولوں میں تربیتی پروگرام چنداں دکھائي نہیں دیتے۔ ہو سکتا کہ بعض اسکولوں میں ہوں، تربیتی امور اسکول کے اندر تک جاری رہنے چاہیے۔ بہت سے اسکولوں میں تربیتی امور کا سربراہ نہیں ہے، عہدیدار نہیں ہے، قطعی طور پر ہونا چاہیے۔ مجھے جو رپورٹ دی گئي ہے اس میں اس کا فیصد کافی زیادہ ہے لیکن چونکہ مجھے صحیح اعداد و شمار کی اطلاع نہیں ہے، اس لیے عرض نہیں کروں گا۔ بہرحال بہت سے اسکولوں میں تربیتی امور کے سربراہ نہیں ہیں۔

تربیتی امور کے سلسلے میں ایک دوسری بات یہ ہے کہ تربیتی کام، پرکشش ہونا چاہیے، بچوں کو دور بھگانے والا نہیں ہونا چاہیے، ایسا ہونا چاہیے کہ بچے اس کی طرح کھنچے آئیں۔ قومی تشخص کی تقویت، وطن سے عشق کی تقویت، قومی پرچم کی تقویت اور اسلامی و ایرانی طرز زندگي کی تعلیم ایسے اصلی اور اہم ترین کام ہیں جنھیں انجام پانا چاہیے۔

ہم تعلیم و تربیت کے ادارے کے مستقبل کی طرف سے پرامید ہیں اور ان شاء اللہ خداوند عالم مدد کرے گا، آپ محترم اساتذہ بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ جتنی جلدی ممکن ہو تعلیم و تربیت کے وزیر کا بھی تعین ہو اور اس ادارے کے عہدیداران مضبوطی کے ساتھ کام کے سلسلے میں ڈٹ جائيں اور کام کو آگے بڑھائيں۔ ہم تعلیم و تربیت کے ادارے کے شہیدوں کی روح پر درود بھیجتے ہیں اور آرزو ہے کہ خداوند عالم ہمیں بھی ان سے ملحق کر دے اور حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مقدس کو ہم اور آپ سبھی سے راضی و خوشنود کرے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پاکیزہ روح کو بھی ہم سے راضی و خوشنود کرے۔

والسّلام علیکم و‌ رحمت ‌اللہ و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں تعلیم و تربیت کے کیئر ٹیکر وزیر جناب رضا مراد صحرائي نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) شیخ سعدی، گلستان، دیباچہ

(3) منجملہ، تعلیم و تربیت کے وزیر، ان کے معاونین اور ڈائریکٹرز جنرل کے ساتھ ملاقات کے موقع پر خطاب (15/1/1992)

(4) مزدوروں سے ملاقات میں خطاب (29/4/2023)

(5) تعلیم و تربیت کے سسٹم میں بنیادی تغیرات کی دستاویز

(6) منجملہ ٹیچروں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر خطاب (11/5/2022)

(7) تعلیم و تربیت کے کیئر ٹیکر وزیر

(8) جناب عبدالرحمان شرف کندی