رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے سنیچر 2 نومبر 2024 کی صبح ملک کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں اسٹوڈنٹس سے ملاقات کی۔
حکومتیں، اقوام خاص طور پر حکومتیں، اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے حقیقت میں صیہونی حکومت سے مقابلے کے مسئلے میں کوتاہی کر رہے ہیں۔ یہ کام جو صیہونی حکومت نے غزہ میں کیا اور کر رہی ہے، جو کچھ اس نے لبنان میں کیا اور کر رہی ہے، سب سے وحشیانہ جنگي جرائم ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اتوار 27 اکتوبر 2024 کو ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
یہ ایران کو نہیں جانتے، ایران کے جوانوں کو نہیں جانتے، ایرانی قوم کو نہیں جانتے۔ ابھی وہ ایرانی قوم کی طاقت، توانائي، جدت عمل اور عزم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکے ہیں۔ یہ بات ہمیں انھیں سمجھانی ہوگي۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کی مجلس عاملہ کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین کی شہادت پر مزاحمتی محاذ کے جوانوں کے نام ایک تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔
پیغام حسب ذیل ہے:
اس مضمون میں فلسطینی معاملوں کے محقق و مضمون نگار علی رضا سلطان شاہی نے تاریخ کے پس منظر میں خطے میں صیہونی حکومت کو تسلیم کروانے اور اس کے وجود کو مستحکم کرنے کی مغرب کی کوششوں اور اس سازش کی اسلامی انقلاب کے ہاتھوں ناکامی اور اس کے خطےمیں پھیلتے اثرات کا کہ جس کا عروج آپریشن طوفان الاقصیٰ کی شکل میں سامنے آیا، تجزیہ کیا ہے۔
اگر پوری دنیا کے دو ارب مسلمان متحد ہو جائیں، متحد رہیں تو صیہونی حکومت کا انجام کیا ہوگا؟ صیہونی حکومت کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ یقیناً وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گي۔
آپ دیکھیے کہ صیہونی حکومت کیا کر رہی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو جرائم کر رہے ہیں وہ بڑی ڈھٹائي سے، بغیر چھپائے ہوئے، غزہ میں کسی طرح، غرب اردن میں دوسری طرح، لبنان میں کسی اور طرح، شام میں کسی اور طرح۔
امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔
اس گرگ صفت خونخوار دشمن، غاصب دہشت گرد حکومت کے جرائم کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ حکومت نہیں ہے، یہ ایک مجرم گينگ ہے، ایک قاتل گینگ ہے، ایک دہشت گرد گینگ ہے۔
امریکا کے پیارے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس! آپ نے اپنی حکومت کے بے رحمانہ دباؤ کے باوجود، جو کھل کر غاصب اور بے رحم صیہونی حکومت کا دفاع کر رہی ہے، ایک شرافت مندانہ جدوجہد شروع کی ہے۔ میں آپ کی استقامت کی قدردانی کرتا ہوں۔
امریکا کے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے نام رہبر انقلاب کے خط سے ایک اقتباس
25 مئي 2024
اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں اتنی طاقت اور جراَت تھی کہ غزہ کے محدود علاقے میں مسلمان عوام، عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح وحشیانہ سلوک کرتی؟
حماس کے پولیت بیورو کے سربراہ عظیم مجاہد جناب اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے ایک پیغام میں عالم اسلام، مزاحمتی محاذ اور فلسطین کی سرفراز قوم کو اس شجاع لیڈر اور نمایاں مجاہد کی شہادت کی تعزیت پیش کی ہے اور زور دے کر کہا ہے کہ مجرم اور دہشت گرد صیہونی حکومت نے اس اقدام کے ذریعے اپنے لیے سخت سزا کی راہ ہموار کر لی اور ہم ان کے خون کے انتقام کو، جو اسلامی جمہوریہ ایران میں شہید ہوئے، اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے اس تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
18 جولائی نیلسن منڈیلا کا یوم پیدائش ہے۔ انھیں ساٹھ کے عشرے میں ایک دہشت گرد کی حیثیت سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور سنہ 2008 تک امریکا کی دہشتگردوں کی لسٹ میں ان کا نام باقی رہا۔ ان کا جرم ایک ایسی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنا تھا جس میں باہر سے آئی ہوئی جارح اقلیت، ہتھیاروں کے زور پر مقامی اکثریت کا استحصال کر رہی تھی۔ یہ حکومت، جسے قائم کرنے والے خود ہی "اپارتھائیڈ" کہتے تھے مغربی بلاک کی حمایت سے برسوں تک اپنی کسی بھی طرح کی مخالفت کی بدترین طریقے سے سرکوبی کرتی رہی اور حریت پسندوں کو دہشت گرد بتا کر جیلوں میں ٹھونستی رہی۔
آج 18 جولائی 2024 کو حماس کے مجاہدین کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کو 9 مہینے سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ حماس کے مجاہدین کی پیشانی پر بھی سنہ 1997 سے دہشتگرد کا عنواں چسپاں ہے۔ ان کا جرم، ایسی حکومت سے جدوجہد کرنا ہے جس میں باہر سے آنے والے حملہ آور اسلحے کی طاقت کے بل پر مقامی لوگوں کے خاتمے اور پورے علاقے پر قبضے کے درپے ہیں۔ یہ حکومت، جو دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی تشکیل کے وعدے کے ساتھ وجود میں لائی گئی اور اسے بنانے والوں نے اسے اسرائیل کا نام دیا، مغربی بلاک کی حمایت سے برسوں سے نسل کشی اور مقامی لوگوں کو محدود کر کے نسلی تصفیے کے اپنے پروجیکٹ کو آگے بڑھا رہی ہے۔
اسرائیل اور اپارتھائیڈ دو سگے بھائی
اسرائیلی حکومت دینی و نسلی امتیاز کی بنیاد پر اور اپارتھائیڈ حکومت نسلی امتیاز کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے لیکن ان دونوں کی پشت پر جو طاقت کام کر رہی ہے وہ مغرب کا سامراج ہے جو دیگر اقوام کے ذخائر پر زیادہ سے زیادہ تسلط کی راہ میں کسی بھی طرح کے ظلم سے دریغ نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی بڑی طاقتوں نے اس وقت تک اپارتھائیڈ کی حمایت نہیں چھوڑی جب تک اس کی حمایت کا خرچ، اس کے منافع سے بڑھ نہیں گیا اور آج بھی وہی ممالک بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے صیہونی حکومت کے جرائم کا جواز پیش کرتی ہے۔ اپارتھائیڈ حکومت کی عمر کے آخری برسوں میں اس کی مذمت اور اس وقت صیہونی حکومت کی حمایت کے سلسلے میں یہی دوہرا معیار، مغربی طاقتوں کی ریاکاری کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ ان دونوں حکومتوں کے قوانین اور کردار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے درمیان پوری طرح شباہت پائی جاتی ہے۔
سب سے پہلی اور سب سے اہم شباہت، مقامی لوگوں کی زمینیں ہڑپنا اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرنا ہے۔ سفید فام اپارتھائیڈ حکومت نے جنوبی افریقا کے 80 فیصد سے زیادہ علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد "بنتوستان" کے نام سے کچھ علاقے معین کر دیے تھے اور سیاہ فام باشندوں کو صرف انھی علاقوں میں رہنے کا حق تھا۔ اس کا صرف ایک نمونہ یہ ہے کہ سیاہ فاموں کی زمین کے ایک بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد اپارتھائیڈ حکومت نے "ڈسٹرکٹ 6" کے نام سے موسوم ایک علاقے کو خالی کرنے کا حکم دیا اور اس علاقے کے 60 ہزار سیاہ فاموں کو بے گھر کر دیا۔
صیہونی حکومت نے بھی سنہ 1948 میں اپنی تشکیل کے وقت سے ہی، فلسطینیوں کو بری طرح بے گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ یوم النکبہ کے نام سے موسوم دن میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھر، گاؤں اور شہر سے نکال باہر کیا گیا اور انھیں ہمسایہ ممالک یا پناہ گزیں کیمپوں میں جا کر رہنے پر مجبور کیا گیا۔ سنہ 1967 میں بھی صیہونی فوج نے غرب اردن، غزہ پٹی اور بیت المقدس سے لاکھوں فلسطینیوں کو باہر نکال دیا اور فلسطینیوں کے 80 فیصد سے زیادہ علاقوں پر قبضے کی راہ ہموار کر دی۔ اپنی تشکیل کے بعد کے برسوں میں صیہونی حکومت نے لگاتار فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے اور ان کی زرعی زمینیوں کو تباہ کر کے ان کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ان میں صیہونیوں کے لیے کالونیاں تعمیر کی ہیں۔
رفت و آمد کو محدود کرنا، نفسیاتی اور معاشی جنگ کے حربے
ایک دوسرا حربہ جسے اپارتھائیڈ اور صیہونی حکومت مقامی لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے اور صیہونی حکومت اب بھی استعمال کر رہی ہے، ان کی رفت و آمد کو محدود کرنا ہے۔ جنوبی افریقا میں سیاہ فام باشندوں کو بنتوستانوں سے باہر نکلنے کے لیے پرمٹ لینے کی ضرورت ہوتی تھی اور بغیر پرمٹ کے بنتوستان سے نکلنے پر انھیں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ صیہونی حکومت نے بھی اونچی اونچی دیواریں تعمیر کر کے اور تفتیشی چوکیاں بنا کر مقبوضہ فلسطین کو کئی علاقوں میں بانٹ دیا ہے اور ان علاقوں میں فلسطینیوں کی رفت و آمد کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے دیے جانے والے پرمٹ سے مشروط کر دیا ہے۔ اہم بات یہ جاننا ہے کہ اس محدودیت سے ان حکومتوں کو کیا فائدے حاصل ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطین میں لوگوں کی زرعی زمینوں اور ان کے گھروں، تعلیم کے حصول یا کام کے مقاموں کے درمیان رکاوٹیں پیدا کر کے انھیں معاشی اور سماجی طور پر مفلوج کرنے کا کام کر رہی ہے۔ اس محدودیت میں مقدس مقامات تک آمد و رفت بھی شامل ہے جو فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ہی عیسائیوں پر بھی لگائی گئی ہے۔ اس طرح کے بڑھتے ہوئے دباؤ طویل مدت میں دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ جنوبی افریقا میں بھی سیاہ فاموں کی آمد و رفت کو کنٹرول کیے جانے کی وجہ سے ان سے ان کی معاشی پیشرفت کے مواقع چھین لیے گئے اور اس سے سفید فاموں کی معاشی برتری کو یقینی بنایا گیا کیونکہ اچھی اور زرخیز زمینیں عام طور پر بنتوستانوں سے باہر ہوتی تھیں۔
قانونی تفریق
جنوبی افریقا میں سنہ 1970 میں پاس ہونے والے "سیاہ وطن" کے قانون کی رو سے سیاہ فام لوگ اس ملک کے باشندے شمار نہیں ہوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ رائے دہی اور اپنے مستقبل کے تعین کے حق سے محروم تھے۔ ان کی شہریت چھیننے سے ان کی سرکوبی اور انھیں اپنی مرضی کی سزا دینے کی راہ ہموار ہوتی تھی۔ اپارتھائیڈ کے کنٹرول والے جنوبی افریقا میں کسی سیاہ فام کو بغیر پرمٹ کے بنتوستان سے نکلنے پر بغیر کسی عدالتی کارروائی کے لمبے عرصے تک حراست میں رکھنا بھی ممکن تھا۔ ایسی ہی قانونی تفریق مقبوضہ فلسطین میں موجود ہے جہاں غرب اردن میں دو طرح کے قانونی سسٹموں کو استعمال کیا جاتا ہے: اسرائیلی شہریوں کے لیے شہری قانون اور فلسطینی شہریوں کے لیے فوجی قانون۔ اسی طرح صیہونی حکومت کے قانون میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ فلسطینیوں کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے چھے مہینے تک حراست میں رکھا جائے اور اس حراست کی تجدید بھی کی جا سکتی ہے۔
ایک بنیادی فرق
جنوبی افریقا کی اپارتھائیڈ حکومت اپنی معاشی پیشرفت کے لیے سیاہ فام افرادی قوت کو استعمال کرتی تھی۔ اگرچہ نسلی امتیاز اور امتیازی سلوک تعلیم و تربیت اور نقل و حمل جیسے بنیادی ضرورت کے شعبوں میں بھی جاری تھا لیکن اس افرادی قوت کی شدید ضرورت کے پیش نظر جنوبی افریقا کے عوام نے متعدد میدانوں میں سول نافرمانی کر کے اور ہمہ گیر مظاہرے کر کے اس حکومت کو گرا دیا۔ اگرچہ اپارتھائیڈ حکومت بھی سنہ 1960 میں شارپ ولے قتل عام، سنہ 1976 میں سوویٹو کے قیام کی سرکوبی، اپنے مخالفین کو جیل میں ڈالنے، انھیں موت کی سزا دینے یا عوامی مخالفتوں کو کچلنے جیسے اقدامات کر رہی تھی لیکن اس کا موازنہ صیہونی حکومت کی درندگی اور سفاکیت سے نہیں کیا جا سکتا۔ صیہونی حکومت، سر زمین فلسطین کو اس کے باشندوں کے بغیر چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی ناجائز تشکیل کے زمانے سے ہی فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی سفاکانہ اور خونریز حملے کیے ہیں اور وہ کھل کر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر نکالنے کے اپنے ارادے کا اظہار کرتی رہی ہے۔ اپارتھائیڈ حکومت اور صیہونی حکومت کے درمیان یہ فرق اس بات کا سبب بنا ہے کہ ان دونوں حکومتوں کے خلاف جدوجہد بھی دو الگ الگ طریقوں سے کی جائے۔ اگر نیلسن منڈیلا، برسوں تک جیل میں رہ کر اس نسلی امتیاز سے اپنے عوام کی آزادی کی راہ میں قدم اٹھا سکے تو فلسطین میں یہ قدم زیر زمینی سرنگوں میں گرمی اور زندگی کا دباؤ برداشت کر کے اور صیہونی فوج سے جنگ کر کے اٹھایا جاتا ہے۔ اگر آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے جلوس، اپارتھائیڈ کے جسم پر وار کرتے تھے تو غزہ کے فلسطینیوں کی واپسی کی ریلی اور ان کی سفارتی کوششوں کے تلخ تجربے نے دکھا دیا ہے کہ صیہونی حکومت پر وار، مظاہروں کے ذریعے نہیں بلکہ اس طفل کش حکومت کے وحشیانہ حملوں پر صبر کر کے اور استقامت کرنے والی ایک نسل کی پرورش کر کے کیا جا سکتا ہے۔
اسی تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کا حل، صیہونی حکومت کے خاتمے اور اس کے بعد تمام فلسطینیوں کے درمیان کرائے جانے والے ایک ریفرنڈم کو بتایا ہے: "فلسطینی قوم کی ہمہ گیر مجاہدتیں، سیاسی مجاہدتیں، فوجی مجاہدتیں، اخلاقی اور ثقافتی مجاہدتیں جاری رہنی چاہئے، یہاں تک کہ وہ لوگ جنھوں نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی مرضی کے سامنے جھک جائیں۔ سبھی فلسطینی عوام سے، چاہے وہ مسلمان، عیسائی یا یہودی فلسطینی ہوں، وہ لوگ بھی جنھیں فلسطین سے باہر جلاوطن کر دیا گیا ہے، وہ بھی فلسطینی ہیں، ان سب کے درمیان ریفرنڈم کرایا جائے اور وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ فلسطین میں کس نظام کی حکمرانی ہو اور سب اس کو تسلیم کریں، اس وقت تک جدوجہد جاری رہنی چاہیے اور جاری رہے گی اور خدا کے لطف و کرم سے، توفیق الہی سے اور نصرت الہی سے اس پُرامن انسانی مجاہدت میں، جس کو دنیا کے سبھی عقلاء تسلیم کرتے ہیں، فلسطینی قوم غالب ہوگی اور ملک فلسطین، فلسطینی عوام کو واپس ملے گا۔" (5 جون 2019)
رہبر انقلاب اسلامی نے حجاج کرام کے نام پیغام میں پوری معاصر تاریخ میں غزہ میں ہونے والے سب سے وحشیانہ جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکہ سے اظہار برائت اس سال موسم و میقات حج سے آگے بڑھ کر مسلمان نشین ملکوں اور شہروں میں اور ساری دنیا میں جاری رہنا چاہئے اور ہر فرد تک اسے پہنچنا چاہئے۔"
بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی خیر البریّۃ سیّدنا محمّدٍ المصطفی و آلہ الطّیّبین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.
دلنواز ابراہیمی آہنگ نے، جو حکم خدا سے ہر دور کے تمام انسانوں کو موسم حج میں کعبے کی جانب بلاتا ہے، اس سال بھی پوری دنیا کے بہت سے مسلمانوں کے دلوں کو توحید و اتحاد کے اس مرکز کی جانب مجذوب کر دیا ہے، انسانوں کے اس پرشکوہ اور متنوع اجتماع کو وجود میں لے آيا ہے اور اسلام کے انسانی وسائل کی وسعت اور اس کے روحانی پہلو کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔
حج کے عظیم اجتماع اور اس کے پیچیدہ مناسک کو جب بھی تدبر کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کے لیے قوت قلب اور اطمینان کا سرچشمہ ہیں اور دشمن اور بدخواہ کے لیے خوف و ہراس اور ہیبت کا سبب ہیں۔
اگر امت مسلمہ کے دشمن اور بدخواہ، فریضۂ حج کے ان دونوں پہلوؤں کو بگاڑنے اور انھیں مشکوک بنانے کی کوشش کریں، چاہے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو بڑا بنا کر اور چاہے ان کے مقدس اور روحانی پہلوؤں کو کم کر کے، تو تعجب کی بات نہیں ہے۔
قرآن مجید، حج کو بندگي، ذکر اور خشوع کا آئینہ، انسانوں کے یکساں وقار کا مظہر، انسان کی مادی اور روحانی زندگي کی بہبودی کا نمونہ، برکت اور ہدایت کی علامت، اخلاقی سکون اور بھائيوں کے درمیان عملی اتحاد کی مثال اور دشمنوں کے مقابلے میں برائت و بیزاری اور مقتدرانہ محاذ آرائی کا مظہر بتاتا ہے۔
حج سے متعلق قرآنی آيات پر غوروخوض اور اس بے نظیر فریضے کے اعمال و مناسک میں تدبر ان چیزوں اور حج کے پیچیدہ اعمال کی باہمی ترکیب کے ان جیسے دیگر رموز کو ہم پر منکشف کر دیتا ہے۔
حج ادا کرنے والے آپ بھائي اور بہن اس وقت ان پرفروغ حقائق و تعلیمات کی مشق کے میدان میں ہیں۔ اپنی سوچ اور اپنے عمل کو اس کے قریب سے قریب تر کیجیے اور ان اعلی مفاہیم سے آمیختہ اور از سر نو حاصل ہونے والے تشخص کے ساتھ گھر لوٹیے۔ یہی آپ کے سفر حج کی گرانقدر اور حقیقی سوغات ہے۔
اس سال برائت کا مسئلہ، ماضی سے زیادہ نمایاں ہے۔ غزہ کا المیہ، جو ہماری معاصر تاریخ میں بے مثال ہے اور بے رحم اور سنگ دلی و درندگي کی مظہر اور ساتھ ہی زوال کی جانب گامزن صیہونی حکومت کی گستاخی نے کسی بھی مسلمان شخص، جماعت، حکومت اور فرقے کے لیے کسی بھی طرح کی رواداری کی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے۔ اس سال کی برائت، حج کے موسم اور میقات سے آگے بڑھ کر پوری دنیا کے تمام مسلمان ملکوں اور شہروں میں جاری رہنی چاہیے اور حاجیوں سے آگے بڑھتے ہوئے ہر ایک شخص کی جانب سے انجام پانی چاہیے۔
صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں خاص طور پر امریکی حکومت سے یہ برائت اقوام اور حکومتوں کے قول و فعل میں نظر آنی چاہیے اور اسے جلادوں کا عرصۂ حیات تنگ کر دینا چاہیے۔
فلسطین اور غزہ کے صابر اور مظلوم عوام کی آہنی مزاحمت کی، جن کے صبر و استقامت نے دنیا کو ان کی تعریف و احترام پر مجبور کر دیا ہے، ہر طرف سے پشت پناہی ہونی چاہیے۔
خداوند عالم سے ان کے لیے مکمل اور فوری فتح کی دعا کرتا ہوں اور آپ حجاج محترم کے لیے، مقبول حج کی دعا کرتا ہوں۔ حضرت بقیۃ اللہ (روحی فداہ) کی مستجاب دعا آپ کی پشت پناہ رہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سید علی خامنہ ای
4 ذی الحجہ 1445
22 خرداد 1403
11 جون 2024
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنے خطاب کے ایک حصے میں مسئلۂ فلسطین کو امام خمینی کے ایک سب سے نمایاں درس اور نظریے کے طور پر موضوع گفتگو قرار دیا اور طوفان الاقصیٰ کے حالیہ واقعات اور مسئلۂ فلسطین پر اس کے حیرت انگیز اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے صیہونی حکومت کی موجودہ ابتر صورتحال پر بعض مغربی اور صیہونی ماہرین کے بیانوں کے حوالے سے روشنی ڈالی۔
اس رپورٹ میں KHAMENEI.IRویب سائٹ رہبر انقلاب کی جانب سے نقل کیے گئے ان اقوال کا جائزہ لیا کہ یہ کن تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے ہیں۔
طوفان الاقصی نے پورے مغربی ایشیا کی سیاست اور اقتصاد پر کنٹرول حاصل کرنے کے صیہونی حکومت کے جامع منصوبے کو ختم کر دیا اور یہ امید ہی مٹا دی کہ اس منصوبے کا وہ دوبارہ احیا کر پائے گی۔
امام خامنہ ای
طوفان الاقصیٰ آپریشن صیہونی حکومت پر ایک فیصلہ کن وار تھا، ایک ایسا وار جس کا کوئي علاج نہیں ہے۔ صیہونی حکومت کو اس وار سے ایسے نقصانات پہنچے ہیں جن سے وہ کبھی نجات حاصل نہیں کر پائے گي۔
امام خامنہ ای
صیہونی حکومت کے اعلی رتبہ حکام اور عہدیداران کے اندر بدحواسی اور سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں۔
امام خامنہ ای
3 جون 2024
امام خمینی کا یہ نظریہ تھا کہ خود فلسطینی عوام اپنا حق لیں اور دنیا کی اقوام اور مسلم قومیں ان کی حمایت کریں، اگر ایسا ہو گیا تو صیہونی حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
3 جون 2024
امام خمینی کا ماننا تھا کہ خود فلسطینی عوام کو دشمن کو یعنی صیہونی حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دینا چاہیے، اسے کمزور بنا دینا چاہیے۔ آج یہ کام ہو گيا ہے۔
امام خامنہ ای
3
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کی اور کہا کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پچاس سال پہلے کی پیشگوئی رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔
انھوں نے اسی طرح شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں قوم کی زبردست اور معنی خیز شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کے انتہائی اہم الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت، شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز کے پہلے دن سے ہی مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دی اور دقت نظر اور مستقبل پر گہری نگاہ کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے سامنے ایک راستے کی تجویز رکھی اور امام خمینی کا یہ انتہائی اہم نظریہ رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی ایران کی ظالم و جابر طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح سوویت حکومت کی حکمرانی اور دبدبے کے دور میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی کو امام خمینی کی بصیرت کے دو دوسرے نمونے قرار دیا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت سے مفاہمت کے مذاکرات سے کوئی امید نہ رکھنے، میدان عمل میں فلسطینی قوم کے اترنے، اپنا حق حاصل کرنے اور تمام اقوام بالخصوص مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کو، فلسطینی قوم کی فتحیابی کے لیے امام خمینی کے نظریات کا خلاصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عظیم واقعہ بھی اس وقت عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے صیہونی حکومت کے میدان کے گوشے میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور بہت سی مغربی حکومتیں بدستور اس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ غاصب حکومت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کی اہم ضرورت کی تکمیل اور مجرم حکومت پر کاری ضرب کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دو اہم خصوصیات بتایا اور کہا کہ امریکا، عالمی صیہونزم کے ایجنٹوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے خطے کے حالات اور روابط کو بدلنے کے لیے ایک بڑی اور دقیق سازش تیار کر رکھی تھی تاکہ صیہونی حکومت اور خطے کی حکومتوں کے درمیان اپنے مدنظر روابط قائم کروا کر مغربی ایشیا اور پورے عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس حکومت کے تسلط کی راہ ہموار کر دیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ منحوس چال عملی جامہ پہننے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ الاقصیٰ کا معجزاتی طوفان شروع ہو گیا اور اس نے امریکا، صیہونزم اور ان کے پٹھوؤں کے تمام تاروپود بکھیرے دیے، اس طرح سے کہ پچھلے آٹھ مہینے کے واقعات کے بعد اس سازش کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ظالم حکومت کے عدیم المثال جرائم اور حد سے زیادہ شقاوت و سفاکیت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس درندگی کی حمایت کو، خطے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی بڑی عالمی سازش کے نقش بر آب ہو جانے پر بوکھلاہٹ اور تلملاہٹ والا ردعمل قرار دیا۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دوسری خصوصیت یعنی صیہونی حکومت پر کاری اور ناقابل تلافی ضرب لگانے کی تشریح کرتے ہوئے امریکی و یورپی تجزیہ نگاروں اور ماہرین یہاں تک کہ خود منحوس حکومت کے پٹھوؤں کے اعترافات کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ غاصب حکومت اپنے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ایک مزاحمتی گروہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے اور آٹھ مہینے کے بعد بھی اپنے کسی کم ترین ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اکیسویں صدی کو بدلنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طاقت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے تجزیہ نگاروں اور مؤرخین نے بھی صیہونی حکومت کی سراسیمگی اور بدحواسی، الٹی ہجرت کی لہر، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت میں ناتوانی اور صیہونیت کے پروجیکٹ کے آخری سانسیں لینے کی طرف اشارہ کیا ہے اور زور دے کر کہا کہ دنیا، صیہونی حکومت کے خاتمے کے شروعاتی مرحلے میں ہے۔
انھوں نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی ہجرت کی لہر کے سنجیدہ ہونے کے بارے میں ایک صیہونی سیکورٹی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اس صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی حکام کی بحثوں اور ان کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا میں آ جائیں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائیں گے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے دنیا کے پہلے مسئلے میں بدل جانے اور لندن اور پیرس میں اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت مخالف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی میڈیا اور پروپیگنڈہ مراکز نے برسوں تک مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیے جانے کے لیے کوشش کی لیکن طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کے سائے میں آج فلسطین، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔
انھوں نے چالیس ہزار لوگوں کی شہادت اور پندرہ ہزار بچوں اور نومولود و شیر خوار بچوں کی شہادت سمیت غزہ کے لوگوں کے مصائب کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات کی راہ میں فلسطینی قوم کے ذریعے ادا کی جانے والی بھاری قیمت بتایا اور کہا کہ غزہ کے لوگ، ایمان اسلامی اور قرآنی آیات پر عقیدے کی برکت سے بدستور مصائب برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مزاحمت کے مجاہدین کا دفاع کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کے عظیم محاذ کی توانائیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے غلط اندازے کو، اس حکومت کے ڈیڈ اینڈ کورویڈور میں پہنچ جانے کا سبب بتایا جو اسے لگاتار شکستوں سے رو بہ رو کرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی مدد و نصرت سے اس بندگلی سے نکلنے کی اس کے پاس کوئی راہ نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ مغرب کے پروپیگنڈوں کے باوجود صیہونی حکومت، دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور اقوام کے ساتھ ہی دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات یہاں تک کہ صیہونی بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عزیز اور محنتی صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے جانگداز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھیوں میں سے ہر ایک شخص، اپنے آپ میں ایک گرانقدر شخصیت تھا۔
انھوں نے شہید رئیسی کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سبھی نے اعتراف کیا کہ کام، عمل، خدمت اور صداقت والے انسان تھے اور انھوں نے عوام کی خدمت کا ایک نیا نصاب تیار کیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اتنی زیادہ، اتنی مقدار میں، اس سطح کی خدمت اور ایسی صداقت و محنت ملک کے خادموں کے درمیان نہیں رہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اور بابرکت فعالیت، مواقع کا بہترین استعمال اور دنیا کی اہم سیاسی شخصیات کی نظر میں ایران کو نمایاں کرنا، شہید رئیسی کی کچھ دوسری خصوصیات تھیں۔ انھوں نے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کے درمیان واضح حدبندی اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھروسہ نہ کرنے کو شہید رئیسی کی دیگر سبق آموز خصوصیات بتایا۔
انھوں نے اسی طرح شہید امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں ایک فعال، محنتی اور جدت عمل والا وزیر خارجہ اور مضبوط، ذہین اور اصولوں کا پابندہ مذاکرات کار بتایا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں عوام کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ کارنامہ بتایا اور اسے انقلاب کی تاریخ میں تلخ اور سخت حوادث کے مقابل ایرانی قوم کے تاریخ رقم کرنے والے کارناموں کا ایک نمونہ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ اس کارنامے نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم، ایک پرعزم، ثابت قدم اور زندہ قوم ہے جو مصیبت سے نہیں ہارتی بلکہ اس کی استقامت اور جوش و جذبے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی زبردست شرکت کا ایک اور پیغام، انقلاب کے نعروں کی طرفداری بتایا اور کہا کہ مرحوم رئیسی صراحت کے ساتھ انقلاب کے نعروں کو بیان کرتے تھے اور وہ خود انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ الیکشن کو ایک بڑا اور اہم نتائج والا کام بتایا اور کہا کہ اگر یہ الیکشن اچھی طرح اور پرشکوہ طریقے سے منعقد ہو جائے تو ایرانی قوم کے لیے ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور دنیا میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کو شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم کو پیچیدہ بین الاقوامی معامالات میں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے استحکام کے لیے ایک فعال، آگاہ اور انقلاب کی بنیادوں پر ایمان رکھنے والے صدر کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 3 جون 2024 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی 35ویں برسی پر امام خمنیی کے مزار پر عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی کے مکتب فکر اور ان کے دروس کا جائزہ لیا۔ (1)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں یہ خط ان جوانوں کو لکھ رہا ہوں جن کے بیدار ضمیر نے انھیں غزہ کے مظلوم بچوں اور عورتوں کے دفاع کی ترغیب دلائي ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز نوجوان اسٹوڈنٹس! یہ آپ سے ہماری ہمدلی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ اس وقت آپ تاریخ کی صحیح سمت میں، جو اپنا ورق پلٹ رہی ہے، کھڑے ہوئے ہیں۔
آج آپ نے مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ تشکیل دیا ہے اور اپنی حکومت کے بے رحمانہ دباؤ کے باوجود، جو کھل کر غاصب اور بے رحم صیہونی حکومت کا دفاع کر رہی ہے، ایک شرافت مندانہ جدوجہد شروع کی ہے۔
مزاحمت کا بڑا محاذ آپ سے دور ایک علاقے میں، آپ کے آج کے انہی احساسات و جذبات کے ساتھ، برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کا ہدف اُس کھلے ہوئے ظلم کو رکوانا ہے جو صیہونی کہے جانے والے ایک دہشت گرد اور سفاک نیٹ ورک نے برسوں پہلے فلسطینی قوم پر شروع کیا اور اُس کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد اُسے سخت ترین دباؤ اور ایذا رسانیوں کا شکار بنا دیا۔
آج اپارتھائيڈ صیہونی حکومت کے ہاتھوں جاری نسل کشی، پچھلے دسیوں سال سے چلے آ رہے شدید ظالمانہ برتاؤ کا ہی تسلسل ہے۔
فلسطین ایک خود مختار سرزمین ہے جو طویل تاریخ رکھنے والی اس قوم کی ہے جس میں مسلمان، عیسائي اور یہودی سب شامل ہیں۔
صیہونی نیٹ ورک کے سرمایہ داروں نے عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے کئي ہزار دہشت گردوں کو تدریجی طور پر اس سرزمین میں پہنچا دیا، جنھوں نے فلسطین کے شہروں اور دیہاتوں پر حملے کیے، دسیوں ہزار لوگوں کو قتل کر دیا یا انھیں پڑوسی ممالک کی طرف بھگا دیا، ان کے گھروں، بازاروں اور کھیتوں کو ان سے چھین لیا اور غصب کی گئي فلسطین کی سرزمین پر اسرائيل نام کی ایک حکومت تشکیل دے دی۔
اس غاصب حکومت کی سب سے بڑی حامی، انگریزوں کی ابتدائي مدد کے بعد، ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے جس نے اس حکومت کی سیاسی، معاشی اور اسلحہ جاتی مدد لگاتار جاری رکھی ہے، یہاں تک کہ ناقابل معافی بے احتیاطی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ بھی اس کے لیے کھول دی اور اس سلسلے میں اس کی مدد کی ہے۔
صیہونی حکومت نے پہلے ہی دن سے نہتے فلسطینی عوام کے خلاف جابرانہ روش اختیار کی اور تمام انسانی و دینی اقدار اور قلبی احساس کو پامال کرتے ہوئے اس نے روز بروز اپنی سفاکیت، قاتلانہ حملوں اور سرکوبی میں شدت پیدا کی۔
امریکی حکومت اور اس کے حلیفوں نے اس ریاستی دہشت گردی اور لگاتار جاری ظلم پر معمولی سی ناگواری تک کا اظہار نہیں کیا۔ آج بھی غزہ کے ہولناک جرائم کے سلسلے میں امریکی حکومت کے بعض بیانات، حقیقت سے زیادہ ریاکارانہ ہوتے ہیں۔
مزاحمتی محاذ نے اس تاریک اور مایوس کن ماحول میں سر بلند کیا اور ایران میں اسلامی جمہوری حکومت کی تشکیل نے اسے فروغ اور طاقت عطا کی۔
بین الاقوامی صیہونزم کے سرغناؤں نے، جو امریکا اور یورپ کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ کے یا تو مالک ہیں یا یہ میڈیا ہاؤسز ان کے پیسوں اور رشوت کے زیر اثر ہیں، اس انسانی اور شجاعانہ مزاحمت کو دہشت گردی بتا دیا۔ کیا وہ قوم، جو غاصب صیہونیوں کے جرائم کے مقابلے اپنی سرزمین میں اپنا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد ہے؟ کیا اس قوم کی انسانی مدد اور اس کے بازوؤں کی تقویت، دہشت گردی کی مدد ہے؟
جابرانہ عالمی تسلط کے سرغنا، انسانی اقدار تک پر رحم نہیں کرتے۔ وہ اسرائيل کی دہشت گرد اور سفاک حکومت کو، اپنا دفاع کرنے والا ظاہر کرتے ہیں اور فلسطین کی مزاحمت کو جو اپنی آزادی، سلامتی اور مستقبل کے تعین کے حق کا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد بتاتے ہیں۔
میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج صورتحال بدل رہی ہے۔ ایک دوسرا مستقبل، مغربی ایشیا کے حساس خطے کے انتظار میں ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے ضمیر بیدار ہو چکے ہیں اور حقیقت، آشکار ہو رہی ہے۔
مزاحمتی محاذ بھی طاقتور ہو گيا اور مزید طاقتور ہوگا۔
تاریخ بھی اپنا ورق پلٹ رہی ہے۔
ریاستہائے متحدہ کی دسیوں یونیورسٹیوں کے آپ اسٹوڈنٹس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی یونیورسٹیاں اور عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پروفیسروں کی جانب سے آپ اسٹوڈنٹس کا ساتھ اور آپ کی پشت پناہی ایک اہم اور فیصلہ کن واقعہ ہے۔ یہ چیز، حکومت کے جابرانہ رویے اور آپ پر ڈالے جانے والے دباؤ کو کسی حد تک کم کر سکتی ہے۔ میں بھی آپ جوانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ کی استقامت کی قدردانی کرتا ہوں۔
ہم مسلمانوں اور دنیا کے تمام لوگوں کو قرآن مجید کا درس ہے، حق کی راہ میں استقامت: فاستقم کما اُمرت۔ اور انسانی روابط کے بارے میں قرآن کا درس یہ ہے: نہ ظلم کرو اور نہ ظلم سہو: لاتَظلمون و لاتُظلمون۔
مزاحمتی محاذ ان احکام اور ایسی ہی سیکڑوں تعلیمات کو سیکھ کر اور ان پر عمل کر کے آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ کے اذن سے فتحیاب ہوگا۔
میں سفارش کرتا ہوں کہ قرآن سے آشنائي حاصل کیجیے۔
حج "امت مسلمہ کے عقیدے کے اظہار اور موقف کے اعلان کی ایک جگہ" ہے اور امت مسلمہ اپنے صحیح اور قابل قبول اور قابل اتفاق رائے موقف کو بیان کر سکتی ہے، قابل قبول اور قابل اتفاق رائے... اقوام، مسالک۔ ممکن ہے حکومتیں کسی اور طرح سوچیں، کسی اور طرح کام کریں لیکن اقوام کا دل، الگ چیز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اقوام مختلف معاملات میں اپنے موقف کا اظہار کر سکتی ہیں۔ اگرچہ برائت، ابتدائے انقلاب سے ہی حج میں موجود رہی ہے لیکن غزہ کے بڑے اور عجیب واقعات کے پیش نظر خاص طور پر اس سال کا حج، حج برائت ہے۔ اور مومن حجاج کو اس قرآنی منطق کو پوری اسلامی دنیا میں منتقل کرنا چاہیے۔ آج فلسطین کو اسلامی دنیا کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
غزہ میں مغربی تمدن نے خود کو ظاہر کر دیا ... تیس ہزار لوگ صیہونی حکومت کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں، یہ لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو! ان میں سے بعض پشت پناہی کرتے ہیں، ہتھیار دیتے ہیں ... یہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی ہے، یہ نہ تو لبرل ہیں اور نہ ہی ڈیموکریٹ، یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام خامنہ ای
ملاحظہ فرمائيے کہ امریکی اسرائيل کی زبانی مخالفت پر کیا کارروائی کر رہے ہیں! امریکی اسٹوڈنٹس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، یہ واقعہ عملی طور پر یہ دکھاتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے بڑے جرم میں امریکا، صیہونی حکومت کا شریک جرم ہے۔
امام خامنہ ای
ابراہیم علیہ السلام کا ان کفار کے بارے میں جو معاندانہ برتاؤ نہیں کرتے یہ نظریہ ہے کہ ان سے اچھا سلوک کیا جائے مگر ایک جگہ وہ ان لوگوں سے اعلان بیزاری کرتے ہیں جو قاتل ہیں اور لوگوں کو ان کے گھر اور وطن سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اس کا مصداق آج کون ہے؟ صیہونی، امریکا اور ان کے مددگار۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حج کے لیے قافلوں کی روانگي سے کچھ روز قبل پیر کی صبح امور حج کے منتظمین اور خانۂ خدا کے بعض زائرین سے ملاقات کی۔
اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں اتنی طاقت تھی، ہمت تھی کہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ اس چھوٹے سے علاقے میں ایسا حیوانیت والا برتاؤ کرے؟
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 6 مئی 2024 کو ادارہ حج و زیارات کے عہدیداران و کارکنان اور حج کے لئے جانے والوں سے خطاب میں فریضہ حج اور مناسک حج کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ رہبر انقلاب نے غزہ کے تعلق سے عالم اسلام کی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح مایہ ناز مفکر استاد شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری کی شہادت کی برسی اور یوم اساتذہ کی مناسبت سے ملک بھر سے آئے ہوئے ٹیچروں سے ملاقات کی۔