فلسطین کس کا ہے؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔ جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔
(لبنان اور فلسطین کی) اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث (صیہونی) دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ انھیں خبر بھی ہے اور وہ دخل بھی دے رہے ہیں۔
25 ستمبر 2024
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 25 ستمبر 2024 کی صبح مقدس دفاع اور استقامت کے شعبے میں سرگرم رہے ہزاروں افراد اور سینیئر فوجیوں سے ملاقات میں، مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے اسباب کی تشریح کرتے ہوئے نئي بات اور کشش کو دنیا پر حاکم فاسد اور باطل نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کے دو اہم عناصر قرار دیا۔
میرے خیال میں آج ایک حتمی فریضہ، غزہ اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے۔ یقیناً یہ ان واجبات میں سے ایک ہے جس پر اگر ہم نے عمل نہ کیا تو اس کے بارے میں خداوند عالم ہم سے قیامت میں سوال کرے گا۔
فلسطین کے اسکول و کالج کے طلباء، ٹیچروں، اسکول اسٹاف اور یونیورسٹی کے اساتذہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے بارے میں فلسطین کی تعلیم و اعلیٰ تعلیم کی وزارت کی رپورٹ:
عالمی برادری کو، جو ہمیشہ مختلف معاملوں میں انسانی حقوق کی حمایت کے امریکا کے نعرے سنتی رہی ہے، جن پر وہ فخر بھی کرتا تھا، فلسطین کے آئينے میں امریکی پالیسیوں کے حقیقی کریہہ چہرے کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
15 دسمبر 2000
اپنی شہادت سے کچھ گھنٹے پہلے Khamenei.ir کی عربی ویب سائٹ سے جناب اسماعیل ہنیہ کے آخری انٹرویو پر مبنی ڈاکیومینٹری کی کچھ جھلکیاں۔ یہ ڈاکیومینٹری جلد ہی ریلیز کی جائے گي۔
آج بہت سے صاحبان رائے یہ بات مان رہے ہیں کہ یہ واقعات جو دنیا میں فلسطین کے حق میں آج کل رونما ہو رہے ہیں، ان میں سے اکثر کا سرچشمہ اسلامی انقلاب کی روح اور اسلامی جمہوریہ کی روح ہے۔
سنہ 1990 کے عشرے میں مسئلۂ فلسطین کے طویل ہو جانے کے سبب امریکا کی قیادت میں مغربی ملکوں نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں دو ریاستی فارمولا پیش کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس تناظر میں اس وقت کے صیہونی حکومت اور پی ایل او کے سربراہان کے درمیان سنہ 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اوسلو معاہدہ ایک طے شدہ فارمولے کو نافذ کرنے کی کوشش تھی جو اسرائيل اور فلسطین کے تنازع کے مکمل حل پر منتج ہو۔ پچھلے 30 سال کے عرصے نے یہ عیاں کر دیا کہ اس معاہدے کے تمام وعدے جھوٹے تھے اور اس کا اہم ترین نتیجہ، بیت المقدس کو یہودی شہر بنانا اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کالونیوں میں اضافہ تھا۔ ایڈورڈ سعید عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حامیوں میں سے ایک رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود دو ریاستی فارمولے کی حمایت میں پیش پیش رہنے والوں میں سے ایک تھے۔ غیر قانونی یہودی بستیوں کے سلسلے میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے پیش نظر انھوں نے اپنی عمر کے آخری حصے میں کھل کر کہا تھا کہ اس فارمولے پر عمل درآمد ناممکن ہے۔(1) اور آج بھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے اسرائيل کے اقدامات کو، دو ریاستی فارمولے کے سلسلے میں غلط قدم بتایا ہے۔(2)
ذیل کی تحریر میں قاری کو یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی گئي ہے کہ صیہونی حکومت صرف ایک ہدف کے حصول کے درپے ہے اور وہ ہے مقبوضہ علاقوں میں اپارتھائيڈ جیسی ایک صیہونی حکومت کا قیام اور دو ریاستی راہ حل، خطے میں اس حکومت کی گھٹیا چال پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
1. اوسلو معاہدے کے بعد صیہونی حکومت کے اقدامات
اس وقت مقبوضہ علاقوں میں جو فلسطینی علاقے ہیں، ان میں غرب اردن ہے جس کا کنٹرول پی ایل او کے ہاتھ میں ہے جبکہ دوسرا علاقہ غزہ پٹی ہے جس کا انتظام حماس کی حکومت چلاتی ہے۔ اگر اوسلومعاہدے کے بعد صیہونی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ یہ حکومت کسی بھی صورت، دو ریاستی فارمولے کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ اس فارمولے کے سلسلے میں صیہونی حکام کی اسٹریٹیجی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ پہلے بعض فلسطینی سربراہوں اور عرب ملکوں کی جانب سے اپنی قانونی حیثیت اور جواز حاصل کر لیں، اس وقت (اسّی کی دہائي کے اواخر اور نوّے کی دہائي کے اوائل میں) رائے عامہ کی نظروں میں اپنی مثبت شبیہ بنا لیں اور پھر فلسطینیوں کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر غاصبانہ قبضے کے لیے وقت حاصل کر لیں۔ اس سلسلے میں نقشہ نمبر 1 اس بات کو واضح کرتا ہے کہ غرب اردن کا علاقہ بھی پوری طرح، صیہونی حکومت سے صلح اور اسے قانونی حیثیت دینے کی خواہاں خودمختار فلسطینی انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہیں دیا گيا جبکہ اوسلو معاہدے اور دو ریاستی فارمولے کے تحت اس کا کنٹرول اسے دیا جانا چاہیے تھا۔
صیہونی حکومت کے ہاتھوں غرب اردن کے علاقوں پر قبضہ بڑھانے کا ایک راستہ اس علاقے میں صیہونی کالونیاں کی تعداد بڑھانا اور یہاں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں 28 مارچ 2023 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں کہا گيا ہے کہ یہودی کالونیوں میں رہنے والی غیر قانونی آبادی کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ سنہ 1993 میں یہی آبادی، ڈھائي لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔(3) صیہونی حکومت کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کو ہڑپنے کی ایک اور چال مختلف بہانوں سے زمینوں کو سرکاری اراضی بنا دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہفنگٹن پوسٹ(4) اور لی مونڈ(5) جیسے اخباروں کی رپورٹوں پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ ہفنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک سرکاری دستاویز کے مطابق اسرائيلی حکومت نے درۂ اردن کے قریب 1270 ہیکٹیر زمین پر قبضے کی توثیق کی ہے اور اوسلو معاہدے کے بعد اس قسم کے اقدام کی کوئي مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح لی مونڈ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیس ناؤ (6) تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2024 کے ابتدائي چھے مہینوں میں صیہونی حکام نے 2370 ہیکٹیر زمین کو سرکاری زمین ڈکلیئر کر دیا ہے جس سے انھیں اس بات کی اجازت مل گئی ہے کہ وہ ان زمینوں کو صرف یہودی کالونیوں میں رہنے والوں (Settlers) کو کرائے پر دے دیں۔
غزہ کے علاقے میں، جو صیہونی حکومت کی منہ زوریوں کے مقابلے میں مزاحمت کر رہا ہے، صیہونی حکومت کی اسٹریٹیجی کچھ الگ ہے۔ صیہونی حکومت نے سنہ 2007 سے لے کر اب تک غزہ کے علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے جہاں غزہ کے عوام بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں غزہ کے لوگوں کو دوسرے ممالک کی جانب بھگانے کے مقصد سے ان کے خلاف اپارتھائيڈ حکومت والی پالیسیاں اختیار کی گئي ہیں۔ اس سلسلے میں نقشہ نمبر 2 اس موضوع کی عکاسی کرتا ہے کہ سنہ 2007 سے لے کر سنہ 2023 تک صیہونی حکومت نے اس خطے پر پانچ فوجی حملے کیے ہیں۔
سنہ 2023 کی جنگ اور پچھلے پانچ حملوں کے درمیان جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ "ضاحیہ ڈاکٹرین"(7) کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس کا ہدف غزہ کے لوگوں کو زبردستی اس علاقے سے باہر نکالنا، اس علاقے کو پوری طرح باشندوں سے خالی کروانا اور پھر صیہونی حکومت کی جانب سے اس پر آسانی سے قبضہ کر لینا ہے۔ ضاحیہ ڈاکٹرین ایک طرح کی فوجی اسٹریٹیجی ہے جس کے تحت ایک غیر مساوی شہری جنگ میں فوج، جان بوجھ کر غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتی ہے تاکہ غیر فوجی افراد پر دباؤ بڑھا کر اور ان پر سختیاں مسلط کر کے اپنی ڈیٹرنس کو بڑھایا جائے۔(8) یہ رپورٹ لکھے جانے تک اور جنگ کو 9 مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بعض ذرائع نے اس جنگ میں مارے جانے والوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ بتائی ہے جبکہ The Lancet جیسے میڈیکل جرائد نے اپنی رپورٹ میں بالواسطہ طور پر مرنے والوں کی تعداد 1 لاکھ 86 ہزار سے زیادہ بتائي ہے۔ اگر انفراسٹرکچر کی بات کی جائے تو سیٹلائٹ تصاویر کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے 31 مئي 2024 کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ کا 55 فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ (نقشہ نمبر 3) اور پوری غزہ پٹی میں تقریبا 65 فیصد سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔(9) (نقشہ نمبر 4)
دو ریاستی فارمولا، وقت حاصل کرنے کی ایک چال
اوسلو معاہدے اور دو ریاسی فارمولا پیش کیے جانے کو کئي عشرے گزر جانے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181 جو فلسطین کے پارٹیشن پلان کے نام سے بھی مشہور ہے، 29 نومبر 1947 کو پاس ہوئي لیکن صیہونی حکومت نے، اس بات کے پیش نظر کہ سنہ 1980 کے عشرے کے اواخر میں اسے عالمی برادری میں قانونی جواز کے بحران کا سامنا رہا تھا، اس بات کی کوشش کی کہ 1948 کی جنگ، 1967 کی چھے روزہ جنگ یا 1973 کی جنگ کے برخلاف جن میں وہ خانہ جنگي کی کیفیت اور عرب ملکوں کی جانب سے تیل کی سپلائی روک دیے جانے کی وجہ سے مغربی ملکوں کی عدم حمایت والی پچھلی جنگوں کے برخلاف فلسطینی آبادی والے باقیماندہ علاقوں پر قبضے کے لیے ایک نئي حکمت عملی اختیار کرے۔ اس کے نتیجے میں دو ریاستی فارمولا ایک طرف تو صیہونی حکومت کے لیے وقت حاصل کرنے اور اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کا ایک حربہ اور دوسری طرف فلسطینی کاز کی پیٹھ میں ایک خنجر سمجھا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ آج صیہونی حکام اسی فارمولے کو اپنے زیادہ بڑے اہداف کے حصول کے لیے پیمان ابراہیم (Abraham Accords) کے ڈھانچے میں آگے بڑھانے کی کوشش میں تھے لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اس منصوبے کو شروع میں ہی ناکام بنا دیا۔ دوسرے الفاظ میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای 3 جون 2024 کے اپنے خطاب میں کہتے ہیں: "آپریشن طوفان الاقصیٰ علاقے کی ضرورت کے عین مطابق تھا، اس کی وضاحت یہ ہے کہ امریکا، صیہونی عناصر، ان کی پیروی کرنے والوں اور علاقے کی بعض حکومتوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا جس میں طے پایا تھا کہ علاقے کے تعلقات، معاملات اور توازن کو تبدیل کر دیا جائے۔ علاقے کی حکومتوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے روابط خود اس حکومت کی مرضی کے مطابق ترتیب دیے جس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی ایشیا بلکہ پوری اسلامی دنیا کی سیاست اور معیشت پر صیہونی حکومت کا مکمل تسلط ہو۔"
ہر آزاد منش انسان جو قومی اور مذہبی تعصب کے بغیر مسئلۂ فلسطین پر غور کرے، وہ مقبوضہ علاقوں میں امن و ثبات کا واحد حل تمام اقوام و مذاہب کی شرکت سے فلسطین میں ایک ریفرنڈم کو مانے گا۔ اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے پہلی مئي سنہ 2024 کو کہا تھا: "مشکل اس وقت حل ہوگی جب فلسطین اس کے اصلی مالکین یعنی فلسطینی عوام کو واپس مل جائے۔ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے، ان میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں۔ فلسطین ان کا ہے۔ فلسطین انھیں واپس کر دیں، وہ اپنی حکومت، اپنا نظام تشکیل دیں، اس کے بعد یہ نظام فیصلہ کرے کہ صیہونیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ انھیں باہر نکالا جائے یا رہنے دیا جائے ... یہ وہ راہ حل ہے جس کا اعلان ہم نے کچھ برس قبل کیا تھا ... جب تک یہ نہیں ہوگا مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔"
1. Yi LI (2011) Edward Said’s Thoughts and Palestinian Nationalism, Journal of Middle Eastern and Islamic Studies (in Asia), 5:3, 105-120, DOI: 10.1080/19370679.2011.12023187 (P. 118)
2. https://www.leparisien.fr/international/israel/israel-5-minutes-pour-comprendre-les-nouvelles-implantations-de-colonies-en-cisjordanie-05-07-2024-BEDGKFVFWVH3VKXY7Y2OHUZ3LI.php
3. https://www.un.org/unispal/document/human-rights-council-hears-that-700000-israeli-settlers-are-living-illegally-in-the-occupied-west-bank-meeting-summary-excerpts/
4. https://www.huffingtonpost.fr/international/article/en-cisjordanie-israel-approuve-la-plus-grosse-saisie-de-terres-depuis-30-ans_236417.html
5. https://www.lemonde.fr/idees/article/2024/07/06/l-avancee-de-la-colonisation-en-cisjordanie-doit-cesser_6247358_3232.html
6. Peace Now
7. Dahiya Doctrine
8. https://www.theguardian.com/commentisfree/2023/dec/05/israel-disproportionate-force-tactic-infrastructure-economy-civilian-casualties
9. https://unosat.org/products/3883
رہبر انقلاب نے اس حج کو برائت از مشرکین کی مناسبت سے ایک خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی کتاب اور خصوصا سورہ ممتحنہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت اور ان کے عمل کو جس طرح سے اللہ نے اسوہ بناکر پیش کیا ہے، اس سے استدلال بھی کیا ہے اور اس سے پیغام بھی لیا ہے۔
آج جو غزہ اور فلسطین میں رونما ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہمارا فریضہ کیا ہے؟ ان لوگوں کے ساتھ جو تمھیں قتل کرتے ہیں، تم سے جنگ کرتے ہیں، تمھیں تمھارے دیار سے باہر نکالتے ہیں یا ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو تمھیں تمھارے گھر اور دیار سے باہر نکالتے ہیں، رابطہ رکھنے اور ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا تمھیں حق نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
دنیا کے کلیدی مسائل کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک موقف اور نظریہ ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں ہمارا ایک موقف ہے، امریکہ سے متعلق مسائل کے بارے میں ہمارا موقف ہے، نیو ورلڈ آرڈر کے بارے میں ہمارا نظریہ ہے، ہمارا موقف ہے اور دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے۔ یہی خود مختاری ہے۔
امام خامنہ ای
میلبورن آسٹریلیا کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ابو القاسم رضوی نے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے اس سال کے حج کو حج برائت کا نام دیے جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنے خطاب کے ایک حصے میں مسئلۂ فلسطین کو امام خمینی کے ایک سب سے نمایاں درس اور نظریے کے طور پر موضوع گفتگو قرار دیا اور طوفان الاقصیٰ کے حالیہ واقعات اور مسئلۂ فلسطین پر اس کے حیرت انگیز اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے صیہونی حکومت کی موجودہ ابتر صورتحال پر بعض مغربی اور صیہونی ماہرین کے بیانوں کے حوالے سے روشنی ڈالی۔
اس رپورٹ میں KHAMENEI.IRویب سائٹ رہبر انقلاب کی جانب سے نقل کیے گئے ان اقوال کا جائزہ لیا کہ یہ کن تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے ہیں۔
امام خمینی کا یہ نظریہ تھا کہ خود فلسطینی عوام اپنا حق لیں اور دنیا کی اقوام اور مسلم قومیں ان کی حمایت کریں، اگر ایسا ہو گیا تو صیہونی حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
3 جون 2024
امام خمینی کا ماننا تھا کہ خود فلسطینی عوام کو دشمن کو یعنی صیہونی حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دینا چاہیے، اسے کمزور بنا دینا چاہیے۔ آج یہ کام ہو گيا ہے۔
امام خامنہ ای
3
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کی اور کہا کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پچاس سال پہلے کی پیشگوئی رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔
انھوں نے اسی طرح شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں قوم کی زبردست اور معنی خیز شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کے انتہائی اہم الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت، شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز کے پہلے دن سے ہی مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دی اور دقت نظر اور مستقبل پر گہری نگاہ کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے سامنے ایک راستے کی تجویز رکھی اور امام خمینی کا یہ انتہائی اہم نظریہ رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی ایران کی ظالم و جابر طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح سوویت حکومت کی حکمرانی اور دبدبے کے دور میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی کو امام خمینی کی بصیرت کے دو دوسرے نمونے قرار دیا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت سے مفاہمت کے مذاکرات سے کوئی امید نہ رکھنے، میدان عمل میں فلسطینی قوم کے اترنے، اپنا حق حاصل کرنے اور تمام اقوام بالخصوص مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کو، فلسطینی قوم کی فتحیابی کے لیے امام خمینی کے نظریات کا خلاصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عظیم واقعہ بھی اس وقت عملی جامہ پہن رہا ہے۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے صیہونی حکومت کے میدان کے گوشے میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور بہت سی مغربی حکومتیں بدستور اس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ غاصب حکومت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کی اہم ضرورت کی تکمیل اور مجرم حکومت پر کاری ضرب کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دو اہم خصوصیات بتایا اور کہا کہ امریکا، عالمی صیہونزم کے ایجنٹوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے خطے کے حالات اور روابط کو بدلنے کے لیے ایک بڑی اور دقیق سازش تیار کر رکھی تھی تاکہ صیہونی حکومت اور خطے کی حکومتوں کے درمیان اپنے مدنظر روابط قائم کروا کر مغربی ایشیا اور پورے عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس حکومت کے تسلط کی راہ ہموار کر دیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ منحوس چال عملی جامہ پہننے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ الاقصیٰ کا معجزاتی طوفان شروع ہو گیا اور اس نے امریکا، صیہونزم اور ان کے پٹھوؤں کے تمام تاروپود بکھیرے دیے، اس طرح سے کہ پچھلے آٹھ مہینے کے واقعات کے بعد اس سازش کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ظالم حکومت کے عدیم المثال جرائم اور حد سے زیادہ شقاوت و سفاکیت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس درندگی کی حمایت کو، خطے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی بڑی عالمی سازش کے نقش بر آب ہو جانے پر بوکھلاہٹ اور تلملاہٹ والا ردعمل قرار دیا۔
انھوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دوسری خصوصیت یعنی صیہونی حکومت پر کاری اور ناقابل تلافی ضرب لگانے کی تشریح کرتے ہوئے امریکی و یورپی تجزیہ نگاروں اور ماہرین یہاں تک کہ خود منحوس حکومت کے پٹھوؤں کے اعترافات کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ غاصب حکومت اپنے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ایک مزاحمتی گروہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے اور آٹھ مہینے کے بعد بھی اپنے کسی کم ترین ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اکیسویں صدی کو بدلنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طاقت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے تجزیہ نگاروں اور مؤرخین نے بھی صیہونی حکومت کی سراسیمگی اور بدحواسی، الٹی ہجرت کی لہر، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت میں ناتوانی اور صیہونیت کے پروجیکٹ کے آخری سانسیں لینے کی طرف اشارہ کیا ہے اور زور دے کر کہا کہ دنیا، صیہونی حکومت کے خاتمے کے شروعاتی مرحلے میں ہے۔
انھوں نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی ہجرت کی لہر کے سنجیدہ ہونے کے بارے میں ایک صیہونی سیکورٹی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اس صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی حکام کی بحثوں اور ان کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا میں آ جائیں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائیں گے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے دنیا کے پہلے مسئلے میں بدل جانے اور لندن اور پیرس میں اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت مخالف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی میڈیا اور پروپیگنڈہ مراکز نے برسوں تک مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیے جانے کے لیے کوشش کی لیکن طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کے سائے میں آج فلسطین، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔
انھوں نے چالیس ہزار لوگوں کی شہادت اور پندرہ ہزار بچوں اور نومولود و شیر خوار بچوں کی شہادت سمیت غزہ کے لوگوں کے مصائب کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات کی راہ میں فلسطینی قوم کے ذریعے ادا کی جانے والی بھاری قیمت بتایا اور کہا کہ غزہ کے لوگ، ایمان اسلامی اور قرآنی آیات پر عقیدے کی برکت سے بدستور مصائب برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مزاحمت کے مجاہدین کا دفاع کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کے عظیم محاذ کی توانائیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے غلط اندازے کو، اس حکومت کے ڈیڈ اینڈ کورویڈور میں پہنچ جانے کا سبب بتایا جو اسے لگاتار شکستوں سے رو بہ رو کرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی مدد و نصرت سے اس بندگلی سے نکلنے کی اس کے پاس کوئی راہ نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ مغرب کے پروپیگنڈوں کے باوجود صیہونی حکومت، دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور اقوام کے ساتھ ہی دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات یہاں تک کہ صیہونی بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عزیز اور محنتی صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے جانگداز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھیوں میں سے ہر ایک شخص، اپنے آپ میں ایک گرانقدر شخصیت تھا۔
انھوں نے شہید رئیسی کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سبھی نے اعتراف کیا کہ کام، عمل، خدمت اور صداقت والے انسان تھے اور انھوں نے عوام کی خدمت کا ایک نیا نصاب تیار کیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اتنی زیادہ، اتنی مقدار میں، اس سطح کی خدمت اور ایسی صداقت و محنت ملک کے خادموں کے درمیان نہیں رہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اور بابرکت فعالیت، مواقع کا بہترین استعمال اور دنیا کی اہم سیاسی شخصیات کی نظر میں ایران کو نمایاں کرنا، شہید رئیسی کی کچھ دوسری خصوصیات تھیں۔ انھوں نے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کے درمیان واضح حدبندی اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھروسہ نہ کرنے کو شہید رئیسی کی دیگر سبق آموز خصوصیات بتایا۔
انھوں نے اسی طرح شہید امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں ایک فعال، محنتی اور جدت عمل والا وزیر خارجہ اور مضبوط، ذہین اور اصولوں کا پابندہ مذاکرات کار بتایا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں عوام کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ کارنامہ بتایا اور اسے انقلاب کی تاریخ میں تلخ اور سخت حوادث کے مقابل ایرانی قوم کے تاریخ رقم کرنے والے کارناموں کا ایک نمونہ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ اس کارنامے نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم، ایک پرعزم، ثابت قدم اور زندہ قوم ہے جو مصیبت سے نہیں ہارتی بلکہ اس کی استقامت اور جوش و جذبے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی زبردست شرکت کا ایک اور پیغام، انقلاب کے نعروں کی طرفداری بتایا اور کہا کہ مرحوم رئیسی صراحت کے ساتھ انقلاب کے نعروں کو بیان کرتے تھے اور وہ خود انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ الیکشن کو ایک بڑا اور اہم نتائج والا کام بتایا اور کہا کہ اگر یہ الیکشن اچھی طرح اور پرشکوہ طریقے سے منعقد ہو جائے تو ایرانی قوم کے لیے ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور دنیا میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کو شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم کو پیچیدہ بین الاقوامی معامالات میں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے استحکام کے لیے ایک فعال، آگاہ اور انقلاب کی بنیادوں پر ایمان رکھنے والے صدر کی ضرورت ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز نوجوان اسٹوڈنٹس! یہ آپ سے ہماری ہمدلی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ اس وقت آپ تاریخ کی صحیح سمت میں، جو اپنا ورق پلٹ رہی ہے، کھڑے ہوئے ہیں۔
امام خامنہ ای
25 مئي 2024
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں یہ خط ان جوانوں کو لکھ رہا ہوں جن کے بیدار ضمیر نے انھیں غزہ کے مظلوم بچوں اور عورتوں کے دفاع کی ترغیب دلائي ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز نوجوان اسٹوڈنٹس! یہ آپ سے ہماری ہمدلی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ اس وقت آپ تاریخ کی صحیح سمت میں، جو اپنا ورق پلٹ رہی ہے، کھڑے ہوئے ہیں۔
آج آپ نے مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ تشکیل دیا ہے اور اپنی حکومت کے بے رحمانہ دباؤ کے باوجود، جو کھل کر غاصب اور بے رحم صیہونی حکومت کا دفاع کر رہی ہے، ایک شرافت مندانہ جدوجہد شروع کی ہے۔
مزاحمت کا بڑا محاذ آپ سے دور ایک علاقے میں، آپ کے آج کے انہی احساسات و جذبات کے ساتھ، برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کا ہدف اُس کھلے ہوئے ظلم کو رکوانا ہے جو صیہونی کہے جانے والے ایک دہشت گرد اور سفاک نیٹ ورک نے برسوں پہلے فلسطینی قوم پر شروع کیا اور اُس کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد اُسے سخت ترین دباؤ اور ایذا رسانیوں کا شکار بنا دیا۔
آج اپارتھائيڈ صیہونی حکومت کے ہاتھوں جاری نسل کشی، پچھلے دسیوں سال سے چلے آ رہے شدید ظالمانہ برتاؤ کا ہی تسلسل ہے۔
فلسطین ایک خود مختار سرزمین ہے جو طویل تاریخ رکھنے والی اس قوم کی ہے جس میں مسلمان، عیسائي اور یہودی سب شامل ہیں۔
صیہونی نیٹ ورک کے سرمایہ داروں نے عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے کئي ہزار دہشت گردوں کو تدریجی طور پر اس سرزمین میں پہنچا دیا، جنھوں نے فلسطین کے شہروں اور دیہاتوں پر حملے کیے، دسیوں ہزار لوگوں کو قتل کر دیا یا انھیں پڑوسی ممالک کی طرف بھگا دیا، ان کے گھروں، بازاروں اور کھیتوں کو ان سے چھین لیا اور غصب کی گئي فلسطین کی سرزمین پر اسرائيل نام کی ایک حکومت تشکیل دے دی۔
اس غاصب حکومت کی سب سے بڑی حامی، انگریزوں کی ابتدائي مدد کے بعد، ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے جس نے اس حکومت کی سیاسی، معاشی اور اسلحہ جاتی مدد لگاتار جاری رکھی ہے، یہاں تک کہ ناقابل معافی بے احتیاطی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ بھی اس کے لیے کھول دی اور اس سلسلے میں اس کی مدد کی ہے۔
صیہونی حکومت نے پہلے ہی دن سے نہتے فلسطینی عوام کے خلاف جابرانہ روش اختیار کی اور تمام انسانی و دینی اقدار اور قلبی احساس کو پامال کرتے ہوئے اس نے روز بروز اپنی سفاکیت، قاتلانہ حملوں اور سرکوبی میں شدت پیدا کی۔
امریکی حکومت اور اس کے حلیفوں نے اس ریاستی دہشت گردی اور لگاتار جاری ظلم پر معمولی سی ناگواری تک کا اظہار نہیں کیا۔ آج بھی غزہ کے ہولناک جرائم کے سلسلے میں امریکی حکومت کے بعض بیانات، حقیقت سے زیادہ ریاکارانہ ہوتے ہیں۔
مزاحمتی محاذ نے اس تاریک اور مایوس کن ماحول میں سر بلند کیا اور ایران میں اسلامی جمہوری حکومت کی تشکیل نے اسے فروغ اور طاقت عطا کی۔
بین الاقوامی صیہونزم کے سرغناؤں نے، جو امریکا اور یورپ کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ کے یا تو مالک ہیں یا یہ میڈیا ہاؤسز ان کے پیسوں اور رشوت کے زیر اثر ہیں، اس انسانی اور شجاعانہ مزاحمت کو دہشت گردی بتا دیا۔ کیا وہ قوم، جو غاصب صیہونیوں کے جرائم کے مقابلے اپنی سرزمین میں اپنا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد ہے؟ کیا اس قوم کی انسانی مدد اور اس کے بازوؤں کی تقویت، دہشت گردی کی مدد ہے؟
جابرانہ عالمی تسلط کے سرغنا، انسانی اقدار تک پر رحم نہیں کرتے۔ وہ اسرائيل کی دہشت گرد اور سفاک حکومت کو، اپنا دفاع کرنے والا ظاہر کرتے ہیں اور فلسطین کی مزاحمت کو جو اپنی آزادی، سلامتی اور مستقبل کے تعین کے حق کا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد بتاتے ہیں۔
میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج صورتحال بدل رہی ہے۔ ایک دوسرا مستقبل، مغربی ایشیا کے حساس خطے کے انتظار میں ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے ضمیر بیدار ہو چکے ہیں اور حقیقت، آشکار ہو رہی ہے۔
مزاحمتی محاذ بھی طاقتور ہو گيا اور مزید طاقتور ہوگا۔
تاریخ بھی اپنا ورق پلٹ رہی ہے۔
ریاستہائے متحدہ کی دسیوں یونیورسٹیوں کے آپ اسٹوڈنٹس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی یونیورسٹیاں اور عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پروفیسروں کی جانب سے آپ اسٹوڈنٹس کا ساتھ اور آپ کی پشت پناہی ایک اہم اور فیصلہ کن واقعہ ہے۔ یہ چیز، حکومت کے جابرانہ رویے اور آپ پر ڈالے جانے والے دباؤ کو کسی حد تک کم کر سکتی ہے۔ میں بھی آپ جوانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ کی استقامت کی قدردانی کرتا ہوں۔
ہم مسلمانوں اور دنیا کے تمام لوگوں کو قرآن مجید کا درس ہے، حق کی راہ میں استقامت: فاستقم کما اُمرت۔ اور انسانی روابط کے بارے میں قرآن کا درس یہ ہے: نہ ظلم کرو اور نہ ظلم سہو: لاتَظلمون و لاتُظلمون۔
مزاحمتی محاذ ان احکام اور ایسی ہی سیکڑوں تعلیمات کو سیکھ کر اور ان پر عمل کر کے آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ کے اذن سے فتحیاب ہوگا۔
میں سفارش کرتا ہوں کہ قرآن سے آشنائي حاصل کیجیے۔
انسانی حقوق کے لئے گلا پھاڑ کے دنیا کے کان کے پردے پھاڑنے والے کہاں ہیں؟ انھیں کیوں نہیں دیکھتے؟ کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے حقوق نہیں ہیں؟
امام خامنہ ای
10 اپریل 2024
حج "امت مسلمہ کے عقیدے کے اظہار اور موقف کے اعلان کی ایک جگہ" ہے اور امت مسلمہ اپنے صحیح اور قابل قبول اور قابل اتفاق رائے موقف کو بیان کر سکتی ہے، قابل قبول اور قابل اتفاق رائے... اقوام، مسالک۔ ممکن ہے حکومتیں کسی اور طرح سوچیں، کسی اور طرح کام کریں لیکن اقوام کا دل، الگ چیز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اقوام مختلف معاملات میں اپنے موقف کا اظہار کر سکتی ہیں۔ اگرچہ برائت، ابتدائے انقلاب سے ہی حج میں موجود رہی ہے لیکن غزہ کے بڑے اور عجیب واقعات کے پیش نظر خاص طور پر اس سال کا حج، حج برائت ہے۔ اور مومن حجاج کو اس قرآنی منطق کو پوری اسلامی دنیا میں منتقل کرنا چاہیے۔ آج فلسطین کو اسلامی دنیا کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ فلسطین کے مسلمان عوام کی جدوجہد اور عالم اسلام کی جانب سے ان کی حمایت جاری رہنے سے خداوند عالم کے فضل و کرم سے فلسطین آزاد ہوگا اور بیت المقدس، مسجدالاقصیٰ اور اس سرزمین کے دیگر مقامات، عالم اسلام کی آغوش میں واپس آ جائيں گے، ان شاء اللہ۔ "و اللہ غالب علی امرہ" اور اللہ تو ہر کام پر غالب ہے۔
امام خامنہ ای
فلسطین عنوان کی کتاب مسئلہ فلسطین کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے توصیفی اور تجزیاتی بیانوں اور آپ کی طرف سے پیش کئے گئے راہ حل کا مجموعہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں رہبر انقلاب کے افکار کی اہمیت اور فیصلہ کن حیثیت نیز اس وقت کے خاص حالات کے مد نظر اس کتاب کے عربی، انگریزی، روسی، ترکی استانبولی اور دیگر زبانوں میں تراجم شائع ہوئے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 15 مئی 2024 کو صوبہ تہران کے شہدا پر کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات میں اپنے خطاب میں شہر تہران اور صوبہ تہران کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
حج کے مناسک کے رموز کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن ہنوز بیان کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ غزہ اور فلسطین کے سلسلے میں مسلمانوں کا فریضہ حضرت ابراہیم کی سنت کی روشنی میں۔
06/05/2024
اسلامی انقلاب اسٹی ٹیوٹ کے بین الاقوامی شعبے کی کاوشوں سے 'فلسطین' کتاب کے اردو اور کردی ترجموں کی رسم اجرا تہران بین الاقوامی بک فیئر میں عمل میں آئی۔
آج فلسطین کو حمایت کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس مسئلے میں دوسروں کا منتظر نہیں رہا اور نہ آئندہ رہے گا۔ لیکن اگر مسلم قوموں اور حکومتوں کے طاقتور ہاتھ تعاون کریں تو اس کا اثر بہت بڑھ جائے گا۔ یہ فریضہ ہے۔
امام خامنہ ای
اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم اساتذہ کی مناسبت سے یکم مئی 2024 کو ملک کے اساتذہ کے اجتماع سے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خطاب کیا۔ (1)
آیت اللہ خامنہ ای کا خطاب:
صیہونی حکومت آکر کھیت اور رہائشی مکان کو بولڈوزر سے تباہ کر دیتی ہے کہ وہاں کالونی تعمیر کرے، فلسطینی اس گھر کو بچا رہا ہے جو اس سے چھین لیا گيا ہے۔ وہ دہشت گرد ہو گیا؟ دہشت گرد تو وہ ہے جو ان پر بمباری کر رہا ہے۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے ہفتہ محنت و محنت کشاں کی مناسبت سے ملک کے محنت کش طبقے کے ہزاروں افراد سے ملاقات کی۔ 24 اپریل 2024 کو تہران کے حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی ملاقات میں رہبر انقلاب نے لیبر طبقے کی اہمیت اور مسائل پر گفتگو کی۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے مسئلہ فلسطین کے تعلق سے کچھ نکات بیان کیے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے: