قرآن مجید میں دو جگہ یہ عبارت ہے کہ : "ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنَاہُ نِعْمَۃً مِّنَّا قَالَ اِنَّمَا اُوتِيتُہُ عَلَىٰ عِلْمٍ" (پھر جب ہم اسے اپنی جانب سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو مجھے اپنے علم کی بنا پر دی گئی ہے۔ سورۂ زمر، آيت 49) یہ بات سورۂ زمر میں بھی ہے اور غالبا سورۂ لقمان میں بھی ہے۔ اللہ تعالی انسان کو کوئي نعمت عطا کرتا ہے لیکن انسان، منعم کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے خود اپنی محنت سے اس نعمت کو، اس پوزیشن کو اور اس موقع کو حاصل کیا ہے۔ بالکل یہی عبارت قارون کے سلسلے میں ہے کہ جب اس سے کہا گيا کہ ان نعمتوں کو خدا کی جانب سے سمجھو، اس میں سے اپنا حصہ لے لو لیکن اسے خدا کی راہ میں  خرچ کرو، تو اس نے جواب میں کہا: "اِنَّمَا اُوتِيتُہُ عَلَىٰ عِلْمٍ" یہ میں نے خود حاصل کی ہے، اس کا حصول، میرا اپنا ہنر تھا، یہ وہی بڑی غلطی ہے جس میں ممکنہ طور پر ہم سب مبتلا ہو سکتے ہیں، گھمنڈ کرنا، مغرور ہو جانا۔ ٹھیک یہی بات اللہ کے بارے میں گھمنڈ کے سلسلے میں بھی ہے۔ یہ آیت مبارکہ، " فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاۃُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ" ( دنیا کی زندگانی کہیں تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی بڑا دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دے۔ سورۂ لقمان، آيت 33، اور سورۂ فاطر، آيت 5) اللہ (کے کرم) پر مغرور ہونے کے بارے میں ہے، اللہ کے براے میں بھی گھمنڈ نہ کرو۔

امام خامنہ ای

19/6/2006