مہدویت کا سب سے نمایاں نعرہ ہے، عدل و انصاف۔ مثال کے طور پر جب ہم دعائے ندبہ میں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی صفات بیان کرنا اور گنانا شروع کرتے ہیں تو ان کے محترم آبا و اجداد اور پاکیزہ خاندان سے ان کی نسبت کے بعد جو پہلا جملہ بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے: "این المعدّ لقطع دابر الظّلمۃ، این المنتظر لاقامۃ الامت و العوج، این المرتجی لازالۃ الجور و العدوان" (کہاں ہے وہ جسے سلسلۂ ظلم قطع کرنے کے لیے مہیا کیا گیا ہے؟ کہاں ہے وہ جس کا کجی اور انحراف کو ٹھیک کرنے کے لیے انتظار ہورہا ہے؟ کہاں ہے وہ جس سے ظلم و جور کو زائل کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں؟) مطلب یہ کہ انسانیت کا دل اس بات کے لیے تڑپ رہا ہے کہ وہ نجات دہندہ آئے اور ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، ظلم کی عمارت کو - جو انسانی تاریخ کے گزشتہ ادوار میں ہمیشہ موجود رہی ہے اور آج بھی پوری شدت سے موجود ہے- ڈھا دے اور ظالموں کو ان کی اوقات دکھا دے۔ یہ، مہدئ موعود کا انتظار کرنے والوں کی ان سے پہلی درخواست ہے۔ یا زیارت آل یاسین میں جب آپ حضرت کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ "الّذی یملا الارض عدلاً و قسطاً کما ملئت جوراً و ظلما" (وہ جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگي۔) توقع یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کو - کسی ایک مقام کو نہیں - عدل سے بھر دیں اور ہر جگہ عدل و انصاف قائم کر دیں۔ امام زمانہ کے بارے میں جو روایتیں ہیں، ان میں بھی یہی بات پائي جاتی ہے۔ بنابریں مہدئ موعود کا انتظار کرنے والوں کی توقع، پہلے مرحلے میں، عدل و انصاف کا قیام ہے۔

امام خامنہ ای

22/10/2002