بسم ‌اللہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو، حج اور حجاج کرام کو خدمات فراہم کرنے والے محترم عہدیداران و کارکنان! خوش آمدید۔ اس سال ہمارے عوام کو حج کی توفیق ملی ہے یہ اپنے آپ میں ایک اچھی خبر ہے۔ بحمد اللہ ملک کے حکام نے، تینوں شعبوں؛ عدلیہ، مجریہ اور مقننہ سے تعلق رکھنے والے عہدیداران نے اس قضیئے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا، پرکھا اور پھر فیصلہ کیا کہ اس سال حج میں شرکت کی جائے۔ خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے عزیز عوام کے لئے اس مبارک سفر کو باعث خیر و برکت اور باعث سعادت و کامرانی قرار دے۔

حج بہت اہم فریضہ ہے۔ شاید اہم اسلامی فرائض میں فریضہ حج کی مانند کوئی اور فریضہ نہیں ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس عظیم و وسیع فریضے میں بے پناہ روحانی صلاحیت و گنجائش ہے، جو لوگ حق تعالی سے روحانی رابطہ قائم کرنے کے متمنی ہیں، روحانیت و معنویت جیسے امور کے متلاشی ہیں، وہ اس واجب اور اس عظیم فریضے کے گوشہ و کنار میں اس کے لئے عظیم وسائل اور حیرت انگیز گنجائشیں فراہم کر سکتے ہیں۔ نماز، طواف، وقوف، سعی اور خود احرام سے لیکر گوناگوں اجزا پر مشتمل اس عظیم فعل واجب کے ہر ایک جز تک ہمہ وقت روحانیت و معنویت کا چشمہ جاری رہتا ہے۔ اگر ہم اس کی قدر کریں، اگر ہم روحانیت کی سمت قدم بڑھائیں تو حج میں اس کی گنجائش و صلاحیت دیگر تمام واجبات سے زیادہ ہے۔ یہ اس قضیئے کا ایک پہلو ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ حج میں سماجی مسائل کے لئے بڑا بے نظیر موقع میسر ہوتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہ اسلامی فرائض کی خصوصیات ہیں۔ اسلام روحانیت پر اس قدر تاکید کرتا ہے، لیکن اسلام میں روحانیت و معنویت کا مطلب گوشہ نشینی، رہبانیت، تنہائی اور عوام الناس سے دوری نہیں ہے۔ وہی واجب فعل اور دینی فریضہ جس میں سب سے زیادہ روحانیت و معنویت پائی جاتی ہے، وہی سب سے زیادہ سماجی پہلو کا بھی حامل ہے۔

حج امت مسلمہ کے باعظمت حضور کا آئینہ ہے، حج اتحاد کا مظہر ہے، حج یگانگت کی تصویر ہے، حج مسلم امہ کی طاقت کی جلوہ گری ہے۔ ہر سال ایک خاص مقام پر بلا وقفہ الگ الگ حالات کے ساتھ امت مسلمہ کا سب سے عظیم اجتماع انجام پاتا ہے۔ یعنی مسلم امہ حج کی صورت میں اپنے وجود کی نمائش کرتی ہے، اپنے وجود کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ ویسے تو اس قضیئے کا ظاہری پہلو ہے لیکن اس میں اس کے باطنی اور اندرونی پہلو بھی مضمر ہیں۔ مسلم اقوام حج کے موقع پر ایک دوسرے سے آشنا ہوتی ہیں، مانوس ہوتی ہیں، ایک دوسرے کی زبان سمجھتی ہیں، زبان سے مراد الفاظ و معنی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ذہنی کیفیات ہیں۔ اس سے آشنا ہوتی ہیں، ایک دوسرے سے قریب آتی ہیں، شبہات دور ہوتے ہیں، دشمنیاں کم ہوتی ہیں اور بتدریج ختم ہوتی ہیں، دل ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، ہاتھ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ممالک ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، اقوام ایک دوسرے کی مدد کر سکتی ہیں، یہ حج ہے۔ مقام عمل میں جو لوگ ذمہ داران ہیں، منتظمین ہیں وہ کس حد تک تعاون کرتے ہیں یا اجازت دیتے ہیں کہ حج کے اعمال اس نہج پر ادا ہوں یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن حقیقت حج تو یہی ہے؛ ایک عدیم المثال روحانی صلاحیت و ظرفیت والے عمل کے ساتھ عدیم المثال اجتماعیت بھی وابستہ ہے اور جو مسلم امہ کے موقف اور نظرئے کے اعلان کا مقام ہے۔

یہ 'برائت از مشرکین' کا مسئلہ جس پر ہم اتنی زیادہ تاکید کرتے ہیں اور ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا کہ برائت سے عاری حج سے اتفاق نہیں رکھتے (3) تو اس کا راز یہی ہے۔ حج میں امت مسلمہ اپنا صحیح، پسندیدہ اور متفق علیہ موقف بیان کر سکتی ہے۔ کس کا پسندیدہ اور کس کا متفق علیہ موقف؟ ملتوں اور قوموں کا متفقہ موقف۔ حکومتیں ممکن ہے کہ کسی اور انداز سے سوچیں، کسی اور انداز سے عمل کریں، چنانچہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ بہت سی مسلم حکومتیں بد قسمتی سے اقوام کی مرضی کے برخلاف سمت میں جا رہی ہیں اور پیش قدمی کر رہی ہیں، لیکن قوموں کی دلی چاہت کچھ اور ہے۔ تو یہ وہ مقام ہے جہاں قومیں مختلف مسائل میں اپنا موقف بیان کر سکتی ہیں۔

اس وقت مسجد الاقصی کا قضیہ سامنے ہے، بیت المقدس کا مسئلہ سامنے ہے، یہ کوئی معمولی قضیہ نہیں ہے۔ صیہونی گستاخ ہو گئے ہیں، ان کی جرئت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ مسجد الاقصی کے اصلی مالکان یعنی مسلمانوں پر سختیاں کر رہے ہیں، کبھی دروازے بند کر دیتے ہیں، کبھی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں، کسی دن کچھ لوگوں کو جانے دیتے ہیں اور داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور کچھ لوگوں کو منع کر دیتے ہیں، عمر کی شرط لگاتے ہیں، اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ غاصب و جعلی صیہونی حکومت کی یہ گستاخی ہے، ڈھٹائی ہے، بے شرمی ہے۔ ظاہر ہے کہ ملت اسلامیہ کا دل مسجد الاقصی کے لئے دھڑک رہا ہے۔ یہ موقف کے اعلان کی جگہ ہے، حج کے اندر یہ گنجائش ہے، یہ ہے حج۔ امت اسلامیہ کو بیت اللہ الحرام، مکہ، مدینہ، عرفات، مشعر اور منی سے بہتر اور کون سی جگہ ملے گی جہاں وہ اعلان کرے کہ قومیں فلسطین کے بارے میں، مسجد الاقصی کے بارے میں کیا کہتی ہیں، کیا چاہتی ہیں اور کیا سوچتی ہیں؟ اس سے بہتر کون سی جگہ ہے؟ حج کے اندر اس طرح کی گنجائش ہے۔ ہمارے علاقے میں اور مسلم ممالک میں امریکہ کی مداخلتوں کے بارے میں، امریکہ کی شرانگیزی کے بارے میں، ان دہشت گرد تنظیموں اور تکفیری گروہوں کی تشکیل کے بارے میں اور ان تمام دہشت گردوں میں سب سے بڑی شر پسند خود امریکی حکومت ہے، سب سے زیادہ خبیث وہی ہے، ان چیزوں کے بارے میں موقف کے اعلان کی کون سی جگہ ہے؟ امت اسلامیہ کے لئے حج اس کی بہترین جگہ ہے، یہاں ہر ملک سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اپنے موقف کا اعلان کر سکتے ہیں، اپنے نظرئے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ حج ان گنجائشوں کا حامل ہے، اس کی قدر کیجئے، اس ہدف کے لئے کوشش کیجئے، یہ تو رہی ایک بات۔

ایک اور اہم مسئلہ بھی جس کا ذکر محترم حضرات نے بھی کیا؛ جناب قاضی عسکر صاحب نے بھی اور ادارہ حج کے محترم سربراہ نے بھی، سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔  وَ اِذ جَعَلنَا البَیتَ مَثابَةً لِلنّاسِ‌ وَ اَمنًا (۴) یہ مسئلہ ہے۔ قرآن کریم پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم نے اس جگہ کو لوگوں کے اجتماع، رجوع کی جگہ اور ان کے لئے پرامن مقام قرر دیا ہے۔ سلامتی بہت اہم ہے۔ حجاج کا تحفظ حد درجہ اہمیت رکھتا ہے۔ ہم 2015 کے حج کے تلخ واقعات کو فرامش نہیں کر سکتے (5)۔ امت اسلامیہ اور ہم ایرانیوں کے دل داغدار ہوئے اور یہ غم کبھی فراموش نہیں ہو سکتا، یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس سال ادارہ حج کے عہدیداران نے بڑی زحمتیں اٹھائیں، بہت محنت کی، لیکن بہرحال وہ بڑا عظیم سانحہ تھا۔ حجاج کرام کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ داری اس ملک کی ہے جس کے اختیار میں اور جس کی نگرانی میں حرمین شرفین ہیں، اس حکومت کو چاہئے کہ تحفظ فراہم کرے، یہ ہمارا دائمی اور سنجیدہ مطالبہ ہے۔ حجاج کرام کی حفاطت ہونی چاہئے، تمام حجاج کی حفاطت ہونی چاہئے، ہم خاص تاکید کریں گے ایرانی حجاج کے سلسلے میں۔ دوسری حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے حجاج کرام کے سلسلے میں یہی مطالبہ کریں، موثر انداز میں مانگ رکھیں۔ ہم پوری سنجیدگی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے حجاج کرام کی حفاظت ہونی چاہئے۔ صرف سیکورٹی اور سلامتی ہی نہیں، ان کے وقار، ان کی سہولیات اور آسائش کا پورا خیال رکھا جانا چاہئے۔ حضرات نے کچھ باتیں یہاں بیان کیں، آپ بہت خیال رکھئے، ہر طرح کے حادثے کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہئے، ہر قسم کی صورت حال کے لئے آمادہ رہئے۔ حجاج کی آسائش و سکون کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ البتہ ہم جو سیکورٹی اور سلامتی کی بات کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں سیکورٹی فورس تعینات کر دی جائے اور حجاج کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے، نہیں، یہ مراد نہیں ہے۔ حجاج بحفاظت رہیں، آسودہ خاطر رہیں، پرسکون رہیں۔ مسجد الحرام اور منی میں پیش آنے والا وہ المناک سانحہ پھر نہ ہو، اس کی یاد پھر تازہ نہ ہو جائے، اس لئے کہ تشویش تو موجود ہے۔ بحمد اللہ سپریم کونسل برائے قومی سلامتی میں تینوں شعبوں کے عہدیداران جمع ہوئے، فیصلہ کیا، تمام پہلوؤں پر غور کیا اور اس نتیجے پر  پہنچے کہ حج کے لئے جایا جائے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس سال کا حج بہترین انداز میں انجام پائے گا۔

مسئلہ فلسطین سے غافل نہ ہوا جائے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ سنہ 80 اور 90 کے عشرے میں مسئلہ فلسطین ہمیشہ زیر بحث رہا ہے، کبھی کم، کبھی زیادہ۔ اس وقت بھی یہ مسئلہ بہت زیادہ زیر بحث ہے صیہونیوں کی خباثت اور ملعونانہ حرکتوں کی وجہ سے اور بعض اسلامی ممالک کے سربراہوں کی خیانت کی وجہ سے۔ بہرحال اس سال عالم اسلام کا محوری اور مرکزی مسئلہ مسئلہ فلسطین ہے، بنیادی قضیہ فلسطین کا ہے۔

مسلم امہ کے اتحاد کے مسئلے پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج پیسہ خرچ  کیا جا رہا ہے، اربوں خرچ کئے جا رہے ہیں کہ مسلم مسلکوں کے ما بین تفرقہ پڑ جائے، دشمنی پیدا ہو جائے! اس پر اربوں خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی اس تفرقہ انگیزی میں مددگار نہ بنے۔ جو بھی اس میں مددگار بنے گا وہ در حقیقت اس سازش میں اور اس عظیم گناہ کے دینی و روحانی عواقب میں بھی شریک قرار  پائے گا۔ کوئی بھی اس میں شریک نہ ہو۔

حجاج کرام کے بھی کچھ فرائض ہیں، ان کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے۔ محترم حجاج نماز جماعت کا خیال رکھیں، اول وقت نماز ادا کرنے پر توجہ رکھیں، مسجد الحرام اور مسجد النبی کی نماز جماعت میں شرکت کریں۔ جن ایام میں حرمین شریفین میں موجود رہنے کا شرف حاصل ہو، تلاوت کلام پاک کو اسی طرح عرفہ کے دن اعمال عرفہ کو خاص اہمیت دیں۔ بازار میں چکر کاٹنے سے پرہیز کریں۔ میں نے یہ بات بار بار کہی ہے۔ بازار تو دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔ تہران میں بھی بازار ہے۔ جائز ناجائز ہر طرح کی چیزیں ہر جگہ مل جائیں گی۔ تہران میں بھی ساری چیزیں موجود ہیں، دوسرے شہروں میں بھی ہیں۔ جو چیز تہران میں نہیں ملے گي وہ ہے کعبہ۔ تہران میں اور آپ کی جائے سکونت میں جو چیز نہیں ہے وہ مسجد الحرام اور مسجد النبی ہے۔ یہ چیزیں تو بس وہیں ہیں۔ ان سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ ورنہ بازار اور چیزیں تو ہر جگہ ہیں۔ اپنا وہ پیارا وقت ان چیزوں پر صرف نہ کیجئے۔ حج کے دوران حاجی کو ہر چیز سے زیادہ یہ فکر ہونا چاہئے کہ اپنا تزکیہ کرے، دل کو پاکیزہ بنائے، روح کو پاکیزہ بنائے۔ بڑے روحانی نتائج کسب کرے۔ اگر ایسا ہوا تو حج کے سماجی نتائج و ثمرات بھی ان شاء اللہ حاصل ہو جائیں گے۔

اس سال ہمارے ملک سے حج کے لئے جانے والے تمام حجاج کرام کے لئے ہم توفیق و لطف خداوندی کی دعا کرتے ہیں۔ روحانی و مادی و الہی حفاظت و سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ منتظمین کے لئے بھی اللہ تعالی سے توفیقات کی دعا کرتے ہیں۔ سب خیال رکھیں، سب توجہ دیں، سب اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں تاکہ اس سال پروقار اور با عظمت حج انجام پائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں حج و زیارت کے امور میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین قاضی عسکر اور ادارہ حج و زیارات کے سربراہ حمید محمدی نے رپورٹیں پیش کیں۔

۳)  صحیفہ امام، جلد 21 صفحہ 22؛ بنیادی طور پر مشرکین سے برائت حج کے سیاسی فرائض کا حصہ ہے، اس کے بغیر ہمارا حج، حج نہیں ہے۔

۴) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۲۵ کا ایک حصہ

۵)  دس ذی الحجہ 1436 ہجری قمری کو عید الاضی کے دن منی میں رمی جمرات کے دوران پیش آنے والے سانحے میں 2431 حاحی شہید ہو گئے تھے ان میں 464 ایرانی حجاج کرام بھی شامل تھے۔ اس سے چند روز قبل مسجد الحرام میں کرین گر جانے سے بھی 11 ایرانی حاجیوں سمیت 107 حجاج کرام شہید ہو گئے تھے۔