بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد.

آپ تمام برادران عزیز کو بہت بہت مبارک ہو اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کا اعزاز اور ساتھ ہی نئے کیڈٹس کو یونیورسٹی میں داخلے کا اعزاز۔ ان شاء اللہ آپ تعلیم و مشق کے مراحل سے گزر کر 'انقلاب کے پاسدار' کے مقام و مرتبے پر فائز ہوں گے۔

ماہ شعبان ہے، رحمت خداوندی کی برسات کا مہینہ ہے۔ اگر انسان مناجات شعبانیہ، اسی طرح نیمہ ماہ شعبان کی دعاؤں اور دیگر دعاؤں کے جملوں اور اعمال پر غور کرے تو اسے صاف محسوس ہوگا کہ شعبان کا مہینہ بڑا باارزش دورانیہ ہے رحمت پروردگار سے کسب فیض کرنے کا۔ آپ عزیز نوجوان اپنے پاکیزہ دلوں اور مستعد روح کی مدد سے بنحو احسن کسب فیض کر سکتے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس مہینے کی برکتوں اور رحمت خداوندی سے آپ کو بہرہ مند کرے۔

ماہ شعبان کی ایک عظیم خصوصیت اس مہینے میں محور عالم امکان حضرت بقیۃ اللہ العظمی امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا یوم ولادت با سعادت ہے۔ اس عظیم مناسبت کی وجہ سے اس مہینے کے شب و روز کا مرتبہ بہت بلند ہو گیا ہے۔ البتہ یوں بھی شب نیمہ شعبان بہت مبارک رات ہے۔ دعا کی رات ہے، مناجات کی رات ہے، کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ شب قدر ہے۔ مگر اس ولادت کی وجہ سے ان ساری عظمتوں کو چار چاند لگ گئے۔ امام زمانہ علیہ السلام کے تعلق سے چند نکات کا ذکر کرتے ہوئے ہم حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے مقدس وجود پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔ البتہ سب سے پہلے میں اس یوم ولادت کی اور ان ایام کی مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا، اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کی حلاوت کی مبارک باد دینا چاہوں گا۔ ماہ شعبان شروع سے آخر تک الطاف خداوندی، حلاوت و نورانیت کا مہینہ ہے۔ البتہ اس سال معدن کا جو سانحہ پیش آیا (2) اس نے ہمیں سوگوار کر دیا۔ اس سے پہلے جنوبی سرحدوں پر سرحدی محافطین کو پیش آنے والے سانحے (3) نے بھی دلوں کو داغدار کر دیا۔ ویسے یہ مہینہ مسرت اور اہلبیت اطہار علیہم السلام سے اظہار عقیت کا مہینہ ہے۔

امام زمانہ عجل اللہ لہ الفرج و سلام اللہ علیہ کے سلسلے میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ عظیم ہستی 'داعی اللہ' ہیں۔ امام زمانہ علیہ السلام پر توجہ مرکوز کرنا در حقیقت خداوند عالم کی بارگاہ میں اظہار عقیدت و بندگی ہے۔ اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا داعیَ ‌اللهِ وَ رَبّانیَّ آیاتِه (۴) سارے انبیا، سارے اولیا، سارے مقدسات اور تمام ارواح طیبہ جو ہماری زندگی پر، ہماری دنیا پر، تمام عالم وجود پر نور افشانی کر رہے ہیں، وہ سب حق تعالی کی نشانیاں ہیں، پروردگار کے جلوے ہیں۔ اس نکتے پر توجہ رکھنا چاہئے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی جانب اپنا ذہن مرکوز کرتے ہیں، توسل کرتے ہیں، حضرت کی بارگاہ میں اظہار خاکساری کرتے ہیں تو اس لئے کہ ہمارا یہ اظہار خاکساری پروردگار عالم کی بارگاہ میں پہنچے اور ہمارا یہ عمل خداوند عالم کی بارگاہ میں اظہار بندگی شمار ہو۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آقا کا نام اور ذکر ہمیشہ ہمیں یہ یاددہانی کراتا ہے کہ اس تاریک رات کے اختتام پر آفتاب حق و عدل کا طلوع یقینی ہے۔ بہت سے انسان کبھی کبھی جب ظلمت و  مظالم کے گھٹاٹوپ بادلوں کو دیکھتے ہیں تو مایوس ہونے لگتے ہیں۔ امام زمانہ علیہ السلام کی یاد اس بات کی علامت ہے کہ خورشید یقینا طلوع ہوگا اور اجالا پھیل جائے گا۔ ظلمتیں ہیں، ظالم اور دنیا میں تاریکی پھیلانے والے بھی ہیں، صدیوں سے موجود رہے ہیں، لیکن اس تاریک و ظلمانی رات کا اختتام یقینا طلوع خورشید پر ہوگا۔ ہمیں یہ تعلیم امام زمانہ علیہ السلام پر اپنے عقیدے سے ملتی ہے۔ یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے۔: اَلسَّلامُ‌ عَلَیکَ‌ اَیُّهَا العَلَمُ‌ المَنصوبُ وَ العِلمُ المَصبوبُ وَ الغَوثُ وَ الرَّحمَةُ الواسِعَةُ وَعداً غَیرَ مَکذوب‌ (۵) اللہ کا ایسا وعدہ جو ٹوٹ نہیں سکتا۔ زیارت کی ابتدا میں بھی ہے؛ اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وَعدَ اللهِ الَّذی ضَمِنَه (۶) وہ وعدہ کہ پروردگار عالم نے جس کی ضمانت لی ہے، امام کا ظہور ہے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہے۔ حصرت ولی عصر کے ظہور اور آپ کے وجود کا عقیدہ رکھنے والے افراد ہرگز قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سورج یقینا طلوع ہوگا اور تاریکی دور ہو جائے گی۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں انتظار پر مامور کیا گيا ہے، انتظار کا کیا مطلب ہے؟ انتظار کا مطلب ہے چوکنا رہنا۔ دفاعی زبان میں ایک اصطلاح رائج ہے؛ الرٹ رہنا۔ اگر آپ کے امام جو ساری دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے تشریف لائیں گے، آج ظہور فرمائیں تو ہمیں اور آپ کو اس کے لئے الرٹ رہنا چاہئے۔ الرٹ رہنا بہت اہم ہے۔ انتظار کا یہی مفہوم ہے۔ انتظار کا مطلب بے تابی و اضطراب نہیں، انتظار کا مطلب پریشان ہوکر شور مچانا کہ کیوں نہیں آئے کیوں دیر کر دی نہیں ہے۔ انتظار کا مطلب ہے ہمیشہ آمادہ اور چوکنا رہنا۔

اس سلسلے میں چوتھا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ انتظار عمل اور اصلاح کا متقاضی ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنا چاہئے، ہمیں ان چیزوں پر عمل پیرا ہونا چاہئے جو امام کو مسرور کریں۔ جب ہم اس انداز سے عمل کریں گے اور اپنی ذات میں اصلاح کریں گے تو یقینا انفرادی سرگرمیوں پر اکتفا نہیں کریں گے، بلکہ سماج کی سطح پر، ملک کی سطح پر، عالمی سطح پر بھی ہمیں کچھ فرائض پورے کرنے ہوں گے۔ یہ فرائض کیا ہیں؟ یہ وہی چیز ہے جس کے ادراک کے لئے بصیرت کی ضرورت ہے، معرفت کی ضرورت ہے، عالمی زاویہ فکر کی ضرورت ہے، کھلی فکر کی ضرورت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی آپ فعال نوجوانوں کو ضرورت ہے۔

امام حسین کیڈٹ یونیورسٹی کے بارے میں سب سے پہلے تو میں آپ کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ آپ نے یہاں تعلیم حاصل کی یا تعلیم حاصل کریں گے۔ یہ بڑا سنہری اور اہم موقع ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی ایسے پودوں کو نشونما دینے والی کھیتی ہے جنھیں زرخیز زمین میں لگایا گيا ہے۔ یہ یونیورسٹی وہ مقام ہے جو صلاحیت رکھنے والے انسانوں کو ایسی بلندی پر پہنچا سکتی ہے کہ کوئی بھی صاحب معرفت انسان جب اس بلندی کو دیکھے تو رشک کرے! ہمارے عظیم قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم روحانی ہستی، وہ عالم دین، وہ فقیہ، وہ مفکر بھی جب اسلام کے سپاہیوں کو اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے شہیدوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر رشک کرتے ہیں۔ آپ کے فرمودات میں یہ بات بارہا ذکر ہوئی ہے۔ یہ یونیورسٹی انسانوں کو، نوجوانوں کو اس رفعت سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہ یونیورسٹی اس آیۃ شریفہ کی مصداق ہے: کَزَرعٍ اَخرَجَ شَطئَهُ فَئازَرَهُ فَاستَغلَظَ فَاستَوىٰ‌ عَلىٰ سُوقِهٖ یُعجِبُ‌ الزُّرّاعَ‌ لِیَغیظَ بِهِمُ الکُفّار (۷) جن لوگوں نے اس کھیتی کو تیار کیا ہے، وہ خود بھی کبھی کبھی اس کھیتی کی فصل کو دیکھ کر وجد میں آ جاتے ہیں! بڑی بابرکت کھیتی ہے جو اس طرح کے ثمربخش پودوں کو اپنی آغوش میں پروان چڑھا سکتی ہے اور پھر معاشرے کی خدمت کے لئے انھیں پیش کر سکتی ہے۔؛  لِیَغیظَ بِهِمُ الْکُفّار، اور یہاں پرورش پانے والے انسان کو دیکھ کر کفار غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں، کچھ طبقات ایسے ہیں جو استکبار کی بین الاقوامی تشہیراتی مہم میں، استکبار سے وابستہ سیاسی رہنماؤں کے بیانوں میں، استکبار کی سازشی سرگرمیوں میں استکبار کی خاص دشمنی اور کینے کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان میں سر فہرست پاسداران انقلاب فورس ہے۔ کیوں؟ وہ پاسداران انقلاب فورس کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ اس نوجوان سے جو تربیت پاتا ہے، نشونما پاتا ہے اور روحانی میدان میں بلند قامت ہو جاتا ہے، یہ طاقتیں اس کے خلاف اس درجہ کیوں دشمنی برتتی ہیں؟ اس لئے کہ وہ ملک کے وقار کو بڑھاتا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ان کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ ملکی وقار و اقتدار کا ضامن ہے۔ جو چیز بھی اسلامی مملکت ایران کی قوت و توانائی میں اضافے کا باعث بنے وہ ان کی نظر میں قابل نفرت ہے، ان کے کینے کی آماجگاہ ہے، ان کی برہمی کا سبب ہے۔

دوسرے بھی دو تین نمونے ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ علم بھی قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے، لہذا ہماری سائنسی ترقی بھی ان کی برہمی کا باعث بنتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ انھوں نے ایجنٹ بھیجے اور ہمارے ایٹمی سائنسداں کو قتل کروا دیا۔ یعنی ایک ایک کی شناخت کی، ان کی آمد و رفت کے راستوں پر نظر رکھی اور پھر اپنے ایجنٹوں کا پیسہ دیا کہ وہ آکر انھیں قتل کر دیں۔ تو علم اور صاحب علم بھی ایسی چیز ہے جس سے وہ بہت چراغ پا ہو جاتے ہیں۔

ملک کی مستحکم اور خود مختار معیشت بھی ہماری قوت و توانائی کی ضامن ہے تو وہ اس کے بھی دشمن ہیں۔ پابندیاں لگاتے ہیں تاکہ ملکی معیشت پر ضرب لگا سکیں، گوناگوں حربے آزماتے ہیں، کاش ہمارے دیندار ماہرین اقتصادیات آکر عوام کو سمجھائیں اور تشریح کریں کہ دشمن سرحدوں کے باہر بیٹھ کر کیا کیا تدابیر کر رہا ہے کہ ملک کے اندر ہم مستحکم اور خود مختار معیشت کے مالک نہ بننے پائیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ معیشت قوت و توانائی کی ضامن ہے۔ جس ملک کے پاس مستحکم معیشت ہو وہ در حقیقت قوت و توانائی کے ایک ذریعے کا مالک بن جاتا ہے۔

عسکری قوت بھی طاقت و توانائی کی ضامن ہے۔ چنانچہ آپ نے دیکھا کہ میزائل کے مسئلے میں انھوں نے دنیا میں کیا شور شرابا کیا کہ ایران کے پاس تو میزائل ہیں، بڑی درستگی کے ساتھ اپنے نشانے کو تباہ کرنے والے میزائل ہیں!! بے شک ہمارے پاس میزائل ہیں، بڑی درستگی کے ساتھ اپنے نشانے کو تباہ کرنے والے میزائل ہیں، ہمارے میزائل کئی ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے اپنے نشانے کو محض چند میٹر کے امکانی فرق کے ساتھ تباہ کرنے پر قادر ہیں۔ ہم نے بڑی مضبوطی کے ساتھ اسے حاصل کیا ہے اور بڑی مضبوطی سے اس کی حفاظت کریں گے، مقتدارانہ انداز میں ہم اس میں اضافہ بھی کریں گے۔ چونکہ یہ وسائل ہمارے وطن عزیز کے اقتدار اور قوت و توانائي کے ضامن ہیں اس لئے وہ ان کے خلاف ہیں۔ ان کے سلسلے میں تنازعہ کھڑا کرتے ہیں، غصہ دکھاتے ہیں۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ وہ آج دنیا میں کیا کر رہے ہیں۔

قربانی کے جذبے سے سرشار فوجی اہلکار؛ عسکری اداروں سے الگ ہٹ کر بھی ایک فداکار فوجی اہلکار، صیاد شیرازی شہید، شوشتری شہید جیسے افراد ایک عام فداکار و صادق فوجی اہلکار ان کے غم و غصے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ افراد جنگ میں شہید نہیں ہوئے بلکہ ان کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ یعنی شناخت کرکے ان کا تعاقب کیا گیا اور پھر انھیں قتل کر دیا گيا۔ اس لئے کہ انھوں نے دشمن کی دست درازی کو روکنے والی اہم رکاوٹ کے طور پر خود کو متعارف کرایا۔ اس لئے کہ وہ ملک کی قوت و توانائی کا سرچشمہ تھے، لہذا وہ ان ہستیوں کے دشمن بن گئے۔

نوجوانوں کا ایمان و حیا اور اخلاق بھی قوت و اقتدار کا راستہ ہموار کرنے والے عناصر ہیں، اس لئے وہ اس کے بھی دشمن ہیں۔ سائیبر اسپیس میں اور میڈیا میں وہ اس وسیع پیمانے پر سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، اربوں خرچ کرتے ہیں کہ ایرانی نوجوان کا کردار مسخ کر دیں، اس کے ایمان کو مخدوش بنا دیں، اس سے شریعت کی پابندی اور شرم و حیا چھین لیں! کیوں؟ اس لئے کہ ان صفات سے ملک کو اقتدار ملتا ہے۔ وہ ان مومن و دیندار اور با حیا و با ایمان نوجوانوں کے دشمن ہیں جو شہوت انگیز وسائل کے دام میں نہیں پھنستے  اور اپنی حفاظت کرتے ہیں اور قومی توانائی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

ملت ایران کے اندر جہاد و مزاحمت کا جذبہ بھی قوت و اقتدار کی بنیاد ہے۔ لہذا وہ جہاد اور مزاحمت کے دشمن ہیں۔ عالمی استعماری زبان میں جہاد کے جذبے کو، استقامت و مزاحمت کے جذبے کو تشدد کہا جاتا ہے، تشدد اور انتہا پسندی جو بسا اوقات ہم خود بھی انھیں کی تقلید میں استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ استقامت، مزاحمت و جہاد کا جذبہ کسی بھی ملک کے لئے اقتدار و قوت کا ضامن ہے۔ یہ چیزیں اقتدار کی ضامن ہیں تو ان کے نزدیک سب قابل نفرت ہیں۔ جو چیز سلامتی کی ضامن ہے، ظاہر ہے یہ سلامتی سے بھی بالاتر ہے، جو فورس ملکی سلامتی کی ضمانت بن سکتی ہے اس کی اہمیت اور زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن و سلامتی کی نگہبان مسلح فورسز کے وہ  مخالف ہیں۔ اس لئے کہ اگر سیکورٹی نہ ہو تو علم بھی نہیں ہوگا، معیشت بھی نہیں ہوگی، اختراعات بھی نہیں ہوں گی۔ جو چیز ملک کو سائنسدانوں کی تربیت کرنے اور مختلف شعبوں میں ترقی پر قادر بناتی ہے وہ امن و سلامتی کا ماحول ہے۔ امن و سلامتی کسی بھی ملک کے لئے ہر چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جو چیز بھی ملکی سلامتی کی حافظ و ضامن ہے وہ اس کے دشمن ہیں، اسی لئے وہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں آج جو امن و سلامتی کا ماحول ہے اسے ختم کر دیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔

برادران عزیز، میرے پیارے فرزندو، میرے عزیز نوجوانو! آج ہم 'مزاحمتی حکومت'  کا درجہ رکھتے ہیں۔ 'مزاحمتی حکومت' کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کسی ملک کے اندر موجود مزاحمتی تنظیم یا مزاحمتی حلقے، اسی طرح مزاحمتی شخصیت سے مزاحمتی حکومت کا فرق بہت واضح ہے۔ البتہ استکباری طاقتیں ان سے بھی دشمنی رکھتی ہیں۔ عالمی استکبار جو توسیع پسند ہے، جو جارحانہ سرشت رکھتا ہے، جو دنیا کی تمام اقوام کے روحانی و مادی وسائل پر دست درازی کرتا ہے وہ ہر مزاحمتی عنصر کا مخالف ہے۔ وہ مزاحمتی تنطیموں کا بھی دشمن ہے، مزاحمتی افراد کا بھی دشمن ہے۔ لیکن یہ مزاحمتی قوتیں کہاں اور وہ حکومت کہاں جو مزاحمتی نظرئے کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے؟! اسلامی جمہوریہ ایک مزاحمتی حکومت ہے، مزاحمتی حکومت جس کی اپنی سیاست ہے، اپنا اقتصاد ہے، اپنی مسلح فورسز ہیں، بین الاقوامی سرگرمیاں ہیں، ملک کے اندر اور باہر وسیع اثر و نفوذ ہے۔ یہ چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں، اس کا موازنہ کسی بھی دوسری مزاحتمی طاقت سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تسلط پسند طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں سب کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر معاندانہ حملے ہو رہے ہیں۔

مزاحمتی حکومت سے کیا مراد ہے؟ یعنی بے جا مطالبات کے سامنے نہ جھکنا، توسیع پسندی کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا بلکہ مقتدرانہ انداز میں ڈٹے رہنا۔ مزاحتمی حکومت مقتدرانہ پوزیشن میں نظر آتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ مزاحتمی حکومت نہ تو دیگر ممالک کے خلاف جارحیت کرتی ہے، نہ توسیع پسندانہ اقدامات کرتی ہے، نہ دست درازی کرتی ہے اور دوسری طرف نہ تو کمزوری کا مظاہرہ کرتی ہے، نہ ہی پسپائی اختیار کرتی ہے، ایسی کوئی بھی صفت اس کے اندر نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر ہم توسیع پسندی اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر تسلط پسندی کے الزام سے خود کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں دفاعی پوزیشن میں آ جانا چاہئے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم کبھی بھی دفاعی پوزیشن میں نہیں آئيں گے۔ بلکہ ہم «اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیلِ تُرهِبونَ بِهٖ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم»(۸) کی پوزیشن میں رہیں گے۔ ایسی پوزیشن میں رہیں گے جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے؛ «تُرهِبونَ بِهٖ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم»؛ «تُرهِبونَ بِه» کا کیا مطلب ہے؟  «تُرهِبونَ بِه» وہی ہے جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں دفاعی قوت کہا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ اس کے پاس دفاعی توانائی موجود ہے، دفاعی طاقت موجود ہے، دشمن چاہتا ہے کہ یہ دفاعی طاقت باقی نہ رہے۔

اسلامی جمہوریہ نے تا حال جو کچھ حاصل کیا ہے، اور ظاہر ہے سب کچھ اپنی اختراعی صلاحیتوں سے اور اپنے عزم و حوصلے سے حاصل کیا ہے، وہ اس سلسلے میں کسی بھی ملک اور کسی بھی طاقت کا مرہون منت نہیں ہے، وہ سب دفاع کے لئے اور دفاعی توانائی کے لئے حاصل کیا ہے۔ آئندہ بھی ایران اس راستے پر آگے بڑھتا رہے گا۔ ہم آئندہ بھی جہاں تک ہم سے ہو سکے گا اپنی ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنی تمام تر توانائیوں کی مدد سے اپنی دفاعی قوت میں روز افزوں اضافہ کرنے کی کوشش کرت رہیں گے، ایسے ہر راستے کو ہم استعمال کریں گے۔ تاکہ دشمن کبھی بھی جارحیت کی ہمت نہ کر سکے۔ اسے احساس رہے کہ اگر اس نے تعرض کیا تو بڑی محکم ضرب کھانی پڑے گي، بڑی سخت جوابی کارروائي کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں نے کچھ عرصہ قبل (9) کہا تھا کہ 'مارو اور بھاگ لو' والا دور اب اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں تو گزر چکا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ آپ آئے اور وار کرکے بھاگ نکلے۔ لڑائی کا آغاز کرنا ممکن ہے ان کے ہاتھ میں ہو لیکن اس کا اختتام ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگا، ان کے اختیار میں نہیں ہوگا۔ یہ ہماری وہی طاقت ہے جس سے دشمن خائف ہے۔ یہ وہی قوت ہے جسے دشمن اسلامی جمہوریہ کے پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔

دشمن کی نظریں کس ہدف پر مرکوز ہیں؟ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں۔ آپ میرے عزیز بھائی، میرے فرزند اور میرے عزیز نوجوان ہیں۔ جو رپورٹ یہاں عزیز کمانڈروں نے پیش کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ فوجی ٹریننگ کے ساتھ ہی ساتھ بصیرت، روحانیت اور سیاسی شعور کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ دشمن کس کوشش میں ہے؟ اسلامی جمہوریہ کے اندر دشمن کا ہدف کیا ہے؟ دشمن نے کس چیز کو اپنا نشانہ بنایا ہے؟ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ دشمن نے ایک کوتاہ مدتی ہدف مد نظر رکھا ہے، ایک میانہ مدتی ہدف ہے اور ایک دراز مدتی ہدف اس کے پیش نظر ہے۔ دشمن کا کوتاہ مدتی ہدف ہے ملک کی سلامتی کو درہم برہم کرنا، ملک کے اندر فتنہ و آشوب برپا کرنا، اسلامی جمہوریہ کے پاس آج بحمد اللہ جو عظیم افتخار ہے اسے ختم کر دینا۔ ہم کشیدگی اور بد امنی سے پر ایک علاقے میں بلکہ بدامنی اور کشیدگي سے بھری دنیا میں اپنے وطن عزیز کے لئے پرامن فضا تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ کام ملت ایران نے انجام دیا ہے، یہ کارنامہ ملک کے دردمند حکام کا ہے، آگاہی و بیداری اور معروضی حالات سے باخبر رہنے کی خصوصیت کی وجہ سے یہ صورت حال بنی ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ملت ایران سے اس کا یہ افتخار چھین لیں۔ دشمن کا ایک اہم ترین ہدف یا اہم ترین کوتاہ مدتی ہدف یہ ہے کہ وطن عزیز کی سیکورٹی کی صورت حال خراب ہو جائے۔ میں اس بارے میں بعد میں بھی چند جملے عرض کروں گا۔

دشمن کا میانہ مدتی ہدف ملک کی معیشت ہے، عوام کی معیشت ہے۔ اقتصادیات کا پہیہ رک جائے، عوام کی معیشت ٹھپ ہو جائے، ملک کے اندر قومی پیداوار کی سطح گر جائے، ملک کے اندر بے روزگاری ایک آفت کی طرح پھیل جائے، عوام اپنی معیشتی مشکلات کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ سے اور اسلامی نظام سے مایوس و ناامید ہو جائیں۔ یہ دشمن کا مقصد ہے۔ اس کے لئے وہ کوشش کر رہا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے، بقول ان دشمنوں کے؛ وہ تھنٹ ٹینک قائم کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وہ اس طرح کی مشکلات پیدا کر سکیں۔ یہ ان دشمنوں کا درمیانی مدت کا ہدف ہے۔ جب ہم بھانپ چکے ہیں کہ دشمن کا یہ ہدف ہے تو ہمیں اس کے تدارک کا انتظام کر لینا چاہئے۔ اس کا تدارک ہم کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہوش میں آ جائیں، محنت کریں اور توجہ سے کام کریں۔ اگر اسی نعرے پر ہم عمل کریں جس کا تعین ہم نے آغاز سال میں کیا؛ 'استقامتی معیشت قومی پیداوار و روزگار' تو دشمن کا منصوبہ یقینی طور پر ناکام ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر دشمن کے کوتاہ مدتی منصوبے یعنی بدامنی پھیلانے، فتنہ و آشوب برپا کرنے کی کوشش کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم پہلے سے تیار رہیں گے تو ہم یقینا اس سازش کو بھی نقش بر آب کر دیں گے۔

دشمن کا دراز مدتی منصوبہ خود اسلامی نظام کو ختم کرنا ہے۔ ایک زمانے میں تو وہ صریحی طور پر کہتے تھے کہ اسلامی نظام ختم ہونا چاہئے۔ مگر انھوں نے محسوس کیا کہ اس طرح کے بیان سے خود انھیں ہی نقصان پہنچ رہا ہے، اس لئے کہ ایک تو ان کے بس کا یہ کام نہیں ہے، اگر کوشش کریں گے تو اسی میں الجھ کر رہ جائیں گے، حامیوں کے سامنے ان کی آبرو چلی جائے گی، دنیا میں ان کی ہمنوا و آلہ کار حکومتوں کی نظر میں ان کی کوئی عزت نہیں رہے گی تو پھر انھوں نے اپنے موقف میں قدرے نرمی پیدا کر لی اور اعلان کیا کہ اسلامی  جمہوریہ کے روئے میں تبدیلی ہو! میں نے اسی وقت ملک کے عزیز حکام سے کہا کہ آپ بہت ہوشیا رہئے! روئے میں تبدیلی اور خود نظام کی تبدیلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ روئے اور روش میں تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر مثلا ہم صبح سات بجے آتے تھے تو اب ساڑے سات بجے یا ساڑھے چھے بجے آنے لگیں! نہیں، روئے کی تبدیلی کا مطلب ہے اگر ہم راہ اسلام پر گامزن تھے، اگر ہم انقلاب کے راستے پر آگے بڑھ رہے تھے، امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے تھے تو ہم اپنا رخ بیس ڈگری، پھر پینتالیس ڈگری، پھر نوے ڈگری اور اس کے بعد ایک سو اسی ڈگری موڑ لیں۔ روش کی تبدیلی سے ان کی مراد یہ ہے۔ یعنی اسلامی نظام کو جڑ سے ختم کر دینا۔ یہ دشمنوں کا دراز مدتی منصوبہ ہے۔ تو یہ دشمن کا ہدف ہے، دشمن تو دشمن ہوتا ہے، جس طرح بھی ممکن ہو وہ دشمنی نکالے گا۔

انتخابات کے تعلق سے بھی چند باتیں عرض کر دوں؛ انتخابات ملک کے اندر ان میدانوں میں سے ایک میدان ہے جو ارتقا اور وقار میں اضافے با ضامن بھی بن سکتے ہیں اور کمزوری، تساہلی اور مشکلات کی وجہ بھی قرار پا سکتے ہیں۔ انتخابات کا یہی مزاج ہے۔ اگر عوام نے بھرپور انداز میں شرکت کی، اگر نظم و ضبط کے ساتھ شرکت کی، اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل کیا، اسلامی حدود و ضوابط کو ملحوظ رکھا، سب نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدام کیا تو یہی انتخابات اسلامی جمہوری نظام کی عزت و آبرو میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ لیکن اگر قانون شکنی کی، بداخلاقی کا مظاہرہ کیا، اگر اپنی باتوں اور بیانوں سے دشمن کے حوصلے بڑھائے تو یہی الیکشن ہمارے نقصان میں جائے گا۔ انتخابات ہمارے لئے کوئی نیا تجربہ تو نہیں ہے۔ ہم سینتیس سال سے اڑتیس سال سے انتخابات منعقد کرتے آئے ہیں۔ پہلے تقریبا ہر سال ایک الیکشن ہوتا تھا، ادھر کچھ برسوں سے ہر دو سال پر وسیع انتخابات ہوتے ہیں۔ انتخابات کے میدان میں ہم کافی تجربہ کار ہو چکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ الیکشن کیا ہے، ہمیں ادراک ہے کہ جو لوگ انتخابات کے امور سے وابستہ ہیں اور اس کے انعقاد کے ذمہ دار ہیں ان کے بارے میں کس طرح کی سوچ پیدا ہو سکتی ہے، انھیں کس طرح کے عناد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، ان کے لئے کیسے کیسے وسوسے پیدا کئے جا سکتے ہیں؟ ان چیزوں کا ہم تجربہ کر چکے ہیں اور یہ بالکل واضح ہے۔

میں تمام محترم صاحبان سے جو امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں گزارش کروں گا اور ان سے کہنا چاہوں گا کہ ہم عوام سے جو کہنا تھا وہ کہہ چکے ہیں، اب امیدواروں سے یہ کہنا چاہیں گے کہ اپنے وعدوں میں، اپنے بیانوں میں، اپنے ایجنڈے میں جسے وہ عوام کے سامنے  پیش کر رہے ہیں، توجہ رکھیں کہ دو تین چیزیں ضرور مد نظر رکھی گئی ہوں۔ ایک ہے اقتصادیات، اقتصادی مسائل پر ضرور توجہ دیں اور دو ٹوک انداز میں کہیں کہ ملکی معیشت کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ وہ کہیں کہ ان کی پہلی ترجیح عوام کی معیشت ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ محترم امیدوروں کے ایجنڈے میں، تقاریر میں اور عوام سے کئے جانے والے وعدوں میں جو چیز بالکل نمایاں طور پر نظر آنی چاہئے وہ ملت ایران کی قومی خود مختاری و ملی وقار ہے۔ ملت ایران ایک انقلابی قوم ہے، ایک سربلند قوم ہے، یہ وہ قوم ہے جو حد درجہ انحصار اور کمزوری کی حالت سے نکل کر خود کو بین الاقوامی وقار و اقتدار کی بلندی پر پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس قوم کو اب کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، اس قوم کو سرجھکانے پر مجبور کرنا مناسب نہیں ہے، اس قوم کو دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے یا بڑی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ یہ قوم اپنی قوت و توانائی کی وجہ سے زندہ ہے، اگر اس قوم کے پاس یہ قوت و توانائی نہ ہوتی جس کا وہ مظاہرہ کر رہی ہے تو دشمن بس اس پر اکتفا نہ کرتا کہ آکر ہمارے صدر کو یا کسی عہدیدار کو ایک حکم دیتا اور چلا جاتا! نہیں، وہ آکر اس ملک پر مسلط ہو جاتا۔ وہی کرتا جو وہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کرنا چاہتا ہے، وہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ وہی کرتے جو دنیا کے مختلف علاقوں منجملہ ہمارے علاقے کی بے آبرو اور ان کے اشارہ آبرو کی پابند حکومتوں کے ساتھ کیا ہے۔ دشمن وہی برتاؤ ملت ایران سے بھی کرتا۔ استکبار کے مقابلے میں قومی وقار، ملت کی سربلندی و عظمت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ انتخابی امیدواروں کو چاہئے کہ اس بات کو ظاہر کریں کہ امریکہ کے بے جا مطالبات کے سامنے اور صیہونیوں کی خباثتوں کے مقابلے میں وہ ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔

تیسرا نکتہ جس پر محترم امیدواروں کی تقاریر، وعدوں اور ایجنڈے میں خاص توجہ دی جانی چاہئے، قومی سلامتی اور قومی امن و سکون ہے۔ یہ کوشش کیجئے کہ مسلکی، جغرافیائی، لسانی یا قومیتی جذبات برانگیختہ نہ ہوں، اس کا بہت خیال رکھئے! برسوں سے ہمارے دشمن انھیں پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے دشمن کردستان پر کام کر رہے تھے، لیکن ہمارے مومن کرد عوام نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا۔ انھوں نے آذربائیجان کے غیور عوام پر کام کیا، سرمایہ کاری کی، لیکن آذربائیجان کے غیور عوام نے بھی انقلاب کے مالک کی حیثیت سے سر اوپر اٹھایا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو گئے، انھیں مسترد کر دیا۔ یہی سب خوزستان کے عرب عوام کے ساتھ، بلوچستان کے عوام کے ساتھ، ترکمن عوام کے ساتھ کیا گیا۔ دشمن کام کر رہا ہے، سرمایہ کاری کر رہا ہے، پیسے بانٹ رہا ہے، لوگوں کو خرید رہا ہے، نئے نئے شگوفے چھوڑتا ہے تاکہ یہ جذبات مشتعل ہو جائیں۔ لیکن ایرانی قومیتیں پوری طاقت سے، پورے اخلاص سے  اور بھرپور جذبہ ایمانی کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ صدارتی امیدوار بہت محتاط رہیں! کہیں تشخیص کی غلطی کی بنا پر ان سے وہ اقدام سرزد نہ ہو جائے جو دشمن پورا نہیں کر سکا بلکہ ادھورا چھوڑ دینے پر مجبور ہو گیا تھا۔ وہ دشمن کے مفاد پورے نہ کریں، ایسے جذبات کو برانگیختہ نہ کریں۔

سلامتی اور امن و سکون کا مسئلہ ملک کے لئے بہت  اہم ہے۔ انتخابات کے دوران سیکورٹی حکام، امن و سلامتی کے ذمہ داران، عدلیہ، پولیس فورس اور وزارت داخلہ سے لیکر بقیہ دیگر اداروں تک سب کو چاہئے کہ امن و سلامتی کی بھرپر حفاظت کریں۔ اگر کوئی بھی اس ملک کی سلامتی کے خلاف کوئی اقدام کرنا چاہے گا تو یقینا سخت جوابی کارروائي کا اسے سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات سب سن لیں! اس خبیث امریکی صیہونی سرمایہ دار نے کہا کہ میں نے ایک کروڑ ڈالر خرچ کرکے جارجیا کو تہہ و بالا کر دیا۔ 2009 میں وہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ بھی وہی سب کرنے کی فکر میں تھا۔ آپ دیکھئے کہ اندازے کی غلطی اور احمقانہ شناخت کس مقام پر پہنچی کہ عظیم اسلامی جمہوریہ کا اور عظیم ملت ایران کا موازنہ وہ دنیا کے نہیں معلوم کس نمبر کے ملک سے کرنے لگا! انھوں نے یہاں بھی وہی سب کرنے کی کوشش کی لیکن یہاں انھیں ملی عزم و ارادے کی مستحکم دیوار سے روبرو ہونا پڑا۔ آج بھی یہی صورت ہے۔ یہ بات سب سن لیں، اس ملک کے لئے امن و سلامتی حد درجہ اہمیت کی حامل ہے۔ عوام سیکورٹی کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور عوام کے اتباع میں یہ حقیر بھی سیکورٹی کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ انتخابات کے دوران سیکورٹی کی بھرپور حفاظت کی جانی چاہئے۔ جو بھی اس راستے سے تجاوز کرنے کی کوشش کرےگا یقینا منہ کی کھائے گا۔

ساری قوتیں اللہ کی ہیں، دلوں پر اللہ کی حکمرانی ہے، قلوب؛ «بَینَ اِصبَعَیِ الرَّحمٰن» (۱۰)- یعنی ارادہ خداوندی کے دائرے میں رہتے ہیں، دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ایران کے عوام نے لطف خداوندی پر تکیہ کرتے ہوئے بڑی ثابت قدمی سے یہ راستہ طے کیا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی آگے بڑھتے جائیں گے۔ ایران کے عوام کے اندر نوجوانوں کا کردار بہت نمایاں ہے، نوجوانوں میں آپ عزیز نوجوانوں کی ایک الگ ہی خصوصیت ہے۔ اس کی قدر کیجئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیجئے۔

پالنے والے! تجھے حضرت امام زمانہ کا واسطہ، تجھے اس ہستی کا واسطہ کہ «بِیُمنِهِ رُزِقَ الوَریٰ وَ بِوُجودِهِ ثَبَتَتِ الاَرضُ وَ السَّماء» (۱۱) ان جوانوں کو، بلکہ ملک کے تمام نوجوانوں کو، تمام ملت ایران کو اپنے لطف و عنایت کے سائے میں رکھ۔ ملت ایران کو دشمنوں پر فتحیاب کر۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ شہدا کی ارواح طیبہ کو، شہیدوں کے امام کی روح کو، محمد و آل محمد کی ارواح طیبہ کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) اس تقریب کے آغاز میں جو امام حسین علیہ السلام کیڈت یونیورسٹی میں منعقد ہوئی پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈ انچیف جنرل محمد علی جعفری اور امام حسین کیڈٹ یونیورسٹی کے کمانڈر ایڈمرل جنرل مرتضی صفاری نے بریفنگ دی۔

۲) صوبہ گلستان کے آزاد شہر علاقے میں معدن کے اندر دھماکے کے واقعے کی جانب اشارہ ہے جس میں متعدد کانکن جاں بحق اور زخمی ہو گئے۔

3) میر جاوہ سرحد پر دہشت گرد گروہ کے حملے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بارڈر سیکورٹی فورس کے کچھ اہلکاروں کی شہادت کے واقعے کی جانب اشارہ۔

4) احتجاج جلد2 صفہ 493

5) ایضا

6) ایضا

7) سورہ فتح آیت نمبر 29 کا ایک حصہ؛ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں.

۸) سوره‌ انفال آیت نمبر 60  کا ایک حصہ؛ اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے

۹) اسلامی نظام کے اعلی حکام سے خطاب ، مورخہ 23 اگست 2007

۱۰) عوالی اللئالی، جلد‌۱، صفحہ ۴۸ (قدرے فرق کے ساتھ)

۱۱) زاد المعاد (دعائے عدیله)، صفحہ ۴۲۳