بسم‌ اللہ ‌الرّحمن ‌الرّحیم

اس شب کی ہماری یہ نشست بہت دلنشیں، شیریں اور منفعت بخش نشست رہی۔ ایک تو بہت اچھے اشعار سننے کو ملے جس سے وطن عزیز کے اندر فارسی شاعری کے ارتقائی عمل کے سلسلے میں ہماری امیدیں اور بڑھیں۔ دوسرے یہ کہ ملک کے مختلف علاقوں کے، الگ الگ ذوق، نقطہ نگاہ اور ماحول کے شعرا یہاں تشریف لائے اور اپنے اشعار پیش کئے۔ جو بھی اشعار پیش کئے گئے تقریبا سب بہت اچھے اشعار تھے۔ یہ چیز مسرت بخش اور امید افزا ہے۔

شعر ایک قومی اثاثہ ہے۔ شعر کی تمام صنفیں؛ غزل، قصیدہ، رباعیات، قطعہ، مثنوی یا قدیمی شاعری کی تمام انواع و اقسام اسی طرح 'نیمائی سبک' کی شاعری ( فارسی شاعری کا معاصر سبک ہے جو فارسی ادبیات میں جدید شاعری کا شروعاتی نمونہ ہے، اس کے بانی معاصر ایرانی شاعر نیما یوشیج ہیں۔) یہ سب سرمایہ ہے، قومی ثروت ہے۔ البتہ یہ بہت اہم بات ہے کہ اس قومی سرمائے کو کس راستے میں بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک کوشش یہ کی گئی اور آج بھی کی جا رہی ہے کہ اس ثروت کو ایسے مفاہیم اور ایسے ابواب میں استعمال کیا جائے جو انقلاب سے ہمیں ملنے والے اور گہرائی تک اتر جانے والے مفاہیم سے مختلف ہیں۔ یہ کوشش ہو رہی ہے۔ اوائل انقلاب سے یہ کوشش ہوتی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب سے پہلے ہمارے یہاں بڑے پائے کے شعرا تھے، مختلف شعری اصناف کے بہت اعلی سطح کے شعرا تھے جو مختلف انداز میں اور مختلف سطح کے اشعار کہتے تھے، لیکن اس قوم کے کام آنے والے اشعار ان میں زیادہ نہیں ہوتے تھے، بہت کم ہوتے تھے، خواہ وہ پرانی شاعری ہو جسے صاحبان کلاسیکل شاعری کہتے ہیں یا جدید شاعری ہو۔

اس زمانے کی ادبی فضا میں ہم تھے، ہم دیکھتے تھے۔ کچھ لوگ تھے جو شعر کہتے تھے، جدید طرز کی شاعری کرتے تھے، روشن خیالی اور جدت فکری کے دعویدار بھی تھے، لیکن حقیقت میں ملک کی پیشرفت میں، ملک کے صحیح اور حقیقی احیاء میں کوئی مدد نہیں کرتے تھے۔ بہت سے شعرا جو جدید طرز کی شاعری کرتے تھے، اس پر بہت نازاں تھے اور بڑے طمطراق سے رہتے تھے کہ جدید مفاہیم پر کام کر رہے ہیں، دربار سے وابستہ اداروں اور دربار سے تعلق رکھنے والے افراد کے سامنے سر بسجود رہتے تھے۔ یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ان اداروں اور افراد سے تعاون کرتے تھے بلکہ حقیقت میں ان کی غلامی کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کو ہم قریب سے جانتے تھے اور بعض سے دور کی واقفیت رکھتے تھے۔ ہم ان کے اس انداز کو دیکھتے تھے اور بخوبی پہچانتے تھے۔ شاعری انقلاب کے نعروں اور مفاہیم کے لئے کام نہیں کر رہی تھی، شعر ملک میں بیداری و آگاہی پھیلانے کے لئے نہیں کہے جاتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ بالکل نہیں تھے۔ اشعار کہے جاتے تھے لیکن وہ بہت کم تھے۔ جس پیمانے پر شاعری ہونی چاہئے تھی اس کے مقابلے میں بہت کم اشعار ہوتے تھے۔ جو اشعار کہے جاتے تھے وہ بھی ایسے نہیں ہوتے تھے کہ اس سے سماج کا عام انسان اور رہبری و رہنمائی کا محتاج شخص استفادہ کر سکتا۔

آپ دیکھئے کہ اس زمانے کے جدت پسند شعرا میں جو صف اول کے اور بالکل چنندہ شعرا تھے جن کے اشعار میں اس قسم کے مفاہیم ہوا کرتے تھے، ان میں سب سے نمایاں اخوان (2) تھے۔ لیکن اخوان کے اشعار ایسے ہیں کہ بہت سے افراد کی سمجھ سے بالاتر ہوتے تھے، اس قدر علامتی اور رمزیہ اشعار کہتے تھے کہ بہت سے افراد انھیں سمجھ ہی نہیں پاتے تھے۔ البتہ وہ افراد جو اس انداز سے واقف تھے، کنائے کی اس زبان سے آشنائی رکھتے تھے وہ سمجھ لیتے تھے۔ بعض دیگر شعرا تھے جو اس میدان سے بالکل بیگانہ تھے، جنھوں نے اس میدان کا رخ ہی نہیں کیا وہ دوسرے مضامین پر کام کرتے تھے۔ کلاسیکل شعرا کا بھی یہی حال ہے۔ البتہ گوشہ و کنار میں ایسے چند شعرا تھے جو دینی موضوعات پر اور انقلاب کے موضوعات پر طبع آزمائی کرتے تھے، لیکن وہ بس گنے چنے تھے۔ شاعری ملک میں بصیرت پیدا کرنے اور ملک کو آگے لے جانے جیسے امور سے بیگانہ تھی۔

انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد یہ روش بدلی، نوجوان اور بلند ہمت افراد سامنے آئے، وہی نوجوان جو بعد میں بحمد اللہ بڑے بلند شعری مقام پر پہنچے۔ جیسے حسینی مرحوم، جیسے یہی قیصر امین پور مرحوم، یا جناب علی معلم جو ہماری اس نشست میں تشریف نہیں رکھتے (3)۔ اسی طرح کچھ دیگر شعرا جو اوائل انقلاب کے نوجوان شعرا تھے۔ انھوں نے واقعی بڑی خدمت کی۔ یعنی انقلاب کو ایک نئی وادی میں پہنچایا۔ ان جیسے افراد نے حقیقت میں بڑی خدمت کی ہے۔ بہت محدود تعداد میں تھے، لیکن روز بروز ان کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ البتہ میں بعض اوقات ایسی شعری تخلیقات بھی دیکھتا ہوں جو دیگر مفاہیم اور مضامین کی پیشکش کرتی ہیں، ان میں سے بعض میں تو اسلامی مفاہیم اور انقلابی مفاہیم کی نسبت عناد بھی نظر آتا ہے، بعض میں عناد نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی اس قسم کے اشعار بھی ہمارے لئے لائے جاتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں، لیکن آج ملکی سطح پر غلبہ ان اشعار کا ہے جو انقلاب کے باب میں کہے جا رہے ہیں، کبھی ان میں مذہبی مفاہیم پروئے جاتے ہیں، کبھی مقدس دفاع کے مضامین کو باندھا جاتا ہے، یا اسی طرح کے دیگر مسائل کو ڈھالا جاتا ہے۔ انواع و اقسام کے اشعار ہیں۔ آج خوش قسمتی سے یہ عظیم ثروت اس سمت اور اس راہ میں استعمال ہو رہی ہے۔

چند سال قبل تک شعری ذوق و فن تھا لیکن شعری سطح کم تھی، بلند نہیں تھی، خوشی کا مقام ہے کہ شعری سطح میں بھی ارتقاء دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں ان میں یہ فرق انسان صاف طور پر محسوس کر سکتا ہے۔ اوائل میں نیمہ ماہ رمضان کی اسی محفل میں، ظاہر ہے اس محفل کا سلسلہ کئی سال سے، شاید تیس سال یا اس سے زیادہ عرصے سے چلا آ رہا ہے، میں سنتا تھا، لیکن جو اشعار پڑھے جاتے تھے انھیں سن کر حسرت ہوتی تھی، کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ اشعار کی سطح مناسب اور اطمینان بخش نہیں ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ان دوستوں میں سے جس نے بھی اشعار پڑھے سن کر فخر کا احساس ہوا۔ انسان صاف طور پر محسوس کر سکتا ہے کہ الحمد للہ پیشرفت ہو رہی ہے۔ یعنی فن شاعری، روئش اور بالیدگی کا مزاج رکھنے والا یہ فن مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، ارتقائی سفر طے کر رہا ہے۔ فن شاعری کا یہی مزاج ہے۔ خود فن کا یہی مزاج ہوتا ہے۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر ان پر مسلسل کام ہو رہا ہے تو اسی طرح آگے بڑھتے ہیں۔ اس درخت کی مانند جو روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس درخت کا خیال رکھا جائے، اس پر توجہ دی جائے، اس کی آبیاری کی جائے،خشک شاخوں اور پتوں کو اس سے دور ہٹایا جائے۔ یہ سارے کام کئے جائیں تو درخت روز بروز نمو کی منزلیں طے کرتا رہے گا اور اس کے ثمرات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ آج بحمد اللہ ملک کے اندر فن شاعری اسی مقام پر پہنچ چکا ہے۔ تو یہ دو خصوصیات ہیں۔ ایک تو فن شعر، یہ عظیم انسانی سرمایہ، دیگر شعبوں کی نسبت اعلی مفاہیم کی خدمت میں استعمال ہو رہا ہے اور دوسرے یہ کہ ان مفاہیم کو پرونے والے اشعار کا معیار بھی بلند ہے، بہت اچھا ہے اور اس میں روز بروز بہتری ہی آ رہی ہے۔ اس میں مسلسل نمو دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ دو نکتے ہیں۔

تاہم میں اس سلسلے میں یہی عرض کروں گا کہ ٹھہر جانا اور یہ محسوس کر لینا کہ ہم آخری منزل پر پہنچ چکے ہیں، اگر آپ حضرات کے اندر، جن لوگوں نے اپنے اچھے اشعار یہاں پیش کئے اور جسے سن کر بڑا لطف آیا، اگر یہی لوگ یہ محسوس کر لیں کہ مطلوبہ منزل پر پہنچ چکے ہیں اور اب مزید آگے نہیں جانا ہے تو یقینا جمود کی کیفیت پیدا ہوگی، تنزلی ہوگی، انحطاط ہوگا۔ یوں بھی یہ سوچ غلط ہے۔ یعنی اگر اس وقت یہاں تشریف فرما شعرا کا تقابلی جائزہ لیا جائے اور کوئی شاعر اول قرار پائے تب بھی شعری دنیا میں وہ پہلے نمبر کا شاعر نہیں ہے، کیونکہ اس دنیا میں موجود سعدی، حافظ، فردوسی اور جامی سے اس کا فاصلہ بہت زیادہ ہے، اسے اس منزل تک پہنچنا ہے، بلکہ ان سے بھی آگے جایا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حافط فن شاعری کی آخری منزل ہیں، نہیں! ان سے بھی آگے جایا جا سکتا ہے۔ شعر میں الفاظ اور ترکیبوں کے استعمال کے اعتبار سے بھی اور نئے مضامین کی جدت و ندرت کے اعتبار سے بھی۔ مثال کے طور پر آپ صائب کی شاعری میں، کلیم کی شاعری میں اور حزین کی شاعری میں اور سب سے بڑھ کر بے دل کی شاعری میں یہ چیز نمایاں طور پر دیکھیں گے۔ تو ان میدانوں میں بہت کام کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ شجر نمو و بالیدگی کی ابھی بڑی گنجائش اور ظرفیت رکھتا ہے۔

تو میں یہ عرض کروں گا کہ جو احباب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کے اشعار لوگوں کو داد دینے پر مجبور کر دیتے ہیں، وہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ؛ 'اب تو ہم الحمد للہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے!' بدستور طبع آزمائی کرتے رہیں، محنت کرتے رہیں، آگے بڑھتے رہیں۔ شعر کے میدان میں دیکھا جائے تو دور حاضر سے قبل والے دور میں ہمارے سامنے ایسے شعرا موجود ہیں جو فن شاعری کے اعتبار سے زیادہ بلند سطح پر نظر آتے ہیں۔ یعنی واقعی ایسے افراد تھے جو غزلیات میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ یہاں میں مضمون کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ ممکن ہے کہ جو مضمون انھوں نے باندھا ہے اسے ہم پسند نہ کریں، لیکن قالب و پیرائے کے اعتبار سے، تغزل کے اعتبار سے ان کی سطح بہت بلند تھی۔ مثال کے طور پر امیری فیروزکوہی، یا رھی معیری، اسی طرح اواخر کے شعرا جیسے قہرمان مرحوم یا قدسی اور دیگر شعرا، فن شاعری کے اعتبار سے ان کی سطح کافی بلند تھی۔ ان کو کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ جدید شاعری میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس میدان میں بھی ایسے شعرا تھے جو واقعی بہت اونچی سطح پر تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ہم پہچانتے تھے، میں ان سے واقف تھا جیسے اخوان مرحوم وغیرہ۔ بہرحال مسلسل آگے بڑھنا ہے، ٹھہر جانا مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

اشعار کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تدبر اور باریک بینی سے کام کیجئے۔ مضمون تلاش کرنے کے سلسلے میں بھی، الفاظ کی بندش کے سلسلے میں بھی اور اشعار کو آج کی اہم ضرورتوں کی سمت موڑنے کے سلسلے میں بھی۔ ان مضامین کو تلاش کیجئے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ہم ایرانی اپنی شخصیات، حقائق اور واقعات کی ترجمانی و عکاسی میں تساہلی برتتے ہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ اب یہ عمرانیات کے ماہرین کا کام ہے کہ وہ تحقیق کریں اور دیکھیں کہ یہ تساہلی ہماری ملی خصوصیت ہے یا ایک طویل عرصے سے ہم پر اس عادت کو مسلط کر دیا گیا ہے؟ ہم اپنی اہم شخصیات کے بارے میں کام نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) تو پہلے درجے کی شخصیت ہیں۔ یعنی دوست ہو یا دشمن کسی کو بھی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہے اور اس شخصیت کی عظمت و رفعت میں کسی کو کوئی کلام نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کوئي شخص انھیں نہ مانتا ہو لیکن ان کی انفرادی شخصیت کی عظمت کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ اب دیکھئے کہ اتنی عظیم شخصیت جو ہمارے درمیان تھی اور ہمارے درمیان سے ان کو رخصت ہوئے تقریبا تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ہم نے ان کے بارے میں کتنی کتابیں لکھی ہیں؟ آپ غور کیجئے اور دیکھئے کہ ہم نے کتنی کتابیں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر لکھی ہیں؟ اس کا موازنہ آپ مثال کے طور پر امریکہ میں ابراہم لنکن پر لکھی جانے والی کتب سے کیجئے! میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا ہے کہ ابراہم لنکن پر لکھی گئی کتابوں کو اگر تلے اوپر رکھ دیا جائے تو دس میٹر کا ایک ستون تیار ہو جائے گا۔ یہ صورت حال ہے! حالانکہ ابراہم لنکن کے ساتھ ایک ٹائٹل وابستہ ہے، البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ٹائٹل بھی غلط ہے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ ابراہم لنکن غلاموں کی آزادی کا سبب بنے یا اس طرح کی جو دوسری باتیں ہیں، بے بنیاد ہیں۔ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن بہرحال یہ ٹائٹل انھیں دے دیا گيا ہے۔ مگر امریکہ کے معمولی صدور کے بارے میں جیسے آئيزن ہاور کے بارے میں یا دیگر صدور کے بارے میں ہزاروں کتابیں لکھی گئي ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اب آپ دیکھئے کہ امام خمینی کے بارے میں ہم نے کتنی کتابیں لکھی ہیں؟ یہ ہے صورت حال۔ ہم ان میدانوں میں بہت پيچھے ہیں۔ البتہ ہم ایرانی ہی پیچھے ہیں، اس لئے کہ میں نے عرب ممالک میں دیکھا ہے کہ جو واقعات ہوتے ہیں، فورا ان پر کتابیں ضبط تحریر میں آ جاتی ہیں۔ فورا تجزئے اور سیاسی کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ مختلف پہلوؤں سے، مختلف زاویوں سے، مختلف رجحانات کے ساتھ، حمایت میں یا مخالفت میں تجزیہ وغیرہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان میدانوں میں ہم واقعی پیچھے ہیں۔ شاعری کے میدان میں بھی یہی صورت حال ہے۔

مثال کے طور پر آپ شام کے حالات کو دیکھئے، حرم اہلبیت کے محافظین کے موضوع کو دیکھئے، واقعی بہت مناسب ہے کہ ان موضوعات کے بارے میں سیکڑوں نظمیں لکھی جائیں۔ یا عراق کے واقعات ہیں، عراق کے واقعات بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ البتہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عراق کے معاملے میں ہمارے عوام کی اکثریت کو حقیقت ماجرا کا اور عراق میں جو کچھ ہوا اس کا، عراق میں امریکی جو کچھ کرنا چاہتے تھے اور کس طرح ان کے ارادوں پر پانی پھر گيا اور کن وجوہات کی بنا پر یہ صورت حال ہوئی، ان چیزوں کا علم نہیں ہے۔ لیکن واقعی عراق کا قضیہ بڑا حیرت انگیز ہے۔ صدام حسین کا عراق شہید حکیم کا عراق بن گیا ہے! آپ دیکھئے کہ کتنی مدت کا فاصلہ ہے؟ اتنی سی مدت میں اتنی بڑی تبدیلی قابل تصور نہیں ہے، لیکن ایسا ہوا۔ اس کے بارے میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں نظمیں کہی جا سکتی ہیں۔ اس پر تو شعری مجموعے تیار ہو سکتے ہیں۔

آج مجھے ایک صاحب نے ایک شعری مجموعہ دکھایا جو انھوں نے کہا تھا، میں نے دیکھا۔ اس وقت مجھے یاد نہیں ہے کہ قطعات تھے یا نہیں، غالبا قطعات ہی تھے، بہرحال یہ شعری مجموعہ تھا۔ ایک اہم کام جو اب تک ہم بخوبی انجام نہیں دے سکے ہیں شعری مجموعوں کا کام ہے۔ ایک موضوع لیجئے اور اس پر شعری مجموعہ تیار کیجئے۔  ہمارے قدیمی شعرا نے یہی کیا ہے۔ امیری فیروزکوہی مرحوم کی ایک اہم خدمت شعری مجموعہ ہے۔ آپ نے کئی انداز سے شاعری کی ہے۔ کم سے کم تین صنف سخن پر کام کیا ہے، تین سبک کی شاعری کی ہے۔ غزلیات بھی کہتے تھے، غزلیات ایک الگ سبک میں، پرکشش اور دلنشیں سبک ہندی میں پرمغز غزلیں کہتے تھے، اس کے علاوہ سبک خاقانی میں قصیدہ کہتے تھے، اگر امیری فیروزکوہی کے قصائد کو کوئی دیکھے تو بعض جگہوں پر اسے ایسا محسوس ہوگا کہ خاقانی کا ہی کوئی قصیدہ پڑھ رہا ہے۔ واقعی خاقانی سبک کے قصائد کہے ہیں، اس کے علاوہ ان کے کچھ اشعار ایسے تھے جو ان دونوں ہی سبک سے مختلف تھے۔ نئے سبک کے اشعار تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے شمالی ایران میں سیمین دشت کے علاقے میں جہاں ان کی کچھ املاک تھیں، وہاں کے ایک درخت کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔ یعنی ماضی میں یہ کام ہوتے رہے ہیں۔ یا انھیں جناب الہی قمشہ ای نے نغمہ حسینی کے عنوان سے جو کلام موزوں کیا ہے۔ نغمہ حسینی انھوں نے اپنے فرزند حسین صاحب کے لئے کہا جو آج کل کافی معروف ہیں۔ خود جناب الہی قمشہ ای مرحوم نے مجھے یہ واقعہ بتایا کہ ان کا یہ بچہ بیمار تھا اور اس شیر خوار بچے کے زندہ بچنے کی امید ختم ہو چکی تھی۔ انھوں نے منت مانی کہ اگر بچہ زندہ بچ گیا تو وہ امام حسین علیہ السلام کی شان میں ایک شعری مجموعہ کہیں گے۔  ان کا بیان ہے کہ میں سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک دیکھتا ہوں کہ بچے کی جان نکل رہی ہے، آخری سانسیں تھیں، موت کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ ماں بچے کی جانکنی کا عالم نہ دیکھے اس مقصد سے میں نے ان سے کہا کہ آپ چھت پر جائیے اور وہاں جاکر برہنہ سر دعا کیجئے، میں چاہ رہا تھا کہ اسی بہانے وہ بچے کے سرہانے سے ہٹ جائیں تاکہ بچے کے احتضار کے لمحات نہ دیکھیں، تاہم میرے ذہن میں اس منت کا خیال آیا کہ اگر بچہ ٹھیک ہو گیا تو میں امام حسین علیہ السلام کے بارے میں منقبت لکھوں گا۔ اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ نگارش کہاں سے شروع کی جائے اور اشعار کس انداز سے لکھے جائیں، اسی طرح کے خیالات آ رہے تھے، اچانک مجھے حضرت علی اصغر اور آپ کی تشنگی کا خیال آیا۔ یہیں سے میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ اس بچے نے تین چار دن سے نہ پانی پیا ہے اور نہ دودھ اس لئے کہ ڈاکٹر نے منع کیا تھا، ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کے لئے پانی اور دودھ دونوں ہی نقصان دہ ہیں، اگر پئے گا تو زندہ نہیں بچے گا۔ میں نے سوچا کہ یہ بچہ پیاسا ہے اور جانکنی کے عالم میں ہے۔ لاؤ اسے پانی پلا دوں کیونکہ جب یہ مر ہی رہا ہے تو کم از کم پیاسا نہ مرے۔ وہ بتا رہے تھے کہ میں اپنی جگہ سے اٹھا، پانی لیکر آیا اور چائے کے چمچے سے ایک ایک قطرہ پانی اس کے ہونٹوں کے اندر ٹپکانے لگا۔ میں نے دو تین بار ایسا کیا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ بچے نے آنکھیں کھول دیں۔ میں نے اسے اور پانی پلایا۔ پھر وہ رونے لگا۔ میں زینے کے پاس گيا اور بچے کی ماں کو آواز دی کہ آؤ بچے کو دودھ پلاؤ! وہ کہتے ہیں کہ ماں نے یہ سنا تو انھیں یہ لگا کہ بچہ شاید ختم ہو چکا ہے اور میں شدت غم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ آؤ بچے کو دودھ پلاؤ! وہ نیچے آئیں تو دیکھا کہ نہیں، بچہ تو رو رہا ہے اور دودھ مانگ رہا ہے۔ انھوں نے دودھ پلانا شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بچہ بالکل ٹھیک ہو گیا! البتہ انھوں نے یہ واقعہ نغمہ حسینی کے مقدمے میں بھی لکھا ہے۔ تاہم انھوں نے جو مجھے بتایا اور جو نغمہ حسینی کے مقدمے میں لکھا ہے دونوں میں قدرے فرق ہے۔

در [ورق] دفتر نام و نشان  -  نامْ حسین آمدش از آسمان

یہ حسین الہی قمشہ ای جو پروگرام پیش کرتے ہیں، یہ واقعہ انھیں کا ہے۔ خیر انھوں نے نغمہ حسینی کی نگارش کی۔ جناب الہی قمشہ ای کے بہترین اشعار میں یہی نغمہ حسینی کے اشعار ہیں۔ یعنی یہ جناب الہی قمشہ ای کے بہترین اشعار ہیں۔ تو ہمارے یہاں شعری مجموعوں کی کمی ہے۔

دوستوں میں سے ایک صاحب نے متوجہ کیا کہ ہمارے یہاں جن چیزوں کا فقدان ہے ان میں سے ایک بقول ان کے ہجو کا 'Genre' بھی ہے۔ آجکل یہ فرنگی اصطلاحات اس قدر رائج ہو گئی ہیں کہ گویا اگر وہ اصطلاح استعمال نہ ہوگی تو لوگ بات ہی نہیں سمجھ پائیں گے!! مراد ہے ہجو کی صنف۔ پیغمبر اکرم نے حسان ابن ثابت سے فرمایا کہ ان لوگوں کی ہجو کرو اور حسان ابن ثابت نے ان کی ہجو پر کام شروع کر دیا۔ آپ بھی ہجو کیجئے۔ یہ شمشیر کا جو رقص ہوا ہے! اس میں ماڈرن  جاہلیت قبائلی جاہلیت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے! (ہجو کے لئے) اس سے بہتر اور اس سے زیادہ پرکشش منظر اور کیا ہو سکتا ہے؟! شعر میں اس کی ہجو کیجئے۔ اس مضمون پر ایک ہزار شعر کہے جا سکتے ہیں۔ ہجو گوئی ایک صنف ہے، طنزیہ شاعری بھی ایک اہم موضوع ہے، ویسے خوش قسمتی سے طنزیہ شاعری ہو رہی ہے۔ آج بھی جناب عالی نے طنزیہ اشعار پڑھے اور جناب ناصر فیض صاحب بھی تشریف رکھتے تھے لیکن انھوں نے نہیں پڑھا، دوسرے بھی شعرا ہیں۔ الحمد للہ طنزیہ شاعری کی صنف کی حالت بری نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ اس میدان میں پیشرفت ہوئی ہے۔ تاہم ہجو گوئی کا خلاء موجود ہے۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کی ہجو کی جانی چاہئے۔ مثال کے طور پر اچانک سعودی عرب کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں کوئی عہدہ دے دیا جاتا ہے! تو اس سے زیادہ طرفہ تماشا اور کیا ہو سکتا ہے۔ واقعی اس کی ہجو کی جانی چاہئے۔ ہجو نہ کی جائے تو بڑے افسوس کی بات ہوگی (4)۔ ایسے واقعے کی ہجو نہ کی جائے تو افسوس کا مقام ہے، یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تو یہ رہا ہجو گوئی کا مسئلہ۔ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے۔ اب بارہ بج چکے ہیں اس لئے خدا حافظ!

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں بعض شعرا نے اپنے کلام پیش کئے۔

۲) مہدی اخوان ثالث

۳) حاضرین میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ وہ بیماری کی وجہ سے اس پروگرام میں تشریف نہیں لا سکے۔

۴) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے