بسم الله الرّحمن الرّحیم
ہمدانی بھائیوں کا، آپ عزیزوں کا خیر مقدم ہے۔ آپ نے اپنی اس گفتگو سے شہر ہمدان کے بارے میں اور ہمدان کی شخصیات کے بارے میں ہماری جو یادیں ہیں انھیں تازہ کر دیا۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔
کسی شہر یا کسی صوبے کی شخصیات کی قدردانی سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک تو اس شخصیت کا تعارف ہو جاتا ہے دوسرے اس شہر، صوبے یا علاقے کا بھی تعارف ہو جاتا ہے۔ آپ جب آقا نجفی مرحوم کی قدردانی کریں گے تو اس کے ساتھ ہی ہمدان کا ذکر، ہمدان کی تاریخ کا ذکر، ہمدان کی شخصیات کا بھی ذکر کریں گے اور ہمدان کی دوسری بہت سی خصوصیات، دیکھنے اور سننے والوں کے سامنے آئیں گے اور آپ ہمدان کا بھی تعارف کرا دیں گے۔ یہ بزرگوں کو یاد کرنے کی برکت ہے۔
ہمدان کے انھیں حالیہ ادوار میں بھی آخوند ملا حسین قلی ہمدانی مرحوم، الحاج شیخ محمد بہاری مرحوم، آقا سید علی عرب یعنی مرحوم کے والد اور دیگر علمائے کرام تھے۔ یہ ایسی شخصیات ہیں کہ جو علمی اعتبار سے بھی بہت نمایاں ہیں اور روحانی و عرفانی اعتبار سے بھی بڑی رفعتوں کی حامل ہیں۔ یہ ان شخصیات کی ایک خصوصیت ہے۔ در حقیقت اس شہر کی ایک خصوصیت اور مردم خیزی ہے کہ اس کثیر تعداد میں اتنی نمایاں اور اہم شخصیات اس شہر میں جمع ہوئیں اور ان ہستیوں نے اپنے اندر علمی مقام و منزلت کے اعتبار سے دینی درسگاہوں میں رائج علوم جیسے فقہ، اصول، فلسفہ وغیرہ کے میدانوں کے اعلی مقام اور ساتھ ہی اخلاق و عرفان، سیر و سلوک اور مراقبے کے مدارج کو ایک ساتھ جمع کیا۔ اس کیفیت کا سب سے کامل مصداق جو حالیہ ادوار میں نظر آیا وہ آخوند ملا حسین قلی تھے، آپ کے بعد آپ کے شاگرد تھے، یہاں تک یہ یہ سلسلہ ان ہستیوں تک پہنچا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو ہمدان کو ان شخصیات کا گہوارا ہونے کا فخر حاصل ہے۔
آقا نجفی مرحوم کے بارے میں بات کی جائے تو بد قسمتی سے مجھے یہ توفیق نہیں ملی کہ آپ کی صحبت میں بیٹھتا، آپ سے ملاقات کرتا۔ یہ اتفاق نہیں ہوا لیکن غائبانہ طور پر میں آپ کو پہچانتا تھا۔ یہ دونوں کتابیں جن کا نام لیا گيا، جن میں سے ایک تفسیر کے موضوع پر ہے جس کا 'انوار درخشان' نام ہے، دوسری 'درخشان' ہے جو اصول کافی کی ایک پرتو ہے۔ یعنی حدیث کے موضوع سے متعلق ہے۔ یہ کتابیں مجھے بھی بھیجی گئیں، میں نے کبھی کبھی ان کتابوں سے رجوع بھی کیا۔ ان کے مصنف واقعی جلیل القدر عالم دین اور صاحب رائے مفکر ہیں اور ساتھ ہی فارسی قلمکار ہیں۔ یہ بھی بڑی اہم چیز ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اتنی عظمتوں اور رفعتوں کے باوجود علامہ مجلسی مرحوم اپنا فریضہ سمجھتے تھے کہ فارسی میں بھی کتابیں لکھیں۔ بحار جیسی عظیم کتاب کے ساتھ جو واقعی ایک سمندر ہے، حق الیقین اور حیات القلوب کو لکھنا یعنی فارسی تصنیف عوام کے مطالعے کے لئے، یہ اہم چیز ہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ آقا نجفی مرحوم نے فارسی تصنیفات میں عصری ادبیات کو ملحوظ رکھا ہے اور اس سے استفادہ کیا ہے یا نہیں، تو یہ ایک الگ بحث ہے، اگر اس میدان میں کوئی کمی ہے جیسا کہ آپ نے کہا (2) تو اس کا حل یہ ہے کہ قم کے افاضل میں سے کچھ افراد باریکیوں کی نشاندہی کریں اور ادبیات کے تقاضوں کے اعتبار سے ان میں تبدیلیاں کریں۔ مگر اپنی جگہ اس جذبے کی بڑی اہمیت ہے۔ عوام کے ساتھ رہنے کا جذبہ۔ اس فعال، محنتی اور پرمغز ذہن کو عوام کی رسائی میں لانا۔ اس جذبے کا مظاہرہ آقا نجفی مرحوم نے کیا ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کے درجات یقینا بلند ہیں اور اللہ انھیں اور بھی بلندی عطا فرمائے۔
عرفان و سلوک کے میدان میں آپ اپنے والد بزرگوار اور نجف کے دیگر اساتذہ جیسے آقا قاضی مرحوم (3) اور دیگر اساتید سے کسب فیض کرتے رہے۔ علمی میدان میں آقای نائینی مرحوم (4)، الحاج شیخ محمد حسین (5) اور دیگر علما کے شاگرد تھے۔ واقعی آپ نے بڑی محنت کی۔ میں نے سنا ہے کہ آپ نے درس خارج کے پورے ایک دورے کو قلمبند کیا ہے۔ اسی انٹرویو میں (6) جس کا حوالہ جناب صالحی صاحب نے دیا، میں نے بھی وہ انٹرویو پڑھا ہے، اس میں آپ نے اشارہ کیا ہے کہ نائینی مرحوم کے اصول فقہ کے درس خارج کو آپ نے قلمبند کیا ہے اور اپنی اس تحریر کو آقا نائینی کو دکھایا بھی تھا۔ یہ چیزیں بڑی اہم ہیں۔ یعنی واقعی اگر آج ایسی کوئی چیز موجود ہے، آمادہ ہے اور دینی درسگاہوں کو سونپی جا سکتی ہے تو علمی اعتبار سے یہ بڑا اہم کام ہوگا، یہ ہمارے علمی اور علم اصول کے سرمائے کا ایک اہم حصہ قرارپا ئے گا۔ علمی اعتبار سے آپ کا درجہ بہت بلند ہے۔
عرفان و سلوک کے میدان میں بھی واقعی آپ بڑے پارسا اور مومن انسان تھے۔ تاہم ان تمام خصوصیات کے ساتھ ایک اہم خصوصیت جو بہت نمایاں نظر آتی ہے؛ آپ کا انقلابی عمل ہے۔ جنگ کے دوران ایک دو بار میرا ہمدان جانا ہوا۔ اس زمانے میں آپ اور آقا تالہی (7) یہ دونوں بزرگ محاذ جنگ پر جانے والے نوجوانوں سے بڑے مانوس رہتے تھے، گویا آپ خود بھی انھیں نوجوانوں کا حصہ تھے۔ ہمیشہ ہمیں لوگ بتاتے تھے، ہمدان سے تعلق رکھنے والے احباب سے ہم ہمیشہ سنتے تھے، لوگ بیان کرتے تھے کہ مجھے لگتا ہے کہ وہیں پر لوگوں نے ہمیں اس بارے میں بتایا تھا کہ یہ دونوں بزرگ ایسے تھے کہ محاذ جنگ پر جانے والے نوجوانوں کے مرجع خلائق کہے جاتے تھے۔ مسجد میں جانا، نماز میں شریک ہونا، ان کے گھر جانا اور محاذ جنگ کا رخ کرنا ہر معاملے میں۔ یہ بہت اہم چیز ہے کہ کوئي شخص اس عمر میں اتنے بلند علمی مدارج پر فائز ہونے کے باوجود اپنے زمانے کے اہم مسائل سے غافل نہ رہے۔ بعض لوگ اپنے زمانے کے اس اہم ترین مسئلے سے جو در حقیقت دشمن کے حملے کا معاملہ، ملک کو در پیش خطرے کا معاملہ، ملت کو لاحق خطرے کا معاملہ انقلاب اور اسلامی نظام کو در پیش خطرے کا معاملہ تھا بے خبر تھے۔ ایسے بھی افراد تھے جو ان چیزوں سے غافل تھے۔ ایسے میں اس ہستی کا ان مسائل پر توجہ رکھنا اور ان نوجوانوں کی قدر کرنا ہماری نظر میں بہت بڑی خصوصیت ہے۔
بہرحال ہم آپ حضرات کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ان بزرگوار کے نام کا احیا کیا اور ان کی قدردانی کر رہے ہیں۔ بہت اچھا ہے کہ یہی کام آقا تالّہی مرحوم کے لئے اور صوبہ ہمدان کی دیگر ہستیوں کے لئے بھی انجام دیا جائے۔ جناب محمدی صاحب نے کچھ ناموں کا ذکر کیا لیکن اور بھی اہم شخصیات ہیں۔ مثال کے طور پر آخوند ملا علی نھاوندی مرحوم صاحب تشریح الاصول اسی صوبہ ہمدان کے بڑے نمایاں فقیہ، عالم دین اور ماہر اصول فقہ ہیں۔ نہاوند سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اہم ہمدانی ہستیاں بھی ہیں۔ اگر ایک ایک کرکے ان شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا جائے تو جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس سے صرف ان ہستیوں کی قدردانی نہیں ہوگی بلکہ ہمدان کی، اس عالم پرور اور علم پرور خطے کی بھی قدردانی ہوگی۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے، آپ کے بھی دنیاوی اور اخروی درجات بلند کرے۔ میرے خیال میں یہاں ان کے صاحب زادوں میں سے بھی ایک صاحب (8) یہاں تشریف رکھتے ہیں، ہماری صدارت کے زمانے میں آپ ہمارے ساتھ کام کرتے تھے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ جناب انصاری (9) صاحب تو ان کے نواسے ہیں۔ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔
ہمدان کے ہمارے وہ برادران عزیز جو آقا نجفی کے لئے پروگرام کر رہے ہیں اس بات پر توجہ رکھیں کہ آپ حسن انتخاب پر توجہ دیں اور بڑی ہنرمندی اور عقلمندی سے یہ کام انجام دیا جائے۔ بسا اوقات ہم محنت تو کرتے ہیں لیکن کام اس موثر انداز میں نہیں ہو پاتا، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہے غور و خوص کیجئے اور یہ کام بڑی دانشمندی سے، بڑی عقلمندی سے اور بڑے فنکارانہ انداز میں انجام دیجئے جو ان شاء اللہ موثر واقع ہو۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) اس ملاقات میں جو اجتماعی ملاقاتوں کے نہج پر انجام پائی، صوبہ ہمدان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور سیمینار کی منتظمہ کونسل کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین غیاث الدین طہ محمدی، وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت اور سیمینار کی پالیسی ساز کمیٹی کے سربراہ سید عباس صالحی، ہمدان کے گورنر اور منتظمہ کمیٹی کے نائب سربراہ محمد ناصر نیکبخت اور سیمینار کے کنوینر سید محمد کاظم حجازی نے کچھ نکات بیان کئے۔
۲) سیمینار کے کنوینر
3) آیت الله سیّد علی قاضی طباطبائی
4) آیت الله محمّد حسین غروی نائینی، مشهور به میرزائے نائینی
5) آیت الله شیخ محمّد حسین غروی اصفهانی
6) وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت کا اس نکتے کی جانب اشارہ کہ دینی درسگاہ سے مربوط ایک میگزین نے 1980 کے عشرے میں آپ سے ایک انٹرویو کرکے اسے شائع کیا تھا۔
7) آیت الله شیخ محمّد ہادی تألّہی
8) سیّد محسن عرب زاده ( آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دور صدارت میں ایوان صدر کے مالیاتی و انتظامی شعبے کے سربراہ تھے۔
9) آقا نجفی ہمدانی کے نواسے حجّتالاسلام شیخ مهدی انصاری