بسم ‌اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

یا مقلّب القلوب و الابصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الاحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال.

اللّهُمَّ اهدِنا هُدَی المُهتَدین وَ ارزُقنَا اجتِهادَ المُجتَهِدین.

مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام عزیز ہم وطنوں کو جو ملک میں رہتے ہیں یا دنیا کے دیگر کسی علاقے میں آباد ہیں، اسی طرح ان اقوام کو بھی جو نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں شہیدوں کے معزز خاندانوں، عزیز 'جانبازوں' (جنگی زخمیوں) اور ان کے اہل خانہ کو۔ خاص طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ملک کے نونہالوں اور نوجوانوں کو جو سرچمشہ امید اور وطن عزیز کی ملی تحریک کو آگے لے جانے والے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ یہ نوروز آپ کے لئے شیرین و شاد اور یہ سال خیر و برکت سے مملو رہے! اس سال قدرت کے موسم بہاراں کی آمد روحانی موسم بہار کے ساتھ ہوئی ہے۔ یعنی فروردین، اردیبہشت اور خرداد (مارچ سے شروع ہونے والے ہجری شمسی سال کے ابتدائی تین مہینے)، رجب، شعبان اور ماہ مبارک رمضان کے ساتھ آئے ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ اس سال ہمارے ملک اور ہماری ملت کو قدرتی اور روحانی دونوں نمو و ارتقا حاصل ہو۔ دل میں اس امید کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں کہ ان شاء اللہ مادی روئیدگی کے ساتھ روحانی روئیدگی اس ملت، اس ملک اور مستقبل کے لئے ایک ذخیرہ قرار پائے گی۔ حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہیں اور اپنے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو یاد کرتے ہیں اور آپ کی روح مطہر پر درود بھیجتے ہیں۔

چند باتیں سنہ 96 (گزشتہ ہجری شمسی سال) کے بارے میں اور چند جملے سنہ 97 (نئے ہجری شمسی سال) کے تعلق سے عرض کروں گا۔ سنہ 96 بھی دیگر برسوں کی مانند نشیب و فراز اور تلخ و شیریں واقعات کا مجموعہ رہا، ویسے ہی جیسے زندگی کے دیگر ادوار ہوتے ہیں۔ سنہ 96 کے شیریں واقعات میں آغاز سال سے اختتام سال تک ملت کی عظمت و قوت کا ظہور اور ملی شراکت تھی۔ اس سال کے اوائل میں صدارتی اور کونسلوں کے انتخابات میں عوام کی بڑی باعظمت اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی شرکت تھی۔ ملک کی آبادی میں سے چار کروڑ لوگوں نے انتخابات میں شرکت کی، یہ شرکت بڑی بامعنی اور خوش آئند تھی۔ اس کے بعد مبارک مہینے رمضان میں یوم قدس کے جلوسوں میں اور سال کے آخر میں 30 دسمبر کے جلوسوں میں اور سب سے بڑھ کر 11 فروری کی قابل دید ریلیوں میں شرکت۔ البتہ 30 دسمبر کے موقع پر جو آشوب کے واقعات ہوئے، جس کا میں ذکر کروں گا، عوام نے ملک کے مختلف شہروں میں پے در پے کئی دن تک از خود جلوس نکالے، یہ سب ان تمام میدانوں میں عظیم ملت ایران، صاحب بصیرت، ذی فہم اور مستعد ملت ایران کی موجودگی کی نشانی ہے جہاں عوام کے حاضر رہنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ سال کا ایک اور اہم اور شیریں واقعہ یہ رہا کہ اسلامی جمہوریہ علاقائی خطرات کو، کہ جن کا مقصد یا کم از کم مقاصد میں سے ایک مقصد اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگانا تھا، مواقع میں تبدیل کر دینے میں کامیاب ہوئی۔ صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ ان خطرات سے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ یہ مواقع میں تبدیل ہو گئے۔ جو لوگ بین الاقوامی مسائل سے باخبر ہیں وہ اس بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔

ایک اور مثبت چیز وہ مساعی تھیں جو اس سال کے نعرے 'یعنی استقامتی معیشت کے تحت قومی پیداوار اور روزگار' کو رو بہ عمل لانے اور مجسم کرنے کے لئے انجام دی گئیں۔ روزگار کے مواقع اور قومی پیداوار کے سلسلے میں بہت اچھے کام انجام دئے گئے۔ البتہ ہنوز بہت سے کام باقی ہیں جنھیں انجام دیا جانا ہے۔ اس نعرے کو ملک کے اندر کسی حد تک عملی جامہ پہنایا گیا، لیکن اسی طرح کام جاری رہنا چاہئے تاکہ ان شاء اللہ یہ نعرہ پوری طرح جامہ عمل پہنے۔

سنہ 96 میں کچھ تلخ واقعات بھی تھے۔ زلزلے، سیلاب، ہوائی جہاز اور پانی کے جہاز کے حادثات جن میں ہمارے کچھ عزیزوں کی جانیں چلی گئیں، یہ ہمارے لئے تلخ واقعات تھے۔ اس کے علاوہ ملک کے بعض حصوں میں خشک سالی تھی جو بدستور جاری ہے۔ دعا کرتے ہیں کہ فضل الہی سے بہار میں پانی کی کمی دور ہو جائے۔ مختلف طبقات کی کچھ معیشتی مشکلات بھی جاری رہیں۔ کوشش کی جانی چاہئے، سب کوشش کریں، میں اس کی طرف بھی اشارہ کروں گا، کہ ان شاء اللہ مشکلات کا ازالہ ہو۔ سال کے آخری مہینوں میں ملت ایران کے دشمنوں کی منصوبہ بندی کے مطابق ملک میں آشوب کے کچھ واقعات ہوئے۔ ملت ایران خود بخود میدان میں اتر پڑی، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی کہ جن کی آڑ میں یہ آشوب برپا کیا گيا تھا میدان میں نکل پڑے اور آشوب پسندوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ یہ بھی ایک واقعہ تھا جو رونما ہوا اور ملت ایران کی عظمت نمایاں ہوئی۔

سنہ 97 (ہجری شمسی) میں جو اس لمحے سے شروع ہو رہا ہے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ سب سخت کوشی سے کام کریں۔ الگ الگ برسوں کے لئے نعرے کے انتخاب میں عام طور پر میں عہدیداران کو مخاطب قرار دیتا تھا، اس سال خطاب تمام ملت ایران منجملہ عہدیداران سے ہے۔ تمہید کے طور پر یہ عرض کر دوں کہ اقتصاد کا مسئلہ، ثقافت کا مسئلہ اور دیگر گوناگوں مسائل سب قبل توجہ ہیں تاہم اس سال بھی ہمارا اصلی مسئلہ اقتصاد اور عوامی معیشت ہی ہے۔ سب کوشش کریں، سب کام کریں۔ کام کا محور عبارت ہے قومی پیداوار سے۔ یعنی اگر قومی پیداوار کو، اس تشریح کی روشنی میں جو ان شاء اللہ تقریر میں پیش کروں گا، سب ہدف قرار دیں اور کام کریں تو بہت سی اقتصادی مشکلات، عوام کی معیشتی مشکلات، روزگار کا مسئلہ بھی، سرمایہ کاری کا مسئلہ بھی اور دیگر مسائل بھی، حل ہو جائیں گے۔ سماجی مشکلات بھی کافی حد تک کم ہو جائیں گی۔ یعنی محور قومی پیداوار ہے۔ چنانچہ اگر قومی پیداوار رفتار پکڑ لے تو بہت سی مشکلات دور ہو جائیں گی۔ میں نے اس سال کے نعرے کے لئے اسی کو محور قرار دیا ہے۔ اس سال کا نعرہ ہے؛ «ایرانی پروڈکٹ کی حمایت»، یہ «ایرانی پروڈکٹ کی حمایت» کا سال ہے۔ اس کا تعلق صرف عہدیداران سے نہیں ہے۔ عوام الناس بھی اس سلسلے میں مدد کر سکتے ہیں اور حقیقی معنی میں اس میدان میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ البتہ اس حمایت کے پانچ چھے مختلف پہلو ہیں، ان پہلوؤں پر میں ان شاء اللہ اپنی تقریر میں روشنی ڈالوں گا، اس کی تشریح کروں گا۔ مختلف عوامی طبقات اور ملک کے مختلف عہدیداران جو کچھ انجام دے سکتے ہیں اس کے بارے میں گفتگو کروں گا۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مدد فرمائے عہدیداران کی بھی اور عوام کی بھی کہ وہ اپنے فرائض پر بنحو احسن عمل کر سکیں اور اس سال اس نعرے؛ «ایرانی پروڈکٹ کی حمایت» کو حقیقی معنی میں عملی جامہ پہنائیں۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌اللّه و برکاته