بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں کہ تشریف لائے اور خاص طور پر ان کا شکریہ جنہوں نے پروگرام پیش کیا، ناظم جلسہ کا بھی شکریہ جنہوں نے اس وقت تک جلسے کی بڑی خوش اسلوبی سے نظامت کی۔ الحمد للہ اظہار خیال کرنے والے عزیزوں کے بیانوں میں تنوع تھا۔ ان بیانوں میں علمی مطالب بھی تھے، تجاویز بھی تھیں جنہیں میں نے نوٹ کر لیا ہے۔ ملکی مسائل، سیاسی مسائل، سماجی مسائل، تنقید، شکوہ، اعتراض، حمایت الحمد للہ سب کچھ تھا۔ حقیقی معنی میں یہ طلبہ کا جلسہ تھا۔

البتہ احباب نے، طلبہ و طالبات نے یہاں جو بحثیں پیش کیں مجموعی طور پر اس میں ایک نکتہ میری نظر میں بڑا دلچسپ اور نمایاں تھا اور وہ یہ کہ گلے شکوے اور تشویش وغیرہ جیسی تمام چیزوں جو بیان کی گئیں ان کے باوجود ہمارے آج کے اجلاس سے ثابت ہوا کہ طلبہ کی فضا ایک زندہ اور سرگرم فضا ہے۔ اس کے بالکل برعکس جو دشمن کی خواہش ہے۔ اغیار چاہتے ہیں اور بعض لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ؛ "جناب! یونیورسٹی افسردہ خاطر ہے، یونیورسٹی پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ " جی نہیں، یونیورسٹی میں زندگی کی حرارت موجود ہے۔ بے شک، آپ ملک کے تمام طلبہ نہیں ہیں، ہمارے پاس چالیس لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی طلبہ ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں موجود تمام چالیس لاکھ طلبہ کے اندر یہی جوش و جذبہ ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے لیکن طلبہ کے ماحول میں ایک فعال، زندہ اور زندگی کی دھڑکنوں سے آراستہ رجحان موجود ہے۔ اس کے اندر الگ الگ زاویہ فکر ہیں، الگ الگ میلانات ہیں، لیکن سارے ہی طلبہ کے اندر جوش و جذبہ ہے، موثر تشخص کا احساس ہے۔ یہ چیز میرے لئے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یعنی طالب علم یہ محسوس کرے کہ اسے اثر انداز ہونا چاہئے، اس کی تاثیر ہونی چاہئے اسی لئے وہ اپنی بات کہتا ہے۔

ملک کے بہت سے مسائل پر آپ کو اعتراض ہے اور ان میں سے بہت سے اعتراضات بجا ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ اعتراضات صحیح نہیں ہیں، تاہم آپ پرجوش نوجوانوں اور ایک زمانہ گزار چکے اس حقیر کے درمیان فرق یہ ہے؛

دیر بماندم در این سرای کهن من

تا کهنم کرد صحبت دی و بهمن (۲)

آپ بڑی آسانی سے اپنی آرزوئیں بیان کرتے ہیں۔ میں موجودہ صورت حال اور آرزؤوں کے درمیان شرائط اور رکاوٹوں کے اعتبار سے جو فاصلہ ہے اسے تجربات کی روشنی میں دیکھتا ہوں اور محسوس کر سکتا ہوں۔ فرق صرف یہیں پر ہے۔ جی ہاں، ان میں سے بہت سے اعتراضات درست ہیں لیکن ان اشکالات کو رفع کرنا آسان نہیں ہے۔ کام کرنے کی ضرورت ہے، محنت کرنے کی ضرورت ہے، مقدمات فراہم کرنا ضروری ہے۔ ان ضروری مقدمات میں سے ایک یہی آپ کا موجود ہونا، غور کرنا، کام کرنا، بیان کرنا ہے۔ میں نے چند باتیں اور جملے آمادہ کئے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں جو مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں نے بنیادی باتیں نوٹ کر لی ہیں اور ان شاء اللہ ان پر کام کروں گا۔ خاص طور پر اس حصے پر جس کا تعلق اس حقیر کے مینیجمنٹ سے ہے۔ جیسے جو باتیں مسلح فورسز وغیرہ سے متعلق تھیں ان کا تعلق رہبر انقلاب کے انتظامی اقدامات سے ہے۔ مسلح فورسز کے سلسلے میں انتظامی سرگرمیاں رہبر انقلاب کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔ مگر قومی نشریاتی ادارے کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ عدلیہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ بے شک عدلیہ کے سربراہ کو رہبر انقلاب کے ذریعے منصوب کیا جاتا ہے، لیکن رہبر انقلاب عدلیہ کے انتظامات نہیں چلاتا، ان کے درمیان فرق رکھنا چاہئے۔ قومی نشریاتی ادارے کو رہبر انقلاب نہیں چلاتا۔ البتہ آپ یہ بھی جان لیں کہ قومی نشریاتی ادارے کے سلسلے میں ہمیشہ میرا رخ ناقدانہ رہا ہے۔ موجودہ ڈائریکٹر کے زمانے میں بھی اور گزشتہ ڈائریکٹروں کے زمانے میں بھی۔ میں ہمیشہ مختلف چیزوں پر تنقید کرتا رہا ہوں۔ منجملہ ان چیزوں پر جن کا ذکر آپ کی گفتگو میں بھی تھا۔ وہ میرے ذہن میں بھی ہے اور میں تنقید بھی کرتا ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عہدیداران ضد میں ہماری بات نہیں مانتے۔ نہیں، وہ عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہے، عملی اقدامات دشوار ہوتے ہیں۔ بنیادی کام جو انجام دیا جانا چاہئے اور جس کا ذکر بعض احباب کی گفتگو میں بھی تھا، یہ ہے کہ ان اداروں کے ڈھانچے میں نوجوان، مومن، پرجوش اور انقلابی افراد کو شامل کیا جائے جن کے اندر ان شاء اللہ ان کاموں کی انجام دہی کا عزم ہے۔ میں نے بھی تاکید کی ہے؛ قومی نشریاتی ادارے کو بھی تاکید کی ہے اور بعض دیگر مراکز کو بھی تاکید کی ہے۔ مثال کے طور پر ائمہ جمعہ کے مرکز وغیرہ کو  اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ اسی طرح جاری رہے گا۔ آپ یہ بات یاد رکھئے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارا سفر بلا شبہ آگے کی سمت جاری ہے۔ اس کے شواہد بھی بکثرت موجود ہیں۔ لہذا ہم نے ان چیزوں کو نوٹ کر لیا ہے۔ جن کا تعلق خود ہم سے ہے، ان پر ہم ان شاء اللہ کام کریں گے۔ ملٹری سروس کے نظام پر کلی اعتراض کیا گیا۔ مجھے تفصیلات نہیں معلوم ہیں کہ ان کی مراد کون سی چیز ہے۔ رپورٹ دیں میں اس کی پیروی کروں گا۔ اسی طرح بعض دیگر شعبوں کے بارے میں بھی۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ آپ اس جذبے کو، اس احساس کو، اس رجحان کو، اس موجودگی کو قائم رکھئے۔ ہماری امیدیں اس سے وابستہ ہیں۔

یہ جو میں بار بار کہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے، آپ مستقبل کی انتظامی ذمہ داریوں کے لئے خود کو آمادہ کیجئے، یہ تکلفات نہیں ہیں، یہ مذاق نہیں ہے، یہ عین حقیقت ہے۔ البتہ محتاط رہئے کہ اسی صراط مستقیم پر گامزن ہوئیے۔ یعنی اسی جذبے کو قائم رکھئے۔ بہت سے افراد تھے اور ہیں جو کسی زمانے میں بہت جوش و جذبے اور ہیجان سے بھرے رہتے تھے، لیکن بعد میں الگ حالات پیش آئے تو وہ بھی بدل گئے۔ آپ محتاط رہئے کہ ایسا نہ ہو۔ یعنی یہ سفر ایک دائمی سفر ہو، تھکن کا غلبہ نہ ہو، نصرت خداوندی پر تکیہ کیا جائے اور ثواب الہی حاصل کرنے کی امید کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ اس انداز سے سفر طے کیجئے۔ ایسی صورت میں آپ کے سفر کا رخ صحیح رہے گا۔ ایسی صورت میں ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہوگا جو آج کے حالات پر تنقید کر رہے ہیں، مستقبل بہتر ہوگا۔ آپ جب اسی جذبے کے ساتھ آگے جائیں گے تو یقینا مستقبل بہتر ہوگا۔ تو اب تک کی گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ بیانوں میں بے شک تنقید، اعتراض اور گلہ و شکوہ تھا لیکن یہ نشست مجموعی طور پر بہت بڑی خوش خبری، بہت بڑی بشارت اور بہت بڑی امید کی حامل ہے۔ یعنی اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نوجوان، یا کم از کم طلبہ کے درمیان ایک دھڑا جوش و جذبے، ایمان، حمیت اور عزم و ارادے سے آراستہ ہے اور یہ بہت اچھی چیز ہے۔ اس نشست سے یہ بات ثابت ہوئی۔ جو لوگ مستقبل کے تعلق سے مایوسی میں مبتلا ہیں انھیں چاہئے کہ اس صورت حال کو دیکھیں اور اپنی سوچ درست کر لیں۔

میں یہاں ایک معرفت کی بحث کرنا چاہتا ہوں جو اس نکتے پر تاکید کے طور پر ہے جسے میں ہمیشہ ذکر کرتا رہا ہوں، کہتا رہا ہوں اور وہ نکتہ ہے انقلابی بنے رہنا اور انقلابی انداز میں کام کرنا۔ میں اس نکتے کے سلسلے میں ایک معرفتی بحث پیش کروں گا۔ کچھ باتیں طلبہ کے مسائل اور طلبہ کی صنف اور طلبہ یونین وغیرہ کے بارے میں بھی ہیں ان شاء اللہ اگر وقت رہا تو وہ بھی عرض کروں گا۔

انقلاب کے مجموعے میں شروع سے ایک غلط سوچ پائی جاتی تھی اور وہ یہ تھی کہ انقلاب نظام کی تشکیل تک ہے۔ جب نظام تشکیل پا جائے گا، جب ادارے، ضوابط اور نوکر شاہی وغیرہ سب قائم ہو جائیں گے تو پھر انقلاب اپنا راستہ لے کیونکہ اب ہمیں انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ انقلاب کا مفہوم نکالتے تھے تنازعہ، کشیدگی، شور شرابا، غیر قانونی اقدامات وغیرہ۔ اس طرح کی یہ سوچ آج کی نہیں ہے بلکہ انقلاب کی کامیابی کے بعد روز اول سے یہ سوچ موجود تھی، یہ نظریہ غلط ہے۔

انقلاب کے کچھ مراحل ہیں۔ 1979 میں انقلاب کے آغاز میں جو کچھ ہوا وہ انقلاب کا پہلا مرحلہ تھا۔ یعنی غلط اور باطل طاغوتی نظام کے مقابل زوردار دھماکہ اور نئی امنگوں، نئے اقدار کی بنیاد پر، نئی زبان، نئے نعروں اور نئے مفاہیم کے ساتھ ایک جدید نظام کی تشکیل، یہ انقلاب کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں اس نظام کے لئے ضروری ہے کہ اقدار کو رو بہ عمل لائے۔ ان اقدار اور امنگوں کو جن میں بعض کا میں ابھی ذکر کروں گا، سماج کے اندر نافذ کرے۔ اگر ان اقدار کو عملی جامہ پہنانا ہے تو اس کے لئے ایک انتظامی سسٹم کی ضرورت ہوگی اور وہی انقلابی حکومت ہے۔ بنابریں انقلابی نظام کی تشکیل کے بعد کا مرحلہ ہے انقلابی حکومت کی تشکیل۔ ایسی حکومت جس کے عمائدین دل کی گہرائیوں سے انقلاب پر یقین رکھتے ہوں اور انقلاب کے لئے کوشاں ہوں۔ جب انقلابی حکومت کی تشکیل ہو جائے تو اب ضرورت ہے درست اجرائی ذرائع کی مدد سے، صحیح قانون اور صحیح نفاذ کی مدد سے ان امنگوں اور ان اقدار کو جن کی طرف اشارہ کیا گيا، ان عظیم انقلابی آرزؤوں کو ایک ایک کرکے سماج میں نافذ کیا جائے۔ نتیجتا انقلابی سماج تیار ہوگا۔

ایک انقلابی معاشرہ وجود میں آئے گا کہ جو چوتھا مرحلہ ہے۔ انقلابی اقدام، انقلابی نظام، انقلابی حکومت اور انقلابی معاشرہ۔ یہ چوتھا مرحلہ ہے۔ جب انقلابی معاشرہ تیار ہو گيا تو اب انقلابی اور اسلامی تمدن ایجاد کرنے کے لئے زمین ہموار ہوگی۔ میں نے انقلابی کا لفظ استعمال کیا، آپ انقلابی کی جگہ لفظ اسلامی استعمال کر سکتے ہیں۔ یعنی اسلامی حکومت، اسلامی معاشرہ، اسلامی تمدن، یہ مراحل ہیں جو پائے جاتے ہیں۔

بنابریں انقلاب ختم ہو جانے والا نہیں ہے۔ انقلاب جاری ہے، انقلاب کا تسلسل قائم ہے، انقلاب ٹھہرتا نہیں۔ ایک پیہم تبدیلی ہوتی ہے، دائمی تغیر، دائمی تبدیلی۔ انقلاب کے سفر میں دائمی تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ دائمی تغیر بتدریج ان بڑی امنگوں کو، ان اعلی  اقدار کو، ان امنگوں کو سماج میں رو بہ عمل لاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بڑی امنگیں کیا ہیں؟ میں ان عظیم امنگوں میں سے چھے سات کا ذکر کروں گا، البتہ امنگیں صرف یہی نہیں ہیں۔

ایک ہے ملی وقار۔ یہ انقلاب کے اہداف میں سے ایک ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ملی وقار یعنی ملی احساس افتخار، یہ احساس افتخار حقائق سے پیدا ہوا ہو۔ متن معاشرہ میں اور روئے زمین پر موجود حقائق سے پیدا ہوا ہو۔ توہمات اور کورے تصورات پر مبنی نہ ہو۔ ورنہ افتخار کا احساس کیان اور ہخامنشیان وغیرہ کی حکومت کے بارے میں بھی تھا۔ مگر یہ بے بنیاد تصورات اور توہمات ہیں، افتخار آفرین نہیں ہیں۔ ملی وقار یعنی ایسا احساس افتخار جو حقائ‍ق پر مبنی ہو۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ قومی وقار ان چیزوں میں ہے جو کسی ملک میں ختم ہو جائیں تو اس ملت کی شناخت ہی مٹ جاتی ہے، پھر اس قوم کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔

دوسرے ملّی خود اعتمادی۔ میں نے گزشتہ برسوں میں بڑے حلقوں میں ملی خود اعتمادی کے بارے میں بحث کی ہے کہ ملّی خود اعتمادی اغیار پر انحصار کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ اگر یہ جذبہ خود اعتمادی موجود ہے تو ملت کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ وہ غیر پر منحصر ہے بلکہ وہ اغیار پر انحصار سے گریزاں نظر آئے گی۔

سیاسی، اقتصای اور ثقافتی خود مختاری بھی کسی بھی ملت کے اقدار کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر یہ موجود ہو یعنی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خود  مختاری جن میں سے ہر ایک کی ایک طولانی فصل ہے، تو وہ قوم دنیا کی توسیع پسند اور استبدادی قوتوں کی زور زبرستی کو برداشت کرنے پر مجبور نہیں ہوتی۔ امنگوں میں سے ایک خود مختاری ہے۔

آزادی؛ فکر کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، عمل کی آزادی۔ البتہ یہاں ایک عزیز نے گفتگو کی اور کچھ باتیں آزادی کے تعلق سے کہیں جو بالکل درست تھیں۔ آزادی ان مقولوں میں سے ایک ہے جن کے لئے لازمی طور پر قانون اور حدود کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آزادی کا مزاج یہ ہے کہ اگر اس کا کوئی ضابطہ اور دائرہ معین نہ ہوگا تو وہ حد سے تجاوز کر جائے گی، جارحیت، لا ابالی پن اور بری منزلوں تک پہنچ جائے گی۔ چنانچہ آج آپ مغرب میں اسکے نمونے دیکھ رہے ہیں۔ یہ آزادی اگر نہ ہو تو معاشرے میں نمو نہیں ہوگا۔ اگر معاشرے میں فکر کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، نظرئے کی آزادی، عمل کی آزادی نہ ہوگي تو سماج کا نمو رک جائے گا۔ معاشرے کا ارتقا، معاشرے کا روحانی اعتلا اور معاشرے کی پیشرفت کے لئے یقینی طور  پر اس آزادی کی ضرورت ہے۔

انصاف و مساوات قائم کرنا، تفریق کی نفی، طبقات کے درمیان فاصلے کی نفی۔ یہ بھی بڑی امنگوں میں شامل ہے۔ در اصل قرآن میں انصاف کے قیام کو انبیاء کا اصلی مشن اور ہدف قرار دیا گيا ہے؛ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط (۳)۔ ہم بھی انبیاء کے راستے پر ہی تو چل رہے ہیں۔ ہم اسلام کے راستے پر اور انبیا کے راستے پر چل رہے ہیں۔ بنابریں انصاف اہم ترین اہداف میں سے ایک بلکہ شاید یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سب سے اہم ہدف ہونا چاہئے۔ لفاظی سے انصاف قائم نہیں ہوتا۔ انصاف کا قیام بہت دشوار کام ہے۔ عدل و مساوات کا قیام بڑے دشوار کاموں میں سے ایک ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے مادی اور تمدنی پیشرفت۔ یہ بھی اعلی اہداف کا جز ہے۔ یعنی ملک کو پسماندگی سے نجات دلائی جانی چاہئے۔

اعلی اہداف میں سے ایک اور ہے معاشرتی اخلاقیات کا نمو۔ لوگوں کا رہن سہن اخلاقی معاشرت کے اصولوں کے مطابق ہو۔ رحمدلی، انفاق، ایثار، مدد، تعاون وغیرہ، ان اخلاقیات کا نمو جو معاشرے میں انسانوں کی باہمی معاشرت سے مربوط ہیں۔

روحانیت کے ارتقاء اور صاحب استعداد افراد کے اندر موجود غضب اور خواہشات کی غلامی سے رہائی کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی۔ یہ بھی ان اعلی اہداف میں سے ایک ہے جن پر عام طور پر توجہ نہیں ہو پاتی۔ ماحول ایسا ہونا چاہئے کہ صاحب استعداد افراد اس میں سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ الحاج میرزا علی قاضی جیسی شخصیات، علامہ طباطبائی جیسی شخصیات، اس طرح کی دیگر اہم ہستیاں وجود میں آئیں، ایسے عظیم افراد جو اس مادی فضا سے بالاتر پہنچے اور اس کی حدود سے آگے نکل گئے۔ یعنی ماحول اس طرح آمادہ ہونا چاہئے۔ البتہ ہم سب کے پاس اس چیز کی استعداد نہیں ہے لیکن ہمارے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کہ جن کے اندر اس عمل کی لیاقت ہے۔ خاص طور پر نوجوانی کے دور میں۔

دیو جانس حکیم کا جو معروف واقعہ ہے کہ اس نے سکندر سے کہا کہ تم میرے غلاموں کے غلام ہو! سکندر کسی راستے سے گزر رہا تھا، حکیم بیٹھا ہوا تھا، اس نے کوئی توجہ نہیں کی۔ سکندر کو یہ بات بری لگی۔ اس نے کہا کہ دیکھو یہ کون ہے؟ حکیم کو اس کے پاس لایا گيا۔ اس نے پوچھا کہ تم میرے لئے کھڑے کیوں نہیں ہوئے؟ اس نے جواب دیا کہ کھڑے ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ تم میرے غلاموں کے غلام ہو۔ سکندر نے کہا؛ کیا مطلب ہے؟ میں سکندر غلام ہوں؟ اس نے کہا ہاں، شہوت اور غضب میرے غلام ہیں، میرے قابو میں ہیں اور تم شہوت و غضب کے غلام ہو، یعنی غلاموں کے غلام۔ یعنی ایسا انسان ہو جو خواہشات اور غضب سے نجات حاصل کر سکے۔ یہ اعلی اہداف ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ اعلی اہداف و مقاصد فوری طور پر پورے نہیں ہوں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں یہ اہداف عملی جامہ  پہنيں تو اس کے لئے دراز مدتی عمل ضروری ہے۔ کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے انقلاب کا زندہ رہنا۔ آپ دیکھئے! یہ جو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ انقلابی بنیں، انقلابی باقی رہیں، تو اس کا مطلب یہی ہے۔ اگر انقلاب جاری رہا تو ان اہداف کی تکمیل ممکن ہوگی۔ اگر یہ تسلسل آگاہی، ہوشیاری، دقت نظری وغیرہ کے ساتھ  ہو تب تو ان اہداف کی تکمیل یقینی ہوگی۔ لیکن اگر بیچ راہ میں ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ اب انقلاب کی ضرورت نہیں رہی، بس نوکر شاہی رہے اور حکومتی نظام کام کرے تو پھر یہ اہداف عملی جامہ نہیں پہن سکیں گے۔ کیا ہم انقلاب اس لئے لیکر آئے کہ وہ لوگ چلے جائيں اور حکومت ہمارے حوالے کر دیں؟ کیا ہم نے صرف اس لئے انقلاب برپا کیا کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں؟ جو لوگ جدوجہد کرتے تھے، کوڑے کھاتے تھے، جیلوں کی سختیاں جھیلتے تھے، وہ جس چیز کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتے تھے وہ یہ تھی کہ انقلاب کامیاب ہو جائے اور ہم وزیر، عہدیدار، رہنما سربراہ وغیرہ بن جائیں! یہ بات ان کے ذہن میں کبھی آتی ہی نہیں تھی۔ وہ خاص ہدف کے لئے کام کر رہے تھے، سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔ ہدف یہ نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے عہدے ہمارے حوالے کر دیں اور پھر ہم بھی انھیں کے انداز میں اس عہدے پر کام کرنے لگیں۔ بس یہ فرق ہے کہ وہ برے لوگ تھے اور ہم اچھے انسان ہیں۔ اگر یہ صورت حال ہوگی تو ہم اچھے انسان بھی نہیں رہ جائیں گے۔ اچھا انسان نہیں رہ جائے گا۔ بنابریں انقلاب کا جاری رہنا ضروری ہے۔ آپ دیکھئے کہ میں استدلال کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ انقلابی ہونا چاہئے، انقلابی بنے رہنا چاہئے، انقلابی انداز میں کام کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ انقلابی عمل کرنے کے کچھ  تقاضے ہیں۔

البتہ میں آپ سے یہ بھی عرض کر دوں کہ اس حقیر کو ملکی مسائل کی اطلاع ہے۔ کبھی کبھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاں صاحب کو ایک نیٹ ورک سے اطلاعات مل جاتی ہیں۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ میں رپورٹیں بھی پڑھتا ہوں، رسمی و غیر رسمی دونوں رپورٹیں، مختلف طریقوں سے لوگوں سے رابطہ بھی رکھتا ہوں، عوامی رابطے اور عوامی رابطے کے دفاتر ہیں، میں معاشرے کے مسائل سے مطلع ہوں اس حد تک جہاں تک مجھ جیسا ایک انسان باخبر ہو سکتا ہے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ ہم نے ان تمام میدانوں میں جن کا میں نے ذکر کیا پیشرفت حاصل کی ہے۔ وہ نوجوان جو آکر یہاں کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے؛ "جناب! حالات بہت خراب ہیں، ایسا ہو گیا ہے، ویسا ہو گيا ہے، ہم پیچھے چلے گئے ہیں۔"  میں اس کے جذبے کی اور اس کے اس احساس کی قدر کرتا ہوں لیکن اس کی بات کی ہرگز تصدیق نہیں کرتا۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ آپ نے طاغوتی شاہی دور نہیں دیکھا ہے۔ اوائل انقلاب کے حالات نہیں دیکھے ہیں۔ اس وقت ہم ان تمام میدانوں میں جن کا میں نے نام لیا، ان تمام اہداف میں پیشرفت حاصل کی ہے۔ البتہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہم انصاف و مساوات کے میدان میں پیچھے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے کوئی پیشرفت ہی نہیں کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف و مساوات کے میدان میں ہم نے اتنی پیشرفت حاصل نہیں کی جتنی حاصل کرنی چاہئے تھی۔ ورنہ اگر سماجی انصاف کا موضوع ہی لے لیا جائے تو ہم نے اس میں پیشرفت حاصل کی ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اس ملک میں کیا حالات تھے۔ ہم نے، آپ یہ جو سن ہے وہ صرف سنا نہیں گزارا ہے، بڑا سخت دور ہم نے دیکھا ہے۔ ان صاحب نے سیستان و بلوچستان کے بارے میں بتایا۔ میں سیستان و بلوچستان میں رہ چکا ہوں۔ سیستان و بلوچستان کی آج جو صورت حال ہے اس میں اور سنہ 1978 اور 1979 میں وہاں جو حالات تھے ان میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ہوا نہیں ہے۔ ہوا نہیں ہے کا کیا مطلب ہے؟ یہ مطلب ہے کہ زابل میں گرد و غبار ہے، ہر سال تین مہینے چار مہینے گرد و غبار چھایا رہتا ہے، صحیح کہہ رہے ہیں۔ یہ سیستان و بلوچستان کی مشکلات کا ایک پہلو ہے جو آج موجود ہے اور پہلے بھی موجود تھا۔ اس زمانے میں عوام واقعی حقیقی معنی میں بڑی بد بختی میں زندگی بسر کرتے تھے، مکمل بد بختی میں۔ حقیر نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ انقلاب کے بعد بہت سے کام انجام دئے گئے، پیشرفت حاصل ہوئی۔ خدمات انجام دی گئیں۔ صرف سیستان و بلوچستان میں نہیں بلکہ پورے ملک میں۔ سماجی انصاف کے میدان میں بھی کافی کام ہوا ہے۔

آپ لوگ بد قسمتی سے کتاب نہیں پڑھتے۔ کتابوں سے زیادہ لگاؤ نہیں ہے (4)، میں کتب بینی کا عادی ہوں۔ میں بہت مطالعہ کرتا ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ تمام بچے، نوجوان حقیقت میں کتابوں کا مطالعہ کریں۔ شاہ سے علّم کی گفتگو کی ان رپورٹوں میں، اتفاق سے چند روز قبل میں نے وہاں سے ایک چیز نقل بھی کی (5)، محمد رضا شاہ اعتراض کے طور پر علّم سے کہتا ہے کہ جناب! کم ترین تنخواہ اور سب سے زیادہ تنخواہ کے درمیان فاصلہ سو گنا کا ہے۔ یہ محمد رضا کا اعتراف ہے۔ یعنی فاصلہ سو گنا تھا۔ آج مثال کے طور پر بارہ گنا اور چودہ گنا کی بات ہوتی ہے۔ البتہ یہ فاصلہ بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم اس زمانے میں فاصلہ سو گنا کا تھا۔ ہم نے واقعی ایسی چیزیں دیکھیں ہیں کہ جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ عوام الناس کی حالت، مفلوک الحالی، آزادی کی حالت۔ کچھ لوگ اعتراص کرتے ہیں کہ آزادی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں بات ٹی وی پر آکر کیوں نہیں بیان کر سکا؟ جی نہیں، یہ آزادی نہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔ بے شک اگر ٹی وی پر اپنی بات کہہ پاتا تو بہتر ہوتا، لیکن کیا اس کا موازنہ انقلاب سے قبل کے دور سے کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے ایک دوست تھے، انھیں جدوجہد کرنے والے طلبہ میں سے تھے۔ فرار ہوکر چلے گئے تھے پاکستان اور کچھ عرصہ وہیں مقیم رہے تھے۔ سفر پر مشہد آئے۔ مجھ سے بات کی۔ بتانے لگے کہ میں پاکستان کے ایک شہر کے ایک پارک میں نے راستہ چلتے ہوئے فلاں پمفلیٹ تقسیم کر دیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ پارک میں پمفلیٹ؟ ہمارے لئے تو یہ چیز ناقابل تصور اور ناقابل یقین تھی کہ کوئی شخص کسی عوامی مقام پر اپنے ہاتھ میں پمفلیٹ لیکر اسے پڑھے۔ واقعی یہ حالت تھی۔ مثال کے طور پر کسی اخبار میں، سوشل میڈیا کی تو خیر بات ہی الگ ہے، تنقید کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ قومی نشریاتی ادارے کے پروگراموں میں بھی جن کے بارے میں آپ کو اعتراص ہے کہ تنقید کیوں نہیں کی جاتی، اس کے بالکل بر عکس حکومتی عہدیداران اس حقیر سے شکایت کرتے ہیں کہ ساڑھے آٹھ بجے کی نیوز میں یہ کہہ دیا گيا، فلاں صاحب نے یہ کہہ دیا (6)، واقعی مسلسل شکایت کرتے ہیں، مسلسل مجھ سے شکایت کرتے ہیں۔ آپ اس طرف سے شاکی ہیں کہ نشریاتی ادارہ کیوں نہیں کہتا اور وہ دوسری طرف سے شکایت کرتے ہیں! جو باتیں ساڑھے آٹھ بجے کے پروگرام میں اور نشریاتی ادارے کے دیگر تنقیدی پروگراموں اور مناظروں وغیرہ میں کہی جاتی ہیں، ان میں سے کوئی ایک جملہ کیا مجال  تھی کہ اس دور میں کوئی کہہ دیتا؟ اگر پکڑ میں آ جاتا تو اس کی حالت خراب کر دیتے۔ ایک دفعہ میں نے ذکر کیا تھا، لیکن اب اس کا وقت نہیں ہے، وقت تیزی سے گزر رہا ہے (7)، تو حالات اس طرح کے تھے۔

نتیجہ یہ ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان تمام میدانوں میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، یعنی اقدار، اعلی اہداف، بلند مقاصد، ان سب کے سلسلے میں انقلاب آگے بڑھا ہے، پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سائنس و ٹیکنالوجی میں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ان برادر عزیز نے کہا کہ وہ 'رویان' (سائنسی تحقیقاتی ادارہ) میں ہیں۔ رویان ایک نمونہ ہے۔ ایک زمانے میں رویان کے ان محنتی اور سخت کوش نوجوانوں نے اسٹم سیلز کی ٹیکنالوجی حاصل کی، اسے ملک کے اندر ڈیولپ کیا اور اسٹیم سیلز بنانے، اسٹیم سیلز کی  پیداوار کی صنعت کو جو اس وقت دنیا کے تین چار ممالک کے ہی پاس تھی، اسے عملی جامہ پہنایا۔ دوسرے میدانوں میں بھی اسی طرح کی صنعتی، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی دیکھنے میں آتی ہے۔ مختصر یہ کہ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔

ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم خود کو ہی غلط فہمی میں مبتلا کر بیٹھیں۔ یہ کہنا شروع کر دیں کہ ؛ "جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے، کچھ نہیں ہوا، ہم پیشرفت حاصل نہیں کر پائے، یہ ہم نہیں کر پائیں گے۔" جی نہیں، پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور ہم ان شاء اللہ مزید پیشرفت حاصل کریں گے۔ یہ عمل ایک کھلے ہوئے راستے کی مانند ہے۔ ہم کسی شاہراہ کے بارے میں یہ تصور نہیں کر سکتے کہ بند گلی میں جاکر ختم ہوگا۔ ہمارے سامنے شاہراہ ہے۔ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ان وسائل کے ساتھ جو ملک میں موجود ہیں، افرادی قوت اور قدرتی وسائل جن کا ذکر اس دن میں نے عہدیداران سے ملاقات میں (8) تفصیل سے کیا اور وطن عزیز کے وسائل اور توانائیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ تو یہ رہا ایک اور نکتہ۔ یہ سلسلہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔ یعنی ہمیں موجودہ صورت حال پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہیں جانا چاہئے۔

کچھ عوامل ایسے ہیں جو ہماری مدد کرتے ہیں اور کچھ رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عوامل ہیں ان میں ایک حکومت ہے۔ مجریہ ان اعلی اہداف کی جانب پیش قدمی میں مددگار عوامل میں سے ایک ہے۔ یعنی انقلابی حکومت، انقلابی نظام اور انقلابی مجریہ ان عوامل کا حصہ ہے۔ اب اگر اس کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو یقینی طور پر وہ مشکلات کھڑی کرے گی۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ ملک کی حکومت، ملکی انتظامیہ، میں حکومت کہتا ہوں تو مراد ملک کا عمومی انتظامی شعبہ ہے، اسی طرح ملک کے حکام کے اقدامات انقلابی ہوں تاکہ ان اہداف کو پورا کیا جا سکے۔

بااثر طبقات، با رسوخ طبقات، علمی طبقات، سماجی طبقات بشمول یونیورسٹی حلقوں اور دینی درسگاہوں کے مفکرین، اسی طرح دانشوروں، فنکاروں وغیرہ کے، یہ سب بااثر طبقات ہیں، سب کو چاہئے کہ اس میدان میں سرگرم عمل رہیں۔

نوجوان فورس؛ یعنی آپ لوگوں کا یہ مجموعہ، یہ نوجوان فورس ہے یہ آگے لے جانے والی قوت ہے، یہ قوت در حقیقت ریل کے انجن کی مانند ہے، اس کا کردار ٹرین کے انجن کا ہے، جب وہ آگے بڑھتا ہے تو اس کے پيچھے پیچھے ٹرین بھی چلتی ہے۔ البتہ یہ اس صورت میں ہے جب نوجوان نسل اپنے دوش پر عائد ذمہ داریوں پر بخوبی عمل کرے۔

جذبہ امید، عزم اور مصنوبہ بندی ان تینوں کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ آپ ہرگز ناامید نہ ہوں۔ اگر معاشرے کے اندر مسلسل مایوسی پھیلائی جائے، آج کل یہ کام ہو بھی رہا ہے، تو یہ ایک معاندانہ عمل ہوگا۔ جو شخص یہ کام کر رہا ہے ممکن ہے کہ حقیقت میں دشمن نہ ہو، لیکن وہ کام تو دشمنوں کا کر رہا ہے۔ جو شخص بھی مایوسی پھیلائے، کہ "جناب نہیں ہو پائے گا، کوئی فائدہ نہیں ہے، سب کچھ درہم برہم ہو گیا ہے۔" جی نہیں، یہ کام معاندانہ ہے۔ امید لازمی شرط ہے۔ ایک چیز تو یہ ہے۔ عزم و ارادہ، یعنی حتمی فیصلہ، فیصلہ کرنا چاہئے، ان کاموں کے لئے فیصلے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح منصوبہ بندی ہے، بغیر منصوبہ بندی کے بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ تین چیزیں ہونی چاہئیں۔

رکاوٹیں بھی ہیں۔ ان رکاوٹوں میں کچھ تو ہماری باطنی رکاوٹیں ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب تو ہر چیز کا قصوروار امریکہ کو قرار دے دیتے ہیں۔ البتہ خدا لعنت کرے امریکہ پر، خبیث برطانیہ پر، ہماری بہت سی مشکلات کی جڑ وہی ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، میں زیادہ نکتہ چینی خود اپنے اوپر کرتا ہوں۔ ہماری رکاوٹیں بنیادی طور پر ہمارے باطنی مسائل ہیں۔ جبکہ دشمن ان باطنی رکاوٹوں سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے۔ اندرونی رکاوٹیں موجود ہیں۔

ایک تو معاملے کو صحیح طریقے سے نہ سمجھ پانا ہے۔ ملکی مسائل کو، ملک کے مسئلے کو اور انقلاب کے مسئلے کو بخوبی نہ سمجھ پانا۔ یہ آپ طلبہ، آپ اہل فکر افراد کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے پر کام کیجئے۔ ایک برادر عزیز نے اس حقیر سے کہا کہ آپ سفارش کر دیجئے کہ مفکرین آئیں اور طلبہ سے تعاون کریں۔ جی ہاں، بالکل، یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ دینی درسگاہ کے اندر بھی اور یونیورسٹی کے اندر بھی مومن انقلابی اور صاحب فکر افراد اور خود آپ لوگ اس مسئلے پر کام کیجئے۔ آپ خود غور کیجئے۔ تو معاملے کو بخوبی نہ سمجھ پانا بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ماحول کی صحیح شناخت نہ ہونا؛ یہ بھی راستے کی ایک رکاوٹ ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو گرد و پیش کے ماحول کو بخوبی نہیں پہچانتے۔ اگر ہم ماحول سے آشنا نہیں ہیں تو ہمارے لئے غلطی اور بھول کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر جنگجو کو، مرد میداں کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کہاں ہے، اس کا دشمن کہاں ہے اور دوست کہاں ہے تو ممکن ہے کہ اپنے اسلحے کا رخ اپنے دوست کی طرف کر دے، اس خیال میں کہ وہ دشمن پر فائر کر رہا ہے۔ ماحول کی شناخت ہونا چاہئے۔ محاذ بندی سے آگاہ ہونا چاہئے، روشناس ہونا چاہئے۔ بعض افراد جو بعض کام کرتے ہیں، وہ اسی شخص کی طرح ہیں جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ محاذ پر اسے نیند آ گئی ہے، اب اچانک نیند سے جاگا ہے تو دیکھتا ہے کہ فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اسے معلوم نہیں ہے کہ دشمن کہاں ہے، کس سمت میں ہے؟ دوست کہاں ہے؟ بس یونہی کچھ سوچے سمجھے بغیر توپخانے، مارٹر یا بندوق سے کسی بھی سمت فائرنگ شروع کر دیتا ہے اور اتفاق یہ ہے کہ جس سمت فائرنگ کر رہا ہے وہاں اس کے دوست ہیں۔ بعض افراد کا کام ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کس سے لڑ رہے ہیں۔ بنابریں گرد و پیش کے ماحول کی شناخت بہت ضروری ہے۔

ایک اور رکاوٹ ہے قوت ارادی کا فقدان، ایک رکاوٹ ہے تساہلی، ایک رکاوٹ ہے بے صبری۔ بے صبری جناب عالی! آپ ایک کھانا چولہے پر چڑھاتے ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ جیسے ہی آگ جلی آپ شور مچانا شروع کر دیں کہ مجھے تو کھانا چاہئے! صبر کیجئے، کھانا پک جانے دیجئے! بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔ بعض مواقع پر اچھے انقلابی بھائی اور بہن کچھ سرگرمیاں ایسی کرتے ہیں جس کی وجہ بے صبری ہوتی ہے۔ صبر و تحمل ضروری ہے۔ صبر بھی انقلابی اوصاف میں سے ایک ہے۔ بے شک انقلابی غضب بھی ہے لیکن انقلابی صبر بھی ضروری ہے۔ عدل و انصاف کے اکمل و اتم مصداق حضرت امیر المومنین ہیں۔ ان سے بڑا منصف تو کوئی نہیں ہے۔ مگر امیر المومنین علیہ السلام نے بھی بعض جگہوں پر صبر کا مظاہرہ کیا۔ آپ امیر المومنین علیہ السلام کی تاریخ زندگی میں دیکھتے ہی ہیں۔ کہیں فرماتے ہیں؛ فَصَبَرتُ وَ فِی العَینِ قَذًی وَ فِی الحَلقِ شَجا؛(۹)، اور کچھ جگہوں پر خوارج کے دباؤ وغیرہ کے معاملات میں جنگ صفین میں صبر کرتے ہیں اور 'حکمیت' کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ تو کچھ جگہوں پر صبر ضروری ہے، لازمی ہے۔ بعض جگہوں پر صبر مجبوری میں کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر ایسا نہیں ہے۔ مجبوری نہیں ہے لیکن پھر بھی ضروری ہوتا ہے کہ انسان صبر کرے۔

ایک اور رکاوٹ ہے تخریبی چیزوں، تباہی پھیلانے والی اور گمراہ کن چیزوں میں الجھ جانا جیسے فضول چیزوں پر اختلافات۔ چھوٹے اختلافات اور چھوٹے بہانے بعض اوقات بڑے اختلافات کی وجہ بن جاتے ہیں۔ جیسے بعض فروعی مسائل ہیں۔ سال گزشتہ میرے خیال میں اسی نشست میں یا ماہ رمضان کی کسی اور نشست میں میں نے اس وقت کے ایک فروعی مسئلے کا ذکر کیا تھا۔ میری نظر میں آج جو فروعی مسئلہ متن قضیہ سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے اور جس نے ہمیں الجھا رکھا ہے، یہی سوشل میڈیا کا مسئلہ، کسی 'چیٹنگ ایپلیکیشن' کا معاملہ اور اسی طرح کی کچھ چیزیں، یہ سب فروعی مسائل ہیں۔ یہ فروعی چیزیں ہیں۔ کچھ کام کیا جانا ہے، اور کچھ کام انجام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے میں حد سے زیادہ الجھ جانا، ایک فریق اپنے انداز میں اور مد مقابل فریق اپنے انداز میں، یہ فروعات میں الجھ جانے کی مثال ہے۔ یہ اصلی کاموں سے غافل ہو جانا ہے۔ تو یہ اندرونی رکاوٹیں ہیں۔

بیرونی رکاوٹیں بھی ہیں۔ بیرونی موانع میں مایوسی پھیلانا، عاجزی اور ناتوانی کا احساس عام کرنا ہے؛ 'نہیں ہو سکتا، کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ کے بس کی بات نہیں ہے' اس طرح کی چیزیں، بقول آپ کے البتہ میں فرنگی  اصطلاحات کے استعمال سے گریز کرتا ہوں لیکن یہاں مجبورا استعمال کر رہا ہوں کہ، پمپ کی جا رہی ہیں۔ دائمی طو پر انجیکٹ کی جا رہی ہیں۔ مایوسی کا احساس بھی اور ناتوانی کا احساس بھی۔

جھوٹی تشریحیں؛ مسائل کی تشریح کرتے ہیں اور یہ تشریح خلاف حقیقت ہوتی ہے۔ تاریخی حقائق میں تحریف۔ البتہ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ کئی سال سے طاغوتی حکومت، پہلوی حکومت کو پاک صاف ظاہر کرنے کی موذیانہ حرکت شروع ہوئی ہے۔ کاش یہ ایسی چیز ہوتی کہ جسے پاک صاف کیا جا سکتا! یہ تو تطہیر کے قابل ہے ہی نہیں۔ جو لوگ ان شخصیات کے بارے میں لکھتے ہیں، وہ بڑی کوشش کرتے ہیں کہ بہت احتیاط سے لکھیں لیکن پھر بھی مجبورا کچھ چیزوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہی حکومت جو بدعنوان تھی، کمزور بھی تھی، اغیار پر منحصر تھی، منحرف بھی تھی، بالکل غیر عوامی حکومت تھی۔ اس سے وابستہ افراد ذاتی اغراض و مقاصد کی فکر میں رہتے تھے۔ کیا اس کا دفاع کرنا ممکن ہے؟ ہویدا (10) کا دفاع کیا جا سکتا ہے؟ محمد رضا کا دفاع کیا جا سکتا ہے؟ اس خیال سے کہ آپ نے تو وہ دور نہیں دیکھا ہے ایک حرکت شروع ہوئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آج کا نوجوان یہ کہے کہ؛ "ارے! یہ تو کوئی برے آدمی نہیں تھے۔ حالات اتنے برے نہیں تھے، تو پھر انقلاب برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟!" ان تمام چیزوں کا مقصد انقلاب پر سوالیہ نشان لگانا ہے۔ یہ سارا کام بیرون ملک سے ہو رہا ہے۔

اعلی اہداف کی جانب پیش قدمی کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنا جیسے پابندیاں لگانا، مواد پر بھی پابندی لگانا اور ٹیکنالوجی پر بھی پابندی لگانا۔ گوناگوں خلاف ورزیاں، فتوحات کو شکست ظاہر کرنا، معمولی خامیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، انتظامی خامیوں کے لئے پورے نظام کو قصوروار ٹھہرانا۔ کسی عہدیدار یا کسی ادارے کے اندر کوئی خامی ہے، وہ کوئی غلط کام انجام دے رہا ہے تو اس پر ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نطام پر، انقلابی نظام پر سوالیہ نشان لگائیں۔ دشمن یہ کام کر رہا ہے۔ اس پر بڑی باریکی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ایک دوست نے یہاں کنسرٹ کا موضوع بھی چھیڑا۔ کئی ہزار کنسرٹ میں سے اگر مثال کے طور پر پانچ کنسرٹ بند کر دئے گئے تو اسی کو بہت بڑھا چڑھا کر ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ کنسرٹ بند کئے جا رہے ہیں! حالانکہ کئی ہزار یا کئی سو کنسرٹ ہو رہے ہیں، بند نہیں کئے گئے ہیں، چند کنسرٹ بند کئے گئے ہیں! یا کسی عہدیدار سے، عہدیداران کے دس پندرہ یا بیس افراد کے مجموعے میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے، کسی غلط روش کو اختیار کر لیا جاتا ہے تو اس کا الزام پورے انتظامی شعبے پر ہی نہیں بلکہ اسلامی نظام پر لگا دیتے ہیں۔ یہ سارے دشمن کے کام ہیں جو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دئے جا رہے ہیں۔

ایک جامع جمہوریت کو ڈکٹیٹرشپ کہتے ہیں۔ یعنی واقعی میری نظر میں، مجھے حالات کا جو علم ہے اس کے مطابق دنیا میں آج کوئی بھی جمہوریت ہماری جمہوریت جیسی نہیں ہے۔ ملک کے عہدیداران کا عوام سے رابطہ، عوام سے ان کی محبت اور عوام کے ذریعے ان کا انتخاب دنیا کی دوسری کسی بھی جگہ سے بہتر ہے، جہاں تک مجھے اطلاع ہے۔اس نظام کو دشمن کے دائمی تشہیراتی مشن میں ڈکٹیٹرشپ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ ان کا کام ہے جو اس طرح ظاہر کر رہے ہیں۔ بنابریں یہ ایسے اقدامت ہیں جو بیرونی رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جنھیں ہمارے دشمن ممکن ہے کہ انجام دیں۔

لہذا آپ اس بات پر توجہ رکھئے کہ اسلامی نظام ایک عظیم پیکار میں مصروف ہے۔ یہ جو میں نے کہا کہ ہمیں اپنی پوزیشن کا ادراک ہونا چاہئے، اصلی مسئلے کی شناخت ہونی چاہئے۔ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ آپ میدان کارزار کے بیچ میں کھڑے ہیں۔ ایک عظیم اور ہمہ جہتی کارزار۔  اس کارزار کو آپ کو محسوس کرنا چاہئے۔ آپ کو فریق مقابل کی شناخت ہونی چاہئے۔ اس طرح ہم سب کی ذمہ داریوں کا تعین ہو جائے گا۔ نظام اگر انقلابی روش پر نہ چلے تو اس کی کوئی قیمت نہیں رہ جائے گی، واقعی اس کی قیمت نہیں رہے گی۔ نظام اگر انقلابی روش ترک کر دے تو واقعی ان اعلی اہداف کو حاصل نہیں کر پائے گا، ان اہداف کی کوشش ہی نہیں کرے گا، ملک کی گزشتہ رژیم سے کوئی فرق ہی نہیں رہ جائے گا، واقعی اس نظام کی کوئی قیمت نہیں رہ جائے گی۔

البتہ انقلابیت بھی نظام کے دائرے میں ہی ممکن ہے۔ قضیئے کے اس پہلو پر بھی توجہ رکھئے۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو انقلابی ہیں نظام کی ہی نفی کرنے لگیں۔ نظام کے اقدار، نظام کے ستونوں اور نظام کی بنیادوں پر سوالیہ نشان نہ لگائیں یہ کہہ کر کہ "ہم تو انقلابی ہیں۔" انقلابیت کا مطلب تباہ کن بن جانا نہیں ہے۔ انقلابیت ایک صحیح، عاقلانہ، پرجوش، پرامید اور شجاعانہ پیش قدمی ہے اعلی اہداف کی جانب۔ یہ انقلابیت کی تعریف اور مفہوم ہے اور یہ انقلابیت اسلامی نظام یعنی اسی موجودہ نظام کے راستے پر اور اس کے دائرے میں چل کر ہی ممکن ہے۔ اس نظام سے باہر نکل کر ممکن نہیں ہے۔ انقلابیت کا مطلب ڈھانچے کو تباہ کر دینا نہیں ہے، موجودہ نظام کو منہدم کر دینا نہیں ہے جو انقلاب سے نکلا ہے۔ یہ رہا ایک اور نکتہ۔

جس چیز پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں اپنے اعلی اہداف کا بار بار ذکر کریں۔ بار بار کہیں، اس پر مسلسل کام کریں، دائمی طور پر ان کا مطالبہ کرتے رہیں۔ یہ مطالبہ بہت اچھی چیز ہے۔ اعلی اہداف کے سلسلے میں مطالبہ ایسی چیز ہے جس سے کبھی دست بردار نہیں ہونا چاہئے۔ انقلاب کے دشمنوں کی طرف سے رائے عامہ پر اس وسیع پیمانے پر کی جانے والی یلغار کو اگر ان مطالبات کا سامنا ہوگا تو یقینا وہ تخریبی اقدامات کریں گے۔ اعلی اہداف کا تذکرہ، اعلی اہداف کا بار بار ذکر، اعلی مقاصد کے سلسلے میں مطالبات، ان اہداف کی تکمیل کا مطالبہ رائے عامہ اور اس دانشور طبقے کو گمراہ ہونے سے بچائے گا جس پر مسلسل کام کیا جا رہا ہے، اسی طرح عہدیداران کا طبقہ بھی کچھ معاملات میں افسوس کی بات ہے کہ اس یلغار کے اثر سے خود کو بچا نہیں پایا ہے۔ ایسے حالات میں مومن اور انقلابی نوجوانوں کی ایک فوج کی ضرورت ہے جو میدان میں اترے، اعلی اہداف کا مطالبہ کرے اور خود بھی ان اہداف کی  تکمیل میں مدد کرے۔ اب یہ کہ کس طرح وہ مدد کرے؟ اس پر بحث کی ضرورت ہے۔ میں اگر اپنی گفتگو میں اس دوسرے حصے تک پہنچا تو اس بارے میں بھی چند نکات عرض کروں گا۔

تو ضرورت ہے اس بات کی کہ مومن انقلابی نوجوان کی اسی زبان میں جس کی سب سے اہم خصوصیت صراحت اور صافگوئی ہے، شجاعت کلام ہے، ان اہداف کی یاد دہانی کرائی جائے۔ اپنی بات شجاعانہ انداز میں کہے۔ آج بھی کسی حد تک یہی انداز نظر آیا۔ ہم نے محسوس کیا کہ ایک شجاعانہ جذبہ موجود ہے کچھ چیزوں کو بیان کرنے کا۔ اگرچہ میں ان میں سے بعض چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا لیکن شجاعانہ انداز مجھے پسند ہے۔ نوجوان طالب علم اور انقلابی نوجوان کے اندر اس جارحانہ انداز کو میں پسند کرتا ہوں۔ یہ اقدار صریحی انداز میں، مدبرانہ انداز میں ہمیشہ یاد دلائی جائیں سرگرم عمل نوجوانوں کی طرف سے۔

اشرافیہ کلچر کا مقابلہ، یعنی رائے عامہ میں اشرافیہ کلچر کی نفی کی جائے۔ فکری انحصار کی نفی کی جائے۔ ایرانی مصنوعات کی بحث پیش کی جائے۔ میری مشکل جسے میں دیکھ رہا ہوں غیر ملکی مصنوعات کے بارے میں پائی جانے والی وہ سوچ ہے جو افسوس کی بات ہے کہ ملک میں ایک وسیع طبقے کے اندر موجود ہے اور جو گزشتہ طاغوتی حکومت کی منحسوس اور ناپاک وراثتوں میں سے ایک ہے۔ غیر ملکی مصنوعات پر نظریں تھیں اور ہر چیز امپورٹڈ پسند کی جاتی تھی۔ البتہ اس زمانے میں ایسی کوئی قابل ذکر داخلی مصنوعات موجود بھی نہیں تھیں، مگر یہ سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے۔ یہ سوچ کی مشکل ہے۔ ایک عام فکری رجحان شروع ہونا چاہئے اس فکر اور احساس کو بدلنے کے لئے۔ مثال کے طور پر اگر ذہنوں سے ہم یہ تصور ختم کر سکتیں کہ 'غیر ملکی مصنوعات بہتر ہیں'  تو عوام فطری طور پر ملکی مصنوعات کی طرف مائل ہوں گے اور اس عمومی عمل کی برکتیں اور ثمرات حاصل ہوں گے۔ ایرانی اسلامی طرز زندگی کا مطالبہ، دینی ثقافت کا مطالبہ، بے توجہی، لاابالی پن اور وارفتگی کی روک تھام، دین سے دشمنی کا سد باب، یہ سب کچھ تحمل اور صبر و تدبر کے ساتھ انجام دیا جائے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے انقلابی تحمل اور انقلابی صبر انقلابی غضب کی مانند ہوتا ہے۔ جب پیغمبری حاصل ہونے کے بعد حضرت موسی مصر آئے اور آپ نے وہ معجزہ دکھایا اور دعوت دین کا آغاز کیا تو بنی اسرائیل ظاہر ہے کہ پہلے سے اس کے انتظار میں تھے، پہلے ہی خبر دے دی گئی تھی کہ ایک نجات دہندہ آئے گا اور وہ نجات دہندہ حضرت موسی تھے۔ اب حضرت موسی آ گئے۔ سب انتظار میں تھے، جیسے ہی حضرت موسی آئے تاکہ فرعون کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے، لیکن ہنوز ایسا نہیں ہوا تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ حضرت موسی کے پاس آئے اور کہنے لگے؛ «اوذینا مِن قَبلِ اَن تَأتِیَنا وَ مِن بَعدِ ما جِئتَنا»؛(11) "آپ کے آنے سے کیا فرق پڑا؟ کیا بدل گیا؟ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذائیں دی جاتی تھیں، ہم سختیوں میں تھے، اب جب آپ آ گئے ہیں تب بھی ہم سختیوں میں ہیں۔" اب آپ دیکھئے! یہ بنی اسرائیل کی بے صبری کی حالت ہے، بے صبری۔ حضرت موسی نے کہا کہ صبر کرو؛ اِنَّ الاَرضَ لله یورِثُها مَن یَشاءُ مِن عِبادِه وَ العاقِبَةُ لِلمُتَّقین؛(12)، اگر تقوا اختیار کروگے تو آخرت تمہاری ہوگی۔ صبر ضروری ہے۔ یہ حالت نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ ہم کہنے لگیں کہ کیوں نہیں ہوا، کیسے ہو گيا؟ یا زمین پر پیر پٹخیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تو یہ کچھ باتیں تھیں جو اس سلسلے میں ہمیں عرض کرنی تھیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله

 

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو ماہ رمضان المبارک میں انجام پائی، کچھ طلبہ نے اپنے نظریات اور تجاویز بیان کیں۔

۲) ناصر‌خسرو

۳) سوره‌ حدید، آیت نمبر۲۵ کا ایک حصہ؛ «...تاکہ لوگ انصاف کے لئے قیام کریں۔...»

۴) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے

۵) اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارگزاروں سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ کا 23 مئی 2018 خطاب

۶) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے

۷) بعض حاضرین نے کہا کہ نشست افطار کے بعد بھی جاری رہے اس پر رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرات دوسرے کی جیب سے سخاوت فرما رہے ہیں، کہتے ہیں کہ افطار کے بعد! اس پر حاضرین ہنس پڑے۔

۸) اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارگزاروں سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ کا 23  مئی 2018 خطاب

۹) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ ۳؛ «میں نے صبر کا راستہ اختیار کیا حالانکہ میری حالت اس شخص کی تھی جس کی آنکھ میں تنکا چلا گیا ہے اور جس کے گلے میں ہڈی پھنس گئی ہے۔»

10) پہلوی دور کے ایک وزیر اعظم امیرعبّاس هویدا

11) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۲۹ کا ایک حصہ

12) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۲۸ کا ایک حصہ؛ «...زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے گا دے گا اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔»