بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

بہت دلنشیں اور اور شیریں نشست ہے۔ اس نشست کا واحد نقص یہ رہا کہ تشریف فرما احباب میں سے ہمارے بعض بھائی اور بہن جو اپنے اشعار پیش کرنا چاہتے تھے کہ ہم مستفید ہو پاتے انھیں سننے کی توفیق ہمیں حاصل نہیں ہو پائی۔ البتہ وقت بھی کافی ہو چکا ہے۔ یعنی اس وقت بارہ بج کر کچھ منٹ ہو چکے ہیں۔ اس نشست کے لئے معمول سے زیادہ وقت رکھا گیا لیکن بہرحال اب کیا کیا جا سکتا ہے۔

‌ما کلّ ما یتمنّی المرء یدرکه

تجری الرّیاح بما لا تشتهی السّفن(۲)

بعض اوقات وہ نہیں ہو پاتا جو انسان کا دل چاہتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس رات پڑھے جانے والے اشعار واقعی بہت اچھے تھے۔ جناب عالی نے فرمایا کہ 'نوجوان' آج رات اشعار پڑھنے والوں میں بعض نوجوان تھے۔ ان کے اشعار واقعی بہت اچھے اور دلنشیں تھے۔ صرف لسانی ندرت کے اعتبار سے نہیں جو آج کے اشعار میں بحمد اللہ بخوبی نظر آئی بلکہ کلیدی، قابل توجہ اور بعض اچھوتے موضوعات کو باندھنے کے اعتبار سے بھی، اسی طرح الفاظ کی بندش، زبان کی سلاست، الفاظ کے موزوں استعمال کے اعتبار سے بھی۔ ان میں جدید مضامین کافی تھے۔ کچھ لسانی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ تاہم میں دیکھتا ہوں کہ لسانی کمزوریاں بتدریج مرتفع ہو رہی ہیں۔ یعنی آج کی شب یہ چیز نظر آئی۔

شاعری کے بارے میں چند نکات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک نکتہ جس پر میرے خیال میں توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ فارسی شاعری کا جب سے ظہور ہوا ہے اس وقت سے تا حال اکثر و بیشتر اشعار میں عفت ور حجب و حیا رہی ہے۔ یہ چیز میں ایک جائزے کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ فارسی شاعری میں ہرزہ گوئی اور دریدہ دہنی بالکل نہیں رہی۔ کیوں نہیں، ماضی میں بھی یہ چیز تھی، البتہ کافی کم، حالیہ ادوار میں بھی تھی۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ایرج یا خاکشیر کے بعض اشعار میں پردہ دری اور ہرزہ سرائی نظر آتی ہے، لیکن ایسے اشعار بہت کم ہیں۔ فارسی شاعری میں شروع سے یہاں تک کہ آپ مثلا دیکھئے کہ خراسانی کی شاعری میں قصائد کے مقدمے میں، مطلع میں اور خود ان کے بقول تشبیب کے اشعار میں عشق و عاشقی کی باتیں ہیں، عاشقانہ اشعار ہیں، لیکن پھر بھی حیا اور عفت کی وہ کیفیت ان میں بھی ملحوظ رکھی گئی ہے۔ میں اپنا مدعا واضح کرنے کے لئے اسی دور کی عربی شاعری کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ البتہ آج عربی شاعری کی وہ کیفیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت عربی شاعری بہت اچھی اور کافی ذمہ دارانہ ہو گئی ہے۔ اس وقت لبنان کے چار عرب شعرا یہاں تشریف فرما ہیں۔ جنہوں نے نماز سے قبل اپنے کچھ اشعار مجھے سنائے۔ واقعی اچھے اشعار تھے، بڑے ممتاز اشعار تھے۔ لیکن ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ایک شاعر اس حد تک آگے بڑھ جاتا تھا کہ اپنے اشعار میں سماج کی ایک معروف خاتون کے نام کا ذکر کرکے اس سے عشق بازی کرتا ہے، اظہار عشق کرتا ہے۔ یہ چیز رائج تھی۔ آپ فارسی شاعری میں یہ چیز نہیں پائیں گے، یہ چیز آپ کو نہیں ملے گی۔ فارسی شاعری میں معشوق سے اظہار محبت، اظہار الفت وغیرہ ہوتا ہے لیکن معشوق ناشناختہ ہے۔ عام طور پر ایک تخیلاتی معشوق ہے یا کلی تصور ہے کوئی خاص شخص مراد نہیں ہے۔ ابتدائی دور کے عربی قصائد میں ایسا نہیں ہے۔ شاعر کے پیش نظر ایک خاص شخصیت ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے؛

و لو انّ لیلی الاخیلیّة سلّمت

علیّ و دونی جندل و صفائح(۴)

«لیلی اَخیَلیّه» ایک خاص شخصیت ہے۔ ایک خاتون تھی جس کا معاشرے میں اپنا ایک مقام تھا۔ یہ معروف شاعر اس عورت سے اظہار عشق کرتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی۔ یا آپ دیکھئے کہ ایک اور معروف شاعر جو فرزدق اور جریر وغیرہ کا معاصر شاعر ہے کُثَیّر نام کا۔ یہ شاعر ایک شاعرہ کا عاشق ہوتا ہے اور اس شاعرہ کا نام عزّہ تھا۔ اس شاعر نے اپنے اشعار میں اس شاعرہ کے لئے اس قدر اظہار عشق کیا کہ کثیّر عزّہ کے نام سے مشہور ہو گيا۔ یعنی اگر آپ آج کثیّر کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنا چاہیں تو آپ کو کثیّر عزّہ کے بارے میں تحقیق کرنی ہوگی۔ یہ چیز عام تھی۔ یہ عمل رائج تھا۔ لیکن فارسی شاعری میں آپ یہ چیز بالکل نہیں پائیں گے۔ بے شک اس زمانے کے قصائد میں اور بعد میں غزلیات کے اندر تشبیب ہوتی ہے، بقول خود ان شعرا کے تشبیب و نسیب ہوتی ہے، یا تغزل اور اظہار عشق بھی ہے لیکن کسی خاص شخصیت کا نام لیکر مخاطب نہیں کی گيا ہے کہ اس سے اظہار عشق کریں۔ البتہ حالیہ ادوار میں شاملو نے آیدا کا نام لیا ہے لیکن وہ اس کی بیوی ہے، اس کی زوجہ ہے۔ اس کے لئے غیر نہیں ہے۔ اپنے اشعار میں شاملو نے اس کے بارے میں اظہار محبت کیا ہے۔ بنابریں فارسی شاعری با عفت شاعری ہے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ کچھ مثالیں ملتی ہیں جن میں پردہ دری کی گئی ہے، بڑی گھٹیا انداز کی باتیں کی گئی ہیں جنہیں انسان زبان پر لاتے ہوئے بلکہ ذہن میں لاتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہے، لیکن یہ شاذ و نادر ہی ہے۔ پوری تاریخ دیکھی جائے تو فارسی شاعری میں ہمیں عفت نظر آتی ہے۔ اس خصوصیت کو باقی رکھئے۔ ہماری شاعری کی فضا میں یہ 'عفت شعری' محفوظ رہنا چاہئے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مرے عزیزو! شعر گہری تاثیر والا فن ہے۔ شعر میں ایسی خصوصیات ہیں جو دوسرے بہت سے فنون مں نہیں ہیں۔ بعض فنون دوسرے شعبوں میں ایک الگ انداز سے بہت موثر ہیں، جیسے فلم، ڈراما وغیرہ، لیکن شاعری کا اثر نرالا ہے۔ شاعری کو رجحان ساز ہونا چاہئے۔ یعنی ملک میں شعرا کی صنف کو فن و ہنر کی فضا میں، شعری ماحول میں ایسے اشعار کی نگارش، تدوین، تخلیق اور ترویج  کرنا چاہئے اس سے ملک کو در پیش مسائل اور اہم موضوعات کے بارے میں بحث کا آغاز ہو، ذہن سازی ہو۔ مثال کے طور پر انصاف و مساوات کے بارے میں، استقامت و مزاحمت کے بارے میں، اخلاقیات کے بارے میں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی معاشرت کے اخلاقیات کی کس قدر ضرورت ہے، میں نے پرسوں یہاں نوجوانوں کے ساتھ اپنی ایک نشست میں اس پر خاص طور پر تاکید کی (5)، ہمیں اپنے ذاتی اور شخصی اخلاقیات کو بھی سنوارنے کی ضرورت ہے، نمو اور بلندی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اپنے معاشرتی اخلاقیات کو، عوام سے اپنے برتاؤ کو، جیسے درگزر کرنے کی عادت، ایثار کے جذبے، صداقت، اخوت، بھائی چارے، وغیرہ کو بھی سنوارنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری شاعری کی تاریخ میں اس میدان میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ بڑے عالی مضامین کے اشعار کہے گئے ہیں، یہ رجحان سازی جاری رہنا چاہئے۔ اسی طرح مختلف شعبوں کے بارے میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، جیسے مزاحمت، جیسے وہ موضوعات جن کا ذکر آج کے بعض اشعار میں تھا، یہ بڑے اہم موضوعات ہیں۔

شاعری کے تعلق سے ایک نکتہ اور بھی ہے؛ فارسی شاعری نے نظریات پیدا کرنے اور ان میں گہرائی لانے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگر آپ غور کیجئے تو فارسی شاعری میں فلسفہ کافی زیادہ ہے۔ ہم فردوسی کو کہتے ہیں 'حکیم فردوسی' نظام کو کہتے ہیں 'حکیم نظامی' سنائی کو کہتے ہیں 'حکیم سنائی' اسی طرح اور مثالیں ہیں۔ سعدی بھی حقیقی معنی میں ایک حکیم (فلسفی) ہیں۔ حافظ بھی ایک حکیم اور فلسفی ہیں، حقیقی عارف ہیں۔ یعنی ان ہستیوں نے اپنی شعری کو حکمت و فلسفے کے لئے ظرف اور پیکر قرار دیا۔ وہ بھی اسلامی فلسفے کے لئے، قرآنی فلسفے کے لئے، روحانی و پیغمبرانہ فلسفے کے لئے۔ فارسی شاعری فلسفے سے معمور ہے۔ اس جذبے کو اس اخلاق اور حکیمانہ گفتگو کو آج کی شاعری میں بھی نمایاں نظر آنا چاہئے۔ آج رات جو اشعار پڑھے گئے ان میں بعض کے اندر میں نے محسوس کیا کہ فلسفیانہ مضامین تھے۔ ایسے اشعار تھے کہ انھیں ذہن میں، کتاب میں، تحریر میں محفوظ کیا جا سکتا ہے اور دوسروں تک منتقل اور انھیں شائع کیا جا سکتا ہے۔ حکیمانہ مضمون، اخلاقیات، نظریہ سازی، نظریات میں پختگی لانے اور امید کا جذبہ بیدار کرنے کی روش کے مد مقابل طریقہ یہ ہے کہ ہم شاعری میں اپنے مخاطب افراد کو عمل میں لا ابالی پن، فکر و نظر میں سطحی سوچ، سیاست میں وارفتگی اور دشمن کے معاملے میں بے حسی کی دعوت دیں۔ یعنی اگر ہماری شاعری ایسی ہے جس کے اندر یہ چیزیں ہیں تو یہ اس شاعرانہ حکمت کے برخلاف ہے جو فارسی شاعری کی  پوری تاریخ میں موجود رہی ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم موضوع ہے۔

شاعری کے لئے ضروری ہے کہ لگن، سخت کوشی، عمل میں نظم و ضبط، فکر و نظر کے میدان میں گہرائي سے سوچنے، تشخص کو استحکام بخشنے اور دشمن کے مقابلے میں جدوجہد کا جذبہ بیدار کرنے میں سرگرم ہو۔ اس پر آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو توجہ دینا چاہئے۔ آپ معاشرے کی چنندہ شخصیات ہیں، یعنی شاعری کا فن عام طور پر ممتاز ذہن اور ممتاز جذبے کی آغوش میں پروان چڑھتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ وطن عزیز کے فن و ہنر کے شعبے کو منحرف کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یعنی باقاعدہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ مفکرین کی جماعت بیٹھتی ہے اور منصوبہ بندی کرتی ہے کہ موجودہ شاعری کو منحرف کیا جائے۔ یہی سب کچھ فلم کی صنعت، تھئیٹر، مصوری، اسی طرح فن و ہنر کے گوناگوں شعبوں کے بارے میں کیا جا رہا ہے۔ گمراہ کن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ شاعری کے سلسلے میں بھی یہی ہو رہا ہے، واقعی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ لغویات گو افراد کو بہت اوپر پہنچا دیا جاتا ہے۔ میں اس وقت اپنے معاشرے میں یہ چیز دیکھ رہا ہوں۔ کچھ خفیہ ہاتھ ہیں جو کسی لغویات گو اور ہرزہ گو شاعر کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، عظیم ہستی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ فن شعری کے پہلو سے بھی اس کی شاعری کی سطح کافی نیچے ہے۔ مضمون کی تو خیر بات ہی چھوڑئے۔ فن شاعری کے زاوئے سے بھی وہ اشعار ایسے نہیں ہیں جن کے بارے میں کہا جائے کہ مضمون اچھا نہ سہی لیکن اشعار اچھے ہیں۔ نہیں، فن شعری کے اعتبار سے بھی یہ اشعار بہت خراب ہیں۔ مگر ان کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

ایک اور اہم نکتہ ترانے سے متعلق ہے۔ میں نے ایک دفعہ اور بھی (6) یہاں اس قضیئے کو اٹھایا تھا کہ ترانے شاعری کے شعبے میں اور شاعری کے فن میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں اور ان کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ترانے کی تاثیر واقعی بہت زیادہ ہے۔ ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں کہ مثال کے طور پر نوجوانوں، بچوں اور مختلف سن کے افراد، طلبہ وغیرہ کے اندر کوئی شعر بہت مقبول ہے۔ خود یہ شعر متحرک کرنے والا ہے، امید و نشاط پیدا کرنے والا ہے، خاص سمت دینے والا ہے۔ ہم نے اس میدان میں واقعی کم محنت کی ہے، کم کام کیا ہے۔ ترانے کے میدان میں دیکھا جائے تو اچھے ترانے کم ہیں۔

ایرانی معاشرہ شعر و شاعری سے مانوس ہے اور یہ بہت بڑی خصوصیت ہے۔ عرب معاشرہ بھی ایسا ہی ہے۔ عرب بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ بھی شعر و شاعری سے بڑا شغف رکھتے ہیں، بہت مانوس ہیں۔ آپ ملاحظہ فرمائیے کہ انقلاب کی تحریک میں، انقلاب کے ان گوناگوں برسوں میں، وہ نعرے جن میں موزونیت ہے اور شعری قالب رکھتے ہیں وہ خود عوام کی زبان سے نکلے ہیں۔ یعنی کسی کو نہیں معلوم کہ یہ شعر کس نے کہا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ کے اندر کسی کے منہ سے نکلا اور دوسرے لوگوں کو بھی پسند آیا کیونکہ وہ شعر تھا، اس میں موزونیت تھی، بسا اوقات تو مقفّی اشعار بھی ہیں۔ عوام نے اسے پروان چڑھایا۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی اشعار بہت رائج ہیں اور یہ بہت اچھی خصوصیت ہے۔ میں نے ایک چیز نوٹ کی تھی اور دل چاہتا تھا کہ اسے بیان کروں؛ بعض اخبارات میں جو تعزیتی پیغامات شائع کئے جاتے ہیں، کسی تعزیتی پیغام میں میں نے ایک شعر دیکھا، بعض لوگ ان میں شعر لکھتے ہیں، انسان کی نظر فطری طور پر اس شاعر کی طرف کھنچ جاتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ واقعی ہمارے عوام کا مزاج شاعرانہ ہے۔ اس شعر کا لہجہ بے دل جیسا ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ شعر کس کا ہے؛

به صد دام آرمیدم، دامن از چندین قفس چیدم

ندیدم جز به بالِ نیستی پرواز آزادی(7)

کتنا خوبصورت شعر ہے! نیستی کے بال و پر کے بغیر مجھے پرواز کی آزادی نظر نہیں آتی۔ یہ ہمارے عوام کا مزاج ہے۔ آپ ان کے تعزیتی پیغامات میں بھی اتنے پرکشش اشعار تلاش کر سکتے ہیں۔ البتہ آپ حضرات تو کمپیوٹر وغیرہ سے سروکار رکھتے ہیں۔ آپ اس کے شاعر کو تلاش کر سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ کس شاعر کا شعر ہے۔ لب و لہجہ بے دل کا ہے۔ شعر کے لئے معاشرے میں موجود اس لگاؤ، اس تقاضے اور اس چاہت سے استفادہ کرنا چاہئے اور ایسے مفاہیم کو جن کی عوام کو ضرورت ہے، یا عملی روش کو جو عوام کے کام آ سکتی ہے، شعر کی زبان میں ان تک منتقل کرنا چاہئے۔

ان شاء اللہ آپ سب کامیاب ہوں، دعا کرتا ہوں کہ آپ کو برسہا برس اس راہ پر چلنے کی توفیق ملے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں کچھ شعرا نے اپنے اشعار پیش کئے۔

۲) متنبّی «انسان کی ہر آرزو پوری نہیں ہوتی، جیسے ہوائیں کشتیوں کی پسند کے مطابق نہیں بہتیں۔ »

۴) توبة ابن الحُمیر

۵) یونیورسٹیوں کے طلبہ سے مورخہ 29 مئی 2018 کا خطاب

۶) نواسہ رسول حضرت امام حسن علیہما السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعرا سے مورخہ 20 جون 2016 کا خطاب

7) بے دل دہلوی