بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میں عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، محترم عوامی نمائندوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس سال کی ہماری اس ملاقات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بحمد اللہ آج کے اجلاس میں پارلیمنٹ کے مختلف شعبوں کے کارکنان بھی تشریف فرما ہیں، موجود ہیں۔ مختلف شعبے جو پارلیمنٹ کے تحت کام کرتے ہیں۔ عہدیداران، کارکنان اور آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ نے جو زحمت اٹھائی اس کی بابت آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی سے آپ کے لئے اور اپنے لئے ہدایت و اصلاح کی راہ میں روز افزوں توفیقات کی دعا کرتا ہوں اور التجا کرتا ہوں۔

پہلی بات ان ایام کی مناسبت سے؛ یہ ایام ایسے ہیں کہ ہم ابھی حال ہی میں ماہ رمضان سے گزرے ہیں اور کسی حد تک رمضان المبارک کی فضا آپ کے لئے اور ہمارے لئے قائم ہے۔ میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ خدمت کی روح ہے تقرب الی اللہ۔ وہ تمام کام جو آپ انجام دیتے ہیں، خواہ پارلیمنٹ کے ایوان میں، یا کمیشنوں کے اندر، یا پارلیمنٹ سے متعلق اداروں کے اندر، یہ تمام خدمات اگر اللہ کے لئے اور راہ خدا میں ہوں حقیقی خدمت کا درجہ پائیں گی اور قرب الہی کا سبب بنیں گی۔ بہت کم ہی عبادتیں ایسی ہوں گی جو ان خدمات کی برابری کر پائیں گی۔ بشرطیکہ یہ خدمات اللہ کے لئے انجام دی جائیں۔ اگر ہماری سرگرمیوں پر، ہمارے اقدامات پر، ہماری گفتار پر، ہمارے سکوت پر یہ روحانی و معنوی جذبہ سایہ فگن رہے تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ معاشرے کو رفعت حاصل ہوگی اور انسان اپنے حقیقی جوہر سے قریب ہوگا جو تمام انبیائے الہی کا مطمح نظر رہا ہے۔ ہم لوگ مادیات کے اسیر ہیں۔ ہماری نظر، ہماری آنکھیں صرف مادیات کے مظاہر اور نشانیوں کو دیکھ پاتی ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں ان سے لگاؤ ہو جاتا ہے۔ مادی کشش ہمیں اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ ہماری نگاہیں جب مادی حصار میں پڑ جاتی ہیں تو اس سے زیادہ دیکھ نہیں پاتیں۔ اگر ہم روحانیت میں اضافہ کریں، قلبی پاکیزگی کو فروغ دیں، اگر ہم نے تقرب الی اللہ پر سنجیدگی سے توجہ دی، اگر ہم نے اللہ کے لئے کام کرنے کی مشق کی اور آگے بڑھے تو آپ کے وجود میں موجود لطیف روح آپ کی نگاہوں کے سامنے زیادہ پرکشش اور اعلی مناظر پیش کرے گی جو دنیا میں ہمیں نظر آنے والی دنیاوی خوبصورتی سے زیادہ بلند و برتر ہوں گے۔

اگر زین خاکدان پست روزی بَر پری، بینی - که گردونها و گیتی‌ها است مُلک آنجهانی را(۲)

'ملک آنجھانی' سے مراد صرف بہشت نہیں ہے، صرف قیامت نہیں ہے۔ اسی دنیا میں ایسے افراد تھے اور ہیں کہ چشم حقیقت بیں سے، چشم معنویت بیں سے اسی دنیا میں خاص حقائق سے روشناس ہوئے اور ان روحانی و الہی مناظر اور اعلی و ارفع نعمت خداوندی کو دیکھتے ہوئے اچھی زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ افراد عام طور پر ان چیزوں سے بے پروا رہے جن کی ہم بڑی پابندی کرتے ہیں، انھوں نے ان چیزوں پر توجہ نہیں دی۔ اس راہ پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ ہم سب سفر کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی دشوار اور سنگلاخ راستہ نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے اعمال و افعال میں بس اتنا خیال رکھیں کہ جو اقدام کرنا چاہتے ہیں، جو بات زبان سے ادا کرنا چاہتے ہیں، جو قانون پاس کرنا چاہتے ہیں، جو مشاورانہ رائے پیش کرنا چاہتے ہیں، جو خدمات انجام دے رہے ہیں اگر وہ سب اللہ کے لئے ہے، رضائے پروردگار کے حصول کی خاطر ہے تو فورا اقدام کریں اور اگر ہم محسوس کر لیں کہ یہ خوشنودی پروردگار کے لئے نہیں ہے تو اقدام نہ کریں۔ یہ دقت نظری، یہ توجہ ہر کسی کے بس میں ہے۔ ہم سب یہ کام کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں تو بتدریج ہمیں ارتقا حاصل ہوگا، ہمارا وجود پاکیزہ ہوگا، صفائے باطن میں اضافہ ہوگا۔

اب پارلیمنٹ کے امور کا جائزہ لیتے ہیں۔ میں نے محترم ارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے چند نکات نوٹ کئے ہیں۔ البتہ گزشتہ برسوں کے اجلاسوں میں جو نکتہ ضروری معلوم ہوا، مفید محسوس ہوا وہ ہم نے عرض کیا۔ لہذا بعض وہی پرانے نکات ہیں اور بعض ممکن ہے کہ نئے ہوں۔ بہرحال جو ہمیں ضروری محسوس ہو رہا ہے وہ ہم عرض کریں گے۔

میرے خیال میں ہر پارلیمنٹ کے ارکان اور اعلی عہدیداران کی یہ کوشش ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کا موجودہ دور گزشتہ پارلیمنٹ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرے، زیادہ بلندی پر پہنچے۔ پارلیمنٹ کے کام کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اگر ہم زیادہ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ یہ ہے کہ زیادہ کام کیا جائے، بہتر انداز میں کام کیا جائے۔ کام اور خدمت کا میدان تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر انسان اس میں سر فہرست اپنا نام دیکھنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ محنت کرے، زیادہ کام ضروری ہے، اقدام ضروری ہے، بنیادی کام ضروری ہے۔

البتہ جناب لاریجانی صاحب حفظہ اللہ نے، محترم اسپیکر نے بڑی اچھی فہرست پیش کی۔ اس سے پہلے آپ نے ایک تحریری رپورٹ بھی بھیجی تھی جس کا میں نے مطالعہ کیا اس پر غور کیا۔ الحمد للہ اچھا کام ہوا ہے۔ لیکن ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ صرف کام کی مقدار کا جائزہ کافی نہیں ہے۔ یعنی بس یہ ذکر کر دینا کافی نہیں ہے کہ ہم نے اتنے بلوں کا جائزہ لیا۔ یہ واضح ہونا چاہئے کہ ملکی نظم و نسق کے اعتبار سے ان بلوں کا وزن کیا ہے۔ اس لئے کہ آپ ملک کو چلانے والے ہیں۔ آپ ملک کے لئے قانون سازی اور اداروں کی پیش قدمی کے لئے پٹری بچھانے کا کام آپ کرتے ہیں۔ یعنی ملکی نظم و نسق کا یہ اہم ترین حصہ آپ کے اختیار میں ہے۔ جو بل منظور کیا گيا ہے وہ مشکلات کے ازالے، ملک کی پیشرفت اور عوام الناس کے مفادات کی حفاظت میں کتنا موثر ہے؟ بنابریں صرف تعداد کافی نہیں ہے۔ کوالٹی پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ البتہ دوسری بھی شرطیں ہیں جن کا میں ذکر کروں گا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ضروری چیزیں ہیں۔

مجموعی طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کو قومی وقار اور اسلامی نظام کے استحکام و اقتدار کا مظہر ہونا چاہئے۔ یہ ہے پارلیمنٹ کی اصلیت۔ کیوں؟ اس لئے کہ پارلیمنٹ مختلف علاقوں میں رہنے والے عوام کے ذریعے منتخب ہوتی ہے۔ یہ لوگ خاص احساس و جذبے کے ساتھ ایک شخص کو، کسی برادر عزیز یا خواہر گرامی کو منتخب کرتے ہیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ پارلیمنٹ ملت کی فضیلتوں کا نچوڑ ہے (3)۔ یہ ایک نکتہ ہے، بڑا اہم نکتہ ہے۔ توجہ فرمائيے۔ فضیلتوں کا نچوڑ، تمام خصلتوں کا نچوڑ نہیں! بعض خصلتیں فضائل کے زمرے میں نہیں آتیں۔ پارلیمنٹ کو ملت کی فضیلتوں کا نچوڑ ہونا چاہئے۔ اس ملت کی فضیلتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ پارلیمنٹ میں، شک و تردد کی کیفیت نہیں ہونا چاہئے، احساس کمتری کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہئے، اسے مایوسی اور قنوطیت کا مظہر ملکی مسائل کے سلسلے میں بے اعتنائی اور بے پروائی کا مظہر نہیں ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ سے یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہئے کہ وہ ملی توانائیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں مایوسانہ سوچ رکھتی ہے۔ ملت کے جو فضائل ہیں ان کا نچوڑ یہاں پر جمع ہونا چاہئے۔ یہ چیزیں اہم ہیں۔

مجھے یہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اور ہمارے عوام کے اندر تاریخ کا مطالعہ قدرے محدود اور کم رنگ ہے۔ ورنہ اگر انسان تاریخ سے واقف ہو تو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ملت تاریخ میں بھی بڑی بلندی پر فائز رہی ہے اور عصر حاضر میں بھی بڑی ممتاز منزلت کی مالک ہے۔ تاریخ میں ہماری قوم ایمان کا مظہر، علم کا مظہر، خود اعتمادی کا مظہر، اپنے سرمائے اور ورثے پر افتخار کا مظہر اور استقامت کا مظہر رہی ہے۔ تاریخ میں یہ صورت حال ہے۔ میں اس کی ایک دو مثالیں اشارتا پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ دیکھئے کہ پانچویں چھٹی صدی ہجری میں سلجوقیوں نے ایران کی جانب ہجرت کی۔ کچھ تعداد جنوب سے ایران آئی اور کچھ نے شمال کی جانب سے ایناتولیا کی جانب ہجرت کی۔ جو لوگ ایناتولیا کی جانب گئے انھوں نے وہاں کی زبان تبدیل کر دی، وہاں کا تمدن بدل دیا، وہاں کی ثقافت بدل دی۔ ان کی ساری چیزیں بدل دیں۔ حکومت بیزانس کے قدیمی آناتولی کو انھوں نے اپنی ثقافت میں رنگ دیا۔ جو لوگ جنوب سے آئے تھے، یعنی یہی ایران کے سلجوقی وہ ایران کے تمدن میں آکر ضم ہو گئے۔ وہی لوگ تھے لیکن یہاں آئے تو خود ضم ہو گئے۔ ایرانی ثقافت و تمدن میں ضم ہی نہیں ہوئے بلکہ مجبورا ایرانی کلچر کے مروج اور مبلغ بھی بن گئے۔ آپ دیکھئے کہ سلجوقی دور میں ہمارا فن، ہماری معماری، ہمارا شعر و ادب، ہمارا نثر کس بلندی پر نظر آتا ہے۔ یہ لوگ ایرانی نہیں تھے۔ سلجوقی تھے، غیر تھے، لیکن ایران نے انھیں اپنے اندر ضم کر لیا۔ کسی قوم کے اقتدار اور ملت کے استحکام کا یہی مطلب ہوتا ہے۔

بالکل یہی چیز منگولوں کے ساتھ پیش آئی۔ منگول حملہ آور کی صورت میں یہاں آئے اور انھوں نے وہ سب کیا جو مشہور ہے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ منگول اپنا تمدن، اپنی ثقافت، اپنی قانون کی کتاب 'یاسا' کو اس ملک پر مسلط نہ کر سکے بلکہ اس تمدن اور اس ثقافت نے خود ان کو اپنے اندر ضم کر لیا اور وہ ایمان کے مبلغ، دین کے مروج، ثقافت کے مروج، فن کے مروج بن گئے۔ ہمارے فنون کی تاریخ کا ایک ممتاز دور ایران میں منگول حکومت کا دور ہے۔ یہ ہے ایران۔ یہ ہے ہمارا ماضی۔

میں اس سے بھی بڑھ کر ایک بات کہتا ہوں۔ مسلمان بہادروں نے ہمیں پیارا دین اسلام دیا؛  داد یکی دین گرامی به ما-(4)

 جب یہی لوگ مثال کے طور پر شمالی افریقا کے ملکوں میں گئے، میں اس وقت وہیں کی مثال دینا چاہوں گا، تو انھوں نے وہاں کی زبان بدل دی، ثقافت بدل دی۔ مگر ایران آئے تو ہماری زبان نہیں بدلی۔ اسلامی دور میں فارسی زبان کو اسلام سے قبل کے ادوار کی نسبت زیادہ فروغ ملا۔ آپ کے پاس ماقبل اسلام کے دور کا فارسی ورثہ کیا ہے؟ جبکہ اسلامی دور کو اگر آپ دیکھئے تو کیسی رفعت نظر آتی ہے۔ کتنے اشعار، کتنی نثری تخلیقات، کیسا ثقافتی ورثہ ہے! یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ان چیزوں پر توجہ دینا چاہئے۔ یہ ماضی کی بات ہے۔

خود ہمارے اس موجودہ دور میں بھی دیکھئے تو چالیس سال سے اس ملت سے بدترین دشمنی برتی جا رہی ہے۔ اس سے زیادہ سختگیری کیا ہو سکتی ہے؟ واقعی کسی بھی ملت کے ساتھ ایسا معاندانہ رویہ روا نہیں رکھا گیا۔ معاندانہ اور جامع الجہات رویہ۔ صدر اسلام میں جنگ احزاب کی طرز پر احزاب کا ایک عجیب و غریب محاذ کئی ملین لوگوں کی شرکت سے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف تشکیل پایا ہے۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا انھوں نے کرکے دیکھ لیا۔ انہوں نے پابندیاں لگائیں۔ زہریلا پروپیگنڈا کیا ہے۔ جنگ کی ہے۔ سیکورٹی سے متعلق سازشیں رچی ہیں۔ ہر طرح کے اقدامات جو ان کے بس میں تھے انھوں نے کئے۔ انھوں نے پابندیاں عائد کیں۔ آپ آج اس ملت کی صورت حال کا موازنہ چالیس سال قبل کے دور سے کیجئے۔ اوائل انقلاب کی صورت حال سے کیجئے۔ اس ملت کی قوت، اس ملت کی عظمت، اس ملت کی پیشرفت، اس ملت کا علم، اس ملت کی مستحکم بین الاقوامی پوزیشن کا ماضی سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ روز افزوں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ آپ اس ملت کی فضیلتوں کا نچوڑ ہیں۔ تو پھر دیکھئے اور غور کیجئے کہ آپ کا عمل کیسا ہونا چاہئے۔ یہ ملت ایسی ہے جو زیور ایمان سے آراستہ ہے، جو صاحب علم ہے، جو خود اعتمادی سے مالامال ہے، جو خود مختار ہے، جسے اپنے منفرد اوصاف کا علم ہے اور ان خصائص پر وہ سختی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ حالانکہ انقلاب کو چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔

یہاں تفصیل سے تاریخ بیان کرنے کا موقع و محل نہیں ہے۔ حالیہ دو صدیوں میں دنیا کے سب سے بڑے انقلابات میں دو تین ہیں۔ ایک فرانس کا انقلاب کبیر ہے۔ ایک سوویت یونین کا انقلاب ہے۔ ایک امریکہ کی تحریک آزادی ہے۔ یہ سارے انقلابات تقریبا پچھلے دو سو سال کے عرصے میں آئے ہیں۔ یعنی امریکہ کی تحریک آزادی مثال کے طور پر دو سو تیس یا چالیس سال پہلے رونما ہوئی۔ 1783 عیسوی کے آس پاس (5)۔ اس کے چند سال بعد فرانس کا انقلاب آیا۔ اس کے دو سو سال بعد سوویت یونین کا انقلاب رونما ہوا۔ یہ ہمارے اسی قریب کے دور کے واقعات ہیں۔ آپ اگر ان انقلابات کی تاریخ پر نظر ڈالیں اور ان کے ابتدائی چالیس سالہ دور کا موازنہ اسلامی انقلاب کے اس چالیس سالہ دور سے کریں تو اس انقلاب کی عظمت، اس انقلاب کی پیشرفت اور اس انقلاب کی سرعت عمل مبہوت کن نظر آئے گی۔ وہ انقلابات ابھی بھی اس رفتار سے، اس تیزی سے اور اس مضبوطی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اس کا زمانے کے تغیرات اور حالات سے کوئی ربط نہیں ہے۔ یعنی ان چیزوں کے زیر اثر نہیں ہے۔ دوسرے اسباب ہیں۔ ملت ایران ایک ایسی حقیقت ہے اور آپ اس ملت کا نچوڑ ہیں۔ آپ اس حیثیت سے خود کو دیکھئے، اس نگاہ سے پارلیمنٹ کو دیکھئے۔ پارلیمنٹ سے اپنی توقعات کو آپ اس معیار کے مطابق طے کیجئے اور ان شاء اللہ ان توقعات پر پورے اترئے۔ تو یہ رہا پہلا نکتہ۔

اگلا نکتہ ہے قانون سازی یعنی پٹری بچھانا جو پارلیمنٹ کا بنیادی کام ہے۔ ویسے نگرانی بھی اس کا کام ہے، لیکن بنیادی کام ہے قانون سازی۔ اس کی کیفیت میں روز بروز بہتری آنا چاہئے۔ روز بروز، یعنی ہر دور کی پارلیمنٹ بلکہ پارلیمنٹ کا ہر سال قانون سازی کی کیفیت کے اعتبار سے پچھلے دور اور گزشتہ سال سے بہتر ہونا چاہئے۔ میں اب قانون سازی کے تعلق سے چند نکات عرض کروں گا۔

 پہلی چیز تو یہ ہے کہ ترجیحات کی بنیاد پر کام کیا جائے۔ جناب لاریجانی صاحب نے اشارہ کیا کہ ان قوانین میں ملک کی ترجیحات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ آپ غور کیجئے اور دیکھئے کہ ترجیحات کیا ہیں؟ ممکن ہے بعض قوانین زیر بحث آئيں، ان پر پارلیمنٹ کا وقت صرف ہو اور ملک کے سماجی ماحول میں کسی مسئلے کو حل بھی کر دیں لیکن انھیں کوئی ترجیح نہ ہو۔ ایسے قوانین کو کنارے رکھ دینا چاہئے۔ یعنی اس پیسے کی طرح جس کی انسان کو ضرورت نہیں ہے اور یونہی خرچ کرتا جا رہا ہے۔ اس انداز سے پارلیمنٹ کا وقت خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کا وقت محدود ہے۔ آپ کے پاس چار سال سے زیادہ کا وقت تو نہیں ہے۔ اس وقت کے ایک ایک ذرے اور ایک ایک لمحے سے استفادہ کرنا چاہئے۔ بنابریں صرف ترجیحی مسائل کو زیر بحث لائيے۔

دوسری چیز ہے قابل عمل ہونا۔ بعض اوقات ایسا قانون بن جاتا ہے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ یعنی ماہرانہ جائزہ یہ بتاتا ہے کہ اگر یہ قانون بن گيا تب بھی اس پر عمل نہیں کیا جا سکے گا۔ ایسے قانون کو کنارے رکھ دینا چاہئے۔

یا بعض اوقات وہ ملکی مفادات کے خلاف ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایسا قانون عمدا تو نہیں بنتا۔ میں یہیں پر کنونشنوں اور عالمی معاہدوں کے مسئلے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ آپ دیکھئے کہ یہ بین الاقوامی معاہدے جنہیں فرنگی زبان میں کنونشن کہا جاتا ہے، در اصل کسی ایسی جگہ پر تیار کئے جاتے ہیں کہ اس مسئلے کے متعلقہ فریق مثال کے طور پر اگر سو یا ڈیڑھ سو ممالک بعد میں اس میں شامل ہوتے ہیں تو ان ملکوں کا ان کی تیاری میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ کسی جگہ پر چند طاقتیں اپنی فکری ٹیموں کے ذریعے جنہیں وہ تھنک ٹینک کہتی ہیں، بیٹھ کر اپنے خاص مفادات اور منفعتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کنونشنوں کو تیار کرتی ہیں۔ پھر ان حکومتوں کی مدد سے جو ان کی ہمنوا ہیں، یا ان سے مرعوب ہیں، یا ان کی تابعدار ہیں اور جن کو اس مسئلے میں کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ہے، منظور کروا لیتی ہیں۔ اب اگر اسلامی جمہوریہ ایران جیسا کوئی خود مختار ملک سامنے آتا ہے اور مثال کے طور پر یہ کہتا ہے کہ مجھے یہ قبول نہیں ہے، مجھے یہ کنونشن اور یہ بین الاقوامی معاہدہ منظور نہیں ہے تو اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں کہ جناب! 120 ممالک، 150 ممالک، 200 ممالک اسے قبول کر رہے ہیں تو آپ کیسے قبول نہیں کریں گے؟ عام طور پر کنونشن ایسے ہوتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اب ہم کیا کریں؟ بعض بین الاقوامی معاہدوں اور کنونشنوں میں کچھ مفید چیزیں ہیں۔ چلئے اچھی بات ہے، کوئی حرج نہیں ہے، میں نے بھی ان چیزوں کو بارے میں جو حالیہ عرصے میں حالیہ مہینوں میں پارلیمنٹ میں زیر بحث آئیں، کہا کہ پارلیمنٹ الگ سے اس بارے میں قانون سازی کرے۔ مثال کے طور پر دہشت گردی یا منی لانڈرنگ کی روک تھام کا مسئلہ ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ مجلس شورائے اسلامی (ایران کی پارلیمنٹ) ایک عاقل و بالغ اور ذی فہم ادارہ ہے۔ اس کے پاس کام کا بہت اچھا تجربہ ہے۔ اسے بیٹھ کر قانون سازی کرنا چاہئے۔ یہ قانون منی لانڈرنگ کی روک تھام کا قانون ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے لئے کچھ زیادہ شرطیں بھی نہیں ہیں۔ آپ جو بھی اقدامات کرنا چاہتے ہیں وہ اس قانون میں درج ہوں۔ یہ اہم بات ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ایسی چیزوں کو جن کے بارے میں نہیں معلوم کہ ان کی حقیقت کیا ہے، بلکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان میں کچھ مشکلات ہیں، صرف اس وجہ سے کہ ان میں کچھ مثبت پہلو ہیں انھیں ہم قبول کر لیں؟

 قانون کا ہدف عوامی مشکلات کا ازالہ ہونا چاہئے۔ داخلی ترجیحات کو اس میں ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ اس کا سب سے پہلا ہدف کمزور لوگوں، کمزور طبقات کی مشکلات کا تصفیہ ہونا چاہئے۔ ملک میں کچھ طبقات ہیں جو کمزور ہیں، کچھ اوسط سطح کے ہیں اور کچھ اوسط سطح سے نیچے ہیں۔ قانون کی توجہ ان طبقات کی مشکل کے حل کی طرف ہونا چاہئے۔ ویسے قانون تو سب کے لئے ہوتا ہے، تمام طبقات کی بھلائی اس کے مد نظر ہوتی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا، لیکن ان طبقات کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ کمزور طبقات کا مسئلہ زندگی کی معروضی مشکلات ہوتی ہیں۔ قانون ان مشکلات کو دور کرنے پر توجہ دیتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قانون دولت اور طاقت والے افراد کا حربہ نہ بن جائے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ان کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننا چاہئے۔ کبھی آپ کوئی قانون بناتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کسی نے سیڑھی لگائی اور کسی دوسرے شخص کے گھر کی دیوار پر چڑھ گیا تو قانون یہ ہے کہ اسے ایک سزا دی جائے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سیڑھی کس شخص کے گھر پر لگائی گئی ہے، فقیر کے گھر پر، امیر کے گھر پر، متمول علاقے کے کسی گھر پر یا غریب علاقے کے کسی گھر پر۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس قانون سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ قانون سب کے لئے ہے۔ لیکن کہیں کہیں کچھ ترجیحات ہوتی ہیں۔ اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ قانون صاحبان ثروت اور طاقت کی مٹھی میں چلا جائے۔

قانون بنانے اور پاس کرنے میں ماہرانہ جائزے پر سختی سے عمل ہونا چاہئے۔ خوشی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کا تحقیقاتی مرکز بہت اچھا مرکز ہے۔ اس تحقیقاتی مرکز سے حقیر کو جو رپورٹیں ملتی ہیں ان سے بڑی اچھی خبریں ہمیں ملتی ہیں۔ اس مرکز میں ماہرانہ تحقیق اور جائزے کے امکانان وفور کے ساتھ موجود ہیں۔ ان امکانات سے بخوبی استفادہ کرنا چاہئے۔ یہ پارلیمنٹ کا طاقتور ماہرانہ بازو ہے اس سے بھرپور استفادہ کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ سے باہر موجود ماہرین کی خدمات بھی لی جانی چاہئے۔ کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ کسی مسئلے میں، کسی شعبے میں کوئی شخص کئی سال سے کام کر رہا ہے، غور و فکر کرتا رہا ہے۔ اب اگر اس شعبے میں آپ اس شخص کی رائے لیتے ہیں تو ممکن ہے کہ ایک جملے سے، ایک لفظ سے، ایک سطر سے کوئی بہت بڑی مشکل حل کر دے۔ ایسا ہوتا ہے۔ ماہرین کی مدد اسی انداز سے ہوتی ہے کہ ان کی چھوٹی سی تجویز بہت بڑی مشکل کو حل کر دیتی ہے۔

ہم نے کہا کہ قانون کا مقصد حقیقی مشکلات کا تصفیہ ہونا چاہئے۔ میں نے دیکھا کہ خاندان سے متعلق بعض قوانین جو پارلیمنٹ میں آئے ہیں، زیر بحث ہیں یا پاس ہوتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغربی رسومات سے متاثر ہیں۔ اس سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ اہل مغرب خاندان پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ نہیں چاہتے۔ لیکن مغربی طرز زندگی اور حالات ہی ایسے ہیں کہ وہ حقیقی معنی میں خاندان کے خلاف ہیں۔ یہ بات وہ خود بھی کہہ رہے ہیں اور برسوں سے اس مشکل میں گرفتار ہیں۔ اب وہ اس کا حل نکالنا چاہتے ہیں لیکن ان کے بس میں نہیں ہے۔ یعنی مغرب میں خاندان کی بنیاد اور خاندان کا بنیادی ستون حد درجہ کمزور ہو چکا ہے۔ اب ہم آکر ان چیزوں کو جو انھوں نے عورت کے بارے میں، نوجوان کے بارے میں، بچوں کے بارے میں، والدین وغیرہ کے بارے میں عرف عام کے طور پر اپنا رکھی ہیں، اپنے خاندانوں میں رائج کریں؟! نہیں، یہ مناسب نہیں ہے۔ ہمیں خاندانوں کے بارے میں ایسے قوانین وضع کرنا چاہئے جو حقیقی معنی میں خاندان کی مشکلات کو حل کرنے والے ہوں۔ اگر مشکلات ہیں تو قانون ان مشکلات کو حل کرنے والا ہونا چاہئے۔ مغرب کے زیر اثر نہیں ہونا چاہئے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قانون اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ذکر بھی کیا گيا، ایک اجلاس ہوا جس میں بحمد اللہ تینوں شعبوں کے سربراہان اور دیگر عہدیداران نے شرکت کی تاکہ اقتصادی مسائل حل کرنے کے لئے مزید سنجیدگی سے اقدامات انجام دئے جائيں، فیصلہ کیا جائے اور رکاوٹوں کو دور کرکے راستے کھولے جائیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے کہ اس وقت یہ اجلاس بھی ہو رہا ہے۔ اس سمت میں پارلیمنٹ کو پوری سنجیدگی سے آگے بڑھنا چاہئے۔ آج ملک کی اقتصادی مشکلات کو ترجیح حاصل ہے۔ ان مسائل کو حقیقی معنی میں حل کیا جانا چاہئے۔ دشمن اسی کمزوری سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ اسے اس کا موقع نہیں دینا چاہئے۔

ایک نکتہ اور ہے قوانین کی جدیدکاری کے تعلق سے۔ بعض قوانین کا اب فلسفہ ختم ہو چکا ہے۔ چنانچہ میں قوانین کی تنقیح کا مسئلہ پہلے کئی بار پیش کر چکا ہوں۔ چند سال پہلے اسلامی جمہوریہ کے دور میں یا اس سے پہلے کے دور میں کوئی قانون بنا۔ قانون آج بھی موجود ہے لیکن اب اس کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ اسے حذف کر دینا چاہئے۔ پارلیمنٹ ہی یہ کام کر سکتی ہے کوئی اور ادارہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ جس قانون کا فلسفہ وجودی ختم ہو چکا ہے اسے اب چھوڑ دینا چاہئے۔ بعض قوانین ایسے ہیں جن سے تضاد، رکاوٹ اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ قوانین کی تنقیح کے مسئلے پر پوری سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے۔ بعض قوانین مشکلات پیدا کرنے والے ہیں، انہیں ختم کر دینا چاہئے۔ میں نے سنا اور اس دن اپنی ایک گفتگو میں کہا بھی کہ وزارت خزانہ بعض ضوابط کو جو ملک کے اندر تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ختم کر رہی ہے (6)۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ بعض کام ایسے ہیں جو کسی حکومتی عہدیدار کے ہاتھوں انجام پا سکتے ہیں لیکن بعض کام ایسے ہیں کہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ وہ کام صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ تو یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔

ایک اور مسئلہ ہے قوانین کے نفاذ کا۔ کچھ دنوں پہلے پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے کہا کہ فلاں قانون پر فلاں ادارے نے دو سال سے عمل نہیں کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ نے اس دو سال میں اس بارے میں کیا کیا؟ اگر اس ادارے نے قانون پر عمل نہیں کیا تو آپ کو دیکھنا چاہئے کہ اس قانون پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ آپ قانون پاس کرنے کے لئے اتنا وقت، عمر، پیسہ، وسائل وغیرہ خرچ کرتے ہیں۔ جب اتنے سارے مقدمات کے بعد یہ قانون  پاس ہو جاتا ہے تو اب کوئی عہدیدار ہے جو اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ بتایا گیا کہ بعض قوانین پر عمل نہ کئے جانے کے مسئلے کو عدلیہ کے حوالے کر دیا گيا ہے، عدلیہ نے کہا ہے کہ یہ تعزیراتی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسے تعزیراتی دائرے میں لایا جائے تو یہ کام کسے انجام دینا چاہئے۔ یہ کام بھی پارلیمنٹ کو کرنا ہے (7)۔ جی نہیں یہ تو عدلیہ کا کام نہیں ہے، عدلیہ تو تعزیراتی مسائل کو دیکھتی ہے، ایسے میں عدلیہ سے کون کہے گا کہ اس کا شمار تعزیراتی مسائل میں ہوتا ہے؟ پارلیمنٹ کہے گی۔ پارلیمنٹ کو یہ کام کرنا چاہئے۔ لہذا میری نظر میں قوانین پر عمل آوری پر نظر رکھنا بھی بہت اہم کام ہے جو انجام دیا جانا چاہئے۔

ایک اور اہم مسئلہ جو ہمارے عزیز بھائیوں اور بہنوں کے لئے قابل توجہ ہے۔ یہ ارکان پارلیمنٹ کے برتاؤ اور سلوک کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں اس مسئلے میں جو جامع لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے وہ 'انقلاب نوازی ' کا لفظ ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کا انداز اور برتاؤ انقلابی ہونا چاہئے۔ کارروائی انقلابی نہج پر ہونی چاہئے۔ آپ نے جو حلف اٹھایا اس میں بھی آپ نے یہ کہا کہ انقلاب، انقلاب کے ثمرات، انقلاب کی حصولیابیوں، اسلامی جمہوری نظام کی حصولیابیوں کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ انقلابی ہوئے بغیر تو اس کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔ روش انقلابی ہونا چاہئے۔ انقلابی روش کا مطلب غیر مدبرانہ روش نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے مدبرانہ، عاقلانہ اور مجاہدانہ روش۔ جہادی اقدام۔ ہم جو عہدیداران کو جہادی مینیجمنٹ کی سفارش کرتے ہیں، پارلیمنٹ کے لئے بھی ہماری سفارش مجاہدانہ روش اور مجاہدانہ طرز عمل ہے، مجاہدانہ گفتار ہے، مجاہدانہ اقدام ہے، انقلابی روش کی سفارش ہے۔ پارلیمنٹ کے محترم رکن کے تمام کاموں میں انقلابی جذبہ اور ایمان کا جذبہ غالب رہنا چاہئے۔ انقلاب کے ثمرات اور نظام کی بنیادوں کی حفاظت ارکان پارلیمنٹ کے حلف کا حصہ ہے۔ اگر اسے انجام نہ دیا گیا تو رکن پارلیمنٹ کی موجودگی قانونی اعتبار سے زیر سوال ہوگی اور شرعی اعتبار سے بھی اس میں اشکال پیدا ہو جائے گا۔ اگر انقلاب کے ثمرات کو ملحوظ نہ رکھا گیا اور اسلامی نظام کے ثمرات پر توجہ نہ دی گئی تو شرعی اعتبار سے بھی اور قانونی اعتبار سے بھی مشکل پیدا ہوگی۔

ایک اور مسئلہ ہے جو میں ارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں کئی بار عرض کر چکا ہوں اور آپ کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کمیشنوں میں اور پارلیمنٹ کے ایوان میں وقت پر حاضر ہونا ہے۔ اس سلسلے میں جو رپورٹیں مل رہی ہیں وہ مسرت بخش نہیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کبھی کبھی تو کمیشنوں میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ بھی نہیں ہو پاتی۔ ہر رکن پارلیمنٹ کو اپنا یہ فرض سمجھنا چاہئے کہ ان تمام گھنٹوں اور منٹوں میں جب اسے پارلیمنٹ کے اندر یا کمیشنوں میں موجود رہنا ہے، وہ موجود رہے۔

ایک اور اہم مسئلہ ہے جو صرف آپ کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ یہ اشرافیہ کلچر کا مسئلہ ہے۔ اشرافیہ کلچر کی مصیبت بہت بڑی مصیبت ہے۔ مجھے ایک عمارت کی تصویر دکھائی گئی جو بیت المال کے پیسے سے ایک جگہ پر بنائی گئی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آخر ایسا کرنے کی ہمت کیسے پڑی؟ کسی انسان کا دل کیسے راضی ہوا کہ بیت المال کا پیسہ ایسی چیز پر خرچ ہو؟ اگر اشرافیہ کلچر رائج ہو گیا اور ہماری زندگی کا حصہ بن گیا تو پھر اس کے عواقب اور اثرات کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔ بہت مشکل ہے۔ اس سے کام بہت مشکل ہو جائے گا۔ اسے آپ مد نظر رکھئے۔

ایک اور مسئلہ غیر ملکی دوروں کا ہے۔ غیر ملکی دوروں کے سلسلے میں برادران عزیز خواہران گرامی خیال رکھیں کہ غیر ملکی سفر صرف ضروری حد تک ہونا چاہئے۔ ضرورت کے مطابق ہی ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں فراخدلی دکھانا مناسب نہیں ہے۔

ارکان پارلیمنٹ پر نگرانی رکھنے کا موضوع میں نے کئی سال پہلے اٹھایا تھا (8) اور ارکان پارلیمنٹ نے محنت کی اور ارکان پارلیمنٹ کی نگرانی کے لئے ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ اسے مزید تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ یعنی کچھ ایسا کیجئے کہ حقیقی معنی میں نگرانی انجام پائے۔ حکومت اور دوسروں کی نگرانی کا فریضہ آپ کے دوش ہے، میرے خیال میں یہ نگرانی اس سے زیادہ اہم ہے۔ یہ خود اپنی نگرانی ہے، اپنے اوپر کی جانے والی نگرانی ہے، یہ پارلیمنٹ کی صحتمندی کی نگرانی ہے۔

جو چیز میں محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ بحمد اللہ پارلیمنٹ جو اسلامی نظام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے تاحال بہترین انداز میں کام کرتی رہی ہے اور آگے بڑھتی رہی ہے۔ انقلاب کے اہداف کی جانب پیش قدمی کے عمل کو جہاں تک ممکن ہو تقویت پہنچائیے۔ آج وطن عزیز کو ملت اور اسلامی نظام کے ستونوں کی داخلی ساخت کے استحکام اور مضبوطی کی بڑی ضرورت ہے۔ آپ دیکھئے کہ آپ کے دشمن کون سے افراد ہیں اور کس جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں اور کس خباثت کے ساتھ ملت ایران کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ صرف ملت ایران کے خلاف نہیں بلکہ ان کی سرشت ہی یہی ہے۔ آج کئی ہزار بچوں کو ان کی ماؤوں سے الگ کر دینے کا قضیہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا معاملہ ہے۔ ٹی وی پر ان بچوں کا رونا بلکنا دیکھا نہیں جاتا۔ کیسے یہ لوگ ایک پالیسی کی وجہ سے، ایک اجرائی فیصلے کی وجہ سے اتنا غلط اور مجرمانہ فعل انجام دے سکتے ہیں کہ کئی ہزار بچوں کو ان کی ماں سے الگ کر دیتے ہیں؟! یہ ایسے ہی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو چند بڑی حکومتوں کی شکل میں جن کے پاس پیشرفتہ ہتھیار ہیں آکر سمندر میں یمن کے عوام کے مقابل کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ اس بندرگاہ کو جو یمن کے مظلوم عوام کے سانس لینے کا واحد ذریعہ ہے ان عوام کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ وہ بغیر ہچکچائے انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔ تو وہ صرف اسلامی جمہوریہ کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ فطرتا ظالم افراد ہیں۔ یہ ظلم کے طاقتور نظام ہیں۔ ہاں چونکہ اسلامی جمہوریہ انصاف کی داعی ہے، اسلام کی داعی ہے، مظلوم کے دفاع کی علمبردار ہے اس لئے اس کے شدید مخالف ہیں اور خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ ان کا ڈٹ کر سامنا کرنا چاہئے۔ اپنے استحکام کو قائم رکھنا چاہئے اور اطمینان رکھنا چاہئے کہ توفیق خداوندی سے، حرمت و جلال و عزت الہی سے ملت ایران امریکہ اور اپنے دیگر دشمنوں پر غلبہ حاصل کرے گی۔

حقیقت میں یہ لوگ اس زمانے کے شمر ہیں۔ حقیقی معنی میں یہ لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے «اِنَّهُم لا اَیمـانَ لَهُم» (9) ان کے تعلق سے کوئی بھی عہد و پیمان قابل اعتماد نہیں ہے۔ یہ تو ہم دیکھ بھی رہے ہیں، یہ چیز ہماری آنکھ کے سامنے ہے۔ حقیقت میں یہ لوگ باج خواہ اور جابر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ملت ایران، اسلامی جمہوری نظام اور نظام کے محترم عہدیداران کسی بھی جابرانہ مطالبے کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں۔

پروردگار عالم ان شاء اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے، کامیاب کرے، توفیق عطا فرمائے کہ آپ اپنے فرائض پر عمل کر سکیں۔ ایسے کام کیجئے کہ ہمیشہ سر فہرست بنے رہئے۔

 

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱)اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ اسپیکر ڈاکٹر علی لاری جانی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) دیوان پروین اعتصامی کے اس قصیدے کا شعر جس کا مطلع ہے «یکی پرسید از سقراط کز مردن چه خواندستی / بگفت ای بیخبر مرگ از چه نامی زندگانی را»

۳) صحیفه امام، جلد ۱۲، صفحہ ۳۴۳؛ ارکان پارلیمنٹ سے مورخہ 25 مئی 1980 کا خطاب

4) محمّد تقی بهار؛ منظومه  چهارخطابه

5) برطانیہ سے امریکہ کی خود مختاری کا رسمی اعلان

6)  عید فطر کے خطبے  مورخہ 15 جون 2018

7) حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ عدلیہ توجہ دے

8) پارلیمنٹ کے ارکان سے خطاب مورخہ 13 جون 2012

9) سوره توبه، آیت نمبر ۱۲ کا ایک حصہ؛ «... کیونکہ ان کا کوئی عہد و پیمان معتبر نہیں ہے۔...»