بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ‌ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

خوش آمدید کہتا ہوں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو۔ یوم عدلیہ یا ہفتہ عدلیہ کی آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو اس اہم اور حیاتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ سب کی مدد اور ہدایت کرے، توفیقات سے نوازے اور وہ ثواب عطا فرمائے جو وہ ان شاء  اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں دینے والا ہے۔

بہت شکر گزار ہوں عدلیہ کے محترم سربراہ جناب آملی صاحب کی تفصیلی رپورٹ کا جو جامع اور کامل رپورٹ تھی۔ کاش یہی ساری باتیں مناسب روشوں کے ذریعے عوام الناس کے علم میں لائی جاتیں۔ ہمیں تو رپورٹوں وغیرہ کی اطلاعات مل جاتی ہیں۔  اس ملاقات سے پہلے بھی اس حقیر نے ایک تفصیلی رپورٹ کا مطالعہ کیا، تاہم جناب عالی نے اپنی رپورٹ میں جو باتیں بیان کیں ان میں سے بعض کا مجھے علم نہیں تھا، مجھے اس کی اطلاع نہیں تھی۔ بہرحال ہمیں تو ان مسائل کی کافی اطلاعات مل جاتی ہیں۔ عوام آگاہ نہیں ہو پاتے۔ میں تشہیرو تبلیغ کے سلسلے میں ابھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ رپورٹ بہت تفصیلی اور جامع تھی اور ان نکات کو بیان کرنے کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔

عدلیہ کا ہفتہ اور عدلیہ کا دن ہمارے اسلامی کیلنڈر کے دیگر اہم ایام کی طرح شہادت کے محور پر استوار ہے۔ یہ دن راہ خدا میں قربانی پیش کرنے اور قتل ہو جانے کی بنیاد پر معین ہوا ہے۔ جیسے یوم استاد، جیسے یوم پندرہ خرداد، اسی طرح دیگر ایام جو شہادت فی سبیل اللہ کے محور پر استوار ہیں۔ یہ مناسبت عدلیہ کو ایک خاص انداز میں متعارف کراتی ہے۔ عدلیہ کے ادارے کو ایک خاص مفہوم عطا کرتی ہے۔ عدلیہ صرف ایک ادارہ نہیں ہے جو اپنے طے شدہ کاموں کو پورا کرے اور پھر اس کی رپورٹ دے دے۔ یہ انسانوں کا ایک مجموعہ ہے جنہیں جہاد کرنا ہے۔ ہمہ جہتی جہاد ہونا چاہئے۔ عدلیہ میں جذبہ ایثار ہونا چاہئے، چنانچہ شہادت ایثار کا نقطہ کمال ہے۔ اپنے مفادات کو، اپنی ذاتی خواہشات کو قربان کر دیا جائے اور اعلی اہداف کے لئے کام کیا جائے، یہ عدلیہ کا مفہوم ہے جو بہت اہم ہے اور اس سے ان رسمی کاموں اور محکمہ جاتی فرائض سے بڑھ کر کچھ ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔

جو کام ہوا اس پر شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ عدلیہ کے محترم سربراہ کا بھی شکریہ جو بہترین صلاحیتوں اور لازمی توانائی اور جذبہ عمل کے ساتھ میدان میں اترے اور محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح عملے کے عہدیداران اور ملک بھر میں پھیلے عدلیہ کے ڈھانچے سے وابستہ افراد کا شکریہ جس میں جج حضرات، کارکنان اور اسٹاف کے دیگر افراد شامل ہیں۔ میں سب کا شکر گزار ہوں، واقعی وہ بہت محنت کر رہے ہیں۔ جن سرگرمیوں کے بارے میں جناب آملی صاحب نے بتایا کہ عدلیہ کے اندر انجام پا رہی ہیں وہ اس ڈھانچے کے اندر اجتماعی سعی و کوشش کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اوپر کے چند عہدیداران بیٹھ جائیں اور بغیر کسی کی مدد لئے اسے انجام دے ڈالیں۔ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ پورا ڈھانچہ بحمد اللہ محنتی اور کام کرنے والا ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عدلیہ کے ادارے کا فریضہ ایک حاکمانہ فریضہ ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ ملک پر حکمفرماں نظام کو اسے انجام دینا ہے۔ ساری دنیا میں یہی صورت حال ہے۔ ایک حاکمانہ فریضہ ہے کہ فیصلہ کیا جائے، تنازعات کو نمٹایا جائے، قانون کی حدود سے تجاوز کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ یہ کام حکام کو انجام دینا ہوتا ہے۔ اگر یہ عمل بخوبی انجام پایا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام حکمراں نظام سے خوش اور مطمئن ہوں گے۔ اگر اس میں نقص اور خامی رہ جائے، خراب اور معیوب طریقے سے کام کیا جائے تو عوام حکمراں نظام سے ناراض، ناخوش اور پریشان ہوں گے۔ یہ نہیں کہیں گے کہ صرف عدلیہ کے اندر کچھ مشکلات ہیں۔ یہ فریضہ ایک حاکمانہ فریضہ ہے اور ملک پر حکومت کرنے والے سبھی ادارے اس سلسلے میں جوابدہ ہیں۔ اس طرح آپ کے پیشے کی حساسیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ فریضہ بخوبی انجام پایا تو صرف یہی نہیں ہے کہ عوام ذہنی طور پر مطمئن ہوں گے بلکہ در حقیقت ان کی زندگی میں برکتیں نظر آئیں گی۔ یعنی اگر واقعی قانون شکنی کا سختی کے ساتھ، صحیح اور منطقی انداز میں مقابلہ کیا جائے اور تسلسل اور سنجیدگی کے ساتھ اس کا سد باب ہو تو اندازہ کیجئے کہ ملک میں اس کی تاثیر کیا ہوگی۔ قانون کا پاس و لحاظ اجتماعی زندگی کی بنیاد اور اساس ہے اور عدالتی نظام کا ایک فریضہ قانون شکنی کا مقابلہ کرنا اور قانون شکنی کرنے والوں کو روکنا ہے۔ یا تنازعات کو دور کرنا۔ اگر مثال کے طور پر عدلیہ تنازعات اور جھگڑوں کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو آپ اندازہ کیجئے کہ عوام کی زندگی میں اس کا کتنا اثر ہوگا۔ جھگڑوں، شکایتوں اور تشویش کو عام انسانوں کی زندگی میں پھیلنے نہ دے، پورے ماحول پر اسے اثرانداز نہ ہونے دے بلکہ اس کا سد باب کرے۔ تنازعات کو حل کرنے کی بڑی برکتیں ہیں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی اس سنگین ذمہ داری کے ساتھ ہی ساتھ انصاف کا مظہر بھی ہو۔ یعنی ہر کسی کو یہ محسوس ہو کہ یہاں انصاف ہو رہا ہے۔ میں نے اس سے پہلے آپ دوستوں سی اپنی ایک ملاقات میں کہا تھا (2) کہ عدلیہ کو اس مقام پر پہنچنا چاہئے کہ ملک میں کسی بھی جگہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کسی شخص یا ادارے سے کسی کو کوئی شکایت ہے تو اسے یہ اطمینان رہے کہ میں جاکر عدلیہ سے رجوع کر لوں گا۔ یعنی اسے یہ اطمینان رے کہ جیسے ہی عدلیہ سے رجوع کرے گا مشکل حل ہو جائے گی۔ ہمیں اس جگہ پر پہنچنا ہے۔ یعنی ہمارا نصب العین یہ ہے۔ عدلیہ عدل و انصاف کا مظہر ہو۔ عوام کو اطمینان ہو کہ فلاں مسئلے میں آپ نے میرا حق کھایا ہے، تعرض کیا ہے، قانون شکنی کی ہے تو ٹھیک ہے! میں جاکر عدلیہ سے رجوع کروں گا! عوام کا ذہن آسودہ رہے کہ وہ عدلیہ سے مدد مانگ سکتے ہیں، عدلیہ کی پناہ میں جا سکتے ہیں۔

مفاد عامہ کے معاملات کو حل کرنا بھی ایک اور فریضہ ہے جس کا ذکر جناب آملی صاحب نے بھی کیا۔ جیسے ہی کوئی حادثہ ہوا مثلا وہی مثالیں جو آپ نے دیں، مجھے بھی ان مثالوں کے بارے میں علم ہے، گوشت کا مسئلہ، سڑک کا مسئلہ، ہوائی جہاز کا مسئلہ اور دوسری چیزیں۔ عوام فورا یہ کہیں کہ ٹھیک ہے ہم اس کی شکایت عدلیہ میں کریں گے۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ کہاں رجوع کرنا ہے اور انھیں اطمینان رہے کہ وہ جیسے ہی رجوع کریں گے عوام کا حق انھیں دلایا جائے گا، انصاف ملے گا۔ عدلیہ کو اس مقام پر پہنچنا ہے۔ ہمارے لئے معیار یہی ہونا چاہئے۔

تبدیلیوں کا ذکر ہوا، یہ ایسی چیز ہے جسے ہم نے ہمیشہ عدلیہ کے افراد سے اپنی ملاقاتوں میں، اس دور کی عدلیہ اور ماضی کے ادوار کی عدلیہ کے افراد سے اپنی ملاقاتوں میں بار بار دہرایا۔ تبدیلی کیسے آئے گی؟ ہمیں تبدیلی کے لئے معیار طے کرنا ہوں گے۔ ایسا کیا ہو کہ اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ عدلیہ میں تبدیلی آئی ہے؟ یہ چیز بہت اہم ہے کہ تبدیلی کا مطلب کیا ہے؟ ہمیں پہلے تبدیلی کے معیارات طے کرنے ہوں گے۔ پھر یہ واضح کر لیں کہ ان معیارات تک پہنچنے کے لئے کتنا وقت درکار ہوگا۔ ورنہ اگر یہ نہ ہوا تو جیسا کہ جناب عالی نے اشارہ بھی کیا اور میں نے رپورٹ میں بھی پڑھا کہ ہم بتدریج تبدیلی کی طرف جائیں تو یہ تبدیلی ہو نہیں پائے گی۔ اس لئے کہ مشکلات ہم سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پیدا ہوتی رہیں گی، اگر ہم اسی معمولی رفتار سے آگے بڑھیں گے۔ تبدیلی تقریبا یکبارگی انجام پانے والا عمل ہے۔ تقریبا یکبارگی کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے، میں نے تحقیقا یکبارگی نہیں کہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تیز رفتاری سے، مناسب سرعت کے ساتھ ایسا عمل انجام پائے کہ محسوس ہو کہ تبدیلی رونما ہوئی ہے اور انڈیکیٹرز سے بھی اس کی تصدیق ہو جائے۔ جب عدلیہ کے نئے سربراہ چارج سنبھالتے ہیں تو وہ بڑا اچھا اور مناسب وقت ہوتا ہے کہ اس وقت حقیقی معنی میں تبدیلی کی جائے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کتنے عشروں میں کتنی بار تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہ چیز بالکل عام اور فطری ہے۔ یعنی مثال کے طور پر جناب آملی صاحب نے اپنے اقدامات سے عدلیہ میں کوئی تبدیلی پیدا کی، اس کی تشکیل نو کرتے ہیں، اس کی جدید کاری کرتے ہیں، اس میں شادابی پیدا کرتے ہیں، جوش و جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ گویا اس نے نئے سرے سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ کسی اور دور میں کوئی اور سربراہ آئے گا اور اسی چیز کو مزید بہتر انداز میں انجام دے گا اور عدلیہ کو آگے لے جائے گا۔ تو ہمیں تبدیلی کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔

ایک اور اہم نکتہ عدلیہ کے تعلق سے ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ عدلیہ کے عہدیداران اور خود جناب آملی صاحب کو بھی اس کی فکر ہے اور کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے یعنی اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے، یہ عوام کی اعتماد سازی کا مسئلہ ہے۔ میں نے پہلے اس کی جانب ایک اشارہ کیا۔ اب میں اسے قدرے تفصیل سے عرض کروں گا۔ رائے عامہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ سازشی، جھوٹے اور تہمتیں لگانے والے دشمنوں اور بدخواہوں کے مقابلے میں بڑے ٹھوس انداز میں اور پرعزم ہوکر عمل کریں۔ واقعی دشمنوں کے مقابلے میں جناب آملی صاحب کا موقف بہت ا چھا رہا ہے۔ جناب عالی نے پرسوں جو بیان دیا (3) وہ بہت اہم، اچھا اور عوام کو مطمئن کرنے والا تھا۔ یعنی تہمتیں لگانے والے، بدعنوان اور قانون شکنی کرنے والے شخص کے مقابلے میں بڑی سختی اور قوت کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ رائے عامہ کے مسئلے میں اس انداز میں کام نہیں ہو سکتا۔ رائے عامہ کے سامنے آپ کو تواضع کے ساتھ، ہمدردی کے ساتھ اور محبت کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ رائے عامہ سے مفاہمت آمیز انداز میں پیش آنا چاہئے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس طرح ہم عوام کا اعتماد حاصل کر سکیں گے۔

رائے عامہ کا اعتماد حاصل کرنا عدلیہ کے لئے بہت بنیادی کام ہے۔ البتہ دیگر اداروں کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ لیکن عدلیہ کا چونکہ تنازعات سے سروکار رہتا ہے اور وہ قانون کی حدود کو تجاوز کرنے والوں کی مخالفت اور ان کا مقابلہ کرتی ہے اس لئے اسے دوسرے اداروں سے زیادہ اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ خود عدلیہ کو بھی ضرورت ہے اور ان اداروں کو بھی ضرورت ہے جو عدلیہ کی خاطر نظم و ضبط کا کام انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پولیس فورس ایسا ہی ادارہ ہے، اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ عوام اس پر اعتماد کریں۔ اس لئے کہ اگر کہیں طاقت کے استعمال کی ضرورت پیش آ جائے، اگر کہیں سختی برتنا پڑے تو اس پر عوام کو اتنا اعتماد ہونا چاہئے کہ وہ کہیں؛ ہاں، بالکل یہ بجا اقدام ہے، یہ ضروری تھا، یہ کام ہونا چاہئے تھا۔

یہ اعتماد حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میرے خیال میں دو بنیادی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو عملی اقدام ہے اور دوسرا تشہیراتی عمل ہے۔ پہلے میں تشہیراتی عمل کے بارے میں بتا دوں۔ آپ دیکھئے کہ آج عدلیہ شدید ترین تشہیراتی حملوں کی زد میں ہیں۔ بیرون ملک دشمنوں کی طرف سے بھی اور ملک کے اندر موجود غافل افراد کی طرف سے بھی۔ ہم حسن ظن کے تحت ان کے لئے غافل کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بے رحم قاتل آتا ہے اور چند سیکورٹی اہلکاروں کو قتل کر دیتا ہے۔ عدلیہ قانونی پروسس کے تحت چند مہینے میں اس کے جرم کی تحقیقات کرتی ہے، اس کے خلاف فیصلہ سناتی ہے اور فیصلے کے مطابق اسے سزا دیتی ہے۔ یعنی بالکل منصفانہ، عادلانہ اور صحیح کام۔ دشمن جو پروپیگنڈا کرتا ہے اس کے عین برعکس ہوتا ہے جو انجام پانا چاہئے۔ یعنی اس بے رحم قاتل کو وہ مظلوم ظاہر کرتا ہے۔ مظلوم کا حق دلانے اور اسے انصاف دلانے کو اپنا فریضہ سمجھنے والے ادارے عدلیہ کو ظالم قرار دے دیتا ہے۔ یعنی اس وقت یہی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف تشہیرات کا اثر اور زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے۔ یعنی عام طور پر تہمت، افواہ اور فضول باتیں زیادہ جلدی سے پھیلتی ہیں۔ اس کی تلافی میں، اسے ٹھیک کرنے میں، اس کی تصحیح میں، اس کی اصلاح میں اور صحیح بات لوگوں تک  پہنچانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اس مشکل کو آپ کیسے حل کر سکتے ہیں؟ اس کے مقابلے میں تشہیراتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ تشہیراتی اقدام کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کو لوگوں کے دلوں تک پہنچانا۔ صرف کانوں تک نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر اثر ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے یہ ایک خاص فن ہے۔ ایک فنی کام ہے۔ دنیا میں بہت وسیع پیمانے پر یہ کام ہو رہا ہے کہ سیاہ کو سفید ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس وقت آپ دیکھئے کہ دنیا میں پروپیگنڈا کا کام اسی طرح انجام دیا جاتا ہے۔ بالکل غلط چیز کو صحیح اور باطل کو حق ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو بھی اس پر یقین آ جاتا ہے۔ کس طرح؟ صرف اس لئے نہیں کہ آکر ایک بات کہہ دی اور عالمانہ و مفکرانہ انداز میں اسے بیان کر دیا۔ اس کی ایک خاص روش ہوتی ہے۔ یہ ایک الگ کام ہے۔ یہ ایک فنی کام ہے۔ آپ کا ایک اہم کام یہی ہے۔ یعنی ایک ماہر ابلاغیاتی ٹیم کی خدمات لیجئے۔ یہ ٹیم بیٹھ کر منصوبہ بندی کرے، ایک دن، دو دن اور ایک مہینے کے لئے نہیں مستقل بنیادوں پر۔ تاکہ جیسے ہی آپ کہیں کہ ہم نے اتنے ججز کو برطرف کر دیا یا فلاں اصلاحاتی عمل انجام دیا، یا ہم نے فلاں تبدیلی کی ہے یا فلاں دراز مدتی پیشین گوئی کی ہے تو یہ ٹیم فورا عوام کو صحیح انداز میں یہ بات سمجھا سکے اور عوام اسے دیکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اہم کام ہے۔ ہم نے اسے اہمیت نہیں دی۔ ہمارے بہت سے ادارے اسی مشکل سے دوچار ہیں۔ یہ صرف عدلیہ کی بات نہیں ہے۔ تاہم عدلیہ کو عوام کا اعتماد جیتنے اور انھیں اپنے تعلق سے پرامید بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ تو عوام کا اعتماد جیتنے کے لئے عدلیہ کو جو دو کرنا چاہئے ان میں سے ایک ہے صحیح اور ماہرانہ و فنکارانہ تشہیرات۔ یہ کام انجام دیا جانا چاہئے۔ ایک چیز تو یہی ہے۔

دوسرا اقدام ایسا ہے جس کا تعلق عدلیہ کی اندرونی ساخت سے ہے۔ البتہ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ مجھے اس کی اطلاع ہے۔ جناب عالی نے بھی حقیر کو بتایا ہے۔ کئی دفعہ بات ہو چکی ہے، اس کا ذکر ہو چکا ہے اور میں نے بھی حسب تقاضا اسے بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ افراد مامور کئے جائیں جو خفیہ طور پر جاکر عدالتوں میں بیٹھیں اور عدالت کے حالات اور لوگوں کے رجوع کرنے کے عمل پر نظر رکھیں۔ جج اور دوسرے افراد سے ملیں اور دیکھیں کہ عدالت کی کیا حالت ہے۔ عدالت کیسی ہے، کس طرح فیصلہ سناتی ہے، یہ بڑے اچھے کام ہیں۔ لیکن یہ کام موجودہ سطح سے دس گنا زیادہ انجام دیا جانا چاہئے۔ میں یہ بات حساب کتاب کی بنیاد پر نہیں بلکہ یونہی اندازے کے مطابق کہہ رہا ہوں۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ دس گنا نہیں بلکہ سو گنا زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہو۔ میں نے احتیاط کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ دس گنا زیادہ یہ کام انجام دیا جانا چاہئے۔ اس لئے کہ شکایتیں زیادہ ہیں۔ یقینا آپ سے بھی رجوع کرتے ہوں گے، ہم سے بھی لوگ رجوع کرتے ہیں۔

میں نے کسی جلسے میں، میرے خیال میں پچھلے سال یا اس سے پہلے کی بات ہے، یہ کہا تھا کہ آپ کے پاس اچھے ججوں کی کمی نہیں ہے۔ بہت اچھے جج موجود ہیں۔ ایسے جج جو رات اور دن نہ دیکھیں، اپنے آرام اور سونے کا وقت اور گھر والوں کے ساتھ رہنے کا وقت کسی فائل اور کیس پر کام کرنے پر صرف کر دیں۔ محنتی، سعی و کوشش کرنے والے، سچے اور قناعت پسند جج۔ آپ ایسے ججوں کو سامنے لائيے، ان کا تعارف کروائیے۔ مثال کے طور پر آپ ایسے جج کو جس نے کافی تعداد میں کیسز کو بنحو احسن، اس طرح سے کہ دونوں فریق مطمئن ہوں یا عدلیہ کا نظام مطمئن ہو، نمٹایا ہے، اسے آپ سامنے لائیے۔ ممتاز اساتذہ کی طرح، ممتاز محققین کی طرح، اچھے سرمایہ کاروں کی طرح متعارف کروائیے۔ ممتاز جج کو لوگوں کے سامنے لائيے تاکہ اس کا طرز عمل دوسروں کے لئے نمونہ اور ترغیب ثابت ہو۔ عزت سب کو پیاری ہوتی ہے اور اس عمل سے اس شخص کی عزت بڑھے گی۔ تو ایک کام یہ ہے۔ اس کے بر عکس پہلو پر بھی کام کیجئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جس نے خلاف ورزی کی ہے فورا اسے بدنام کر دیجئے۔ ممکن ہے کہ اس کی ضرورت نہ ہو یا شاید یہ جائز بھی نہ ہو، لیکن بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کی تشہیر ضروری ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کیجئے، انھیں سامنے لائیے۔ جس جج نے خیانت کی ہے۔ وہ جج ہو یا عدلیہ کا عہدیدار ہو۔ کوئی فرق نہیں ہے۔ اسے سامنے لائیے، اس میں کیا حرج ہے؟ اس کا نام منظر عام پر لائیے۔ اس طرح کے کچھ اقدامات ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں عدلیہ کی اپنی اندرونی اصلاح کے لئے کوشش بھی بغیر کسی توقف کے، مستقل بنیادوں پر جاری رہنا چاہئے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ جس کیس کو بھی نمٹاتے ہیں، جس تنازعے کا بھی منصفانہ فیصلہ کرتے ہیں وہ ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے، وہ ایک کار خیر ہوتا ہے۔ یہ آپ کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے ایک نعمت ہے۔  وَ اَمّا بِنِعمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّث؛(4) اس نعمت کو ظاہر کیجئے۔ بیان کیجئے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ ایسا ہوا ہے۔ تو ایک چیز یہ بھی تھی جو میں نے عرض کر دی۔

ایک اور مسئلہ ہے کرپشن سے لڑائی کا جو میرے خیال میں بہت اہم چیز ہے۔ اس وقت اقتصادیات کا مسئلہ ملک کے اندر بڑا اساسی مسئلہ ہے۔ ملکی معیشت کو سنبھالنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر تو مجریہ کی ہے اور اس کا ایک حصہ مقننہ کے ذمے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن عدلیہ بھی اقتصادیات کے مسئلے میں کچھ جگہوں پر کردار ادا کر سکتی ہے۔ ملکی معیشت کی اصلاح کے لئے جن مقامات پر عدلیہ کردار ادا کر سکتی ہے ان میں سے ایک ہے اقتصادی فضا کے لئے امن و تحفظ کا ماحول پیدا کرنا۔ یہ عدلیہ کا کام ہے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ امن و سلامتی کا ماحول خراب کرنے والوں سے اتنی سختی سے پیش آئے کہ عوام کے کام اور روزگار کی فضا، عوام کی زندگی اور معیشت کی فضا پرامن اور محفوظ فضا ہو۔ یہ ملکی معیشت کے سلسلے میں عدلیہ کے کام کرنے کا ایک میدان ہے۔ اقتصادی مسائل کے سلسلے میں عدلیہ جو کام کر سکتی ہے اس میں ایک یہی ہے۔ ایک کام جو عدلیہ اقتصادی شعبے کے سلسلے میں کر سکتی ہے یہی ہے۔ اقتصادی بدعنوانی اور اقتصادی بد عنوان افراد کے خلاف کارروائی۔ عدلیہ اس میدان میں بالکل آشکارا طور پر وارد ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات اس پر بڑا شور شرابا بھی ہو۔

میرے خیال میں اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے معاملے میں عدلیہ سے دوہری غلطی ہو رہی ہے۔ ایک تو بات کرنے کا انداز اور کام کرنے کی روش ایسی ہے کہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن پوری طرح پھیل چکا ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کرپشن مٹھی بھر لوگوں میں پھیلا ہے۔ حکومتی اداروں میں بھی، عوامی اداروں میں بھی، کام اور روزگار کی فضا میں بھی جو افراد بدعنوان ہیں ان کی تعداد تھوڑی سی ہے، بہت کم ہے۔ لیکن ہم اس انداز سے بات کرتے ہیں، اس طرح گفتگو کرتے ہیں کہ لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن ہر جگہ پھیل چکا ہے۔ یہ غلط ہے۔ حقیقت امر یہ نہیں ہے۔ یہ ایک غلطی ہے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ جو بدعنوانی ہو رہی ہے، جو بدعنوانی کر رہا ہے اس کے خلاف ہم آشکارا اور سخت کارروائی نہیں کرتے۔ کارروائی ہونا چاہئے۔ جہاں واقعی اقتصادی کرپشن ہو رہا ہے وہاں کارروائي بہت ٹھوس اور آشکارا ہونا چاہئے۔

کارروائی کے سلسلے میں بھی لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ ایک اہم کام یہ بھی ہے۔ یہ تشہیر والے مسئلے سے متعلق ہے۔ جب کسی بدعنوان شخص کے خلاف آپ مقدمہ چلاتے ہیں اور اسے کوئی سزا سناتے ہیں تو عوام کے سامنے اس کی تشریح اس طرح ہونا چاہئے کہ لوگوں کو محسوس ہو کہ یہ بالکل صحیح کام ہے اور یہ کام بالکل اسی طرح انجام پانا چاہئے تھا۔

مجھے ابھی یاد آیا کہ ہماری ماضی کی تاریخ میں یہ کام انجام دیا گیا ہے۔ امام حسن علیہ السلام کی زندگی میں یہ چیز ہے کہ عبد اللہ ابن عباس جو امام حسن علیہ السلام کی فوج کے بہت اہم حصے کے کمانڈر تھے۔ رات کو سب سوئے اور صبح اٹھے تو دیکھا کہ وہ اپنے خیمے میں نہیں ہیں۔ وہ چلے گئے تھے۔ بھاگ گئے تھے۔ جاکر معاویہ سے مل گئے تھے۔ انھیں رشوت دی گئی تھی، کچھ چیزیں دی گئی تھیں، پیسہ دیا گيا تھا اور نتیجے میں وہ جاکر معاویہ سے مل گئے۔ اتنا بڑا واقعہ امام حسن علیہ السلام کے لشکر کے لئے بڑا کمر شکن واقعہ تھا۔ اس موقع پر ایک قریبی صحابی نے جن کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا ہے، حجر ابن عدی تھے یا کوئی اور صحابی تھے، وہاں موجود لوگوں کے درمیان تقریر کی۔ ایسی تقریر کی کہ اس کے ختم ہونے کے بعد سب نے خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے کہ اللہ کا شکر ہے کہ وہ چلے گئے! آپ دیکھئے کہ یہ بیان حقیقت میں بہترین بیان ہے۔ یہ حقیقی تبلیغ ہے۔ ایسا ہونا چاہئے۔ انسان آتا ہے، بات کرتا ہے اور جو کچھ ہوا ہے اسے واضح طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ تو ہمارے فائدے میں ہے۔ آج کی رائج اصطلاح میں یوں کہا جائے کہ خطرے کو سنہری موقع میں تبدیل کر دیتا ہے۔ عدلیہ میں یہ کام ہونا چاہئے۔ تجارت اور لین دین کی سیکورٹی کو یقینی بنانا، اقتصادی بدعنوانی کا سد باب، مشکلات کے حل میں حکومت سے تعاون، یہ کام ایسا ہے جو اقتصادی میدان میں عدلیہ کے ہاتھوں انجام پا سکتا ہے۔

ایک اشارہ انسانی حقوق سے متعلق کاموں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی جانب بھی کیا گيا۔ انصاف سے دیکھا جائے تو عدلیہ نے اس میدان میں بہت اچھے اور بے نظیر کام انجام دئے ہیں۔ یہی ایک سو بیس ارب ڈالر کہ جس کے بارے میں جناب نے فرمایا، اب یہ الگ بحث ہے کہ ہم اسے حاصل کر پائیں گے یا نہیں، لیکن یہ اقدام بالکل درست اقدام ہے۔ یا انسانی حقوق کے سلسلے میں مقابلہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق کے مسئلے میں ہمیں دنیا سے جواب مانگنا ہے، صفائی ہمیں نہیں دینی ہے۔ اوائل انقلاب کے زمانے میں میں ہمیشہ یونیورسٹی جایا کرتا تھا۔ مستقل جاتا تھا، وہاں تقریریں کرتا تھا۔ طلبہ سوال کرتے تھے میں جواب دیتا تھا۔ ایک دفعہ ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا کہ عورتوں کے مسئلے میں آپ کیا صفائی دیں گے؟ میں نے کہا کہ ہمیں کوئی صفائی نہیں دینی ہے۔ ہمیں تو خود جواب طلب کرنا ہے۔ ہمیں اعتراض ہے۔ صفائی کیسی؟ عورت کے مسئلے میں ہم خود مدعی ہیں۔ عورت کے مسئلے میں ہمیں دنیا پر اعتراض ہے۔ ہمیں طاغوتی شاہی حکومت پر اعتراض ہے، اس وقت یہ موضوع زیر بحث تھا، تو ہمیں کوئی صفائی نہیں دینی ہے۔

انسانی حقوق کے مسئلے میں ہمیں کوئی صفائی پیش نہیں کرنا چاہئے، ہمیں جارحانہ انداز میں سوال کرنا چاہئے۔ جن لوگوں نے بے شمار جرائم کئے ہیں۔ اس بڑے پیمانے پر کرپشن کیا ہے۔ تاریخ میں ہی نہیں بلکہ آج بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ فرانسیسی، انسانی حقوق کے مظہر بن گئے ہیں۔ فرانسیسیوں نے افریقا میں جو بھیانک جرائم کئے، الجزائر میں اور دوسری جگہوں پر جو جرائم انجام دئے، جب انسان ان کے بارے میں پڑھتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے۔ آپ ذرا سوچئے کہ کسی تالاب کو یا کسی دلدل کو تیل وغیرہ جیسی چیزوں سے بھر دیا جائے۔ پھر کسی گاؤں سے عورتوں، مردوں اور بچوں سب کو جبرا نکال کر اسی میں دھکیل دیا جائے اور اس کے بعد ان پر گولیوں کی بوچھار کر دی جائے۔ وہ لوگ ڈر کر اسی تالاب میں گھس جائیں تو پھر اس میں آگ لگا دی جائے! آپ ذرا سوچئے! ایسا ہو چکا ہے! یہ کام فرانسیسیوں نے کیا ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان میں یہ کیا کہ ایک باغ میں چھے ہزار لوگ جمع ہوئے مظاہرے کرنے کے لئے، انگریزوں نے آکر اس باغ کے گیٹ پر مشین گنیں لگا دیں۔ ایک دن، آدھے دن یا کچھ گھنٹوں کے اندر چھے ہزار لوگوں کو مار ڈالا۔ یہ تو پچاس سال، سو سال پہلے کے واقعات ہیں۔ آج کے زمانے میں بھی، داعش وغیرہ کے معاملے میں، شام کے بحران میں، میانمار کے معاملے میں آپ دیکھئے کہ انھوں نے کیا کیا ہے! مگر پھر بھی وہ انسانی حقوق کی پاسبانی کے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔ تو انسانی حقوق کے معاملے میں ہمیں شکایت ہے، جھوٹے اور بے غیرت انسانی حقوق کے دعویداروں کے خلاف ہم مدعی ہیں۔ اس سلسلے میں عدلیہ کے اندر جو کام ہو رہا ہے وہ بہت اچھا ہے۔

اللہ تعالی آپ سب کو توفیقات سے نوازے، آپ کی مدد کرے کہ ان شاء اللہ جس طرح عرض کیا، آپ عدلیہ کو ایسا بنائیں جو اللہ کی رضایت بھی حاصل کرے، عوام کو بھی پسند آئے، مصلح اور منصف ہو اور اسلامی نظام بھی اس سے راضی ہو۔ آپ کم از کم اس کے مقدمات فراہم کیجئے۔ اس راہ میں جو کوئی بھی ایک قدم بھی آگے بڑھائے اچھا ہے۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و‌ برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ آیت ‌الله صادق آملی ‌لاری جانی نے بریفنگ دی۔

۲) عدلیہ کے عہدیداران کی رہبر انقلاب سے مورخہ 25 جون 2008 کی ملاقات۔

3)  مورخہ 25 جون 2018 کو عدلیہ کے سمینار میں آیت‌ الله صادق آملی ‌لاریجانی کی تقریر

4) سوره‌ ضحی، آیت نمبر ۱۱؛ «اپنے پروردگار کی نعمت کے بارے میں لوگوں کو بتاؤ۔