بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ‌ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

مجھے بہت خوشی ہے، اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے توفیق دی کہ ایک بار پھر اس نورانی اور امید بخش اجتماع میں، اس نہایت حساس اور اہم مرکز میں حاضر ہو سکوں۔ یہ میدان، یہ نسل، نوجوانوں کا یہ اجتماع، ہمارے وطن عزیز کی بالیدگی اور زندگی کے جلؤوں میں سے ایک ہے۔ بنیادی طور پر کسی بھی ملت کی زندگی اور نمو کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر قوت و طاقت کے عناصر اور وسائل کو تقویت پہنچائے اور انھیں ضرورت کی جگہ پر اور بروقت استعمال کرے، بروئے کار لائے۔ آج اس میدان میں جو چیز نظر آ رہی ہے وہ اس بنیادی کلیہ کا ایک نمونہ ہے۔

اس سلسلے میں ایک وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن اس بارے میں وضاحت دینے سے پہلے آپ عزیز نوجوانوں کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت کی تلاوت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ آیہ کریمہ سورہ آل عمران میں ہے اور اسلام اور اسلامی معاشرے کے کٹر دشمنوں کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ذیل میں یہ آیت آئی ہے۔ چند آیتیں ہیں جو اسلام، مسلمانوں اور پیغمبر سے بغض و کینہ رکھنے والے اور ضدی دشمنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛ قَد بَدَتِ البَغضَاءُ مِن اَفواهِهِم وَ ما تُخفی صُدورُهُم اَکبَرُ (۲) ان دشمنوں کے بارے میں ان خصوصیات کا ذکر کرنے کے بعد کہ جو آج آپ کے ان موجودہ دشمنوں اور ملت ایران اور اسلامی مملکت ایران کے دشمنوں کی نمایاں خصوصیات ہیں، واقعی «قَد بَدَتِ البَغضَاءُ مِن اَفواهِهِم وَ ما تُخفی صُدورُهُم اَکبَرُ»؛ یا «اِن تُصِبکَ حَسَنَةٌ تَسُؤهُم» (۳) اگر آپ کو کوئی کامیابی ملتی ہے، کوئی افتخار حاصل ہوتا ہے تو وہ دل سے مضطرب ہو جاتے ہیں۔ ان آیتوں کے بعد آخر میں قرآن اس طرح کہتا ہے، ارشاد ہوتا ہے؛ «وَ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا لا یَضُرُّکُم کَیدُهُم شَیئًا» (۴) یہ قانون در حقیقت قانون خلقت ہے۔ صبر و تقوی کی وجہ سے یہ دشمنی اور بغض و کینے کا یہ انبار اپنی تمام تر توانائیوں کے باوجود کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر پاتا۔  لَا یَضُرُّکُم کَیدُهُم شَیْئًا؛ یعنی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کس شرط پر؟ تقوی اور صبر کی شرط پر۔ میں آج بامعنی اور پرمغز میدان میں آپ عزیز نوجوانوں کی خدمت میں جو واقعی اس ملت کے نور چشم ہیں، عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کے لئے سبق نہیں ہے۔ پوری قوم کے لئے ایک سبق ہے۔ پوری پاسداران انقلاب فورس کے لئے ہے۔ تمام مسلح فورسز کے لئے ہے۔ معاشرے کے تمام افراد کے لئے ہے۔ خاص طور پر اسلامی معاشرے کے عہدیداران اور ذمہ داران کے لئے ہے۔ صبر و تقوی۔

صبر کا کیا مطلب ہے؟ صبر یعنی میدان میں ڈٹے رہنا۔ میدان چھوڑ کر نہ ہٹنا۔ بعض لوگ میدان سے بھاگ جاتے ہیں اور بعض بھاگتے تو نہیں لیکن رفتہ رفتہ کنارہ کشی کر لیتے ہیں۔ یہ صبر کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ صبر کا مطلب ہے پائيداری، میدان میں ٹکے رہنا، استقامت کا مظاہرہ کرنا۔ صبر یعنی بڑے اہداف اور بہت دور افق پر نگاہیں مرکوز کرنا، بڑے اہداف کو نظر میں رکھنا۔ کبھی کبھی انسان کسی فوری کامیابی سے بہت خوش ہو جاتا ہے، اظہار مسرت کرتا ہے اور کبھی اسی دھوکے میں آ جاتا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انسان اسی پر مطمئن ہو جائے۔ یہ خطرناک ہے۔ ایسی صورت میں انسان میدان میں ٹکا نہیں رہتا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ آپ بڑے اہداف پر نظر رکھئے، چوٹیوں پر نظر رکھئے۔ آپ غور کیجئے کہ انقلاب اور اسلامی نظام کا حقیقی پیغام کیا ہے۔ وہ انسانی معاشرے کو اور امت مسلمہ کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے۔ آپ کی نظر اس مقام پر ہونا چاہئے۔ اسلامی انقلاب کا مشن ایسے صبر کا متقاضی ہے۔ آپ دیکھئے کہ صدر اسلام میں، اس  پہلے عشرے میں جب سختیاں بہت زیادہ تھیں، خاص طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں صبر سے کام لیا گيا۔ استقامت کا مظاہرہ کیا گیا، مزاحمت کی گئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے حقیقی احکامات کے برخلاف جو گڑبڑ اور خلاف ورزیاں ہوئیں ان کے باوجود تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں انسانی تمدن کی بلندی امت مسلمہ اور اسلامی ممالک کے ہاتھ میں رہی۔ ماجرا یہ ہے۔ اگر ہم نے صبر سے کام لیا تو بہت دور نظر آنے والے افق آپ کے ہاتھوں میں ہوں گے۔ اگر آپ نے آج استقامت کا مظاہرہ کیا تو آئندہ نسلیں بلند چوٹیوں پر پہنچیں گی۔ وہ چوٹیوں کو سر کریں گی۔ لیکن در حقیقت یہ آپ کے کمال کا نتیجہ ہوگا، یہ آپ کی محنت کا پھل ہوگا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ توفیق خداوندی سے آج کے نوجوان، آج کی نسل اس دن کا مشاہدہ کرے اور توفیق خداوندی سے وہ مشاہدہ کرے گی۔ انقلاب کی جڑیں گہری ہیں۔ اس کا مستقبل روشن ہے، اس مشن کو جاری رہنا چاہئے۔ یہ ہے صبر۔

تقوی؛ آس آیہ کریمہ میں تقوی اپنی تمام تر معنوی وسعتوں کے ساتھ مورد توجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں تقوا کا عام مفہوم بھی مراد لیا گيا ہے، یعنی اپنی نگرانی تاکہ شریعت اسلامیہ کی صراط مستقیم سے خود کو منحرف ہونے سے بچایا جائے، اس معنی میں متعدد جگہوں پر اس لفظ کو استعمال کیا گيا ہے۔ اس میں دشمن کے مد مقابل اپنی نگرانی و چوکسی کو قائم رکھنا بھی مراد لیا گيا ہے۔ اس آیت سے پہلے کی آیتوں کے قرینے کے تحت جو دشمنوں کے بارے میں ہیں، دشمن کے مقابلے میں محتاط اور چوکنے رہئے۔ میدان جنگ میں انسان الگ انداز سے رہتا ہے، جب جنگ نہ ہو تو الگ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان محاذ پر الگ انداز سے رہتا ہے، الگ انداز سے آرام کرتا ہے، الگ انداز سے سوتا ہے، جبکہ اپنے گھر کے اندر آرام دہ بستر پر کسی اور انداز سے سوتا ہے اور الگ انداز سے زندگی گزارتا ہے۔ آپ ہمیشہ یاد رکھئے کہ دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ بات ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے۔ تقوی کا یہی مطلب ہے۔ دشمن کے مقابلے میں اپنے حرکات و سکنات پر نظر رکھنا۔ دشمن پر بھروسہ کرنے سے اجتناب۔ دشمن پر اعتماد نہ کیجئے۔ تقوی کا یہی مطلب ہے۔ دشمن کے مکر و حیلے سے ہوشیار رہئے۔ اس پر اعتماد بھی نہ کیجئے اور اس کے حربوں کو بھی سمجھئے۔ نظر رکھئے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ کیسے کیسے مکر و حیلے استعمال کر رہا ہے۔ آمادہ رہئے، ہوشیار رہئے۔ دشمن کے حربے اور حیلے صرف عسکری ماہیت کے نہیں ہوتے۔ تقوی کا ایک مطلب تدبیر کے مطابق عمل کرنا اور قاعدے اور سمجھداری سے متصادم طریقوں سے پرہیز اور  تساہلی اور لاپرواہی سے بچنا۔ یہ ہے آيہ کریمہ کا مفہوم۔ اگر پہلے درجے پر آپ عسکری اقتصادی، سیکورٹی اور دیگر شعبوں کے عہدیداران نے، آپ نوجوانوں نے صبر و تقوا پر عمل کیا اور دوسرے نمبر پر عوام نے، ملت ایران نے اس کی پابندی کی تو لا ‌یَضُرُّکُم کَیدُهُم شَیئًا؛(۵) تو آپ کو کوئی بھی نقصان اور کوئی بھی ضرر نہیں پہنچے گا۔ توفیق خداوندی سے ایسا ہی ہوگا۔

اب واپس آتے ہیں طاقت کے عناصر کی طرف، قوت کے عناصر کی جانب۔ میرے عزیزو! پہلوی دور کی 57 سالہ حکومت کے دوران برطانیہ اور پھر امریکہ نے حقیقی معنی میں اس ملک پر حکمرانی کی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی شاہ کو وہی اقتدار میں لائے، اقتدار سے ہٹایا اور اس کی جگہ دوسرے بادشاہ کو لائے۔ اس ملک میں ان کی مرضی کے مطابق اور ان کی رائے کی بنیاد پر حکومت تشکیل پائی۔ ملک کی اہم اور کلیدی  پالیسیاں برطانیہ اور امریکہ کی مرضی کے مطابق طے پاتی تھیں۔ 57 سال تک ملک اس انداز سے چلا۔ اس سے پہلے قاجاریہ دور حکومت کے آخری برسوں میں حالات کسی اور انداز سے بڑے افسوسناک تھے۔ ملک کو بد بختی کی خلیج میں دھکیل دینے والے دیگر عوامل کار فرما رہے۔ یعنی اس مدت میں ملت کو بالکل بے دخل کر دیا گیا تھا، عوام خاموش تماشائی تھے۔ بعض اوقات تو خاموش تماشائی بھی نہیں ہوتے تھے۔ یعنی  اگر عوام میں کسی سے پوچھتے کہ آپ کے شہر کا نمائندہ کون ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کہ اس نے نمائندے کے انتخاب میں کوئی رول ادا نہیں کیا ہوتا تھا۔ اب اگر اس سے پوچھا جائے کہ فلاں وزارت خانے کا ذمہ دار کون ہے تو اسے بدرجہ اولی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ بسا اوقات تو لوگ وزیر اعظم کو بھی نہیں پہچانتے تھے۔ عوام کا کہیں کوئی رول ہی نہیں تھا، بالکل حاشئے پر تھے۔

انقلاب آیا، اب اس انقلاب کے عوامل کیا تھے اس کی تشریح اور تجزیہ بہت طولانی ہے۔ بہرحال انقلاب نے عوام کے ہاتھ کھول دئے۔ زنجیر ٹوٹ گئی۔ عوام اسیر تھے، ان کے اختیار مسلوب تھے، دوسرے آکر مسلط ہو گئے تھے، عوام الناس کے اوپر سے یہ تسلط ختم کر دیا گیا۔ عوام نے خود مختاری اور آزادی کی فضا میں سانس لی۔ انقلاب کے میدانوں میں عوام کی موجودگی اور انقلاب کی فتح سے قومی خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ ایران کے عوام اب سمجھ چکے ہیں کہ ان کی خاص اہمیت ہے، وہ ملک کے حالات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ وہ بھی کس انداز سے، اس انداز سے کہ ڈھائی ہزار سالہ سلطنت کی جڑوں کو زمین سے کھود کر اسے کوڑے دان میں ڈال دیں۔ عوام نے یہ چیز محسوس کی، اس سے ملت ایران کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی۔  قومی خود اعتمادی کا یہ جذبہ، قوت ایمانی سے متصل تھا۔ بعض ممالک جہاں انقلابات آئے ہم ان کی طرح اللہ سے دور، توکل سے دور اور روحانیت سے بیگانہ نہیں تھے کہ بیچ راستے میں پھنس جائیں۔ ایمان نے ہماری حفاظت کی، ہمیں محفوظ رکھا، ہماری رہنمائی کی، ہمیں آگے بڑھنا سکھایا۔ ایمان بڑا قیمتی گوہر ثابت ہوا۔ اس عمومی تحریک کے پیکر میں روح بن کر دوڑا۔ ایمان نے ہمارے اندر امید کی روح پیدا کی، ایثار اور قربانی کا جذبہ ہمارے اندر ایمان نے پیدا کیا۔ ایک ماں اپنے تین تین نوجوان فرزندوں کو جنہیں اس نے پھول کی طرح بڑے پیار سے پالا ہے،  اپنی آغوش میں جن کی پرورش کی ہے، میدان جنگ میں بھیج دیتی ہے، ان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ماں اپنے اس عمل پر فخر کرتی ہے! یہ چیز جذبہ ایمانی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک نوجوان، کمانڈروں کے سامنے بڑے اصرار اور التماس کے ساتھ اپنی آرام دہ زندگی کو خیرباد کہتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے اپنے ساتھ میدان جنگ میں لے جائیں، تو یہ ایمان کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایمان نے ملت کے اندر امید، ایثار اور اقدام کا جذبہ پیدا کیا۔ نوجوان حرکت میں آ گئے۔ پاسداران انقلاب فورس تشکیل پائی۔ ادارہ تعمیراتی جہاد وجود میں آیا، رضاکار فورس بنی، عوامی تحریکیں شروع  ہوئیں۔ مسلح فورسز میں نئی جان آ گئی۔ اس طرح وہ میدان جنگ میں اپنا موثر وجود ثابت کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ خدمات انجام دینے والے ادارے بنے۔ تعمیراتی تنظیمیں بنیں۔ علمی تنظیمیں بنیں۔ ملک میں علمی تحریک چلانے کی آزادی ہو گئی اور عوام، ممتاز شخصیات، سرگرم اور محنتی افراد نے خود مختاری، سربلندی اور سرفرازی کی لذت محسوس کی۔ یہ قومی اقتدار کے عناصر ہیں۔ اسی کو قومی اقتدار کہتے ہیں۔

قومی اقتدار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان ملک کا پیسہ کسی غیر ملک کو دے دے اور اس کے پیشرفتہ ہتھیار خرید لے اور اپنے اسلحہ ڈپو میں جمع کر لے اور خود وہ ان ہتھیاروں کو صحیح سے استعمال کرنا بھی نہ جانتا ہو۔ یہ تو حماقت ہے، یہ قوت و اقتدار نہیں ہے۔ قومی اقتدار یہ نہیں ہے کہ ایک ملک دنیا کے دوسرے سرے سے اٹھ کر آئے اور ایک تحریک یا حکومت کی حمایت کرے، وہاں اپنی چھاونی بنا لے، وہاں اپنے پاؤں جمائے اور عوام کا خون چوسے، جو سمجھ میں آئے منمانی کرے صرف اس لئے کہ اس ملک میں ایک خاص منحوس خاندان اقتدار میں باقی رہے۔  یہ اقتدار اور طاقت کی علامت نہیں ہے۔ یہ تو سراسر ذلت ہے۔ قوت و اقتدار تو یہ ہے کہ قوم کی توانائیوں کے سوتے اس کے اندر سے چھلکیں اور علم حاصل کرے، عسکری توانائياں حاصل کرے، تعمیراتی پیشرفت حاصل کرے، ترقی حاصل کرے اور بین الاقوامی اعتبار اور ساکھ پیدا کرے۔ یہ سب ملت ایران کی توانائیوں اور اقتدار کے عناصر ہیں۔ آپ کے پاس آج یہ چیز موجود ہے اور بہترین شکل میں موجود ہے۔ توفیق خداوندی سے یہ پیمانہ تو بھرا ہوا ہے۔ قوت کے ان عناصر کو بر محل اور بر وقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

پاسداران انقلاب فورس قوت طاقت کے عوامل میں سے ایک ہے۔ اسے روز بروز زیادہ بلند اور معیاری بنانے کی ضرورت ہے۔ برادران عزیز کی رپورٹیں میں دیکھتا ہوں اور ان سے آگاہ ہوتا ہوں۔ بہت اچھے کام انجام پا رہے ہیں لیکن پاسداران انقلاب فورس کے پاس ابھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے اور پیش قدمی کے لئے بہت وسیع میدان سامنے ہے۔ یہ کام کسے کرنا ہے؟ آپ نوجوانوں کو، یہ ذمہ داری آپ کے دوش پر ہے۔ آپ پاسداران انقلاب فورس کو آگے لے جانے کے لئے خود کو آمادہ کیجئے۔ طاقت کے اس ستون کو مزید مستحکم بنانے کے لئے خود کو آمادہ کیجئے۔

بعض لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ آپ ملت ایران کی طاقت کی توصیف و تشریح کرتے وقت مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ میں جواب میں کہتا ہوں کہ ہم مبالغہ آرائی نہیں کرتے، ہم تو حقیقت بیان کرتے ہیں۔ ملت ایران کے اقتدار اور ملت ایران کی قوت و طاقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ چالیس سال سے دنیا کی سفاک ترین، بے رحم ترین اور پست ترین طاقت یعنی امریکہ ملت ایران کے خلاف شرانگیزی اور ریشہ دوانیاں کر رہا ہے لیکن وہ اس قوم کو ضرب نہیں لگا سکا ہے، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ہے۔ جبکہ ملت ایران اپنے راستے پر رواں دواں ہے، مسلسل پیشرفت کر رہی ہے اور اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ملت ایران کی قوت و طاقت کی نشانی ہے۔ اگر ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام طاقتور اور مستحکم نہ ہوتے تو دشمن جتنی کوششیں کر رہے ہیں اس کا دسواں حصہ ہی اس قوم کو مغلوب کرنے کے لئے کافی ہوتا اور دشمن اس قوم سے اس کا یہ پیارا نظام حکومت چھین لیتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا، یہ نظام دشمن کے مقابل ڈٹا رہا اور اس کی قوت و استحکام میں روز بروز اضافہ ہو رہا۔

دشمن صرف وہی نہیں تھے بلکہ ملک کے اندر بھی تھے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انقلاب کے آغاز سے ہی تین مخالف گروہ اسلامی انقلاب کے مقابلے میں اور امام خمینی کی تحریک کے مقابلے میں متحرک ہو گئے۔ ایک گروہ لبرل فکر والوں کا تھا جن کا رجحان مغرب اور امریکہ کی طرف تھا اور وہ امریکہ اور مغرب سے لگاؤ رکھتے تھے۔ ایک گروہ کمیونسٹوں کا تھا جو مسلح تھا اور اسے کوئی بھی اقدام کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی۔ ایک گروہ منافقین کا تھا جن کا ظاہر تو اسلامی تھا لیکن باطن کافرانہ خباثت سے آلودہ تھا، یہ ایسا ضمیر فروش گروہ تھا کہ صدام کے پرچم تلے جاکر کھڑا ہو گیا اور اس سے مدد لی۔ اس ملک میں بنیادی طور پر یہ تین گروہ تھے۔ یہ تینوں ہی گروہ اسلامی انقلاب سے مغلوب ہو گئے اور بڑی طاقتوں کی خوش آمد کرکے، چغل خوری کرکے، فرانس، برطانیہ، امریکہ وغیرہ جیسی حکومتوں کے لئے جاسوسی کرکے ان کی پشت پناہی حاصل کرتے ہیں۔ ایک داخلی رجعت پسند گروہ بھی تھا۔ یہ گروہ بھی ایک طرح سے انقلاب کے مقابلے میں اور انقلابی تحریک کے مقابلے میں تھا، مزاحمت کرتا تھا۔ البتہ یہ گروہ کوئی خاص قابل ذکر نہیں تھا۔ ملت ایران اس رکاوٹ سے گزر گئی۔ رجعت پسند، دقیانوسی اور دین تراش گروہ تھا جو رکاوٹ کھڑی کرتا تھا۔ ملت ایران کی مدد سے اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کی مدد سے اسلامی جمہوریہ نے خارجی دشمن کو بھی اور داخلی دشمن کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیا۔ وہ اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہے اس کی پیشرفت کو بھی نہیں روک سکے۔

میرے عزیزو! میرے نوجوانو! آج آپ کے سامنے وہ اسلامی جمہوریہ ہے جو اس زمانے کی نسبت جب آپ کی پیدائش ہوئی اس وقت بہت بدل چکی ہے۔ پیش قدمی، وسائل، صلاحیتیں، تجربات اور کارکردگی بدرجہا بہتر ہے۔ بہت بلندی پر پہنچ چکی ہے۔ ان شاء  اللہ ہمارے نوجوانوں میں روحانیت و معنویت بھی اسی انداز سے بڑھے گی۔ یقینا قابل لحاظ تعداد میں نوجوانوں کے اندر یہ روحانیت موجود بھی ہے۔

اسلامی جمہوریہ کی قوت و طاقت کی ایک دلیل یہ الاینس ہیں جو اس علاقے میں امریکہ تشکیل دے رہا ہے۔ اگر امریکہ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تو علاقے کے ان رجعت پسند اور بدنام ممالک سے اسے اتحاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی، ان کی مدد نہ لیتا۔ بد امنی، بے چینی اور آشوب  پیدا کرنے کے لئے ان سے مدد نہ لیتا۔ یہ ایران کی قوت و طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ البتہ امریکہ کی دشمنی روز بروز بڑھتی رہی ہے۔ اسی طرح امریکہ سے ملت ایران کی نفرت بھی روز بروز بڑھتی رہی ہے۔

میں آپ سے عرض کروں کہ اپنے تمام اقدامات سے مایوس ہو جانے کے بعد آج دشمن کا منصوبہ اسلامی جمہوری نظام اور عزیز ملت ایران کے درمیان شگاف پیدا کرنا ہے۔ یہ ان کی احمقانہ سوچ ہے۔ انھیں پتہ ہی نہیں کہ اسلامی جمہوری نظام ملت ایران سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو ہی نہیں سکتے۔ اسلامی جمہوری نظام کوئی بیوروکریٹک، عوام سے بیگانہ اور محلوں تک محدود رہنے والا نظام نہیں ہے۔ یہ ایسا نظام ہے کہ جو خود عوام سے تشکیل پایا ہے، عوام پر ٹکا ہوا ہے، عوام کے ایمان، عوام کی محبت اور عوام کے جذبات پر ٹکا ہوا ہے۔ یہ ہے اسلامی نظام کی حقیقت۔ اسے وہ عوام سے کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ البتہ اس شخص سے پہلے بھی امریکہ کے چھے صدور یہ کوشش کر چکے ہیں  اور وہ سب کے سب میدان سے باہر ہو گئے، جبکہ اپنا یہ شیطانی منصوبہ پورا نہیں کر پائے۔ ان کا یہ شدید اقتصادی دباؤ جس کی سختیاں عام طور پر عوام الناس کو جھیلنا  پڑتی ہیں، اسی وجہ سے ہے کہ شاید عوام جاں بلب ہو جائیں، عوام تھک جائیں۔ نصرت خداوندی سے ہم عوام سے اپنا رابطہ روز بروز زیادہ مستحکم کریں گے۔ ہم دشمن کی کمر توڑ دینے والی اپنی یکجہتی کو قائم رکھیں گے۔ ہم مومن، جوش و جذبے سے سرشار اور اہل عمل نوجوانوں کو نصرت و توفیق خداوندی سے روز بروز زیادہ طاقتور بنائیں گے۔ ملک کی غیور اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوان نسل یہ بات یاد رکھے کہ دشمن کو اس کی خود مختاری سے بیر ہے، اس کے وقار سے بیر ہے، اس کی پیشرفت سے بیر ہے، علم و سیاست کے میدان میں اس کی سرگرم موجودگي سے بیر ہے، ملت ایران کا دشمن اس ملت کے وقار، خود مختاری، پیشرفت اور سربلندی کا مخالف ہے۔ جب تک ممکن ہوگا دشمن ایذا رسانی کا سلسلہ بند نہیں کرے گا لیکن یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ان موذیانہ حرکتوں سے اسے  کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے، بشرطیکہ ملت ایران نے جس طرح آج تک توفیق خداوندی اور ہدایت پروردگار سے صحیح راہ کی شناخت حاصل کی ہے، آئندہ بھی اسی راستے پر پوری قوت کے ساتھ رواں دواں رہے۔ یہ استقامت، صبر، تقوا، ہوشیاری اور تدبیر و قومی یکجہتی کا راستہ ہے۔

بعض لوگ کوئی اور نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تاکہ دشمن اپنی موذیانہ حرکت بند کر دے۔ ان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ گھٹنے ٹیک دینے کی قیمت استقامت و مزاحمت سے کہیں زیادہ چکانی پڑتی ہے۔ بے شک استقامت و مزاحمت کی ممکن ہے کہ ایک قیمتی چکانی پڑے، لیکن اس کا ایک ثمرہ بھی ہے جو قوموں کے لئے اس قیمت سے کئی گنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن ضدی اور خبیث دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا، کچل دئے جانے، رسوا کئے جانے، شناخت کو گنوا دینے کے علاوہ کسی چیز کا سبب نہیں بنتا۔ یہ بات سب کو یاد رکھنا چاہئے۔ یہ اللہ کا اٹل قانون ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے؛  فَلا تَهِنوا وَ تَدعوا اِلَی السَّلمِ وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ وَ اللهُ مَعَکُم وَ لَن یَتِرَکُم اَعمالَکُم؛(6) ہمت نہ ہارئے، دشمن سے ہاتھ ملانے کی دعوت نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے آپ کو سربلند کیا ہے، برتری عطا کی ہے۔ «وَ لَن یَتِرَکُم» - یعنی «لَن یَنقُصَکُم»- یعنی اللہ تعالی نے آپ کی جدوجہد کا صلہ دینے میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس جدوجہد کی جزا کامل شکل میں آپ کو عطا کرے گا۔

اپنے معروضات کے آخر میں ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا۔ دشمن کے بارے میں ہمیں جو چیزیں پیش نظر رکھنا چاہئیں ان کا ذکر ہوا۔ تاہم ہمیں خود اپنے اعمال کے سلسلے میں بھی ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم سب کو! چھوٹے سے لیکر بڑے تک، نوجوان سے لیکر بوڑھے تک، عام افراد سے لیکر عہدیداران تک۔ عہدیداران خاص طور پر تساہلی کی طرف سے، غفلت کی طرف سے اشرافیہ کلچر کی طرف سے، عوام کے ساتھ متکبرانہ برتاؤ کی طرف سے، چند روزہ عہدے پر بھروسہ کرنے کی طرف سے ہوشیار رہیں، بہت احتیاط کریں۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالی جس طرح آج تک ملت ایران کو اپنی توفیقات سے نوازتا رہا ہے اسی طرح اس سلسلے کو جاری رکھے گا۔ وہ دن جب ملت ایران اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ دشمنوں کے پاس فوجی، اقتصادی، سیکورٹی اور سیاسی حملے کے بارے میں سوچنے کی بھی ہمت نہ رہے، ان شاء اللہ زیادہ دور نہیں ہے۔ آپ عزیز نوجوان وہ دن اپنی آنکھ سے دیکھیں گے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱)  اس تقریب کے آغاز میں جو امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی میں منعقد ہوئی، پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر انچیف جنرل محمد علی جعفری اور یونیورسٹی کے کمانڈر  بریگیڈیئر جنرل علی فضلی نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

۲) سوره آل عمران، آیت نمبر ۱۱۸ کا ایک حصہ؛ «...دشمنی ان کی باتوں اور انداز سے ہویدا ہے اور ان کے سینوں میں جو کچھ چھپا ہے وہ زیادہ بڑا ہے۔..»

۳) سوره توبه، آیت نمبر۵۰ کا ایک حصہ

۴) سوره آل عمران،  آیت نمبر ۱۲۰ کا ایک حصہ؛ «...اور اگر صبر کرو اور پرہیزگار بنے رہو تو ان کے نیرنگ کا کوئی نقصان تمہیں نہیں پہنچے گا۔..»

۵) سوره آل عمران، آیت نمبر ۱۲۰کا ایک حصہ

6) سوره‌  محمّد، آیت نمبر ۳۵