بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین

نبی رحمت حضرت خاتم الانبیا محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میلاد مبارک اور عظیم المرتبت امام حضرت جعفر ابن محمد الصادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی تمام حاضرین محترم، وحدت اسلامی کانفرنس کے عزیز مہمانوں اور اس نشست میں تشریف فرما سفیروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام ملت ایران کو، دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں بشمول مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو پیغمبر اکرم کی ولادت با سعادت کی۔ اس خورشید فروزاں کی ولادت کہ زمانہ جاہلیت کے جہل و فریب کے دور میں جس کا طلوع ہوا اور جس نے دنیا کو منور کر دیا۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے الفاظ میں؛ وَ الدُّنیا کاسِفَةُ النّورِ ظاهِرَةُ الغُرور (۲) حقیقت ماجرا یہی ہے۔ دنیا جہل و فریب کی تاریکی میں غرق ہو چکی تھی۔ اس دور میں پروردگار عالم نے بشریت کو یہ نور عطا کیا۔ آج پیغمبر کا جسم مبارک ہمارے درمیان نہیں ہے، لیکن «اَرسَلَهُ بِالهُدىٰ وَ دینِ الحَقّ» (۳) ان کا دین اور ان کی ہدایت ہمارے پاس ہے۔ اگر ہم اس نور کا اتباع کریں، اگر ہم قرآن کے اس جملے کے مصداق بنیں؛ «وَاتَّبَعُوا النّورَ الَّذی أُنزِلَ مَعَهُ»، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا؛ «اُولئکَ هُمُ المُفلِحون» (۴) ہدایت خداوندی اور اس نور کا اگر ہم اتباع کریں جو پیغمبر اپنے ساتھ لائے، نور یعنی قرآن، قرآن ہدایت کی کتاب ہے، کتاب نور ہے، پیغمبر اکرم کے ذریعے بشریت کو ملنے والے اس الہی عطیئے کا اتباع کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عالم انسانیت کو فلاح و نجات ملے گی۔

بشر فلاح و کامرانی کی جستجو میں ہے، نجات کی جستجو میں ہے۔ شروع سے تاحال انسانیت کی بڑی مشکل ہے انصاف کا فقدان، رحمت کا فقدان، ہدایت کا فقدان۔ انسان کی گوناگوں گمراہیوں نے زندگی کو اس کے لئے دشوار بنا دیا ہے۔ آج بھی انسانیت کو اسی نور کے سرچشمے کی ضرورت ہے۔ آج بھی بشریت کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ نبی اکرم کی دعوت پر جو دعوت حق ہے، دعوت صدق ہے، دعوت رحمت ہے، لبیک کہے۔ اگر بشر فکری بلوغ کی اس منزل پر پہنچ جائے کہ نبی اکرم کی دعوت پر لبیک کہے تو بشریت کی مشکلات رفع ہو جائیں گی۔ آج بڑی طاقتوں کے وجود اور مجرمانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں ان کے بے باک اور بے لگام روئے کی وجہ سے ہونے والے مظالم کے باعث دنیا اسی دور کی مانند پھر «کاسِفَةُ النّور» و «ظاهِرَةُ الغُرور» بن گئی ہے۔ آج بھی بد قسمتی سے بشریت مشکل میں ہے۔ یہ مشکل صرف عالم اسلام کی نہیں ہے جو اسلام سے دور ہو گيا ہے، بلکہ ساری انسانیت مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ وہ ممالک بھی جو بظاہر تمدنی پیشرفت اور دنیاوی زرق و برق سے آراستہ ہیں، در حقیقت سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔ یہ مشکلات جہل کا نتیجہ ہیں، فریب کا نتیجہ ہیں، انصاف کے فقدان کا نتیجہ ہیں اور اسلام ان  تمام مشکلات کا حل اپنے پاس رکھتا ہے۔ اسلام قوموں کی فلاح و نجات کا ضامن ہے، ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ یہ سبق حاصل کریں۔

البتہ یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ توفیق الہی اور فضل پروردگار سے ظلم و زیادتی کے مد مقابل آج دنیا میں مزاحمتی محاذ موجود ہے جو اللہ اور اسلام پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ ہمارا علاقہ اس کا ایک نمونہ ہے۔ آج ہمارے علاقے میں بہت سے ملکوں اور اقوام میں اسلامی بیداری کا جذبہ حکمفرما ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا کی استکباری طاقتیں اور ان میں سر فہرست مجرم امریکہ، شیطان بزرگ اس علاقے کے سلسلے میں بہت ہاتھ پاؤں مار رہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس علاقے میں اسلام کی جانب رجحان، اسلام کی طرف میلان اور اسلامی بیداری بالکل نمایاں طور پر نظر آ رہی ہے۔ وہ مسلم اقوام کی بیداری کے خلاف ہیں۔ انھیں مسلم اقوام کی بیداری سے خوف آتا ہے۔ جہاں بھی اسلام لوگوں کے دل و جان میں اتر گیا وہاں استکبار کو زبردست ضرب پڑی ہے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ یہ مانتے ہیں کہ اس علاقے میں اسلامی بیداری سے استکبار کے منہ پر ایک بار پھر طمانچہ پڑے گا۔

مسلمان بھائیوں سے، مسلم اقوام سے، دنیائے اسلام کے دانشوروں سے، اسلامی ممالک کے محترم علمائے دین سے ہماری گزارش یہی ہے کہ اس اسلامی تحریک کو جہاں تک ممکن ہو تقویت پہنچائیے۔ اس علاقے کی نجات کا راستہ اسلامی بیداری کی تقویت ہے، اسلامی مزاحمتی تحریک کی تقویت ہے۔ یہ مسلم اقوام کے تمام افراد بالخصوص علمائے اسلام، دانشوروں، مصنفین، شعرا، مفکرین، فنکاروں اور سیاسی شخصیات کا فریضہ ہے۔ ان کا فریضہ ہے اور پیغمبر اسلام کی دعوت اور اسلامی ہدایت کا رخ انھیں کی جانب ہے۔ آج عالم اسلام میں اور خاص طور پر مغربی ایشیا کے اس علاقے میں اس کی زمین ہموار ہوئی ہے، اسلامی بیداری کی زمین ہموار ہو چکی ہے۔ سب کو چاہئے کہ مدد کریں اور اس بیداری کو ثمر بخش بنائیں۔

اسلامی ممالک کے حکام کو ہماری یہ نصیحت ہے کہ اسلام کی ولایت کی طرف پلٹیں۔ ولایت خداوندی کے سائے میں آئیں۔ امریکہ اور طاغوت کی سرپرستی ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ آج بد قسمتی سے ہمارے علاقے کے بعض مسلم ممالک اللہ کی سرپرستی میں جگہ حاصل کرنے کے بجائے طاغوت کی سرپرستی پانے کے لئے سینہ کوبی کرتے ہیں۔ اسلام اور نور قرآن کا اتباع کرنے کے بجائے امریکہ کی پیروی کرتے ہیں۔ امریکہ اپنی استکباری خو کے مطابق ان کی تحقیر کرتا ہے۔ آپ نے سنا، سب نے سنا کہ امریکہ کا دریدہ دہن صدر سعودی حکام کی تشبیہ دودھ دینے والی گائے سے دیتا ہے۔ یہ تحقیر ہے، یہ توہین ہے۔ یہ اس علاقے کے عوام اور اس ملک کے عوام کی توہین ہے۔ اگر آل سعود کو اپنی بے عزتی دیکھ کر برا نہیں لگتا تو نہ لگے، وہ توہین برداشت کریں، لیکن یہ تو علاقے کے عوام کی بھی توہین ہے، مسلم اقوام کی توہین ہے۔ آخر کیا تک ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمراں دو مجرمانہ کارروائیوں میں امریکا کا ساتھ دیں، جن کی وجہ سے آج بد قسمتی سے ہمارا یہ علاقہ لہولہان ہے، ایک فلسطینیوں کے خلاف انجام  پانے والی مجرمانہ کارروائی جو نہایت اہم مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ہے اور دوسری مجرمانہ کارروائی یمن کے بارے میں ہے۔ البتہ سب یقین رکھیں ان دونوں قضیوں میں یقینا فتح فلسطین اور یمن کے عوام کی ہوگی اور امریکہ اور اس کے پیروکار شکست سے دوچار ہوں گے۔

آج بالکل صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکہ اس علاقے میں دس سال پہلے اور بیس سال پہلے کی نسبت کافی کمزور ہو چکا ہے، بالکل واضح ہے کہ خبیث صیہونی حکومت آج ماضی سے زیادہ کمزور پڑ چکی ہے۔ چند سال قبل صیہونی حکومت کو حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں شکست ہوئی، وہ تینتیس دن تک ٹک پائی اس کے بعد اسے شکست ہوئی۔ اس کے دو سال بعد فلسطینیوں کے مقابلے میں بائیس دن ٹک سکی اور پھر شکست کھا گئی، اس کے بعد غزہ کے مظلوم عوام کے مقابلے میں آٹھ دن ہی ٹک سکی اور شکست کھا گئی اور حالیہ ہفتوں میں تو صرف دو دن مقابلہ کر سکی پھر شکست سے دوچار ہوئی۔ یہ صیہونی حکومت کی کمزوری ہے، یہ صیہونی حکومت کی روز افزوں کمزوری کی نشانی ہے۔

جن قوموں کے پاس اپنی فکر ہے، اپنا تشخص ہے، جوش و جذبہ ہے، جن کا اللہ پر تکیہ ہے، جو اللہ پر توکل کرتی ہیں اور جو  استقامت و مزاحمت کے راستے پر چلتی ہیں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ وَلَو قاتَلَکُمُ الَّذینَ کَفَروا لَوَلَّوُا الاَدبارَ ثُمَّ لایَجِدونَ وَلِیًّا وَلا نَصیرًا * سُنَّةَ اللهِ الَّتی قَدخَلَت مِن قَبلُ وَلَن تَجِـدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبدیلا (5) یہ سنت پروردگار ہے۔ اگر مسلمان استقامت دکھائیں تو طاغوتی اور استکباری طاقتوں کے ہر حربے پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ آج یمن کے عوام سعودی حکومت، اس کا ساتھ دینے والوں اور اس کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ کے ہاتھوں بڑی سخت ایذائیں برداشت کر رہے ہیں، لیکن آپ یقین جانئے کہ یمن کے عوام اور انصار اللہ کی فتح یقینی ہے۔ وہ شکست کھانے والے نہیں ہیں۔ ملت فلسطین ہرگز شکست کھانے والی نہیں ہے۔ واحد راستہ ہے استقامت و مزاحمت۔ جس چیز نے آج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سراسیمہ کر دیا ہے چنانچہ وہ مہمل بیانی کر رہے ہیں، الٹے سیدھے کام کر رہے ہیں، وہ مسلم اقوام کی مزاحمت ہے۔ اس استقامت کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔

برادران عزیز، خواہران گرامی! ملت ایران چالیس سال سے مزاحمت کر رہی ہے۔ ابتدا میں ہم ایک نازک پودے کی مانند تھے، کمزور تھے، مگر پیغمبر کے مبارک نام کی برکت سے اور اپنے عظیم قائد (امام خمینی) کی ہدایت و رہنمائی کی برکت سے ہم استقامت و مزاحمت میں کامیاب ہوئے۔ البتہ ہمیں شہیدوں کی قربانیاں دینی پڑیں، سختیاں اٹھانی پڑیں، لیکن ہم نے پھر بھی استقامت و مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج ملت ایران اور ملک ایران ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ آج امریکہ اور صیہونی حکومت کے پاس ملت ایران کو دھمکی دینے کی ہمت نہیں ہے۔ ان کی دھمکیوں، ان کی کارروائيوں اور خباثتوں کو آج تک مسلسل شکست ہی ہوئی ہے اور آئندہ بھی وہ شکست سے دوچار ہوں گے۔ پابندیاں بھی ناکام ہوں گی، ان کی پالیسیاں شکست کھائیں گی استقامت و مزاحمت کی برکت سے۔

استقامت و مزاحمت اللہ پر ایمان، اللہ پر توکل اور وعدہ خداوندی پر اعتماد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے اور تاکید کے ساتھ فرمایا ہے؛ وَ لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه (6) تاکید کے ساتھ نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ اگر ہم اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ کے وعدوں کو بدگمانی نہیں بلکہ حسن ظن کے ساتھ دیکھیں تو ہم فتحیاب ہوں گے۔ اللہ کے وعدوں کے سلسلے میں بدگمانی تو کفار کی عادت ہے؛ الظّانّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ‌ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم (7) یہ لوگ جنہیں اللہ کے وعدوں کے سلسلے میں بدگمانی ہے، ظاہر ہے کہ انھیں وعدہ خداوندی سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ ملت ایران نے اللہ کے وعدوں پر اپنا حسن ظن ثابت کر دیا ہے اور استقامت و مزاحمت کی ہے۔ ہمارے خلاف لشکر کشی بھی ہوئی، جاسوسوں کی سرگرمیاں بھی ہوئیں، ہم نے شہیدوں کی قربانیاں بھی دیں مگر ملت ایران کہسار کی مانند ثابت قدم رہی اور خود کو مستحکم اور پائيدار بنانے میں کامیاب ہوئی۔ آج یہ شجرہ طیبہ، اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کا شجرہ طیبہ وہ شجرہ طیبہ ہے کہ «اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّماء» (8) بفضل پروردگار ہم روز بروز آگے بڑھتے رہے، روز بروز ہماری قوت میں اضافہ ہوتا رہا، آئندہ بھی ایسا ہوگا۔ یہ دنیائے اسلام میں مسلمانوں کی جدوجہد اور پیشرفت کا نمونہ ہے۔ اللہ کی رحمت نازل ہو ہمارے بزرگوار امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) پر جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں عزیز شہیدوں پر جنہوں نے اس راہ میں اپنی جانیں قربان کیں اور ملت ایران کے لئے فتوحات رقم کیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر مسلمان بھائی اتحاد کو، وحدت کو، ہم آہنگی اور ہمدلی کو پورے اسلامی خطے میں مد نظر رکھیں تو ان شاء اللہ ان تمام سازشوں پر وہ بفضل الہی غلبہ حاصل کر لیں گے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و برکاته

۱)  اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی سے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے تقریر کی۔ بتیسویں وحدت اسلامی کانفرنس 24 سے 26 نومبر 2018 تک تہران میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا نعرہ تھا 'قدس، امت کے اتحاد کا محور'۔

۲) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۸۹

۳) کافی، جلد ۳، صفحہ ۴۲۳

۴) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۵۷ کا ایک حصہ

5) سوره‌ فتح،‌ آیات ۲۲ و ۲۳؛ «یہ کافر لوگ اگر اس وقت آپ سے لڑ گئے ہوتے تو یقینا پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی یاور و مددگار نہ پاتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے۔»

6) سوره‌ حج،‌ آیت ۴۰؛ «…اور یقینا اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد  کرے۔ …»

7) سوره‌ فتح، آیت ۶؛ «…جنہوں نے اللہ کے بارے میں گمان بد کیا اور وہ خود برائی کے پھیرے میں آ گئے۔ اللہ ان پر غضبناک ہوا اور ان پر لعنت کی۔ …»

8) سوره‌ ابراہیم، آیت نمبر ۲۴ کا ایک حصہ؛ «... اس کی جڑ مستحکم اور شاخیں آسمان میں ہیں۔»