بسم اللہ الرحمن الرحیم

 تمام برادران محترم اور خواہران گرامی کا خیر مقدم کرتا ہوں اور فریضہ حج کی انجام دہی میں حجاج کو گوناگوں خدمات بہم پہنچانے والے سبھی کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ خداوند عالم توفیق عطا کرے کہ اس سال بھی یہ فریضہ واجب اپنی شرائط اور حدود کے ساتھ ،  گزشتہ برسوں کی طرح بلکہ اس سے بہتر انداز میں ادا ہو اور ہمارے عوام اپنے وجود میں حج کے معنوی، سماجی اور سیاسی مفاہیم کو محسوس اور اسلامی دنیا کی فضا میں اس کو مجسم کریں۔

 حج ایک طرف مظہر روحانیت ہے، خدا سے ارتباط، آیات الہی سے دل کی آشنائی اور انسان کی اللہ تعالی سے زیادہ سے زیادہ قربت کا ذریعہ اور دوسری طرف مظہر وحدت ہے- امت اسلامیہ کا اتحاد، بیچ سے دیواروں کا گرنا، دشمنوں کی پیدا کردہ یا تعصب اور بدگمانیوں سے وجود میں آنے والی خلیجوں کا پر ہونا اور اسلام کی امت واحدہ کی راہ میں قدم بڑھانا- حج اسی کے ساتھ دشمنان خدا، مشرکین اور شرک و کفر کے ایجنٹوں سے برائت کا مظہر بھی ہے۔  اگر ان شاء اللہ یہ تینوں پہلو مکمل اور مجسم ہو جائيں تو حج کا فائدہ ظاہر ہوگا۔

سب سے پہلے تو آپ اور عازمین حج ہیں جو حج کے فوائد سے بہرہ مند ہوں گے۔ اس کے بعد اسلامی دنیا، اسلامی معاشرے اور امت اسلامیہ کو بھی اس کا فائدہ پہنچےگا۔  حج کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس سے فضا معنوی اور روحانی ہو جاتی ہے۔ اس وقت ایام حج کے نزدیک آنے اور عازمین حج کی روانگی سے ملک کی فضا زیادہ معنوی اور روحانی ہو گئی ہے۔ جب عازمین حج واپس آئيں گے تو اپنے ساتھ معنویت اور روحانیت لائیں گے، یعنی اپنے ساتھ معنویت اور روحانیت کا تحفہ لائيں گے۔ جب بھی حج کی بات ہوتی ہے تو ماحول روحانی ہو جاتا ہے ۔ ایسا ہونا بھی چاہئے۔

ہمارے عوام کے سامنے، الحمد اللہ بائیس بہمن (گیارہ فروری، یوم آزادی) کا موقع آیا اور اس عظیم امتحان الہی کے بعد انتخابات ہیں، اس لئے میں آج یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معنوی اور روحانی فضا ملک کی ہر چیز کے لئے مفید ہے۔ صرف آخرت اور دینی امور کی بات نہیں ہے۔ روحانی اور دینی ماحول ملک کے دنیاوی امور کے لئے بھی مفید ہے۔ یہ ماحول ہمارے ملک میں انقلاب کی برکت سے وجود میں آیا اور آج ہمارے ملک کی فضا بہت حد تک معنویت اور روحانیت سے مملو ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ جب عوام کے میدان میں آنے کا مرحلہ آتا ہے تو لوگ خوشی خوشی کتنے جوش وخروش کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ دینی اور معنوی عنصر کے علاوہ اور کون سی چیز ہے جو ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرتی ہے۔ میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ عوام نے اس سال بائيس بہمن ( گیارہ فروری، یوم آزادی) پر جس شکوہ و عظمت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے لئے ان کا شکریہ ادا کروں۔ یہ بہت اہم ہے۔

  دشمن کے تشہیراتی مراکز کی کوشش ہے کہ ہمارے عوام کو ان کے ماضی، ان کے انقلاب اور ان کے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے جدا کر دیں ، عوام اپنے امام کو بھول جائيں، وہ اپنے خیال میں نئے اقدار ایجاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عوام میں اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب بائیس بہمن کا دن (گیارہ فروری، یوم آزادی) آتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ تہران میں، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں حتی دور دراز کے دیہی علاقوں میں لوگ کس طرح باہر نکلتے ہیں؟! نہ کوئی انہیں دعوت دیتا ہے، نہ کوئی مادی سبب ہوتا ہے لیکن عوام باہر آتے ہیں۔ یہ اسی روحانی عنصر کا نتیجہ ہے۔ 

 میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سازشیں تیار کرنے والے اور گھات لگاکے اس انتظار میں بیٹھنے والے تضاد کا شکار ہیں کہ عوام کے اندر کوئی ایسی بات ظاہر ہو جس سے ان دشمنوں کے اندر یہ امید پیدا ہو جائے کہ عوام انقلاب سے لگاؤ نہیں رکھتے اور وہ انقلاب سے الگ ہو چکے ہیں۔ ایک طرف وہ بعض بیانات اور بعض اخبارات کی سرخیاں دیکھتے ہیں جن میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں معنوی اور دینی باتیں ختم ہو چکی ہیں، اب انقلاب اور امام خمینی سے کوئی لگاؤ نہیں رہا، سب کچھ فراموش کر دیا گیا ہے! تو یہ خوش ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ لیکن پھر جب بائیس بہمن (گیارہ فروری، یوم آزادی) جیسے مواقع آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ عوام کا ایک عظیم سیلاب، اسلام اور انقلاب کے نعروں کے ساتھ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو یاد کرتے ہوئے سڑکوں پر آ جاتا ہے اور ماضی کی یاد تازہ کر دیتا ہے، تو وہ تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ لہذا منصوبے تیار کرنے میں مستقل طور پر تردد میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایرانی عوام نے اپنی توانائیوں سے دشمن کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے بیانات پر نہ جائیں۔ اپنے بیانات میں بعض اوقات وہ لوگوں کو مرعوب کرنے کے لئے طاقت کی بات کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ ہمارے عوام زندہ ہیں، مومن ہیں، ان کے دل اسلام اور امام (خمینی) کے ساتھ ہیں۔ آج تک کوئی طاقت عوام کے دلوں سے امام کی محبت، امام کی یاد، امام کی تعظیم و تجلیل، جذبہ شہادت اور انقلابی اقدار کو نکال نہیں سکی ہے۔

   انتخابات کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ میں اس مناسبت سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

الیکشن صرف ایک سیاسی روداد نہیں ہے۔ الیکشن عوام کی شراکت کا مظہر ہوتا ہے، حصول حق کا مظہر ہوتا ہے اور ملک کے قومی اقتدار اعلی کا مظہر ہوتا ہے۔ آج دنیا میں، ہمارے ملک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی اس بات کو کافی اہمیت دی جاتی ہے کہ ووٹ دینے کا حق رکھنے والوں میں کتنے فیصد لوگوں نے ووٹ دیئے ہیں۔ دنیا کے  لوگوں، مبصرین اور سیاستدانوں کی نگاہ میں وہ نظام محکم ہوتا ہے جس میں الیکشن میں زیادہ لوگ پولنگ اسٹیشنوں پر جاکے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ نظام کے استحکام کی علامت ہے۔ الحمد للہ ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران مسلسل ہونے والے انتخابات میں ہمیشہ اس کو ثابت کیا ہے اور ہمارے عوام نے انتخابات میں بھر پور حصہ لیا ہے۔ یہ عوام کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی کہ انتخابات میں حصہ لیں اور اپنے ملک کی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ اس لئے کہ ملک عوام کا ہے۔ عوام آئيں، صحیح اور آزادانہ انتخابات میں حصہ لے کر اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب کریں۔ اپنے ملک کے حکام کا اس روش سے تعین کریں جو آئين میں طے کی گئی ہے۔ یہ عوام کا حق ہے۔ یہ کام ان کا ہے؛ اسی کے ساتھ یہ ان کا فریضہ بھی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ہم اپنا حق استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ نہیں ملک کی تقدیر اس حق کے استعمال اور اس فریضے کی ادائيگی پر منحصر ہے۔ سب کو انتخابات میں شرکت کرنی چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام نے یہ حق عوام کے اختیار میں دیا ہے۔ لیکن ماضی میں ہمیں یہ حق حاصل نہیں تھا۔ ماضی کے نظاموں میں عوام اس حق سے محروم تھے۔ اسلامی جمہوری نظام نے یہ حق دیا ہے۔ عوام الیکشن میں حصہ لیں اور اپنا یہ حق استعمال کریں۔ ایک ووٹ بھی موثر ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارے ایک ووٹ سے کیا اثر پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایک ووٹ یا چند ووٹ ہی ملک کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ آپ ووٹ دے کے صالح اور مومن فرد کو پارلیمنٹ میں بھیج سکتے ہیں۔ جو پارلیمنٹ میں منتخب ہوکے پہنچتا ہے، حساس مواقع پر جب ایک رکن پارلیمنٹ کا ووٹ ملک و قوم کی تقدیر اور اقتصاد کا تعین کر سکتا ہو، اس کا ووٹ موثر ہوتا ہے۔ لہذا کبھی کسی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میرے ووٹ سے کیا فرق پڑے گا۔ اہم یہ ہے کہ انتخابات کے روز، سبھی عورت مرد، بوڑھے جوان جو بھی ووٹ دینے کا قانونی حق رکھتا ہو، وہ نکلے اور ووٹ دینے جائے اور انتخابات پرشکوہ انداز میں منعقد ہوں۔ جس کو بھی اس نظام میں دلچسپی ہوگی وہ انتخابات میں شرکت کرے گا۔ جو بھی اسلامی جمہوری نظام کی سربلندی چاہتا ہے وہ انتخابات میں شرکت کرے گا۔ میں اس باہوش اور آگاہ قوم کو پہچانتا ہوں، اب تک میں نے دیکھا ہے کہ عوام ہر موقع پر میدان میں موجود رہے ہیں، مجھے توقع ہے کہ ان شاء اللہ آئندہ انتخابات میں بھی پوری دلچسپی اور جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لیں گے اور در حقیقت، اسلام اور اسلامی نظام سے اپنے لگاؤ کا اعلان کریں گے۔

 دوسرا نکتہ یہ ہے کہ انتخابات لڑائی جھگڑے، کشیدگی اور نفرت سے پاک اور پرامن و دوستانہ ماحول میں ہونے چاہئيں۔ ظاہر ہے کہ ہر جگہ امیدواروں کے نظریات، افکار اور طرزعمل میں فرق ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ عوام ان کو دیکھیں گے، پرکھیں گے، ان کی شناخت حاصل کریں گے اور تدبر کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ کام پر امن ماحول میں ہونا چاہئے۔ یہ ہمارا افتخارہے۔ ابھی چند روز قبل ہم نے اسلامی انقلاب کی اکیسویں سالگرہ کا جشن منایا اور چند روز بعد ہمارے ملک میں اکیسویں انتخابات منعقد ہوں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، بہت اہم ہے۔ ان حالات میں اغیار بیٹھ کے ہماری قوم کی فکر کریں اور کہیں کہ اس ملک کو ڈیموکریسی کی طرف جانا چاہئے؟! ڈیموکریسی کیا ہے؟! اگر ڈیموکریسی سے مراد انتخابات میں عوام کی شرکت ہے تو آئيے دیکھئے دنیا میں کہاں یہ بات پائی جاتی ہے؟ جن لوگوں نے امریکی سیاسی طاقت اور پیسے کے ذریعے برسوں اس ملک پر حکومت کی اور اس ملک کا سب کچھ برباد کر دیا، کیا انھوں نے حتی ایک بار بھی پورے ملک میں اس طرح کے انتخابات کرائے تھے؟ اکیس سال میں اکیس انتخابات، یہ معمولی بات ہے؟ ان تمام اکیس انتخابات میں ملک کی فضا آج تک پر سکون اور پر خلوص رہی ہے۔ البتہ بعض لوگ پروپیگنڈہ کرتے ہیں، فضول باتیں کرتے ہيں۔ سیاسی کشیدگی، تشدد اور نفرت کا ماحول مضر ہے۔ (یہ پروپیگنڈہ کرنے والے) کچھ لوگوں کو انتخابات سے بیزار کرتے ہیں، ان کے اندر شک و تردد پیدا کرتے ہیں، دلوں کو پژمردہ کر دیتے ہیں اور امیدیں کم کر دیتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ اپنے بیانات میں اور شائع ہونے والی تحریروں میں معاشرے میں نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بائیں بازو کو برا کہتا ہے وہ دائیں بازو کو۔ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ کہاں جا رہے ہو اور کیا چاہتے ہو؟ یہ اصطلاحات جو گڑھی ہیں، کیا ہیں؟ شاید یہ الفاظ اور اصطلاحات دشمن نے انہیں دی ہیں۔ دشمن نے تیار کی ہیں اور کچھ لوگ جو غافل ہیں، میں نہیں کہتا کہ وہ جان بوجھ کے ارادتا یہ کام کر رہے ہیں، لیکن بعض یقینا بالارادہ یہ کام کر رہے ہیں، دشمنوں سے یہ الفاظ اور اصطلاحات حاصل کیں اور مسلسل بولے جا رہے ہیں۔ انہیں الفاظ اور اصطلاحات کو دہرائے جا رہے ہیں۔ یہ دایاں بازو اور بایاں بازو کیا ہے؟ یہ قوم مسلمان، مومن اور متحد ہے۔ اس قوم کے افراد مل کے ایک ساتھ انقلاب لائے ہیں۔ ایک ساتھ مل کے اکیس سال سے اس انقلاب کی حفاظت کی ہے۔ ہمارے اوپر جو آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی تھی اس میں ایک ساتھ مل کے ملک کا دفاع کیا ہے۔ بنابریں عوام ایک ساتھ ہیں۔ یہ دیواریں کیوں کھینچی جا رہی ہیں؟ کچھ لوگ ایک نام سے اس گوشے میں اور کچھ لوگ دوسرے نام سے اس گوشے میں، عوام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ عوام نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ یہ بھی معلوم ہے۔ عوام اپنے راستے پر چل رہے ہیں۔ اپنا کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی جاکے اپنا کام کریں۔

 ماحول پرامن رہنا چاہئے۔ بعض لوگ تشدد اور کشیدگی پھیلانے کے لئے ذہنوں کو خراب کر رہے ہیں۔ نہیں عوام یہ نہیں چاہتے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ دو تین دن جو ووٹنگ میں رہ گئے ہیں اور ممکن ہے کہ انتخابات دوسرے مرحلے میں بھی پہنچ جائیں، اس مدت میں ہمارے عزیز عوام بالخصوص نوجوان، اپنے جذبات کو کنٹرول کریں اور عقل سے کام لیں، اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں اور انتخابات میں حصہ لیں۔ فکر اور طرز عمل الگ الگ ہیں، ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے، ہر ایک اپنی فکر کے مطابق  اور اپنے طریقے سے عمل کرے۔ لیکن سب کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ انتخابات جو ہمارے سامنے ہیں، اس میں متحد ہوکے حصہ لیں۔ اس کے لئے ہمیں جواب دینا ہوگا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کہیں کہ ہم انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے یا کسی کو بھی ووٹ دے دیں گے کون سمجھے گا! جی ہاں، لوگ نہیں سمجھیں گے کہ ہم نے کس کو ووٹ دیا ہے؟ لیکن خدا کو تو معلوم ہوگا۔ ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ ہمیں حساب کتاب کرنا چاہئے، تحقیق کرنی چاہئے، اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے، اصولوں اور معیاروں کو نظر میں رکھنا چاہئے تاکہ خدا کو اس کا جواب دے سکیں۔ اگر کوئی خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کون قابل اعتماد ہے، تو اہم مسائل میں، ان مسائل میں جن کے تعلق سے خدا کو جواب دہ ہے اس سے استفسار کرے جس پر اس کو اعتماد ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بنابریں ماحول کو پرامن رکھیں اور سب اس کا خیال رکھیں۔ جو لوگ کونے میں بیٹھ کے سیاسی کشیدگی اور بے بنیاد افواہیں پھیلاکے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، انہیں اپنا کام کرنے دیں۔ انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، سب کو قبول ہوگا۔ کوئی عوام سے یا ملک کے حکام سے یہ نہیں کہے گا کہ انتخابات کا نتیجہ یہ کیوں نکلا؟ یا نتیجہ یہ کیوں نہیں نکلا؟ نہیں یہ لوگوں کے ووٹ ہیں۔ الحمد للہ اس ملک میں قانون محکم ہے معیار اور اصول واضح ہے اور قانون عوام کے سامنے ہے۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ ایسی ہونی چاہئے جو عالمی طاقتوں کی زور زبردستی کی سیاست، تسلط پسندی، مرعوب کرنے اور غیر قانونی مطالبات کے سامنے ڈٹ جائے، ملک و قوم کی مصلحتوں کو سمجھے اور ان کے مطابق عمل کرے۔ مدرس کی خصوصیات کیا تھیں؟ مدرس سے بھی بڑے علما موجود تھے۔ مدرس کی اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ مرعوب کرنے، دھمکی دینے،لالچ دینے اور فریب دینے کا کوئی بھی حربہ ان پر اثرانداز نہیں ہوتا تھا۔

اس وقت بھی جب بظاہر ماحول اس حد تک ان کے خلاف ہو چکا تھا کہ ان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے، وہ کھڑے ہوئے اور اپنی بات کہی۔ پارلیمنٹ میں ایک اچھے عوامی نمائندے کی خصوصیت یہی ہے۔ بعض لوگ بہت جلد مرعوب ہو جاتے ہیں! میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ سامراجی طاقتیں، یعنی وہی تسلط پسند طاقتیں، جو تسلسل کے ساتھ کبھی اس ملک پر کبھی اس ملک پر دست درازی کرتی ہیں، حکومتوں اور اقوام کو اپنے تسلط میں لینا چاہتی ہیں، ان کا کام مرعوب کرنا ہے۔ وہ اتنی طاقتور نہیں ہیں جتنا زبان سے ظاہر کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس انقلاب اور اس ملک سے جتنی دشمنی رکھتی ہیں، اگر ان کے اندر توانائی ہوتی تو اب تک یہ انقلاب مسلسل پیشرفت نہ کرتا اور اس طرح باقی نہ رہتا۔ کیا یہ خود اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ تسلط پسند امریکی اور صیہونی، جتنا دعوی کرتے ہیں، ان کے اندر اتنی طاقت و توانائی نہیں ہے؟ یہ اپنے بہت سے کام دھمکیاں دے کے اور مرعوب کرکے نکال لیتے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ اس کو ہونا چاہئے جو مرعوب نہ ہو۔ کون مرعوب نہیں ہوتا؟ جو دل سے خدا پر توکل رکھتا ہو۔ جب انسان خدا پر توکل رکھتا ہے تو کسی سے مرعوب نہیں ہوتا۔ جو لوگ مرعوب نہیں ہوتے، ان کا ایک نمونہ ہم نے خود اپنے زمانے میں دیکھا ہے یعنی حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور ہزاروں نمونے جنگ اور سیاست کے میدانوں میں دیکھے ہیں۔ یہ مومن اور پاکیزہ نوجوان خوف خدا رکھتے تھے، خدا سے ڈرتے تھے اور غیر خدا سے نہیں ڈرتے تھے۔ "الذین قال لھم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل" گوشہ و کنار میں افراد اور اغیار کے ریڈیو اور دشمن کے مہرے انہیں خوفزدہ کرنے کے لئے، ان سے مسلسل کہتے تھے کہ تمھارے خلاف سازش تیار کر رہے ہیں، تم پر وار لگانے کا پروگرام تیار ہو رہا ہے، یہ کام کریں گے، طے کیا ہے کہ وہ کام کریں گے لیکن وہ کہتے تھے نہیں۔ ان کا ایمان اور قوی ہو گیا۔ وہ کہتے تھے "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" خدا ہمارے لئے کافی ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے۔ ہمیں اس پر یقین ہے۔ اس وقت خداوند عالم فرماتا ہے کہ" فانقلبوا بنعمۃ من اللہ و فضل لم یمسسھم سوء" جی ہاں خدا پر بھروسہ کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے جنگ کا زمانہ دیکھا ہے اور ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ دنیا کی تمام مسلح طاقتیں متحد ہو گئیں تاکہ اس ملک کے تھوڑے سے حصے کو اس سے لے سکیں؛ یہ کہہ سکیں کہ ایران کی سرحد اس مرکز سے چند کلومیٹر پیچھے ہو گئی ہے ؛ لیکن نہ کر سکے۔ عوام ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ خدا مدد کرتا ہے، وہ دشمن کو غالب نہیں ہونے دیتا۔ مرعوب ہوجانا بہت بری صفت ہے۔ کوئی اپنے گھر بیٹھا ہے اور مرعوب ہو جاتا ہے، وہ ایک انسان ہے۔ لیکن جو کسی ذمہ دارعہدے پر فائز ہو، جو پارلیمنٹ کا رکن ہو جو حکومت میں ہو، اگر وہ مرعوب ہو جائے تو مصیبت ہے۔ اس کے مرعوب ہو جانے کا مطلب قوم کے بہت سے وسائل کا ہاتھ سے نکل جانا ہوتا ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کو ہرگز مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔

رکن پارلیمنٹ کو اسی طرح دھوکے میں آکے کسی کا فریفتہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ بعض لوگ ظاہری باتوں کے فریب میں آکے اس طرح فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا منھ کھلا رہ جاتا ہے! یہ سادہ لوح لوگ ہیں۔ اقتصادی ، سیاسی یا سیکورٹی سے متعلق مسائل کے حل کی جو راہیں ان کے سامنے سجا سنوار کے آب و تاب کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں، وہ انہیں خود سے بے خود کر دیتی ہیں۔ برسوں کے تجربے کے بعد بھی وہ خود کو بھی اور دوسروں کو بھی مصیبت میں مبتلا کر بیٹھتے ہیں۔ بنابریں انہیں دوسروں کا شیفتہ نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ صحیح، مستقل اور ایسی راہ حل تلاش کرنا چاہئے جو اس ملک اور اس قوم کے خاص حالات سے مطابقت رکھتی ہو اور اس کی اساس اسلام ہو۔ اسلام میں تمام مسائل کی راہ حل موجود ہے۔ اگر ہمارے اندر کج فہمی ہے، اگر ہم غلط سمجھتے ہیں، اگر ہم اس کو تلاش نہیں کرتے اور اس تک نہیں پہنچ پاتے تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے، ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔

رکن پارلیمنٹ کو لالچی بھی نہیں ہونا چاہئے۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ دشمن کی طرف سے معمولی سی پیشکش بھی ہوئی تو اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھتے ہیں! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ایم پی مرعوب ہونے والا، دشمن پر فریفتہ ہونے والا اور لالچی نہ ہو تو امین اور متدین فرد کو منتخب کریں۔ مشہور ہے کہ جو لوگ خود امین نہیں ہوتے جب وہ اپنی دولت و ثروت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کو کسی امین فرد کے پاس رکھتے ہیں۔ امانت داری بہت اہم ہے۔ ممکن ہے کہ متدین فرد سے کسی وقت غلطی ہو جائے لیکن جیسے ہی اس کو اپنی غلطی کا پتہ چلتا ہے پلٹ جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوتا کہ غلطی کرتے ہیں، کھائی کی طرف بڑھتے ہیں، جہنم کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو یہ سمجھ جانے کے بعد بھی کہ غلط راستے پر جا رہے ہیں، اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ نہیں یہی صحیح ہے اور پھر گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں۔ بنابریں رکن پارلیمنٹ کا انتخاب بہت اہم ہے۔

انتخابی تشہیراتی مہم بھی ہے۔ افسوس کہ زندگی کے بہت سے امور میں مغربی روشیں جن میں یہ تشہیراتی مہم بھی ہے، اقوام کے نقصان میں ہیں۔ وہ خود بھی ان پروپیگنڈوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ۔ امریکا کے ایک حالیہ الیکشن میں اتنی تشہیراتی مہم کے باوجود بتایا گیا کہ تیس بتیس فیصد لوگوں نے ووٹنک میں حصہ لیا۔ وہ خود بھی ان پروپیگنڈوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔ لیکن بعض لوگ وہاں سے اس کو یہاں بھی لائے ہیں اور انہیں کے طریقے پر یہاں بھی پرپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ ان پروپیگنڈوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دیکھنا چاہئے، تحقیق کرنا چاہئے، صالح لوگوں کی جستجو کرنی چاہئے، تفتیش کرنی چاہئے اور اس طرح صحیح فرد تک پہنچنا چاہئے۔ وہ کوئی بھی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ نے تحقیق کی اور تحقیق میں غلطی ہوئی تب بھی خداوندعالم آپ کو اس کا اجر دے گا۔ خدا اس کے لئے آپ سے مواخدہ نہیں کرے گا۔ تحقیق ضروری ہے اور یہ کام بہترین طریقے سے ہونا چاہئے۔ یہ عوام، حکومت اور متعلقہ حکام کا بڑا امتحان ہے۔

بعض امریکیوں نے ایک بار پھر مداخلت کی ہے اور انتخابات کے بارے میں بات کی ہے۔ ایک نے کہا ہے کہ ہم بہت توجہ کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ اس طرح کے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچیں گے۔ عوام کو چاہئے کہ ان کو دنداں شکن جواب دیں۔ دوسرے نے کہا ہے کہ جن لوگوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئے گئے ہیں ہم ان کا مسئلہ دیکھ رہے ہیں! ملک کے حکام کو اپنی آنکھیں بہت زیادہ کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہو رہا ہے کہ ہمارے دشمن، ایرانی عوام اور ایران کے دشمن ایک بار پھر اس ملک پر اپنا تسلط جمانے کے لئے متحرک ہو گئے ہیں۔ انہیں اس پر تشویش ہو رہی ہے کہ کس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے اور کس کے مسترد نہیں ہوئے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قانونی مراکز میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال اور قبول یا مسترد کئے جانے کا کام تسلط پسند طاقتوں کے مفادات کے منافی ہے؟ جو لوگ نہیں سمجھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی باتوں پر ان کی توجہ نہیں ہے وہ زیادہ دقت نظری سے کام لیں۔ دشمن کا منہ کھل گیا ہے۔ کسی وقت یہ ملک اپنے تمام وسائل کے ساتھ امریکا اور اس کے کارندوں کے اختیار میں تھا۔ انقلاب آیا، حالات متغیر ہو گئے، عوام آزاد اور خود مختار ہو گئے، ملک خود مختار ہو گيا، ملک کے ذخائر اور ذرائع خود مختار ہو گئے۔ یہ گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس ملک پر اس کے ذخائر پر، اس  کے حیاتی ذرائع پر اور اس قوم پر ایک بار پھر اپنا تسلط جمائیں۔ عوام کو ہوشیار اور بیدار رہنا چاہئے۔ خدا کے فضل سے انتخابات میں عوام کی شرکت اور وہ بہترین انتخابات جو عوام منعقد کریں گے، امریکا اور سامراجی و صیہونی مراکز کو ایک بار پھر شکست دے کے ان کی اوقات بتادیں گے۔

آپ نے یہ کام جو شروع کیا ہے، عازمین حج کی خدمت، یہ بہت عظیم فریضہ ہے۔ دعا  ہے کہ خداوند عالم آپ کو اس میں توفیق عنایت فرمائے گا۔ ان شاء اللہ آپ کا حج، حج مقبول ہو، اس راہ میں جو زحمتیں اور محنتیں آپ کر رہے ہیں، خداوند عالم انہیں قبول فرمائے اور آپ اپنی روانگی سے بھی، وہاں (حج کے دوران) بھی اور اپنی واپسی سے بھی ملک میں معنوی اور  دینی فضا کی رونقیں بڑھائيں گے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ