بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین قال اللہ الحکیم فی کتابہ:اذ جعل الّذین کفروا فی قلوبھم الحمیّۃ حمیّۃ الجاھلیّۃ فانزل اللہ سکینتہ علی رسولہ و علی المومنین و الزمھم کلمۃ التّقوی و کانوا احقّ بھا و اھلھا و کان اللہ بکلّ شیء علیما۔

جلسہ بہت ہی معطر اور منور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کے ایام ہیں، رمضان میں ہماری زندگی کی فضا پر رحمت الہی کی بارش ہوتی ہے، جو ان آلودگیوں، گندگیوں اور برائیوں کے اس زنگ کو جو ہم خود اپنی زندگی اور اپنے دلوں میں پیدا کر دیتے ہیں، دھو دیتی ہے اور ہمارے دلوں کی صفائی کرکے اس کو منور کر دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جلسے میں وہ لوگ ہیں جو یہ توفیق رکھتے ہیں کہ اگر ان شاء اللہ جو کام کر رہے ہیں، صحیح نیت کے ساتھ ہو، خدا سے امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا، تو خدا کے بہترین بندوں کی صف میں قرار پائیں گے۔ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ بہت اہم ہے۔ آپ کے کام کے اثرات بہت گہرے اور وسیع ہیں۔ لہذا ان شاء اللہ اگر نیت وہی ہو جو ہونی چاہئے تو آپ کا موازنہ اسی وجہ سے جو میں نے عرض کی، عام لوگوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ آپ موثر، مومن، اس ملک اور نظام کے مسائل کے ماہر ہیں، رمضان کے مبارک مہینے میں، روزے کی حالت میں، روزے داری کی معنویت سے معطر سانسوں کے ساتھ یہاں جمع ہوئے ہیں، لہذا یہ جلسہ بہت اہم ہے۔

 میں نے گزشتہ سال اس جلسے میں "سکینہ" کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ حکام میں اس "سکینہ" یعنی اطینان، سکون، عدم اضطرات اور عدم تلاطم کا اثر یہ ہے کہ اگر کوئی مشکل در پیش ہو تو وہ اس سکون کے سائے میں صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حوادث کے موقع پر مضطرب، پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ سختیوں اور دشوار حوادث کا چٹان اور پہاڑ کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کوئی بڑی کامیابی مل جانے اور خوشیوں کے مواقع پر بھی ہوش و حواس بجا رکھتے ہیں۔ یہ موثر انسانوں کے لئے خطرناک بات ہوتی ہے کہ جیسے ہی کوئی مشکل یا کوئی مہم در پیش ہو یا  کامیابی مل جانے کا احساس ہو تو انسان ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ جلد بازی میں فیصلے کرے۔ دوسروں کی تذلیل کرے، خود سری بڑھ  جائے۔ اگر  'سکینہ' ہو یعنی اطمینان اور وقار الہی ہو تو انسان اس چیز سے بچتا ہے؛ یعنی اس سے ایسے کام سر زد نہیں ہونے دیتا جو چھوٹے اور ایسے انسانوں کا لازمہ اور علامت ہیں جو معمولی سی بھی ہوا سے سوکھی گھاس پھوس کی طرح اڑنے لگتے ہیں۔ جن انسانوں ميں 'سکینہ' ہوتا ہے وہ گہرے سمندر کی طرح ہوتے ہیں اور ہر نسیم اور ہر ہوا ان کے اندر طوفان نہیں پیدا کر سکتی۔ غربت میں، امیری میں، تنہائی کے عالم میں اور اس عالم میں بھی جب لوگوں کا اژدہام ساتھ ہو، یہ 'سکینہ' انسان کے کام آتا ہے۔

 قرآن کریم میں بار بار 'سکینہ' کا ذکر آیا ہے اور میں نے گزشتہ سال بھی اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ یہ ہمارے حکام کا 'سکینہ' ہے جس نے اپنے وجود کا ثبوت دیا ہے۔ اقتصادی آمدنی میں کمی آئی، اقتصادی مشکلات در پیش ہوئيں، سیاسی مشکلات سامنے آئیں، سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ اس سال موسم گرما میں دشمنوں نے اسی تہران میں کیسا طوفان حوادث کھڑا کیا۔ اگر انسان میں 'سکینہ' اطمینان، سکون، خدا پر اعتماد اور توکل، مستقبل اور حق پر یقین نہ ہو تو اس قسم کے حوادث پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول جائيں۔ خاص طور پر اگر اس کو معلوم ہو کہ یہ حوادث ایسے ہیں جن کی دشمن نے منصوبہ بندی کی ہے۔ جو بعید نہیں ہے اس کے قرائن موجود ہیں۔ دشمن نے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد دس سالہ منصوبہ بندی کی تاکہ ان دس برسوں میں نتیجے تک پہنچ جائے۔ شاید ہماری اقتصادی مشکلات، تیل کی قیمتوں کا گرنا، سیاسی مسائل، بعض ثقافتی مشکلات، اقتصادی پریشانیاں اور سیکورٹی سے متعلق بعض مسائل دشمن کی اس منصوبہ بندی سے کا حصہ ہوں۔ اگر یہ فرض کریں، جس کے شواہد بھی موجود ہیں، تو یہ آپ حکام کا، ان حضرات اور احباب کا جو یہاں موجود ہیں، 'سکینہ' ہی تھا (جو اس موقع پر ظاہر ہوا)۔ لیکن عوام کا 'سکینہ' کیا ہے؟ عوام کو بھی سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے۔ ممتاز لوگوں کا یہ 'سکینہ' عام لوگوں تک کیسے پہنچایا جائے؟ البتہ ہمارے بہت سے عوام کا ایمان بہت اچھا، شفاف اور روشن ہے۔ عوام نے ثابت کیا ہے کہ ان کے اندر مشکلات سے نمٹنے کی حقیقی توانائی موجود ہے۔ یہ وہ توانائی ہے جس کا سرچشمہ دین اور ایمان ہے۔ لیکن وہ جماعت جو امور مملک و ملت چلانے کی ذمہ دار ہے، وہ اس معاملے سے خود کو الگ نہیں کر سکتی۔ ہمارے تمام فرائض اقتصادی اور سیاسی فرائض تک ہی محدود نہیں ہیں۔ عوام کے معنوی امور سے متعلق بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اگر لوگ اخلاقی اور روحانی امور میں پیچھے کی طرف واپس جائيں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معاشرے میں کوئی بھی اس کے لئے جواب دہ نہیں ہے۔ اب اگر یہ طے ہو کہ اس معاملے میں بھی کوئی جوابدہ ہے، تو یہ جوابدہی کس کی ہے؟ یقینا ملک کے حکام اس قضیے سے خود کو الگ نہیں کر سکتے۔ ہر ایک اپنے اپنے طور پر اس کا ذمہ دار ہے۔ بنابریں عوام نیچے سے لیکر اوپر تک عوام کے سبھی طبقات کے معنوی امور کی ذمہ داری بھی ملک کے حکام کے کندھوں پر ہے۔

یہاں ایک اور عنصر بھی سامنے آتا ہے اور میں نے جس آیہ کریمہ کی تلاوت کی ہے اس کے ذریعے اسی عنصر کی طرف اشارہ مقصود ہے جو 'سکینہ' سے جڑا ہوا ہے اور وہ ہے 'تقوا'۔ اس آیہ کریمہ میں محاذ کفر اور محاذ ایمان کے درمیان مقابلہ ہے۔ محاذ کفر کے لئے جاہلانہ حمیت اور تعصب کا ذکر کیا گيا ہے۔ یہ حدیبیہ اور اس کے بعد کے واقعات سے تعلق رکھتا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کے انتہائی اہم امتحانات میں شمار ہوتے ہیں۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور مسلمان مکہ جانے کے ارادے سے حدیبیہ گئے اور حدیبیہ میں قیام کیا تو دشمن ان پر جنگ مسلط کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تدبیر الہی نے اس کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ مسلمان بغیر جنگ کے واپس ہوئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشرکین سے ایک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ اتنا اہم تھا کہ بعض روایات کے مطابق آیہ کریمہ 'انا فتحنا' اسی معاہدہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی اور اس کو فتح مبین کہا گیا۔ 'انا فتحنا لک فتحا مبینا' یعنی یہی صلح حدیبیہ۔ خداوند عالم آیات قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے حالات کی وضاحت فرماتا ہے اور محاذوں کا تعین کرتا ہے۔

اسلامی نظام میں جس بات پر ہمشیہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے وہ محاذوں کا مشخّص ہونا ہے۔ محاذ حق اور محاذ باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے۔ ممکن ہے محاذ باطل سے صلح کی جائے، کوئی حرج نہیں ہے۔ ممکن ہے کسی موقع پر اس سے آشتی کی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن زنہار! ان دونوں محاذوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے خطوط کبھی نہیں مٹنے چاہئں۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ حق کون ہے اور کہاں ہے؟ وہ کیوں اور کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کا ہدف، روش، تدبیر اور طرز عمل کیا ہے؟ باطل کون اور کیا ہے؟ اس کا ہدف کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی طرف سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ حق اور باطل کے درمیان اس فرق اور حد بندی کی طرف سے غفلت محاذ حق کے فائدے میں نہیں ہے۔ کوئی بھی اہل حق کی اس بات پر تحسین اور تعریف نہیں کرےگا کہ انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ حق پر کیوں ہیں، انہیں کیا کرنا چاہئے اور ان کے مقابلے پر کون ہے؟ ان کے دشمن بھی اس بات پر ان کی تحسین نہیں کریں گے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے حق اور باطل کے درمیان فرق اور سرحدیں واضح کر دی ہیں۔ آپ پہلے کفار کی حالت واضح کرتے ہیں۔ یعنی اس مقابل محاذ کی حالت واضح کرتے ہیں کہ جس میں رخنہ ڈال کر اور جس کو پیچھے دھکیل کے اپنی حقانیت کا دائرہ وسیع کرنا آپ کی بعثت، آپ کے ظہور، آپ کے نظام اور آپ کے جہاد کا مقصد ہے۔ محاذ کفر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محاذ کفر کو جو دعوت حق کے مقابلے پر آنے والوں کا محاذ ہے، واضح ہونا چاہئے۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ حق، محاذ کفر کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ در اصل دیکھنا یہ چاہئے کہ حق کیوں آیا ہے؟ خداوند عالم نے اپنے پیغمبروں کو دعوت حق کا حکم کیوں دیا ہے؟ پیغمبران الہی دعوت حق کیوں دیتے ہیں؟ پیغام حق جو انسانوں کی نجات کا پیغام ہے، اگر اس کا کوئی فلسفہ، حکمت اور لازمہ ہے پیغام لانے والوں پر جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے بعد وہ سلسلہ ہے جو تا ابد باقی رہے گا، اگر اس پر اس پیغام کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس محاذ حق کا ہدف کیا ہے اور یہ محاذ اپنے ہدف تک کس طرح پہنچنا چاہتا ہے؟ 

انسانوں کو نجات کس چیز سے حاصل ہوگی؟ صرف نصیحت اور موعظے سے تو حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہذا محاذ حق یعنی تمام انبیا جس دور میں بھی انہیں موقع ملا، (عوام کے درمیان) آئے، قدم آگے بڑھایا اور جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے انسانوں کے اذہان میں اور ان کی زندگی میں ان حقائق کو مجسم کیا جن کا جاننا انسانوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ نجات اور فلاح سے نزدیک تر ہو سکیں۔ یہ محاذ حق کا کام ہے۔ اس کے لئے مجاہدت کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ حق کی حقانیت کے مقابلے میں مخالف موجود ہے۔ اگر حق انسانوں کی نجات کی بات کرتا ہے تو کچھ ایسے بھی ہیں جو انسانوں کی گرفتاری اور اسیری بھی چاہتے ہیں۔ حق اگر عدل و انصاف کی بات کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں کچھ لوگ عدل و انصاف کے مخالف یا ظلم کے طرفدار ہیں۔ حق اگر خدا کی پرستش کی دعوت دیتا ہے تو کچھ لوگ خدائی کے دعویدار ہیں اور خدا کے وجود اور اس کے سامنے جھکنے کے منکر ہیں۔ فطری طور پر یہ سب مخالفت کریں گے۔ مخالفین کے مقابلے میں مجاہدت کے بغیر نہ اس پیغام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ذہنوں میں حقیقت کو مجسم کیا جا سکتا ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کفار کی صورتحال مشخص فرماتے ہیں۔ مومنین میں جو لوگ کمزور ہیں ان کی حالت بھی مشخص کرتے ہیں۔ یعنی جو آدھے راستے پر ہیں، چاہے منافق ہوں یا وہ لوگ حقیقی معنی میں منافق نہیں ہیں اور ایسا نفاق نہیں رکھتے کہ منافقت کریں، لیکن ان کی طبیعت میں تزلزل پایا جاتا ہے۔ اسلام ان لوگوں کو بھی مومن اور مستحکم مسلمانوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ مسلمان ڈر کی وجہ سے رسول کے ساتھ جنگ حدیبیہ میں شرکت کے لئے  نہیں گئے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ہم گئے تو کفار رسول اور ان کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کو ختم کر دیں گے (اور ہم بھی مار دیئے جائيں گے)۔ جب رسول واپس آئے تو وہ لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ کچھ مشکلات آ گئی تھیں، کام پیش آ گیا تھا، اس وجہ سے ہم نہیں آ سکے۔ آپ خدا سے ہمارے لئے مغفرت طلب کریں! خود یہ الفاظ بھی ایک طرح سے  دکھاوے کے لئے تھے۔  وہ در اصل خدا کی مغفرت بھی نہیں چاہتے تھے۔ سوچتے تھے کہ انھوں نے چالاکی کی ہے  جو نہیں گئے۔ قرآن کریم کی آیہ کریمہ کہتی ہے  'سیقول لک المخلفون من الاعراب شغلتنا اموالنا و اھلونا فاستغفر لنا، یقولون بالسنتھم ما لیس فی قلوبھم' وہ زبان سے جو کہہ رہے ہیں وہ ان کے دل میں نہیں ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ منافق، کافر اور دشمن ہیں۔ نہیں، کمزور انسان، جن کا باطن کمزور ہو اور جن کا دل کمزور ہو وہ مشکلات کے وقت کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ یہ وہ معنوی اور دینی امور ہیں جن کے تعلق سے اسلامی نظام، اسلامی معاشرے، اسلامی حاکم اور اسلامی حکام پر کچھ ذمہ داریاں ہیں۔

میرے عزیز دوستو! بھائیو اور بہنو! ہم کب کچھ کر سکتے ہیں؟ جب 'والزمھم کلمۃ التقوا' تقوا اختیار کریں، تقوے کو کلمہ حق اور مستقل فریضہ سمجھیں۔ اپنے قول و فعل میں، اپنے فیصلوں میں اپنے ماتحت افراد کے ساتھ برتاؤ میں اور جہاں ہم کام کرتے ہیں (اپنے دفتر میں)، وہاں تقوے پر توجہ دیں۔ یہ ان کے لئے درس ہے اور ان کا طرز عمل عوام کے لئے درس ہے۔

جن امور میں ہم انقلاب کے بعد سے آج تک تمام تر کوششوں کے باوجود مناسب پیشرفت نہیں کر سکے ہیں، ان میں سے ایک اسلامی جمہوریہ کے اہداف سے مطابقت رکھنے والا دفتری نظام ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا مقصد یہ ہے کہ ایرانی عوام کم سے کم پہلے مرحلے میں نجات یافتہ ہوں۔ انہیں معنوی نجات، سیاسی نجات، سماجی نجات، انفرادی نجات اور بیرونی بندشوں سے نجات حاصل ہو۔ ان بندشوں سے انہیں نجات ملے جو انہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اس کے برعکس کچھ قید و بند اور بندشیں ایسی ہیں جو پیشرفت اور آگے بڑھنے میں ان کی مدد کرتی ہیں جیسے خدا کی عبادت اور بندگی، یہ باقی رہیں۔

 نماز بھی ایک پابندی ہے، لیکن معراج المومن ہے۔ یہ بندگی اور اسیری انسان کو معراج عطا کرتی ہے اور گناہوں اور آلودگیوں سے پاک کرتی ہے۔ یہ نجات کب حاصل ہوگی؟ امور مملکت چلانے والا دفتری نظام اس میں موثر ہو سکتا ہے؟ بہت زیادہ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سلسلے میں ہم نے کم کام کیا ہے۔ نہیں بہت کام کیا ہے لیکن پیشرفت کم ہوئی ہے۔ حال حاضر میں بھی اگر چہ مسلسل کہا جا رہا ہے اور سبھی کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود عمل میں وہ سعی و کوشش نظر نہیں آ رہی ہے جو ہونی چاہئے۔ یہ ہمارے  نقائص میں سے ہے۔ متعلقہ ذمہ دار عہدیداروں کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہئے۔ جہاں تک نصیحت اور یاد دہانی کا تعلق ہے وہ میں کر رہا ہوں۔ البتہ یہ کافی نہیں ہے۔ یہ نصیحت اور یاد دہانی خود میرے اپنے لئے اور آپ  کے لئے ہے۔

بھائیو اور بہنو! آپ جہاں بھی ہیں جس عہدے پر بھی ہیں خیال رکھیں کہ آپ کا ایک چھوٹا سا عمل، ایک بات، ایک اقدام دائمی اثر مرتب کر سکتا ہے۔ عوام کی زندگی میں اس کی  وسیع تاثیر ہو سکتی ہے۔

برسوں سے میں شان و شوکت کی زندگی کے تعلق سے مسلسل نصیحتیں کر رہا ہوں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو، پر تعیش زندگی کی عادت ہے۔ یہ بری بات ہے اور اعلا انسانوں کی شان کے خلاف ہے۔ یعنی انسان  کسی غیر ضروری چیز کا پابند ہو جائے، یہ انسان کی شان کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اسراف بھی ہے۔ سرمائے اور دولت کی تضییع بھی ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے کہ اسراف ہے اور اسراف بری چیز ہے۔ یہ اسراف کے ساتھ تجمل پرستی اور بری چیز ہے۔ اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کی اہمیت  پہلے سے کم نہیں ہے اور وہ عوام کی زندگی میں تجمل پرستی کا انعکاس ہے۔ بعض لوگ اس کی طرف سے غافل ہیں۔ جب آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے کمرے، اپنے دفتر، اپنے آفس اور زندگی کی شان و شوکت پیش کریں گے تو یہ عملی درس ہوگا، جو بھی اس کو دیکھے گا، اس کا اثر قبول کرے گا۔ کم سے کم اس کا خیال رکھا جائے۔ تجمل پرستی اور تعیش کی عادت نہ ڈالی جائے، تجمل پرستی کا ماحول نہ پیش کیا جائے۔ کیونکہ اگر ہم نے معاشرے میں تجمل پرستی کو رواج دیا، افسوس کہ بہت حد تک یہ بات رائج ہو چکی ہے، تو اس صورت میں ملک کی بہت سی اقتصادی،  سماجی اور اخلاقی مشکلات حل نہیں ہو سکیں گی۔  تجمل پرستی اور اشرافیہ کلچر کے رجحان کے نقصانات اور خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس صورت میں سماجی انصاف کبھی بھی قائم نہیں ہو سکے گا۔ برادری، باہمی الفت اور ہمدلی کا جذبہ جو ہر ملک اور معاشرے کے لئے بالخصوص ہمارے ملک کے لئے ہوا اور پانی کی طرح حیاتی اہمیت رکھتا ہے، پیدا نہیں ہو سکے گا۔ یہ عوام میں ہمارے اور آپ کے طرزعمل، باتوں اور اقدامات کے اثرات ہیں۔ یہ بات ہمارے لئے تقوے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔

یہ جو میں ان دنوں مسلسل حکام کی باہمی ہمدلی کی سفارش کرتا ہوں، یہ اس لئے ہے کہ مختلف دھڑے، تحریکیں اور ان کی پیروی کرنے والے، سب جان لیں کہ یہ باتیں جو ان کے درمیان ہیں، حکام میں نہیں ہیں۔ حکام کے کام کرنے کے طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے، یہ نہیں ہے کہ نہ ہو، لیکن کام کرنے کے طریقے اور سلیقے کے فرق کو کشمکش کا بہانہ قرار دینا دوسری بات ہے۔ یہ دوسری بات یعنی کشمکش عوام کی زندگی میں تلخیاں گھول دے گی۔

 بہرحال اس آیہ کریمہ اور بہت سی دوسری آیات سے ہمیں یہ معلوم  ہوتا ہے کہ تقوا ایک وسیلہ بھی ہے اور راہ علاج بھی ہے۔ صرف فریضہ اور واجب نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں ہے کہ خداوند عالم حساب کتاب کے وقت ہم سے تقوے کے بارے میں سوال کرےگا۔ البتہ اگر ہم سمجھیں اور توجہ دیں تو یہ بھی بہت عظیم بات ہے۔ ہم جو ذمہ دار ہیں، حساب الہی، حساب الہی کی سختی اور یوم الحساب کے خوف سے غافل ہیں اور جتنی ہماری ذمہ داری بڑھے گی یہ خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ سںگین ہوگا۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر خداوند عالم اپنے فضل، رحمت اور مغرفت کے ساتھ ہم سے نہ پیش آیا تو ہمارا معاملہ بہت سخت ہو جائے گا۔ ہم جو خرچ کرتے ہیں، جو چيزیں استعمال کرتے ہیں، اپنے سامنے والے اور عوام سے جس طرح پیش آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا خدا کے سامنے حساب دینا ہوگا۔ حساب الہی اور خدا کے سامنے اپنے مواخذے کی فکر کے ساتھ ہی یہ بھی جان لینا چاہئے کہ تقوا راستہ بھی کھولتا ہے۔ 'و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب' تقوا اس بات کا باعث بنتا ہے کہ بہت سی مشکلات میں بالخصوص سماجی مشکلات میں آپ کو راہ نجات مل جائے۔ بڑی مشکلات میں تقوا حکام کے سامنے راہ نجات پیش کرتا ہے۔ 'و یرزقہ من حیث لا یحتسب' ہمارا اور آپ کا حساب کتاب ہمیشہ صحیح اور کامل نہیں ہوتا، بنابریں اصل چیز تقوا ہے۔ ہماری سفارش بھی تقوا ہے۔ اس مہینے کا روزہ بھی تقوے میں مدد کرتا ہے۔ عوام کی مشکلات کو اسی تقوے کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔

مجھے واقعی اس وقت بڑی خوشی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ جناب صدر نے اپنے بیان میں عوام کی اقتصادی مشکلات بیان کیں۔ یہ واقعی بہت اہم ہے۔ عوام واقعی اقتصادی مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہیں سختیوں کا سامنا ہے۔ مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ آپ کو اس کا علم نہ ہو۔ امید ہے کہ جانتے ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ حکام کے درمیان ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی توجہ عوام کی مشکلات اور پریشانیوں پر نہیں ہوگی، ورنہ ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کوششیں ہوتیں۔ حکام جتنا زیاہ تنازعات میں الجھیں گے عوام کی مشکلات حل کرنے میں اتنا ہی پیچھے رہیں گے۔ حکام اور اعلی عہدیدار، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا تعلق حکومت سے ہو، عدلیہ سے ہو یا مقننہ سے ہو، یعنی وہ تمام لوگ جو امور مملکت چلانے میں دخیل ہیں، وہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور پورے وجود سے کام کریں۔ خوش قسمتی سے عوام اسلام، اسلامی نظام اور حکام کے عزم و ارادے سے پر امید ہیں۔ خدا نہ کرے کہ یہ امید کم اور کمزور ہو جائے، یہ نہ ہونے دیں۔ سب کچھ صرف کہنے سے نہیں ہوتا، عمل کرکے بھی دکھانا چاہئے۔ یہی 'اقتصادی نظم و ضبط کا منصوبہ' جو ہے اس نے عوام میں بڑی امیدیں پیدا کی ہیں۔ کوشش کریں کہ اس پر عمل ہو۔ اس منصوبے کا جو حصہ عوام کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، کوشش کریں کہ وہ عملی ہو۔ تیسرا منصوبہ بھی خوش قسمتی سے پاس ہو گیا ہے۔ لیکن اس کو لکھنا، اس کی تدوین، اس کی تنظیم اور اس کی منظوری ایک مسئلہ ہے اور منصوبے پر عمل درآمد دوسرا مسئلہ ہے۔ منصوبے میں روزگار کا جو مسئلہ شامل کیا گیا ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ سب مل کے کوشش کریں تاکہ یہ کام ہو سکے۔ بے روزگاری واقعی بہت بڑی مشکل ہے۔ بہرحال امید ہے کہ خداوند عالم مدد کرے گا۔

میں یہ جملہ، جس کو بارہا میں نے  اپنی گزارشات میں عرض کیا ہے، آخر میں عرض کروں گا: آپ جو ذمہ دار عہدے پر ہیں، بجٹ کا ایک حصہ آپ کے اختیار میں ہے، بجٹ خرچ کرنے میں بھی بہت دقت نظر سے کام لیں۔ تقوے کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم جو کام بھی کریں اس پر ایک خرچ لازم ہو۔ اسی پر اکتفا کریں کہ یہ اقدام مفید ہوگا۔ یہ کافی نہیں ہے۔ کام کا مفید ہونا ہی اس کے لئے کافی نہیں ہے کہ ہم اس پر خرچ کریں۔ ہمارے موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ وہ مفید کام ترجیحات کا بھی حصہ ہو۔ اگر ترجیح حاصل نہ ہو تو خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ اپنے کام کی جگہ پر، دفتر میں کچھ کام کرتے ہیں۔ سیمینار، نشستیں، دعوتیں وغیرہ کرتے ہیں۔ یقینا ان کاموں میں کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان فوائد کا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ ایسی حالت میں کہ ہماری آمدنی محدود اور ضرورتیں زیادہ ہیں، ترجیحات کا خیال رکھنا چاہئے۔ بہرحال امید ہے کہ خداوند عالم مجھ حقیر اور کمزور بندے کو جس کے  کندھوں پر سنگین ذمہ داریوں کا بوجھ ہے اور یہ نصیحتیں کر رہا ہوں اور اسی طرح تمام شعبوں میں، نیچے سے لیکر اوپر تک، آپ حکام کو یہ توفیق عنایت فرمائےگا کہ ہم اس کو اپنے عمل سے راضی کر سکیں۔ 

ان شاء اللہ آپ کے دل نور معرفت الہی اور رحمت الہی سے ساطع ہونے والے انوار سے منور ہوں، رمضان کی برکات آپ کے وجود، اذہان اور ہستی کی گہرائیوں میں اتریں اور اپنے اثرات مرتب کریں اور برکات الہیہ آپ کے اور اس شعبے کے شامل حال ہوں جو آپ کے زیر انتظام ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ہمارے قصور اور تقصیروں کو اپنے لطف و کرم سے معاف کر دے، ہم کو نبی اکرم، امیر المومنین، اپنے اولیائے کرام اور اپنے اموال اور جانوں سے راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے رفتار و کردار سے نزدیک تر کر دے ، ہمارے صاحب عظمت امام (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مقدس کو اپنی اعلی ترین برکات سے سرافراز فرمائے اور ہمارے شہیدوں کی ارواح طیبہ، (راہ اسلام و انقلاب میں) فدکاری کرنے والوں، جانبازوں، مومنین، بسیجی (رضاکار) سپاہیوں اور ان تمام لوگوں کو اپنی رحمت و برکت عنایت فرمائے جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی اور اب بھی کر رہے ہیں۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ