بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

عن النّبیّ صلَّى ‌اللَّه علیه و آله قال: لا یُؤَمَّرُ رَجُلٌ عَلىٰ عَشَرَةٍ فَما فَوقَهُم‌ اِلّا جِی‌ءَ بِهِ یَومَ القیامَةِ مَغلولَةً یَدُهُ اِلىٰ عُنُقِه فَاِن کانَ مُحسِناً فُکَّ عَنهُ وَ اِن کانَ مُسیئاً زیدَ غِلّاً اِلىٰ غِلِّهِ. (۱)

 

لا یُؤَمَّرُ رَجُلٌ عَلى عَشَرَةٍ فَما فَوقَهُم‌ اِلّا جِی‌ءَ بِهِ یَومَ القیامَةِ مَغلولَةً یَدُهُ اِلىٰ عُنُقِه

یہ حدیث اس حقیر اور مجھ جیسے افراد کے بارے میں ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص اگر دس یا اس سے زیادہ افراد کی سربراہی اور قیادت کرے، آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک کا صدر یا سربراہ نہیں، محض دس افراد کی سربراہی کرے  تب بھی، «اِلّا جی‌ءَ بِهِ یَومَ القیامَةِ مَغلولَةً یَدُهُ اِلىٰ عُنُقِه‌ » جب اس شخص کو جو دنیا میں بڑا محترم تھا، کہیں بڑا عہدیدار اور سربراہ تھا قیامت کے دن لایا جائے گا تو اس کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوں گے۔ یعنی اسے دست بستہ محشر میں لایا جائے گا۔ ہاتھوں کو گردن کے  پیچھے باندھ دیا جائے گا۔ یعنی کوئی عہدہ، کوئی امارت اور کسی شعبے کی سربراہی قبول کرنے کے کچھ عواقب ہوتے ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کو اس حالت میں لایا جائے۔

جس شعبے میں، جس جگہ پر ہم عہدیدار ہیں، چیف ہیں وہاں کچھ کام ایسے بھی انجام پا جاتے ہیں جنہیں ہم روک سکتے تھے لیکن ہم نے نہیں روکا۔ غفلت کی وجہ سے ہم اس کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوئے یا تساہلی برتی اور کچھ نہیں کیا، نتیجے میں ہماری نگرانی والے ادارے میں اور ہمارے ما تحت کام کرنے والے شعبے میں یہ خلاف ورزی انجام پائی۔ ظاہر ہے یہ ہماری پہرے داری والا شعبہ ہے۔ یا پھر یہ کہ کچھ کام ایسے تھے جنہیں انجام پانا چاہئے تھا مگر وہ کام ہمارے شعبے میں انجام نہیں دئے گئے۔ اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ ہم سمجھ ہی نہیں پائے، ہم نے توجہ نہیں دی، اس کی پیروی نہیں کی، مشاورت نہیں کی، سوال جواب نہیں کیا اور ہمیں پتہ ہی نہیں چل پایا، یا پھر یہ کہ ہمیں معلوم تھا مگر ہم نے تساہلی برتی۔ ٹالتے رہے۔ ہم نے یہ سوچا کہ بعد میں ان شاء اللہ کر لیں گے، کل کر لیں گے اور اسی میں اس کا وقت نکل گیا، موقع ضائع ہو گیا۔ تو اگر ہمارے پاس عقل ہے تو کسی بھی شعبے کی سربراہی کے چکر میں کبھی نہ پڑیں! واقعی ایسا ہی ہے! ہمیں چیف اور سربراہ بننے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے، کیونکہ سربراہی کے یہ عواقب ہیں۔ بعض افراد سربراہ اور چیف بننے کے چکر میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں ہے کہ سربراہی کا عہدہ اپنے آپ میں ان خطرات کا حامل ہوتا ہے کہ قیامت کے دن جب اسے لایا جائے گا تو ہاتھ بندھے ہوں گے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اسے احتساب اور مواخذے کے لئے دست بستہ لایا جائے گا۔

 

فَاِن کانَ مُحسِناً فُکَّ عَنه

اب اگر وہ اچھا انسان ہوگا، نیک اور صالح ہوگا، جو کچھ انجام پایا ہے اس میں اس کی کوئی تقصیر اور خطا نہ ہوگی تو اس کی گلو خلاصی ہو جائے گی۔ شارع مقدس، پروردگار عالم نے کچھ پیمانے طے کر دئے ہیں۔ کہیں ہو سکتا ہے کہ انسان کو کسی وجہ سے بخش دیا جائے۔ یعنی قصور تو ہو گیا ہے لیکن کوتاہی کی وجہ سے نہیں بلکہ عاجزی کی وجہ سے۔ کبھی ہم سے قصور ہوتا ہے جس کی وجہ ہماری لا علمی ہوتی ہے البتہ لا علمی کبھی تو ہماری اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہوتی ہے اور کبھی نہیں، کوتاہی کا نتیجہ نہیں ہوتی، ہم نے جاننے کی کوشش کی، محنت بھی کی لیکن نہیں سمجھ سکے۔ ایسا شخص بخشش کا مستحق ہے۔ تو اگر یہ چیف اور یہ سربراہ نیکو کار ہوگا تو اس کے ہاتھ کھول دئے جائیں گے۔

 

وَ اِن کانَ مُسیئاً زیدَ غِلّاً اِلىٰ غِلِّه

لیکن اگر ایسا نہیں ہے، وہ دنیا میں نیک و صالح انسان نہیں تھا، وہ خود بھی بد عمل اور برا انسان تھا اب وہ بد عملی جس طرح کی بھی ہو، تو ایسی صورت میں اس کی مصیبت اور اس کے ہاتھوں میں باندھی گئی زنجیریں اور بڑھا دی جائیں گی۔

ہمیں اس چیز کو سمجھنا ہوگا، ان چیزوں کا ہمیں ادراک ہونا ضروری ہے۔ سربراہی کی کرسی کی فکر میں پڑنا، خواہ وہ اجرائی شعبے کی سربراہی ہو، قانون سازی کے شعبے کی سربراہی ہو، آپ تو دیکھتے ہیں کہ رکن پارلیمنٹ بننے کے لئے بعض لوگ خود کو ہلکان کر ڈالتے ہیں، اگر کسی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو پاتے، یا مثلا ان کی اہلیت کی تائید نہیں ہوتی یا ووٹ نہیں ملتے تو ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ میں کیوں نہیں بن پایا؟! یہ عقلمندی نہیں ہے، یہ دانشمندی نہیں ہے! آپ نے توجہ فرمایا؟ اگر یہ عہدہ اتنے اندیشوں کا سبب ہے تو بہتر ہے کہ انسان اس سے کنارہ کشی کر لے۔ سوائے اس صورت کے جب انسان پر یہ عہدہ قبول کرنا واجب ہو جائے۔ ایسی صورت میں ٹھیک ہے۔

 

میں نے  دوسرے صدارتی دور کے وقت تہیہ کر لیا تھا کہ میں صدارتی انتخابات میں شرکت نہیں کروں گا۔ پہلا صدارتی دور تو ایک طرح سے ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا تھا، وہ تو الگ بات تھی، دوسرے دور میں میں نے ٹھان لیا تھا کہ الیکشن نہیں لڑوں گا۔ مگر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے اوپر یہ واجب عینی و تعیینی ہے۔ یہ دونوں ہی اصطلاحیں آپ نے استعمال کیں۔ فرمایا کہ واجب عینی بھی ہے اور واجب تعیینی بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ تب میں نے اپنی مرضی کے برخلاف اسے قبول کر لیا اور گیا۔ اگر شرعی فریضہ نہیں ہے، اگر انسان کے اوپر یہ چیز واجب نہیں ہو گئی ہے تو بہتر ہے کہ انسان کی طرف نہ جائے، اس کی فکر میں نہ پڑے۔ ہاں اگر مجبور ہو جائے، ناگزیر ہو، انسان کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہو تو پھر «خُذها بِقُوَّة»؛ (2) ضروری ہے کہ انسان پوری توانائی کے ساتھ کام کرے۔

 

۱) امالی طوسی، مجلس دهم، صفحہ ۲۴۶؛ «پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں؛ کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو دس لوگوں یا اس سے زیادہ افراد کی سربراہی اور امارت قبول کرے سوائے اس کے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کو ایسی حالت میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوں گے۔ اب اگر وہ نیکوکار انسان ہوگا اور اس سے کوئی تقصیر سرزد نہ ہوئی ہوگی تو اسے آزاد کر دیا جائے گا اور اگر بد کار اور گنہگار ہوگا تو اس کی زنجیریں بڑھا دی جائیں گی۔»

2) سوره‌‌ اعراف، آیت نمبر ۱۴۵ کا ایک حصہ «... اسے پوری سنجیدگی سے سنبھالو...»