اسی مناسبت سے 29 بہمن 1397 ہجری شمسی مطابق 18 فروری 2019 کو صوبہ مشرقی آذربائیجان اور وہاں کے صدر مقام تبریز کے ہزاروں لوگوں نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ تہران میں حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے 11 فروری کو جشن انقلاب میں عوام کی پرجوش شرکت کی قدردانی کی۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلامی جمہوری نظام بہترین پوزیشن میں اور امریکا کی قیادت میں استکباری محاذ حد درجہ کمزور حالت میں ہے۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ؛
بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین المعصومین المطهّرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
تبریز سے تعلق رکھنے والے عزیز بھائیو اور بہنو، علما، اہم شخصیات، شہیدوں کے محترم اہل خاندان اور جوش و جذبے سے آراستہ کم نظیر نوجوانو! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ واقعی تبریز کے عوام خاص طور پر تبریز کے نوجوان پورے ملک میں نمونہ اور کم نظیر ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس سال بھی یہ توفیق حاصل ہوئی کہ 29 بہمن کے دن جو حقیقت میں یوم اللہ ہے، ان ایام میں سے ایک ہے جنہیں یوم اللہ کہا جاتا ہے، اس حسینیہ میں آپ کی زیارت کا موقع ملا۔
میں سب سے پہلے یہ نکتہ عرض کر دوں کہ اس یوم اللہ کو تبریز کے عوام نے رقم کیا۔ ایام اللہ در حقیقت وہ دن ہیں جب اللہ کی قدرت کے خاص جلوے نظر آئے۔ کبھی کبی ایسا ہوتا ہے کہ عوام کی نیت، عوام کی بلند ہمتی اور عوام کے ارادے سے ایسا دن وجود میں آتا ہے۔ سنہ 1978 میں 18 فروری کے دن تبریز کے عوام نے اپنی بلند ہمتی سے اور اپنی بصیرت سے اس دن کی تخلیق کی، اس کے بارے میں میں بعد میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ البتہ یہ پہلا ایسا موقع نہیں تھا اور آخری موقع بھی نہیں تھا۔ ہماری پوری معاصر تاریخ اہم مسائل میں، اہم واقعات اور فیصلہ کن معاملات میں تبریز اور آذربائیجان کے عوام کے پیش پیش رہنے کی گواہ ہے۔ آپ اسی انقلابی تحریک کا دور دیکھ لیجئے۔ انقلاب کے شروع کے واقعات میں، آپ نوجوانوں کو یاد نہیں ہوگا، ان اہل تبریز نے حقیقی معنی میں معجزہ کرکے دکھایا ہے۔ دشمن نے تبریز میں جو سازش رچی تھی اسے خود عوام نے بہترین انداز میں ناکام بنا دیا۔ جس وقت سب تشویش میں مبتلا تھے کہ تبریز میں کیا ہونے جا رہا ہے، دشمنوں نے، انقلاب کے مخالفین نے چاروں طرف سے یلغار کر دی تھی کہ تبریز کو انقلاب سے الگ کر دیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ "پریشان مت ہوئیے، اہل تبریز خود ہی جواب دے دیں گے" اور یہی ہوا۔ اس دن، اسی طرح بعد میں مقدس دفاع کے دوران، پھر بعد کے واقعات میں، پھر 2009 میں، پھر 30 دسمبر کو جب پورا ملک سڑکوں پر نکل پڑا تھا تو اہل تبریز ایک دن پہلے سے ہی سڑکوں پر نکل آئے، ایک دن پہلے ہی۔ ہمیشہ ہر جگہ بحمد اللہ پیش پیش رہے۔ میرے عزیزو! اس دوسرے قدم میں بھی ان شاء اللہ آپ پیش پیش رہیں گے۔
تبریز کے عوام 29 بہمن پر جو یوم اللہ ہے افتخار کرتے ہیں۔ آپ غور کیجئے! یہ ایک نکتہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو کمزور ہیں، بے بس ہیں، ضعیف الارادہ ہیں، ممکن ہے کہ کسی دن انھوں نے بھی کوئی انقلابی قدم اٹھایا ہو لیکن اب دشمن کی سازشوں کا سخت دباؤ پڑا ہے تو دنیاوی مفادات کی خاطر وہ ماضی کی اپنی اس کارروائی پر پشیمان ہو گئے ہیں۔ تبریز کے عوام ملت ایران کی اکثریت کی مانند اپنے انقلابی ماضی پر فخر کرتے ہیں، خود کو مفتخر محسوس کرتے ہیں، سر اٹھا کر چلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے چہلم منانے کا وہ انقلابی اقدام کیا تھا، اور وہ بالکل صحیح کہتے ہیں۔ یہی آپ کا یہاں تک آنا، آپ کا یہ پرجوش اجتماع خاص طور پر عزیز نوجوانوں کی آمد اس عظیم اور با معنی افتخار کی علامت ہے۔
میں 29 بہمن کے متعلق ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مقصود وہی جملہ ہے لیکن اس سے پہلے میں دو نکات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں، یہ میرے لئے موقع غنیمت ہے۔
پہلا نکتہ یہ کہ میں نے اس بیان (2) کے آخر میں 11 فروری کے جلوسوں میں بھرپور شرکت پر ایران کے عوام کا شکریہ ادا کیا لیکن خدا گواہ ہے کہ وہ اظہار تشکر ملت ایران جس چیز کی حقدار ہے اس کے مقابلے میں بہت کم اور معمولی تھا۔ اس سال کے جشن انقلاب میں ملت ایران نے عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سڑکوں پر عوام کا کثیر تعداد میں نکلنا، مجھے جو رپورٹیں ملی ہیں ان کے مطابق پورے ملک میں، فیصدی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اٹھانوے فیصد یا اس سے زیادہ شہروں میں جلوسوں میں شریک ہونے والے عوام کی تعداد گزشتہ برسوں سے کافی زیادہ تھی۔ کچھ جگہوں پر تعداد پچاس فیصدی زیادہ تھی، کہیں چالیس فیصدی زیادہ تھی، کہیں تیس فیصدی زیادہ تھی۔ دشمن یہ سب دیکھتا ہے البتہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی خبروں میں کہتے ہیں کہ ایران کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ نکلے۔ یہ نہیں کہتے کہ دسیوں لاکھ لوگ تمام شہروں میں نکلے اور مجموعی طور پر کروڑوں افراد جلوسوں میں شرکت کے لئے سڑکوں پر آئے۔ دشمن یہ بات کہتا نہیں ہے لیکن اسے بخوبی معلوم ہے۔ دنیا میں بھی سب جانتے ہیں کہ جس ملک کے عوام اس طرح متحد ہوکر میدان میں نکل پڑتے ہیں، اسے دشمن اپنے حیلوں اور عیاریوں سے کوئی زک نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ یعنی ملک کے سیاسی میدان میں اور انقلابی میدان میں آپ کی یہ موجودگی اور پورے ملک میں 11 فروری 1979 کے دن کی یاد منانا، سیاسی اور سیکورٹی کے نقطہ نگاہ سے بہت اہم واقعہ تھا جو ملت ایران کے ہاتھوں انجام پایا۔ ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ دلوں کے اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اِلَیکَ نُقِلَتِ الاَقدامُ وَ اِلَیکَ ... مُدَّتِ الاَعناق؛(۳) ہاتھ اللہ کی جانب پھیلے ہوئے ہیں، دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اللہ تعالی عوام کو سڑکوں پر لایا، ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اپنے عزیز عوام کا بھی ہم پورے وجود سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ عوام آئے اور انھوں نے وہی نعرے لگائے۔
میں نے اس دن عرض کیا کہ یہ 'امریکہ مردہ باد' کا نعرہ امریکی عوام مردہ باد کے معنی میں نہیں ہے۔ 8 فروری کی تقریر میں میں نے اس نعرے کے مصادیق کا تعین کر دیا اور بتا دیا کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں۔ اب میں یہ عرض کروں گا کہ 'امریکہ مردہ باد' کا مطلب ہے تسلط پسندی مردہ باد، جارحیت مردہ باد، قوموں کے حقوق پر دست درازی مردہ باد، اس نعرے کا یہ مطلب ہے۔ عوام نے پورے ملک میں یہ نعرے لگا کر روشن فکری، انسانی جذبے اور گہرے معنی و مفہوم پر استوار عمل انجام دیا ہے۔ واقعی اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ ہیں جو کمزور ہیں، پسپائی کے قائل ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ انقلاب کمزور ہو چکا ہے، حالانکہ کمزور وہ خود ہیں اور یہی قیاس وہ انقلاب کے بارے میں لگاتے ہیں۔ وہ خود دل باختہ ہیں، ان کا دل و ذہن ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے تو سمجھتے ہیں کہ سارے عوام انہیں جیسے ہو گئے ہیں۔ اپنی کمزوری کو وہ پوری قوم سے منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ جی نہیں، عوام یہ لوگ ہیں جو 11 فروری کے دن آپ کو سڑکوں پر نظر آئے۔ اللہ تعالی آپ تمام حاضرین کو، ملت ایران کو، ان تمام بلند ہمت افراد کو جو اس بصیرت کے ساتھ اپنے انقلاب، اپنے نظام، اپنے تشخص اور اپنے ملک کا دفاع کرتے ہیں، اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھے۔
دوسرا نکتہ ان عزیز نوجوانوں سے متعلق ہے جن کی جانیں ملکی امن و سلامتی کی راہ میں قربان ہو گئیں۔ اس قضیئے کی ظاہری شکل یہ ہے کہ بیس تیس نوجوان شہید ہو گئے۔ ہم تو بہت سے شہدا کی قربانیاں دے چکے ہیں، لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے اور ہمیں آگاہ ہو جانا چاہئے، ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ امن و سلامتی کتنی بڑی قیمت چکانے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ آپ غور کیجئے! جو لوگ اپنے کاموں میں، اپنی تجارت میں، اپنے آرٹ میں، اپنے کھیلوں میں، اپنی تعلیم میں اپنے تمام کاموں میں ملک کے اندر موجود اس امن و سلامتی سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور امن و سلامتی کے اس ماحول کا بھرپور استفادہ کرنے والے بعض لوگ جس پلیٹ میں کھاتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں! انھیں سمجھنا چاہئے کہ امن و سکون کے جس ماحول میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اتنی بڑی قیمت چکانے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں، ہمارے بہترین نوجوانوں کے خون کی قیمت پر حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کا درود و سلام ہو ان اصفہانی نوجوانوں پر، ملائکہ کا درود و سلام ہو ان پر، اصفہان کے شہید پرور عوام پر اللہ کا درود و سلام ہو جنہوں نے اس یادگار انداز میں ان نوجوانوں کی تشییع جنازہ کی۔ اصفہان کے عوام اس تحریک اور مہم کے ہراول دستے کا حصہ ہیں۔ یہ بہت اہم کام ہے۔
ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ امن و سلامتی کا تحفظ کیسے ہوتا ہے۔ ہماری سرحدوں کی سیکورٹی، ملک کے اندر سیکورٹی، سڑکوں کی سیکورٹی، شہروں کی سیکورٹی، 11 فروری کے دن اس عجیب انسانی سیلاب کو حاصل سیکورٹی۔ 11 فروری کے دن اس عظیم تعداد کے ساتھ تقاریب پورے امن و سکون کے ساتھ اختتام کو پہنچیں، یہ کوئی معمولی بات ہے؟ یہ کوئی چھوٹی چیز ہے؟ کون لوگ ہیں جو ہماری سیکورٹی کی حفاظت کرتے ہیں؟ ہمیں ان کی قدر معلوم ہے؟ ہم انھیں پہچانتے ہیں؟ اللہ کا درود و سلام ہو پاسداران انقلاب فورس اور سیکورٹی کی پاسباں دیگر فورسز پر، پولیس فورس پر، فوج پر اور دیگر فورسز پر جو اس انداز سے قربانیاں دیتی ہیں، جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتی ہیں۔ یہ انقلاب، یہ قومی وقار، یہ سیکورٹی اسی جانفشانی اور قربانی کے نتیجے میں ہے۔
اب تھوڑا ذکر تبریز کے عوام کے قیام کا۔ 18 فروری 1978 کا تبریز کے عوام کا قیام، واقعی ایک قیام تھا، حقیقی معنی میں ایک قیام تھا۔ بے شک یہ ایک ہی شہر میں ہوا لیکن اس کا اثر پورے ملک پر پڑا اور اس نے سب کو میدان میں اتار لیا۔ اس کے نتیجے میں وہ عظیم عوامی انقلاب شروع ہو گیا، جس میں اللہ تعالی نے برکت دی۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ تبریز کے عوام نے وقت کی نبض پکڑی، یہ تو ایک چیز ہے، بر وقت اقدام کیا، یہ دوسری چیز ہے۔ یہ دونوں چیزیں بہت اہم ہیں۔ تمام ذاتی اور سماجی امور میں یہ دونوں چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ اگر ہم وقت کو اور موقع کو بخوبی سمجھ لیں اور جب سمجھ لیں، شناخت حاصل کر لیں کہ یہ عمل کا وقت ہے تو اس عمل کو بر وقت اور بر محل انجام دیں، ایسی صورت میں ہمیں یہ کامیابی ملے گی۔ اگر وقت شناسی کی کمی ہو، اگر وقت کے تقاضوں سے غفلت برتی جائے، یا جو تقاضا ہے اسے بر وقت پورا نہ کیا جائے تو پھر کچھ بھی کر لیا جائے وہ بے اثر ہوگا۔ تاریخ میں اس کی مثال توابین ہیں۔ توابین وہ جماعت تھی کہ جو کربلا کا سانحہ رونما ہو جانے کے بعد، پیغمبر کے لخت جگر حضرت امام حسین کی اس مظلومانہ شہادت کے بعد اور بعد شہادت رونما ہونے والے ان تمام واقعات کے بعد، بہت جذبات میں آ گئی کہ: "حیرت ہے، ہم اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں؟!" انھوں نے قیام کر دیا۔ اچھی خاصی تعداد میں تھے، وہ آگے بڑھے۔ حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ وہ سب مارے گئے، سب شہید ہو گئے، لیکن کیا ان میں سے سو افراد کی قربانیاں اس ایک حبشی غلام کی قربانی کے برابر ہو سکتی ہیں جو کربلا میں شہید ہوا؟ کیا ان میں سے سو افراد کی قربانی کا اثر حضرت حبیب ابن مظاہر جیسا ہو سکتا ہے جنہوں نے کربلا میں جام شہادت نوش کیا؟ ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے بر وقت اقدام نہیں کیا۔ اگر آپ امام حسین علیہ السلام کا دفاع کرنا چاہتے تھے، پیغمبر اور ولایت اہل بیت کا دفاع کرنا چاہتے تھے، اگر باطل کے مقابلے میں، یزید کے مقابلے میں حق کی مہم میں شامل ہونا چاہتے تھے تو آپ کو عاشور کے دن کچھ کرنا چاہئے تھا۔ آپ نے وقت گنوا دیا! یہ تاریخ ہے۔ تاریخ میں اس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
میں کبھی نہیں بھول سکتا، اوائل انقلاب میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) جب پہلی فروری کو تہران واپس آئے تو آپ نے بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) میں فرمایا میں حکومت کی تشکیل کروں گا۔ وعدہ کیا کہ میں حکومت تشکیل دوں گا۔ ماحول بھی پوری طرح سازگار تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے تین یا چار فروری کو امام نے ہم لوگوں کو بلوایا، کیونکہ حکومت کی تشکیل کے مقدمات فراہم کرنے کی ذمہ داری انقلابی کونسل کی تھی جس میں ہم لوگ تھے۔ میں اور دیگر چند افراد انقلابی کونسل کے رکن تھے۔ ہم لوگ مدرسہ علوی میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں پہنچے۔ آپ نے فرمایا: "حضرات! اس کا کیا ہوا؟ حکومت کی تشکیل کا کیا ہوا؟" یعنی آپ نے اس کے مقدمات کیوں نہیں فراہم کئے؟ آپ دیکھئے! یہی صحیح ہے، یہ وقت شناسی اور موقع کا صحیح استعمال ہے۔ اس کے اگلے ہی دن یا دو دن بعد عبوری حکومت تشکیل دے دی۔ آپ نے فرمان جاری کیا اور وہ تمام امور آگے بڑھے۔ یہ وقت کی نباضی ہے۔ تبریز کے عوام نے جن کی وقت شناسی کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کے عمل میں برکت عطا کی، یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ ضرب لگانے کا وقت ہے۔ حکمراں نظام نے جو بڑی غلطی کی اس سے اس نے عوام کو مشتعل کر دیا۔ قم کا واقعہ ہوا، وہاں حکومت نے ایک اور بڑی غلطی کر دی، قم کے کچھ لوگوں کو شہید کر دیا۔ حالات موافق تھے، یہ سازگار حالات کس طرح نمایاں ہو سکتے تھے؟ اس کا بہترین طریقہ تھا چہلم۔ تبریز کے عوام نے اسے سمجھا۔ چہلم منایا گیا اور وہ تحریک، قیام اور انقلاب کا مظہر بن گيا۔ انھوں نے وقت کو پہچانا اور موقع کا بہترین استعمال کیا، چنانچہ اللہ نے ان کے عمل میں برکت دی۔ یہ اہم درس ہے۔
میرے عزیزو! آج اسلامی جمہوری نظام کے پاس بہترین مواقع موجود ہیں۔ یہ کام کرنے کا موقع ہے، یہ آگے بڑھنے کا موقع ہے، حکومت کے آگے بڑھنے، عوام کے حرکت میں آنے، عہدیداران کے قدم اٹھانے، ہر کسی کے اپنے شعبے میں کام کرنے کا موقع ہے۔ آج نوجوان کو حرکت میں آ جانا چاہئے، موقع کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ آج حالات سازگار ہیں۔ ایک بڑی آبادی، ایک بڑا ملک، یہ بے پناہ وسائل و امکانات، جن میں کچھ کی جانب (دوسرا قدم سے موسوم) بیان میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ ملک کے اندر موجود صلاحیت اور وسائل اس سے بہت زیادہ ہیں جو ہمارے کاغذات میں، ہماری تحریروں میں اور ہمارے بیانوں میں ذکر کئے جاتے ہیں۔ ملک کے ہر خطے میں، منجملہ آپ کے اسی آذربائیجان میں، تبریز میں جس کا ذکر ابھی محترم امام جمعہ نے کیا اور بالکل بجا فرمایا، گوناگوں اقتصادی، علمی، سماجی، فنی وسائل اور صلاحیتوں کا سمندر ہے، صلاحیتوں کا بحر بیکراں ہے۔ ان صلاحیتوں کی شناخت کی جانی چاہئے اور انھیں بخوبی استعمال کیا جانا چاہئے۔ یہ کام کون کرے؟ ہم عہدیداران! یہ ہم عہدیداران کی ذمہ داری ہے۔ البتہ اگر میں کہہ رہا ہوں 'ہم عہدیداران' تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نوجوانوں کے دوش سے یہ ذمہ داری ہٹ گئی ہے۔ ہم نے جو کہا تھا کہ صوابدیدی کارروائی اس کا مطلب (4) یہ ہے: تمام نوجوان، مختلف شعبوں میں تمام مومن گروپس جو بھی ان سے بن پڑتا ہے اور ملکی قوانین اور ملکی مصلحت کے مطابق ہے اسے انجام دیں، کسی کے انتظار میں نہ رہیں۔(5)
تو ملک کے اندر صلاحیت موجود ہے۔ ہمارا دشمن بھی اس وقت کمزور ہو چکا ہے۔ آپ دیکھئے! ہم سادہ لوحی میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ «دشمن نتوان ضعیف و بیچاره شمرد»،(۶) یعنی ہمیں دشمن کی طاقت کی طرف سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے لیکن جب ہم غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دشمن بری طرح الجھا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا اصلی دشمن استکبار ہے جس کا مظہر جارح امریکہ ہے جو آج بری طرح پھنسا ہوا ہے، اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہوا ہے، اپنے خارجہ مسائل میں بھی الجھا ہوا ہے، ملکی عمائدین کی باہمی چپقلش میں بھی الجھا ہوا ہے، مختلف مسائل کے بارے میں ان میں آپسی اختلافات ہیں، آپ خبروں میں دیکھتے ہوں گے۔ امریکی حکومت بڑی حیرت انگیز سطح پر اپنے عوام اور دیگر ممالک کی مقروض ہے۔ یعنی ان لوگوں پر ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ داخلی سماجی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ خود ان کے دستاویزات بتاتے ہیں، یہ ہماری داخلی اطلاعات نہیں ہیں، ایسی اطلاعات ہیں جو ہم نے خود ان سے حاصل کی ہیں، ان کے اخبارات میں، ان کے بعض دستاویزات میں یہ ساری چیزیں ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں کہ ان کے نوجوانوں میں قنوطیت ہے، وہ خودکشی کر رہے ہیں، وہاں قتل کی شرح ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں روزانہ قتل کے متعدد واقعات ہوتے ہیں۔ لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل، لوگوں کا پولیس کے ہاتھوں قتل۔ منشیات کا یہ عالم ہے کہ امریکہ میں سالانہ سو ارب ڈالر منشیات پر خرچ ہو جاتے ہیں اور خود ان کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ سالانہ پچاس ارب ڈالر ملک کے اندر منشیات کی روک تمام پر خرچ کرتا ہے مگر سب لاحاصل ہے، اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہاں روز بروز منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، وہ الجھے ہوئے ہیں۔
آپ شام میں ان کی حالت دیکھئے، افغانستان میں ان کی حالت دیکھئے، عراق میں ان کی حالت دیکھئے! انھیں مصیبتوں نے انھیں سیخ پا کر دیا ہے اور اس کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کمزور عقل والے عہدیداران، جیسا کہ میں نے عرض کیا (7) پرلے درجے کے احمق غصے میں آ جاتے ہیں اور ملت ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، بد کلامی کرتے ہیں، اپنے سر دیواروں سے ٹکراتے ہیں، وارسا کانفرنس (8) کا انعقاد کرتے ہیں اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اپنے ہمنوا ممالک کو، اپنے مہروں کو، کمزور اور خوفزدہ حکومتوں کو وارسا کانفرنس میں بلاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کوئی فیصلہ کریں مگر کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ سب کچھ دشمن کی کمزوری کی نشانی ہے۔ تو دشمن کمزور ہو چکا ہے۔ جب دشمن کمزور پڑ جاتا ہے تو شور شرابا زیادہ کرتا ہے، زیادہ ہنگامہ کرتا ہے۔ اس ہنگامے سے ہمارے کسی عہدیدار کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کسی نوجوان کو کسی غلط فہمی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی یہ نہ سوچنے لگے کہ اب کیا ہوگا؟! کچھ نہیں ہوگا۔ جب یہ انقلاب نازک پودے کی مانند تھا اس وقت ان سب نے مل کر اس کمزور پودے کو زمین سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ آج وہ نازک پودا یہ تناور درخت، عظیم شجرہ طیبہ بن چکا ہے تو اب وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہی جملہ جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید سے کہا تھا کہ: کِد کَیدَکَ وَ اسعَ سَعیَکَ ... فَوَاللهِ لا تَمحو ذِکرَنا؛(۹) تجھ سے جو بھی ہو سکتا ہے کر لے، لیکن یاد رکھ! تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ البتہ ان واقعات میں بہت سے نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی آبرو بھی مٹی میں مل گئی۔ یہ لوگ جو وارسا میں صیہونی حکومت کے پہلو میں بیٹھے اور اسلام، مسلمانوں اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف جنہوں نے صیہونیوں اور امریکیوں کی آواز سے آواز ملائی ان کی اب اپنی قوم کے اندر بھی کوئی عزت نہیں رہ گئی۔ خلیج فارس کے علاقے کے بعض عرب حکمراں بھی اور بعض دیگر ممالک کے عمائدین بھی اپنے عوام کے درمیان اپنی عزت و آبرو گنوا بیٹھے۔ یہ لوگ ایسے ہی ہیں۔
میرا کہنا یہ ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ ہم اس وقت چالیس سال کی عمر میں، آگے بڑھنے کے لئے لازمی قوت و آمادگی کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمارے پاس وسائل ہیں، صلاحیتیں ہیں، جو بھی مشکلات ہیں وہ قابل حل ہیں، گرانی کو حل کیا جا سکتا ہے، ریال کی قدر میں گراوٹ کو روکا جا سکتا ہے، داخلی پیداوار کی مشکلات کو رفع کیا جا سکتا ہے، یہ ساری چیزیں حل ہو سکتی ہیں۔ بس ذرا تحمل، تھوڑی تدبیر، ذرا اتفاق و اتحاد، اقدام میں سنجیدگی جیسی چیزوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس وسائل بہت ہیں اور دشمن بھی اس وقت کمزور پڑ چکا ہے اور ان شاء اللہ وہ مزید کمزور پڑنے والا ہے۔ ہمیں اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بالکل اسی طرح جیسے 18 فروری 1978 کو آپ اہل تبریز نے موقع کا بالکل صحیح استعمال کیا اور اپنی ضرب لگائی، اپنا کام انجام دے ڈالا، اپنا اقدام کر دیا۔
میں آپ نوجوانوں سے عرض کر رہا ہوں کیونکہ مستقبل تو آپ نوجوانوں کا ہے، یہ ملک آپ نوجوانوں کا ہے، آپ خود سازی کیجئے، خود کو ذہنی اعتبار سے، جسمانی اعتبار سے، علمی اعتبار سے، انتظامی صلاحیتوں کے اعتبار سے آمادہ کیجئے۔ ملک کا انتظام نوجوانوں کو سنبھالنا ہے۔ بزرگوں کے مشورے اور بزرگوں کے تجربات سے وہ استفادہ کریں مگر ملک کو آگے لے جانے والے انجن کا رول نوجوان ادا کریں۔ نوجوان خود کو آمادہ کریں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ذہنی اعتبار سے بھی، روحانی اعتبار سے بھی، اخلاقی اعتبار سے بھی، علمی اعتبار سے بھی، تعلیم و تعلم کے اعتبار سے بھی، جسمانی اعتبار سے بھی، انتظامی اور محکمہ جاتی توانائیوں کے اعتبار سے بھی، تنظیمی اعتبار سے بھی، اس ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ کے اندر اسے چلانے کی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔ آپ اس ملک کو بلندیوں پر لے جانے کی توانائی رکھتے ہیں (10)۔ اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے۔ آپ کو یہ توفیق دے کہ آپ پہلے مرحلے میں ثابت قدمی سے کہ جو بہت اہم ہے، اپنی اس توانائی کا مظاہرہ کریں۔ یہ آپ نوجوانوں کے سلسلے میں میری تاکید ہے۔
ملک کے عہدیداران کے لئے میری تاکید یہ ہے کہ آپ دشمن کو بخوبی پہچانئے۔ دشمن کے فریب میں نہ آئيے۔ دشمن مختلف راستوں سے آتا ہے۔ کبھی غراتا ہے، کبھی مکّا دکھاتا ہے، کبھی مسکراتا ہے، یہ سب ایک ہی چیزیں ہیں۔ دشمن کی مسکراہٹ بالکل اس کی غراہٹ کی مانند ہے، کوئی فرق نہیں ہے، یہ سب دشمنی ہے: قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن أَفواهِهِم وَ ما تُخفی صُدورُهُم أَکبَرُ (۱۱)۔ اسلام، مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف ان کے نجس اور کینے سے بھرے دلوں میں موجود ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو ان کی باتوں میں نظر آتا ہے۔ دشمن کے فریب میں نہ آئیں، دشمن سے دھوکہ نہ کھائیں۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی ممالک صاف صاف دھوکہ کر رہے ہیں۔ امریکہ کا معاملہ تو فریب دہی سے بھی آگے نکل گيا ہے وہ کھلے عام دشمنی پر آمادہ ہو گیا ہے لیکن یورپی ممالک بھی فریب دے رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ کیا کریں، حکومتی عہدیداران خود بیٹھ کر طریقہ سوچیں لیکن خیال رہے کہ دھوکہ نہ کھائیں، محتاط رہیں کہ فریب میں نہ آئیں، دشمن سے دھوکہ نہ کھائیں، اس آس میں کہ کوئی کام کروا لیں گے، خود کو اور ملت کو مشکل میں نہ الجھائیں۔ فریب بھی نہ کھائیں اور دشمن سے خوفزدہ بھی نہ ہوں! یہ ذہن میں رکھیں کہ اللہ کا دست قدرت سب سے اوپر ہے اور اللہ تعالی اس ملت کا حامی و مددگار ہے جو اس کے دین کی نصرت کر رہی ہو اور یہ ملت بحمد اللہ یہ کام انجام دے گی۔
ہماری گردن پر ہمارے عزیز شہیدوں کا بڑا احسان ہے، شہیدوں کو ہمیشہ یاد رکھئے۔ محترم امام جمعہ نے جو اشارہ کیا شہدا کے اہل خانہ اور پسماندگان سے رابطہ رکھنے کے سلسلے میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کا احترام کرنے کے سلسلے میں یہ بہت اچھا اور بنیادی کام ہے۔ شہدا، ان کے اہل خانہ اور ان کے احترام کا اور زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ یہ اس راستے کی اہم علامات کا درجہ رکھتے ہیں۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں، ہمیشہ سے آمادہ تھے اور ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے بزرگوار امام اور بزرگوار شہیدوں پر۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ ان شاء اللہ آپ عزیز نوجوان وہ دن دیکھیں گے جب وہ ساری باتیں جو میں نے آج کہیں اور بار بار کہتا رہتا ہوں آپ کی زندگی میں نصرت خداوندی سے جلوہ گر ہوں گی۔ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔(12) ان شاء اللہ آپ کو کامیابیاں عطا کرے۔
و السّلام علیکم و رحمة الله
۱) اس ملاقات کے آغاز میں صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم نے کچھ اہم نکات بیان کئے۔
۲) 11 فروری 2019 کو ملت ایران کے لئے جاری کئے جانے والے بیان 'انقلاب کا دوسرا قدم' کی جانب اشارہ ہے۔
۳) مناقب آل ابی طالب، جلد ۳، صفحہ ۱۸۱
۴) منجملہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے کچھ طلبہ اور اسٹوڈنٹس یونین کے نمائندوں سے مورخہ 7 جون 2017 کا خطاب
۵) حاضرین نے نعرہ لگایا؛ «ما همه سرباز تو ایم خامنه ای، گوش به فرمان تو ایم خامنه ای یعنی ہم سب آپ کے سپاہی ہیں خامنہ ای ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں خامنہ ای» اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے ترکی زبان میں فرمایا؛ بونی که بیلیرم؛ قبلاً بویور می سیز، بنده بیلیرم. (یہ تو میں جانتا ہوں، آپ یہ پہلے فرما چکے ہیں اور میں اس سے باخبر ہوں۔) اللہ آپ سب کو نیکیاں دے، اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے۔
۶) سعدی، گلستان، باب اوّل، در سیرت پادشاهان (قدرے فرق کے ساتھ)
۷) قم کے مختلف طبقات کے ہزاروں افراد سے مورخہ 9 جنوری 2019 کا خطاب
۸) مشرق وسطی کی امن و سلامتی کانفرنس رواں سال میں 13 اور 14 فروری کو پولینڈ کے دار الحکومت وارسا میں امریکہ کی دعوت پر منعقد ہوئی۔
۹) لہوف، صفحہ ۱۸۵
۱۰) حاضرین کے نعرے: «ای رهبر آزاده! آمادهایم آماده، اے حریت پسند رہبر ہم تیار ہیں تیار ہیں»
۱۱) سوره آلعمران، آیت نمبر ۱۱۸ کا ایک حصہ؛ «...ان کے انداز اور باتوں سے دشمنی عیاں ہے اور جو ان کے دلوں میں پنہاں ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔...»
12) حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا «آغا آپ آذربائیجان کے سفر پر آئيے» اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا؛ ہمارا دل تو وہاں ہے، اگر یہ جسم وہاں نہ آ سکے تب بھی دل تو وہاں موجود ہے۔