رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اس سال کے سلوگن 'پیداوار کا فروغ' پر عملدرآمد سے مختلف شعبوں میں تبدیلیاں ہوں گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، معیشتی مشکلات حل ہوں گی، بینکنگ نظام میں اصلاح، ملکی کرنسی کی قدر میں اضافہ اور بجٹ میں توازن ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پر مغز خطاب میں رواں سال کے مسائل، ایران کے خلاف مغربی حکومتوں کی محاذ ارائی، معیشت اور پیداوار کے فروغ کے سلسلے میں کلیدی نکات بیان کئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ' انقلاب کا دوسرا قدم' کے عنوان سے جاری کئے گئے اپنے بیان کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں نوجوانوں کے فرائض پر بھی روشنی ڈالی۔ (۱)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین المکرّمین سیّما بقیّة الله فی الارضین. اللهم صلّ على ولیّک علىّ بن موسی‌ الرّضا عدد ما فی علمک صلاة دائمة بدوام ملکک و سلطانک، اللّهم سلّم على ولیّک علىّ بن موسى‌ الرّضا عدد ما فی علمک سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک.

پیشوائے انصاف، پوری تاریخ کے مومنین کے سردار، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی، جو حقیقی نوروز ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح سال نو کی آمد اور عید نوروز کی مبارباد بھی پیش کرتا ہوں۔ پرکشش ایرانی طبیعت نے اس دن کو سال کا سرآغاز قرار دیا ہے۔ ایران کا شمسی سال، ایرانی ہجری سال بہار کے آغاز کے ساتھ اور عید نوروز کی آمد کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے نورانی قلوب کو اعتکاف کے ان ایام کی تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ رحمت خداوندی، فضل الہی اور اجابت پروردگار عالم کا سایہ اعتکاف میں بیٹھنے والے ہمارے مومنین پر، تمام ملت ایران اور سارے عوام خصوصا نوجوانوں پر قائم و دائم رہے گا۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے توفیق کرامت فرمائی کہ ایک بار پھر آغاز سال کی اس مناسبت پر آپ عزیز عوام سے، مجاورین اور زائرین سے امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارکہ کی روحانی روشنی میں ملاقات کا شرف حاصل کروں۔

آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے جو نکات میں نے آمادہ کئے ہیں وہ چار موضوعات پر مشتمل ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ یہ موضوعات میں اختصار کے ساتھ آپ بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں پیش کر سکوں گا۔ ایک موضوع روا‎ں سال یعنی اسی 1398 ہجری شسمی سے متعلق ہے، ایک موضوع کا تعلق مغرب کے مسائل اور مغربی حکومتوں سے ہمارے مسائل سے ہے۔ تیسرا موضوع اقتصاد اور اس سال کے ہمارے سلوگن سے متعلق ہے جو اقتصادی نمو کا نعرہ ہے، چوتھا اور آخری موضوع ملکی مسائل، مستقبل کے مسائل اور انقلاب کے مسائل کے بارے میں عزیز نوجوانوں سے میری گفتگو پر مشتمل ہے۔

رواں سال کے مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ کچھ مقررین، یا مصنفین، یا مفکرین یا اہل نظر 1398 کے بارے میں کچھ باتیں کہہ رہے ہیں کہ یہ سال خطرات و مشکلات کا سال ہے۔ میں ہرگز اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرا یہ خیال ہے کہ سنہ 1398 ہجری شمسی توفیق خداوندی سے سنہری مواقع کا سال ہوگا، وسائل کی فراوانی اور گشائش کا سال ہوگا۔ جو لوگ اس کے برخلاف کچھ باتیں بیان کر رہے ہیں اور ہمیشہ لوگوں کے سامنے خطرات کا ذکر کرتے رہتے ہیں وہ عمدا یا انجانے میں اس ملت کے دشمنوں کی رجز خوانی سے متاثر ہیں۔ اس ملت کے دشمن حقیقی طور پر جو اقدامات کر رہے ہیں ان کے علاوہ نفسیاتی جنگ میں بھی مصروف ہیں۔ بیان دیتے ہیں، رجز خوانی کرتے ہیں۔ یہ رجز خوانی اسی شکل میں لی جانی چاہئے جو اس کی اصلی شکل ہے۔ انھوں نے 1397 ہجری شمسی کے بارے میں بھی اسی طرح کی رجز خوانی کی تھی۔ وہ کچھ لوگوں کو ہراساں کرنے کی کوشش میں تھے۔ انھیں پہلے نمبر کے احمقوں میں جن کا کچھ عرصہ قبل میں نے ذکر کیا (2) ایک شخص نے 1397 کے وسط یا اوائل میں کہا تھا کہ اگر ہم ایٹمی معاہدے سے نکل گئے، یعنی اگر امریکہ باہر نکل گیا تو ایران کی سڑکوں پر آشوب برپا ہو جائے گا، لوگ روٹی تک نہیں خرید  پائیں گے۔ انہیں پرلے درجے کے احمقوں میں سے ایک نے کہا تھا کہ سنہ 2019 کے آغاز کے موقع پر امریکی کرسمس کا جشن تہران میں منائيں گے (3)۔ یہ باتیں انھوں نے کیں۔ مجھے نہیں معلوم، یعنی واقعی اس میں دو نظرئے ہیں کہ کیا واقعی علاقے اور وطن عزیز کے بارے میں ان کے تجزئے حقائق سے اتنے پرے ہیں کہ وہ سنجیدگی سے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں؟ یعنی وہ اس طرح کی باتیں اپنی حماقت کی وجہ سے کرتے ہیں؟  یا نہیں، بلکہ ان کا مقصد نفسیاتی جنگ کرنا، خبیثانہ حرکتیں کرنا ہے اور اسی لئے وہ اس قسم کی باتیں عالمی ذرائع ابلاغ میں کرتے ہیں کہ نفسیاتی جنگ کو آگے بڑھائیں؟ یہ میرے لئے واضح نہیں ہے۔ ممکن ہے دونوں ہی باتیں ہوں۔ ان کی حماقت بھی ہو اور خباثت بھی ہو۔

ہم نے جو کہا کہ 1398 سنہری مواقع کا سال ہے تو ہم اس کی کچھ تشریح کریں گے۔ اس وقت ہمارے ملک کی بنیادی مشکل اقتصادی مشکل ہے، کمزور طبقات کی معیشت کا مسئلہ ہے۔ اس مشکل کا ایک حصہ مغربی طاقتوں یعنی امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کا نتیجہ ہے اور ان مشکلات کا ایک حصہ ہمارے داخلی نقائص اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہے، ہماری انتظامی خامیوں کی وجہ سے ہے۔ پابندیاں بھی ہمارے لئے سنہری مواقع بن سکتی ہیں جس کی میں ابھی وضاحت کروں گا اور ان خامیوں اور نقائص کی شناخت بھی ملک کے مستقبل کے لئے، آئندہ برسوں میں ملک کا نظم و نسق چلانے کے سلسلے میں گراں بہاں تجربہ قرار پا سکتی ہے۔ یہ دونوں ہی چیزیں بہترین مواقع میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔

پابندیاں سنہری مواقع میں کیوں تبدیل ہوں گی؟ اس لئے کہ تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ جن ملکوں کے پاس تیل جیسے قدرتی ذخائر موجود ہیں، جب بھی ان ذخائر سے ہونے والی ان کی آمدنی میں کمی آتی ہے وہ اقتصادی اصلاحات کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ انھیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اصلاحات کا ارادہ پیدا ہوتا ہے، ذخائر پر سے اپنا انحصار ختم کرنے کا ارادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اسی کے مطابق اقدامات کرتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب ان قدرتی وسائل سے ہونے والی آمدنی میں کمی آتی ہے۔ جب ان وسائل سے ہونے والی آمدنی اپنی پہلی حالت میں پہنچ جاتی ہے اور قدرتی وسائل و ذخائر کا استعمال بڑھ جاتا ہے تو وہ اقتصادی اصلاحات سے پھر غفلت برتنے لگتے ہیں، انھیں فراموش کر دیتے ہیں۔ تو قدرتی ذخائر سے ہونے والی آمدنی میں کمی صرف ہمارے ملک نہیں بلکہ ہم جیسے تمام ملکوں کے لئے یہ خوبی رکھتی ہے کہ انھیں ان قدرتی ذخائر پر انحصار کی حالت سے، واحد پروڈکشن پر انحصار کی حالت سے، تیل پر مرکوز معیشت سے نجات دلاتی ہے۔ ہمارے اقتصاد کی بھی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ یہ تیل پر استوار معیشت ہے، تیل پر منحصر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس وقت ملک میں حکومتی سطح پر بھی، تحقیقاتی اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر مطالعہ اور تحقیق کا آغاز ہو چکا ہے کہ ہم ملک کو غیر پیٹرولیئم اشياء سے ہونے والی آمدنی سے کیسے چلا سکتے ہیں۔ یہ بہت اہم اور اچھی چیز ہے۔ جب تیل کی آمدنی وافر مقدار میں حاصل ہوتی ہے تو نہ حکومتی عہدیداران اور نہ دوسرے افراد کوئی بھی اس بارے میں نہیں سوچتا۔ ہم نے بالکل ایسی ہی صورت حال کا مشاہدہ ملک کے دفاعی وسائل کے سلسلے میں بھی کیا ہے۔ مقدس دفاع کے برسوں میں، اس جنگ کے دوران جو ہم پر مسلط کر دی گئی تھی، مشرق و مغرب کی مادی طاقتیں، یعنی سرمایہ دارانہ نظام والی مادی طاقیں بھی اور سوشیلسٹ کمیونسٹ حکومتیں بھی بہترین جنگی ساز و سامان صدام کو فراہم کرا رہی تھیں جبکہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ ہمیں تو جیسا کہ مشہور ہوا اور سب کو اس کی خبر ہو گئی کہ خاردار تار بھی بیچنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ بے شک سخت حالات تھے لیکن اسی سختی کی وجہ سے ہمارے نوجوان، ہمارے مفکرین، ہمارے موجدین اور اختراعی صلاحیت رکھنے والے افراد اغیار کے ہتھیاروں اور دفاعی ساز و سامان پر ہمارا انحصار ختم کرنے کی فکر میں لگ گئے۔ آج بحمد اللہ دفاعی وسائل کے اعتبار سے ہماری حالت علاقے کے تمام ملکوں سے بہتر اور برتر ہے۔ اس پر تو ہمارے دشمن بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں، وہ بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہیں اور ہماری اسی توانائی کو ہمارے خلاف دباؤ ڈالنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ ہرگز دباؤ نہیں ڈال پائیں گے۔ وہ لاکھ کوششیں کر لیں ہم اپنے دفاعی نظام کو تقویت پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ مقدس دفاع کے زمانے میں اگر انھوں نے ہمیں ہتھیار فروخت کئے ہوتے، اگر ہمیں ٹینک دے دیتے، میزائل دے دیتے تو ہم خود یہ چیزیں بنانے کی فکر میں نہ پڑتے۔ کیونکہ یہ چیزیں ہمارے پاس فراہم ہوتیں تو اغیار پر ہمارا انحصار بھی جاری رہتا، ہماری احتیاج باقی رہتی، وہی حالت ہوتی جو آج ہمارے علاقے کے بہت سے ملکوں کی ہے۔ آپ ان سے واقف ہیں۔ ان ملکوں کے پاس اسلحے کا ذخیرہ موجود ہے لیکن یہ ہتھیار دوسروں کے ہیں، ان پر اغیار کی مرضی چلتی ہے، خود ان ملکوں کے پاس نہ طاقت ہے، نہ علمی و عملی توانائی ہے کہ ان ہتھیاروں کو استعمال کر سکیں۔ ہم بھی انھیں جیسے ہوتے۔ آج توفیق خداوندی سے ایسا نہیں ہے۔ تو ضرورت ہمیں متحرک کرتی ہے، جذبہ و ارادہ پیدا کرتی ہے۔ جب تیل کی آمدنی سے، یعنی تیل کی پوری آمدنی سے ہم محروم  ہو جائیں گے تو فطری طور پر ہم متبادل راستے تلاش کرکے نکال لیں گے۔ یہ کام شروع ہو چکا ہے اور ان شاء اللہ نتیجہ بھی حاصل ہوگا۔ ملت ایران بعد میں اس کے ثمرات سے مستفید ہوگی، اس کے نتائج کا مشاہدہ کرے گی۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں پابندیوں پر واویلا نہیں مچانا چاہئے۔ پابندیاں عائد کرنے والوں یعنی امریکہ اور یورپ سے ہمیں زیادہ توقع نہیں رکھنا چاہئے۔ میں بعد میں مغرب سے متعلق اپنی گفتگو میں اس کی وجہ بیان کروں گا، ان سے توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ہمیں بیٹھ کر پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پر غور کرنا چاہئے اور پوری سنجیدگی سے ان پر عمل کرنا چاہئے۔ ہمارا فرض یہ ہے۔ یہ حکومتی اداروں کا بھی فرض ہے، مقننہ سے متعلق تحقیقاتی اداروں کا بھی یہ فرض ہے، اسی طرح ہمارے نوجوانوں، مفکرین اور صاحب نظر افراد کا بھی یہ فرض ہے۔ بیٹھیں، ملکی حالات سے مکمل آگاہی کے ساتھ، پابندیوں سے مقابلہ کرنے کے راستے تلاش کریں، ڈھونڈ کر نکالیں۔ پابندیوں کا مقابلہ کرنے اور دشمن کی ظالمانہ و خبیثانہ پابندیوں کو ناکام بنانے کے بہت سے راستے اور طریقے موجود ہیں۔ البتہ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ اعلی رتبہ حکومتی عہدیداران پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی تدابیر تیار کر رہے ہیں۔ اب عمل کے میدان میں، اجرائی میدان میں پوری سنجیدگی کے ساتھ، فوری طور پر اور عملی انداز میں کام کریں، کاموں کی انجام دہی میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے۔

آج یہ بات سب مانتے ہیں کہ دشمن ہمارے خلاف اقتصادی جنگ میں مصروف ہے، یہ سب کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات تو ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ دشمن ہمارے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ ہم یہ کہتے تھے لیکن بعض کو یقین نہیں آتا تھا، آج سب کو یقین آ چکا ہے۔ تمام عہدیداران یہ سمجھ چکے ہیں اور مانتے ہیں کہ دشمن ہمارے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ جنگ صرف گولے اور بندوق سے نہیں ہوتی۔ اقتصادی جنگ، سیکورٹی کی جنگ، انٹیلیجنس کی جنگ، سیاسی جنگ یہ بھی جنگیں ہیں۔ بسا اوقات تو یہ فوجی جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ دشمن ہمارے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ اس جنگ کا اثر اقتصادی میدان میں نظر آ رہا ہے۔ یہ بات آج سب مانتے ہیں۔ یقینا ہمیں اس جنگ میں دشمن کو شکست دینا ہے اور توفیق خداوندی سے ہم دشمن کو یقینا شکست دیں گے۔ جی ہاں، ہم دشمن کو شکست سے دوچار کریں گے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ ملک کے مختلف شعبوں میں سرگرم عناصر سے، خواہ وہ حکومتی اداروں میں ہوں، یونیورسٹی میں ہوں، عوامی شعبوں میں ہوں یا دیگر عمومی امور میں مصروف کار ہوں، میرا کہنا یہ ہے اور میرا مطالبہ یہ ہے کہ دشمن کو شکست دینے کے ساتھ ہی ہمیں اپنے اندر مزاحمتی استحکام پیدا کرنا چاہئے۔ میرا یہ موقف ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ آپ دشمن کو شکست دے دیتے ہیں، لیکن دشمن کسی موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور بعد میں کوئی وار کر دیتا ہے۔ اس صورت حال میں پہنچنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمیں ایسی  پوزیشن پر پہنچ جانا چاہئے کہ ہمارے اندر مزاحمتی استحکام پیدا ہو جائے۔ یعنی دشمن کو یقین ہو جائے کہ وہ اقتصادی راستوں سے، اقتصای مسائل کی آڑ لیکر ہمارے وطن عزیز کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، ملت ایران پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ ہمیں اس مقام پر پہنچنا ہے۔ مزاحمتی استحکام۔ یہ ممکن بھی ہے۔ میں اس سلسلے میں بھی دفاعی شعبے کی ایک مثال دینا چاہوں گا۔ دفاعی شعبے میں آج ہم خوش قسمتی سے اسی پوزیشن میں ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم بیٹھے ہوتے تھے اور دشمن کے جنگی طیارے ہمارے اوپر آ جاتے تھے، ہمارے شہروں کے اوپر پہنچ آتے تھے اور بمباری کرتے تھے۔ ہمارے پاس اعلی درجے کے دفاعی وسائل نہیں تھے۔ یا جب دشمن میزائل حملہ کرتا تھا تو ہمارے پاس دفاعی وسائل نہیں تھے۔ جب ہمارے پاس یہ وسائل آ گئے تو آج ہمارے دشمنوں کو پتہ ہے کم از کم اس علاقے میں، جو لوگ اس علاقے میں ہیں یا جنہوں نے اپنی فورس تعینات کر رکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کامیابی سے نشانہ لگانے والے اپنے میزائلوں کی مدد سے ہر دشمن کا مقابلہ کرنے کی  توانائی رکھتا ہے، مقابلہ کر سکتا ہے، اسے تباہ کر سکتا ہے، یہ بات وہ سمجھ چکے ہیں۔ یہ دفاعی قوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن دشمنوں کے دماغ میں کبھی کبھی فوجی یلغار کا خیال سر ابھارتا ہے وہ خیال رکھیں، ان کی سمجھ میں یہ بات آ جانی چاہئے کہ ایسا نہیں ہے، اسلامی جمہوریہ کا طاقتور اور محکم گھونسا ان کے سامنے ہے۔ یہ ہوتی ہے دفاعی قوت۔ ہمیں اقتصادی شعبے میں بھی اسی مقام پر پہنچنا ہے۔ بنابریں یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم دشمنوں کی پابندیوں کے ان حالات کا فائدہ اٹھائیں۔ آج ہم اس شعبے میں کام کر سکتے ہیں۔ یہ رہی پہلی بحث۔

میں نے یہ عرض کیا کہ ہمیں مغربی حکومتوں سے آس نہیں لگانی چاہئے۔ میں دوسری بحث کا آغاز کر رہا ہوں جو مغربی حکومتوں اور طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے متعلق بحث ہے۔ اس سلسلے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ اگر ہم اپنے اندر اقتصادی استحکام و استقامت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مغربی ممالک کی مدد اور ان کے تعاون سے پوری طرح چشم پوشی کر لینا چاہئے، ہمیں ان کا منتظر نہیں رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ مغربی حکومتوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ ان سے کسی مدد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ان سے سازش کی تو توقع کی جا سکتی ہے، خیانت کی توقع کی جا سکتی ہے، پیٹھ میں خنجر پیوست کر دینے کی توقع تو رکھی جا سکتی ہے، لیکن مدد، صداقت اور تعاون کی توقع ہرگز نہیں رکھی جا سکتی۔ آپ جہاں بھی دیکھتے ہیں کہ مغربی حکومتوں نے کسی حکومت یا کسی ملک کی مدد کی ہے تو در حقیقت وہاں وہ خود اپنا کوئی کام مکمل کرنے میں لگی ہوتی ہیں۔ بے شک مغربی حکومتیں طاغوتی شاہی حکومت کی مدد کرتی تھیں لیکن یہ در حقیقت شاہی حکومت کی مدد نہیں تھی بلکہ اپنے ہتھیار فروخت کرنے کا راستہ ہموار کیا جا رہا تھا، اس ملک کے تیل کے ذخائر پر اجارہ داری کو مضبوط کیا جا رہا تھا، یہ ملک کے اندر ساٹھ ہزار فوجی مشیروں کی تعیناتی کو جاری رکھنے کے لئے کیا جا رہا تھا۔ جس وقت انقلاب کامیاب ہوا تقریبا ساٹھ ہزار امریکی فوجی مشیر اس ملک میں، زیادہ تر تہران میں موجود تھے، مسلمانوں کے بیت المال سے پیسے خرچ کر رہے تھے، وہ اپنا کام کر رہے تھے۔ تو اگر یہ حکومتیں کہیں کوئی مدد کرتی ہیں تو در حقیقت وہ اپنا کام نکال رہی ہوتی ہیں، اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مصروف ہوتی ہیں۔ ان سے مدد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ مغربی حکومتیں صرف اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں یہ سلوک روا رکھتی ہیں۔ نہیں، ان تمام ملکوں کے ساتھ جہاں ان کا بس چلتا ہے وہ یہی کرتی ہیں۔ آپ تین صدیوں پر محیط استعمار کی تاریخ کو دیکھئے، کمزور ملکوں کے استحصال کو دیکھئے، کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو کچل کر رکھ دیا، انہیں تباہ کر ڈالا، بے پناہ سختیوں میں ڈال دیا۔ یورپ والوں نے، اس زمانے میں امریکیوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، ایشیا میں، افریقا میں، لاطینی امریکہ میں ملکوں کا استحصال کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ان ملکوں کے ذخائر لوٹ لئے، اٹھا کر اپنے یہاں لے گئے، ان ملکوں کی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں کی ترقی کو روک دیا، انھیں پیچھے رکھا۔ استحصال صرف ہمارا نہیں ہوا ان تمام ملکوں کا ہوا ہے جہاں مغربی طاقتوں کا بس چلا۔ ایران میں قاجاریہ دور اقتدار کے وسطی حصے سے یورپی حکومتوں نے ضرب لگانی شروع کی۔ ایران روس جنگ میں انگریزوں نے ایران سے خیانت کی۔ ثالثی کی حیثیت سے بیچ میں آئے لیکن انھوں نے پشت پر خنجر مارا۔ تمباکو کی مراعات کے قضیئے میں، امیر کبیر کے قضیئے میں، امیر کبیر کے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا، برطانیہ اور تہران میں دیگر یورپی سفارت خانوں کے دباؤ کی وجہ سے احمق قاجاری بادشاہ نے امیر کبیر کا خون بہایا اور انھیں برطرف کر دیا جو ایران کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی طرح رضاخان کی ڈکٹیٹر حکومت کو اقتدار میں لانے میں یورپی حکومتوں کا کردار، ڈاکٹر مصدق کی حکومت گرانے میں یورپیوں اور امریکیوں کا کردار، ہمارے گوناگوں اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی سے متعلق امور میں ان کا رویہ، مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں ان کا کردار، اس کے بعد پابندیاں عائد کرنے کے معاملے میں ان کردار، ان چیزوں کو ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔ مغربی حکومتوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ یہی سلوک روا رکھا۔ ہم ان سے کوئی امید نہیں رکھ سکتے۔ اسی حالیہ مسئلے میں، ایٹمی معاہدے کے معاملے میں یورپی حکومتوں کی ذمہ داری کیا تھی؟ ایک سات فریقی معاہدہ ہوا، چھے ممالک تھے اور ایک طرف ایران، کل سات ملک۔ اس کا ایک فریق امریکہ تھا جو اس سے نکل گيا۔ دیگر فریقوں کی کیا ذمہ داری تھی؟ یورپی ممالک کی ذمہ داری تھی کہ امریکہ کے مد مقابل کھڑے ہو جاتے اور کہتے کہ ہم نے جو وعدے کئے ہیں ان کے ہم  پابند ہیں، ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ تمام پابندیاں ہٹائی جاتیں، انھیں سختی کے ساتھ ڈٹ جانا چاہئے تھا۔ لیکن مختلف بہانوں سے انھوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ امریکہ کے مد مقابل وہ کھڑے نہیں ہوئے یہ تو اپنی جگہ خود ان ملکوں نے بار بار تاکید کی اور کر رہے ہیں کہ آپ ایٹمی معاہدے سے باہر نہ نکلئے، مگر وہ عملی طور پر ایٹمی معاہدے سے نکل چکے ہیں۔ یعنی حالت یہ ہے کہ خود انھوں نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگائی ہیں۔ یہ یورپی حکومتوں کا رویہ ہے۔ کیا ان سے کوئی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ یہ مالیاتی مکینزم  جس کے بارے میں بار بار کہا جا رہا ہے کہ ایک مالیاتی چینل تیار کر لیا گیا ہے، یہ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے! البتہ بہت تلخ مذاق ہے۔ اس کا کوئی معنی و مفہوم ہی نہیں ہے۔ ان کا جو فریضہ ہے اور وہ جو عمل کر رہے ہیں دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے اس حالیہ بین الاقوامی معاملے میں بھی یورپی ممالک نے ہمیں پشت سے خنجر مارا ہے، ہمارے ساتھ خیانت کی ہے۔ ان سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی، کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

دیکھئے! کلی طور پر میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارے اور بہت سے دیگر افراد کے وسیع پیمانے پر مطالعے، مشاہدے اور تجربات سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہے جو میں عرض کر رہا ہوں کہ مغرب میں بشمول امریکہ اور یورپ تمام مغربی حکومتوں میں سیاست اور اقتدار ظالم بھی ہے، جابر بھی ہے، بے منطق بھی ہے اور توسیع پسند بھی ہے۔ منطقی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی، واقعی منطقی سوچ سے بالکل بیگانہ ہیں۔ مغربی سیاستدانوں کا باطن دیکھئے تو واقعی یہ بڑے وحشی افراد ہیں۔ عملی طور پر وحشی پنے اور درندگی کا کام کرتے ہیں۔ آپ ابھی پیش آنے والے نیوزی لینڈ کے حالیہ سانحے کو، مسلمانوں کے قتل کے اس واقعے کو دیکھئے! ایک شخص دو مسجدوں میں داخل ہوتا ہے درجنوں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیتا ہے۔ پچاس سے زائد لوگوں کو قتل کر دیتا ہے، شہید کر دیتا ہے! کیا اس کا نام دہشت گردی نہیں ہے؟ یورپ والے یعنی نہ ان کے سیاست داں اور نہ ان کا میڈیا کوئی بھی اس بہیمانہ عمل کو دہشت گردی کا نام دینے پر آمادہ نہیں ہوا! بس کہہ دیا مسلحانہ حملہ! یہ صرف مسلحانہ حملہ ہے؟! تو پھر دہشت گردی کیا ہے؟ اگر ان کی پسند کے کسی ایک شخص کے خلاف کہیں کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو فورا دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ان ساری چیزوں کی رٹ لگا دیتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں، اتنے واضح معاملے میں اس درندگی کو دہشت گردی کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ اس قماش کے لوگ ہیں۔

اس علاقے میں اور شاید ساری دنیا میں مجھے سعودی عرب جتنی بری کوئی حکومت نظر نہیں آتی۔ سعودی حکومت استبدادی حکومت بھی ہے، ڈکٹیٹر بھی ہے، ظالم بھی ہے، دوسروں کی پٹھو بھی ہے اور بدعنوان بھی ہے۔ ایسی حکومت کو وہ ایٹمی وسائل دے رہے ہیں۔ اعلان کیا ہے کہ اس کے لئے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کریں گے۔ اعلان کیا ہے کہ اس کے لئے میزائل بنانے والے مراکز کی تعمیر کریں گے! اس میں انھیں کوئی حرج نظر نہیں آتا، چونکہ وہ ان کی مٹھی میں ہے، چونکہ وہ ان کے اختیار میں ہے لہذا اس عمل میں انھیں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ البتہ یہ لوگ فی الحال اعلان ہی کر رہے ہیں اور اگر انھوں نے یہ مراکز تعمیر کر بھی دئے تو میں ذاتی طور پر ہرگز فکرمند نہیں ہوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں ان شاء اللہ زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ اسلامی مجاہدین کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گی۔

بنابریں شر پسندی اور شیطنت مغربی طاقتوں کی سرشت ہے، امریکہ اور یورپ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ امریکہ کی شر پسندی زیادہ ہے۔ امریکہ کی شر پسندی کئی وجوہات سے زیادہ ہے۔ یہ صرف اس شخص سے مختص نہیں ہے جو اس وقت اقتدار میں ہے۔ بالکل نہیں، یہ ان سب کی سیاست ہے۔ مجھے رپورٹ دی گئی کہ انھیں حالیہ مسائل میں، امریکی کانگریس نے، یہ بہت دلچسپ اعداد و شمار ہیں، اسلامی جمہوریہ کے خلاف گزشتہ دو برسوں میں 226 قراردادیں منظور کیں یا پیش کیں! اسلامی جمہوریہ کے خلاف 226 شر پسندانہ اور خبیثانہ قراردادیں! یہ شرپسندی ہی تو ہے۔ البتہ مجھے ایک شکایت اپنی پارلیمنٹ سے بھی کرنی ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے امریکہ کی خباثتوں کے خلاف کتنی قراردادیں پیش یا منظور کی ہیں؟ اب آپ دیکھ لیجئے کہ مغربی حکومتیں کیسی ہیں؟! ان سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

البتہ ملک کے اندر کچھ لوگ ہیں جو مغرب کی بڑی واہ واہی کرتے ہیں۔ مغرب کی برائیوں کا جواز پیش کرتے ہیں، رنگ و روغن لگاتے ہیں، رائے عامہ کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں ہونے دیتے کہ ظاہری طور پر بہت نیک نظر آنے والے فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کا باطن کس قدر شیطانی اور شر پسندانہ ہے۔ یہ حرکت کرنے والوں میں اخبارات کے لوگ بھی ہیں، میڈیا کے افراد ہیں، تقی زادہ جیسے لوگ ہیں۔ طاغوتی شاہی حکومت میں تقی زادہ جیسے شخص نے یہ بات کہی تھی کہ ایران کو چاہئے کہ سر سے پیر تک مغربی بن جائے، یعنی ایران میں مغربی طرز زندگی اپنا لیا جائے۔ آج کچھ نئے تقی زادے پیدا ہو گئے ہیں جو وہی باتیں دہرا رہے ہیں۔ البتہ اس صراحت کے ساتھ تو نہیں کہہ رہے ہیں لیکن ان کی باتوں کا ماحصل یہی ہوتا ہے۔ جو لوگ مغربی نظریات کو، مغربی طرز زندگی کو، مغربی عادات و اطوار کو، مغربی الفاظ کو کو مسلسل ملک کے اندر، ہمارے ادبیات میں، ہمارے افکار میں، ہماری یونیورسٹیوں میں، ہمارے اسکولوں میں انجیکٹ کر رہے ہیں، پھیلا رہے ہیں، وہ جدید زمانے کے تقی زادے ہیں۔ جو لوگ دستاویز 2030  کی پشت پناہی کرتے ہیں، دستاویز 2030 یعنی اسلامی طرز زندگی ترک کرکے مغربی طرز زندگی اختیار کرنا، وہ اس دور کے تقی زادہ ہیں۔ البتہ آج توفیق الہی سے ہمارے مومن نوجوان، ہمارے انقلابی عوام ان تقی زادوں کی خواہش پوری نہیں ہونے دیں گے۔

اس نکتے پر توجہ کیجئے! چونکہ کچھ لوگ مغالطہ پیدا کرتے ہیں اس لئے میں ذکر کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مغربی ممالک سے قطع تعلق کر لیا جائے۔ رابطہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مختلف حکومتوں کے زمانے میں، ان گزشتہ برسوں میں میں نے ہمیشہ حکومتوں کو مختلف ممالک سے روابط قائم کرنے کی ترغیب دلائی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ الگ انداز سے، اسلامی ممالک کے ساتھ الگ انداز سے، گوناگوں تحریکوں کے ساتھ الگ انداز سے، اسی طرح یورپی ملکوں کے ساتھ بھی الگ انداز سے، آج میں میرا یہی نظریہ ہے۔ روابط رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پیروی کرنے میں حرج ہے۔ بھروسہ کر لینے میں قباحت ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بھروسہ نہ کیجئے۔ شاید بہت سی یا کم از کم بعض مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ملکوں پر اعتماد کیا گيا۔ مختلف مذاکرات میں، مختلف معاہدوں میں، مختلف سیاسی فیصلوں میں مغربی حکومتوں پر اعتماد کیا گيا۔ روابط رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، رابطہ رکھئے، لیکن اپنے فریق مقابل کو پہچانئے۔ ان کی مسکراہٹ، ان کے حربے اور ان کی جھوٹی باتوں کے فریب میں آکر غلطی نہ کیجئے، غلط راستے پر نہ جائیے۔ میرا یہ کہنا ہے۔ رابطہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ خوش قسمتی سے آج ہمارے حکومتی عہدیداران اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مغربی حکومتوں کے ساتھ کسی راستے پر شانہ بشانہ نہیں چلا جا سکتا۔ یہ انھوں نے بھی محسوس کر لیا ہے۔ اس قضیئے میں جو یہ نیا ادراک پیدا ہوا ہے اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ان شاء اللہ عہدیداران کے روئے اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نظر آئے۔

مغرب کے بارے میں کچھ باتیں میں نے عرض کر دی ہیں تو یہ بھی کہتا چلوں کہ مغرب کے بارے میں دو متضاد رجحان پائے جاتے ہیں اور دونوں غلط ہیں۔ ایک رجحان بے جا تعصب اور رجعت پسندی سے عبارت ہے، مغرب کو پوری طرح نظر انداز کر دینے سے عبارت ہے۔ مغربی ممالک نے علم و سائنس کے میدان میں اچھا کام کیا ہے۔ ہمت دکھائی، پیشرفت حاصل کی، لگن سے کام کیا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی انھوں نے کام کیا۔ بعض اخلاقی خصوصیات میں بھی انھوں نے کام کیا اور میں نے اپنی تقاریر میں بارہا ان کا ذکر کیا ہے، ان چیزوں کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ اچھی چیز ہمیں دنیا میں جہاں بھی ملے لینا چاہئے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ کسی کی شاگردی اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جسے بھی ہم سے زیادہ علم ہے ہم اس کی شاگردی اختیار کریں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تاہم ہماری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ہمیشہ شاگرد ہی نہ بنے رہیں، بنابریں مغرب کے معاملے میں رجعت پسندانہ روش یا بے جا تعصب کہ ہم یہ کہنے لگیں کہ مغرب سے جو کچھ بھی آ رہا ہے وہ خواہ کچھ بھی ہو غلط ہے! نہیں، ہم یہ نہیں کہتے، ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس صورت حال ہے مغرب زدہ ہو جانا۔ مغرب زدہ ہو جانا بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔ مغرب زدہ پہلو حکومت کے اندر دینی مسائل کا گہرائی سے ادراک رکھنے والے روشن خیال مفکر یعنی جلال آل احمد مرحوم جو ایک عالم دین کے بیٹے، دینی حلقوں سے رابطے میں رہتے تھے، ہم سے بھی رابطہ تھا اور امام خمینی کی جلا وطنی کے دور میں ان سے بھی خاص عقیدت کا اظہار کرتے تھے، انھوں نے 1963 میں مغرب زدہ ہو جانے کا موضوع اٹھایا۔ آج یہ مسئلہ بہت اہم ہو گیا ہے۔ ہمیں اس موضوع کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ تعصب آمیز اور رجعت پسندانہ روش ایک طرف اور مغرب زدہ ہو جانا دوسری طرف، یہ دونوں ہی روشیں غلط ہیں۔ مغرب کے سلسلے میں جیسا کہ میں نے عرض کیا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ان پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے، تاہم ان کے علم سے اور دیگر مثبت چیزوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ مگر ان پر اعتماد ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا موقف ہے۔ تو یہ رہا دوسرا نکتہ۔

تیسری بات بیان کرنے کے ساتھ ہی میں اقتصادیات کے مسئلے پر اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ جب ہم مغرب پر اعتماد نہ کریں تو ملکی معیشت کے لئے کیا کریں؟ ملکی معیشت کا مسئلہ تو بہت اہم ہے۔ اس حقیر کا یہ کہنا ہے کہ ملکی معیشت کے فروغ کے لئے ہمیں ایک کام کرنے کی ضرورت ہے جو مجاہدانہ اور ساتھ ہی عالمانہ انداز میں انجام دیا جائے۔ تساہلی، بے رغبتی، کمزور ارادے کے ساتھ کام کرکے ملکی معیشت کا مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے۔ جہادی انداز سے کام ہونا چاہئے۔ ملکی معیشت کے امور پر جہادی مینیجمنٹ کا احاطہ ہونا چاہئے۔ فیصلہ کریں، جہادی کام۔ جہادی کام یعنی ایسا عمل جس میں محنت بھی ہے، نہ تھکنے کا جذبہ بھی ہے اور خلوص بھی ہے۔ یعنی انسان کو یہ ادراک و احساس ہے کہ وہ اپنے لئے، اپنی جیب بھرنے کے لئے کام نہیں کر رہا ہے بلکہ عوام الناس کے لئے کام کر رہا ہے۔ اللہ کے لئے کام کر رہا ہے۔ یہ بھی ہونا چاہئے اور ساتھ ہی عالمانہ انداز میں کام ہونا چاہئے۔ یعنی بیٹھ کر علمی و سائنسی معیاروں کے مطابق، باریک و ظریف ماہرانہ روشوں کی مدد سے صحیح راستے کا تعین کیا جائے۔ لوگوں میں علم و مہارت بھی ہو، وہ کارآمد بھی ہوں، گوناگوں وسائل بھی ان کے پاس ہوں، ایسے لوگ بیٹھ کر کام کریں تو ملک یقینا پیشرفت حاصل کرے گا۔

میں اقتصاد داں نہیں ہوں لیکن ماہرین کے نظریات اور تبصرے پڑھتا ہوں، مطالعہ کرتا ہوں۔ ان کی رائے لیتا ہوں، ان کی تجاویز کا باریکی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ ہمارے ماہرین کا یہ نظریہ ہے کہ اقتصادی نمو و ارتقاء کے لئے ہمارے وطن عزیز کے پاس تمام صلاحیتیں بھرپور انداز میں موجود ہیں۔ ہمارے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہماری افرادی قوت بہت اچھی ہے۔ ہمارے قدرتی ذخائر بہت اچھے ہیں۔ ہمارے پاس جغرافیائی خصوصیات بھی موجود ہیں جن میں بعض صلاحیتوں کا ذکر میں نے 'دوسرا قدم' سے موسوم اپنے بیان میں تشریح کے ساتھ کیا کہ یہ توانائیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ تو صلاحیتیں موجود ہیں۔ ملک میں پیسہ بھی موجود ہے۔ یہ لکویڈٹی جس کی مسلسل شکایت کی جاتی ہے کہ نقدی زیادہ ہے، یہ بات صحیح بھی ہے، اگر اس نقدی کی وافر مقدار پر توجہ نہ دی گئی تو اسے نقصان پہنچے گا، اگر بہترین انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے اور یہی نقدی سرمایہ کاری کی جانب مڑ جائے تو ملک تیزی سے پیشرفت کرے گا، معیشت اوپر جائے گی۔ تو ملک کے اندر صلاحیتیں اور توانائیاں موجود ہیں۔

بے شک بعض حکومتی اداروں نے بہترین انداز سے کام کیا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ کچھ کام نہیں ہوا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ بعض حکومتی اداروں نے کام کیا ہے، بہترین انداز سے کام کیا ہے۔ مختلف شعبوں میں، زراعت کے شعبے میں، پانی کے شعبے میں، مٹی کے شعبے میں، بعض علاقوں کے مسائل کے تصفئے کے سلسلے میں، ساختیاتی کاموں کے سلسلے میں بہت اچھے اقدامات کئے گئے ہیں۔ البتہ بعض شعبوں میں کام نہیں ہو سکا ہے، تساہلی اور کوتاہی نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی بعض شعبوں میں کام ہوتا تو ہے لیکن تاخیر اور ٹال مٹول کے ساتھ۔ میرے خیال میں دو ہزار چودہ یا پندرہ کی بات ہے ایک اعلی رتبہ عہدیدار نے حقیر کو ایک خط لکھا کہ ہم بینکنگ کے نظام، بینک کے مسائل، بینکنگ کے امور کی اصلاح کے لئے، واقعی ہماری اقتصادی مشکلات کا ایک بڑا حصہ بینکنگ کی مشکلات کی وجہ سے ہے، ایک بل تیار کر رہے ہیں چند مہینے بعد یہ بل پارلیمنٹ میں بھیج دیا جائے گا۔ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ چار سال ہو گئے ہیں لیکن یہ بل اب تک پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ سکا ہے! یہ تاخیر ہے، یہ تساہلی ہے۔ جن شعبوں نے اچھا کام کیا ہے ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ جن شعبوں میں تساہلی ہوئی ہے انھیں متنبہ کیا جانا چاہئے۔ میں نے بھی انتباہ دیا ہے۔ میں یہ باتیں عوامی اجتماعات میں اور وسیع عوامی جلسوں میں تب کہتا ہوں جب اس سے پہلے کئی بار متعلقہ افراد کو انتباہ دے چکا ہوتا ہوں۔ یہ چیزیں عوامی رائے عامہ کے مطالبات میں شامل ہونا چاہئیں۔

پروڈکشن کے شعبے کی مدد کی جانی چاہئے۔ ہم نے کہا پیداوار کا فروغ۔ یہ سال پیداوار کے فروغ کا سال قرار پانا چاہئے۔ گزشتہ سال ہم نے ایرانی مصنوعات کی حمایت کا سلوگن معین کیا تھا۔ اچھا کام ہوا۔ عوام نے تعاون کیا۔ بعض صنعت کاروں نے واقعی تعاون کیا۔ ہمیں اطلاع ہے کہ خود عوام الناس بھی جب شاپنگ سینٹرز پر جاتے ہیں تو بہت سے لوگ ایرانی سامان اور ایرانی مصنوعات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی برانڈ کی چیزیں انھیں دی گئيں لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔ یعنی کام آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ اس پر پوری طرح عمل ہوا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ رپورٹیں جو ملی ہیں وہ اس کے برعکس ہیں۔ بنابریں ایرانی مصنوعات کی حمایت کا سلوگن بدستور اپنی جگہ قائم ہے۔ تاہم اصلی اور کلیدی موضوع ہے پیداوار کا فروغ۔ اگر پروڈکشن ہوگا تو مختلف شعبوں میں تبدیلیاں آئیں گی۔ اگر پیداوار کو فروغ ملے گا تو اس کا مثبت اثر روزگار کے مواقع پر بھی پڑے گا، افراط زر کو کم کرنے میں بھی اس کا اثر ہوگا، بجٹ میں توازن پیدا کرنے میں بھی اس کا اثر ہوگا، ملکی کرنسی کی قدر میں اضافہ بھی ہوگا۔ آپ دیکھئے کہ یہ سب ہماری اہم اقتصادی مشکلات ہیں۔ صاحب نظر افراد، اقتصادی مسائل سے آگاہ افراد تصدیق کرتے ہیں، تائید کرتے ہیں کہ اگر ملک میں پیداوار کو فروغ ملے تو یقینا یہ سارے فوائد اور نتائج حاصل ہوں گے۔ یہ انجام پانا چاہئے۔ پروگراموں اور منصوبوں میں اسے جگہ ملنا چاہئے۔ حکومت کے منصوبوں میں بھی، پارلیمنٹ کے منصوبوں میں بھی، عوام کے اندر جو لوگ پروڈکشن کے میدان میں قدم رکھنے کی  توانائی کے مالک ہیں ان کے پروگراموں میں بھی۔ ایسے افراد تھے، ہم انھیں پہچانتے تھے کہ جن کے پاس پیسے تھے، وسائل تھے۔ وہ اپنا پیسہ بینک میں بھی رکھ سکتے تھے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع سے برسوں استفادہ کرتے رہتے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ وہ اپنا پیسہ پروڈکشن کے شعبے میں لے گئے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کو پیشرفت حاصل ہو۔ انھیں اللہ کی بارگاہ میں اجر ملے گا۔ جو لوگ اس نیت کے ساتھ کام کرتے ہیں اللہ تعالی انھیں اجر دے گا۔ پروڈکشن کے شعبے میں کام کرنے والوں کی مدد کی جانی چاہئے، سرمایہ کاری کرنے والوں کی مدد کی جانی چاہئے، اقتصادی شعبے میں کام کرنے والوں کی مدد کی جانی چاہئے، البتہ ان افراد کی جو دیانت دار ہیں، ان افراد کی جو ملک کے لئے ثروت پیدا کرتے ہیں مدد کی جانی چاہئے۔ کام اور روزگار کی فضا میں بہتری لانے کے لئے ضرور تعاون کیا جائے لازمی قوانین کے ذریعے اور لازمی روشوں اور طریقوں کے ذریعے۔

ایک اور شرط یہ ہے کہ غلط فائد اٹھانے کی کوششوں سے غفلت نہ برتی جائے۔ بعض لوگوں نے غلط فائدہ اٹھایا، غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، ایسے افراد بھی موجود ہیں اور ان کی گوناگوں قسمیں موجود ہیں۔ یہ ایرانی اختراعی صلاحیت، یہ خلاق ایرانی ذہن جس طرح اچھے کاموں میں بڑا کارگر ثابت ہوتا ہے اسی طرح بعض اوقات شیطنت میں بھی اپنی خلاقانہ صلاحیت دکھاتا ہے۔ غلط فائدہ اٹھانے کی بھی عجیب و غریب روشیں دکھائی دیتی ہیں اور رپورٹوں میں نظر آتی ہیں۔ عہدیداران کو چاہئے کہ اس کا خیال رکھیں۔ مجریہ بھی، عدلیہ بھی، دیگر نگراں ادارے بھی خیال رکھیں۔ میں نے یہ بات صدر محترم سے کہی۔ آپ نے اپنے ایک عوامی خطاب میں کہا کہ ہم فلاں جگہ کے کارخانے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ بہت احتیاط سے کام کیجئے۔ اس لئے کہ کوئی شخص آئے گا، آپ سے کارخانہ خریدے گا۔ لیکن وہاں کام کرنے کی غرض سے نہیں، پروڈکشن شروع کرنے کے مقصد سے نہیں۔ کارخانہ خریدے گا، اس میں موجود مشینیں فروخت کر دے گا اور اس کی زمین پر ٹاور بنا دے گا، ملازمین کو نکال کے باہر کر دے گا۔ ایسے افراد کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ غلط فائدہ اٹھانے والے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ کوئی شخص آتا ہے بینکوں کو فروغ دئے جانے کی سہولیات سے استفادہ کرتا ہے، ویسے یہ بھی ایک غلط کام ملک میں ہو رہا ہے کہ یونہی نئے نئے بینک کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، لوگوں کے پیسے جمع کرتا ہے، پھر جعلی کمپنیاں بنا لیتا ہے، عوام کے پیسے قرض اور لون کے طور پر لیتا ہے، بینک سے سہولیات حاصل کرتا ہے اپنی انھیں جعلی کمپنیوں کے لئے اور اپنی جیب بھر لیتا ہے۔ یہ سب کام ہو رہا ہے۔ ان چیزوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ان چیزوں پر روک لگائی جائے اور ان لوگوں کی مدد کی جائے جو واقعی ایماندار انٹرپرینیور ہیں، پروڈکشن کو فروغ ملے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کی مشکل حل ہو جائے گی۔ افراط زر کی مشکل حل ہو جائے گی۔ کمزور طبقات میں غربت کی مشکل حل ہو جائے گی۔ بینکنگ کے سسٹم کی مشکل بھی حل ہو جائے گی۔ ملکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کی مشکل بھی حل ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ حکومت کے بجٹ خسارے کا مسئلہ بھی پیداوار کے فروغ کی صورت میں حل ہو جائے گا۔ ان مشکلات کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ بنابریں یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔

ہم جب پروڈکشن کی بات کر رہے ہیں تو یہ صرف صنعتی پروڈکشن کی بات نہیں ہے۔ اس میں صنعتی پروڈکشن، زرعی پیداوار، مویشی فارمنگ، بڑی صنعتیں، اوسط درجے کی صنعتیں، چھوٹی صنعتیں، یہاں تک کہ دستکاری کی صنعتیں، گھریلو صنعتیں، مویشی پالنا، دیہاتوں کے گھروں میں چند مویشی پال لینا، یہ ساری چیزیں معاشروں میں عمومی معیشت کی بہتری کا ذریعہ ہیں۔ ان کے لئے بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ البتہ نالج بیسڈ صنعتوں کا کردار بہت زیادہ ہے۔ اس پر توجہ دینا چاہئے۔

بے تحاشہ امپورٹ پر روک لگنا چاہئے۔ جس استقامتی معیشت کی تجویز ہم نے دی ہے اور جسے ہمیشہ دیگر افراد، احباب، عہدیداران اور دوسرے افراد مستقل طور پر ذکر کرتے ہیں، استقامتی معیشت کا دم بھرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، تشریح کرتے ہیں، اس کا ایک اہم حصہ داخلی پیداوار سے مربوط ہے۔ داخلی پروڈکشن کے فروغ کا انحصار بے تحاشہ امپورٹ کو روکنے پر ہے۔ ہمیں رپورٹ دی جاتی ہے کہ استقامتی معیشت کے مد نظر ہم یہ اقدامات انجام دے رہے ہیں، ہم نے یہ پروگرام  ترتیب دئے ہیں اور ہم ان پم عمل کر رہے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ بے شک یہ رپورٹیں حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں۔ یعنی کام ہوا ہے، لیکن عملی طور پر ہدف پورا نہیں ہوا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امپورٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ انسان اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے کہ بازار میں امپورٹڈ مال بھرا ہوا ہے جو داخلی پروڈکشن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ جو چیز ملک کے اندر بن رہی ہے اسے بھی بیرون ملک سے امپورٹ کرتے ہیں۔ اس سے داخلی پروڈکشن ناکام ہو رہا ہے۔ عہدیداران اس کا سد باب کریں۔ یہ بہت اہم مسائل ہیں۔ ایسی صورت میں استقامتی معیشت اپنی حقیقی شکل میں سامنے آئے گی۔

میں ایک جملے میں عرض کر دوں کہ حکومتی ادارے اس سال پروڈکشن کو فروغ دینے پر ساری توجہ مرکوز کریں۔ اگر قوانین کی ضرورت ہے تو پارلیمنٹ سے کہیں کہ وہ اقدام کرے، اگر کچھ جگہوں پر عدلیہ کی مداخلت کی ضرورت ہو یا نگراں اداروں کے اقدام کی ضرورت ہو تو ان سے مطالبہ کریں۔ یہی میٹنگ جس کی شروعات ہم نے کروائی، جس میں عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہان جمع ہوتے ہیں، اسی میں مطالبہ کریں، اقدام کریں، تعاون کریں۔ ہر حال میں ملک کے اندر پروڈکشن کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ یہ تیسرا اہم نکتہ ہے۔

آخری بات مجھے نوجوانوں سے کہنی ہے۔ خطاب پوری قوم سے مگر خاص طور پر نوجوانوں سے ہے۔ سب سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ گوناگوں طبقات کی جانب سے، دانشوروں، نوجوانوں، طلبہ، علمائے کرام، دینی طلبا اور دوسروں کی طرف سے انقلاب کی چالیسویں سالگرہ پر 'دوسرا قدم' کے عنوان سے جاری کئے گئے بیان کے سلسلے میں جو پذیرائی اور تعاون دیکھنے میں آیا وہ بہت مناسب اور مسرت بخش تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشریح اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ پورے ملک میں خاص طور پر نوجوانوں کے اندر بھرپور آمادگی موجود ہے۔ ملک کے عہدیداران کو چاہئے کہ اس آمادگی سے بھرپور استفادہ کریں۔ مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ نوجوان چھوٹی اور بڑی ذمہ داریاں اپنے دوش پر اٹھانے کے لئے آمادہ ہوں۔ ملکی مشکلات کا حل یہی ہے۔ 'انقلاب کے دوسرے قدم' میں ہمیں ملک کی پیشرفت کی ذمہ داری نوجوانوں کو دینا چاہئے۔ جس طرح انقلاب کے دور میں پہلے قدم کے وقت قیادت و ہدایت تو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کرتے تھے لیکن ملک کو آگے لے جانے اور پیشرفت کی ذمہ داری نوجوانوں کے دوش پر تھی۔ ملک کو آگے وہی لے جا رہے تھے۔ اسی طرح آج آپ کی کوشش اور آپ کا ہم و غم یہ ہے کہ ملکی خود مختاری اور ملکی وقار کی حفاظت کریں۔ اس کی قیمت آج آپ ادا کر رہے ہیں۔ آج ملت ایران اور ہمارے نوجوانوں کو جو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے وہ مختلف پہلوؤں سے کامل خود مختاری کے حصول، قومی وقار اور اسلامی سماج تک رسائی کی قیمت ہے۔ آپ کو ملنے والی کامیابیوں سے آئندہ نسلیں استفادہ کریں گی۔ جس طرح ایک زمانے میں نوجوانوں نے طاغوتی شاہی نظام کے خلاف جدوجہد کی قیمت ادا کرنا گوارا کیا اور یہ قیمت چکائی، جیل گئے، انھیں زد و کوب کیا گيا، مگر نتیجے میں بحمد اللہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، طاغوتی نظام مٹ گیا۔ یا مسلط کردہ جنگ کے دوران خاندانوں نے ملکی دفاع کی قیمت ادا کی جس کے نتیجے میں آج آپ امن و سکون کی فضا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج آپ دشمن کے مد مقابل استقامت و پائیداری کی قیمت ادا کریں گے تو آئندہ نسلیں ان شاء اللہ آپ کو ملنے والی کامیابیوں سے استفادہ کریں گی۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انقلاب کے دوسرے قدم کے طور پر جو کام ہونا ہے اس میں سب سے پہلی چیز ہے اپنے پاس موجود سرمائے اور وسائل کی شناخت اور اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا۔ ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس کیا سرمایہ موجود ہے۔ اسے ہم سنجیدگی سے لیں۔ ہمیں اپنی خصوصیات اور اپنی صلاحیتوں، اپنے ملک کی خصوصیات اور اپنے ملک کی صلاحیتوں کی شناخت ہونا چاہئے۔ ان چیزوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ ان کو بروئے کار لانا چاہئے۔ ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ملک کے پاس وسیع صلاحیتیں موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم در پیش خطرات سے بھی آشنا ہوں۔ خامیوں سے آگاہ ہوں۔ دشمن کہاں سے در اندازی کر سکتا ہے اس کا ہمیں علم ہو تاکہ ہم سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کر سکیں۔ انقلاب کا دوسرا قدم آج یہ ہے کہ صلاحیتوں اور خصوصیات کی شناخت اور ان کا صحیح استعمال، خرابیوں، خامیوں، کمیوں، مشکلوں کی شناخت اور ان کے حل کے لئے سینہ سپر ہوکر ڈٹ جانا ہے۔ اس پر توجہ رکھئے کہ مغرب اور امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ملت ایران اگر کسی چیز کا عزم کر لیتی ہے تو اسے حاصل کرکے ہی رہتی ہے۔ لہذا رکاوٹ ڈالنے اور رخنہ اندازی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو اب وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کچھ ایسا کریں کہ ملت ایران عزم ہی نہ کر پائے! اس کا ارادہ کمزور پڑ جائے! وہ اس فکر میں ہیں۔ آج دنیا میں اربوں خرچ کئے جا رہے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کے سیاسی نظریات اور دینی عقائد میں رخنہ ڈال دیں تاکہ ان کے اندر آگے بڑھنے اور تحریک چلانے کا ارادہ باقی نہ رہے۔ وہ قوت ارادی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کوئی عزم نہ کریں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ پیشرفت حاصل کرنے، دشمنوں کا مقابلہ کرنے، اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اسلامی سماج کی تشکیل کا عزم و ارادہ ہی پیدا نہ ہو۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر یہ عزم پیدا ہو گیا تو اس کا پورا ہونا یقینی ہو جائے گا۔ البتہ پہلے بھی، برسوں قبل بھی انھوں نے یہی سب کچھ کیا تھا۔ طاغوتی شاہی دور میں بھی ملک کے نوجوان طبقے کے ذہن میں یہ القاء کیا جاتا تھا کہ اگر تمدن اور  پیشرفت چاہئے تو دین کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ کہا جاتا تھا کہ علم و پیشرفت اور دین و دینداری و ایمان میں کوئی تال میل نہیں ہے۔ آج وہ آئیں اور آکر اپنی تاریک آنکھوں سے خود دیکھ لیں کہ ہماری بہترین صنعتیں، ہماری بڑی اور پیشرفتہ صنعتیں جو دنیا میں پہلے نمبر کے ملکوں کا مقابلہ کر رہی ہیں وہ ہمارے ان نوجوانوں کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی ہیں جو دعائے کمیل کے عاشق ہیں، جو نماز شب کے پابند ہیں، جو اعتکاف میں بیٹھتے ہیں، جو دعائے ندبہ پڑھتے ہین، جو دیندار نوجوان ہیں۔ آج ہم دنیا کی پیشرفتہ صنعتوں کے میدان میں، نینو ٹیکنالوجی، نیوکلیئر ٹیکنالوجی، میزائل ٹیکنالوجی، بایو ٹیکنالوجی، دنیا کی دیگر پیشرفتہ ٹیکنالوجیوں کے میدان میں بہت اوپر ہیں۔ ہم پہلی صفوں میں ہیں۔ ان میدانوں میں کام کرنے والے اکثر و بیشتر دیندار نوجوان ہیں۔ ان میں بہت سوں کو ہم قریب سے جانتے ہیں۔ علم کے میدان میں، فکر و معرفت کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، محنت و مشقت کے میدان میں نوجوان اپنی مساعی اور تیز کریں۔ نوجوان فروعی اور غیر ضروری مسائل میں نہ الجھیں۔ اختلافی باتوں میں نہ پڑیں۔ اتحاد کو، منظم مساعی کو، مومنانہ و مجاہدانہ اقدامات کو نوجوان جاری رکھیں۔ جن شعبوں کی بات کی گئی ان کے بارے میں دشمنوں سے اپنا فاصلہ قائم رکھیں لیکن جب اپنے افراد کی بات ہو، داخلی افرادی قوت کی بات ہو تو معمولی سے اختلاف رائے کو تنازعے کا سبب نہ بننے دیں۔ جس طرح امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ جتنا چیخنا ہے دشمن پر، امریکہ پر چیخئے! حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر ادارے جہاں تک ممکن ہو اس پیشرفت کے لئے ملک کے نوجوانوں کی مدد کریں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، البتہ پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں، فضل پروردگار سے اس ملک کا مستقبل اس کے زمانہ حال سے ان شاء اللہ بہت زیادہ تابناک ہوگا۔ 

پروردگارا! بحق محمد و آل محمد ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کرتے ہیں، اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے، ہم سب کے اس عمل کو قبول فرما۔ ہمیں اسلام کے حقیقی سپاہیوں میں اور راہ حق کے حقیقی مجاہدین میں قرار دے۔ ہمارا درود و سلام حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کو پہنچا۔ ان بزرگوار کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما۔ شہدا کی پاکیزہ ارواح اور بزرگوار امام کی روح طیبہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة‌ الله و‌ برکاته

۱) رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مقدس آستانے کے متولی حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔

2) قم کے مختلف عوامی طبقات سے مورخہ  9 جنوری 2019 کا خطاب

3) امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن