28 اپریل 2019 کی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے رواں سال کے نعرے 'پیداوار کا فروغ' کو عملی جامہ پہنانے اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ پولیس کے محکمے کو چاہئے کہ اسمگلنگ اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو غیر محفوظ بنانے والے عناصر کا مقابلہ کرے (1)۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز بھائیو، پولیس فورس کے خدمت گزار اور محنت کش کارکنان! خوش آمدید! پولیس فورس کی خدمت گزاری اور محنت و مشقت بحمد اللہ آج ہمارے عوام کے بڑے طبقے کے لئے واضح ہے۔ گزشتہ برسوں میں اور مختلف ادوار میں پولیس فورس کے لئے میری ہمیشہ یہ سفارش رہی ہے کہ آپ کے اندر ایک پہلو قوت و طاقت کا ہے اور ایک پہلو رحمدلی اور عطوفت کا ہے۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ آپ کی قوت و طاقت بھی اس ملت کے لئے کارگر ہے اور آپ کی رحمدلی و عطوفت بھی اس قوم کے کام آنے والی چیز ہے۔ اس رحمدلی کو بحمد اللہ عوام دیکھ رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں پولیس فورس کی قوت و طاقت بھی نمایاں ہے۔

واقعی آپ بڑی زحمت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوروز کے ایام میں سب لوگ عید اور جشن وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں، اپنے اہل خانہ کے درمیان ہوتے ہیں مگر آپ سڑکوں پر، شہروں میں، کبھی کہیں تو کبھی کہیں، اپنے کام اور محنت میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کو عوام محسوس کرتے ہیں۔ اس دفعہ سیلاب کے مسئلے میں بھی پولیس فورس کی کارکردگی درخشاں رہی۔ اس نے خدمت بھی کی اور امن و سلامتی کو بھی یقینی بنائے رکھا۔ پولیس فورس کی حالت بحمد اللہ اچھی ہے۔ لیکن جیسا کہ محترم کمانڈر جناب اشتری صاحب نے ذکر کیا یہ پولیس فورس کے لئے ہماری مثالی پوزیشن نہیں ہے۔ اچھی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ماضی سے بہتر ہے، آپ نے پیشرفت کی ہے، آپ آگے بڑھے ہیں۔ خود متحرک ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ ٹھہراؤ، سکوت، پسپائی اور تنزل عیب ہے۔ تحرک اور پیشرفت اچھی چیز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پولیس فورس آج بالکل اس مثالی پوزیشن میں پہنچ گئی ہے جو اسلامی جمہوری نظام کو مطلوب اور اس کے شایان شان ہے۔ آپ کو اس سطح پر پہنچنے کے لئے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

برادران عزیز دیکھئے! پولیس فورس کے اندر اچھے افراد اور اچھے انسانوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن اگر اچھے لوگوں کی اس بڑی تعداد کے ساتھ چند لوگ ایسے بھی ہوں جو اچھے نہیں ہیں تو ان تمام خصوصیات اور افتخارات پر عوام کی نظر میں سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ یعنی مثال کے طور پر اگر کسی ایک پولیس اسٹیشن میں کوئی ایک اہلکار نابکار ہو اور دن کے کسی حصے میں جب وہ وہاں تعینات ہے لوگ آئیں اور ناراض ہوکر لوٹیں، بد گمانی لیکر لوٹیں، اس اہلکار میں انھیں صداقت، دیانت داری اور خدمت کا جذبہ نظر نہ آئے تو پوری پولیس فورس کے بارے میں ان کی وہی سوچ ہو جائے گی۔ لہذا کوشش کیجئے کہ اس پوری لائن میں آخر تک۔ اوپر سے نیچے ایک عمودی لائن فرض کیجئے۔ اوپر کمانڈر سے لیکر بالکل نیچے تک کے اہلکاروں  پر نظر رکھئے، نگرانی کرتے رہئے۔

ایک اور اہم نکتہ ہے جو میں نے یہاں نوٹ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے 'پیداوار کے فروغ'  کا جو نعرہ منتخب کیا ہے اس کے بارے میں آپ بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کردار ادا کرنے سے مراد وہی ہے جو جناب عالی نے ذکر کیا کہ اگر امن و سکون ہوگا تو معیشتی سرگرمیاں فطری طور پر آسان ہو جائیں گی، ممکن ہوں گی۔ اگر امن و سلامتی نہ ہو تو اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوگی بلکہ شاید ناممکن بھی ہو جائیں۔ تو پرامن ماحول قائم کرکے آپ اس مطلوبہ ہدف یعنی اقتصادی ترقی میں مدد کر سکتے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے، البتہ صرف یہی واحد راستہ نہیں ہے۔ اقتصادی نمو میں موجود مشکلات میں سے ایک اسمگلنگ بھی ہے۔ اسمگلنگ اور بے تحاشہ امپورٹ، البتہ اس کے عہدیداران الگ ہیں، یہ جو کسٹم سے اور مختلف سرکاری راستوں سے امپورٹڈ اشیا تیزی سے ملک میں آتی ہیں، یہ ایک بڑی مشکل ہے۔ اسمگلنگ کا مسئلہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اسمگلنگ کا حقیقی معنی میں سد باب کریں۔ آج بد قسمتی سے دو طرفہ اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ کچھ چیزیں اسمگلنگ کے ذریعے ملک میں لائی جا رہی ہیں جو پیداواری شعبے کو نابود کر رہی ہیں، ناکام بنا رہی ہیں، کچھ چیزیں ہیں جو ملک سے اسمگل ہوکر باہر جا رہی ہیں۔ اس وقت بھی ہمارے پاس رپورٹ موجود ہے کہ عوام کی ضرورت کی بعض چیزوں، زرعی اشیاء وغیرہ کو کسان سے یا اس کی پیداوار کرنے والوں سے زیادہ قیمت پر خریدا جاتا ہے اور اسے لے جاکر کسی اور ملک میں بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ صرف منافع کمانے کے لئے نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پوری صورت حال کے پیچھے ایک فکر اور ایک ہاتھ کام کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ایسی جگہوں پر نشانہ لگاتے ہیں کہ یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی بری نیت کار فرما ہے۔ صرف یہ قضیہ نہیں کہ کوئی شخص منافع کمانے کے لئے ایسا کر رہا ہے۔ اگر ان چیزوں پر آپ نظر رکھیں تو میرے خیال میں یہ بہت اچھا ہوگا۔

ملک کے اندر ایک اور شعبے میں بھی آپ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کا تعلق پیداوار کے فروغ سے نہیں ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی سیکورٹی کا میدان ہے۔ آج عوام کی زندگی میں سوشل میڈیا کا دخل پانچ سال اور دس سال پہلے جیسا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کی وسعت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس سائيبر اسپیس کے کچھ فوائد ہیں، کچھ وسائل ہیں، لیکن ساتھ ہی کچھ خطرات بھی ہیں، کافی بڑے خطرات ہیں۔ اگر یہ میدان عوام کے لئے غیر محفوظ رہے گا تو لوگ اس کا نقصان اٹھائیں گے۔ آپ نے جو خصوصی شعبے قائم کئے ہیں وہ بھی کام کر رہے ہیں، لیکن اس میدان میں آپ حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی سے قدم رکھئے اور کام کیجئے۔ ایسی صورت میں عدلیہ سے آپ کا تعاون اس مسئلے میں بھی اور اول الذکر مسئلے یعنی پیداوار کی فروغ اور اسمگلنگ کے مسئلے میں بہت اہم ہو جاتا ہے۔

بہت سے ممالک کے مقابلے میں ہمارے وطن عزیز کے دشمن کافی زیادہ ہیں۔ دشمن دراندازی کے راستے تلاش کر لیتا ہے۔ دراندازی کا ایک راستہ یہی سوشل میڈیا ہے۔ آپ بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہت اہم رول نبھا سکتے ہیں۔ اس مسئلے میں پوری طرح اور پوری سنجیدگی سے قدم رکھئے۔

ایک اور مسئلہ اسلحے کی خرید و فروخت کا ہے۔ دنیا میں کچھ جگہیں ہیں جہاں معروف کمپنیوں کے مفادات کی خاطر اسلحے کی خرید و فروخت آزاد ہے، وہ خود اس مصیبت میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکہ کئی سال سے، یعنی یہ آجکل کی بات نہیں ہے، یہ بڑی سنجیدہ بحث ہے، اس فکر میں ہے کہ اسلحے کی خرید و فروخت کی آزادی کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ کچھ لوگ جو ہمدرد ہیں اور اپنے معاشرے کے مستقبل کی جنہیں فکر ہے، وہ زور دے رہے ہیں کہ اس پر روک لگنا چاہئے۔ کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اسلحہ ساز کمپنیوں سے ساز باز کر رکھی ہے، واقعی ایک مافیا کی شکل میں کام کرتے ہیں، وہ کچھ نہیں ہونے دے رہے ہیں، وہ اس پر روک نہیں لگنے دیتے۔ وہ لوگ اسی میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے یہاں یہ مشکل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں اسلحے کی خرید و فروخت ممنوع ہے، لیکن پھر بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کی فروخت کا اعلان کیا جاتا ہے، کچھ لوگ خریدتے بھی ہیں اور بیچتے بھی ہیں، اسے سوشل میڈیا پر دکھاتے بھی ہیں۔ ہمدان کے عالم دین کے اسی قاتل نے اسلحے کے ساتھ اپنی کئی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی تھیں، انسٹاگرام میں یہ تصویریں ڈالی تھیں کہ میرے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں۔ چار طرح کے ہتھیار میں نے دیکھے، الگ الگ قسم کے ہتھیار تھے۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ ہم اس کی اجازت کیوں دیں؟ اسے روکنے کا کام کس کا ہے؟ یہ کام آپ کا ہے۔ یعنی دوسروں سے زیادہ یہ ذمہ داری آپ کی ہے۔

میری نظر میں پولیس فورس اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس محکمے نے اب تک بحمد اللہ بہت اچھی طرح کام کیا ہے۔ اگر پولیس محکمے کے معاملے میں کوئی شخص ان پسندیدہ، مطلوبہ اور مسرت بخش حقائق کو نظر انداز کرتا ہے تو یہ بے انصافی ہے۔ یعنی پولیس فورس آج برسوں قبل کی پولیس فورس سے بہت الگ ہے۔ انقلاب سے پہلے کی پولیس فورس سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ انقلاب سے پہلے کی صورت حال آپ میں سے اکثر کو یاد نہیں ہوگی لیکن ہمیں یاد ہے۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے۔ ہم نے معاشرے کے اندر بھی ان کا برتاؤ دیکھا ہے اور چونکہ ہم انقلابی جدوجہد وغیرہ میں بھی تھے اس لئے پولیس کارروائی کا ہمیں خود بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہم دیکھتے تھے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ اس کی تو بات ہی الگ ہے۔ میں اس دور سے موازنہ نہیں کروں گا۔ انقلاب کے بعد بھی کئی سال تک اس محکمے میں کچھ جگہوں پر خامیاں تھیں۔ کمزوریاں تھیں۔ ان کے بارے میں بدگمانی تھی، بعض جگہوں پر ضوابط کے خلاف برتاؤ دیکھنے میں آتا تھا۔ اب اس طرح کے بہت سے مسائل کی اصلاح ہو چکی ہے۔ خامیوں کو دور کیا گيا ہے، پیشرفت نظر آتی ہے۔ ان چیزوں کو واقعی دیکھنا چاہئے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ مطلوبہ پوزیشن کا ایک حصہ ہے، یہی مکمل طور پر مطلوبہ پوزیشن نہیں ہے۔ اللہ سے طلب نصرت کیجئے اور جدت عملی کے ساتھ، غور و فکر کے ساتھ، سچی نیت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے شایان شان پولیس فورس کی منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہئے۔

و السّلام علیکم  و‌ رحمة‌ الله

۱) اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پولیس فورس کے سربراہ بریگيڈیئڑ جنرل حسین اشتری نے اپنی رپورٹ پیش کی۔