امام خمینی کی تیسویں برسی کی مناسبت سے 4 جون 2019 کو ہونے والے اس اجتماع سے اپنے خطاب میں رہبر انقلاب  اسلامی نے ملکی حالات کا جائزہ لیا اور امریکہ کی پالیسیوں اور حربوں کے بارے میں گفتگو کی۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین المعصومین الهداة المهدیّین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

آج اس تلخ تاریخی دن کے تیس سال پورے ہوئے ہیں۔ ہمارے محبوب اور بزرگوار امام کے فراق کے تیس سال، اس تاریخی رخصت اور پرشکوہ اور عدیم المثال وداع کے تیس سال جو عوام نے اپنے عزیز اور بے نظیر امام سے کیا۔ ان تیس برسوں میں بڑی کوششیں ہوئیں کہ امام کی یاد اور امام کا نام کم رنگ ہو جائے۔ بڑی شیطنتیں انجام دی گئیں کہ اسلامی جمہوریہ کے بڑے انتظاماتی امور میں امام کے اصول، امام کی فکر اور امام کی راہ کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہمارے بزرگوار امام کی بے مثال جاذبیت پھیکی پڑ جائے، کم ہو جائے۔ تیس سال سے گوناگوں دشمنوں کی جانب سے اور بعض اوقات کچھ غافل افراد کی طرف سے اس طرح کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن سچائی مخالفین اور دشمنوں کی مرضی و چاہت کے بالکل برخلاف پھیلتی رہی۔ سچائی یہ ہے کہ امام کی کشش نہ فقط یہ کہ کم نہیں ہوئی بلکہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کی ایک علامت آج کا یہی عظیم الشان اجتماع ہے۔ بزرگوار امام کی رحلت کے تیس سال بعد اتنا عظیم اور جوش و جذبے سے چھلکتا ہوا یہ مجمع ماہ رمضان کے اس دن، ماہ رمضان کی اس شام کو اس گرمی میں ان کی برسی کا پروگرام بھرپور جوش و جذبے سے منعقد کر رہا ہے۔ دنیا میں کہاں ایسی کوئی مثال دکھائی دیتی ہے؟!

امام کی کشش کا ایک اور منظر چند روز قبل یوم قدس کے جلوسوں میں بھی آپ نے دیکھا اور ساری دنیا نے دیکھا۔ چالیس سال قبل بزرگوار امام نے کلیدی مسئلہ فلسطین کے دفاع کے لئے یوم قدس کا آغاز کیا۔ چالیس سال ہو چکے ہیں لیکن یوم قدس پر کوئی کہنگی نہیں آئی۔ اس سال سو سے زائد ملکوں میں یوم قدس کے موقع پر امام خمینی کی یاد میں جلوس نکالے گئے۔ جبکہ امریکہ کی استکباری پالیسیوں، امریکہ کے حلقہ بگوشوں اور امریکہ کی پیروی کرنے والوں کی پالیسی تو یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو پوری طرح فراموش کر دیا جائے، یہ پورا قضیہ ہی سرے سے بھلا دیا جائے۔ آپ اس تعلق سے امریکیوں کی خباثت اور بعض عرب رہنماؤں کی خیانت کی خبریں سن ہی رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہمارے بزرگوار امام کی گہری تاثیر کا نتیجہ  یہ ہے کہ سو سے زائد ملکوں میں قدس کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، حکومتی عہدیداروں اور سیاسی ترجمانوں کے ذریعے نہیں بلکہ عوام الناس کے ذریعے، مسلم آبادی کے ذریعے۔ یہ امام کی جاذبیت کی نشانی ہے جو آپ کی رحلت کے تیس سال بعد بھی اسی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ دنیا میں کوئی بھی دوسری جاذبیت اس کی برابری نہیں کر سکتی۔ البتہ میں یہیں پر اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے عزیز عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا چلوں کہ انھوں نے رمضان کے مبارک مہینے کے آخری جمعے کو ملک بھر میں پروقار اور عظیم الشان اجتماعات کئے، کثیر تعداد میں میدان میں نکلے۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام نے امام کی سفارش اور اپیل کے سلسلے میں کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگزار نہیں کیا اور نہ کریں گے۔

اس جاذبیت کا راز کیا ہے؟ بزرگوار امام کی یہ کشش کہاں سے پیدا ہوئی؟ اس بحث کا صرف ایک گوشہ میں آپ کی خدمت میں  پیش کرنا چاہوں گا۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ امام خمینی کی شخصیت کی کچھ خصوصیات تھیں، اللہ تعالی کے عطا کردہ کچھ اوصاف تھے، یہ خصوصیات اللہ تعالی نے انھیں عطا کی  تھیں۔ بہت کم ہی لوگوں کے اندر یہ خصوصیات اس حد تک جمع ہو پاتی ہیں۔ امام کے اندر یہ خصوصیات تھیں۔ وہ شجاع انسان تھے، وہ مدبر اور حکیمانہ نظر رکھنے والے انسان تھے، وہ پارسا و پرہیزگار انسان تھے، اللہ تعالی سے گہرا قلبی رابطہ رکھتے تھے، ذکر پروردگار کے شیدائی تھے، امام خمینی ظلم سے لڑنے والے انسان تھے، وہ ظلم کے سلسلے میں ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے، ظلم کے خلاف جدوجہد کرتے تھے، مظلوم کے حامی تھے، استکبار کے مخالف تھے، امام خمینی عدل و انصاف کے حامی تھے، مظلومین کے طرفدار تھے، مظلومین کے مددگار تھے، اہل صداقت انسان تھے، وہ عوام سے ہمیشہ سچ بولتے تھے، عوام کے سامنے وہی بات بیان کرتے تھے جو ان کے دل میں ہوتی تھی اور ان کا جو دلی احساس ہوتا تھا۔ عوام سے بڑی سچائی سے پیش آتے تھے۔ راہ خدا میں جدوجہد میں لگے رہنے والے تھے، کبھی خالی نہیں بیٹھتے تھے، دائمی طور پر جدوجہد میں مصروف رہتے تھے۔ اس آیہ کریمہ کے مصداق تھے؛ فَاِذا فَرَغتَ فَانصَب * وَ اِلیٰ رَبِّکَ فَارغَب؛(۱) جیسے ہی کوئی بڑا کارنامہ مکمل کرتے تھے فورا کسی دوسرے بڑے کارنامے پر ان کی نظریں مرکوز ہو جاتی تھیں اور اس کی کوشش میں لگ جاتے تھے۔ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے انسان تھے۔ یہ امام کی جاذبیت اور کشش کے علل و اسباب ہیں۔ یہ تمام خصوصیات امام کے اندر مجتمع تھیں۔ جس کسی کے اندر بھی یہ سبھی خصوصیات پائی جاتی ہوں دل اس کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ یہ وہی عمل صالح ہے جس کے تعلق سے اللہ تعالی فرماتا ہے: اِنَّ الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ سَیَجعَلُ لَهُمُ الرَّحمانُ وُدًّا؛(۲) یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ یہ محبت اللہ کی پیدہ کردہ محبت ہے۔ مسلط کردہ اور جبرا کسی کے دماغ میں بٹھا دی جانے والی اور پرچار کے ذریعے پھیلائی جانے والی محبت و عقیدت نہیں ہے۔ یہ کار خدا ہے، یہ دست خدا سے انجام پانے والا کام ہے۔

امام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت کے بارے میں آج میں آپ کی خدمت میں قدرے تفصیل سے گفتگو کرنا چاہوں گا۔ یہ استقامت و مزاحمت کی خصوصیت ہے۔ پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت۔ یہ وہ چیز ہے جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظرئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔ اس زمانے کے لئے بھی اور تاریخ میں درج ہو جانے کے لئے ان کی یہی خصوصیت تھی۔ استقامت کی خصوصیت، مزاحمت کی خصوصیت، مشکلات اور رکاوٹوں کے سامنے حوصلہ نہ ہارنے کی خصوصیت۔ طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں امام نے اپنی مزاحمت کا لوہا ساری دنیا سے منوایا۔ خواہ وہ ملک کے اندر موجود طاغوتی طاقت ہو جس کے خلاف تحریک کے دوران بہت سے لوگ مایوسی کے دہانے پر پہنچ گئے لیکن امام پوری استقامت کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ امام نے ذرہ برابر بھی پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ جدوجہد میں مصروف رہے۔ یہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کی صورت حال تھی۔ جب اسلامی انقلابب کامیاب ہو گیا تو اب دباؤ کی نوعیت دوسری ہو گئی اور امام کے سامنے ہر جہت سے سختیاں پیش آنے لگیں لیکن اس مرحلے میں بھی امام نے استقامت اور پائيداری کا دامن نہیں چھوڑا، مزاحمت کرتے رہے۔ میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔ مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ «فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم» (۳) دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ دشمن کی کوششیں اور دشمن کی دھمکیاں امام کے اندازوں اور تخمینوں کے نظام کو درہم برہم نہیں کر سکیں۔ دشمنوں کا ایک اہم حربہ یہی ہوتا ہے۔ جب وہ آپ کے سامنے آتے ہیں اور آپ کی نیت سے اور آپ کے فیصلے سے آگاہ ہوتے ہیں تو اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ آپ کے اندازوں اور تخمینوں کو بدل دیں۔ آپ کے اندازے اور تخمینے درہم برہم ہو جائیں۔ گوناگوں میدانوں میں دشمنی کا ایک حربہ یہی ہوتا ہے۔ دشمن امام خمینی کے اندازوں اور تخمینوں کے نظام میں کہ جو دین مبین اسلام کی مسلمہ تعلیمات پر مبنی تھا، کوئی بھی خلل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ جانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آ جاتا ہے، کوئی گڑھا آ جاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آ جائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آ جائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے؟ امام کا موقف تھا دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔ جب آپ رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کرنے اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل  میں کامیاب ہو گئے تو آپ نے اعلان کر دیا کہ ہم نہ تو ظلم کریں گے اور نہ ظلم برداشت کریں گے۔ ظلم نہیں کریں گے لیکن ظلم سہیں گے بھی نہیں۔ ظالم سے کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے اور مظلومین کی حمایت کریں گے، یہ امام کا موقف تھا۔

یہ موقف دین کے بطن سے ماخوذ ہے، یہ قرآنی متن ہے۔ قرآن بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے اور عقل سلیم بھی اس کی حمایت کرتی ہے۔ ظلم سے مقابلہ کرنا، مظلوم کا دفاع کرنا، ظالم سے تعاون کرنا اور کوئی سمجھوتا نہ کرنا ایسی چیز ہے جسے دنیا کے سارے صاحب خرد افراد پسند کرتے ہیں۔ امام اپنے اسی موقف پر ثابت قدم رہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیا میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا طے تھا۔ یہ چیز کہ ایشیا کے قلب میں، اس حساس خطے میں، ایران میں ایسی حکومت تشکیل پا جائے جس کا نعرہ یہ ہو کہ ظلم سے کوئی سمجھوتا نہیں  کرے گی، ظلم کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی، ظالم سے ہرگز کوئی مصالحت نہیں کرے گی، مظلوم کی حمایت کرے گی تو صاف ظاہر ہے کہ ان طاقتوں کے لئے وہ بہت سخت اور ناقابل تحمل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ روز اول سے دشمنیاں شروع ہو گئیں۔

دشمنی کا آغاز ان لوگوں نے کیا جو اہل ظلم تھے، جو جارحیت میں ملوث تھے، جو باج خواہی میں مصروف تھے۔ یہ لوگ امام خمینی کے پیغام کی ماہیت یعنی اسلامی جمہوری نظام سے فطری طور پر کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ روز اول سے دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ انقلاب کے پہلے عشرے میں، امام خمینی کی بابرکت زندگی میں ایک طرح سے اور امام کی رحلت کے بعد بھی ان دو تین دہائیوں میں کسی اور انداز سے۔ امام نے اس بزدلانہ اور خباثت آمیز حملے کے جواب میں روز اول سے ہی مزاحمت کی فکر، پائيداری کی فکر، راہ اور منزل کو ہرگز آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دینے کی فکر کی بنیاد رکھی  اور ایک درس کے طور پر، ایک راستے کی حیثیت سے، ہمارے لئے، ملت ایران کے لئے، مجاہدین کے لئے، ملک کے عہدیداران کے لئے اس راہ کے خطوط کو واضح کر دیا کہ ہم اس راہ پر آگے بڑھ سکیں۔

یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظرئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے جیسا کہ بعض سیاسی رہنما اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔ کیا یوم قدس کے لئے اس سال ہم نے ان ملکوں میں جاکر کہا کہ آپ بھی ریلیاں نکالئے؟ انھوں نے خود بخود یہ کام کیا، خود ان میں چاہت پیدا ہوئی۔ مزاحمت و استقامت خود بخود قوموں کی پسند بنی۔ آج ہمارے علاقے میں، مغربی ایشیا کے علاقے میں قوموں کا مشترکہ اور متفقہ نعرہ ہے مزاحمت۔ مزاحمت و استقامت کو سب پسند کرتے ہیں۔ البتہ بعض مزاحمت و استقامت کے میدان میں اترنے کی ہمت کر بیٹھتے ہیں اور بعض اس کی ہمت نہیں جٹا پاتے، تاہم جو لوگ ہمت کرکے میدان میں اتر رہے ہیں ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ ان برسوں میں امریکیوں کو عراق میں، شام میں، لبنان میں اور فلسطین میں جو شکستیں ہوئی ہیں اور جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ مزاحمتی تنظیموں کی مزاحمت کا ہی ثمرہ ہے۔ مزاحمتی محاذ آج ایک طاقتور محاذ ہے۔

البتہ ہم اس کے منکر نہیں ہیں کہ چونکہ ملت ایران نے مزاحمت و استقامت کا راستہ پوری مضبوطی سے تھاما اور آگے بڑھی اور کامیاب ہوئی اس لئے دوسروں کو بھی مزاحمت و استقامت کی ترغیب ملی۔ یہ بات غیر ایرانی مفکرین اور بین الاقوامی سیاسی مبصرین بھی کہتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں۔ ایک معروف بین الاقوامی تجزیہ نگار جو امریکی ہیں اور سب ان کے نام سے واقف بھی ہیں، صاف طور پر کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ سے امریکہ کی دشمنی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے مزاحمت و استقامت کا راستہ اختیار کیا اور کامیاب ہوئی، فتحیاب ہوئی، رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ دشمنی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ان کی تمنا یہ تھی کہ ہمیں شکست ہوتی، وہ خواب دیکھ رہے تھے کہ ہم اپنے مشن سے منصرف ہو جائیں، ان کی چاہت یہ ہے کہ ہم سر تسلیم خم کر دیں، چونکہ ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں اس لئے وہ دشمنی پر تلے ہوئے ہیں۔

آپ توجہ فرمائیے تاکہ میں یہاں ایک اہم اور ضروری نکتہ پیش کروں۔ امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہوکر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ ہمارے عظیم قائد کی طرف سے مزاحمت کا راستہ منتخب کئے جانے کی بنیاد اور پس منظر ایک علمی و منطقی پس منظر تھا، عقلی و علمی اور بلا شبہ دینی پس منظر تھا۔ امام کی استقامت اور مزاحمت کی پشت پر منطقی فکر کارفرما تھی۔ اب میں اس منطق کے اجزا میں سے بعض کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔

اس منطقی فکر کا ایک جز یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر با وقار اور آزاد منش قوم کا فطری رد عمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے، انسدادی اقدام کرتی ہے، استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اپنی جگہ پر خود یہ جذبہ ایک محکم دلیل اور اطمینان بخش وجہ ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔

دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔ ہم یہی کر رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ میں ہمارا جو تجربہ ہے اس سے یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں اس وقت بھی بہت سی مثالیں ہیں، تاہم اس وقت میں نہیں چاہتا کہ یہ بحث شروع کروں اور مثالوں کا ذکر کروں۔ میں مجموعی طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے جس مسئلے میں بھی استقامت و مزاحمت کا راستہ چنا ہم آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے، جہاں ہم نے ہتھیار ڈال دئے اور فریق مقابل کی مرضی کے مطابق کام کرنے لگے وہیں ہمیں ضرب کھانی پڑی۔ اس کی واضح مثالیں موجود ہیں اور سمجھدار اور آگاہ افراد اسلامی جمہوریہ کی چالیس سالہ زندگی میں اس کی مثالیں بہ آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ اس منطقی فکر کا ایک اور جز ہے۔

مزاحمت کی منطق کا تیسرا حصہ وہ چیز ہے جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت  و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پہلوی حکومت نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال رکھے تھے، بسا اوقات وہ اس سے ناخوش تھی، ناراض ہوتی تھی لیکن بہرحال اس نے ہتھیار ڈال رکھے تھے، امریکہ سے ڈرتی تھی، تو نتیجے میں تیل بھی دیتی تھی، پیسہ بھی دیتی تھی، باج بھی ادا کرتی تھی اور طمانچہ بھی کھاتی تھی! آج وہی حالت سعودی حکومت کی ہے۔ پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے (5)۔ (میں گزارش کرتا ہوں کہ توجہ سے سنئے، ہم ابھی جنگ کی بات نہیں کر رہے ہیں، مزاحمت کی بات کر رہے ہیں۔ جنگ کی بحث الگ ہے۔ میں استقامت و مزاحمت کرنے اور پسپائی اختیار نہ کرنے کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں، توجہ فرمائیے۔)

اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی اس کا چوتھا حصہ اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔ قرآن کریم کی آیتوں کی مثالوں میں سے میں دو تین آیتیں یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ عزیز نوجوان جو قرآن سے نسبت رکھتے ہیں وہ ان سے رجوع کریں اور ان کے بارے میں غور کریں۔ اَم یُریدونَ کَیدًا فَالَّذینَ کَفَروا هُمُ المَکیدون؛(۶) وہ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ حق کے محاذ اور مزاحمتی محاذ کے خلاف زمین تیار کر رہے ہیں، سازش تیار کر رہے ہیں لیکن انھیں کیا خبر  کہ قدرت اور سنت خداوندی کے مطابق سازش خود ان کے اپنے خلاف تیار ہو رہی ہے۔ دوسری آیت کہتی ہے؛«وَ نُریدُ اَن نَمُنَّ عَلَی الَّذینَ استُضعِفوا فِی الاَرضِ»(۷) الی آخرہ۔ ایک اور آیت ہے؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (۸) ایک اور آیت ہے؛: وَ لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه (۹) قرآن میں کثرت سے ایسی آيتیں ہیں جو مزاحمت و استقامت کی راہ پر چلنے والوں کو اسی انجام کی خوش خبری دیتی ہیں۔ یہ ایک استدلال ہے۔ امام کی منطق اور محکم استدلال کا ایک حصہ انھیں آیتوں پر مشتمل ہے۔ میں نے تین چار آیتیں ذکر کیں، قرآن میں ایسی درجنوں آیتیں ہیں۔

پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مد نظر رکھنا چاہئے، چنانچہ امام (خمینی رحمۃ اللہ) بھی اسے مد نظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ "جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔" یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مد مقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں اس کی تھوڑی تشریح کرنا چاہوں گا۔ اس لئے کہ یہ بہت اہم، رائج اور در پیش مسئلہ ہے۔ آج بھی ہمارے سامنے کچھ لوگ ایسے ہیں جو روشن خیالی وغیرہ کے نام پر اخبارات میں، کتابوں میں، تقاریر میں، یہاں وہاں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ: "جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے، ان سے الجھنا بیکار ہے، ان سے مقابلہ کرنا بے سود ہے، قبول کر لینا چاہئے۔" اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھیں اپنے اوپر مسلط ہو جانے دیں، مسلط ہو جانے دیں اور آرام سے بیٹھ جائیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ نظریہ کہ جس کے تحت کہتے ہیں کہ "ہمارے بس کی بات نہیں" اندازے کی اسی غلطی کا نتیجہ ہے جس کی جانب میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے(۱۰)۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔ جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔

آپ دیکھئے کہ بین الاقوامی سیاسی بحث میں 'امام خمینی کے انداز کی مزاحمت' ایک مستقل باب ہے۔ جو اصطلاح انگریزوں کے یہاں تھی اور خرم شہر کی آزادی کے بعد بہت زیادہ زیر استعمال رہی وہ تھی 'امام خمینی کا مزاحمتی ڈاکٹرائن'۔ یہ اصطلاح پیش کی گئی اور اس پر مقالے لکھے گئے۔ یہاں میں نے ایک جملہ نوٹ کیا ہے جو دنیا کی ایک معروف سیاسی شخصیت کا جملہ ہے، اگر نام ذکر کیا جائے تو آپ سب اس سے واقف ہیں، انھوں نے ایک مقالے میں یہ جملہ لکھا۔ انھوں نے لکھا کہ "عالمی تسلط  میں عسکری و اقتصادی توانائی کا عدیم المثال فیکٹر زوال کی سمت جا رہا ہے، یہ تصور کہ اگر کسی ملک کے پاس زیادہ عسکری طاقت اور اقتصادی طاقت ہے تو وہ اپنا تسلط جاری رکھ سکتا ہے، زوال پذیر ہے، دنیا بدل گئی ہے۔" وہ آگے لکھتے ہیں: " وہ دن دور نہیں کہ ہم ایسی بیرونی طاقتوں کو دیکھیں گے جو جنگی وسائل جیسے ایٹم بم وغیرہ کے اعتبار سے یا عالمی صنعتی پیداوار میں اپنی حصہ داری کے اعتبار سے بہت اوپر نہیں ہیں لیکن دسیوں لاکھ انسانوں پر اثرانداز ہونے کی اپنی طاقت کی مدد سے مغرب کے عسکری و اقتصادی تسلط کو چیلنج کریں گی۔" یہ بات ایک مغربی اور امریکی سیاسی رہنما اور سیاسی مفکر کہہ رہا ہے۔ وہ اس کے آگے لکھتے ہیں کہ "خمینی کے مزاحمتی ڈاکٹرائن نے پوری قوت سے مغرب اور امریکہ کے تسلط کی شہ رگ کو جکڑ لیا ہے۔" اسلامی جمہوریہ کی بقا کا یہی راز ہے۔ یہ وہ عظیم راستہ ہے جو اس عظیم قائد، اللہ کے اس صالح بندے نے ہمارے درمیان رکھا، یہ مزاحمت کا راستہ ہے، استقامت کا راستہ ہے، ہمارے پاس جو کچھ ہے اس کی قدردانی کا راستہ۔

میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج مزاحمتی محاذ گزشتہ چالیس سال کی اس مدت میں سب سے زیادہ منظم پوزیشن میں ہے علاقے کے اندر بھی اور یہاں تک کہ علاقے کے باہر کے بعض مراکز میں بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کے مد مقابل سامراجی قوت ہے، امریکہ کی سامراجی قوت، صیہونی حکومت کی خبیث اور فتنہ انگیز قوت، گزشتہ چالیس سال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت اس میں کافی تنزل نظر آتا ہے، اسے زوال ہوا ہے۔ ہمارے اپنے تخمینوں اور منصوبوں میں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ یہ چیز کہ امریکہ کی سیاسی صورت حال، وہاں کے سماجی اور اقتصادی میدانوں میں کیا حالات پیدا ہوئے اور کیا تغیرات ہو رہے ہیں، ہمارے تخمینوں میں انھیں ملحوظ رکھنا چاہئے۔ یہ بات کچھ امریکیوں نے کہی ہے اور آج بھی کہہ رہے ہیں: "دیمک لگنے کے انداز کا زوال" یعنی گویا دیمک لگ گئی ہے اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کے اندر موجود ادارے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اقتصادی شعبے کی بھی یہی حالت ہے اور سماجی شعبے کا بھی یہی حال ہے، یہی چیز سیاسی میدان میں نظر آ رہی ہے۔ امریکہ کے اقتصادی تسلط کے بارے میں اور عالمی اقتصادیات میں امریکہ کے اثر و نفوذ کی سطح کے بارے میں بڑے واضح اعداد و شمار موجود ہیں کہ کس طرح ان چند عشروں کے دوران حیرت  انگیز سقوط اور تنزل آیا ہے۔ اس کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ میں نے اسے نوٹ بھی کیا ہے تاہم اس کی تفصیلات بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سیاسی میدان میں بھی امریکہ کی طاقت کو زوال ہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے سیاسی زوال کی اگر ایک بھی دلیل موجود ہو تو وہ بھی کافی ہے، ابھی میں اس بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا، وہ ایک دلیل ہے امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ جیسے عادات و اطوار والے شخص کا انتخاب۔ خود یہ انتخاب امریکہ کے زوال کی علامت ہے۔ تیس کروڑ سے زیادہ آبادی کی قسمت ایسی عادتوں والے شخص کے ہاتھ میں سونپ دی گئی ہے تو یہ امریکہ کا سیاسی زوال ہے۔ ایسا شخص جس کے نفسیاتی توازن کے بارے میں، دماغی توازن کے بارے میں اور اخلاقیات کے بارے میں خود امریکہ کے اندر اتنی زیادہ باتیں ہو رہی ہیں، جب وہ کسی ملک کا صدر بن جاتا ہے تو یہ اس ملک کے زوال کی نشانی ہے، سیاسی زوال اور اخلاقی انحطاط کی نشانی ہے۔ انھوں نے صیہونی حکومت کے جرائم اور قتل و غارت کی مسلسل حمایت کی، اس کا دفاع کیا، یمن میں چند حکومتوں کے الاینس کے جرائم اور یمن کے بےگناہ عوام کے قتل عام کی انھوں نے حمایت کی، جرائم کی حمایت کرتے ہیں، اس سے بڑا اخلاقی انحطاط ہو سکتا ہے؟!

خود امریکہ کے اندر مشکلات کی فراوانی ہے۔ اس دن ایک اجلاس میں، میرے خیال میں آغاز ماہ رمضان کے اجلاس میں (11) بھی میں نے کہا کہ امریکہ کی وزارت زراعت نے رسمی طور پر اعلان کیا ہے کہ امریکہ میں 41 ملین لوگ بھکمری کے دہانے پر ہیں۔ یہ ہے امریکہ کی حالت! یہ ہے امریکہ کی اقتصادی حالت! امریکی حکومت پر 2200 ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ دو اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر! بہت بڑی رقم ہے، ناقابل تصور رقم ہے! وہ ان مشکلات میں غرق ہیں اور یہ جناب ملت ایران کی حالت پر افسوس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم ملت ایران کی خوش بختی، سعادت اور روزگار کے متمنی ہیں۔ جاؤ پہلے خود کو سنبھالو! اگر کر سکتے ہو تو اپنی حالت ٹھیک کرو! تشدد آمیز جرائم کے اعداد و شمار کے اعتبار سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ منشیات کے استعمال کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، خود اپنے ملک کے عوام کے قتل عام کے اعتبار سے پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، پولیس کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کے واقعات کی شرح کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ان کے اپنے پیش کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ آٹھ مہینے کے دوران امریکہ کے 830 شہری سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ملت ایران کو گھڑکیاں دینے والی حکومت کی سماجی حالت یہ ہے۔

اندازے اور تخمینے کے ایک سرے پر خود ہم ہیں۔ بے شک ہمارے سامنے بھی مشکلات ہیں۔ ہمارے سامنے اقتصادی مشکلات ہیں۔ ہم نے یہ بات بارہا کہی ہے، عہدیداران بھی اپنی توانائی بھر ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مشکلات ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہمارے  پاس کوئی راستہ نہ بچا ہو۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک دیوار سے نہیں لگا ہے۔ بلکہ اس کے بر خلاف وطن عزیز آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ملک کی طاقت کے پہلوؤں میں سے ایک یہی عزیز ایرانی عوام ہیں، یہی جوش و جذبے سے سرشار قوم ہے، بصیرت سے آراستہ ملت ہے۔ اگر ہماری قوم کے اندر بصیرت نہ ہوتی تو ہمیشہ ان جگہوں پر جہاں ضروری ہوتا ہے عوام کی یہ عظیم شرکت نظر نہ آتی، عوامی شراکت! آپ دیکھئے کہ 11 فروری 2019 کو یعنی چار پانچ مہینہ قبل ملک بھر کی سڑکوں پر کیسا عظیم اجتماع ہوا؟! اس کے لئے بصیرت درکار ہے، اس کے لئے بلند ہمتی ضروری ہے، آمادگی ضروری ہے، کمر ہمت کسنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملت ایران کے اندر یہ ساری چیزیں ہیں۔ آگاہی، بصیرت، استقامت کی قوت، محکم ارادہ، یہ ہمارے ملک کی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر خصوصیات بھی موجود ہیں۔ تو مزاحمت کی منطق اور فکر یہ ہے جو میں نے عرض کی۔ ایسی فکر کے ساتھ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) مزاحمت کے میدان میں اترے تھے۔

میں نے چند نکات نوٹ کئے ہیں تاہم چونکہ کافی وقت ہو چکا ہے اس لئے تیزی سے سرسری طور پر عرض کروں گا۔ میرے عزیزو! ایک نکتہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کا مقصد دفاعی استحکام کی منزل تک پہنچنا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی اور عسکری میدان میں بھی ہمیں ایسی منزل پر پہنچنا ہے کہ تحفظ یقینی ہو جائے۔ یعنی ملک کی ایسی تصویر سامنے آئے کہ کسی بھی شعبے میں دشمن ملت ایران پر یلغار کی جرئت نہ کر سکے۔ دشمن کو یقین ہو جائے کہ کوئی فائدہ نہیں ہے، ملت ایران کا کچھ بھی نہیں بگاڑا جا سکتا۔ عسکری میدان میں ہم کافی حد تک اس پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔ آپ جو دیکھتے ہیں کہ میزائل وغیرہ کے مسائل پر اتنا شور شرابا ہوتا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ ہم اپنا تحفظ یقینی بنا چکے ہیں، ایک محکم پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔ وہ ملک کو اس طاقت سے محروم کر دینا چاہتے ہیں، البتہ اس میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔

مسائل کے سلسلے میں اور دشمنوں کے سلسلے میں ہمارا طرز عمل شجاعانہ ہونا چاہئے، مرعوبانہ نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ جذبہ امید سے معمور ہونا چاہئے مایوسانہ نہیں ہونا چاہئے، تیسرے یہ کہ عاقلانہ و خردمندانہ ہونا چاہئے، ہیجانی اور جذباتی نہیں ہونا چاہئے، چوتھے یہ کہ اقدامی اور خلاقانہ ہونا چاہئے کمزور رد عمل کی صورت میں نہیں ہونا چاہئے۔ نئے نئے طریقے تلاش کریں۔ اگر ہم نے اس انداز سے کام کیا، اگر ہم نے اس طرح عمل کیا تو یقین جانئے کہ ملت ایران دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کامیاب ہوگی اور آگے بڑھے گی۔

کامیابی کی ایک شرط اور بھی ہے کہ  مزاحمت و استقامت کے نظرئے کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کئے جا رہے دشمن کے حربوں پر بھی نظر رکھیں۔ میرے عزیزو! مزاحمت کا نظریہ کسی بھی قوم کا سب سے طاقتور ہتھیار ہوتا ہے، لہذا اگر دشمن اس ہتھیار کو ملت ایران سے چھین لینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تو یہ فطری بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مزاحمت کے نظرئے کے سلسلے میں وسوسہ پیدا کرنے اور شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کرتا ہے کہ جناب! یہ سب کرنے کا کیا فائدہ؟ کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے! مزاحمت کے نظرئے کو دشمن کے حربوں سے محفوظ رکھنا چاہئے، اسے دشمن کے حربوں سے کمزور نہیں ہونے دینا چاہئے۔

دشمن کے حربوں کی متعدد قسمیں ہیں۔ کبھی دھمکی دیتا ہے۔ کبھی لالچ دلاتا ہے۔ اسی رندانہ صفت شخص کی مانند یہ جو امریکہ کے محترم صدر ہیں جنہوں نے حال میں ہی فرمایا ہے کہ: "ایران اپنے انھیں موجودہ رہنماؤں کے ساتھ بھی بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایران کے موجودہ سیاست دانو! ہم آپ کو اقتدار سے بے دخل نہیں کرنا چاہتے۔ آپ پریشان نہ ہوئیے، ہم آپ کا تختہ الٹنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم آپ کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ در حقیقت ایران کے رہنماؤں کو مخاطب کرکے ایک سیاسی چال چلی جا رہی ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے۔ اگر ایران کے موجودہ رہنما، ایران کے موجودہ عہدیداران، کمر ہمت کسیں، حوصلہ و ہمت سے کام لیں، کام کے سلسلے میں دن دیکھیں نہ رات، جدوجہد میں لگے رہیں، ایک زبان ہوکر اپنی بات کہیں، ہمدلی کا ماحول رکھیں، عوامی وسائل کا مناسب اور بنحو احسن استعمال کریں تو یقینا بہت بڑی کامیابیاں ملیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ امریکیوں کو قریب نہ آنے دیں۔ پیشرفت کی شرط یہ ہے کہ امریکیوں کو قریب نہ آنے دیا جائے۔ ان صاحب کی یہ سیاسی چالاکی اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران کو دھوکا نہیں دے سکتی اور ملت ایران بھی اس کے دھوکے میں آنے والی نہیں ہے۔ امریکی قریب نہ آنے پائیں۔ امریکیوں کے قدم جہاں بھی پڑے ہیں یا جنگ ہوئی ہے، یا برادر کشی ہوئی ہے، یا فتنہ برپا ہوا ہے، یا استحصال ہوا ہے، یا سامراجی اقدامات ہوئے ہیں، یا تحقیر و توہین دیکھنی پڑی ہے۔ امریکیوں کے قدم بڑے منحوس ہیں۔ وہ قریب نہ آئیں! ہمیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے۔ ہم اپنا کام کرنا جانتے ہیں۔ اللہ تعالی بھی مدد کرے گا اور ہم ان شاء اللہ پیشرفت حاصل کریں گے۔

عوام بھی میدان عمل میں موجود ہیں۔ یہ شراکت اور موجودگی بدستور جاری رہنا چاہئے۔ پیارے بھائیو اور بہنو! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ یاد رکھئے کہ آپ ماہ رمضان کے آخری جمعے کو جو اس پرشکوہ انداز میں جلوس نکالتے ہیں یہ چیز دشمن کے تمام تخمینوں کو درہم برہم کر دیتی ہے، انھیں تہہ و بالا کر دیتی ہے (12)۔ خداوند عالم آپ پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے۔ واقعی ملت ایران پوری طرح تیار ہے۔

ایک سفارش ملک کے محترم عہدیداران سے بھی کرنا چاہوں گا: کلیدی اور بنیادی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھیں! ہر دور میں ملک کے اندر ایک کلیدی اور بنیادی مسئلہ سامنے ہوتا ہے، اسی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہئے۔ انقلاب کی فتح سے قبل اصلی مسئلہ طاغوتی حکومت کا تھا جس پر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے توجہ مرکوز کی اور انھیں کامیابی بھی ملی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک زمانے میں سب سے کلیدی مسئلہ تھا اسلامی نظام کی بنیادوں کو مستحکم کرنا۔  ایک دور آیا جس میں اصلی مسئلہ تھی صدام کی جانب سے وطن عزیز پر مسلط کی گئی جنگ اس وقت پورے ملک کی توجہ جنگ کے مسائل پر مرکوز رہی اور بحمد اللہ کامیابی حاصل ہوئی۔ آج کا فوری اور کلیدی مسئلہ ہے معیشت۔ البتہ ثقافتی مسائل بھی ہیں جو بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اسی طرح سیکورٹی کے مسائل بھی ہیں لیکن ان تمام مسائل میں جو چیز سب سے فوری ہے وہ اقتصاد ہے جس کا عوام کی روزمرہ کی زندگی سے تعلق ہے اور اس کا اثر ثقافتی اور سیکورٹی کے مسائل پر بھی پڑتا ہے۔

اقتصاد کے میدان میں بڑے بنیادی مسائل ہیں۔ بڑے اہم ابواب ہیں۔ ان میں سے چند کا میں یہاں ذکر کروں گا۔ ایک مسئلہ پیداوار کو فروغ دینے کا ہے، ایک مسئلہ ملکی کرنسی کی قدر کا ہے، ایک مسئلہ روزگار اور تجارتی سرگرمیوں کی فضا کو بہتر بنانے کا ہے، ایک مسئلہ ملکی اقتصاد کو تیل کی فروخت پر انحصار سے الگ کرنے کا ہے، ہمیں خام تیل پر، خام تیل کی فروخت پر اور خام تیل کی تجارت پر ملکی معیشت اور قومی بجٹ کے انحصار کو ختم کرنا ہے، یہ ہمارے کلیدی مسائل میں ہے۔ اقتصادیات میں حکومت کی مداخلت کے بجائے اس کے رول کو نگراں اور سمت و جہت دینے والے ادارے کے رول میں تبدیل کرنا بھی کلیدی اقتصادی مسائل کا حصہ ہے۔ اقتصاد کو بدعنوان لوگوں یعنی کرپشن کرنے والوں، اقتصادی دہشت گردوں، بے رحم اسمگلروں کی دست برد سے محفوظ بنانا ہے۔ دیکھئے یہ سارے ملک کی اقتصادیات کے اصلی و کلیدی مسائل ہیں۔ ملک کے عہدیداران، بنیادی طور پر حکومت اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ اور بعض مسائل میں عدلیہ کو بھی چاہئے کہ باہمی اتفاق کے ساتھ ان مسائل پر کام کریں، ان مسائل کو حل کریں، یہ کلیدی مسائل ہیں۔ ہمیں اس پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ حاشئے کے مسائل، فروعی مسائل وغیرہ میں ہمیں نہیں پڑنا ہے۔ بکھیڑا نہیں کھڑا کرنا ہے۔ قومی ہمدلی و یکجہتی بہت اہم چیز ہے۔ سیاسی و گروہی تنازعات کو فراموش کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ ہے اللہ تعالی سے قلبی رابطے کی حفاظت کرنا۔

اس سال کا ماہ رمضان بہت اچھا رمضان تھا۔ جہاں تک مجھے اطلاعات ملی ہیں اور قریب سے تیار کی گئی جو رپورٹیں موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق اس سال ماہ رمضان میں دعا اور ذکر و مناجات کی نشستیں اور اسلامی تعلیمات اور وعظ و نصیحت کے جلسے بڑے بارونق رہے۔ اسی شہر تہران کے مختلف محلوں میں عوام کے عظیم اجتماعات ہوئے جن میں اکثریت نوجوانوں کی رہی۔ سب نے اشک بہائے، توسل کیا، تضرع کیا۔ یہ چیزیں حد درجہ اہم ہیں۔ یہ چیزیں رحمت خداوندی اور ہدایت الہیہ کے نزول کا راستہ کھولتی ہیں۔  ہمیں اس کی قدر کرنا چاہئے، اسے آپ جاری رکھئے۔ عزیز نوجوانو! آپ کے پاکیزہ دل، آپ کے نورانی دل بڑی مشکلات کی گرہ کھولنے والی چابی کا کام کر سکتے ہیں، رحمت الہیہ کا دروازہ کھول سکتے ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خدائے متعال رمضان کے اس عظیم اور حد درجہ اہم مہینے کو جو اس سال عوام نے گزارا ہے ہماری ملت کے لئے برکت کا سرچشمہ قرار دے۔ آج ماہ رمضان کا آخری دن ہے اور اس وقت ہم اس مہینے کے آخری چند گھنٹے گزار رہے ہیں، بہتر ہوگا کہ تھوڑی سی دعائیں مانگ لی جائیں۔ نسئلک اللّهمّ و ندعوک باسمک العظیم الاعظم الاعزّ الاجلّ الاکرم و بحرمة محمّدٍ و آله یا الله ... یا رحمان یا رحیم یا مقلّب القلوب ثبّت قلوبنا علی دینک.

پالنے والے! ہمیں اپنی راہ میں ثابت قدم رکھ۔ پالنے والے! امام کی پاکیزہ روح کو جنھوں نے ہمیں مزاحمت کا درس دیا، اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی یاد اور شہیدوں کے ذکر و یاد کا سایہ اس ملت کے سر پر قائم رکھ۔ پروردگارا! ملت ایران پر اپنی نصرت نازل فرما۔ پالنے والے! اپنی نصرت امت اسلامیہ پر نازل فرما۔ پروردگارا! دنیائے اسلام میں موجود فتنہ انگیز عناصر کو ذلیل و خوار و بدنام و رسوا کر دے۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ان عوام کی حاجات کو جنہوں نے دعا و مناجات کی نشسشتوں میں دعائیں مانگیں یا دل ہی دل میں دعائیں مانگیں اپنے لطف و کرم سے روا فرما۔ پروردگارا! ان کی دعائیں مستجاب فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ اس ماہ رمضان کو ملت ایران کے لئے اور امت اسلامیہ کے لئے با برکت مہینہ قرار دے۔ پالنے والے! ہمیں اپنے لطف سے، اپنی بخشش اور اپنی مغفرت سے محروم نہ فرما۔ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے۔ ہماری خلاف ورزیوں اور ہماری زیادہ روی کو بخش دے۔ ہمارے مرحومین کی، ہمارے ماں باپ کی مغفرت فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں اپنے ولی اور اپنی حجت کی مستجاب دعائیں ہمارے شامل حال رکھ۔ ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔ اسی راہ میں شہادت کی صورت میں ہمیں موت آئے۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہم نے جو کچھ بیان کیا اور جو کچھ انجام دیا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اپنے فضل و کرم سے اسے قبول فرما۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱) سوره‌ انشراح، آیات ۷ و ۸؛ «پس جب فراغت مل جائے تو اطاعت میں لگ جاؤ اور اپنے پروردگار کی جانب مشتاقانہ رغبت اختیار کرو۔»

۲) سوره‌ مریم، آیت ۹۷؛ «جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک انجام دیا، بہت جلد اللہ تعالی ان کے تعلق سے محبت قرار دے گا۔»

۳) سوره‌ شوریٰ، آیت نمبر ۱۵ کا ایک حصہ؛ «بنابراین دعوت دینا شروع کرو اور جس کام کے لئے مامور کئے گئے اس پر پائيدار رہو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔...»

۴) امام خمینی قدس سرہ الشریف کی رحلت کی اٹھائیسویں برسی کے موقع پر مورخہ 4 جون 2017 کا خطاب

۵) حاضرین نے نعرہ لگایا: «نہ مفاہمت، نہ خود سپردگی، امریکہ سے صرف جنگ »

۶) سوره‌ طور،  آیت ۴۲؛ «یا کوئی فریب دینا چاہتے ہیں؟ لیکن جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ خود فریب میں ہیں۔»

۷) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۵ کا ایک حصہ؛ «اور ہم نے چاہا کہ اس سرزمین میں جو کچلے ہوئے لوگ تھے ان پر احسان کریں۔..»

۸) سوره‌ محمّد،  آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ؛ « ...اگر اللہ کی مدد کرو تو وہ تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات و استحکام عطا کرے گا۔»

۹) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ؛ « ...اور یقینا خدا اس کی مدد کرے گا جو دین خدا کی نصرت کرے۔..»

۱۰) منجملہ اہل قم کے تاریخی قیام کی مناسبت سے قم کے عوام کے مختلف طبقات سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 9 جنوری 2019 کا خطاب۔

۱۱) اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارکنان سے مورخہ 14 مئی 2019 کا خطاب

۱۲) رہبر انقلاب نے حاضرین کے اس نعرے: 'اے آزاد منش رہبر ہم تیار ہیں تیار ہیں' کے جواب میں یہ بات کہی۔