رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بے شک دوسرے شعری رجحانات بھی موجود ہیں لیکن انقلابی شاعری مضمون کی جدت اور الفاظ کی بندش کے اعتبار سے نمایاں پیشرفت کی حامل نظر آتی ہے۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

 بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة ‌الله فی الارضین.

میں نے چند جملے یہاں نوٹ کر رکھے ہیں کہ آگر آپ دوستوں کے درمیان تقریر کرنی ہو تو بیان کروں۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ بات جو میرے ذہن میں تھی عرض کروں یہ کہوں گا کہ آج رات بہت اچھے اشعار پڑھے گئے، دوستوں نے جو اشعار سنائے، وہ واقعی ایک  سے بڑھ کے ایک تھے۔ اس محفل اور نوجوان شعرا کے تازہ اشعار سے مجھے جتنی توقع تھی، یہ محفل اس سے بہت بہتر تھی۔ بہت شکرگزار ہوں اور خداوند عالم کا بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کی مدد سے آپ جیسے لوگوں کے درمیان شاعری  میں اتنی پیشرفت ہوئی۔ البتہ تہران اور دوسری جگہوں پر بہت سے لوگ شاعری  میں مصروف ہیں۔ بعض اوقات مجھے ان کے اشعار پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ انھوں نے اتنی پیشرفت نہیں کی ہے جتنی آپ نے کی ہے۔  ان کے اشعار صرف عاشقانہ ہیں، زمینی عاشقی کے اشعار ہیں، فلسفیانہ افکار سے خالی ہیں، دینی معرفت سے عاری ہیں، انقلابی اور ملّی مصلحتوں کے بیان سے خالی ہیں- یہ احباب اس طرح کے اشعار کہنا چاہتے ہیں – انھوں نے عریاں اشعار کہے ہیں، انھوں نے پیشرفت نہیں کی ہے۔  آپ  جو اشعار سناتے ہیں ان میں نئے مضامین، صیقل دئے ہوئے الفاظ، نئے معنی و مفاہیم واقعی نمایاں ہیں۔ آپ کی شاعری انقلابی شاعری ہے اور بہت امید افزا ہے۔

 یہاں دو باتیں میں نے کہنے کے لئے نوٹ کی ہیں– البتہ جہاں تک ہو سکے گا مختصر عرض کروں گا- ایک بات شاعری کے بارے میں ہے اور دوسری فارسی زبان سے تعلق رکھتی ہے۔ شاعری کے بارے میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ شاعری جملہ معجزات آفرینش میں سے ایک ہے۔ شاعری  "بیان" کی طرح عالم خلقت کا ایک معجزہ ہے۔  بیان بھی، عالم خلقت میں پروردگار عالم کا ایک معجزہ ہے۔ یہ جو آپ اپنے افکار کو، اپنے ذہنی تصورات کو کلمات اور الفاظ کے پیکر میں دوسروں تک پہنچانے پر قادر ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت ہی عظیم چیز ہے۔ ہماری عادت پڑ چکی ہے کہ ہم عظمتوں پر توجہ نہیں دیتے، ورنہ یہ چیز ماہ و خورشید، ستاروں وغیرہ کی خلقت سے جن کی خداوند عالم قسم کھاتا ہے، بہت  بالاتر ہے۔ چنانچہ ( خداوند عالم فرماتا ہے) اَلرَّحمٰن، عَلَّمَ القُرءان، خَلَقَ الاِنسان، عَلَّمَهُ البَیان (2) پہلی چیز جو خداوند عالم خود، خلقت کے بعد، خلقت انسان کے بارے میں فرماتا ہے، وہ تعلیم بیان ہے۔ 'بیان' خلقت کا ایک معجزہ ہے۔ بیان کی جو قسمیں ہیں ان میں شاعری کے اندر یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ یہ حسن و جمال سے آراستہ ہوتی ہے۔ ہر بیان خوبصورت اور حسین نہیں ہے۔ معجزہ ہے، اہم ہے لیکن شاعری میں حسن و زیبائی ہے (وہ منفرد ہے)۔ شاعری میں یہ جو آپ کسی خاص مفہوم کو الفاظ کے قالب میں قرینے سے سجا کر مخاطب تک پہنچاتے ہیں، یہ حسن ہے، اس میں زیبائی پائی جاتی ہے۔ اس کو اسی لئے آرٹ اور ہنر کہا جاتا ہے کہ اس میں زیبائي اور حسن ہے۔ چونکہ شاعری میں یہ خصوصیت ہے، حسن و جمال اس کا امتیاز ہے، لہذا یہ ایک موثر ابلاغیاتی وسیلہ اور مفاہیم پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہ غیر شاعرانہ بیان سے زیادہ کارگر ہے۔ آرٹ اور فن کی اکثر اقسام میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ البتہ آرٹ اور فن ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ خود شاعری میں ایک منفرد امتیاز اور خصوصیت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر فنون میں بھی منفرد امتیازات و خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس وقت میں اس بحث کو نہیں چھیڑنا چاہتا۔

 شاعری میں جو قدرت تاثیر پائی جاتی ہے، وہ کچھ فرائض بھی عائد کرتی ہے۔ مجموعی طور پر وہ تمام چیزیں، اشخاص اور باتیں جن کی شان بالاتر ہوتی ہے، ان کا فریضہ بھی سنگین تر ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں آپ کی رائے، آپ کی بات اور آپ کا بیان زیادہ موثر ہے تو اس کی بہ نسبت،  جس کا بیان کاری نہیں ہے آپ کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ بنابریں شاعری اپنی اسی قدرت تاثیر کی وجہ سے، کچھ فرائض اور ذمہ داری بھی رکھتی ہے۔ شاعری کے کندھوں پر فریضہ  ہے۔   یہ فریضہ کیا ہے؟  تاریخ بشریت میں تعلیمات الہی کا بیان۔ تاریخ میں دو تحریکیں پائی جاتی ہیں۔ ایک تحریک بیّنات اور دوسری تحریک فریب۔ ایک تحریک ہدایت اور دوسری گمراہی،«لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّنٰت»(3) یہ ایک تحریک ہے جو  پوری تاریخ میں جاری رہی، «لَاُغوِیَنَّهُم اَجمَعین»(4) یہ شیطان کی بات ہے، یہ دوسری تحریک ہے۔ شاعری کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلی تحریک کی خدمت کرے، اس کی وجہ بالکل واضح ہے، اس لئے کہ یہ خدا کی عطا کردہ ہے۔ یہ خدا کی ہے، نعمت الہی ہے اور ہم بندگان خدا ہیں لہذا اس نے ہمیں جو بھی نعمت عطا کی ہے اس سے خدا کی طرف سے آںے والی نبوت و ہدایت کی راہ  میں کام لینا چاہئے۔ بنابریں فریضہ (شاعری) یہ ہے۔

 البتہ باتیں بہت کی جاتی ہیں۔ یہاں ایک جاہلانہ مغالطہ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ شاعری  کی زیبا شناسی اور فنی پہلو کو اس کی فرض شناسی سے الگ کرتے ہیں۔ شاعری کو، اس شاعری میں جو اپنے لئے ذمہ داری، فریضے اور تعہّد کی قائل ہے اور خالص شاعری میں تقسیم کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلی قسم شاعری نہیں ہے نعرے بازی ہے۔ یہ ایک واضح مغالطہ ہے۔ یہ مغالطہ یا غفلت کی بنا پر ہے یا کم علمی کی وجہ سے ہے۔ آپ دیکھیں کہ فارسی شاعری کی بلندترین چوٹیاں کون ہیں؟ سعدی، حافظ، مولوی، فردوسی۔ یہ فارسی شاعری کی بلندترین چوٹیاں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ان کی شاعری جو ہماری تاریخ کی ادبی بلندیاں ہیں، کس جہت میں ہے۔ آپ بوستان کو دیکھیں، (آپ دیکھتے ہیں) کہ غیر معمولی اور جاودانی ادبی فن پارہ اخلاقی مضامین پر مشتمل ہے، تعلیم اور تعہّد کی راہ میں ہے۔ بوستان میں  شروع سے لیکر آخر تک یہی چیز ہے (یعنی) فن شاعری سے اخلاقیات کی ترویج کی گئی ہے۔

 سعدی اگر عاشقی کنی و جوانی - عشق محمّد بس است و آل محمّد(5)

(یعنی سعدی اگر عشق و محبت کرنا ہے تو عشق محمد و آل محمد کافی ہے)

یا:

به جهان خرّم از آنم که جهان خرّم از اوست - عاشقم بر همه عالَم که همه عالَم از اوست(6)

(یعنی دنیا سے اس لئے خوش ہوں کہ دنیا کی شادابی وتازگی اس سے ہے۔ میں پوری دنیا کا عاشق ہوں اس لئے کہ دنیا اس سے ہے)

یا:

به حلاوت بخورم زهر که شاهد ساقی است-به ارادت بکشم درد که درمان هم از اوست(7)

(یعنی زہر اگر دلبر دے تو زہر شیریں ہے۔ شوق سے درد قبول کرتا ہوں کہ اس درد کا درماں بھی اسی کی طرف سے ہے)

یہ سعدی کے اشعار ہیں، یہ سعدی کی شاعری کی فنپارے ہیں۔

 حافظ بھی اسی طرح ہیں؛ البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ دیوان حافظ میں زمینی شاعری ہے، لیکن بے شک عرفانی شاعری، ان کی ممتاز اور نمایاں شاعری ہے۔ علامہ طباطبائی مرحوم حافظ کے اشعار کی اپنے بعض شاگردوں کے لئے تشریح کرتے تھے، ان کے ان شاگردوں نے یہ تشریح لکھی ہے، جمع کی ہے اور اس کی تدوین کی ہے۔ یعنی حافظ کی شاعری میں اس درجے کا عرفان پایا جاتا ہے۔

 عشقت رسد به فریاد گر خود بَسان حافظ - قرآن زبر بخوانی با چارده روایت(8)

(اگر تم بھی حافظ کی طرح قرآن مجید کو چودہ روایتوں (قرائتوں) کی بنیاد پر حفظ کر کے پڑھتے ہو تو تمھارا عشق بھی تمھاری فریاد کو پہنچے گا۔)

 ہم قرآن کو دیکھ کے بھی مشکل سے پڑھتے ہیں (لیکن انہیں)  قرآن حفظ ہے اور وہ بھی چودہ قرائتوں سے۔ سات قاری معروف ہیں جو صاحب سبک ہیں اور ان میں سے ہر ایک سے دو قرائتیں منسوب ہیں۔ کل ملا کر چودہ قرائتیں ہیں۔ یہ ایسے ہیں۔ یہ شاعری کی بلندی ہے۔ فردوسی بھی (اسی طرح ہیں)۔ فردوسی، 'حکیم فردوسی' کہلاتے ہیں۔ آپ توجہ فرمائيں کہ ہمارے شعرا میں 'حکیم فردوسی' (نمایاں) ہیں۔ حکمت فردوسی حکمت الہی ہے۔ فردوسی کی داستانوں میں حکمت ہے۔  فردوسی کی تقریبا سبھی داستانوں میں یا اکثر میں فلسفہ ہے اس لئے فردوسی کو 'حکیم فردوسی' کہتے ہیں۔ تاریخ میں بہت کم  شعرا ایسے ہیں جنہیں حکیم کہتے ہیں، لیکن انہیں حکیم فردوسی کہا جاتا ہے۔ مولوی کو تو سبھی جانتے ہیں کہ کیا تھے۔ مولوی مجسّم عرفان، معنویت اور حقیقت ہیں۔ ان کے یہاں حقیقی اسلام اور خالص توحیدی معرفت پائی جاتی ہے۔ وہ بھی اس طرح ہیں۔ یہ فارسی شاعری کی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ شاعری کی زیبائی شناسی اور فنی پہلو، اس کے پیغام، معنویت اور تعہّد سے الگ ہے تو ان سب کو شاعری کے دائرے سے باہر نکال دینا ہوگا۔ کہنا پڑے گا کہ ان کے اشعار اشعار نہیں ہیں، حالانکہ یہ فارسی کے اعلی ترین اشعار ہیں۔ 

عربی بھی اسی طرح ہے۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں، سید حمیری، یا فرزدق، یا دعبل وغیرہ یہ امام شعرا اور اہلبیت اطہار کی منقبت کہنے والے عظیم ترین شعرا بھی اسی طرح ہیں۔ یہ اعلی ترین شاعر ہیں۔  میں نے کبھی کہا ہے کہ کتاب آغانی میں (9) جس میں ضمنی طور پر شعرا وغیرہ کی شرح حال کا بھی ذکر پایا جاتا ہے، جب سید حمیری کا ذکر ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ سید حمیری اپنے وقت کے  ممتاز شاعر ہیں۔ شاید کہا گیا ہے کہ اپنے وقت کے ممتاز ترین شاعر ہیں۔ بعد میں صاحب آغانی کہتے ہیں کہ  لیکن ان کا عیب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اشعار میں صدر اسلام کے بزرگ صحابہ کی توہین کی ہے اور یہ کیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم ان کے بارے میں زیادہ بحث اور بات کرتے، یہ کہتے ہیں اور پھر سید حمیری کی شرح حال  لکھنا شروع کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جتنے شعرا کی شرح حال لکھی گئی ہے ان سب میں، سب سے طولانی شرح حال انہیں کی ہے۔ پچاس صفحے، پچاس سے زائد صفحات میں ان کی شرح حال بیان کی گئی ہے۔ سید حمیری کی عظمت یہ ہے۔ فرزدق کا مرتبہ تو سب کو معلوم ہے۔ دعبل بھی اسی طرح ہیں۔ یہ شاعری کی چوٹیاں ہیں اور ان کی شاعری میں معنویت اور اہلبیت کی منقبت ہے۔ بنابریں جو لوگ اصلی اور خالص شاعری کو فن شاعری سے الگ کرتے ہیں ان کے لئے کہنا چاہئے کہ  وہ شعر و ادب کے علم سے نابلد ہیں۔ یعنی مغالطہ کرتے ہیں۔ جو وہ خود سمجھتے ہیں اسی کو بیان کر دیتے ہیں۔

البتہ یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ دو جانبہ بات ہے یعنی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری شاعری اعلی اخلاقی مفاہیم، توحیدی مضامین، فضائل اہلبیت کے بیان، اخلاقی قدروں، انقلابی و ملی مصلحتوں کی شاعری ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اپنی شاعری سے ہم نے صرف انہیں اقدار کی خدمت کی ہے بلکہ ہم نے اپنی شاعری کی بھی خدمت کی ہے، اس کو بھی ترقی دی ہے۔  میرے خیال میں، جہاں تک اس وقت میرے حافظے میں ہے، آج رات آپ نے جو اشعار سنائے وہ سب ذمہ دارانہ اور فرض شناسی سے مملو اشعار بھی تھے اور اسی کے ساتھ یہ اشعار اعلی سطح کے بہترین اشعار بھی تھے۔ ان کا معیار خالص عاشقانہ اور زمینی عشق کی شاعری سے مختلف ہے۔ یعنی ان اشعار میں ایک خاص بلندی اور ارتقا  پایا جاتا ہے۔ بنابریں ان میں دونوں پہلو ہیں۔ البتہ میرا نظریہ ہے کہ شاعر اپنی یادوں، افسردگی، آزردہ خاطری اور اپنے رنج و غم کو بھی شاعری میں بیان کرتا ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ شاعر کو اپنے دل کی حالت کے بارے میں غزل کہنے کا حق نہیں ہے، اشعار میں اپنی آرزوؤں اور اپنی آشفتگی بیان کرنے کا حق نہیں ہے۔ میرے خیال ميں یہ بات ہرگز نہیں ہے، وہ یہ باتیں بھی بیان کر سکتا ہے۔ شاعری کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے۔ جبکہ شاعری کی بہترین قسم وہی فرض شناسی کی شاعری ہے ۔   

خوش قسمتی سے آج ہمارے ملک میں ذمہ دارانہ اور پابند عہد شعرا کی تعداد زیادہ ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اس وادی سے دور ہیں- میں ان سے بے خبر نہیں ہوں، کسی حد تک ان کی حالت سے، ان کی شاعری سے اور اس بات سے کہ ان کے اشعار کس اہمیت کے ہیں،  واقف ہوں۔ لیکن الحمد للہ زیادہ  انقلابی اور تعہّد کی شاعری ہے۔ چاہے دینی شاعری ہو، چاہے اخلاقی شاعری ہو، چاہے سیاسی و انقلابی شاعری ہو، چاہے اخلاقی اور توحیدی اقدار کی شاعری ہو اور چاہے فلسفیانہ شاعری ہو، البتہ افسوس کہ  فلسفیانہ شاعری کم ہے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی اس کی سفارش کی ہے لیکن ہمارے شعرا اس وادی میں بہت کم قدم رکھتے ہیں۔ لیکن خوش  قسمتی سے مجموعی طور پر اس شاعری میں اچھی پیشرفت ہوئی ہے۔ جو لوگ اس کو شاعری نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ یہ "نعرے بازی ہے، یہ آئیڈیالوجی ہے" گویا کہ وہ شاعری میں آئیدیالوجی کے مخالف ہیں – آپ کے اشعار میں پائی جانے والی آئیڈیالوجی سے کہیں زیادہ، خود وہ  اپنے اشعار میں انحرافی مسائل اور گمراہ کن آئيڈیالوجی بیان کرتے ہیں۔  یہ شاعری میں آئيدیالوجی بیان کئے جانے کے مخالف نہیں ہیں، بلکہ وہ اس آئیڈیالوجی کے مخالف ہیں جو آپ بیان کرتے ہیں۔ اب جس بیان اور جس قالب میں بھی ہو،  شاعری  کے قالب میں ہو، فلم کے قالب میں ہو، داستان کی صورت میں ہو، ہر جگہ یہی صورتحال ہے۔ بنابریں ان کی جہت اور روش یہی ہے۔

الحمد للہ آج کی شاعری اور وہ اشعار جو آپ کہتے ہیں، بہت معیاری ہو گئے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ اشعار اسلامی تعلیمات سے متعلق ہوں یا اہلبیت اطہار کی منقبت اور حمایت میں ہوں، انقلابی اقدار کے بارے میں ہوں، ملک کے موجودہ حالات سے تعلق رکھتے ہوں یا ملک کے اہم واقعات کے بارے ميں ہوں۔ مثال کے طور پر وہ اشعار جو بعض دوستوں نے یمن کے بارے میں اور اسلامی دنیا کے گوناگوں مسائل کے بارے میں یا قوم کے طور طریقوں کے حسن کے بارے میں سنائے ہیں۔ دیکھئے ہمارے عوام بڑی اچھی سرشت رکھتے ہیں۔ ملک کے شمال اور جنوب میں آنے والے سیلاب کے مسئلے میں ہماری قوم کا طرز عمل بہت اچھا تھا۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہے، گلستان میں، یا خوزستان کے علاقے میں یا خرم آباد میں یا ایلام میں، ان تمام جگہوں پر جہاں سیلاب شدید تھا، لوگوں کی امدادی سرگرمیوں اور ان کی فداکاری سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ ہمارے عوام نے کتنا عظیم اور پرشکوہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ آپ اپنے اشعار میں انہیں بیان کر سکتے ہیں اور ان کی توصیف کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے اشعار میں ان باتوں کو پیش کرتے ہیں تو درحقیقت آپ کی شاعری اس قوم کے تشخص کا پرچم بن جاتی ہے۔ یہ شاعری آپ کی قوم کے تشخص کا پرچم بن جاتی ہے۔ چاہے وہ اسلامی تعلیمات سے متعلق ہو، چاہے انقلابی اقدار کی بات ہو، چاہے ملی اقدار ہوں، چاہے اخلاقی قدریں ہوں، چاہے اس قسم کے حوادث ہوں۔ جب ان کے بارے میں اشعار کہتے ہیں تو یہ شاعری تشخص کا پرچم بن جاتی ہے اور تشخص قوم کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

میرے عزیزو! جو اپنا تشخص کھو دے وہ بہت آسانی کے ساتھ اغیار کے اختیار میں چلی جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔ یہ شاعری سے متعلق باتیں تھیں۔ 

زبان کے بارے میں، حقیقت یہ ہے کہ مجھے تشویش ہے، واقعی مجھے تشویش ہے۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو آپ جو اشعار کہتے ہیں وہ بہت اچھے ہیں۔ اس کی زبان بھی ٹھیک ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ  زبان خراب ہو رہی ہے۔ آج رات ایک صاحب نے جن کا تعلق ریڈیو سے تھا، اچھی بات کہی۔ لیکن مجھے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے سے شکایت ہے۔ اس لئے کہ صحیح، معیاری، صاف ستھری اور مکمل طور پراچھی زبان کی ترویج کے بجائے ایسی زبان کی ترویج کی جا رہی ہے جس کا کوئی تشخص نہیں ہے اور بعض اوقات غلط الفاظ اور غلط اصطلاحا ت استعمال کی جاتی ہیں اور اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ بیرونی اور انگلش اصطلاحات کی ترویج کی جا رہی ہے۔ جب کوئی یورپی لفظ، جس کو کسی قلمکار یا مترجم نے انگریزی یا فرانسیسی زبان کے کسی مقالے کا ترجمہ کرتے وقت، بعینہ نقل کر دیا، آپ کا اناؤنسر ریڈیو یا ٹی وی پر ایک دو بار اس کی تکرار کرتا ہے تو یہ لفظ عام ہو جاتا ہے۔ ہم بلا وجہ اور مفت میں اپنی زبان کو مضر اور زائد الفاظ سے آلودہ کر رہے ہیں۔ 

اب اگر کسی زبان میں کسی لفظ کا متبادل نہیں ہے، وہ دوسروں سے وہ لفظ قرض لیتی ہے تو بھی اس کو اس میں تصرّف کرنا چاہئے۔ میں چند سال قبل فارسی ادیبوں کے درمیان یہ کہا کہ عرب یورپ سے الفاظ لیتے ہیں (10) لیکن اس کو معرّب کر دیتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم یہ کام نہیں کرتے۔ ہم اس بات کے پابند ہیں حتی اگر ممکن ہو تو اسی اصلی لہجے کے ساتھ (بیان کریں)۔ اوائل انقلاب میں، انقلاب کے ذمہ دار اراکین وغیرہ کے ساتھ میٹنگیں ہوتی تھیں، کمیشن اور کمیٹی کے لئے، فرانس کے تعلیم یافتہ بعض افراد «کومیسیون» کہتے تھے۔ کہتے تھے کہ "کمیسیون" صحیح نہیں ہے، بلکہ "کومیسیون" ہی کہا جائے تاکہ فرانسیسی سے نزدیکتر ہو۔ یا مثلا کمیٹی کو "کمیتی" کہتے تھے، اس کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہ ہم بھی عربوں کی طرح جنہوں نے ٹیلیویژن آنے کے بعد اس کو " تلفاز" کہا، تلفاز بنایا ہوا عربی لفظ ہے۔ ہم بھی اس کو  فارسی بنا کے 'تلویزان' کہہ سکتے ہیں۔ فارسی میں لفظ "رادیو"  جیسا کوئی لفظ نہیں ہے ممکن ہے کہ شاذ و نادر کوئی لفظ مل جائے۔ کیا حرج تھا کہ ہم اس کو رادیان کہتے، تاکہ فارسی ہو جاتا۔ اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ ہم نے یہ کام نہیں کیا۔ تسلسل کے ساتھ فارسی زبان ميں باہر سے الفاظ داخل ہو رہے ہیں۔ اخبارات میں لکھ رہے ہیں، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر تکرار کر رہے ہیں، کتابوں میں لکھ رہے ہیں، اب تو سوشل میڈیا بھی ہے، سوشل میڈیا پر بھی لکھ رہے ہیں۔ مجھے تشویش ہے۔ واقعی ایک کام جو ہونا چاہئے،  یہی ہے۔ آرٹ اور فن کے شعبے میں یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ ہماری اس نشست میں جن لوگوں کو مخاطب کرکے کہا جا سکتا ہے ان میں ایک وزیر ثقافت جناب صالحی صاحب ہیں(11) اور  فن اور آرٹ کے شعبے کے سربراہ جناب مومنی صاحب ہیں۔ واقعی آپ لوگ اس بارے میں سوچیں۔ فارسی زبان کو خراب، فرسودہ اور ختم نہ ہونے دیں۔ ہمیں اس کی بہت زیادہ حفاظت کرنی چاہئے۔

بعض اوقات میں غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ شاہی حکومت کے دور میں ، جب ہر چیز غیر ملکیوں سے وابستہ تھی، زبان کے مسئلے میں، تھوڑا سا تعصّب پایا جاتا تھا، اوائل انقلاب میں اس پہلو سے ہماری روش بھی بہت اچھی تھی لیکن بعد میں آہستہ آہستہ سب کچھ اس کے حال پر چھوڑ دیا گيا۔

علم شعر میں بھی یہی لسانی لا ابالی پن کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔ ترانوں میں معیار بہت گر گیا ہے بعض ترانے جو کہے جا رہے ہیں، ان کا معیار واقعی بہت پست ہے۔ مضمون میں تو عیب ہے ہی، لفظی ساخت کے لحاظ سے بھی یہ ترانے بہت برے ہیں اور پھر یہی ترانے اپنی اسی ساخت کے ساتھ، غیر قانونی انڈر گراؤنڈ فضا کی بات ہی اور ہے، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی نشر ہوتے ہیں۔ فلموں کے ٹائٹل میں ان کی تکرار ہوتی ہے، نشر ہوتے ہیں اور رواج پاتے ہیں۔ میری نظر میں اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اوائل انقلاب کے ترانے، جیسے یہی ترانہ جو انھوں نے (12) پڑھا «این بانگ آزادی است کز خاوران خیزد» بہت اچھا ہے۔ خدا رحمت کرے حمید سبزواری پر انھوں نے اس طرح کے اشعار بہت کہے ہیں۔ ہمیں زبان کی حرمت کی حفاظت کرنی چاہئے۔   

دیکھئے عزیزان من!  صدیوں سے اس زبان کی  شعرا کے وسیلے سے اور کسی حد تک قلمکاروں کے وسیلے سے، لیکن زیادہ تر شعرا کے وسیلے سے حفاظت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سعدی کی زبان ہے، اگر آپ اس شعر کے مضمون کو جو میں نے ابھی پڑھا ہے: "بہ جھان خرّم از آنم    کہ جھان خرّم ازاوست" (13) بیان کرنا چاہیں تو اس سے زیادہ فصیح اور گویا الفاظ لا سکتے ہیں؟ یا اس شعر کے لے لیں:

کجایید ای شہیدان خدایی                بلاجویان دشت کربلایی (14)

 کیا آپ کو اندازہ تھا کہ یہ شعر مولانا رومی کا ہوگا؟ یہ شعر مولانا رومی کا ہے جو آٹھ سو سال پہلے کہا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ آج کے لئے کہا گیا ہے۔ یعنی یہ زبان اس طرح صحیح و سالم ہم تک پہنچی ہے۔ اسی طرح صدیوں پہ صدیاں گذر گئيں لیکن یہ زبان محفوظ رہی اور ہم تک پہنچی۔ حتّی سبک ہندی بھی باوجود اس کے کہ مضمون کے لحاظ سے پیچیدہ اور دشوار ہے لیکن اس کی زبان صاف ستھری اور بہت قوی ہے۔ بالخصوص سبک ہندی کے ممتاز شعرا جیسے صائب، جیسے کلیم، جیسے حزیں جیسے  بیدل، واقعی ان کی زبان بہت اعلی معیار کی ہے۔

 در هیچ پرده‌ نیست نباشد نوای تو-عالَم پُر است از تو و خالی است جای تو

(تیری آواز پردے میں نہیں ہے،  دنیا تجھ سے مملو ہے  اور تیری جگہ خالی ہے)

هر چند کائنات گدای درِ تواَند هیچ آفریده نیست که داند سرای تو (15)

(اگرچہ پوری کائنات تیری گدا ہے  لیکن کسی بھی مخلوق کو تیرے در کا پتہ نہیں ہے) اگر آپ اسی مضمون کو بیان کرنا چاہیں تو صائب کے دور کے چار سو سال بعد، اس سے زیادہ واضح، روشن اور فصیح الفاظ لا سکتے ہیں؟ زبان کی اس طرح حفاظت کی ہے۔ اس طرح یہ زبان ہم تک پہنچی ہے۔ اب ہم اس زبان کو کسی بے ہنر ترانہ کہنے والے کے سپرد کر دیں- واقعی بے ہنر ہیں- تاکہ وہ الفاظ کو خراب کر دیں، توڑ مروڑ کے رکھدیں اور پھر ہم اس کو نشر کرنے کے لئے بیت المال سے پیسے خرچ کریں اور ریڈیو اور ٹیلیویژن اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے اس کو نشر کریں!

 امید ہے کہ خداوند عالم ہمیں توفیق عطا کرے گا کہ ہم ان امور کو صحیح طریقے سے انجام دے سکیں۔ آج رات آپ عزیز دوستوں سے مل کے بہت خوشی ہوئی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیابی و کامرانی عطا کرے گا۔

و  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1)  اس اجتماع کے شروع میں شعرائے کرام نے اپنے اشعار سنائے۔

2) سورہ رحمن، آیات 1 تا 4 : "(خدائے) رحمن نے قران سکھایا، انسان کو خلق کیا اور اس کو بیان کی تعلیم دی۔"

3)  سورہ حدید کی آیت نمبر 25 کا ایک حصہ؛ "یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو آشکارا دلیلوں اور نشانیوں کے ساتھ بھیجا ہے ۔۔۔"

4)  سورہ ص کی آیت نمبر 82 کا ایک حصہ؛ "۔۔۔ میں ان سب کو بہکاؤں گا۔"

5)   سعدی۔ قصائد

6)  سعدی۔ غزلیات

7)   سعدی۔ غزلیات، غزل نمبر 13

8)   حافظ۔ غزلیات، اس غزل کا مطلع ہے:

" زان یار دلنوازم شکریست باشکایت – گر نکتہ دان عشقی بشنو تو این حکایت "

9)  ابوالفرج اصفہانی کی تحریر

10)   فارسی زبان کے اساتذہ کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کے اراکین سے خطاب (16-10-1374مطابق 31-12-1995)

11)  جناب ڈاکٹر سید عباس صالحی

12)  جناب مرتضی امیری اسفندقہ

13)   سعدی۔ نصائح، غزلیات، اس مطلع کی غزل:

"بہ جہان خرّم ازآنم کہ جھان خرّم از اوست  عاشقم برہمہ عالم کہ ہمہ عالم از اوست"

14)  مولوی۔ دیوان شمس، غزلیات، اسی مطلع کی غزل

15)  صائب تبریزی۔ دیوان اشعار، غزلیات، اسی مطلع کی غزل