رہبر انقلاب اسلامی نے معیشت اور ثقافت کو ملک کے دو کلیدی نکات سے تعبیر کیا اور داخلی پیداوار پر عہدیداران کی بھرپور توجہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے ملک کو در پیش مشکلات کے ازالے کا کلیدی راستہ قرار دیا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کو تیل کی آمدنی پر انحصار سے باہر نکالنے کے سلسلے میں بڑے اہم نکات بیان کرتے ہوئے ملکی معیشت کو رفتار عطا کرنے والے شعبوں جیسے ریئل اسٹیٹ، زراعت اور نالج بیسڈ کمپنیوں پر خاص توجہ، پیداواری شعبے میں سرگرم افراد کو اقتصادی جنگ کے سپاہیوں کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت اور اقتصادی پیشرفت کی سمت اور ہدف سماجی انصاف کے قیام اور غربت کے خاتمے پر مرکوز کرنے پر تاکید کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ثقافت کے شعبے سے ربط رکھنے والی وزارتوں اور متعلقہ اداروں کے عہدیداران کو دینی، انقلابی اور اخلاقی اصولوں پر دشمن کے ہمہ جہتی حملوں کا ہوشمندانہ اور سنجیدہ انداز سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔

اپنی گفتگو کے آغاز میں رہبر انقلاب اسلامی نے عید غدیر خم اور فرزند رسول حضرت امام موس کاظم علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیز ایران میں منائے جانے والے ہفتہ حکومت کی مبارکباد پیش کی اور گراں قدر شہیدوں، شہید صدر رجائی اور شہید وزیر اعظم با ہنر کو یاد کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ہفتہ حکومت ایک انڈیکیٹر اور علامت ہے جو گزرے ایک سال کی کوششوں اور خدمات کے تذکرے سے ایک طرف حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے اور دوسری جانب اگر ان کوششوں میں مجاہدانہ عمل اور الہی نیت بھی شامل ہے تو معاشرے میں بے شمار برکتوں کا راستہ بھی کھول سکتا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ عہدیداران کو چاہئے کہ فرائض منصبی ادا کرنے کے دورانئے کی قدر کریں کہ جو اللہ کے لطف خاص کی وجہ سے عوام کی خدمت کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس راہ سے آخرت کے بڑے دشوار میدان کے لئے زاد سفر حاصل کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے صدر روحانی کی دوسرے دور کی حکومت کے باقی ماندہ دو سال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ حکومت ان دو برسوں میں فروعی مسائل سے خود کو دور رکھے جو سوشل میڈیا کے دور میں بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور کلیدی مسائل کو اپنی ترجیح قرار دے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ معیشت اور ثقافت ملک کی دو اصلی ترجیحات ہیں۔ آپ نے اقتصادیات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات سے غریب طبقے اور مڈل کلاس پر پڑنے والے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے داخلی پیداوار کے فروغ کو ان مشکلات کے ازالے کا بنیادی راستہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک اس چابی کو حاصل کرنا اور اقتصادی مشکلات کے تالے میں اسے گھمانا آسان کام تو نہیں ہے لیکن بہرحال اس کام کو انجام دینا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رواں ہجری شمسی سال 1398 کو پیداوار کی فروغ کے سال سے موسوم کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نام انتخاب کرنے کی وجہ اغیار کی جانب سے خلاف ورزیوں میں اضافے کی پیش بینی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ان دشمنیوں کا بہترین مقابلہ پیداوار کا فروغ ہے اور فضل پروردگار سے مختلف شعبوں میں سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں جو اپنے آپ میں ملک کے اندر موجود استعداد کی علامت بھی ہیں، بنابریں عہدیداران کو چاہئے کہ داخلی  پیداوار کو اپنا اصلی ہدف بنائیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اقتصادی میدان میں ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے تین موضوعات پر تاکید کی۔ آپ نے فرمایا کہ خام تیل کی برآمدات پر ملکی معیشت کے انحصار کو ختم کرنا، اقتصاد کو رفتار عطا کرنے والے عناصر پر توجہ جو دیگر شعبوں کو بھی حرکت میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پیداواری شعبے میں مصروف عمل افراد کے سلسلے میں عہدیداران کے نقطہ نظر میں تبدیلی اہم ترجیحات ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ خام تیل بیچ کر آسانی سے حاصل ہونے والی رقم بہت بڑی مصیبت ہے اور یہ دیرینہ مشکل ملکی پیشرفت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ان ممالک کا حوالہ دیا جو ایک قطرہ بھی تیل کا پروڈکشن کئے بغیر ترقی کی راہ پر آگے بڑھے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پابندیاں نہ ہونے کے دور میں بھی تیل کے بازار کا کنٹرول منجملہ تیل کی قیمت، خریداری کی مقدار وغیرہ کا تعین دنیا کے بڑے صارف ممالک یعنی مغربی ملکوں کے ہاتھ میں رہتا ہے اور وہ اپنے مفادات کے مطابق اور سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ان ملکوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں جو تیل کی پیداوار کر رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خام تیل کو گوناگوں پیٹرولیم اشیاء میں تبدیل کئے جانے کو خام تیل کی برآمدات پر انحصار ختم کرنے کا اصلی راستہ قرار دیا اور فرمایا کہ بارہا کہا جا چکا ہے کہ ہم مفکرین اور صنعت کاروں کی مدد سے موجودہ پیٹرولیم اشیاء کے علاوہ مستقبل میں ایسی دیگر پیٹرولیم اشیا بھی تیار کر سکتے ہیں جن کا برآمداتی منافع خام تیل سے کہیں زیادہ ہو۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ریفائنریوں کی تعمیر پر صدر مملکت، وزارت پیٹرولیم اور دیگر اداروں کی خاص توجہ ضروری ہے۔

آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے پیداواری شعبے میں مصروف سرمایہ کاروں اور دیگر افراد کے سلسلے میں حکومت، عہدیداران اور اداروں کا نقطہ نگاہ تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے ان افراد کا موازنہ مقدس دفاع کے برسوں کے سپاہیوں سے کرتے ہوئے فرمایا کہ پروڈکشن کے شعبے میں مصروف افراد دشمن سے جاری اقتصادی جنگ کے سپاہی ہیں اور انھیں اسی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں پیداوار کے فروغ کے لئے چار بنیادی عوامل کا ذکر کرتے ہوئے افرادی قوت، سرمائے، ٹیکنالوجی اور اقتصادی مینیجمنٹ پر زور دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے صرف ملک کا دولتمند بن جانا مطلوبہ ہدف نہیں ہے بلکہ اقتصادی پیشرفت کا اصلی مقصد سماجی انصاف اور غربت کا خاتمہ ہے ورنہ ہم بھی امریکہ جیسے پیشرفتہ ممالک کی طرح بن جائیں گے جہاں کمزور طبقات آج بھی بڑی سخت مشکلات میں مبتلا ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں ثقافت کو ملک کی ایک اور اہم ترجیح قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ثقافت کے میدان میں ہمیں اغیار کے وسیع محاذ کی جانب سے ہمہ جہتی حملوں کا سامنا ہے، لہذا ثقافتی امور سے متعلق تمام عہدیداران کو چاہئے کہ اس موضوع پر پوری سنجیدگی سے توجہ دیں۔

آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی نظام کے دشمن آشکارا طور پر کہہ رہے ہیں کہ عسکری جنگ اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ اور اسلام کی حاکمیت پر غلبہ پانا ممکن نہیں ہے بلکہ ثقافتی یلغار کے ذریعے اور ذہنوں اور افکار کو متاثر اور ہوس و خواہشات کو متحرک کرکے اس ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ہم ملک کی ثقافتی فضا کو محصور کر دئے جانے کے قائل نہیں ہیں لیکن اسے اس کے حال پر چھوڑ دینے کے بھی مخالف ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ مقابل محاذ اور استکباری طاقتیں اسلامی نظام پر ضرب لگانے کے لئے اپنے تمام ثقافتی وسائل اور فنون کو استعمال کر رہی ہیں، لہذا اس محاذ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے پاس ٹھوس منصوبہ بندی ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومتی عہدیداران کو سفارش کی کہ دشمن سے ہرگز ہراساں نہ ہوں، آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات مجھے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جن سے دشمن سے خوف و ہراس کا عندیہ ملتا ہے جبکہ واقعی دشمن سے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ دشمن تو ابتدائے انقلاب سے موجود تھا اور اس کے بس میں جو کچھ تھا اس نے کیا لیکن کامیاب نہیں ہوا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ، یورپ یہاں تک کہ سابق سوویت یونین نے ان چالیس برسوں میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو بھی ممکن تھا کیا لیکن کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک اس کی وجہ سے تکلیفیں اور پریشانیاں ہوئیں لیکن وہ اسلامی نظام کی پیشرفت کے عمل کو نہیں روک سکے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سیاسی، دفاعی اور اقتصادی میدانوں میں اسلامی جمہوریہ کی توانائیوں میں اضافے اور قابل قدر پیشرفت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اور اسلامی جمہوریہ کے آئندہ چالیس سال گزشتہ چالیس سال کی نسبت ہمارے لئے زیادہ بہتر اور دشمن کے لئے زیادہ خراب ثابت ہوں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا اور اس علاقے میں مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت ہندوستان سے ہمارے اچھے روابط ہیں لیکن ہندوستان کی حکومت سے ہمیں یہ توقع ہے کہ کشمیر کے شریف و نجیب عوام کے سلسلے میں منصفانہ سیاست اپنائے، اس علاقے کے مسلمان عوام پر جبر نہ کیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کشمیر کے علاقے کی موجودہ صورت حال اور اس سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجود اختلافات کو بر صغیر ہند سے نکلتے وقت خبیث برطانیہ کی حرکتوں کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ انگریزوں نے کشمیر میں تصادم جاری رکھنے کے لئے اس علاقے کو یہ زخم دے دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی گفتگو میں گندم کی پیداوار سمیت مختلف شعبوں میں ملک کو خود کفیل بنانے سے متعلق سرگرمیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ پابندیوں کے باوجود ضروری اشیاء کا ذخیرہ اور سپلائی اطمینان بخش صورت حال میں ہے۔

ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ امریکہ کی ریشہ دوانیوں کے باوجود ہم نے ضرورت کی اشیاء کی درآمدات و برآمدات اور بازار کو مستحکم رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ صدر مملکت نے سختیوں پر ملت ایران کے صبر و تحمل کی تعریف کی اور کہا کہ آج عالمی سطح پر امریکہ ایک عہد شکن اور تنہا ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہم نے عالمی قانونی اداروں میں دو دفعہ امریکہ کو شکست دی۔

صدر مملکت روحانی نے امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو اقتصادی دہشت گردی قرار دیا اور کہا کہ آج امریکہ ملت ایران، بچوں، عورتوں اور مردوں سب کے خلاف اقتصادی دہشت گردی میں ملوث ہے۔

صدر روحانی نے ایٹمی ڈیل کے سلسلے میں ایران کی جانب سے کچھ شقوں پر عملدرآمد معطل کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے بعض ذمہ داریوں پر عملدرآمد کی معطلی کا بہت مناسب راستہ چنا ہے اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہمارے صبر کی ایک حد ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی طرف سے عہد شکنی ہوتی رہے اور ہم اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتے جائیں۔

صدر روحانی نے کہا کہ اگر برطانیہ، فرانس، جرمنی چین اور روس سے مذاکرات نتیجہ خیز ہوئے تو حالات بدل سکتے ہیں، لیکن اگر مذاکرات کا نتیجہ نہیں نکلا تو ہم اپنے اسی راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے۔

صدر روحانی نے کہا کہ بڑی طاقتوں کو بخوبی پتہ ہے کہ اگر ایران کی تیل برآمدات پر مکمل پابندی لگی اور اسے زیرو بیرل تک پہنچایا گيا تو بین الاقوامی آبی گزرگاہوں کا تحفظ ماضی جیسا نہیں رہ جائے گا، بنابریں ایران پر یک طرفہ طور پر دباؤ ڈالنا ان کے مفاد میں نہیں ہے اور ایسی صورت میں علاقے اور دنیا میں ان کی سلامتی کی گیرنٹی باقی نہیں رہے گی۔