17 ستمبر 2019 کو فقہ کے درس خارج سے قبل اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امریکیوں کی جانب سے بار بار مذاکرات کی پیشکش کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مذاکرات کے اس حربے کا مقصد اپنے مطالبات مسلط کرنا اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ان کی پالیسی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی ملت ایران کے سامنے ذرہ برابر اہمیت نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام عہدیداران متفقہ طور پر یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ امریکہ سے کسی بھی سطح پر گفتگو نہیں کی جائے گی۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

ایام محرم یعنی عشرہ عاشورا کا اختتام ہوا۔ ہمارے افراد جو بعض اجتماعات میں جاتے ہیں، جائزہ لیتے ہیں، تخمینہ لگاتے ہیں اور ہمیں رپورٹ دیتے ہیں، انھوں نے جو رپورٹ ہمیں دی ہے یا ہم نے ٹیلی ویژن پر یا باہر جو خود دیکھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سال عزاداری کے اجتماعات میں بحمد اللہ سب نے بہت بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس سال عزاداری کے اجتماعات میں زیادہ رونق نظر آئی۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ تہران میں مختلف مقامات پر عزاداری کے  پروگرام ہوں جن میں بیس ہزار افراد، تیس ہزار افراد شرکت کریں! خطباء کی تقریریں سنیں، نوحہ خوانی و مرثیہ خوانی کرنے والے افراد کا کلام سنیں اور عزاداری کریں، اشک غم بہائیں! اہل بیت علیہم السلام سے یہ قلبی رشتہ وہ بھی مقدسات کے خلاف ہمارے دشمنوں کی جانب سے ٹی وی پر اور دیگر ذرائع  ابلاغ کے توسط سے اس بڑے پیمانے پر جاری تشہیراتی مہم کے باوجود، سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے باوجود، اسی طرح نوجوانوں کے لئے گوناگوں پرکشش مشغلے موجود ہونے کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ جب محرم آتا ہے تو عوام کا ایک سیلاب خیمہ حسین ابن علی علیہما السلام کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ البتہ ان میں میانہ سال اور سن رسیدہ افراد بھی الحمد للہ موجود ہوتے ہیں لیکن نوجوان جو دشمن کی یلغار کی زد پر رہتے ہیں، ان کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ چیز ایک خاص مفہوم رکھتی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری قوم حسین ابن علی علیہما السلام کے پرچم تلے ایک راہ پر رواں دواں ہے۔ میں آج اپنی فقہی بحث کا آغاز کرنے سے قبل کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جو میں نے نوٹ کر رکھی ہیں۔

قوم فیصلہ کرنے کی حالت میں ہے۔ وطن عزیز کے خلاف اور مقدسات کے خلاف دشمن محاذ کی جانب سے جو وسیع اور گہری تشہیراتی مہم جاری ہے اور بسا اوقات ملک کے اندر بھی گوشہ و کنار سے اس خفیہ اور زیر زمین موجود لہر کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن اس میدان میں کتنا سرگرم ہے، (اس کے مقابلے میں قوم اپنا فیصلہ کرنے کی حالت میں ہے۔) البتہ ہم ان سازشوں اور منصوبوں کے بڑے حصے سے آگاہ ہیں، ہمیں ان کی اطلاعات ہیں، ملک کے گوناگوں اداروں کو بخوبی علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں عوام کا کردار بہت اہم ہے۔ میں جو اپنی تمام تقاریر میں، یا یوں کہوں کہ بہت سی تقاریر میں نوجوانوں کے رول پر تاکید کرتا ہوں، عوام کے رول پر تاکید کرتا ہوں تو وہ اسی قضیئے کے مد نظر ہے۔

بھائیو اور بہنو! وہ تمام افراد جن تک ہماری یہ بات پہنچے گی! اس ملک کی فلاح و بہبودی کے امور کی باگڈور اس ملک کے عوام خاص طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس ملک  کےعوام کے عزم، عوام کے فیصلے، عوام کی بصیرت اور عوام کے ایمان کے زیر سایہ قوم اپنی صحیح ڈگر پر پہنچ سکتی ہے اور ملک کو مطلوبہ منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم جو مستقل طور پر 'داخلی صلاحتیں، داخلی صلاحیتیں' دہرا رہے ہیں تو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔ ثقافتی مسا‍ئل کے سلسلے میں بھی، اقتصادی امور کے سلسلے میں بھی اور سماجی مسائل کے تعلق سے بھی۔ تمام میدانوں میں، یہاں تک کہ ادارہ جات کے مخصوص میدانوں میں بھی، جیسے سیکورٹی کے میدان میں بھی عوام ہی مدد کر سکتے ہیں، امور کو آگے بڑھا سکتے ہیں، ان کی اصلاح کر سکتے ہیں۔

علمی اعتبار سے ہم پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ پیشرفت ہمارے معاشرے کے ایک حصے کی بلند ہمتی کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کی بلند ہمتی کا ثمرہ ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ پیداوار اور پیداواری نمو کے مختلف میدانوں سے بھی امید افزا خبریں مل رہی ہیں۔ ان شاء اللہ اس کے اثرات و ثمرات عوام بعد میں دیکھیں گے۔ بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ کچھ غفلتیں ہوئیں، کچھ کوتاہیاں رہیں، لیکن اس وقت اقدامات اور محنت و کوشش مطلوبہ اہداف کی جانب مرکوز ہے۔ یہ چیزیں بحمد اللہ انجام پا رہی ہیں۔ ملک کے گوناگوں کاموں اور مشکلات کا حل عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اغیار سے آس نہیں لگانا چاہئے۔ فلاں حکومت اور فلاں انتظامیہ سے امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئے۔ فلاں عہدیداران اور فلاں عمائدین کے ساتھ نشست و برخاست سے امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی غلط فہمی نہ ہو! ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی حکومتوں کے ساتھ روابط و تعلقات کا باب بند کر دیا جائے۔ بالکل نہیں۔ میں کئی سال اس ملک کا صدر رہ چکا ہوں۔ ہم اہل گفتگو، اہل نشست و برخاست اور تعلقات کے حامی ہیں۔ لیکن نشست و برخاست کرنا ایک الگ چیز ہے اور فلاں کے ساتھ یا فلاں کے ساتھ نشست و برخاست پر امور مملکت کو موقوف کر دینا ایک الگ چیز ہے۔ آخر الذکر روش سے ہم روکتے ہیں، منع کرتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو دنیا کے وسائل سے استفادہ کیجئے، لیکن یاد رکھئے کہ مشکلات کا حل ملک کے اندر ہے۔ مشکلات کا حل عوام الناس کے ہاتھ میں ہے۔

اسلامی جمہوریہ کے مفادات کے لئے جس نے دنیا میں ایک نئی راہ کی بنیاد رکھی ہے اغیار سے مدد کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اسلامی جمہوریہ نے دنیا میں ایک نئی سوچ پیش کی ہے۔ مغرب کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ طاقتیں ہرگز اس نئی فکر کو، اس نئی بات کو، اس نئے راستے کو خندہ پیشانی سے قبول نہیں کریں گی، اس کی مدد نہیں کریں گی، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جہاں تک ہو سکے گا وہ دشمنی کا برتاؤ کریں گی اور انھوں نے کیا بھی ہے۔ لیکن ان کے بس میں نہیں ہے۔ ان کی دشمنی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کی دشمنی بالکل آشکارا ہے جیسے امریکا۔ نصرت خداوندی سے ہم فتحیاب ہوئے اور آئندہ بھی فتح ہمارے قدم چومے گی، تاہم اس حقیقت سے ہمیں آگاہ رہنا چاہئے۔

اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی ایک بار پھر مذاکرات کی بات بار بار کئے جا رہے ہیں۔ یہ ایک چال ہے۔ یہ سب کو سمجھ لینا چاہئے، سب کو توجہ رکھنا چاہئے۔ البتہ خود امریکی بھی ایک طرح کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں: "بلا شرط مذاکرات" کبھی ان کا بیان آتا ہے: "بنا شرط مذاکرات" اور کبھی کہتے ہیں: "بارہ شرطوں کے ساتھ مذاکرات" اب یا تو ان کی پالیسیوں میں آشفتگی اور عدم تسلسل ہے، انھیں معلوم ہی نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ احتمال ہے کہ یہی وجہ ہوگی۔ یا پھر وہ فریب دینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک چال ہوتی ہے کہ ایک عہدیدار کوئی بیان دیتا ہے، دوسرا کچھ اور کہتا ہے۔ مقصد ہوتا ہے فریق مقابل کو اضطراب اور سراسیمگی میں مبتلا کرنا۔ لیکن ہمارے یہاں کسی طرح کی سراسیمگی نہیں ہے۔ ہمارا راستہ واضح ہے۔ ہمیں اچھی طرح احساس و ادراک ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ امریکہ اگر کہہ رہا ہے کہ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ آئیے کوئی منصفانہ حل تلاش کرتے ہیں۔ نہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ آئیے مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں، ہم ایک بات کہیں گے اور آپ اسے قبول کیجئے! مذاکرات سے ان کا مقصد یہی ہوتا ہے۔ اب تو وہ اس قدر گستاخ ہو گئے ہیں کہ یہی بات بڑی ڈھٹائی سے صریحی طور پر کر رہے ہیں۔ پہلے میں کہتا تھا کہ امریکیوں کا یہ مقصد ہے تو بعض لوگ کہتے تھے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ لیکن اب تو خود امریکی یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ان میں سے ایک نے یہی کہا کہ ہمیں ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئے اور ایران کو فلاں فلاں باتیں قبول کرنی ہوں گی! مذاکرات سے ان کا مقصد یہی ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم ایک بات کہیں تو آپ فورا اسے قبول کر لیں۔ اچھی بات ہے تو وہ جائیں انھیں سے مذاکرات کریں جن کے ساتھ وہ دودھ دینے والی گائے جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ جس طرح چاہیں ان کے ساتھ مذاکرات کریں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ تو مومنین کی جمہوریہ ہے، اللہ پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں کی جمہوریہ ہے، عزت و وقار کی جمہوریہ ہے۔ یہاں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے اور فریق مقابل کی بات خاموشی سے قبول کرتی رہے۔

یہاں ایک اہم نکتہ ہے جسے آپ فضلائے کرام اور علمائے محترم جن کے اندر خطبا بھی ہیں، ایسے افراد ہیں جو عوام کے رابطے میں رہتے ہیں، آپ خوب توجہ سے سنئے، اسی طرح عوام الناس کو بھی چاہئے کہ اسے غور سے سنیں! امریکی حکومت نے ایک پالیسی چنی ہے، وہ اسلامی جمہوریہ پر حد اکثر دباؤ ڈالنے کی پالیسی ہے۔ وہ خود بھی کہتے ہیں، کہتے ہیں حد اکثر دباؤ کی پالیسی۔ امریکہ کی موجودہ حکومت کا موقف یہ ہے، وہ کہتی ہے کہ جناب! تکلفات کے ذریعے اور میٹھی میٹھی باتیں کرکے اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اسے تواضع اور سر تسلیم خم کرنے پر تیار نہیں کیا جا سکتا تو اب ہمیں چاہئے کہ اس پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں۔ زیادہ سے زیادہ دباؤ یہی ہے جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ گوناگوں پابندیاں، مسلسل دھمکیاں، ذرائع ابلاغ وغیرہ میں مسلسل ہرزہ سرائی، یہ حد اکثر دباؤ کی پالیسی ہے۔ انھیں یہ امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ وہ حد اکثر دباؤ کی پالیسی کو کسی بھی صورت میں کامیاب دکھانا چاہتے ہیں تاکہ ملک کے اندر اپنے حریفوں کے سامنے بھی اور یورپی ممالک کے سامنے بھی اپنی پشت تھپتھپا سکیں اور امریکہ کی مسلمہ پالیسی کے طور پر اسے متعارف کرا سکیں کہ ایران سے حد اکثر دباؤ کی پالیسی کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

یہ کیسے ثابت کریں گے کہ یہ پالیسی کامیاب ہوئی ہے؟ کیوںکہ اب تک تو حد اکثر دباؤ کی پالیسی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہ بات وہ خود بھی کہہ رہے ہیں۔ خود امریکیوں کے اندر بھی اور دنیا میں بھی بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ایران کو مجبور نہیں کر سکی۔ ویسے یہی حقیقت بھی ہے۔ تو اب کیسے وہ ثابت کریں گے کہ حد اکثر دباؤ کی پالیسی کامیاب ہو گئی؟ اس طرح ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداران کو مذاکرات کی میز پر لائیں اور اس کے بعد کہیں کہ دیکھئے! یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے، لیکن حد اکثر دباؤ کی پالیسی نے انھیں مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے مجبور کر دیا۔ اصلی مقصد یہ ہے۔ ایسا کرکے وہ سب کو قائل کرنا چاہتے ہیں اور امریکی سیاست میں بھی اسے مسلم الثبوت پالیسی کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں کہ حد اکثر دباؤ ہی اسلامی جمہوریہ سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے، یہ ان کی سیاست ہے۔

اب اس کے مقابلے میں ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا ہے کہ اگر ہمارا دشمن یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گيا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ ایران کا علاج ہے اور اس کا ایران پر اثر ہوتا ہے تو ایران پھر کبھی آسائش کا منہ نہیں دیکھ سکے گا۔ جب بھی وہ ایران سے غنڈہ ٹیکس وصول کرنا چاہیں گے تو اگر ایران نے مطالبہ مان لیا تب تو بات ختم ہو جائے گی، لیکن اگر مطالبہ تسلیم نہ کیا تو فورا حد اکثر دباؤ والا حربہ اختیار کیا جائے گا۔ اگر ان کو پتہ چل گيا اور ثابت ہو گيا کہ حد اکثر دباؤ کی پالیسی کارگر ہے، اس کا اثر ہوتا ہے تو پھر اسلامی جمہوریہ، ہمارے وطن عزیز اور ملت عزیز کو کبھی آسائش کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہی پالیسی امریکہ کے تمام ناحق، استکباری اور جابرانہ مطالبات کی پشت پر کار فرما رہے گی۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہ لوگ مذاکرات پر اتنا اصرار جو کر رہے ہیں، بعض یورپی عہدیداروں کو بیچ میں لاتے ہیں، میں یورپیوں کے بارے میں کسی اور موقع پر بات کروں گا، وہ اصرار کرتے ہیں کہ اگر آپ امریکی صدر سے بس ایک میٹنگ کر لیتے ہیں تو آپ کی ساری مشکلات حل ہو جائیں گی تو ان کا مقصد یہی ہے۔ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حد اکثر دباؤ کی پالیسی ایک کامیاب پالیسی ہے چنانچہ ایران کے سلسلے میں اسی کو بروئے کار لانا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں ہمیں یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ملت ایران کے سامنے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی رتی برابر بھی اہمیت نہیں ہے۔

اگر ہم اپنی اس گفتگو کو دو جملوں میں اجمالی طور پر بیان کرنا چاہیں تو ایک جملہ یہ کہنا چاہئے کہ امریکہ سے مذاکرات کا مطلب ہے اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کے مطالبات مسلط کرنا۔ دوسرا جملہ یہ ہے کہ مذاکرات کا مطلب ہے امریکہ کی طرف سے حد اکثر دباؤ کی پالیسی کی کامیابی ظاہر کرنا۔ اسی لئے آپ نے دیکھا کہ صدر محترم نے، وزیر خارجہ نے، ملک کے عہدیداران نے بیک آواز، ایک زبان ہوکر کہا کہ ہم امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ نہ دو فریقی مذاکرات اور نہ چند فریقی مذاکرات۔ اگر امریکہ نے اپنی بات واپس لی، اس معاہدے میں جسے اس نے توڑا ہے واپس لوٹ آیا، توبہ کی اور معاہدے میں شامل ملکوں کا حصہ بن گيا تب تو وہ معاہدے میں شامل ممالک کے ساتھ مل کر ایران سے ہونے والے مذاکرات میں شرکت کر سکتا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداران اور امریکیوں کے درمیان کسی بھی سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے نہ دورہ نیویارک کے دوران اور نہ کسی اور جگہ۔ یہ بات پوری صراحت کے ساتھ صدر محترم نے بھی کہی، وزیر خارجہ نے بھی کہی، میں نے کل رات ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ وزارت خارجہ کے محترم ترجمان نے بھی کہی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ یہ لوگ ان چالیس برسوں میں گوناگوں حربے استعمال کرکے اسلامی جمہوریہ کو مغلوب نہیں کر سکے۔ ان کی پالیسیاں یکے بعد دیگر اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں سے شکست کھاتی گئیں۔ نصرت خداوندی سے آئندہ بھی وہ اسلامی جمہوریہ سے مغلوب ہوں گے اور اسلامی جمہوریہ سربلندی و سرفرازی کے ساتھ میدان سے باہر نکلے گی۔