13 اکتوبر 2019 کے اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن کی اس آیہ کریمہ «وَ أَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیلِ تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَ عَدُوَّکُم» کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ یہ فرمان خداوندی دائمی سبق کی حیثیت سے ہمیشہ سپاہ پاسداران کی ترجیحات کا حصہ رہنا چاہئے۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم 

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا‌ ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة اﷲ فی الارضین.

السّلام علی الحسین و علی علیّ‌ بن‌ الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین الَّذین بذلوا مهجهم دون الحسین علیه ‌السّلام

سب سے پہلے تو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اس تقریب کی مناسبت سے اور آج کے اس دن کی مناسبت سے آپ تمام عزیز نوجوانوں کو، ایران کی انقلابی قوم کے نونہالوں کو جو ان شاء اللہ انقلاب کے شجرہ طیبہ کے شیریں ثمرات بنیں گے۔ ان نوجوانوں کو بھی جنہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور رینک حاصل کرکے پاسداران انقلاب فورس کے مجموعے کا حصہ بن گئے اور ان نوجوانوں کو بھی جو نئے نئے اس میدان میں وارد ہو رہے ہیں اور آج 'شولڈر مارک' حاصل کیا ہے۔ ان شاء اللہ اس با برکرت یونیورسٹی میں آپ اپنی تعلیم کو آگے بڑھائيں گے۔

آج میں دو تین مسائل کے بارے میں آپ عزیزوں سے بات کرنا چاہوں گا۔ ایک تو خود اس یونیورسٹی سے متعلق ہے، ایک موضوع کا تعلق سپاہ پاسداران انقلاب سے ہے اور ایک کا تعلق اسلامی جمہوری نظام اور ملک کے بنیادی امور سے ہے۔

اس یونیورسٹی کے بارے میں، خواہ آفیسرز ٹریننگ کالج ہو یا مجموعی طور پر یہ یونیورسٹی ہو اس کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ اللہ کی دی ہوئی بہت بڑی برکت ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یا اس یونیورسٹی مں کام کر رہے ہیں، یا جو لوگ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوانوں سے استفادہ کریں گے، ایک خداداد نعمت ہے۔ یہ یونیورسٹی بہت اہم ہے۔ میری تاکید ہے کہ سپاہ پاسداران کے عہدیداران اس یونیورسٹی کے امور پر بھرپور توجہ دیں کہ اسے مزید بلندی و ارتقاء حاصل ہو۔ البتہ جو رپورٹ محترم کمانڈر نے یہاں پیش کی بہت اچھی رپورٹ تھی، امید بخش تھی، پیشرفت دکھانے والی رپورٹ تھی، جو پروگرام یہاں پیش کئے گئے وہ بھی سپاہ کے نوجوانوں کی خلاقیت و جدت عملی کے تسلسل کی علامت ہے۔ آج کے پروگرام بڑے پرکشش، پرمغز اور گہرے مضمون کے حامل تھے، لیکن جیسا کہ میں نے بارہا تاکید کی ہے، بار بار کہا ہے کہ ہم بہت خوش ہیں، فخر بھی کرتے ہیں لیکن اتنے پر اکتفاء نہیں کر سکتے۔ یہ عمل اسی طرح آئندہ بھی جاری رہنا چاہئے۔ یونیورسٹی کی علمی و تربیتی سطح پر بھی اور دیگر موضوعات کے تعلق سے بھی جن کا میں ابھی ذکر کروں گا۔ منجملہ تقرری کا نظام اور اپوائنٹمنٹ کا پروسس بہت اہم ہے۔ اس پر خاص توجہ دینا چاہئے، اس پر زور دینا چاہئے۔ عمیق تربیتی پروگرام، ٹریننگ کے پروگرام بہت با معنی اور عمیق ہونے چاہئے۔

جن نکات کا ذکر سپاہ پاسداران کے کمانڈر نے کیا وہ بہت اہم ہیں۔ انھوں نے بالکل بجا فرمایا کہ بشریت اور دنیا کے علوم کا مستقبل انھیں نو ظہور مسائل پر مرکوز ہوگا۔ ان مسائل میں ہم بھی بحمد اللہ پیچھے نہیں ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ہمیں ان امور پر توجہ دینا چاہئے۔ ٹریننگ میں گہرائی، جامع تربیت، ادارے کے افسران و عہدیداران کے اندر ضروری مہارتوں کا ہونا، نظم و ضبط۔ جن چیزوں پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں ان میں ایک ہے یونیورسٹی کے تمام امور میں ڈسپلن اور نظم و ضبط۔ محکم نظم و ضبط اور مضبوط ڈسپلن کے ساتھ ساتھ ادارے کے ساتھ کمانڈروں اور عہدیداروں کا برادرانہ جذباتی رشتہ۔ یعنی وہی خصوصیت جو تشکیل کے وقت سے سپاہ پاسداران کے اندر رہی ہے کہ سپاہ کے اعلی رتبہ افسران سپاہ کے کارکنوں سے اخوت کا رشتہ رکھتے تھے۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں تدریس کرنے والے اساتذہ انقلاب کے اصولوں پر گہرا ایمان رکھنے والے، سپاہ پاسداران انقلاب پر گہرا ایمان رکھنے والے ہوں، ان امور پر خاص توجہ دیں۔ ہمارے عزیز دوست، برادران عزیز، سپاہ کے عہدیداران اس یونیورسٹی کے مسائل پر بھرپور توجہ دیں۔ یہ یونیورسٹی بہت اہم ہے، ان شاء اللہ ملک کے کلیدی مسائل میں اپنا رول ادا کرے گی۔

سپاہ کے تعلق سے ایک اور اہم نکتہ بھی ہے۔ سپاہ پاسداران بحمد اللہ آج خاص وقار کی مالک ہے۔ ملک کے اندر بھی اور بیرون ملک بھی۔ ایک اتفاق یہ ہوا کہ دشمنوں نے بھی سپاہ کی عزت افرائی میں مدد کی۔ امریکیوں نے جب سپاہ کے سلسلے میں تشدد آمیز اور کرخت چہرا دکھایا تو اس سے سپاہ کا وقار اور بڑھا۔ یہ ہماری پسند اور ہماری دلچسپی کی چیز میں دشمن کی طرف سے کی جانے والی مدد تھی۔ دشمن خدا اللہ کے بندوں سے دشمنی کا برتاؤ کرتا ہے اور یہ دشمنی بندگان خدا کی عزت بڑھاتی ہے، ان کے چہروں کو اور بھی درخشاں کرتی ہے۔

سپاہ کے لئے ایک دائمی سبق بھی ہے۔ میں نے ابھی چند روز قبل سپاہ کے کمانڈروں سے تفصیلی خطاب کیا سپاہ پاسداران کے بارے میں (2)۔ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ میں نے کسی حد تک بیان کیا۔ لیکن میں اس بات پر تاکید کرنا چاہوں گا کہ سپاہ کی آنکھ کے سامنے ایک دائمی سبق ہے اور وہ ہے یہ آیہ کریمہ؛ بِسمِ اللهِ الرّحمنِ الرَّحیمِ * وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیلِ تُرهِبونَ بِه عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم‌(۳) اس میں چند نکات ہیں۔

پہلی چیز ہے 'اعداد' یعنی آمادہ کرنا، جہاں تک استطاعت میں ہے۔ یعنی کسی خاص حد پر پہنچ کر رک نہ جائیے، جتنا بھی ممکن ہے ان شعبوں میں جن کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے اپنی آمادگی پر زور دیجئے اور اس میں اضافہ کیجئے۔ سپاہ پاسداران روز بروز اپنی آمادگی میں اضافہ کرے۔ جس چیز کے بارے میں آپ کو آمادگی رکھنی ہے ان میں سب سے پہلے «قُوَّة» ہے۔ دوسری چیز «رِباطِ الخَیل»‌ ہے۔ «قُوَّة» یعنی قدرت و توانائی، یعنی طاقت و توانائی۔ «رِباطِ الخَیل» یعنی وسائل، گوناگوں وسائل۔ ہر دور کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ تُرهِبونَ بِه عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم؛ «تُرهِبون» کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ آپ دشمن کو ہراساں کریں اور وہ آپ سے ڈریں۔ جی نہیں، یہ خوف در حقیقت ایک انسدادی قوت ہے۔ اگر دشمن کو آپ کی طاقت کا خوف ہوگا، وہ آپ کی آمادگی سے خوفزدہ ہوگا تو ایسی صورت میں یہ خوف دشمن پر روک لگا دے گا۔ اس انداز سے عمل کیجئے کہ دشمن جوشیلے اور فداکار مومن نوجوانوں کی ہیبت سے خوفزدہ رہے۔ یہ بہت اہم دفاعی ذریعہ ہے۔

یہ جو «قُوَّة» کا لفظ «اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّة» میں ہے اس کا مطلب ہے قوت۔ یہ قوت مختلف پہلوؤں سے نمایاں ہوتی ہے۔ اس کا ایک پہلو ہے تنظیمی اور محکمہ جاتی قوت۔ ادارہ اور محکمہ بہت محکم، طاقتور اور جامع ہونا چاہئے۔ یہ تنطیمی اور محکمہ جاتی طاقت ان چیزوں میں ہے جس کی سپاہ پاسداران کے تعلق سے خاص اہمیت ہونا چاہئے۔  

علمی و ماہرانہ قوت۔  دنیا میں تمام انسانی گروہوں اور تنظیموں کی کامیاب مہم علم کے زیر سایہ ہی آگے بڑھ سکی ہے۔ علم و دانش کی مدد سے  ہی قدرت، ثروت، بین الاقوامی قوت اور وقار حاصل ہوتا ہے۔ علم پر اسلام میں اس درجہ تاکید جو ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ تو طاقت کا ایک بڑا حصہ علم سے عبارت ہے۔

ٹیکٹک اور اسٹریٹیجی کے شعبے میں طاقت۔ سپاہ  پاسداران انقلاب کے عسکری مجموعے میں نئی نئی ٹیکٹک اور اسٹریٹیجک امور کے سلسلے میں دائمی طور پر روز افزوں اقدام اور آمادگی کا سلسلہ آگے بڑھتا رہنا چاہئے۔

بیداری اور آپریشنل آمادگی کے شعبے میں طاقت۔ غفلت ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ہمیشہ بیدار رہنا چاہئے۔ ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے؛ مَن نامَ لَم یُنَم عَنه (۴) اگر آپ محاذ جنگ پر سو گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے مد مقابل محاذ کے لوگ بھی سو گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ جاگ رہے ہوں۔ اس لئے محاذ پر ہمیشہ بیدار رہنا چاہئے۔ قوت کا مطلب ہے پختہ اور فولادی عزم، قوت کا مطلب ہے محکم اور خالص ایمان، قوت کا مطلب ہے روز افزوں جذبہ، یہ سب قوت کے عناصر ہیں۔ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّة، ان ساری چیزوں کو آمادہ کیجئے۔ قوت کا مطلب ہے بلند ہمتی اور جوش و جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کی تربیت۔ یہاں قوت و طاقت کا مظہر امام حسین ڈیفنس یونیورسٹی ہے جو بلند ہمتی اور جذبہ ایمانی سے آراستہ نوجوانوں کی تربیت کرتی ہے۔ یہ ساری چیزیں قوت و طاقت سے عبارت ہیں اور ان پر «اَعِدّوا لَهُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّة» کا اطلاق ہوتا ہے۔

'وَمِن رِباطِ الخَیل‌' کا مطلب ہے وسائل۔ وسائل پیشرفتہ ہونا چاہئے۔ طاغوتی (شاہی) حکومت کے دور میں ہمیں وسائل کے شعبے میں اغیار کی محتاجی تھی۔ ہم بہت پیچھے رہ گئے تھے، ناواقف تھے۔ بعض وسائل ہمارے پاس موجود تھے لیکن انھیں استعمال کرنا ہمیں نہیں آتا تھا۔ طاغوتی حکمرانی کا یہی خاصہ ہوتا ہے۔ وسائل پیشرفتہ ہونا چاہئے، اس میدان میں اغیار پر  انحصار نہیں ہونا چاہئے، وسائل خود آپ کی ملکیت میں ہوں، ضروری ہے کہ وسائل کو خود آپ نے ایجاد کیا ہو، اس کی پیداوار آپ کے ہاتھوں ہو رہی ہو، اس کا اختراع آپ کے ہاتھوں ہوا ہو، حقیقی معنی میں آپ ان وسائل کے مالک ہوں۔ وسائل پیشرفتہ اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔ ممکن ہے کہ کچھ وسائل ایسے ہوں جو دس سال سے زیر استعمال ہیں لیکن آج وہ کسی کام کے نہ  ہوں۔ آپ یہ دیکھئے کہ آج آپ کی ضرورت کی چیزیں کون سی ہیں، آج کون سی چیزیں آپ کے کام آئیں گی؟ وسائل کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ وہ پیشرفتہ اور جدید ترین ہوں، زمین، آسمان، خلا، سمندر، سرحد، قلب مملکت، ہر جگہ کی ضرورتوں کے مطابق ہوں، انٹیلیجنس وسائل اور آپریشنل وسائل ہر طرح کے وسائل مہیا ہوں۔ وسائل کا تنوع بھی ان چیزوں میں ہے جن پر خاص توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ سائیبر اسپیس کا موضوع آج اہم وسائل کا حصہ ہے۔ 'وار گیم' کا موضوع آج لازمی وسائل میں ہے۔ ان چیزوں پر آپ کو توجہ دینا چاہئے۔ مختصر یہ کہ قوت سے مراد وہ ہے اور وسائل سے مراد یہ چیزیں ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو؛ مَا استَطَعتُم، ان میدانوں میں خود کو آمادہ کیجئے۔

طاغوتی نظام کے دور میں، اغیار کی غلام بدعنوان حکومت کے دور میں ہمارے گودام ایسے امریکی ہتھیاروں سے بھرے ہوئے تھے جو امریکیوں کی ملکیت تھے۔ اس زمانے میں ان میں بہت سے ہتھیار ایسے تھے جنھیں کھول کر دیکھنے کی بھی ہمیں اجازت نہیں تھی، اس کے پرزوں سے آشنائی حاصل کرنے اور امکانی صورت میں وہ پرزہ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ہمارے برادران گرامی بخوبی جانتے تھے، انھیں اس وقت کے حالات کا علم تھا۔ اس وقت وہ ہمیں بتاتے تھے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ انھیں ہتھیاروں میں کوئی ایسا ہتھیار ہوتا تھا جس کے اندر مثال کے طور پر بیس یا تیس پرزے ہوتے تھے۔ اسے اسی شکل میں ہوائی جہاز میں رکھ کر امریکہ بھیجا جاتا تھا اور وہاں اس کی مرمت ہوتی تھی جس کے بعد اسے واپس لایا جاتا تھا۔ یہ اجازت نہیں ہوتی تھی کہ یہاں متعلقہ مکینک، یا اس شعبے میں کام کرنے والا فوجی افسر اسے کھولے، دیکھے اور اس کی مرمت کر دے۔ اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ یعنی گوداموں میں ہتھیار بھرے پڑے تھے لیکن یہ ہتھیار دوسروں کے تھے، اس کے اختیارات دوسروں کے پاس تھے۔ جس جگہ وہ کہتے تھے وہیں انھیں استعمال کیا جاتا تھا۔ اگر وہ اجازت نہ دیتے تو استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دشمن کے اسلحہ سازی کے کارخانوں کو ملت ایران کے پیسوں سے، ملت ایران کے سرمائے سے ترقی کرائی جا رہی تھی۔ طاغوتی حکومت کی قوت و توانائی کے دو بنیادی عناصر میں سے ایک عنصر یہ تھا اور اس کا دوسرا عنصر یہ تھا کہ ہم امریکہ کے اشارے پر کام کرنے والے علاقائی تھانیدار کا رول ادا کریں۔ یعنی انقلاب سے پہلے ایران کی حکومت کا کام یہ تھا کہ علاقے میں امریکہ کے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرے، اگر کہیں سے کوئی امریکہ مخالف آواز اٹھ رہی ہے تو اسے کچل دے، اسے دبا دے۔ یعنی ملت ایران کے خرچے پر، ایران کی افرادی قوت کو استعمال کرکے، ملت ایران کے پیسوں سے دوسروں کے مفادات کی حفاظت کی جاتی تھی۔  آج صورت حال بالکل بر عکس ہو چکی ہے۔ آج ملت ایران اپنے لئے کام کرتی ہے اور اپنے ارادے سے کام کرتی ہے، اپنے بلبوتے پر آگے بڑھتی ہے اور صرف وہی کرتی ہے جو ملک کے مفاد میں ہو۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان ساری چیزوں کو مد نظر رکھیں۔

آج عالم اسلام قوت کے ایک مصداق کا مشاہدہ کر رہا ہے اور وہ اربعین کا مارچ ہے؛ وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّة، اربعین کا مارچ اسلام کی قوت ہے، حقیقت کی طاقت ہے، اسلامی مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے کہ اس انداز سے عظیم ملین مارچ کربلا کی جانب، امام حسین کی جانب، افتخار، ایثار اور شہادت کی بلندی اور چوٹی کی جانب شروع ہو جاتا ہے، اس سے دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کو سبق لینا چاہئے۔ پہلے دن سے ہی جب اربعین کا آغاز  ہوا، اس اربعین کی اتنی ہی اہمیت تھی۔ پہلے اربعین کی اہمیت یہ تھی کہ وہ عاشورا کا طاقتور تشہیراتی ذریعہ بن گيا۔ عاشور کے دن کے بعد اربعین کا دن، ایک روایت کے مطابق وہ دن ہے کہ جب اہل بیت کربلا لوٹے۔ یہ چالیس دن در حقیقت بنی امیہ اور سفیانیوں کی حکمرانی کی تاریک دنیا میں نور حق کی فرمانروائی کے چالیس دن تھے۔ حقیقی ذریعہ ابلاغ یعنی زینب کبری کی آواز، حضرت سجاد کی آواز، کہاں پر؟ کوفے میں، شام میں، ان جگہوں پر جہاں تاریکی چھائی ہوئی تھی، یہ بہترین ذریعہ ابلاغ بنا۔ انھیں چیزوں نے عاشورا کو زندگی دی، انھیں چیزوں نے عاشورا کو آج کے دور تک پہنچایا۔ اس اربعین کی تاریخ اور جڑیں، اس اربعین کا یہ ماجرا ہے۔ اس چالیس دن کی تحریک سے اہل بیت علیہم السلام نے اس دور میں طوفان پیدا کر دیا، اس بھیانک گھٹن کے ماحول میں ہیجان مچ گيا۔ اس زمانے میں گھٹن کا یہ عالم تھا کہ فرزند رسول، نواسہ رسول، جگر گوشہ  بتول کے ساتھ محض 72 افراد آ سکے۔ ایسے زمانے میں اس تحریک نے کوفے میں توابین کو کھڑا کر دیا، مدینہ کو دگرگوں کر دیا، شام کو الٹ کر رکھ دیا، وہ حالت ہوئی کی سفیانی حکومت کا خاتمہ ہی ہو گيا۔ یہ زینب کبری اور اہل بیت علیہم السلام کی عظیم تحریک اربعین تھی۔

آج پھر دنیا میں وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ آج بھی جب پیچیدہ دنیا میں انسانیت پر ہیجان آمیز شور اور پروپیگنڈے کا غلبہ ہے، اربعین کی یہ تحریک دور دور تک پہنچنے والی آواز اور عدیم المثال ذریعہ ابلاغ بن گئی ہے۔ دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے کہ دسیوں لاکھ افراد نکل پڑتے ہیں، کسی ایک شہر اور ایک ملک سے نہیں بلکہ مختلف ملکوں سے، کسی ایک اسلامی فرقے سے تعلق رکھنے والے نہیں بلکہ مختلف اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے، یہاں تک کہ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی۔ یہ حسینی اتحاد ہے۔ آپ نے بجا فرمایا: «الحسین یجمعنا» یہ حقیقت ہے۔ حسین ایک عظیم اجتماع کی بنیاد بن گئے ہیں۔

یہ حقیقت ہے۔ امام حسین کی ذات عظیم اجتماع کا مرکز بن جاتی ہے۔ یہ دل بہت طویل فاصلوں سے چل پڑتے ہیں، سب روانہ ہو جاتے ہیں روحانیت و آزاد منشی کے سرچشمے اور معدن کی طرف اور آج کی مادی دنیا کے سامنے ایک عظیم منظر پیش کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ اس میں روز بروز مزید اضافہ ہونا چاہئے، وسعت آنا چاہئے اور ساتھ ہی اس میں عمق اور گہرائی پیدا ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے آج ہم جو کام کر رہے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے لئے ہماری جو مجالس عزا ہیں وہ روحانیت کے اعتبار سے، فکر کی ترویج اور اسلامی معارف کی تبلیغ کے اعتبار سے پچال سال قبل اور چالیس سال قبل کی نسبت زیادہ پرمغز ہیں۔ اربعین کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ ان شاء اللہ اس میں روز بروز مزید گہرائی پیدا ہوگی۔ اہل حکمت و علم کو چاہئے کہ ان پہلوؤں پر غور کریں، کام کریں، محنت کریں۔

تیسرا نکتہ، اسی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ کی تحریک اور سمت و جہت کے بارے میں ہے۔ ابتدائے انقلاب سے ہم نے ایک مہم کا آغاز کیا، اعلی اہداف کے میدان میں، عوامی زندگی کے میدان میں، ملک کی تعمیر و ترقی کے میدان میں، انسانوں کی تربیت کے میدان میں بہت بڑے کام شروع ہوئے اور بڑی کامیابیاں بھی ملیں۔ البتہ ہنوز کمیاں زیادہ ہیں، مشکلات کم نہیں ہیں، لیکن کامیابیاں اور پیشرفت ان مشکلات سے زیادہ ہیں۔ اب تک جو کچھ انجام پایا ہے وہ حیرت انگیز ہے ان افراد کے لئے جو اس مہم کے مختلف پہلوؤں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اس مہم کی سمت واضح ہونا چاہئے آئندہ سفر کے لئے۔ اس مہم کی سمت کیا ہے؟

ہم تو حسینی ہیں۔ ہماری پیش قدمی کی سمت کا تعین امام حسین نے کیا ہے۔ دوران سفر کسی منزل پر امام حسین علیہ السلام نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا؛ اَیُّهَا النّاسُ اِنَّ رَسولَ الله صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ قالَ مَن رَأَى سُلطاناً جائِراً مُستَحِلّاً لِحُرُمِاتِ الله ناکِثاً لِعَهدِ الله ... یَعمَلُ فی عِبادِ الله بِالجَورِ وَ العُدوانِ و لَم یُغیِّرُ عَلَیهِ بِقَولٍ وَ لا فِعلٍ کانَ حَقّاً عَلَى الله اَن یُدخِلَهُ مَدخَلَه (۵) یہ بہت بڑی بات ہے، بہت عجیب بات ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ خطاب لوگوں سے ہے۔ ہم بھی لوگوں کا جز ہیں۔ یعنی یہ خطاب خود ہم سے بھی کیا گيا ہے۔ یہ خطاب مومنین سے نہیں ہے، ساتھ میں جو لوگ تھے صرف ان سے خطاب نہیں ہے، یہ ساری بشریت سے خطاب ہے، صرف اس زمانے کی بشریت سے نہیں بلکہ تمام ادوار اور دور حاضر کی تمام انسانیت سے خطاب ہے۔ آپ پیغمبر اکرم کا قول بیان کر رہے ہیں اور اپے مشن کے فلسفے کی تشریح فرما رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں پیغمبر کی بات پر عمل کر رہا ہوں۔ یہ فرمان رسول ہے کہ میں یہ کام کروں۔ پیغمبر نے کیا فرمایا: مَن رَأَى سُلطاناً جائِرا، فرمایا کہ اگر کسی نے کوئی طاقت دیکھی، کسی ظالم طاقت کو دیکھا، سلطان کا مطلب صرف بادشاہ نہیں ہے، سلطان کا مطلب ہے طاقت۔ آج سلطان در حقیقت کفر و استکبار کا محاذ ہے، صیہونزم اور امریکہ کا محاذ ہے، آج یہ سلطان ہے۔ آج آپ دنیا میں ہونے والے ستم کو دیکھ رہے ہیں، یہ ستم ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ جنگ افروزی، استعمار کا دباؤ، قوموں کا خون چوسنا، قوموں پر سختیاں کرنا، خانہ جنگی شروع کروا دینا اور دیگر المناک اقدامات جو آج استکبار انجام دے رہا ہے؛ یَعمَلُ فی عِبادِ الله بِالجَورِ وَ العُدوان؛ یہ نہیں فرمایا «یعمل فی المؤمنین» جس چیز نے آپ کے دوش پر ایک فریضہ رکھ دیا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ طاقت مومنین سے برا سلوک کر رہی ہے، یَعمَلُ فی عِبادِ الله، اللہ کے بندوں کے درمیان، عوام الناس کے درمیان جو بھی محاذ، جو بھی طاقت، جو بھی ظالم مرکز عام انسانوں کے درمیان یہ اقدامات کرے؛ یَعمَلُ فی عِبادِ الله بِالجَورِ وَ العُدوان، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ فریضہ کیا ہوگا؟ و لَم یُغَیِّر عَلَیهِ بِقَولٍ وَ لا فِعل، اگر کسی نے اپنی نگاہ کے سامنے ایسی کوئی طاقت دیکھی اور اس کے سلسلے میں کوئی موقف اختیار نہیں کیا، کوئی اسٹینڈ نہیں لیا، اس کی مخالفت نہیں کی، مخالفت کبھی بیان سے ہوتی ہے اور کبھی اقدام سے ہوتی ہے، دونوں طرح سے ہو سکتی ہے، کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ آپ ظالم طاقت کے مقابلے میں میدان میں اتر جائیں اور کبھی میدان میں اترنے کے لئے حالات سازگار نہیں ہوتے تو کم از کم اپنا موقف تو بیان کیجئے! آپ دیکھئے کہ یہ چیزیں آج ہمارے فریضے کا تعین کرتی ہیں؛ کانَ حَقّاً عَلَى اللَّهِ اَن یُدخِلَهُ مُدخَلَه، اللہ تعالی نے اپنے اوپر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بندگان خدا پر ہونے والے ظلم و جور پر کوئی رد عمل نہ دکھائے اور کوئی اقدام نہ کرے تو اسے اسی جگہ اور اسی انجام کو پہنچائے جس سے وہ ظالم دوچار ہونے والا ہے، یعنی جہنم۔ تو معاملہ یہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اس وجہ سے اقدام کیا ہے۔

میں نے ایک موقع پر تفصیل کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے مشن کی تشریح کی تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کی خاطر تحریک چلائی، کچھ مومن افراد بھی اس طرح کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کی بات درست نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امام نے اس لئے قیام کیا کہ شہید کر دئے جائیں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ امام نے  تحریک چلائی اپنے فریضے پر عمل کرنے کے لئے۔ تاہم فریضے کی ادائیگی کے مشن میں یہ امکان ہوتا ہے کہ انسان اقتدار تک پہنچ جائے، اس میں کیا حرج ہے؟ ایک امکان یہ بھی ہوتا ہے کہ شہید کر دیا جائے، اس میں کیا حرج ہے؟ نصب العین تو یہ ہے کہ ہم اس عمل کو انجام دیں، اس فریضے کو انجام دیں۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہی صورت حال اسلامی جمہوریہ کو بھی در پیش ہے۔

ہم امریکہ کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہٹتے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ دشمن کے تشہیراتی حملوں کے سامنے ہم کبھی بھی پسپا نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک فریضہ ہے۔ اگر ہم نے اس فریضے پر عمل نہ کیا تو اللہ پر یہ فریضہ ہوگا کہ ہمیں وہ اسی انجام سے دوچار کرے جس انجام سے ظالم کو دوچار کیا جانا ہے۔ اگر ہم نے پسپائی اختیار کر لی تو اللہ  تعالی ہمیں بھی اسی انجام اور اسی دوزخ میں پہنچائے گا جس میں اس ظالم کو مبتلا ہونا ہے۔ تو یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہ جو آپ نے دیکھا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے مقابلے کے میدان میں قدم رکھتے ہی امریکہ کو للکارا اس کی یہی وجہ تھی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ہنوز قم میں تقریر کر رہے تھے، ابھی آپ کو جلاوطن نہیں کیا گيا تھا لیکن آپ نے امریکہ کے بارے میں گفتگو کا آغاز کر دیا تھا۔ اس وقت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے قم میں اپنی تقریر میں فرمایا کہ آج ہمارے ملک میں سب سے قابل نفرت شخص امریکہ کا صدر ہے (6)۔ یہ واقعہ پچاس سال پرانا ہے۔ امام خمینی بصیرت والے انسان تھے، ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حقیقت کو دیکھ لیتے تھے، سمجھ لیتے تھے، جذبہ امید سے سرشار تھے، آپ کو اللہ تعالی کے اس وعدے پر پورا یقین تھا؛ وَ لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه (۷) جو شخص اللہ کی نصرت کرے گا اللہ اس کی نصرت کرے گا اور اللہ نے نصرت کی۔

عزیز نوجوانو! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کر دوں کہ اس سفر کو ثبات قدم کے ساتھ جاری رکھئے، آگے بڑھتے رہئے۔ صرف آپ نہیں بلکہ ملت ایران کے تمام نوجوان، وہ تمام پاکیزہ قلوب اور آلودگی سے دور جانیں جو اپنے الہی اور انسانی فریضے پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔ اگر پائیداری و استقامت کی اس راہ میں دشمنان دین و انسانیت کے مد مقابل ڈٹے رہیں تو اللہ تعالی یقینا ان کی مدد کرے گا؛ وَ لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه۔ جس طرح ان چالیس برسوں میں توفیق خداوندی سے ہم فتحیاب رہے۔ مستقبل میں بھی، (آئندہ چالیس سال پر محیط) دوسرے قدم میں بھی، اس کے بعد والے قدم میں بھی توفیق خداوندی سے ہم تمام رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کریں گے اور دشمنوں پر فتحیاب ہوں گے۔

نوجوانوں سے امیدیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو نوجوان نہیں ہیں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے۔ کیوں نہیں، ان کا بھی فریضہ ہے۔ بزرگوں کا بھی فریضہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی نے بڑھاپے میں، ایام پیری میں بھی نوجوانوں کی طرح کام کیا، نوجوانوں کی طرف بیان دیتے تھے، نوجوانوں کے انداز میں سوچتے تھے، تاہم ہر معاشرے کی ریل گاڑی کو آگے لے جانا والا انجن نوجوان ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ خود کو آمادہ کرں، اپنی فکر کو آمادہ کریں، دشمن کے حربوں سے باخبر رہیں۔ دشمن کے حملوں کی سب سے پہلی آماجگاہ ہے آپ کی فکر، آپ کا ذہن، آپ کا طرز فکر۔ یہ دشمن کے حملوں کی پہلی آماجگاہ ہے۔ وہ گوناگوں حربوں سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس طرز فکر کو تبدیل کر دیں۔ جب فکر بدل گئی تو فطری طور پر عمل بھی بدل جائے گا۔ دشمن کو یہ موقع نہ دیجئے کہ وہ آپ کی سوچ بدل دے، آپ کے جذبات کو کمزور کر دے۔ یہ موقع نہ دیجئے کہ آپ کے ایمان کی اندرونی قوت کو، آپ کی بلند ہمتی کو دشمن اپنے حربوں کے ذریعے ختم کر دے۔ مضبوطی سے کھڑے رہئے، اللہ پر توکل کیجئے، اللہ تعالی ان شاء اللہ آپ کے ساتھ ہے؛ اَنَّ اللهَ مَعَ المُتَّقین (۸) اللہ اہل تقوی کے ساتھ ہے۔ اللہ اس کے ساتھ ہے جو اس کی راہ پر گامزن ہو، وہ مجاہدین کی ان شاء اللہ نصرت فرمائے گا۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

  ۱) اس تقریب کے آغاز میں جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ڈیفنس اکیڈمی سے کیڈٹس کے فارغ التحصیل ہونے اور اس یونیورسٹی میں نیا داخلہ پانے والے طلبہ کو شولڈر مارک دئے جانے کی مناسبت سے امام حسین علیہ السلام ڈیفنس یونیورسٹی مین منعقد ہوئی سپاہ پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی اور امام حسین ڈیفنس یونیورسٹی کے کمانڈر بریگیڈيئر جنرل علی فضلی نے تقریریں کیں۔

۲) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں کی جنرل اسمبلی سے خطاب مورخہ 2 اکتوبر 2019

۳) سوره‌ انفال، آیت نمبر 60 کا ایک حصہ؛ «جہاں تک ممکن ہو توانائی اور آمادہ گھوڑے تیار کرو، تاکہ اپنی اس تیاری سے دشمن خدا کو اور اپنے دشمنوں کو ہراساں کر سکو...»

۴) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر ۶۲

۵) وقعة الطّف، صفحہ ۱۷۲ (قدرے تفاوت کے ساتھ)

۶) صحیفہ امام، جلد ۱، صفحہ ۴۲۰

۷) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ

۸) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۹۴ کا ایک حصہ