اسلامی انقلاب کی اصطلاح میں استکبار کی تعریف

ہمارے کلچر میں استکبار طاقت کے اس نظام کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، عسکری، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کی مدد سے اور نوع انسانی کے بارے میں تفریق آمیز فکر کی بنیاد پر انسانی معاشرے کے بڑے حصے یعنی اقوام، حکومتوں اور ممالک کو اپنے تحقیر آمیز و جابرانہ تسلط میں جکڑ لے اور اپنے مفادات کے مطابق ان پر سختیاں کرے، ان کا استحصال کرے، ان کے امور میں دخل اندازی کرے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرے، حکومتوں پر دھونس جمائے اور قوموں پر زیادتی کرے، ان کے کلچر اور آداب و رسومات کی توہین کرے۔ اس کی بالکل نمایاں مثال بوڑھے سامراج نے اور اس کے بعد جدید سامراج نے اور حالیہ عرصے میں کل کے سامراجیوں اور ان کے وارثوں نے ہمہ جہتی سیاسی، اقتصادی، تشہیراتی یہاں تک کہ فوجی حملوں کی صورت میں اقوام کے سامنے پیش کی ہے اور انھیں اس کی تلخیوں کا بخوبی احساس کرایا ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی اس یلغار میں سائنس و ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور اپنی بعض مقامی خصلتوں کا سہارا لیا ہے۔

9 دسمبر 1997

استکبار ایک قرآنی لفظ

استکبار ایسا لفظ ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ قرآن نے فرعون جیسے افراد اور بد خواہ اور حق و حقیقت کے مخالف گروہوں کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ ماضی میں بھی استکبار تھا اور آج تک اس کا وجود ہے۔ تمام ادوار میں استکبار کا ڈھانچہ تو وہی رہتا ہے لیکن اس کے طور طریقے، خصوصیات اور روشیں ہر دور کے اعتبار سے تبدیل ہو جاتی ہیں۔ آج بھی استکباری نظام موجود ہے اور آج دنیا میں اسکتبار کی چوٹی پر امریکی حکومت بیٹھی ہوئی ہے۔

استکبار کی خصلتیں:

-1 خود کو سب سے برتر تصور کرنا

استکباری نظام کی ایک خصلت خود کو سب سے برتر تصور کرنا ہے۔ استکباری نظام، وہ افراد جو کسی ملک کی باگڈور سنبھالے ہوئے ہیں یا کسی عالمی نظام کی سربراہی کر رہے ہیں، یا ملکوں کے کسی الاینس کے امور سنبھال رہے ہیں، جب اپنے نظام کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے نظاموں سے برتر تصور کرنے لگیں، جب خود کو محور و مرکز سمجھنے لگیں اور بقیہ تمام چیزوں کو فروعات میں شمار کرنے لگیں تو عالمی روابط اور معاملات میں ایک غلط اور خطرناک صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ جب وہ خود کو برتر، محور اور مرکز سمجھنے لگیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بقیہ انسانوں اور اقوام کے امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھیں گے۔ جو چیز اس کی نظر میں اہم ہو اسے وہ اہم شئے ماننے اور تسلیم کرنے پر ساری دنیا کو مجبور کریں گے۔ اگر کسی چیز کو وہ اہم مان رہے ہیں مگر بقیہ اسے تسلیم نہ کریں تو انھیں محسوس ہوگا کہ اب مداخلت کرنا ضروری ہے، جبرا منوانا ضروری ہے، رعب جمانا ضروری ہے، دباؤ ڈالنا لازمی ہے۔ اپنی برتری کا تصور اس دعوے پر منتج ہوگا کہ اقوام کے امور ان کے ہاتھ میں ہونے چاہئے۔ وہ عالمی نظام چلانے کے دعویدار بن جائیں گے۔ خود کو ساری دنیا کا مالک  تصور کرنے لگیں گے۔ آپ سنتے ہیں کہ امریکی عہدیداران اور حکام امریکی حکومت کے بارے میں کس انداز سے بات کرتے ہیں۔ گویا تمام ممالک کے اختیارات ان کے پاس ہیں۔ خود کو برتر سمجھنا، خود کو اولاد آدم کے درمیان، اقوام کے درمیان، انسانوں کے درمیان سب سے اہم سمجھنا استکبار کی سب سے بڑی مشکل ہے۔

-2 حق کو تسلیم نہ کرنا

اس کے نتیجے میں استکبار کی دوسری خصلت بھی سامنے آتی ہے اور وہ حق کا انکار ہے۔ وہ نہ تو حق بات تسلیم کرتا ہے، نہ اقوام کے حقوق کو مانتا ہے، پوری طرح حق کی نفی کرتا ہے۔ عالمی بحثوں میں ایسا بہت ہوتا ہے کہ کوئی حق بات کہی جاتی ہے، امریکہ کسی وجہ سے اسے مسترد کر دیتا ہے۔ گوناگوں طریقوں سے حق بات کی نفی کرتا ہے، اسے ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔ اس کی ایک مثال ہمارے آج کے مسائل ہیں جو ایٹمی سرگرمیوں اور ایٹمی صنعتوں سے مربوط ہیں۔ ایک حق بات ہے۔ اگر کوئی حق کا طرفدار انسان، منطقی سوچ رکھنے والا انسان ہو اور اس کے سامنے یہ دلائل پیش کر دئے جائیں تو وہ مان جائے گا۔ لیکن استکبار ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ حق بات سنتا ہے مگر اسے تسلیم نہیں کرتا۔ یہ اس کی ایک خصوصیت ہے۔ اسی طرح وہ قوموں کے حقوق کو بھی نہیں مانتا۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ قوموں کو انتخاب کا حق ہے، قوموں کو اپنی مرضی کے مطابق اقدامات انجام دینے کا حق ہے، اپنی مرضی کے مطابق معاشی ماڈل چننے کا حق ہے، اپنی مرضی کے مطابق پالیسیاں اور سیاست وضع کرنے کا حق ہے۔ وہ قوموں کے اس حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔

-3 دیگر اقوام کے خلاف جرائم کو درست ماننا

سامراج اور استکبار کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ قوموں اور انسانوں کے خلاف جرائم کو درست مانتا ہے، اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ جدید دور میں یہ استکبار کی ایک بڑی مشکل یہی ہے۔

-4 فریب دہی

استکبار کی ایک اور نمایاں پہچان فریب دہی اور منافقانہ رویہ ہے۔ اس پر توجہ کیجئے۔ تمام جرائم کو وہ اپنے ذرائع ابلاغ میں درست ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرم کو خدمت کا روپ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوموں پر تسلط کا خواہشمند استکبار اپنے تمام امور میں اسی روش پر چلتا ہے۔ جرائم کا جواز پیش کرنا اور جرائم کو خدمت کا روپ دینا۔

10 نومبر 2013

سامراج کے بجائے استکبار کا لفظ

ہم نے سامراج لفظ کا استعمال نہیں کیا بلکہ استکبار لفظ استعمال میں لائے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ سامراجیت میں کچھ پہلو ایسے بھی ہوں جن سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں۔ ان پہلوؤں کے بارے میں ہم زیادہ حساس نہیں ہیں۔ ہماری حساسیت اس مفہوم کے تعلق سے جو استکبار لفظ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے یہ لفظ پیش کیا اور انقلاب میں یہی رائج ہو گیا۔

1 دسمبر 2010

استکبار سے کیا مفہوم نکلتا ہے؟

مستکبر انسان، مستکبر حکومت، مستکبر گروہ یعنی وہ افراد اور وہ حکومت جو دیگر انسانوں اور اقوام کے امور میں مداخلت کے عزائم رکھتے ہیں، ان کے تمام امور میں مداخلت کرتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کو تحفظ بخشیں۔ خود کو آزاد سمجھتے ہیں، قوموں کے امور میں دخل اندازی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

3 نومبر 2013

استکبار یعنی یہ کہ دنیا کی وہ طاقت یا طاقتیں جو خود پر نظر ڈالتی ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ ان کے پاس مالیاتی، اسلحہ جاتی اور تشہیراتی وسائل مہیا ہیں لہذا دیگر ملکوں اور قوموں کے امور میں دخل اندازی کرنے کا  انھیں حق حاصل ہے، مالکانہ انداز میں مداخلت کرتی ہیں۔

3 نومبر 2009

استکبار کا مطلب ہے متکبرانہ مزاج، دیگر اقوام کے اقدار کی  توہین اور ان کے امور میں دخل انداز کو اپنا حق تصور کرنا۔

4 نومبر 2002

عالمی استکبار یعنی یہی، یعنی رعب جمانا، خود کو برتر تصور کرنا، اپنی بات پر قائم نہ رہنا، خود کو کسی ذمہ داری کا پابند نہ سمجھنا، یہ استکبار کا مفہوم ہے۔

1 اگست 2016

استکبار کا ارادہ کیا ہے اور اس کی کہاں سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے؟

دنیا میں استکبار اور جابر قوتوں کے عزائم یہ ہیں کہ تمام حکومتوں اور ان کے ساتھ ساتھ تمام اقوام کو اپنے موقف، مظالم اور نا انصافیوں کو تسلیم کرنے اور اسی راہ پر چلنے پر مجبور کریں۔

1 مئی 2002

استکبار ہمیشہ اپنا مشن دوسروں کو مرعوب کرکے آگے بڑھاتا ہے۔

27 نومبر 2011

قوموں کا ہتھیار ڈال دینا، دنیا کے سیاسی رہنماؤں کا ہتھیار ڈال دینا، عالمی استکبار کی دھونس اور تحکمانہ انداز کے سامنے گوناگوں معاشروں کے دانشوروں کا سر تسلیم خم کر دینا استکبار کو حوصلہ دیتا ہے اور وہ اپنی دھونس اور زیادتیاں بڑھاتا جاتا ہے۔

3 جون 2008

امریکہ استکبار کی واضح مثال

امریکہ ہر اعتبار سے ایک استکباری طاقت ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، ساری دنیا کا مسئلہ ہے، دنیائے اسلام کا مسئلہ ہے۔ دنیا کے ہر خطے کے بارے میں امریکیوں کا رویہ استکباری ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو شکست دینے کے بعد وہاں اپنا ٹھکانا بنا لیا، آج بھی جاپان میں امریکی چھاونیاں ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں عظیم پیشرفت کے باوجود آج  بھی جاپان امریکی ٹھکانوں کو ہٹا نہیں پایا۔ وہاں فوجی چھاونی ہے، عوام پر ظلم کرتے ہیں، انھیں پریشان کرتے ہیں، اخبارات میں بھی آیا، نیوز ایجنسیوں نے بھی ذکر کیا۔ ناموس پر حملے اور دیگر جرائم، لیکن آج بھی یہ ٹھکانا وہاں موجود ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی اب تک امریکی چھاونی ہے۔ عراق کے بارے میں امریکہ کا پروگرام یہ ہے کہ وہاں بھی چھاونی بنائے اور پچاس سال، سو سال تک عراق میں جما رہے۔ افغانستان چونکہ ایسی جگہ ہے کہ اگر وہاں فوجی ٹھکانا ہو تو جنوب مغربی ایشیا کے ممالک پر روس، چین، ہندوستان، پاکستان اور ایران پر تسلط رکھا جا سکتا ہے، اس لئے وہ افغانستان میں بھی اپنی کوشش میں لگے ہیں۔ دائمی ٹھکانا بنانے اور وہاں ہمیشہ موجود رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ استکبار کا مفہوم ہے۔

3 نومبر 2009