اسلامی جمہوریہ ایران میں پارلیمنٹ کے ساتویں دور کے لئے ہونے والے انتخابات میں عوام نے مغربی ذرائع ابلاغ کے زہریلے پروپیگنڈوں اور تشہیراتی مہم کو ایک بار پھر ناکام بناتے ہوئے بھرپور شرکت کی۔ انتخابات میں اصول پسند کہے جانے والے حلقے کو اکثریت حاصل ہوئی اور ڈاکٹر حداد عادل کو پارلیمنٹ کا اسپیکر چنا گیا۔ نو تشکیل شدہ پارلیمنٹ کے سربراہ اور اراکین نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پارلیمنٹ، اس کی رکنیت اور اس ادارے اور ادارے کے اراکین کے فرائض کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم

سب سے پہلے تمام بھائيوں اور بہنوں، ساتویں پارلیمنٹ کے اراکین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ تعالی کی عنایتوں کے طفیل ہونے والی اس ملاقات کو بہت مبارک سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی، قانون سازی کے اس مرکز میں آپ کی موجودگی، خود آپ اور پوری قوم کے لئے مبارک و با برکت ہو۔ میں انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت اور پوری آگاہی و دانشمندی کے ساتھ حق رای دہی کے استعمال پر ان کا شکر گزار ہوں۔ فہم و ادراک اور ذمہ داری کے احساس کی بنیاد پر (انتخابات کی شکل میں) بڑا اہم کام اختتام پذیر ہوا۔ عوام نے اسلامی نظام کے دشمنوں کو ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے اپنا فریضہ ادا کیا اور اسلامی جمہوری نظام کو ایک دن بھی بغیر پارلیمنٹ کے نہیں رہنے دیا۔
میں اس اجلاس کے آغاز میں پڑھی جانے والی قرآن کی آیت وما اوتیتم من شئ فمتاع الحیاۃ الدنیا و ما عند اللہ خیر و ابقی کے سلسلے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ کے پاس جو بھی دنیوی وسائل ہیں ان کا استعمال بہت کم وقت کے لئے ہے۔ پلک جھپکتے ہی سب کچھ ختم ہو جانے والا ہے۔ اسے دوام نہیں۔ وسائل میں ان مواقع اور عہدوں کا بھی شمار ہوتا ہے جو ہم اور آپ کے اختیار میں آتے ہیں۔ خود میرے عہدے کا تعلق اسی زمرے میں ہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کا شمار بھی اسی میں ہوتا ہے۔ ما اوتیتم من شئ فمتاع الحیاۃ الدنیا اگر کاموں میں ہدف اللہ تعالی کی خوشنودی ہوئی تو پھر و ما عند اللہ خیر و ابقی للذین آمنوا و علی ربھم یتوکلون اگر پارلیمنٹ کی رکنیت، حکومتی ذمہ داریوں اور مختلف عہدوں تک، خواہ آپ کا عہدہ ہو یا میرا، اقتدار ہو یا دیگر شعبے، رسائی کا ہمارا مقصد ظاہری شان و شوکت ہے کہ جو در حقیقت کھوکھلی شان ہے اس کے اندر کچھ بھی نہیں ہے بظاہر بہت بڑی چیز نظر آتی ہے لیکن بباطن کوئی شان و شوکت نہیں، تب تو یقین جانئے کہ ہم خسارے میں چلے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی چیز ملتی ہے تو اس کے عوض ہمیں بھی کچھ دینا پڑتا ہے۔ زندگی میں آپ کو کچھ بھی یکطرفہ طور پر نہیں ملے گا۔ ہمیں جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں ان میں یہی علم و معرفت، دولت و ثروت، عہدہ و مقام، عوامی مقبولیت اور ظاہری شان و شوکت وغیرہ ہے لیکن ان کے عوض جو چیز ہم دیتے ہیں وہ ان سب سے کہیں زیادہ با ارزش ہے۔ وہ ہے ہماری عمر اور زندگی۔ ان الانسان لفی خسر ہم جو کچھ بھی حاصل کر رہے ہیں اس کے عوض مسلسل ایک چیز دے رہے ہیں وہ ہے وقت اور مہلت جسے ہم مسلسل صرف کر رہے ہیں۔ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اصلی سرمایہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے کسی کے ہاتھ میں برف مسلسل پگھلتی رہتی ہے۔ اس سرمائے سے ہمیں سرمایہ بنانا چاہئے۔ اہم اقتصادی اصولوں میں بتایا جاتا ہے کہ زمین سے نکالا گیا تیل قومی سرمایہ ہے، اسے روزمرہ کے خرچ میں نہیں لیا جا سکتا۔ اسے پائیدار سرمائے میں تبدیل کرنا چاہئے۔ یہی چیز ہمارے اور آپ کے سلسلے میں بھی صادق آتی ہے۔ ایک نا قابل تلافی سرمایہ ہمارے ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمیں دوسرا سرمایہ حاصل کرنا چاہئے جو ہمارے پاس محفوظ رہے۔ یہ جاہ و حشم، یہ مقبولیت و شہرت، یہ سیاسی پوزیشن اور مقام، یہ دولت و ثروت باقی رہنے والی چیزیں نہیں ہیں۔ جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ ما عند اللہ ہے وہی خیر و ابقی ہے۔ وہی پائیدار ہے۔ پارلیمنٹ میں رکنیت کا ہدف یہ ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کوئی خسارہ نہیں ہے۔ عوام میں آپ کی مقبولیت رہے یا چلی جائے۔ اگلی دفعہ آپ منتخب ہوں یا نہ ہوں، جو بھی ہو خیر ہے۔ در طریقت آنچہ پیش سالک آید خیر اوست جو کچھ بھی ہوگا آپ کے لئے بہتر ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ آپ ایک فائدے کا سودا کر رہے ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا قیام و قعود، آپ کی گفتگو، آپ کے دستخط، آپ کی منظوری، آپ کی مخالفت سب فریضے کی ادائیگی کے تحت ہو۔ چونکہ فریضے کی ادائیگی کے لئے ہے اس لئے دیوان الہی میں آپ کا عمل درج کر لیا جائے گا۔ لا یغادر صغیرۃ و لا کبیرۃ الا احصاھا ہر چیز پر محیط ہے۔ تو اگر شدید ضرورت کے وقت ہماری چیز ہمیں فائدے کے ساتھ مل گئی تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اور اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہوئے تو یقینا خسارے کا شکار ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں میں، آپ سب یکساں ہیں۔ اس لحاظ سے ہم میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جہاں تک سوال ہے اس فریضے اور ان چیزوں کے درمیان رابطے کا جو اس فریضے کے تحت آتی ہیں تو کہنا چاہئے کہ ہر انسان کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے فرائض کو بحسن وخوبی انجام دیا تو وہی نتیجہ ملے گا جس کی جانب ابھی میں نے اشارہ کیا۔ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ، دینی جمہوریت کا مظہر ہے۔ وہ نمونہ جو اسلامی نظام نے دینی جمہوریت کے سلسلے میں دنیا میں پیش کیا ہے اور عالمی سیاسی میدان میں جسے متعارف کرایا ہے وہ ایک کامیاب نمونہ ثابت ہوا ہے۔ اس کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں عوام کی مرضی اور خواہش معاشرے کے مستقبل کے تعین مین کلیدی کردار کی حامل اور ساتھ ہی یہ پورا عمل الہی اقدار کے تناظر میں طے پاتا ہے، اس کی ضرورت اب پوری انسانیت کو ہے اور اس کے فقدان کے نتیجے میں وہ رنج و آلام سے دوچار ہے۔ یہ جنگیں، یہ سامراجی اقدامات، یہ مظالم، یہ طبقاتی فاصلے، قوموں کی قدرتی دولت کی لوٹ مار اور بھیانک غربت جو دنیا کے عوام کی اکثریت پر مسلط ہے، یہ سب معنویت و روحانیت کے فقدان کی دین ہے۔ یہ بد عنوانیاں، یہ لا ابالی پن جو عالمی سطح پر مختلف انسانی نسلوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے، سب معنویت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ سو سال قبل، دو سو سال قبل، تین سو سال قبل اس سمت میں کام کیا گیا اور آج اس کے تلخ نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ جیسے دوسرے تاریخی واقعات ہوتے ہیں جن کے اثرات فورا ظاہر نہیں ہوتے بلکہ صعب العلاج یا لا علاج بیماریوں کی طرح رفتہ رفتہ ان کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ آج دنیا کے پیش رفتہ ممالک کے پاس بے پناہ دولت ہے لیکن یہ دولت، یہ ثروت، یہ سائنس، یہ ٹکنالوجی، یہ گوناگوں علمی باریکیاں انسان کو خوش بختی کا احساس عطا نہیں کر سکتیں۔ اس سے غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ تو معنویت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ ملت ایران نے آگے بڑھ کر معنویت کو اپنے نئے طرز زندگی میں بنیادی مقام دیا ہے۔ صرف دکھانے کے لئے نہیں بلکہ حقیقی معنی میں اس کی جڑوں کو مستحکم کیا ہے۔ اسی کو دینی جمہوریت کہتے ہیں اور اس جمہوریت کا مظہر پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی ہے۔ یہ شورا (مشورت گاہ) بھی ہے اور اسلامی بھی۔ اس میں عوام کا انتخاب بھی کارفرما ہے اور اسلامی رنگ کی پھبن بھی موجود ہے۔ یہ چیز آئين کی متعدد دفعات اور پارلیمنٹ کی رکنیت کی حلف میں صاف ظاہر ہے۔ یہ بے نظیر نمونہ ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس کے خلاف پروپیگنڈا بھی کیا جائے گا، اسے لوگوں کی نظروں سے گرانے کی کوشش بھی کی جائے گی، اسے بے ارزش بھی ظاہر کیا جائےگا۔ یہ تو بہت پرانا حربہ ہے۔ دنیا میں یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ کبھی کسی قوم کے عظیم ثقافتی ورثے کی ایسی تحقیر کی جاتی ہے کہ وہ قوم اس سے خود ہی بیزار ہو جائے۔ یہ بڑا جانا پہچانا حربہ ہے۔ حقیقت وہی ہے جس کا ہمیں بخوبی احساس ہے، پارلیمنٹ دینی جمہوریت کا سب سے اہم مظہر ہے۔ بنابریں آپ اپنے مقام کی اہمیت سے غافل نہ ہوئیے۔ اس پر ہر لمحہ توجہ رہے کہ آپ کس مقام پر ہیں اور مجلس شورای اسلامی یعنی کیا؟ اس پارلیمنٹ میں فیصلے اور موقف کے تعین کی اہمیت سے کوئي غفلت نہ برتئے۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کا مرکز اور نقطہ اوج ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہم بس اتنے سے ہی مطمئن نہیں ہیں کہ ہمارے پاس مجلس شورای اسلامی ہے۔ مجلس شورای اسلامی تو ہمارے پاس تقریبا پچیس سال سے ہے۔ ہمیں اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ یہ پارلیمنٹ اسی صحیح سمت میں بڑھتے ہوئے بلند اہداف سے قریب ہو۔ ملک میں اس کی افادیت اور تاثیر میں اضافہ ہو تاکہ حقیقی معنی میں اس کے ثمرات ظاہر ہوں اور مناسب قانون سازی، بھرپور نگرانی اور درست موقف کے ذریعے ملک کی پیش قدمی کے عمل میں روز بروز بہتری آئے۔ اسلامی نظام کے دشمن، پارلیمنٹ کو ہمیشہ غیر فعال اور ناکارہ دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں۔ ایسی پارلیمنٹ کے جو بے اثر ہو یا منفی اثرات کا سرچشمہ بن جائے۔ لہذا پارلیمنٹ کا موثر اور فعال کردار بہت ضروری ہے۔ ساری کوششیں اس نکتے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ ہم بس اتنے اپر اکتفا نہیں کر سکتے کہ جناب ہمارے ہاں بھی ان ممالک کی مانند جن پر جمہوریت کا لیبل چسپاں ہے، پارلیمنٹ ہے۔ ان پارلیمانوں میں اگر کچھ مثبت پہلو ہیں، کیونکہ ہر مرکز میں کمزوریوں کے ساتھ مثبت پہلو بھی یقینی طور پر ہوتے ہیں، تو کچھ بڑی بنیادی کمزوریاں بھی ہیں۔ ہمیں ان بنیادی کمزوریوں سے بچنا چاہئے۔
مجھے یاد ہے، اوائل انقلاب میں امام (خمینی رہ) نے بارہا فرمایا کہ دنیا کی دیگر پارلیمانوں میں لڑائی جھگڑا اور مارپیٹ ہو جاتی ہے۔ آپ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہماری پارلیمنٹ میں یہ سب نہیں ہے۔ بحث ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے، یہ ضروری بھی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دوسروں میں خامیاں کیا ہیں تاکہ ہم ان خامیوں سے پرہیز کریں۔ بعض صنعتی ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے کہ رکن پارلیمنٹ اپنے قول و عمل سے آشکارہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ بڑی کمپنیوں اور انڈسٹریل گروپس اور سرمایہ داروں کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس میں اسے کوئی تامل بھی نہیں ہوتا۔ وہ کمپنیاں اور مالی ادارے جو دنیا پر سب سے زیادہ مظالم ڈھا رہے ہیں اپنے مفادات کا تعین کر دیتے ہیں اور یہ (اراکین پارلیمنٹ) ایوان میں ان کے امور انجام دیتے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی خامی ہے۔ عوامی نمایندے کو تو عوام کی نمایندگی کرنا چاہئے بالخصوص اگر وہ ایسے افراد کا نمایندہ ہے جو ملک میں اہم ترین امور سے متعلق فیصلوں کے عمل میں اپنے نمایندے کی شرکت کے متمنی ہوتے ہیں یعنی وہ افراد جن کے بس میں کچھ نہیں ہے اور جو سب سے زیادہ محرومیت کا شکار ہیں۔ تو سب سے پہلے مرحلے میں آپ محروم طبقات کی نمایندگی کے مفہوم کو سمجھئے۔ اس میں دو رای نہیں کہ آپ ہوری ملت ایران کے نمایندے ہیں۔ آپ کسی مخصوص علاقے، مخصوص آبادی اور مخصوص راہ دہندگان کی نمایندگی نہیں کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ پوری قوم کی نمایندہ ہے۔ لیکن بہرحال عوام کے بعض طبقے ایسے ہیں جن کے لئے اہم امور سے متعلق فیصلے کے عمل میں ان کے نمایندے کی موجودگی لازمی ہوتی ہے کیونکہ یہ محرومیت کا شکار ہیں، کیونکہ ان کے مسائل بہت زیادہ ہیں، کیونکہ وہ غربت، وسائل کے فقدان اور تفریق و امتیاز سے پریشان ہیں۔ دوسروں کے مالی غبن اور بد عنوانیوں کی مار انہی طبقوں پر پڑ رہی ہے۔ تو آپ سب سے پہلے تو خود کو انہی طبقات کا نمایندہ سمجھئے۔
دوسرا نکتہ جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ پارلیمنٹ کی تمام صلاحیتوں اور توانائيوں کو بروی کار لانے کی کوشش کیجئے۔ اگر کبھی کسی ادارے نے انقلاب کے بعد کی پارلیمانوں میں سب سے کامیاب پارلیمنٹ کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی تو یقینی طور پر سب سے کامیاب پارلیمنٹ وہی ہوگی جس نے فرائض کی انجام دہی میں تمام تر توانائیوں کو استعمال کیا ہوگا۔ قانون سازی کا اختیار بہت ہی اہم اختیار ہے۔ آپ کے پاس نظارت کا بھی اختیار ہے۔ احتساب بیورو کوئی معمولی چیز نہیں۔ میں نے گزشتہ پارلیمانوں کے عہدہ داروں سے بھی بارہا کہا کہ احتساب بیورو کو بہت سنجیدگی سے لیجئے۔ یہ آپ کے ہاتھ میں بہت اہم وسیلہ ہے۔ آپ کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ احتساب بیورو بہت ہی اہم ادارہ ہے۔ قوم کا سب سے بڑا بجٹ جو مختلف ادارہ جات کو دیا جاتا ہے اس کی تفصیلات معلوم ہونی چاہئیں کہ یہ کیسے صرف ہوا۔ کاموں کی خوبی اور خامی کو پرکھنے کے لئے یہ آپ کے پاس بہت اہم وسیلہ ہے۔ اس کی جانب سے ہرگز غفلت نہ کیجئے۔ اگر آپ ان نظارتی وسائل کو بروی کار لانا چاہتے ہیں تو اپ کی توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہئے کہ آپ کی نظارت میں کام کرنے والے مجریہ کے اداروں سے آپ کا رابطہ قانونی پیرائے کے اندر ہو۔ بعض رابطے غیر شفاف ہوتے ہیں جو بالکل صاف صاف آپ کے لئے ضرر رساں ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ پارلیمنٹ کے سیاسی مقام کا ہے۔ آپ ملت ایران کے نمایندے اور اس قوم کا ما حصل ہیں۔ سیاسی امور اور عالمی مسائل میں آپ کا موقف در حقیقت ملت ایران کے موقف کا ترجمان ہوگا۔ یہ موقف دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس سے داخلی امور میں مداخلت کی دشمن کی ہمت اور بڑھ جائے۔ وہ اسلامی نظام کے سلسلے میں اور بھی جری اور گستاخ ہو جائے اور اس کی تسلط پندی اور جاہ طلبی میں اور بھی اضافہ ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا موقف اس کے بالکل برعکس ہوـ دشمن کو اس سے یہ پیغام جائے کہ ملت ایران اور اس کے نمایندوں میں جو پختگی، جو استقامت، مفادات اور نفع و نقصان سے جو آگاہی اور قومی مفادات کے سلسلے میں جو مضبوط قوت ارادی ہے اس سے ان دشمنوں کو ہرگز کوئی موقع ملنے والا نہیں جو قومی مفادات کے سلسلے میں خیانت اور اس قوم پر غلبہ حاصل کرنے کی فکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جو ہمارے دشمن ہیں ان سے ہمارا سارا جھگڑا اس بات کا ہے کہ دنیا میں ایران کے نام سے ایک نہایت پر منفعت اور سیاسی و دفاعی اہمیت کا حامل ملک تھا جو برسوں سامراجی طاقتوں کے چنگل میں قید رہا، کبھی روس تو کبھی برطانیہ اور کبھی امریکہ کے چنگل میں۔ پھر ہوا یوں کہ اس ملک کی قوم نے اپنی فکری توانائيوں و قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے ملک کو ان طاقتوں کے چنگل سے آزادی دلائی۔ اب یہ طاقتیں پھر اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح یہ علاقہ پھر سے ہاتھ لگ جائے۔ جبکہ ہمارا جواب ہے کہ ہرگز نہیں، ہم کسی بھی صورت میں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس نظام کے بد خواہوں سے ہمارا سارا جھگڑا یہی ہے۔ کوئي اور مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اگر لین دین اور رابطہ ہوتا ہے تو کچھ چپقلش اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جو فطری بھی ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ اپنے تشخص، قومی وقار اور خود مختاری کی حفاظت کا تہیہ کئے آگے بڑھ رہی ہے۔ کچھ عناصر اسی قوت ارادی پر وار کرنا چاہتے ہیں۔ تو جھگڑے کی جڑ یہی ہے۔ اب اس بنیادی اور فیصلہ کن تنازعے میں پارلیمنٹ کی پوزیشن بالکل واضح رہنی چاہئے۔ کیوں؟ کیونکہ آپ ملت ایران کے نمایندے ہیں۔ انتخابات میں یہ قوم آپ کو پیش پیش نظر آتی ہے، مظاہروں اور جلوسوں میں ہر بار نئي تاریخ رقم کرتی ہے۔ اپنے نعروں اور مطالبات سے خود کو پہچنواتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کیسی قوم ہے۔ پارلیمنٹ کو اسی قوم کی طاقت و اقتدار، عزت و وقار، اقتصادی مفادات کی پاسبانی و نگہبانی، تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و پامردی کا مکمل آئینہ ہونا چاہئے۔ تو پارلیمنٹ کے پاس یہ سارے اہم ترین وسائل و ذرائع اور اختیارات ہیں۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ آپ ملک کے گوشہ و کنار سے منتخب ہوکر آنے والے دو سو نوے افراد ہیں۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے دو سو نوے با صلاحیت نمایندے ایک چھت کے نیچے جمع ہیں اور چار سال ساتھ میں گذاریں گے۔ یہ بہت سنہری موقع ہے۔ ملک کے بنیادی مسائل پر بحث و مباحثے کا یہی اہم ترین پلیٹ فارم ہے۔ ایوان کے اندر بحث و مباحثے اور تکرار پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں تو اس سے پوری طرح متفق ہوں۔ امام (خمینی رہ) ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پارلیمنٹ، طالب علمی کے زمانے کے مباحثے جیسی بحث کا مقام ہے۔ دو طالب عالم کسی درس کے سلسلے میں مباحثہ کرتے ہیں تو کبھی کبھار ایک دوسرے پر چیخ بھی پڑتے ہیں لیکن یہ ڈانٹ اور چیخ نہ تو کسی سیاسی محرک کی وجہ سے ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں دشمنی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ یہ شخص تو بس اس حقیقت کا دفاع کر رہا ہے جو اس کی نظر میں حق اور امر واقع ہے جبکہ دوسرا شخص اپنے موقف اور نظرئے کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ غالبا یہ دونوں ہی آخر میں ایک مشترکہ نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ مفکرین کی بحث اہل علم و دانش، عقل و منطق اور تجربہ و مہارت کی بحث ایک الگ چیز ہے اور پرائمری کے بچوں کا شور و غل ایک الگ شئ۔ جب بچہ پرائمری میں داخل ہوتا ہے تو خوب شور شرابا کرتا ہے، ہنگامہ کرتا ہے۔ وہ کوئی علمی اور ادبی محفل ہی کیوں نہ ہو اور ادق موضوعات پر تبادلہ خیال ہی کیوں نہ ہو رہا ہے، اسے تو شور مچانے سے مطلب ہے۔ تو ان دونوں بحثوں میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اسکولی بچوں کا ہنگامہ، بین جماعتی ہنگامہ، معمولی سی چیز کے لئے لڑائی جھگڑا تو بہت ہی نا زیبا چیز ہے۔ یہ پارلیمنٹ کی شان کے منافی ہے۔ ہاں اگر علمی بحث ہے بالخصوص کمیشنوں کی سطح پر ہونے والی ماہرانہ بحث، تو وہ مستحسن اور لائق ستائش ہے۔ اس سے پارلیمنٹ کی رونق بڑھتی ہے اور یہ تو لازمی بھی ہے۔
اس وقت اقتصادی اور غیر اقتصادی بحثوں میں یہ نکتہ خاص طور پر زیر بحث آ رہا ہے کہ ہم کس طرح کی ترقی کرنا چاہتے ہیں؟ بعض افراد تو بس اس لئے بولتے ہیں کہ عوام کی توجہ اصل موضوعات سے ہٹ جائے مثلا چینی طرز کی ترقی، تو جاپانی طرز کی ترقی یا فلاں طرز کی ترقی کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں ترقی کی جو روش ہے وہ ہماے عوام کے ایمان و عقیدے اور ثقافتی و تاریخی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ ہمیں کسی کی تقلید کرنے اور نقل اتارنے کی ضرورت نہیں۔ نہ عالمی بینک، نہ فلاں ملک اور نہ فلاں علاقہ۔ ہر ملک اور علاقے کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے اور ان کی تلقین کردہ اور غالبا منسوخ ہو چکی روش کی پیروی میں بہت فرق ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اقتصادی اور ثقافتی شعبے میں بعض تجاویز ایسی ہوتی ہیں جو صد فیصد کہیں باہر سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ فلاں انگریز تو یہ نظریہ رکھتا ہے، فلاں مفکر نے یہ کہا ہے۔ جیسے کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیا جا رہا ہو! ان میں سے بہت سے نظریات تو منسوخ ہو چکے ہوتے ہیں۔ تیس سال، چالیس سال، پچاس سال قبل اسے آزمایا گیا اور اب اس کی جگہ کوئی اور نظریہ آ چکا ہے لیکن ہم اسی منسوخ شدہ روش اور نظرئے کو اپنے شعبہ تعلیم و تربیت، علمی ماحول، یونیورسٹیوں، اقتصادی منصوبوں اور بجٹ کے تعین میں استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ تو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ دوسروں کے تجربات اور معلومات سے ضرور استفادہ کیا جائے لیکن روش خود اپنی ہونی چاہئے۔ یہ (ہجری شمسی) سال جس میں پارلیمنٹ اپنا کام شروع کر رہی ہے، جوابدہی کا سال قرار پایا ہے۔ جوابدہی کے سلسلے میں آپ کی دوہری ذمہ داری ہے۔ آپ خود تو جواب دیں گے ہی، دوسروں سے بھی آپ کو جواب طلب کرنا ہوگا۔ اگر حکومت جوابدہی کا فریضہ ادا کرنا چاہتی ہے تو وہ عوام کے سامنے یہ فریضہ ادا کرے گی، یہ بہت اچھی بات ہے اور میں نے اس چیز کے لئے ترغیب بھی دلائي ہے کہ عوام کے سامنے آپ پوری بات رکھئے۔ یہ تو اپنی جگہ۔ لیکن مجریہ کے جملہ اداروں کو تو پارلیمنٹ کے سامنے بھی قانونی جوابدہی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ تو آپ ان سے جواب طلب کیجئے اور ساتھ ہی اپنی کارکردگی کے سلسلے میں خود بھی جواب دیجئے۔ ترجیحات کیا ہیں؟ اس پر غور کیجئے۔ آپ میں ہر ایک کسی خاص علاقے سے منتخب ہوکر آیا ہے۔ آپ نے کچھ نعرے دئے ہوں گے، کچھ وعدے کئے ہوں گے، ان سب کو ایک ساتھ جمع کرکے غور کیجئے اور دیکھئے کہ ترجیحات کیا ہیں۔ حکومت کی جانب سے جو بل پیش کئے جائیں اسی طرح پارلیمنٹ کے اپنے جو منصوبے ہوں یا حکومتی اداروں سے جب جواب طلب کرنے کا موقع ہو تو ان میں ان ترجیحات کا آپ خیال رکھئے۔ ان کی درجہ بندی کیجئے بلکہ یہ بھی بہتر ہے کہ ٹائم ٹیبل تیار کر لیجئے اور پھر عوام کو مطلع کیجئے کہ ہم نے فلاں قانون بنانا چاہا یا فلاں مشکل کو حل کرنا چاہا اور اس کے لئے ہم نے چھے مہینے کا وقت مد نظر رکھا اور اب ہم فلاں مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ جو جناب ڈاکٹر حداد عادل صاحب کہتے ہیں کہ آئندہ سال ہم اپنی کارکردگی کی قابل قبول رپورٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوں تو یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آپ ترجیحات کا تعین کریں۔ ان کے لئے صحیح منصوبہ بندی کریں اور باریک بینی سےاس کے لئے ٹائم ٹیبل معین کریں۔ پھر آپ اعلان بھی کر سکتے ہیں کہ ہم ان ترجیحات کے لئے کوشاں ہیں۔ تمام کاموں کو ایک ہی دن میں توانجام نہیں دیا جا سکتا۔ ان میں کچھ ایسے کام ہوتے ہیں جو ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں۔ ان ترجیحات کا تعین ضروری اور اہم ہے۔ اس طرح آپ عوام کے سامنے خود بھی جواب دیجئے اور اپنے زیر نگرانی کام کرنے والے اداروں سے بھی جواب طلب کیجئے۔
آپ ایک دن بھی ضائع نہ کیجئے۔ میں یہ بات ان تمام بھائی بہنوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں جو مختلف شعبوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی خدمت میں بھی عرض کر رہا ہوں۔ بسا اوقات بہت سے افراد یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ابھی تو چار سال کا وقت پڑا ہے، ان ابتدائی دو تین مہینوں میں بھلا کیا کیا جائے؟ نہیں جناب یہ ابتدائی دو تین دن بھی اہم ہیں۔ ایک دن بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ چار سال، اچھی خاصی مدت ہوتی ہے بشرطیکہ اس کے ہر دن اور ہر گھنٹے سے استفادہ کیا جائے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ حد سے زیادہ توقعات وابستہ کر لی جائیں۔ نہیں، بس اتنا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے ایک دور کے لئے جو وقت مقرر کیا گيا ہے اس کا پورا پورا استعمال کیا جائے تو پھر یہ چار سال اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کافی ثابت ہوں گے۔
ہماری تاریخ کی ایک مایہ ناز شخصیت، امیر کبیر کی شخصیت ہے۔ ہمارے ملک میں امیر کبیر کے ہاتھ میں تین سال حکومت رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تین سال کتنا طویل عرصہ تھا؟! امیر کبیر کے کارہای نمایاں اور ان کے یادگار اقدامات جو ہماری تاریخ اور ملت ایران کے ذہنوں میں محفوظ ہیں، سب کے سب انہی تین برسوں میں انجام پائے۔ بنابریں چار سال کا عرصہ کچھ کم نہیں۔ اچھا خاصا وقت ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس وقت کا پورا پورا استعمال کیا جائے۔ آپ عملی اہداف پر توجہ دیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے اہداف کا انتخاب کر لیں جن کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہی نہیں۔ آپ کم پر ہی قناعت کیجئے۔ ایسے اہداف کی فکر میں نہ پڑیئے جو آپکے بس میں نہیں ہیں۔ جو چیز ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہنی چاہئے وہ بیس سالہ ترقیابی منصوبہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ایک عملی منصوبہ ہے۔ یعنی اس میں بلند پروازی اور خوش فہمی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ اسے غور سے دیکھئے، اس کا باریک بینی سے جائزہ لیجئے، اس کا مطالعہ کیجئے۔ ملت ایران اس جامع آئين اور نظام کے ان شعبوں کے سہارے، اگر وہ ٹھیک سے کام کریں، بیس سال میں ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچ سکتی ہے جسے اس منصوبے میں متعارف کرایا گيا ہے۔ پالیسیاں ہمارے مد نظر رہیں اور یہ پالیسیاں اسی منصوبے کی بنیاد پر وضع کی جائیں۔ پالیسیوں سے مکمل ہم آہنگی کا خیال رکھتے ہوئے قانون سازی کیجئے یعنی قانون کو پالیسیوں کے قلب میں جگہ ملے اور پالیسیاں اسی مطلوبہ بلندی کی سمت بڑھیں۔ یہ منصوبہ اسلام کی بنیاد پر طے پایا ہے لہذا ہر آن ہم معینہ اہداف کی فکر میں رہیں، انہیں اہداف میں ضم ہو جائے، اسلام میں ضم ہو جائيں، اعلی اسلامی اہداف میں ضم ہو جائیں جو اللہ تعالی نے معین کئے ہیں۔ ان اہداف اور مطلوبہ بلندیوں پر آپ کی نظریں ٹکی رہیں۔ اسلام، قومی وقار، خود مختاری، سماجی مساوات، طبقاتی فاصلے میں کمی، آج یہ ہمارے اہم اہداف ہیں۔ آپ کا منظور کردہ کوئی قانون غریب اور دولت مند کے درمیان فاصلے کو اور بھی بڑھا سکتا ہے اسی طرح اسے کم بھی کر سکتا ہے۔ آپ کی کوشش یہ ہو کہ اس فاصلے میں کمی آئے اور یہ شگاف بھرے۔ اس سلسلے میں اہم ترین اقدامات میں ایک بد عنوانی کا مقابلہ ہے۔ چند سال قبل میں نے بد عنوانی سے مقابلے کے سلسلے میں حکام کو ایک خط لکھا تھا جس میں کثیر الجھات اور وسیع مطالعے اور طویل المیعاد کوشش مد نظر تھی۔ ہم جو بھی طریقہ اپنائیں جب تک بد عنوانیاں ختم نہ جائیں گی ہر کام ادھورا رہے گا۔ ملک میں بہت اچھے کام انجام دئے جا رہے ہیں اور اب تک جو کچھ انجام پایا ہے وہ بھی کم نہیں ہے لیکن بد عنوانیوں کی وجہ سے محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ کوششیں بے نتیجہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی بڑا سا حوض ہے جس میں کئی پایپوں سے پانی آ رہا ہے لیکن حوض ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔ اب جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس میں تو کئی سوراخ ہیں۔ اس لئے اس میں جتنا بھی پانی ڈالا جاتا ہے حوض کے باہر چلا جاتا ہے۔ آپ جتنا بھی اس میں پانی ڈالیں دوسری جانب سے وہ بہتا ہی چلا جائے گا۔ معاشرے میں بد عنوانی بھی اسی طرح ہوتی ہے۔ مالی بد عنوانی ایڈز اور سرطان کی طرح ہوتی ہے اس کا بہت سختی سے مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ البتہ اس پر حد سے زیادہ واویلا مچانے اور مبالغہ آرائی کرنے سے گریز بھی کرنا چاہئے۔ بعض افراد تو اس طرح بات کرتے ہیں کہ گویا سرطان ہر جگہ پھیل چکا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے، اوپر سے نیچے تک مختلف اداروں میں کتنے سارے پاکیزہ صفت انسان ہیں، کتنے ایسے افراد ہیں جن کے دامن پر کوئی چھینٹ تک نہیں! اکثریت انہی افراد کی ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ اگر جسم کے کسی عضو میں کوئی تکلیف ہو جائے مثلا کوئی دانت خراب ہو جائے تو انسان ساری رات سو نہیں پاتا۔ حالانکہ اس کا دل، معدہ، پھیپھڑے، گردش خون، سب کچھ ٹھیک ہے لیکن اس ایک دانت نے انسان کی نیند حرام کر دی۔ بد عنوانی کی یہی مثال ہے۔ اس کا بہت سخت گیری کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس مہم کا ایک محاذ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
اگر انسان بد عنوانی سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو بہت زیادہ محتاط رہے کہ کہیں اس بد عنوانی کا داغ اس کے دامن پر بھی نہ لگ جائے۔ آپ پارلیمنٹ کے اندر اس سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہئے۔ آپ کے ہاتھ پاک رہیں، آپ کا دامن بے داغ رہے اور آپ کی زبان اور آنکھیں بے عیب۔ آپ اپنے دائرہ کار میں ہر چیز کوپاکیزہ بنائیے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لغزشوں سے ڈرئے۔ امام زین العابدین علیہ السلام جب صحیفہ سجادیہ میں لشکر اسلام کے سپاہیوں کے لئے دعا کرتے ہیں تو جن نکات پر خاص توجہ فرماتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدایا! ان کے دلوں سے فتنہ پرور مال کی محبت اور یاد مٹا دے۔ دولت بہت خطرناک اور فتنہ پرور ہوتی ہے۔ اس کے باعث بہتوں کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ ہم نے آہنیں ارادوں کے مالک بہت سے افراد کے بارے میں تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب اس مرحلے میں پہنچے تو ان کے قدم بھی لغزش سے محفوظ نہ رہ سکے۔ لہذا بہت ہوشیار اور محتاط رہئے۔ شریعت مقدسہ میں اس احتیاط کا نام کیا ہے؟ تقوا۔ قرآن میں شروع سے آخر تک جس تقوی پر اتنی تاکید ہے اس سے مراد یہی احتیاط ہے۔
اس کے بعد ایک اہم مسئلہ ہمہ گیر مفادات کو علاقائي مفادات پر ترجیح دینے کا ہے۔ یہ بھی انہیں چیزوں میں ہے جن کے بارے میں گفتگو تو آسان ہوتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کبھی میں بھی پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ مجھے پارلیمنٹ کی رکنیت کے سلسلے میں حالات کا پورا علم ہے۔ یوں بھی برسوں سے پارلیمنٹ سے مسلسل سابقہ ہے۔ آپ علاقائی مسائل کو قومی مسائل پر ترجیح دینے کی کوشش نہ کیجئے۔
آپ سے آخری بات نظم و ضبط کے تعلق سے کہنا ہے۔ میں ٹی وی پر جب پارلیمنٹ کی سیٹیں خالی دیکھتا تھا تو ٹی وی کے سامنے مجھے عوام سے شرم محسوس ہوتی تھی۔ ہم نے عوام سے درخواست کی تھی کہ آپ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچیں اور وہ پہنچے بھی اور انہوں نے اپنے نمایندے کا انتخاب بھی کیا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ایوان میں چار خالی نشستوں کے بعد کوئي ایک رکن پارلیمنٹ بیٹھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ٹی وی پر جب میں یہ منظر دیکھتا تھا تو واقعی مجھے شرم کا احساس ہوتا تھا۔ یہ تو بے ضابطگی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ وقت پر پہنچنا، کمیشن میں جانا، ایوان میں حاضر ہونا اور کارروائی میں حصہ لینا یہ سب بہت اہم ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ عوام نے جو توقعات آپ سے وابستہ کی ہیں، آپ کی کارکردگي اور الہی توفیقات ایسی ہوں کہ روز بروز عوام کی امیدوں میں اضافہ ہو اور انہیں محسوس ہو کہ بہت اچھے نمایندے پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ اس صورت میں ہماری دعائيں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ