قائد انقلاب اسلامی نے افغان عوام کے رنج و غم کو بھی اپنے خطبے میں موضوع گفتگو قرار دیا۔
تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين، الهداة المهديّين المعصومين المكرّمين، سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين. قال اللَّه الحكيم فى كتابه: «و استعينوا بالصّبر والصّلاة و انّها لكبيرة الّا على الخاشعين».(1)

عید سعید فطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ، آپ سب نمازیوں کو ، تمام اسلامی امہ اور دنیا کے تمام گوشہ و کنار میں رہنے مسلمانوں کو۔ حالانکہ فلسطین میں صیہونیوں کے جرائم نے مسلمانوں کے لئے عید منانے کی گنجائش نہيں چھوڑی ہے ۔
عید فطر، پاداش لینے اور رمضان مہینے کے بعد خدا کی رحمت کے مشاہدے کا دن ہے۔ الحمد للہ ماہ رمضان، کہ جو صبر و صلوات کا مہنیہ تھا، خیر و عافیت کے ساتھ گزر گیا اور خداوند عالم نے دعا، ذکر و مناجات کے ذریعے آپ لوگوں کو روزے، توسل اور اپنے سامنے خضوع و خشوع کی توفیق عنایت فرمائی ۔ آج وہ دن ہے کہ جس دن انشاء اللہ خداوند عالم آپ کو جزائے خیر سے نوازے گا ۔ شاید خداوند عالم کی ایک عظیم جزا و پاداش یہ ہو کہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق عنایت فرمائے کہ ہم خدا کی رحمت کی وجوہات کو اگلے ماہ رمضان تک اپنے وجود میں محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جائيں۔ ماہ رمضان میں خدا کی رحمت، ان نیکیوں کا نتیجہ ہوتی ہے جن کی آپ کو اس مبارک مہینے میں توفیق عطا ہوتی ہے۔ ماہ رمضان میں خدا، نیکیوں، ضرورتمندوں اور صلہ رحم پو توجہ ہوتی ہے۔ اس مہینے میں کمزوروں اور پاکدامنی و پارسائی پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ مہینہ ان لوگوں سے صلح و آشتی کا وقت ہے جن سے آپ دور ہو چکے ہيں۔ ان لوگوں سے انصاف کا موقع ہے جن سے دشمنی تھی۔ رقت، توجہ اور توسل کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں دل، نرم اور روح، خدا کے فضل و رحمت کے نور سے منور ہو جاتی ہے اور انسان کو ان نیکیوں کی انجام دہی کی توفیق حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اگلے برس تک جاری رکھیں۔ ماہ رمضان کا سبق، ایک برس کے لئے یاد کریں۔ یہ خداوند عالم کی ایک بہت بڑی پاداش ہوگي کہ خدا ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے۔ میں خداوند عالم سے اس کی رضا و رحمت و قبولیت و عفو و مغفرت وعافیت کی دعا کرتا ہوں۔ یہ (ہمارے لئے) حقیقی عید ہوگی ۔
میں جو اس خطبے میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کا سب سے بڑا درس خود سازی ہے اور خودسازی کا سب سے اہم اور پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر اور اپنے کردار و رفتار پر تنقیدی نظر ڈالے۔ اپنے عیوب کو واضح طور پر اور باریک بینی سے دیکھے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام صرف ہم خود ہی کر سکتے ہيں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک دوسرے پر رحم کریں تاکہ خداوند عالم آپ لوگوں پر رحم کرے ۔ جن لوگوں کے پاس اختیارات ہيں وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی نہ کریں۔ جو لوگ عقل ، فہم، وسائل، طاقت، عہدے اور مختلف انفرادی و اجتماعی صلاحیتوں کے مالک ہيں انہیں اپنی صلاحیتوں کو دوسرے کا حق مارنے میں استعمال نہیں کرنا چاہئے، ہمیں خود کو خدا کا بندہ سمجھنا چاہئے، خدا کے دوسرے بندوں کے سامنے، خود کو تعاون، نیکی، اچھائی اور انصاف کا پابند سمجھنا چاہئے۔ ایسی صورت میں ہم پر خدا کی رحمت و فضل کی بارش ہوگی اور ہمارا وجود دھل جائے گا اور اللہ اپنی برکتوں سے ہمیں نوازے گا ۔ یقینا یہ سب کا فرض ہے لیکن جو لوگ سماج میں بہتر مقام رکھتے ہیں اور طاقت و عہدے و دولت کے مالک ہيں اور سماج میں ان کی بات سنی جاتی ہے، ان پر یہ ذمہ داری یعنی خود سازی اور دوسرے کے خلاف اپنی طاقت استعمال نہ کرنے کی ذمہ داری زيادہ ہےـ
انسان کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جہاں بھی ہو، اپنی قانونی حدوں کو جانتا ہو اور اس سے آگے نہ بڑھے۔ حد سے آگے بڑھنے کا معنی وہی برا اور شرم آور مفہوم استبداد و استکبار کا ہے۔ انسان کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ وہ خود سری اور تکبر میں مبتلا ہو جائے، ہر آدمی اس مصیبت میں گرفتار ہو سکتا ہے۔ سب کو اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ جن لوگوں کا سماجی مقام زيادہ بڑا ہے ان کے لئے خطرہ بھی زیادہ ہے۔ جن لوگوں میں استکباری جذبہ ہوتا ہے اگر ان کے پاس، طاقت و دولت و بڑا عہدہ بھی ہو تو وہ خود اپنے لئے اور سماج کے لئے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے اپنا زيادہ خیال رکھنا چاہئے۔ جو لوگ سماج میں بدعنوانی کرتے ہيں، مالی بدعنوانی، اخلاقی بدعنوانی، سیاسی بدعنوانی، وہ خود کو تو تباہ کرتے ہی ہیں لیکن اپنے ساتھ عوام کو بھی نقصان پہنچاتے ہيں اور اس کا اصل سبب یہی ہے کہ انسان کو قانون اور شریعت کی حدود، پابندی نظر آتی ہے اور وہ اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دینا چاہتا ہے۔ جب انسان کی خدا نخواستہ یہ حالت ہو جاتی ہے تو پھر اس کے لئے کسی بھی قسم کی حدود کی اہمیت نہيں رہ جاتی، اس کا رویہ، اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر شئے کے مقابلے میں جارحانہ ہوتا ہے اور وہ مخالفت و عناد کا موقف اختیار کرتا ہے۔ اس طرح سے سماج کے لئے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ جو میں نے خبردار کیا ہے اور حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ مالی بد عنوانی سے مقابلہ کریں تو اس کی وجہ یہی ہے۔ جو مالی بدعنوانی میں پھنس جاتا ہے اس کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ عوام کی دولت لوٹتا ہے اور غبن کرتا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بدعنوانی کا ایک جرثومہ اپنے سامنے رکاوٹ بننے والی ہر چیز سے تصادم چاہتا ہے اور اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے اپنی تمام طاقت استعمال کرتا ہے۔ اب اگر یہ رکاوٹ شریعت ہو تو شریعت کے خلاف محاذ کھول دیتا ہے، اگر آئین ہو تو وہ آئين کے خلاف جنگ چھیڑ دیتا ہے اور اگر عام قوانین ہوں تو عام قوانین کے خلاف جنگ میں مصروف ہو جاتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے کچھ شعبے، ہماری درخواست کے بعد سنجیدگی کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ سب کو، ان کی مدد کرنی چاہئے۔ کسی کو بھی بد عنوان اور بدعنوانی کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ جو بھی انسداد بدعنوانی کی اس قانونی و منطقی تحریک کو کمزور کرے گا وہ در اصل بدعنوانی کا حامی قرار پائے گا اور اس کا مدد مددگار ہوگا اور ایک طرح سے استبدادی و استکباری خو میں مبتلا ہو جائے گا۔ یعنی قانونی کے سامنے سرکشی کرے گا۔
البتہ میں ، عدلیہ کو بھی اور انتظامیہ کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ عمل کے میدان میں ہوشیار رہیں، حدود کا خیال رکیھں کہ کہیں کسی پر ظلم نہ ہو جائے۔ کہیں بغیر گناہ کے کسی کی بے عزتی نہ کر دی جائے۔ پریس کو بھی اس سلسلے میں ہوشیار رہنا چاہئے۔ بہرحال، یہ ایک صحیح اور اصولی تحریک ہے اور اسے جاری رہنا چاہئے۔
پروردگارا! تجھے اس عظیم دن، تیرے اولیاء اور عظیم پیغمبروں، پیغمبر اسلام کے اہل بیت، ائمہ ہدی اور تمام نیک و صالح بندوں اور آغاز سے لیکر آج تک کے شہیدان اسلام کا واسطہ دیتا ہوں ہمیں اپنے راستے پر ثابت قدم رکھ اور جو لوگ تیرے لئے اور تیری راہ میں سعی و کوشش و جد و جہد کرتے ہيں انہيں اپنی تائید سے نواز اور انہيں کامیاب کر ۔

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم
قل هو اللَّه احد. اللَّه الصّمد. لم يلد و لم يولد. و لم يكن له كفوا احد.(2)

دوسرا خطبہ :

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين. نحمده و نستعينه و نستغفره و نؤمن به و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه، سيّد الأنبياء و المرسلين، ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين، الهداة المعصومين، سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين و الحسن و الحسين سيّدى شباب اهل‌الجنّة و على‌بن‌الحسين سيّد العابدين و محمّدبن‌علىّ باقر علم‌النّبيّين و جعفربن‌محمّد الصّادق و موسى‌بن‌جعفر الكاظم و علىّ‌بن‌موسى الرّضا و محمّدبن‌على الجواد و علىّ‌بن‌محمّد الهادى و الحسن‌بن‌على الزّكىّ العسكرى و الحجّةبن‌الحسن القائم المهدى صلوات اللَّه عليهم اجمعين. اوصيكم عباداللَّه بتقوى اللَّه
.

تمام محترم بھائیوں اور بہنوں کو تقوائے الہی کی نصیحت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آج کے با برکت دن میں خداوند عالم، عالم اسلام کی مصیبتوں کو ختم کرے گا۔
اس خطبے میں ، عالم اسلام پر نظر ڈاليں گے۔ اس وقت عالم اسلام کو بہت بڑے مسائل در پیش ہيں۔ تمام دنیا کے مسلمانوں کا فرض ہے، عالم اسلام کی حکومتوں کا ، علماء کا، تعلیم یاقتہ افراد کا، یونیورسٹیوں سے متعلق افراد کا، فنکاروں کا اور ان سب کا جن کی باتوں کا لوگوں پر اثر ہوتا ہے، زیادہ فرض بنتا ہے ۔ آج کچھ بڑی طاقتیں، عالمی غنڈے کی شکل میں، اپنی حد سے آگے بڑھ گئ ہیں، اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے، کسی قسم کی دھونس و دھاندلی سے پرہیز نہیں کرتیں۔ ان اقوام پر، جو آزاد رہنا چاہتی ہيں اور اپنے قومی سرمائے کو لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتے ہیں، فوجی، سیاسی و تشہیراتی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ آج فلسطین کا المیہ بدترین مرحلے میں ہے۔ آج فلسطین کے مظلوم عوام بغیر کسی گناہ کے، سوائے اس کے کہ وہ اپنے گھر میں اور اپنے وطن میں آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں، بے عزت نہیں ہونا چاہتے، دہشت گرد کہے جاتے ہیں! یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ فلسطین کے عوام اپنے گھر اندر، غاصبوں کو دیکھ رہے ہيں، ان کی زندگی برباد کی جا رہی ہے، ان کا گھر اس سے چھین لیا جاتا ہے، ان کا قومی سرمایہ ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں ہے اس کے علاوہ اپنے گھر، اپنے شہر اور اپنے وطن میں ، ان کی بے عزتی کی جاتی ہے، اگر فلسطین کا کوئي نوجوان فلسطین میں نماز جمعہ پڑھنا چاہتا ہے اور اگر سڑک پر اس پر یا کسی بھی فلسطینی مرد یا عورت پر ذرہ برابر شک ہو جاتا ہے تو انہیں خود ان کے وطن میں بے عزت کیا جاتا ہے اگر کچھ بولیں یا ان کا تھوڑا سا بھی غصہ ظاہر ہو جائے تو بغیر جنگي ساز و سامان کے ساتھ ، گلی کوچوں میں درانہ گھس آتے ہیں اور ان کے گھروں کو ٹینکوں سے مسمار کر دیتے ہيں۔ یہ مظلوم قوم اگر اپنا دفاع کرتی ہے، آواز احتجاج بلند کرتی ہے، عالم اسلام سے مدد چاہتی ہے تو دہشت گرد کہی جاتی ہے! صیہونی حکومت، پوری بے شرمی سے دہشت گردی کرتی ہے، روز بروز اس میں شدت پیدا کرتی ہے لیکن اس کی اس دہشت گردی کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور فلسطین کی مظلوم قوم کو دہشت گرد کہا جاتا ہے! یہ بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ عالم اسلام کو آکے بڑھ کر اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہئے۔
میں اپنی عزيز قوم کا، یوم قدس کے موقع پر عزم و جذبے کے ساتھ مظاہروں کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اقوام عالم کے جتنا بس میں ہے اور جتنی انہیں اجازت ہوتی ہے اپنی نفرت ظاہر کرتی ہیں لیکن اسے حکومتوں کے فیصلوں میں مجسم ہونا چاہئے۔ اسلامی حکومتوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس معاملے میں ان کے دوش پر ذمہ داریاں ہیں۔
عالم اسلام کی رائے عامہ کو جان لینا چاہئے کہ امریکا اور سامراجی حکومتیں، دوسرے ممالک کے معاملات میں ہمدردی و خیر سگالی کے جذبے سے مداخلت نہيں کر سکتیں۔ ان کا جذبہ اور موقف دشمنی اور ظالم و جارح کی حمایت پر مبنی ہے۔ ہمارا فرض پورا نہیں ہوا ہے ۔ یہ فرض ہمیشہ رہنے والا ہے اور ہم سب پر عائد ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کو لیس کرنا چاہئے، ان کی مدد کرنی چاہئے، ان کا حوصلہ بڑھانا چاہئے تاکہ وہ اپنی بہادرانہ جد و جہد جاری رکھ سکھیں۔ مجھے کہنے دیں آج فلسطینی قوم نے، اپنی استقامت، تحریک و شجاعت سے یہ ثابت کر دیا کہ خون، شمشیر کے مقابلے میں کھڑا ہو سکتا ہے اور انشاء اللہ یہ قوم یہ بھی ثابت کر دےگی کہ خون کو ، شمشیر کے مقابلے میں فتح حاصل ہوتی ہے۔
ہمیں افغانستان کی معاملے کی بھی فکر ہے۔ ہمارے پڑوس کی مسلمان قوم جس کی ثقافت بھی ہماری طرح ہے، خطرناک صورت حال سے دوچار ہے۔ آج جو حالت ہے، جس کا ہم نے خیر مقدم بھی کیا ہے۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت اور افغانستان میں غیر ملکیوں کے اثرات سے، خراب بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ صورت حال جو، فی الحال، کئ برسوں کے بعد پیدا ہوئی ہے، اگر مختلف حکومتیں مداخلت کریں گی اور اپنے مفادات کو، افغان عوام کے مفادات کو افغانستان میں پورا کرنے کی کوشش نہیں کریں گی تو افغان عوام کی جد و جہد اور ان کے دکھوں و رنج و غم کا نتیجہ صفر ہو جائے گا ۔ افغانستان کی حکومت کی تشکیل عالمی دباؤ سے دور رہ کر ہونی چاہئے ۔ چار لوگوں کو وہاں سے اٹھا کر لایا جائے ، جو افغانستان کو صحیح طرح سے پہچانتے بھی نہيں ، دسیوں برسوں سے افغانستان کو دیکھا بھی نہيں ، ان برسوں میں جب افغان عوام سختیاں اٹھا رہے تھے یہ لوگ یورپی اور ديگر ممالک میں آسودہ زندگی گزار رہے تھے ان لوگوں کو کیا معلوم کہ افغانستان کے عوام کا درد کیا ہے ؟ ان لوگوں کو زمام حکومت سنھالنی چاہئے جو درد آشنا ہوں، افغانستان کے عوام کے ہمدرد ہوں، افغان عوام کے درد و رنج کو اپنے بدن پر اپنے دل پر محسوس کرتے ہوں۔ افغانستان پر گزشتہ پچیس برسوں کے دوران جو مصیبتيں پڑی ہیں اس کی وجہ غیر ملکی مداخلت رہی ہے۔ اگر یہ قوم خود اپنے امور اپنے ہاتھ میں لے تو یہ دکھ اور مصیبتیں انشاء اللہ ختم ہو جائيں گی۔ خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ وہ افغانسان کے مسلمانوں کو سعاوت و خوشحالی سے نوازے ۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، افغانستان کے عوام کو، فلسطینی قوم کو اور تمام مسلمانان عالم کو اپنی رحمت و فضل سے نواز ، انہیں کامیابی عطا کر اور انہیں ، ان کے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھ ۔

 

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم
و العصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات. و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.(3)

 

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته

 

(1) بقره: 45
( 2)) توحيد: 4 - 1
(3) عصر: 3 - 1