نماز جمعہ کے خطبوں میں آپ نے اکیس رمضان المبارک کی مناسبت سے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یوم شہادت ہے آپ کے سیاسی مکتب فکر کے بارے میں انتہائی بصیرت افروز نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے روایات اور تاریخ کی روشنی میں حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کی سیاسی روش پر روشنی ڈالی اور اس کی پیروی کرنے پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے خطبہ دوم میں اسلامی نظام پر تعمیری تنقیدیں کرنے والوں اور اس نظام کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کرنے والوں کے بیچ فرق قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور اسے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت طیبہ سے ماخوذ روش قرار دیا جو اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اختیار کی۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوری نظام ایک دینی نظام ہے اور اس کی دینی ماہیت و شناخت کی حفاظت ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یوم قدس کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی یادگار قرار دیا اور فرمایا کہ یوم قدس کے اعلان کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا اور اس طرح اس مسئلے کو طاق نسیاں کی زینت بنا دینے کے لئے کوشاں سامراجی طاقتوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا اور ان کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔
نماز جمعہ کے خطبوں کا اردو ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:

 

خطبه‏‌ى اول‏
بسم‏اللَّه‌‏الرّحمن‏الرّحيم‏
الحمد للَّه ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نؤمن به و نستغفره و نتوكّل عليه‏ و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه سيّد خلقه بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّة اللَّه فى العالمين.‏
اللّهمّ صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين.

عزیز نماز گزار بھائیوں اور بہنوں سے تقوائے الہی کی سفارش کرتا ہوں۔ یہ مہینہ تقوی کا مہینہ ہے اور آج اکیسویں رمضان المبارک ہے، تقوائے مجسم کا دن، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام مجسم تقوی تھے۔ ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے اور تقوی ہی کو دنیا و آخرت کا توشہ راہ قرار دینا چاہئے۔
پہلے خطبے میں، امیرالمومنین علیہ السلام کے تعلق سے کچھ معروضات پیش خدمت کروں گا۔ یہ امیر المومنین سے منسوب دن ہے۔ گزشتہ شب جو اتفاق سے شب جمعہ بھی اور اس لحاظ سے اس سال کی یہ رات رمضان کی اس اکیسویں رات سے زیادہ مشابہ ہے جس میں عالم انسانیت علی سے محروم ہو گیا تھا۔ امیر المومنین علیہ السلام کا جسم، امیرالمومنین کی آواز، امیرالمومنین کی گرم سانسیں اور امیرالمومنین کی چشم تیز بیں اس وقت کے انسانی معاشرے سے لے لی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی علی علیہ السلام کی معیت حاصل کی جا سکتی ہے، حضرت کو اپنی حرکت میں اپنے سامنے رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہم امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت اور طرز عمل کو نمونہ عمل کی حیثیت سے توجہ کا مرکز قرار دیں۔ میں آج حضرت کی اس سراپا افتخار زندگی اور اس قلیل مدتی لیکن درخشاں و گہربار حکومت سے متعلق کچھ باتیں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔
جس موضوع کے سلسلے میں چند نکات عرض کرنے ہیں وہ امیرالمومنین کا سیاسی طرز عمل ہے۔ اس نکتے پر نظر رہے اور اس پر توجہ دی جائے کہ امیرالمومنین کا سیاسی طرز عمل آپ کے معنوی و اخلاقی طرز عمل سے جدا نہیں ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاست، روحانیت و اخلاقیات سے آمیختہ و آغشتہ ہے۔ بلکہ یہ (سیاست) علی کی معنویت و روحانیت اور آپ کے اخلاق سے ہی ماخوذ ہے۔ سیاست کا سرچشمہ اگر اخلاق ہو، اگر وہ روحانیت و معنویت سے سیراب ہو تو ان عوام کے لئے جن کا اس سے واسطہ ہے، یہ سیاست وسیلہ کمال ہے، راہ بہشت ہے لیکن اگر سیاست اخلاق سے جدا ہو جائے، روحانیت سے الگ ہو جائے تو سیاست بازی بن جاتی ہے، ذریعہ بن جاتی ہے کسی بھی قیمت پر اقتدار کے حصول کا، دولت تک رسائی کا اور کارہائے دنیا کو اگے بڑھانے۔ یہ سیاست ایک آفت بن جاتی ہے خود سیاستداں کے لئے بھی اور ان عوام کے لئے بھی جن کی زندگی میں یہ سیاست نافذ کی جا رہی ہے۔
امیرالمومنین اس حکومت کو، جس کے دوران ہزاروں کی تعداد میں جانی نقصان والی جنگیں رونما ہوئیں، آپ نہج البلاغۃ میں دیکھئے، ایسے الفاظ میں یاد کرتے ہیں جو آپ کی نظر میں اس حکومت کی بے وقعتی کے غماز ہیں۔ کبھی ابن عباس کو مخاطب کرکے اسے اپنی پھٹی ہوئی جوتیوں کے تسمے سے بھی بے ارزش قرار دیتے ہیں، کبھی اسی حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں: ألفيتم دنياكم هذه ازهد عندى من عفطة عنز وہ رطوبت جو بھیڑ کے بچے کی چھینک کے وقت نکلتی ہے اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔ آپ فرماتے ہیں: یہ حکومت، یہ اقتدار اور اس تخت پر بیٹھنا علی کے لئے اس سے بھی زیادہ بے وقعت اور کم اہمیت ہے۔ اسی خطبے میں ایک جگہ آپ حکومت قبول کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے استدلال فرماتے ہیں: «لو لا حضور الحاضر و قيام الحجّة بوجود النّاصر»؛ میں نے دیکھا کہ لوگ آ گئے ہیں، اصرار کر رہے ہیں، وعدہ نصرت کر رہے ہیں تو میں نے قبول کر لیا۔ اور پھر استدلال فرماتے ہیں: «و ما اخذ اللَّه على العلماء ان لايقارّوا على كظّة ظالم و لا سغب مظلوم»؛(1) ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے دنیا کے علما اور دانا حضرات پر فرض کر دیا ہے کہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک اور تہی دستی کو برداشت نہ کریں، اس پر خاموش نہ بیٹھیں۔ ان چیزوں نے آپ کو حکومت کی سمت کھینچا، اسی طرح بغاوت کرنے والوں کے خلاف استقامت و پائیداری اور حتی فوجی جنگ پر مجبور کر دیا ورنہ حکومت کی امیرالمومنین کی نظر میں کوئی ارزش نہیں ہے۔
اس سیاست کے تحت امیرالمومنین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ: آپ مکر و فریب سے کوسوں دور ہیں۔ حضرت کا ایک جملہ منقول ہے: لولا التقی لکنت ادھی العرب (2) تقوی نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ نہ رکھے ہوتے تو میں عرب میں مکر و حیلے کا سب سے بڑا ماہر ہوتا۔ معاویہ حکومت کے سلسلے میں چونکہ مکر و فریب کے لئے بہت بدنام تھا لہذا آپ ایک مقام پر معاویہ کا اپنے آپ سے موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:واللہ ما معاویۃ بادھی منی (3) معاویہ مجھ سے زیادہ چالاک نہیں ہے۔ لیکن علی کیا کریں؟ آپ نے تقوی اور اخلاقیات کی پابندی کرنے کا عہد کر رکھا ہے اس لئے آپ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ ہے امیرالمومنین کی روش۔ اگر تقوا نہ ہو تو انسان کے ہاتھ اور زبان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ کچھ بھی کہہ سکتا ہے، غلط بیانی کر سکتا ہے، تہمت لگا سکتا ہے، لوگوں سے جھوٹ بول سکتا ہے، عہد شکنی کر سکتا ہے، صراط مستقیم کے دشمنوں کا ہمنوا بن سکتا ہے، تقوی نہ ہو تو یہی سب ہوتا ہے۔ امیرالمومنین فرماتے ہیں: میں نے تقوا کے ساتھ سیاست کا انتخاب کیا ہے، تقوا کے ساتھ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے طرز عمل میں مکر و حیلہ گری اور پست کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ بالکل پاکیزہ ہے۔
دین سے سیاست کو الگ رکھنے کا جو خیال ہے، عالم اسلام میں جس کی ترویج ہمیشہ کچھ لوگ کرتے رہے ہیں، ہمارے ملک میں بھی تھے اور آج بھی بد قسمتی سے سیاست سے دین کی جدائی کے راگ سنائی دے جاتے ہیں، اس کا سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ جیسے ہی سیاست دین سے جدا ہوئی اخلاق سے بھی جدا ہو جائے گی، معنویت و روحانیت سے بھی جدا ہو جائے گی۔ دین سے خود کو الگ کر لینے والے معاشروں میں تقریبا ہر میدان سے اخلاقیات رخصت ہو چکی ہیں۔ البتہ استثنائی طور پر ممکن ہے کہ کبھی اخلاق نظر آ جائے، یہ ممکن ہے لیکن استثنائی چیز ہے۔ جیسے ہی سیاست دین سے الگ ہوئی وہ اخلاق سے بے بہرہ ہو جاتی ہے اس کا سارا دارومدار مادہ پرستی اور مفاد پرستی والے حساب کتاب اور اندازوں پر ہوتا ہے۔ امیرالمومنین کا سیاسی طرز عمل معنویت و روحانیت پر استوار ہے، آپ کی معنوی روش سے الگ نہیں ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی روش؛ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہوا آپ نے اپنے مخالفین حتی اپنے دشمنوں کے ساتھ رواداری کی۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اپنی تقریبا پانچ سالہ حکومت میں امیرالمومنین نے مجبور ہوکر تین جنگیں لڑیں وہ رواداری اور رعایتوں کے حدیں ختم ہو جانے کے بعد لڑی ہیں۔ امیرالمومنین ایسے انسان نہ تھے کہ رواداری اور درگذر سے قبل ہی شمشیر بکف ہو جاتے۔ آپ امیرالمومنین کے چند جملے ملاحظہ فرمائیے۔ اپنی خلافت کے اوائل میں ایک دفعہ کچھ لوگ امیرالمومنین کے پاس آئے اور بعض افراد کے بارے میں کہنے لگے کہ مولا ان لوگوں کا کام تمام کیجئے، اصرار کرنے لگے۔ امیرالمومنین نے انہیں صبر کی نصیحت فرمائی، آپ نے کچھ باتیں ارشاد فرمائیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ ایک نظریہ ہے فرقۃ تری ما ترون کچھ لوگ آپ کے اس خیال سے متفق ہیں و فرقۃ تری ما لا ترون کچھ لوگوں کا خیال وہ ہے جسے آپ تسلیم نہیں کرتے، و فرقۃ لا تری ھذا و لا ذاک کچھ لوگ ہیں جو دونوں میں کسی سے بھی متفق نہیں بلکہ ان کا تیسرا نظریہ ہے۔ فاصبروا پس صبر کیجئے تاکہ امیرالمومنین حکمت و تدبیر کے ساتھ اپنا کام انجام دے سکے۔ حتی۔۔۔ تؤخذ الحقوق مسمحۃ ہمیں درگذر، ملائمت اور نرمی سے صاحب حق کا حق دلانے دیجئے۔ واذا لم اجد بدا فآخر الدواء الکیّ (4) تاکہ میں درگذر اور خوش خلقی سے حقدار کو اس حق دلا دوں اور جب دیکھوں گا کہ کوئی دوسرا چارہ نہیں رہ گیا ہے، حق بات سننے کو تیار نہیں ہیں تب آخر الدواء الکیّ یہ در حقیقت ایک معروف عربی مثل ہے، آخر الدواء الکیّ یعنی آخری طریقے کو پوری سختی سے اختیار کروں گا۔ جہاں تک ممکن ہے دوا اور مرہم سے کام لیں گے کہ اس زخم کا مداوا ہو جائے، یہ زخم ٹھیک ہو جائے، اس پر مرہم رکھ اٹھے، لیکن جب کوئی چارہ نہیں رہ جاتا تو آپریشن کرنا پڑتا ہے۔
جنگ صفین میں معرکہ شروع ہونے سے قبل کچھ لوگ بہت پیر پٹک رہے تھے کہ امیرالمومنین آپ حملہ کیوں نہیں شروع کرتے؟ ان کا اصرار تھا کہ حملہ کیجئے۔ امیرالمومنین نے فرمایا: فو اللہ ما دفعت الحرب یوما الا و انا اطمع ان تلحق بی طائفۃ فتھتدی بی (5) یعنی جنگ میرا ہدف نہیں، ہدایت میرا نصب العین ہے۔ اگر میں جنگ کو ایک دن کے لئے بھی ٹالتا ہوں تو اس کی وجہ بس یہ ہوتی ہے کہ شاید کچھ لوگ حقانیت پر توجہ دیں اور صراط مستقیم کی سمت آ جائیں۔ جب ہم مایوس ہو جاتے ہیں اور محسوس کر لیتے ہیں کہ کوئی نہیں آئے گا تب تلوار کھینچتے اور وارد کارزار ہوتے ہیں۔
جنگ جمل میں بھی امیرالمومنین کے سامنے بڑی دشوار آزمائش و امتحان کی گھڑی تھی۔ آپ نے فرمایا: ان ھولاء قد تمالئوا علی سخطۃ امارتی یہ لوگ جمع ہوئے ہیں، متحد ہوئے ہیں اس لئے کہ اس حکومت کے تئیں اپنے غیظ و غضب کا اظہار کریں جو امیرالمومنین کو ملی ہے۔ و ساصبر فرماتے ہیں کہ میں صبر کروں گا۔ لیکن کب تک؟ ما لم اخف علی جماعتکم(6) اس وقت تک جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ ان کا یہ عمل آپ مسلمانوں کے درمیان شگاف ڈال رہا ہے، اختلاف پیدا کر رہا ہے، بھائیوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر رہا ہے، یہ دیکھ لینے کے بعد میں وارد میدان ہو جاؤں گا اور فتنہ کا علاج کروں گا۔ جب تک ممکن ہوگا صبر کروں گا اور نصیت کی روش اختیار کروں گا۔
امیرالمومنین کی سیاسی روش کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اپنے دشمنوں اور مخالفین سے مدلل اور منطقی گفتگو کرتے تھے۔ حتی اس خط میں بھی جو آپ نے معاویہ کو تحریر فرمایا، حالانکہ معاویہ آپ کا بہت بڑا دشمن تھا اور وہ اپنے خطوط میں آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا، غلط باتیں لکھتا تھا، آپ نے اس بات کو دلیلوں سے ثابت فرمایا کہ تیری روش غلط ہے۔ طلحہ اور زبیر جنہوں نے امیرالمومنین کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی، اس بہانے سے کہ عمرے کے لئے جا رہے ہیں، مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ پہنچ گئے۔ امیرالمومنین کی نظر ان پر تھی، آپ کو علم تھا کہ ان دونوں کا مقصد عمرہ کرنا نہیں ہے۔ یہ حضرات وہاں گئے اور بڑے کارنامے انجام دئے جن کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں: لقد نقمتما یسیرا و ارجاتما کثیرا (7) آپ لوگوں نے ایک معمولی سی چیز کو اختلاف کی وجہ بنا دیا، اتنی ساری مثبت باتوں کو نظرانداز کر دیا، آپ دشمنی کا دم بھرنے لگے، مخالفت کرنے لگے۔ امیرالمومنین نے ان سے نرمی سے بات کی، انہیں سمجھایا۔ فرماتے ہیں: میں دشمن بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ تو آپ اس طرح رواداری اور در گذر سے کام لیتے ہیں لیکن جب اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکتا تو پھر علی کی سختی شروع ہوتی ہے۔ خوارج جیسے افراد کے سلسلے میں آپ کی کیا روش ہے؟ آپ خود فرماتے ہیں: انا فقئت عین الفتنۃ (8) میں نے فتنے کی آنکھیں نکال لیں۔ نہج البلاغہ میں منقول آپ کے قول کے مطابق کوئی اور یہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی روش کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ فتح و کامیابی کے لئے کبھی بھی ظلم، دروغگوئی اور نا انصافی کا سہارا نہیں لیتے تھے۔ امیرالمومنین کی حکومت کے ابتدائی ایام میں کچھ لوگ آپ کی خدمت میں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مولا آپ معاشرے کے ان با اثر افراد کا ذرا خیال رکھئے، انہیں بیت المال سے ذرا زیادہ حصہ دے دیا کیجئے، انہیں ناراض نہ کیجئے، ان کو خوش رکھئے! آپ نے فرمایا: ا تامرونی ان اطلب النصر بالجور آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ظلم کے ذریعے میں اپنے لئے کامیابی کی راہ ہموار کروں؟ واللہ لا اطور بھ ما سمر سمیر و ما ام نجم فی السماء نجما (9) نا ممکن ہے کہ امیرالمومنین ظلم سے، غلط راستے سے غیر اسلامی طریقوں سے کچھ لوگوں کو اپنا دوست بنائیں۔
امیرالمومنین کے سیاسی مکتب فکر کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ لوگوں سے بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے کہ کوئی آپ سے خوشامدانہ لہجے میں بات نہ کرے، چاپلوسی نہ کرے، تصنع نہ کرے۔ امیرالمومنین کے ایک خطبے کے بیچ میں، جو واقعی آپ کے عجیب و غریب بلاغت والے خطبوں میں سے ایک ہے، ایک شخص کھڑا ہوکر امیرالمومنین کی تعریف شروع کر دیتا ہے، آپ کے بیان اور اعلی مفاہیم کی تعریف کرتا ہے۔ جب اس شخص کی بات پوری ہو گئی تو حضرت اس سے مخاطب ہوکر جتنی دیر اس نے گفتگو کی تھی اتنی ہی دیر اسے نصیحت فرماتے ہیں کہ مجھ سے اس قسم کی باتیں نہ کیا کیجئے۔ آپ کا یہ جملہ بہت مشہور بھی ہے: فلا تکلمونی بما تکلم بھ الجبابرۃ جس طرح کی باتیں آپ بادشاہوں اور جابروں سے کرتے ہیں مجھ سے نہ کیجئے۔ ولا تتحفظوا منی بما یتحفظ بھ عند اھل البادرۃ یہ جو خیال رکھا جاتا ہے کہ فلاں جابر بادشاہ کو کہیں یہ بات بری نہ لگ جائے، ناگوار نہ گزرے اسی خیال کی وجہ سے بہت سی باتیں بیان کرنے سے گریز کیا جاتا ہے میرے سلسلے میں اس طرح خیال نہ کیجئے۔ ولاتخالطونی بالمصانعۃ و لا تظنوا بی استثقالا فی حق قیل لی (10) آپ یہ نہ سوچئے کہ اگر آپ نے سچ بات کہہ دی تو علی کو وہ گراں گذر سکتی ہے، بری لگ سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ تو یہ بھی امیرالمومنین کی سیاسی روش کی ایک اور خصوصیت ہے۔
حضرت کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ مخالفین اور معترضین سے آپ کا برتاؤ یکساں نہیں ہے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے قائل نہیں ہیں۔ بعض افراد اور حلقوں کے سلسلے میں آپ کا برتاؤ کچھ ہے تو بعض دیگر افراد اور حلقوں کے سلسلے میں کچھ اور ہے۔ البتہ جہاں حقیقی عقیدے سے تہی اور دین کی ظاہری باتوں کو بنیاد بنانے کی کوشش کی گئی، جہاں انحطاط اور انحراف نظر آیا وہاں علی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ معاویہ کے سامنے بھی ڈٹ گئے۔ جس وقت نیزوں پر قرآن بلند کیا گيا امیرالمومنین نے فرمایا: خدا کی قسم یہ دھوکہ ہے، خداع ہے، فریب ہے، ان لوگوں کا قرآن پر ایمان و ایقان نہیں ہے۔ اسی طرح جب خوارج دین کی ظاہری شکل کے ساتھ اور تلاوت کلام پاک کی غمناک آواز کے ساتھ حضرت کے مد مقابل کھڑے ہو گئے تو حضرت نے ان کا بھی مقابلہ کیا۔ یعنی جب کچ عناصر محض دین کی ظاہری شکل کی بنیاد پر آگے بڑھنے لگے تو امیرالمومنین نے ان کا مقابلہ کیا۔ خواہ وہ معاویہ ہو یا خوارج اس سلسلے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا لیکن پھر بھی دونوں کے ساتھ امیرالمومنین کا موقف یکساں نہیں تھا۔ آپ پامردی سے ضرور اٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن امیرالمومنین کی نصیحتیں پھر بھی جاری تھیں۔ آپ نے فرمایا: لا تقاتلوا الخوارج بعدی میرے بعد خوارج سے جنگ نہ کی جائے۔ خوارج کے خلاف لشکر کشی نہ کی جائے۔ فلیس من طلب الحق فاخطئھ کمن طلب الباطل فادرکھ (11) جو شخص حق کی جستجو میں ہو لیکن اسے سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے، اسے تلاش حق کی ہی ہے لیکن جہالت کی بنا پر، جماعتی تعصب کی بنا پر اس سے غلطی ہو جائے وہ اس شخص کی مانند نہیں ہے جو باطل کی ہی جستجو میں ہے اور اسے باطل کا راستہ مل گیا ہے۔ یہ دونوں یکساں نہیں ہو سکتے۔ یہ امیرالمومنین کا سیاسی طرز عمل ہے۔ جب ہم غور کرتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ آپ کا یہ سیاسی طرز عمل آپ کے معنوی و روحانی طرز عمل سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ہر جگہ ہمیں وہی ارفع و اعلی علی ابن ابی طالب نظر آتے ہیں جن کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔
آج کا دن امیر المومنین کی عزاداری کا دن ہے۔ میں آپ کے سلسلے میں مصائب کے چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ کل جو رات گزری ایسی ہی ایک شب میں امیرالمومنین علیہ السلام نے دار فانی کو وداع کہا۔ انیسویں (رمضان) کی صبح کو ضربت لگنے سے اکیسویں (رمضان) کی شب تک جب آپ کی شہادت واقع ہوئی، کئی سبق آموز واقعات رونما ہوئے۔ ایک واقعہ تو اسی ابتدائی لمحے میں رونما ہو۔ جب اس دشمن خدا نے امیرالمومنین کو ضربت لگائی تو روایت میں ہے کہ حضرت نے کوئی آہ و زاری نہیں کی، کسی درد اور تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ آپ کی زبان مبارک پر صرف یہ کلمات تھے: بسم اللہ و باللہ و فی سبیل اللہ، فزت و رب الکعبۃ (12) کعبے کے پروردگار کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ اتنے میں امام حسن علیہ السلام پہنچے اور آپ نے اپنے والد کا سر اپنی گود میں رکھا۔ روایت کہتی ہے کہ آپ کے سر مبارک سے خون جاری تھا جس سے آپ کی ریش مبارک سرخ ہو گئی تھی۔ امام حسن علیہ السلام بابا کے چہرے کو ایک ٹک دیکھے جا رہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔ آنسو ٹپک کر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے چہرے پر گرے تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا: بیٹا حسن! تم رو رہے ہو؟ گریہ نہ کرو۔ میں اس وقت ایسے لوگوں کے درمیان ہوں جو مجھ پر سلام و درود بھیج رہے ہیں۔ اس لمحے میں کون سی ہستیاں وہاں تھیں؟ حضرت کے بقول: پیغمبر اسلام وہاں تھے۔ فاطمہ زہرا وہاں تھیں۔
حضرت امیر المومنین کو سہارا دیا گيا اور حضرت امام حسن علیہ السلام نے نماز پڑھائی، امیرالمومنین نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت کا یہ عالم تھا کہ بار بار گرنے لگتے تھے لیکن خود کو سنبھال لیتے تھے۔ آپ کو گھر پہنچایا گيا۔ لوگوں نے «تهدّمت واللَّه اركان الهدى ... قتل علىّ المرتضى»(13) کی صدا سنی یہ آواز تمام اہل کوفہ کے کانوں تک پہنچی، سب مسجد کی سمت دوڑے، ایک کہرام برپا ہو گیا۔ راوی کہتا ہے کہ وفات پیغمبر کے دن کی مانند کوفے میں آہ و بکا کا شور تھا۔ اتنا بڑا شہر کوفہ غم و اندوہ کی تصویر بن گيا۔ حضرت کو لایا جا رہا ہے، اتنے میں امام حسین علیہ السلام نزدیک آئے۔ اس روایت میں ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں حضرت نے اس قدر گریہ فرمایا کہ پلکیں مجروح ہو گئی۔ امیر المومنین کی نظر امام حسین پر پڑی۔ فرمایا: بیٹا حسین گریہ نہ کرو، صبر سے کام لو، یہ حادثات گزر جانے والے ہیں۔ امام حسین کو دلاسہ دیا۔
حضرت کو گھر میں لایا گيا اور اس جگہ لے جایا گیا جہاں آپ نماز پڑھتے تھے۔ آپ نے خود فرمایا کہ مجھے وہاں پر پہنچا دو۔ اسی جگہ آپ کا بستر بچھایا گیا اور حضرت کو لٹا دیا گيا۔ اس کے بعد امیرالمومنین کی بیٹیاں قریب آ گئیں۔ زینب و ام کلثوم آ گئیں۔ بابا کے پاس پچھاڑیں کھانے لگیں۔ جب امام حسن علیہ السلام رونے لگے تھے تو امیرالمومنین نے انہیں دلاسہ دیا، جب حضرت امام حسین کا بند صبر ٹوٹا تب بھی آپ نے تسلی دی۔ فرمایا کہ صبر کرو۔ لیکن بیٹیوں کو روتا دیکھا تو آپ خود بھی ضبط نہ کر سکے۔ مولا بھی آواز سے رونے لگے۔ اے امیرالمومنین آپ اس موقع پر زینب کا گریہ برداشت نہ کر سکے! اگر آپ روز عاشور زینب کی آہ و بکا سنتے تو کیا کرتے؟
ابو حمزہ ثمالی نے حبیب ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ اکیسویں رمضان کی شب کی آخری گھڑیوں میں میں امیرالمومنین کو دیکھنے گیا۔ میں نے دیکھا آپ کی ایک دختر گرامی بھی وہاں تشریف فرما ہیں اور روئے جا رہی ہیں، میں بھی رونے لگا۔ کمرے کے باہر لوگ کھڑے تھے وہ بھی (حضرت کی) بیٹی کی صدائے گریہ سن کر رونے لگے۔ اتنے میں امیر المومنین نے آنکھیں کھولیں، فرمایا: جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اگر وہی آپ لوگ بھی دیکھ لیتے تو آپ لوگ بھی گریہ نہ کرتے۔ میں نے سوال کیا کہ یا امیرالمومنین آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا: میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں، آسمان کے فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں، تمام انبیا و مرسلین کو دیکھ رہا ہوں جو صف باندھے کھڑے ہیں اور مجھے سلام کر رہے ہیں اور خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ میں پیغمبر اسلام کو دیکھ رہا ہوں جو میرے پاس تشریف فرما ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ علی! آ جاؤ، جلد آ جاؤ۔ حبیب ابن عمر کہتے ہیں کہ میں اور رونے لگا۔ اس کے بعد اٹھ کر گھر سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک صدائے گریہ بلند ہوئی اور مجھے احساس ہو گیا کہ مولا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين، صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين، صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين. نسئلك اللّهمّ و ندعوك باسمك العظيم الاعظم الأعزّ الأجلّ الأكرم يا اللَّه...

پالنے والے! بحق امیرالمومنین ہمیں حضرت کے حقیقی شیعوں میں قرار دے۔ پروردگارا! ہمارے دنیوی اور اخروی اعمال کو امیرالمومنین کے طرز عمل کے مطابق ڈھال دے۔ پالنے والے! ہمیں حضرت کے حقیقی پیروکاروں میں قرار دے۔ پروردگارا ! عالم اسلام کی مشکلات کو دور فرما۔ فلسطین، عراق، لبنان، افغانستان، پاکستان اور دیگر اسلامی علاقوں کی مسلم اقوام کی مشکلات کو برطرف فرما۔ پروردگارا! اپنے فضل و کرم سے ملت ایران کے مسائل کو حل فرما۔ پالنے والے اس قوم کی عزت و قدرت میں روز افزوں اضافہ فرما۔ پالنے والے اتحاد کو جو ملت ایران کا بہت بڑا سرمایہ ہے محفوظ رکھ۔ پالنے والے تفرقہ انگیز ہاتھوں کو منقطع کر دے۔ پالنے والے ہم جس منزلت و مرتبے پر ہیں وہاں ہمیں حق کا پابند رہنے کی توفیق دے۔ ہمیں ایک دوسرے کے سلسلے میں ظلم، جارحیت و تجاوز سے محفوظ رکھ۔

 بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.(14)

 

خطبه‏‌ى دوم‏
بسم‏اللَّه‌‏الرّحمن‏الرّحيم‏
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الاطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و فاطمة الزّهراء سيّدة نساء العالمين و الحسن و الحسين سيّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏بن‏الحسين زين‏العابدين و محمّدبن‏علىّ الباقر و جعفربن‏محمّد الصّادق و موسى‏بن‏جعفر الكاظم و علىّ‏بن‏موسى‏الرّضا و محمّدبن‏علىّ الجواد و علىّ‏بن‏محمّد الهادىّ و الحسن‏بن‏علىّ الزّكىّ العسكرىّ و الحجّة القائم المهدىّ‏.
اللّهمّ صلّ عليهم و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين.‏

اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه‏

اس خطبے میں بھی دوبارہ خود کو اور آپ تمام بھائی بہنوں کو تقوائے الہی کی دعوت دیتا ہوں۔ ہم اپنی رفتار و گفتار اور اپنے اعمال و کردار میں تقوا و پرہیزگاری کو ملحوظ رکھیں۔
دوسرے خطبے میں سب سے پہلے آيت اللہ طالقانی مرحوم اور اسی طرح آيت اللہ مدنی شہید رضوان اللہ علیھما کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ ایام ان دونوں بزرگوں سے وابستہ ہیں اور یہ دونوں ان شخصیتوں میں ہیں جن کی یادیں ملک کی نماز جمعہ کی امامت کی تاریخ سے کبھی جدا نہیں ہو سکتیں۔ حق تو یہ ہے کہ ان دونوں ہستیوں کے نا قابل فراموش حق ہیں اور ان کی ناقابل فراموش یادیں کبھی بھی ہماری تاریخ اور ہمارے ذہنوں سے الگ نہیں ہوں گی۔
اس خطبے میں جو باتیں کرنا ہیں وہ پیش تو آپ عزیز نمازیوں کے سامنے کی جا رہی ہیں لیکن مخاطب ہیں سیاسی حلقے، سیاسی شخصیات اور گزشتہ و آئندہ سیاسی عہدہ داران، وہ باتیں یہ ہیں کہ ماہ مبارک رمضان میں دستیاب موقع سے بھرپور استفادہ کریں۔ کچھ حقائق اور نصیحتیں پیش کروں گا۔ انشاء اللہ یہ باتیں مخاطب حضرات کے لئے بھی، خود ہمارے لئے بھی، عزیز نوجوانوں کے لئے بھی اور با ایمان عوام کے لئے بھی مفید واقع ہوں گی۔
ان افراد سے خطاب ہے جن کی شناخت اب تک اسلامی نظام کے تناظر میں رہی ہے، یہ نظام کے اندر کی شخصیتیں ہیں، نظام کا حصہ ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی نظام کے اندر ہی رہیں گی اور اس نظام کے لئے کد و کاوش اور سعی و کوشش میں مصروف رہیں گی۔ یہ نظام کے اندر اور باہر رہنے کی بات صرف کھوکھلا تشہیراتی نعرہ نہیں ہے، یہ محض سائن بورڈ نہیں ہے بلکہ خاص معیاروں اور عقیدے کی بنیادوں اور علمی اصولوں کے مطابق طے پانے والی چیز ہے۔ اب تک تو ایسا ہی رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انقلاب کے آغاز سے اب تک عوام کی بنیادی تحریک تقسیم کا بھی شکار ہوئی، ٹکراؤ بھی ہوئے۔ ان میں کچھ ٹکراؤ اور تقسیم سے نقصان بھی پہنچا ہے اور بعض سے نہیں بھی پہنچا۔ عوام کی اگاہی و ہوشیاری اور ان مراحل سے نمٹنے والے عناصر کی فرض شناسی کے نتیجے میں مسائل حل ہو گئے۔ اس سے انقلاب اور ملک پر کوئی بڑا بوجھ نہیں پڑا۔ یہ جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں سب یکساں نہیں ہوتے۔ بعض اختلافات بنیادی اصولوں اور عقائد میں اختلاف رائے کا نتیجہ ہوتے ہیں، بعض اختلافات میں عقائد وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، صرف مفادات کی بات ہوتی ہے، سارا جھگڑا مفادات کا ہوتا ہے۔ بعض اختلافات میں یہ دونوں ہی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اصولوں پر عملدرآمد کے طریقوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے، اصولوں کے دائرے کے اندر روش کا اختلاف ہوتا ہے، تو یہ سب یکساں نہیں ہیں۔
آغاز انقلاب سے ہی ان گروہوں کے درمیان جو انقلاب سے قبل اور حوادث کے برسوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے، کچھ اختلافات پیدا ہو گئے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے سارے اختلافات کے سلسلے میں یکساں موقف نہیں اختیار کیا۔ جیسا کہ ہم نے امیر المومنین علیہ السلام کی روش کے بارے میں بتایا اسی طرح امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روش بھی یکساں نہیں تھی۔ یعنی پہلے نصیحت اور سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتے تھے لیکن جب ضروری ہو جاتا تو ٹکراؤ کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے۔ بعض افراد تھے جو عبوری حکومت سے متعلق تھے، ان کی اپنی مشکلات تھیں، ایک گروہ ایسا تھا جس نے قصاص اور انتقام بل کے خلاف مہم چلائی، ایک گروہ نے قتل و غارت اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان تمام گروہوں کے ساتھ امام (خمینی رہ) کا برتاؤ یکساں نہیں تھا۔ حکومت کی اعلی سطح پر بھی یہ سلسلہ تھا۔ وزیر اعظم بھی تھے، صدر بھی تھے اور امام (خمینی رہ) کی عمر مبارک کے آخری ایام میں تو صدر سے بھی بلند رتبہ عہدہ دار تھا، امام (خمینی رہ) نے ان لوگوں سے جن کے بارے میں محسوس کر لیا کہ ان کے ساتھ مزید نرمی نہیں برتی جا سکتی، سختی کا برتاؤ کیا۔ حالانکہ یہ سب کے سب انقلابی ماضی کے حامل تھے، سب دیندار تھے، ان میں بہت سے افراد اعلی رتبہ حکام تھے، لیکن بہرحال یہ چیز رونما ہو گئی تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ یہ اختلافات پیدا ہوئے۔ بعض افراد تو واقعی امام سے بھڑ گئے جبکہ بعض افراد تھے جنہوں نے ایسا نہیں کیا، اختلاف نظر تھا لیکن ٹکراؤ اور تنازعے کی صورت پیدا نہیں ہونے پائی، انتشار کی نوبت نہیں آئی۔ بعض لوگ امام (خمینی رہ) سے ٹکرا گئے اور آپ کی نرمی کا غلط فائدہ اٹھایا۔ امام (خمینی رہ) نے اسی منافقین کے گروہ کو جس نے آپ سے ملاقات کا مطالبہ رکھا تھا، پیغام بھجوایا کہ اگر آپ حق پر عمل پیرا رہیں تو میں خود آکر آپ سے ملوں گا، اگر آپ غلط کام ترک کر دیں تو میں خود آپ کے پاس آؤں گا۔ یعنی امام (خمینی رہ) نے اس حد تک ان سے نرمی برتی اور بات کی۔ لیکن جب خطرہ محسوس ہونے لگا، بالخصوص اس وقت جب انقلاب اور نظام کے پیکر میں غلط اصولوں کو داخل کر دینے کی بات آ گئی تو ظاہر ہے کہ یہ مہلک زہر تھا۔ اس مرحلے پر پہنچ جانے کے بعد امام (خمینی رہ) نے کوئی نرمی نہیں دکھائی، آپ نے مقابلہ کیا۔ یہ بات ان اختلافات سے متعلق ہے جو اصولوں اور عقیدوں کا اختلاف ہے۔
بعض افراد مفادات کے اختلاف کو بھی عقیدے اور اصولوں کے اختلاف کا رنگ دے دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اختلاف ہو یعنی اصولوں اور عقیدے کا اختلاف ہو یا مفادات کا تنازعہ، جب نظام اور انقلاب سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوئی تو پھر دشمنی کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔
البتہ اگر کوئی الگ عقیدے کا حامل ہے تاہم نظام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے تو نظام کو بھی اس سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ بعض لوگ نے دگر اندیشان کی اصطلاح رائج کر دی ہے تو دگر اندیشان یا الگ طر‌ز فکر رکھنے والوں سے نظام کا کیا برتاؤ ہے؟ ان پر نظام کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ ایسے کتنے سارے افراد موجود ہیں؟! الگ سیاسی فکر، الگ دینی فکر سے بڑھ کر تو نہیں ہے اور ہمارے ہاں قومی اقلیتیں ہیں جو مختلف طر‌ز فکر کی حامل ہیں لیکن پارلیمنٹ مجلس شورا‏ئے اسلامی میں ان کی نشست ہے۔ دوسرے عہدوں پر بھی وہ موجود ہیں۔ بنابریں الگ طرز فکر کی بحث نہیں ہے، معاملہ ہے مخالفت کا، معاملہ ہے ٹکراؤ کا، معاملہ ہے ضرب لگانے کا، نظام اور انقلاب کے خلاف شمشیر بکف ہو جانے کا۔ نظام کی جانب سے کاروائی اسی صورت حال میں ہوتی ہے۔ اگر اختلاف محض طرز فکر کا اختلاف ہے، روش کا اختلاف ہے تو یہ ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بھی ہے۔
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ملک کے عہدہ داروں اور ملکی امور کے ذمہ داروں پر تنقیدیں کرنے والے موجود ہوں جو ان کی کمیاں اور خامیاں ان کے گوش گذار کریں۔ جب انسان کسی مقابلے میں شریک ہوتا ہے، ناقد کے سامنے ہوتا ہے تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ناقدین اور نکتہ چینی کرنے والے اور موجودہ روش سے اتفاق رائے نہ رکھنے والے افراد کی موجودگی نظام کے لئے ضرر رساں ہے۔ ہاں یہ (تنقید) نظام کے دائرے میں رہ کر کی جانی چاہئے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ مخالفت ضرر رساں نہیں ہے۔ (اسلامی) نظام کی جانب سے اس مخالفت کو دبایا نہیں جائے گا۔ البتہ یہ بھی ہے کہ نکتہ چینی اصولی ہو۔ انقلاب کے بنیادی اصول واضح ہیں۔ انقلاب کے اصولوں میں ذاتی دلچسپی اور میلان کو دخل نہیں ہے کہ کوئی کسی گوشے سے اٹھے اور اصولوں کا دم بھرنے لگے لیکن جب آپ نزدیک سے جاکر ملاحظہ کیجئے تو معلوم ہو کہ یہ تو انقلاب سے نابلد ہے۔ انقلاب کے اصول ہیں اسلام، آئین، امام (خمینی رہ) کی ہدایات۔ امام (خمینی رہ) کا وصیت نامہ (اسلامی) نظام کی بنیادی پالیسی ہے۔ آئین میں بھی واضح کر دیا گيا ہے کہ ان بنیادی پالیسیوں کی تدوین کی جانی چاہئے۔ اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے اختلاف نظر اور اختلاف روش اور اختلاف ذوق اور میلان کی بات ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ اچھی بات ہے، اس میں کوئی ضرر نہیں بلکہ نفع و فائدہ ہے۔ یہ رہی ایک بات کہ اس طرح کے اختلافات کا (اسلامی) نظام کی جانب سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ اگر لوگ اصولوں کے دائرے میں کام کر رہے ہیں، تشدد کا راستہ نہیں اختیار کر رہے ہیں، معاشرے میں امن و سلامتی کے لئے مشکلات کھڑی نہیں کر رہے ہیں، معاشرے کا چین و سکون نہیں چھین رہے ہیں تو نظام کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کچھ مخالفین ایسے ہیں جن کے اپنے مخصوص نظریات ہیں۔ وہ اپنے نظریات بیان بھی کرتے ہیں لیکن نظام ان کے خلاف کاروائی نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں نظام کی پالیسی حد اکثر کو ساتھ لیکر چلنے اور کم سے کم افراد کو خود سے دور کرنے کی ہے۔ یہ نظام کی روش ہے، اس پر سب توجہ دیں۔ جو افراد سرکاری نظریات کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں اس تناظر میں اپنا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ نظام کی بنیادوں سے ہی ٹکرانے کی کوشش کریں گے، عوام کا چین و سکون چھین لیں گے تو نظام ان پر بندش لگانے پر مجبور ہے۔
اگر کچھ لوگوں کی توہین ہو جاتی ہے، تہمت لگا دی جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ انہیں اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ نطام بھی اسی طرح ہے، اسلامی نظام کو بھی اپنے دفاع کا حق ہے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ نظام چونکہ سیاسی طاقت کا نام ہے اس لئے وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا، اسے خاموش رہنا ہے۔ اس کی کیسی بھی مخالفت کی جائے، قانون شکنی ہو، اس کے خلاف کاروائی ہو، حدیں ختم کر دی جائیں لیکن نظام اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہ کرے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ دنیا کی جماعتوں کے درمیان گوناگوں اختلافات پائے جاتے ہیں، خود انہی ممالک میں جو اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار سمجھتے ہیں، حزب اختلاف کی جماعتیں ملک کے نظام کے اصولوں اور بنیادوں کی مخالفت نہیں کرتیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو عوام کی جانب سے مسترد کر دی جائیں۔ مخصوص ادارے ہیں، آئین کی پاسبانی کرنے والے ادارے، آئینی عدالت، جیسا کہ ہمارے ہاں شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ہے۔ یہ ادارے انہیں مسترد کر دیں گے۔ یہ کوئی بھی برداشت نہیں کرتا کہ ایک اچھے خاصے نظام میں کوئی شخص اٹھے اور نظام کے اصولوں اور بنیادوں پر حملہ آور ہو جائے اور نظام اس پر خاموش بیٹھا رہے۔ خود یورپی ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے کہ بڑا سخت اقدام کیا جاتا ہے، حتی ان چیزوں کے بارے میں بھی جو بنیادی اصولوں میں شامل نہیں ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ نظام سے ٹکراؤ، نظام کے اصولوں کی مخالفت اور نظام کے خلاف اعلان جنگ کا سخت جواب دیا جاتا ہے۔ جہاں تک سوال ہے مخالف نظریہ رکھنے، الگ فکر رکھنے کا تو اگر یہ خرابیاں ساتھ نہیں ہیں، تہمت، پروپیگنڈہ اور جھوٹ وغیرہ نہیں ہے تو نظام اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔ نظام کی یہ روش کل تھی نہ آج ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی نہیں رہے گی۔ یہ رہا ایک اور نکتہ۔
ایک اہم نکتہ اور ہے جس پر سیاستدانوں، حکام، با اثر افراد، اعلی عہدہ داروں اور عمائدین کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے ذاتی انحراف اور بد عنوانی سے دوچار ہونے کا معاملہ۔ ہم سب کو بہت محتاط رہنا چاہئے۔ انسان کے لئے انحراف اور بد عنوانی میں پڑنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ کبھی کبھی چھوٹی لغزشیں انسان کو بڑی اور بہت بڑی لغزشوں تک اور کبھی عمیق کھائیوں کی گہرائی میں پہنچا دیتی ہیں۔ بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ قرآن نے متنبہ کیا ہے۔ قر‏آن میں مختلف مقامات پر یہ انتباہ موجود ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:«ثمّ كان عاقبة الّذين اساؤا السّوأى ان كذّبوا بأيات اللَّه»؛(15) بعض کاموں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان آیات الہی کی تردید کے بد ترین مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: «فأعقبهم نفاقا فى قلوبهم الى يوم يلقونه بما اخلفوا اللَّه ما وعدوه»؛(16) اللہ تعالی سے وعدہ خلافی کے نتیجے میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گيا۔ یعنی انسان کوئی گناہ کرتا ہے جو اسے وادی نفاق میں کھینچ لے جاتا ہے، نفاق کفر باطنی ہے۔ قرآن میں اسی جگہ کافرین اور منافقین کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے۔ ایک اور آيت میں ارشاد ہوتا ہے: «انّ الّذين تولّوا منكم يوم التقى الجمعان انّما استزلّهم الشّيطان ببعض ما كسبوا».(17) یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض لوگ دشمن کے مقابلے میں شکست کھا جاتے ہیں، ٹک نہیں پاتے، استقامت کا مظاہرہ نہیں کر پاتے اس چیز کا نتیجہ ہے جو پہلے ان سے سرزد ہو چکی ہے۔ انہوں نے گناہوں اور خطاؤں سے اپنا باطن خراب کر لیا ہے۔ لغزشیں انسان کو خراب کرکے رکھ دیتی ہیں۔ یہ خرابی کبھی عمل میں انحراف تو کبھی کبھی عقیدے میں انحراف پر منتج ہوتی ہے۔ یہ عمل رفتہ رفتہ انجام پاتا ہے، یکبارگی نہیں ہوتا کہ کوئی سوچے کہ ایک انسان رات کو مومن سویا اور صبح اٹھا تو منافق بن چکا تھا۔ ایسا نہیں ہے، یہ چیز بہت دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہے۔ اس سے بچنے کا راستہ ہے احتیاط۔ اپنے بارے میں احتیاط کو ہی تقوا کہتے ہیں۔ تو اس کا علاج تقوا ہے۔ ہمیں اپنے بارے میں محتاط رہنا چاہئے۔ لوگ اپنے قریبی افراد کا خیال رکھیں۔ بیویاں اپنے شوہروں پر، شوہر اپنی بیویوں پر اور دوست احباب ایک دوسرے پر توجہ رکھیں۔ «و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر»(18) خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے پر توجہ رکھیں۔ عوام حکام کو وعظ و نصیحت کریں، ان کے خیر خواہ رہیں، انہیں لکھ کر، زبان سے کہہ کر اور پیغام دیکر متنبہ کرتے رہیں کہ ان سے لغزش نہ ہونے پائے۔ حکام کی لغزش، نظام کے لئے بھی، ملک کے لئے بھی اور عوام کے لئے بھی بہت زیادہ خطرناک ہے۔ انسان کبھی کبھی کچھ باتوں میں، کچھ اقدامات میں اس چیز کو محسوس کر لیتا ہے، اس انحراف اور لغزش کی علامتیں دیکھ لیتاہے، ایسے میں اسے اللہ کی پناہ کی دعا کرنا چاہئے، اللہ تعالی سے مدد طلب کرنا چاہئے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ یہی چیزیں جو کسی شخص کو پیش آ سکتی ہیں یعنی بد عنوانی اور انحراف۔ یہی چیزیں نظام کے لئے بھی پیش آ سکتی ہیں۔ افراد کو لاحق ہو جانے والی یہی بیماریاں ممکن ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کو بھی لاحق ہو جائیں اور نام اسلامی جمہوریہ رہے، ظاہر اسلامی ہو، صورت اسلامی ہو لیکن کارکردگی، باطن اور منصوبے غیر اسلامی ہوں بالکل وہی چیز جو میں نے گزشتہ سال طلبہ سے ملاقات میں انقلاب کی صورت اور سیرت کے بارے میں بیان کی۔
معاشرے اور نظام کی حرکت دو شکلوں میں انجام پاتی ہے، مثبت اور منفی۔ ایک حرکت عروج اور اوج کی سمت ہوتی ہے اور ایک حرکت تنزلی اور سقوط کی جانب ہوتی ہے۔ اوج کی سمت حرکت یہ ہے کہ معاشرہ انصاف پسندی کی منزل سے نزدیک ہو۔ دین، دینی طرز عمل اور دینی اخلاقیات سے نزدیک ہو، آزاد فضا میں پروان چڑھے۔ علمی، عملی اور صنعتی ترقی کرے، معاشرے میں حق و صبر کی سفارش کا سلسلہ جاری رہے، معاشرہ روز بروز خدا کے دشمنوں، دین کے دشمنوں، ملک کی خود مختاری کے دشمنوں کے سامنے زیادہ مضبوطی کا احساس کرے، زیادہ توانائی کے ساتھ شجاعانہ اسقامت کا ثبوت دے۔ عالمی سطح کے ظلم و جور اور فساد و بد عنوانی کے محاذے کے سامنے زیادہ پامردی کا مظاہرہ کرے۔ اسی کو پروان چڑھنا کہتے ہیں، یہ معاشرے کی مثبت حرکت کی علامتیں ہیں۔ یہ چیزیں سماج کی دنیا و آخرت سنوار دیتی ہیں۔ ہمیں ایسی ہی مثبت حرکت کی فکر میں رہنا چاہئے۔ اس کے بر خلاف تنزلی کی سمت بھی حرکت ہوتی ہے۔ عدل و انصاف کی سمت حرکت کے بجائے مختلف بہانوں سے وسیع اقتصادی و سماجی خلیج اور شگاف کی سمت حرکت، آزاد فضا میں علمی، عملی اور اخلاقی ترقی و سربلندی کی سمت حرکت کے بجائے، لا ابالی پن اور آزادی کو بد عنوانی، فحاشی، گناہوں اور برے کاموں کی ترویج کے لئے استعمال کرنا۔ عالمی جارح طاقتوں، سامراجی عناصر اور لٹیروں کے خلاف استقامت و مزاحمت کے مظاہرے کے بجائے، طاقت و توانائی کے مظاہرے کے بجائے دب جانا، پسپا ہو جانا، خود کو کمزور تصور کرنا، جہاں انہیں غصہ دکھانے کی ضرورت ہے وہاں مسکرا دینا، جہاں اپنے حقوق کے لئے ڈٹ جانے کی ضرورت ہے وہاں حقوق کو نظر انداز کر دینا خواہ وہ ایٹمی حقوق کا معاملہ ہو یا دیگر حقوق کا، یہ سب انحطاط اور تنزلی کی علامتیں ہیں۔ معاشرے کی حرکت بلندی اور اعلی اقدار کی سمت اور اوج و کمال کی سمت ہونا چاہئے، اسے مثبت حرکت کہتے ہیں۔ تنزلی کی سمت حرکت وہی بیماریاں ہیں جو ممکن ہیں کہ اسلامی نظام کو بھی لاحق ہو جائیں، اسلامی جمہوری نظام کے لئے یہ خطرہ موجود ہے، عوام اس کی جانب سے ہوشیار رہیں۔ اسلامی جمہوریہ اسی صورت میں حقیقی اسلامی جمہوریہ ہے جب وہ امام (خمینی رہ) کے مستحکم بنیادی اصولوں اور انہیں چیزوں کے ساتھ جو امام (خمینی رہ) کی حیات مبارکہ میں نمایاں تھیں اور جن پر خاص توجہ دی جاتی تھی، انہیں نعروں کے ساتھ آگے بڑھے۔ میں پوری آگاہی کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں میں نے ان تیس برسوں میں حالات کو نزدیک سے دیکھا ہے، جہاں بھی ہم ان نعروں کے ساتھ آگے بڑھے ہیں کامیابی نے ہمارے قدم چومے ہیں، ہمیں کامیابی ملی ہے، ہمیں وقار حاصل ہوا ہے اور دنیوی منفعت و مفادات بھی ہمیں حاصل ہوئے ہیں اور جہاں بھی ہم نے ان نعروں سے کنارہ کشی کی اور ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا وہیں دشمن میدان مار لے گیا، ہم کمزور ہو گئے، ہمیں پسپا ہونا پڑا، ہمارا وقار مجروح ہوا، دشمن زیادہ گستاخ ہوکر ہمارے سامنے آیا ہے اور ساتھ ہی ہمیں مادی لحاظ سے بھی نقصان ہوا ہے۔ یہ تصور سراسر غلط ہے کہ ملک کی مشکلات و مسائل کو چاہے وہ اقتصادی مسائل ہوں، سماجی مسائل ہوں یا سیاسی مشکلات، اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ سامراجی مزاج رکھنے والے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جائیں۔ سامراجی طاقتیں تو یہی چاہتی ہیں۔
انتخابات کے بعد کے جو بلوے اور بد امنی آپ نے دیکھی کہ جسے با قاعدہ ہوا دی گئی اور جس کی حمایت ہوئی، اس سب کے پیچھے مقصد یہی تھی کہ انقلاب کو حاصل عوامی حمایت اور انقلاب کی مقبولیت کو مجروح کیا جائے، نقصان پہنچایا جائے۔ انقلاب کو اس سے محروم کر دیا جائے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس نظام پر عوام کے اعتماد کی علامت، انتخابات میں چالیس ملین افراد کی شرکت تھی۔ غیر ملکی نشریات اور داخلی سطح پر بھی وہی زبان ہولنے والے بعض عناصر کا بار بار کہنا تھا کہ نظام سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے! یہ (عظیم شرکت) ان کی باتوں کا جواب تھا۔ ہم نے اس موقع پر کہا تھا کہ پچاسی فیصدی رائے دہندگان کا آکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا خواہ انہوں نے کسی کو بھی ووٹ دیا ہو، پولنگ مراکز تک آنا ہی نظام پر عوام کے اعتماد کی علامت و ثبوت ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کو جھٹلانے کے لئے بار بار یہی شور مچایا کہ عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے اب کیا کیا جائے؟ بعض نے ہمدردی اور دلسوزی کے لباس میں یہ بات کہی کہ کیا کیا جائے جو عوامی اعتماد بحال ہو؟! جبکہ عوام کو نظام پر پورا اعتماد ہے اور نظام بھی عوام پر اعتماد کرتا ہے۔ انشاء اللہ آئندہ آنے والے انتخابات میں، وہ دو سال بعد ہوں یا تین سال بعد، آپ دیکھیں گے کہ یہی عوام دشمنوں، مخالفوں، غافلوں اور ناواقفوں کی ان تمام چالبازیوں کے باوجود انتخابات میں بھرپور شرکت کریں گے۔
تو سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم سب کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی جمہوری نظام جو اسلامی نظام ہے، دینی نظام ہے، جس کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اسلامی اور قرآنی اصولوں کے پیرائے میں حرکت کرتا ہے، کبھی بھی تبدیل نہ ہونے پائے۔ ایسے نظام میں تبدیل نہ ہو جائے جس کا دین پر کوئی عقیدہ نہ ہو، بعض حضرات کے بقول سیکولر(دین مخالف) نظام اور ایسا نظام نہ بن جائے جس کا باطن سیکولر (دین مخالف) اور ظاہر دینی ہو، جس کا باطن مغربی ثقافت میں غرق اور اس ثقافت کی علمبردار طاقتوں کا پیرو اور ظاہر معمولی دینی امور اور مسائل پر مبنی ہو۔ ایسا نہ ہونے پائے۔ اسلامی نظام حقیقی معنی میں اسلامی ہونا چاہئے اور اسے روز بروز اسلامی اصولوں سے زیادہ نزدیک اور ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ یہی چیز مشکلات کا حل ہے، یہی چیز مشکل کشائی کرے گی، اسی سے معاشرے کو عزت و وقار ملے گا، یہی چیز دنیا بھر میں اسلامی جمہوری نظام کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔ کچھ لوگ ہیں جو دشمنیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ جب اسلامی جمہوری نطام کے خلاف غصے سے بھنچے ہوئے چہروں کو دیکھتے ہیں تو ہمت ہار جاتے ہیں۔ دنیا کے تمام نظاموں اور حکومتوں کے کچھ دوست ہوتے ہیں اور کچھ دشمن۔ آج بھی یہی صورت حال ہے اور تاریخ میں بھی یہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ آپ کو کوئی حکومت نہیں ملے گی جس کے اندر اور باہر سارے لوگ دشمن یا سب کے سب دوست ہوں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ موافق ہوتے ہیں اور کچھ مخالف۔ پیغمبر اسلام کی حکومت بھی ایسی ہی تھی اور حضرت امیرالمومنین کی حکومت میں بھی یہی تھا، یزید اور معاویہ کی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔ کچھ لوگ حامی ہیں اور کچھ مخالف ہیں۔ البتہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی حکومت کے حامی کون لوگ ہیں اور اس حکومت کی مخالفت کون سے افراد کر رہے ہیں۔ یہ ایک معیار ہے۔ ایک حکومت ایسی ہے جس کی تمام عالمی لٹیرے مخالفت کرتے ہیں، جتنی عالمی استبدادی طاقتیں ہیں اس کی دشمن ہیں، ہر وہ حکومت جس کا سیاہ سامراجی ماضی ہے اس حکومت کی مخالف ہے تو ان مخالفتوں پر فخر کرنا چاہئے، اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے، (سوال یہ ہے کہ) اس کے حامی و دوست کون سے لوگ ہیں؟ دنیا بھر کی باایمان قومیں اس کی طرفدار اور دوست ہیں، افریقا میں، شمالی افریقا کے ممالک میں، افریقا کے مسلمان نشین علاقوں میں، ایشیا میں، انڈونیشیا میں، ملیشیا میں، عرب اور غیر عرب ممالک میں غیر ایرانی مسلمان قومیں، مسلمان جماعتیں، مسلمان قومیں اس کی دوست اور حامی ہیں۔ چند سال قبل فٹبال میچ میں ایرانی ٹیم اپنی حریف ٹیم پر فتحیاب ہوئی۔ شمالی افریقا کے ایک ملک کے ایک چایخانے میں بیٹھے ہوئے نوجوان، گول کرنے والے ایرانی کھلاڑی کے لئے تالیاں بجا رہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ یہ آپ کا ملک تو نہیں ہے، آپ کو اس ایرانی کھلاڑی سے کیا مطلب جس نے اپنی حریف ٹیم کے خلاف ایک گول کر دیا ہے، وہ حریف بھی تو آپ کا دشمن نہیں ہے؟ ان سب کا جواب تھا کہ ایران کی فتح ہماری فتح ہے، خواہ وہ فٹبال کا اسٹیڈیم ہی کیوں نہ ہو! ان چیزوں کی بڑی قیمت ہے۔

انتخابات کے بعد برپا ہونے والے آشوب کے دوران مختلف اسلامی ممالک کے مسلمان تشویش میں مبتلا تھے، ایران میں اپنے آشنا حضرات سے دریافت کرتے تھے کہ ایران میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں سے جواب دیا جاتا تھا کہ پریشان نہ ہوئیے، ڈرنے کی بات نہیں ہے، اسلامی جمہوریہ بہت طاقتور ہے۔ یہ ایسی حکومت ہے کہ جس کے دشمن ہیں تو دوستوں کی بھی کمی نہیں۔ دنیا کے سارے بدکار اور سارے شمر اس کے دشمن اور تمام مظلوم و کمزور افراد اس کے حامی ہیں۔ ملت فلسطین اس کی حامی ہے، استقامت کا راستہ اختیار کرنے والی عرب قومیں اس کی طرفدار ہیں۔ ہاں امریکی حکومت اس کی مخالف ہے، برطانوی حکومت اس کی مخالف ہے جس کی ایران میں دو سو سالہ خباثتوں کی لمبی تاریخ ہے، ایران میں برطانیہ کی خباثتیں دو سو سالوں تک چلی ہیں۔ ان مخالفتوں سے کوئی ہراساں نہیں ہوتا۔ کوئی حکومت اس کے بالکل بر عکس ہو سکتی ہے یعنی اس کے حامیوں میں سارے چور اچکے، لٹیرے، سامراجی عناصر اور تسلط پسند ممالک ہوں جبکہ خود اس ملک کے عوام اور تمام با ایمان و مظلوم قومیں اس کی مخالف ہوں، یہ (اس حکومت کے لئے) بڑی شرم کی بات ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے کچھ مخالفین رہے ہیں، عالمی سطح کے لٹیرے، چور اور سامراجی عناصر اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرتے رہے ہیں، یہی ہیں جو عالمی اداروں میں اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک عوام، عوامی گروہوں، خود مختار حکومتوں، ان بڑی طاقتوں کے دباؤ سے آزاد سیاستدانوں، مظلوم قوموں کی بات ہے تو یہ سب اسلامی جمہوریہ کے حامی و طرفدار ہیں۔ ان مخالفتوں سے ڈر کر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا عندیہ نہیں دینا چاہئے، ہماری نوجوان نسل کو بہت ہوشیاری سے کام کرنا ہے۔
عزیز نوجوانو! یہ ملک آپ کا ہے، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ نظام کی طاقت و توانائی خواہ وہ سائنسی توانائی، سیاسی توانائی ہو، اقتصادی توانائی ہو، اطلاعاتی توانائی ہو دنیا کے گوناگوں علاقوں میں آمد و رفت کرنے کی توانائی، آپ کے وقار کا سرچشمہ ہے۔ یہ آپ کے لئے مایہ فخر ہے اور آپ کو ایسے نظام کی تکمیل کے لئے بھرپور کوششیں کرنا چاہئے۔ اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہئے۔ نوجوانوں کے کچھ فرائض ہیں۔ حقیقی اسلامی جمہوریہ یعنی وہی جس کی بنیاد امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ہمارے لئے رکھی اور جسے ہمارے ملک کو بطور تحفہ پیش کیا، وہی عالمی وقار، سیاسی قوت و اقتدار، عزت و شان، دنیوی رفاہ اور اخروی پیشرفت جیسی خصوصیات کو مہیا کر سکتا ہے۔ البتہ اس بات کی جانب سے بھی ہوشیار رہئے کہ کہیں نقلی و جعلی اسلامی جمہوری نظام تراشنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یعنی وہ حرکت جو گزشتہ دس برسوں کے دوران کبھی کبھار دیکھنے میں آئی تاہم اللہ تعالی نے اس کا سد باب کر دیا۔ عوام بیدار تھے، ہوشیار تھے، انہوں نے اس کا موقع نہیں دیا۔ کچھ حرکتیں کرنا چاہتے تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نعروں کو عجائب گھر کی زینت بنانا چاہتے تھے، صریحی طور پر کہتے بھی تھے کہ یہ چیزیں فرسودہ ہو چکی ہیں! جی نہیں انقلاب کے نعرے فرسودہ ہونے والے نہیں ہیں، یہ ہمیشہ تازہ رہتے ہیں، یہ ہمیشہ عوام کے لئے پر کشش رہتے ہیں۔ وہ نعرے جو مستضعفین کے مفاد میں ہیں، وہ نعرے جو قومی وقار کے مطابق ہیں، وہ نعرے جن میں استقامت و پائیداری کی بات ہے، یہ نعرے کبھی بھی فرسودہ نہیں ہوں گے۔ کسی بھی قوم کی نظر میں فرسودہ نہیں ہوں گے اور ہمارے نظام میں بھی فرسودہ نہیں ہوں گے۔
آئندہ ہفتے جمعے کا دن یوم قدس ہے۔ یہ ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک ہے۔ یہ بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین سے ہمارے انقلاب اور ہماری قوم کے گہرے لگاؤ کی علامت و نشانی ہے۔ یوم قدس کی برکت سے ہم اس (بیت المقدس کے) نام کو دنیا میں زندہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بہت سی حکومتوں کی یہ خواہش تھی، یہ مرضی تھی اور یہ کوشش تھی ، اس کے لئے پیشہ خرچ کیا گیا کہ مسئلہ فلسطین کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا جائے، ذہنوں سے مٹا دیا جائے۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کی کوششیں نہ ہوتیں، اگر اس خباثت آمیز سازش کے سامنے اسلامی جمہوریہ کی پوری توانائی کے ساتھ جاری بھرپور استقامت نہ ہوتی تو بعید نہیں تھا کہ مسئلہ فلسطین حاشئے پر پہنچا دیا جاتا، یا سرے سے فراموش کر دیا جاتا۔ آج خود سامراجی نظام اور خبیث صیہونی بھی اس کے معترف ہیں، اس پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات پر سخت مضطرب اور ناخوش ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطین کا پرچم بلند کر رکھا جس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کو حاشئے پر ڈالنے کی کوششیں بے اثر ہو گئی ہیں۔ اس کے لئے ساز باز کی جا رہی ہے۔ یوم قدس اس ذکر اور اس نام کے احیاء کا دن ہے۔ اللہ تعالی کے لطف و کرم اور ہدایت و رہنمائی سے اس سال بھی ہماری عظیم قوم تہران میں اور دیگر علاقوں میں یوم قدس منائے گی، جلوس نکالے گی۔ دوسرے بہت سے ملکوں میں بھی مسلمان یوم قدس پر ملت ایران کے اس عمل کو دہراتے ہیں۔ یوم قدس مسئلہ قدس سے متعلق ہے اور ساتھ ہی یہ ملت ایران کے اتحاد و یکجہتی کا مظہر بھی ہے۔ اس طرف سے ہوشیار رہئے کہ کہیں بعض عناصر ان اجتماعات کا فائدہ اٹھا کر تفرقہ انگیزی نہ کریں۔ تفرقہ و انتشار سے ڈرنا چاہئے۔ تفرقے و اختلاف کا سد باب کرنا چاہئے۔ تفرقہ نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔ ملت ایران اسی صورت میں پرچم قدس کو وقار و افتخار کے ساتھ بلند کر سکتی ہے جب وہ متحد ہو۔ ان برسوں میں اس اتحاد کو نشانہ بنانے کی بڑی کوششیں کی گئیں لیکن بے نتیجہ رہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ان کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ ہماری قوم کو روز بروز زیادہ بیدار، زیادہ مقتدر، زیادہ قوی اور زیادہ بلند ہمت بنا۔

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
و العاديات ضبحا. فالموريات قدحا. فالمغيرات صبحا. فاثرن به نقعا. فوسطن به جمعا. انّ الانسان لربّه لكنود. و انّه على ذلك لشهيد. و انّه لحبّ الخير لشديد. أ فلا يعلم اذا بعثر ما فى القبور. و حصّل ما فى الصّدور. انّ ربّهم بهم يومئذ لخبير.(19)
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

1) نهج البلاغه، خطبه‌‏ى 3
2) كافى، ج 8، ص 22
3) نهج البلاغه، خطبه‏ى 200
4) نهج البلاغه، خطبه‏ى 168
5) نهج البلاغه، خطبه‏ى 55
6) نهج البلاغه، خطبه‏ى 169
7) نهج البلاغه، خطبه‏ى 205
8) نهج البلاغه، خطبه‏ى 92
9) نهج البلاغه، خطبه‏ى 126
10) نهج البلاغه، خطبه‏ى 216
11) نهج البلاغه، خطبه‏ى 61
12) مناقب آل ابى‏طالب، ج 2، ص 119
13) بحار الانوار، ج 42، ص 280
14) عصر: 1 - 3؛ 15) روم: 10
16) توبه: 77
17) آل عمران: 155
18) عصر: 3
19) عاديات: 1 - 11