تفصیلی خطاب زیر نظر ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جلسہ بہت پرشکوہ اور عظیم ہے۔ انقلاب اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے تربیت کردہ ممتاز مخلص نوجوانوں کی موجودگی کے لحاظ سے بھی اور انقلاب کی عظیم اقدار یعنی جہاد و شہادت کی یاد کے لحاظ سے بھی۔ کیونکہ آپ پاسداران عزیز جہاں بھی ہوتے ہیں، دس سالہ دشوار جہاد، خونیں مناظر اور عظیم فداکاریوں کی یاد اور شہادت کی خوشبو اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ انشاء اللہ کامیاب رہیں، راہ بندگی خدا میں روز بروز آگے ہی بڑھتے رہیں اور خدائے بزرگ و برتر کو خود سے زیادہ سے زیادہ راضی کریں۔ کیونکہ اصل یہی ہے۔ باقی سارے امور اسی کی تمہید ہیں۔
بہت سی باتیں ہیں جنہیں انسان محسوس کرتا ہے کہ آپ کے سامنے رکھی جائیں لیکن افسوس کہ اتنا وقت اور موقع نہیں ہے۔ ورنہ اگر میرے ارادے پر منحصر ہوتا تو میں اس بات کو ترجیح دیتا کہ سال میں متعدد بار آپ عزیزوں سے ملاقات ہو، ہر قسم کی ریاکاری اور دکھاوے سے پاک ایسے خالص اجتماع میں گفتگو کروں۔
میری نظر میں سپاہ پاسداران خود ہماری تاریخ میں کم نظیر بلکہ شاید بے نظیر ہے۔ سپاہ پاسداران، وہ ادارہ ہے جو میدان انقلاب میں وجود میں آیا اور وہیں اس نے رشد و نمو پائی اور وہ بھی انقلاب کی آزمائشوں کے دشوار ترین مراحل میں۔ جنگ کی ابتدا میں سپاہ پاسداران، ایک چھوٹی سی تنظیم تھی، نومولود ادارہ تھا۔ لیکن مسلسل ملنے والی صحیح خوراک نے اسلامی انقلاب کے اس نو مولود کی بنیادوں کو اتنا محکم اور اس کے دست و بازو کو اس قدر قوی بنا دیا کہ میدان جنگ میں پہلے معجز نما کارنامے پاسداران انقلاب کے جوانوں نے انجام دیئے۔ منتشر افراد منظم شکل میں آ گئے۔ بے لگام شوق اور جوش و ولولہ اعلی جنگی اصول و ضوابط کا پابند ہو گیا۔ جہاد و فداکاری کے عاشقوں نے خدا کے پسندیدہ کامیاب جہاد کا عاقلانہ اور منطقی راستہ اختیار کیا اور ان میں سے ہرایک نے آپ کی تحریک کو ایک مرحلہ آگے بڑھایا۔
آپ سوچیں کہ اگر سپاہ پاسداران سن اکیاسی اور بیاسی میں، آپریشن فتح المبین (1) اور آپریشن بیت المقدس (2) کے برسوں میں، سن اسی کی طرح عمل کرتی، تو آپ کے جتنے سپاہی اس وقت، دزفول، اہواز، سوسنگرد اور خرمشہر کے محاذوں پر موجود تھے، اس کے دس گنا ہوتے تو بھی یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یہ اس دنیا میں سنت خدا اور فطرت الہی ہے کہ انسان روز بروز زیادہ عظمت اور زیادہ علم حاصل کرتا ہے، زیادہ پیچیدگیوں سے واقف ہوتا ہے اور آزمائشات و تجربات سے زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے اور اس طرح تکامل کے راستے طے کرتا ہے۔
آپ دیکھیں کہ قرآن کریم، علم، غور کرنے، تدبر کرنے اور ماضی سے درس حاصل کرنے پر کتنی تاکید کرتا ہے۔ دیکھئے کہ شکر نعمت کو کتنا عظیم قرار دیتا ہے۔ شکر نعمت کیا ہے؟ شکر نعمت کا مطلب یہ ہے کہ جو نعمت خدا نے آپ کو عطا کی ہے، پہلے اس کو پہچانیں اور پھر اس سے مناسب موقع پر جو خدا نے اپنی حکمت سے معین کیا ہے، استفادہ کریں۔
اگر ہم جنگ میں علم و دانش اور حکمت عملی سے کام نہ لیں تو کثرت افراد سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ انقلاب کے اہداف سے وہی عشق، محبت اور قلبی لگاؤ جو فدائی کاروائی کی شکل میں، جو اپنے وقت پر انجام دی جائے تو ایثار، فداکاری اور نیکی ہے، ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لگاؤ اپنی جگہ پر پختہ اور کارآمد جنگی حکمت عملی کی شکل میں بھی سامنے آتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے دشمن پر جس کے پاس اسلحے، جنگی حکمت عملی اور کثرت افراد ہے، فتحیاب ہو جاتے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے، قدم بہ قدم پیشرفت اور رشد و بالیدگی حاصل کی ہے۔ جہاں بھی آپ کو کامیابی کی خوشی حاصل ہوئی ہے، وہ وہی جگہ نکلی جہاں نعمت خدا کا شکر ادا ہوا ہے اور خدائی دستورالعمل کی حکمت آمیز باریکیاں بروئے کار لائی گئی ہیں۔
یہ باریکیاں کیا ہیں؟ یہ بظاہر چھوٹے لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے عظیم نکات ہیں جو قران کریم ، معصومین ( علیہم السلام ) کے کلام اور امام ( رحمت اللہ علیہ) کے فرمودات میں موجود ہیں۔ اپنے لئے کام نہ کریں، خود کو محور قرار نہ دیں بلکہ خدا کو مطمح نظر قرار دیں۔ مادی زندگی کے قالب سے نکل جائیں۔ اپنے فریضے پر عمل کریں۔ اس بات پر توجہ رکھیں کہ ہمارا فریضہ کیا ہے، دوسری باتوں سے سروکار نہ رکھیں۔ ہمیشہ، ہر مرحلے میں دلیل شرعی کی اساس پر رضائے خدا کی جستجو کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ یہی وہ حکمت آمیز اصول و ضوابط ہیں جو اس دنیا میں مستقل مجاہدت میں انسان کی کامیابی کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کے اہداف سے تعلق نہیں رکھتیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں اور آپ کو اپنی کوششوں میں خود کو محور قرار نہیں دینا چاہئے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے اہداف الہی تک پہنچنے سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ تنہائی میں، نفسانی تفکرات میں، تھوڑا سا اس مسئلے پر فکر کریں۔
جہاں بھی کامیابی کی اچھی یادیں ہیں، یہ چیزیں ہیں۔ جہاں ناکامی کی تلخ اور ناگوار یاد ہے، وہ ناکامی جو بھی ہو، شکست ہو، فتح کا حاصل نہ ہونا ہو یا زیادہ جانی نقصان ہو، یہ وہ جگہ ہے جہاں ان میں سے چند میں یا کسی ایک میں کمی رہ گئ ہے۔ اگر تحقیق کریں تو پتہ چل جائے گا۔
کبھی کبھی کسی ایک فرد کا عمل پورے مجموعے پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ کبھی مورچے کے ایک نگہبان کی غلطی پوری صف کو منتشر کر دیتی ہے۔ اگر اسی طرح دقت نظر کے ساتھ معاملات پر غور کریں تو فتح و شکست کے واقعات کے بارے میں تفسیر الہی تک پہنچ جائیں گے۔ ان مراحل سے آپ گزر چکے ہیں۔
جنگ ختم ہوگئی ہے۔ جنگ کے دور کے بعد، کچھ عرصہ تک یہ راہ مومنین کے درد سے آشنا قائد، امام، معلم اور مرشد (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مبارک سائے میں طے ہوئی اور پھر اس کے بعد کے حوادث تھے اور یہ سفر آج تک جاری ہے۔ اس وقت ہم کہاں ہیں؟ بیچ میں۔
یہ بات فراموش نہ ہو کہ ہم نے ابتدا سے سفر کا آغاز کیا ہے اور کچھ اہداف کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیشہ یہ سمجھیں کہ آپریشن کی رات ہے۔ ہمیشہ بارگاہ کرم الہی سے نصرت و کرم کی توقع رکھیں۔ ہمیشہ شکست سے ڈریں۔ بعض شکستیں شور شرابے کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن بعض ہنگامے کے ساتھ نہیں آتی ہیں بلکہ خاموشی کے ساتھ انسان، معاشرے اور محاذ کو نصیب ہوتی ہیں۔ شکست ہونے کے بعد انسان کو اس کی خبر ہوتی ہے اور پھر وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی شکستیں خطرناک ہوتی ہیں۔ آپ برادران عزیز اور کارساز نوجوانوں نے محاذ کو دیکھا ہے، مشکلات برداشت کی ہیں، آپ کے کندھوں پر ذمہ داریاں ہیں۔ اس بات پر توجہ رکھیں کہ انقلاب کے آغاز اور سپاہ پاسداران کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی جو تحریک شروع ہوئی ہے وہ جنگ کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوئی ہے، امام کی رحلت سے ختم نہیں ہوئی ہے، مختلف حوادث سے ختم نہیں ہوگی، یہ تحریک جاری ہے اور ابھی ہم وسط راہ میں ہیں۔
اگر خدا وند عالم کا ارادہ ہوا تو ہم مختلف مراحل اور میدان دیکھیں گے۔ مستقبل میں ہمیں عظیم چیزیں دیکھنی ہیں۔ تاریخ بدل رہی ہے۔ ہمارے اور آپ کے زمانے کی تاریخ، ایک اہم موڑ سے گذر رہی ہے۔ تاریخ کے موڑ طویل برسوں میں طے ہوتے ہیں۔ کبھی ایک یا دونسل کی پوری عمر تاریخ کا ایک لمحہ ہوتی ہے۔ اس وقت ہم ایسے ایک اہم موڑ اور مرحلے سے گذر رہے ہیں۔
آج نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ) کے دور پر ایک نظر ڈالیں۔ دور سے موڑ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ نزدیک سے، عالم سفر میں دانشمندوں کے علاوہ کوئی متوجہ نہیں ہوتا کہ کیا کام ہو رہا ہے۔ یہاں اس وقت آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صدر اسلام یعنی اسلام کے ابتدائی دور میں بشریت کدھر جارہی تھی اور کیا کر رہی تھی۔ میں نبی اکرم کے دور یا دیگر ادوار کا موازنہ نہیں کرنا چاہتا ہوں، لیکن آج ہم ویسا ہی کام انجام دے رہے ہیں یا بہتر الفاظ میں کہوں کہ آج دنیا اسی طرح کے تغیر سے دوچار ہے جو اس دور میں تھا۔ اس زمانے میں بھی کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس دور میں دنیا پر جو طاقتیں مسلط تھیں انہیں امریکا کی سامراجی طاقت سے کم اپنی طاقت کا احساس تھا؟ نہیں انہیں بھی اسی طرح اپنی طاقت کا زعم تھا۔ دیکھئے، پیغمبروں سے کس طرح بات کرتے تھے۔ دیکھئے کہ ان لوگوں کے ساتھ جو ان کی ہوا و ہوس کے خلاف بولتے تھے، اس دور کے تمدن کا رویہ کتنا تحقیر آمیز تھا۔
ان تین پیغمبروں کے واقعے پر غور کریں جو شہر انطاکیہ میں مبعوث ہوئے۔ واضرب لھم مثلا اصحاب القریہ اذ جائھا المرسلون اذ ارسلنا الیھم اثنین فکذبوھما فعززنا بثالث فقالوا انا الیکم مرسلون (3) ان تین پیغمبروں نے اس دور کے ایک تمدن سے کہا کہ ہمارے پاس ایک ہدف ہے، پیغام ہے اور ہم تم سے بات کرنے آئے ہیں۔ پہاڑوں پر رہنے اور سنگ تراشی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ اس جاہ و جلال کی مالک رومی سلطنت کا مسئلہ ہے جس کے تاریخی آثار اتنے عظیم ہیں۔ یہ انا الیکم مرسلون قرآن کے بیان میں ایجاز پر مبنی ہے۔ یہ ایک کلمہ ہے ۔ پیغمبروں نے ایک جملہ کہا ہے ہم تمھارے پاس بھیجے گئے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ انطاکیہ کے تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور یہ تینوں افراد وہاں گئے، تقریر کی اور کہا کہ انا الیکم مرسلون اسی طرح کہا گیا جس طرح امام نے ان دس برسوں میں دنیا سے کہا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی یہی کہتے تھے کہ انا الیکم مرسلون اے غافل انسان ، اے دنیا کے چند سیاسی اور صنعتی خاندانوں کے اسیر انسان، اے تحقیر شدہ اقوام ہم تم سے بات کرنے کے لئے آئے ہیں۔ امام دس سال تک یہ کہتے رہے۔ انا الیکم مرسلون شاید ان پیغبروں نے بھی ایک عرصے تک یہ بات کہی۔
قالوا ما انتم الا بشر مثلنا و ما انزل الرحمن من شئ ان انتم الا تکذبون (4) ادھر سے تکذیب اور تحقیر ؛ نہیں جناب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ بشریت کے لئے آپ کے پاس نئی بات کیا ہے؟ آپ بھی بقیہ لوگوں کی طرح ہیں۔ آپ اپنا مخصوص اسلام لائے ہیں اور اپنی مخصوص بات کرتے ہیں۔ یہ وہی لہجہ ہے جس میں دنیا کے بیچارے منحوس مادہ پرستوں کے سربراہوں نے انقلاب، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور نقیبان و پرچمداران حق سے بات کی اور آج بھی اسی لہجے میں بولتے ہیں۔
قالوا ما انتم الا بشر مثلنا و ما انزل الرحمن من شئ ان انتم الا تکذبون قالوا ربنا یعلم انا الیکم لمرسلون ۔ و ما علینا الا البلاغ المبین (5) پیغمبروں کی طرف سے دوبارہ حملہ ہے ؛ نہیں ، مقدسات گواہ ہیں کہ ہم صرف تمہاری بھلائی کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم رسول ہیں۔ ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہم تم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اپنے ضمیر کی آواز سنو۔ اپنے دین کی طرف رجوع کرو۔ اگر تمھارے پاس پاک طینت مفکرین ہوں تو ان سے رجوع کرو۔ ہم اپنی بات تم تک پہنچانا چاہتے ہیں۔البلاغ المبین ہم ہر جگہ اپنے ہاتھ سے صرف الٹ پلٹ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم تمہارے اندر جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ فکر، تفکر، انقلاب اور ثقافت کی برآمد، وہی چیز ہے جس سے دشمن سب سے زیادہ خوفزدہ ہے۔
بلاغ مبین کی بات آتے ہی مخالف محاذ سخت تر ہو جاتا ہے۔ اب تحقیر کی بات نہیں ہے۔ قالوا انا تطیرنا بکم لئن لم تنتھوا لنرجمنکم و لیمسنکم منا عذاب الیم (6) اب یہ بات نہیں ہے کہ اپنے پروپیگنڈوں میں طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہیں کہ نئی بات لائے ہیں لیکن پرانی بنیادوں کی ترویج کرتے ہیں۔ جی نہیں، محاذ آرائی ہے۔ وہ کہتے ہیں تم بشریت کے لئے مضر ہو۔ جس نے حیات انسانی پر کاری ترین وار لگایا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اگر تم اس کام اور اس بات سے باز نہ آئے تو؛ دھمکی دی جاتی ہے ۔ لیمسنکم منا عذاب الیم۔ (6) اس منزل پر پیغمبر اس روش کے مقابلے میں ایک اور جوابی وار کرتے ہیں۔ قالوا طائرکم معکم ائن ذکرتم بل انتم قوم مسرفون۔ (7)
یہ روش ہمیشہ رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اس زمانے میں بھی دنیا ور دنیا پرست پیغمبر کی تحریک کے مقابلے میں سردمہری اور انتہائی تشدد آمیز روش سے کام لیتے تھے۔ یہ چیز آج کے ہی دور سے مخصوص نہیں ہے۔ لیکن ہر دور میں جس محاذ نے پسپائی اختیار کی ہے ، وہ متکبرین اور مستکبرین کا محاذ ہے۔ اس مرحلے میں تاریخ روز بروز کامل تر ہوتی ہے۔ تاریخ کی تشریح الہی یہ ہے۔ تکمیل تاریخ کا مطلب یہی ہے۔
یہ بیچارے، غافل، مارکسسٹ، اپنی کج فہمیوں کی وجہ سے مارے گئے۔ وہ تکامل کے معنی پیچیدگی کے لیتے تھے۔ کامل معاشرہ یعنی پیچیدہ معاشرہ۔ جو معاشرہ زیادہ پیچیدہ ہو، وہ سماجی و اقتصادی روابط اور ٹکنالوجی کے نقطہ نگاہ سے زیادہ کامل ہے۔ تکامل کے معنی یہ نہیں ہیں۔ تکامل یعنی اعلا مفاہیم کا بہتر ادراک۔ اعلا اخلاقی خلاقیت کا زیادہ ہونا۔ صحیح معرفت کی جہت میں ایک قدم آگے بڑھنا۔ اس طرح بشریت قدم بہ قدم آگے بڑھی یہاں تک کہ نبوت خاتم ( المرسلین) کے دور تک پہنچی اور آج آگے کی طرف وہی پیشرفت جاری ہے۔
کیا ممکن ہے کہ دنیا اسی جہالت میں باقی رہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ انسانوں کی واضح اکثریت، کاری ترین بشری وسائل کے ساتھ زمانے کے تسلط پسندوں کی خباثت آمیز ہوا و ہوس کی بھینٹ چڑھتی رہے؟ یہ ایک موڑ ہے۔ ہم آگے بڑھیں گے۔ لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے ۔
بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جماعت حق میں اس مقابلے اور مزاحمت کے لئے پائیداری، استقامت، ہوشیاری اور نفس امارہ کی قید سے آزادی کی ضرورت ہے جس کی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہمیشہ تاکید فرماتے تھے۔ انقلابی معاشرے میں لوگوں کی قابل ملاحظہ تعداد ایسی ہونی چاہئے کہ جن کی نگاہ میں دنیاوی دولت و ثروت کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ اگر ہمارے پاس ایسے لوگ ہوئے تو محنت ومشقت کے نتیجے میں پیشرفت یقینی ہے۔
وہ مشقت جو انسان، بشریت کی پیشرفت کے لئے برداشت کرے ، بہت اہم ہے۔ یہ وہی ہدف ہے جس کے لئے حسین بن علی (علیہ السلام ) شہید ہوئے۔ اس سے بالاتر تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ بھی امام حسین (علیہ السلام ) نے مصیبتیں برداشت کیں۔ کیا امام حسین ( علیہ السلام) اپنے گھر میں نہیں بیٹھ سکتے تھے؟
بھائیو! حاصل کلام یہ ہے کہ سپاہ پسداران کو وہی محکم ستون ہونا چاہئے۔ سپاہ پاسداران کو معنوی بلندی اور تکامل بشریت کی بنیاد رکھنے کی فکر میں رہنا چاہئے۔ اس راہ میں چلے اور اس ہدف کے لئے آگے بڑھے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ نہ حال حاظر میں اور نہ ہی تاریخ میں (اس کی کوئی مثال ہے) یہ بہترین مومن اور انقلابی افراد کا مجموعہ ہے جس کے اراکین سخت ترین میدانوں میں اترے، دشوار ترین امتحانوں میں قدم بہ قدم آگے بڑھے اور تکامل کے مراحل طے کئے۔
اس وقت سپاہ پاسداران انقلاب اوج جوانی، عنفوان شباب اور طاقت و شادابی کے کمال کے مرحلے میں ہے۔ جتنا ہو سکے سپاہ کی بنیادوں کو مضبوط کریں۔ آپ کمانڈر برادران، جس کی ذمہ داری جتنی اعلا ہو اس کا اتنا ہی زیادہ فریضہ ہے کہ اس سلسلے میں کوشش کرے ۔
سپاہ پاسداران کی بنیادوں کی تقویت، تربیت، وسائل کی فراہمی، نظم و ضبط اور تنظیم انہی چیزوں میں ہے جس کی ہم ہمشیہ سفارش کرتے ہیں۔ لیکن ان سب سے بالاتر، معنویت ہے۔ معنویت، خدا سے راز و نیاز، خدا سے قلبی رابطہ، خدا کو ہدف قرار دینا، ظواہر کے فریب میں نہ آنا، دنیاوی دولت و ثروت اور دنیاوی ذخائر سے دل وابستہ نہ کرنا، یہ وہ چیزیں ہیں جو مومنین و مومنات کا دستہ تیار کرتی ہیں۔ اس وقت ، کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ (8) اگر آپ کی تعداد کم ہو تب بھی اس معنوی پہلو کے با‏عث اپنے مقابلے میں زیادہ تعداد والوں کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیں گے۔ یہی معنویت تھی جو بسیج ( رضاکار فورس کے جوانوں ) کو اس طرح میدانوں میں عشق سے سرشار اور مضطرب کرتی تھی، شو‍ق و ذوق کے ساتھ ان جوانوں کو محاذ کی طرف لے جاتی تھی اور جب وہ محاذ پر آتے تھے تو ان کا دل محاذ سے سیر نہیں ہوتا تھا۔
امام کی وصیتوں کو جو آپ فرماتے تھے، پڑھیں۔ میں نے آپ کی سفارشات پر بہت عمل کیا ہے۔ ان سپاہیوں کے وصیتناموں کو جو مجھ تک پہنچے ہیں، فوٹوکاپی اور کتابچے، ان میں سے زیادہ تر کو میں نے پڑھا ہے۔ عجیب چیزیں ہیں۔ ہم واقعی ان وصیتناموں سے درس حاصل کرتے ہیں۔ یہاں معلوم ہوتا ہے کہ درس، علم اور علم الہی ظواہر اور رسمی باتوں سے زیادہ حکمت معنوی سے جو نوارنیت الہی کی دین ہے، وابستہ ہے۔ اس نوجوان کی تحریر مشکل سے پڑھی جاتی ہے لیکن ہر لفظ میرے لئے اور مجھ جیسے لوگوں کے لئے، ایک درس اور راہ گشا ہے۔ میں نے خود بہت استفادہ کیا ہے۔
اکثر یہ اپنے والدین کو لکھتے تھے کہ یہاں سے ہمارا دل کبھی نہیں بھرے گا۔ یہاں بہشت ہے اور زندگي یہاں ہے۔ اس کے جواب میں کہ ماں نے لکھا تھا کہ بیٹے جلدی آؤ یا مجھے آنے کی اطلاع دو، لکھتا ہے کہ وہاں زندگی نہیں ہے ، زندگی یہاں ہے۔ اتنی معنویت تھی۔ معنویت ہو تو دل اس کی طرف کھنچتے ہیں۔ قوتیں دلوں اور ارادوں کی مطیع ہوتی ہیں۔ جب ایسا ہو جاتا ہے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی قوم کو شکست نہیں دے سکتی۔ بھائیو! یہ حقیقت ایران میں رونما ہوئی۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں بھی ایران کو شکست نہ دے سکیں۔
ہمارے مقابلے میں صرف عراق ہی نہیں تھا۔ ہم اس زمانے میں بھی کہتے تھے۔ گذشتہ سال کے خلیج فارس کے حوادث کے بعد سب نے اعتراف کیا کہ مغرب تھا، مشرق تھا، امریکا تھا، نیٹو تھا، علاقے کے رجعت پسند تھے، پیسہ تھا، اسلحے تھے، وسائل تھے، جنگی حکمت عملی تھی، سیٹ لائٹ کی اطلاعات تھیں۔
ایک بڑے آپریشن میں، جو آخری برسوں میں ہم نے انجام دیا اور ہمارا حریف بڑی تگ و دو کر رہا تھا، میں نے یہاں دوستوں سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ عراق کے اصلی کمانڈ ہیڈکوارٹروں میں اس وقت غیر عراقی فوجی بیٹھے ہوئے ہیں اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ مغربی ہیں۔ ان کی حرکتوں کے انداز سے اس کا پتہ چل رہا تھا۔ ان کے کام کی نوعیت بتا رہی تھی کہ وہاں کوئی نیا احساس کام کر رہا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا ہی تھا۔ پوری دنیا نے ان کی مدد کی۔ لیکن کون سی چیز اس بات کا باعث ہوئی کہ ان حیرت انگیز وحشتناک طاقتوں کے ہوتے ہوئے، وہ ایران اسلامی کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود، جن کو آپ جانتے تھے اور سبھی واقف تھے، بجٹ کی کمزوری، انتظام کی کمزوری، نظم و ضبط کی کمزوری، بعض اختلافات کی موجودگی، ایران اسلامی پر غلبہ حاصل نہ کرسکے اور اپنا مقصد پورا نہ کرسکے؟ دنیا نے اس واقعے سے درس عبرت حاصل کیا۔
آج امریکی فوجی کمانڈر جو جنگ میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ ہم نے ایران عراق جنگ کے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے، تجربہ حاصل کیا اور درس لیا ہے یہ کس چیز کا اثر تھا؟ اسی معنویت کا نتیجہ تھا۔ اس معنویت کی حفاظت ضروری ہے۔ سپاہ پاسداران میں اس کی حفاظت ہونی چاہئے۔
سپاہ پاسداران میں چند اصول ایسے ہیں کہ جن کی پابندی ضروری ہے۔
اول؛ دینداری اور تقوا ہے۔ بے دین اور بے تقوا انسان، سپاہ پاسداران کا رکن نہیں ہو سکتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے ملک کی حدود سے خارج ہے۔ نہیں، دوسرے اداروں میں اور دوسری جگہوں پر جائے۔ اس ادارے کے لائق نہیں ہے۔ اس ادارے کے لئے دیندار اور متقی افراد کی ضرورت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے خود کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ مسلح افواج کے کسی بھی ادارے، فوج یا دوسرے ادارے کی، جو پہلے تھے اور اب انتظامی افواج کا حصہ ہیں، تحقیر کروں۔ میں نے ہمیشہ ان کی قدردانی کی ہے۔ لیکن سپاہ پاسداران سے مجھے کچھ اور توقع ہے۔ وہ بات بھی آشکارا ہے اور یہ بات بھی واضح ہے۔
انقلاب کو سپاہ پاسداران سے جو توقع ہے وہ دوسرے اداروں سے نہیں ہے۔ کیونکہ جو ذمہ داری یہ ادارہ انجام دے سکتا ہے، وہ دوسرے اداروں سے نہیں چاہی گئی ہے۔ جس کی ذمہ داری زیادہ ہو اس کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔ اس کی سطح بھی بلند تر ہے۔ تدین وہ چیز ہے جس کو سپاہ پاسداران میں موجزن ہونا اور روز بروز زیادہ ہونا چاہئے۔
یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اب تعمیر کا دور ہے اور فطری طور پر بعض خلاف ورزیاں انجام پاتی ہیں۔ ایسے صاحب ایمان مجموعے کے لئے جس کی ذمہ داری اتنی عظیم ہے، تعمیر کے دور، جنگ کے دور اور غیر جنگ کے دور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمیشہ متدین، احکام الہی کا پابند اور اپنے اعمال و کردار کا خیال رکھنے والا ہونا چاہئے۔
دوسرا اصول ؛ فوجی صلاحیت ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے یہاں تقدس مآبی شروع کر رکھی ہے۔ نوحہ پڑھتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، میدان جنگ میں بھی بہر طور۔ جی نہیں ' سپاہ پاسداران کے سپاہیوں نے فوجی درجات اور فوجی ٹریننگ کے مدارج، زیادہ بہتر اور تیزی کے ساتھ طے کئے ہیں اور بہت پیشرفت کی ہے۔ یہ بات ہر اس انسان کے لئے افتخار ہے جو اپنے کندھوں پر اہم ذمہ داری لینے کا قائل ہے۔
فوجی ٹریننگ اور فوجی اصول و ضوابط ، فوجی نوعیت کے ہر مجموعے کے تمام پہلووں کو شامل ہونا چاہئے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ ٹریننگ، نظم و ضبط، تنظیم اور حفظ مراتب کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ نہیں ان میں سے ہر ایک کو اہمیت دینی چاہئے۔ میں نے بارہا ان باتوں کو کہا ہے، ان کی تکرار کی ہے، ایک بار پھر تکرار کرنا نہیں چاہتا۔
آج دنیا میں فوجی علوم کے نام سے جو کچھ موجود ہے وہ کسی خاص قوم، حکومت یا کسی خاص دھڑے سے تعلق نہیں رکھتا ۔ بلکہ یہ مختلف ادوار کی طولانی انسانی تہذیب و ثقافت کا ذخیرہ ہے۔ جنگ ہمیشہ رہی ہے۔ جنگ ہمیشہ ہوئی ہے۔ مستقل تجربات حاصل ہوئے ہیں، یہ تمام تجربات جمع ہوئے اور آج فوجی علوم کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں۔
ہم جو مسلمان ہیں، ہم جو انقلابی ہیں، ہم جو دنیا کی نئی تحریک کے علم بردار ہیں، ہمیں ان علوم سے دوسروں سے زیادہ واقف ہونا چاہئے۔ دوسرے رجعت پسند ہیں، دوسرے پسماندہ ہیں، دوسرے ماضی کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ ان کے ظاہر اور ان کی چمک دمک پر نہ جائیں۔ دوسرے شہوت کے اسیر ہیں، معمولی ترین بشری محرکات کے غلام ہیں۔ پیشقدم آپ ہیں، علمبردار آپ ہیں، نئی تحریک کے بانی آپ ہیں، نیا پیغام دنیا کو آپ دے رہے ہیں۔ ہر علم کے میدان میں، منجملہ فوجی علوم ، عسکری فنون اور جدید فوجی تنظیم کی روشوں سے آپ کو سب سے زیادہ واقف ہونا چاہئے۔
کچھ خاص لوگ ہمیشہ مطالعے میں مصروف رہیں تاکہ فوجی نظم و ضبط کا جو نیا طریقہ کارآمد نظر آئے، سپاہ پاسداران انقلاب میں اس پر کام کریں۔ میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ ہر روز سپاہ پاسداران کے نظم و ضبط میں تبدیلی لائی جاۓ لیکن اس سلسلے میں لکیر کا فقیر بنے رہنے کا بھی قائل نہیں ہوں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ ادارہ اپنی ذمہ داری کے میدان میں زیادہ آسانی کے ساتھ، زیادہ کار آمد طریقے سے اور زیادہ مستحکم انداز میں کام کر سکتا ہے۔
فوجی امور میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ درجہ بندی کا مسئلہ جس کو آپ نے دیکھا کہ میں اتنی اہمیت دیتا ہوں، اسی لئے ہے کہ فوجی نظم و ضبط میں اس سے مدد ملے اور مدد مل رہی ہے۔ ورنہ میں نے اسی دن جب یہ درجات دیئے جا رہے تھے، کہا تھا کہ میں مجاہد فی سبیل اللہ اور فداکار سپاہی کی اہمیت کا اندازہ اس کے رینک سے نہیں لگاتا بلکہ اس کی اہمیت کا اندازہ دوسرے اصولوں اور معیاروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ درجہ بندی نظم و ضبط کے لئے ضروری ہے۔ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ یہ آج کی دنیا کے زندہ ترین اور تازہ ترین تجربات ہیں۔ کسی کی تقلید نہیں ہے بلکہ یہ ماضی کے تجربات سے استفادہ کرنا ہے۔ صحیح اور ضروری ہے اور اس پر عمل کرنا لازمی ہے۔
البتہ اب تک صرف علامتی طور پر چند برادران کو درجات دیئے گئے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے اور مستقبل قریب میں وسیع سطح پر درجہ بندی ہونی ہے۔
یہ درجات آپ کے لئے مقدس ہیں۔ یہ درجہ بندی ان برسوں کے مد نظر جو محاذوں پر گزارے ہیں اور صحیح اقدار اور معیاروں کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ یہ اس زندہ اور شاداب پیکر کا جز اور رکن ہونے کی نشانی ہے۔ حق یہ ہے کہ جلد از جلد اس کام کو وسعت دینے کے لئے واقعی بڑی زحمت اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ کام ہونا ہے اور انشاء اللہ بہت جلد انجام پائے گا۔ اس کام کو اہمیت دیں۔ ان چیزوں سے جو نظم و ضبط کا لازمہ ہیں، روگردانی نہ کریں۔
نظم و ضبط انکسار اور برادری کے جذبے کے منافی نہیں ہے۔ میں نے اس پیغام (9) میں بھی آپ سے عرض کیا تھا کہ ہر ایک کو ضابطے اور نظم و ضبط کے اصولوں کے مطابق اپنے افسر کی اطاعت کرنی چاہئے لیکن دونوں باہم بھائی بھائی ہیں۔ جیسا کہ دینی مراکز اور دینی تعلیم کے اداروں میں ہے۔ یہ استاد ہے اور وہ شاگرد ہے۔ لیکن ان کی حدود بھی واضح ہیں۔ بحث کرتے ہیں یا تحقیق کرتے ہیں، باہم برادرانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ درجہ بندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اعلا درجے والا اپنے ماتحت سے تند لہجے میں بات کرے، اس کی تحقیر کرے یا اس کی نسبت بے اعتنائی برتے۔ یہ دوسری بات ہے۔ اسلامی برادری کو اپنی جگہ پر باقی رہنا چاہئے۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے برادران کے لئے تیسرا اصول اپنی جگہ پر باقی رہنا ہے۔ عدل ہے۔ عدل یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھا جائے۔ سپاہ پاسداران کو اپنی جگہ پر رہنا چاہئے۔ سپاہ پاسداران کی جگہ کیا ہے؟ سپاہ پاسداران کا فریضہ معین ہے۔ ممکن ہے کہ انقلاب کا دفاع کرنے والے دوسرے بھی بہت ہوں، دینی تعلیم کے مراکز بھی دفاع کرتے ہیں۔ لیکن ان مراکز کا دفاع دوسرا ہے۔ سرکاری حکام میں سے ہر ایک ممکن ہے کہ اپنی جگہ پر دفاع کرے یا اس کو دفاع کرنا چاہئے۔ دفاع کی یہ نوعیت (جو آپ ک ذمے ہے) الگ ہے۔ یہ انقلاب کا دفاع ہے اس ذمہ داری میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس جگہ پر برقرار رہیں اور دیکھیں کہ اس ذمہ داری کے لئے کیا ضروری ہے ۔ جو ضروری ہے اس کو حاصل کریں۔
سپاہ پاسداران انقلاب کی شان یہ ہے کہ فوجی ٹریننگ نظم وضبط اور عسکری اصولوں کی پابندی کے ساتھ جیسا کہ میں نے اس سے پہلے عرض کیا، اطلاعات اور آگاہی بھی رکھیں۔ روشن خیال ہوں۔ سیاسی بینش رکھیں۔ دنیا اور زمانے کے حالات سے واقفیت رکھیں ورنہ دھوکہ کھائیں گے اور غلطی کریں گے اور ایک سپاہی کی غلطی اس کی غلطی سے بہت مختلف ہوتی ہے جو سپاہی نہ ہو اور اس کا نقصان بھی بہت سنگین ہوتا ہے۔ سپاہ پاسداران کو اپنی جگہ پر ہونا چاہئے۔ جو ضروری ہو اس کو حاصل کرے اور جو ضروری نہ ہو اس کو حاصل نہ کرے۔
کبھی ممکن ہے کہ ہم سپاہ پاسداران کے براداران کے لئے کسی کورس کو ضروری سمجھیں جبکہ ایسا نہ ہو۔ فرائض کی انجام دہی میں، ٹریننگ میں، آپریشن میں کسی بھی چیز میں اس کی ضرورت نہ ہو، تو ایسے کورس کو چھوڑ دینا چاہئے۔ البتہ میرے پیش نظر کوئی خاص معاملہ نہیں ہے لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ آگاہی رہنی چاہئے۔
نمائندہ دفاتر کے بالخصوص سیاسی اور عقیدتی شعبے کے رکن برادران عزیز سے میری گزارش ہے کہ صحیح سیاسی تحلیل و تجزیہ اور اذہان کی پرورش بہت اہم ہے۔ اذہان کی پرورش اور تربیت ہونی چاہئے۔
ہر انقلاب کے لئے وہ دور بہت سخت ہوتا ہے جب حق اور باطل ایک دوسرے میں مل جائیں۔ امیرالمومنین ( علیہ السلام ) اس کا شکوہ کرتے ہیں۔ ولکن یوخذ من ھذا ضغث ومن ھذا ضغث فیمزجان فھنالک یستولی الشیطان علی اولیائہ (10) پیغمبر کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ پیغمبر کے دورمیں صفیں شفاف اور واضح تھیں۔ ادھر کفار، مشرکین اور اہل مکہ تھے۔ وہ لوگ تھے کہ ایک ایک مہاجر کی ان سے تلخ یادیں وابستہ تھیں کہ اس نے مجھے فلاں تاریخ کو مارا تھا۔ اس نے مجھے قید کیا تھا۔ اس نے میری دولت لوٹی تھی۔ بنابریں کوئی شبہ نہیں تھا۔ یہودی تھے۔ سازش کرنے والے تھے جن سے تمام اہل مدینہ مہاجر و انصار سبھی ان کی سازشوں سے واقف تھے۔ بنی قریظہ کی جنگ ہوئی، پیغمبر نے حکم دیا، بہت سے لوگوں کے سر قلم کر دیئے گئے۔ کسی کی پیشانی پر بل نہ آیا۔ کسی نے بھی نہیں کہا کہ کیوں؟ اس لئے کہ منظر صاف اور واضح تھا۔ غبار آلود نہیں تھا۔ ایسی جگہوں پر جنگ آسان ہوتی ہے۔ ایمان کی حفاظت بھی آسان ہوتی ہے۔ لیکن امیرالمومنین کے دور میں علی ( علیہ السلام ) کے مقابلے پر کون لوگ آئے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آسان ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آسان تھا کہ عبداللہ بن مسعود جیسا بڑا صحابی، کچھ لوگوں کی روایت کے مطابق امیر المومنین (علیہ السلام ) کی ولایت کے پابند لوگوں میں نہیں رہے اور منحرفین میں شمار کئے گئے؟ یہی ربیع بن خیثم اور وہ لوگ جو جنگ صفین میں آئے اور کہا کہ ہم اس جنگ پر راضی نہیں ہیں۔ اجازت دیجئے کہ سرحدوں پر چلے جائیں اور جنگ میں شامل نہ ہوں ۔ روایت میں ہے کہ من اصحاب عبداللہ بن مسعود (11) اس مرحلے میں معاملہ دشوار ہے ۔
جب غبار گہرا ہو جاتا ہے تو امام حسن کا زمانہ آتا ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں غبار پھر ہلکا تھا۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ عمار یاسر جیسے حقیقت بیان کرنے والے موجود تھے۔ جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا تھا، وہاں عمار یاسر اور پیغمبر کے دیگر عظیم صحابی جاتے تھے اور حقیقت بیان کرتے تھے۔ دلائل پیش کرتے تھے اور کم سے کم کچھ لوگوں کے لئے غبار دور ہو جاتا تھا ( اور حقیقت عیاں ہوجاتی تھی ) لیکن امام حسن علیہ السلام کے دور میں یہ بھی نہیں تھا۔ شبہے کے دور میں اور جو کھلا کافر نہ ہو اس سے اور ان لوگوں سے جنگ بہت دشوار ہوتی ہے جو نعروں کو اپنے اہداف کے مطابق ڈھال سکیں۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
البتہ الحمد للہ ابھی ہم اس دور میں نہیں ہیں۔ ابھی صفیں واضح ہیں۔ ابھی بہت سے اصول اور حقائق واضح اور نمایاں ہیں۔ لیکن مطمئن نہ رہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ آپ کو آگاہ رہنا چاہئے۔ آپ کے پاس چشم بصیرت ہونی چاہئے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کے بازو خدا کے اختیار میں ہیں یا نہیں۔ اس کے لئے بصیرت کی ضرورت ہے۔ اس کو آسان نہ سمجھیں۔
ایک زمانے میں، میں نے امیرالمومنین ( علیہ الصلوات والسلام) کی حکومت کی تقریبا پانچ سالہ زندگی کا اور اس دوران جو کچھ ہوا اس کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اس مطالعے سے جو نتیجہ میں حاصل کر سکا وہ یہ ہے کہ سیاسی تبصرہ و تجزیہ کمزور تھا۔ البتہ بعد کے درجے میں دوسرے عوامل بھی تھے لیکن اہم ترین مسئلہ یہی تھا۔ ورنہ بہت سے لوگ اب بھی مومن تھے لیکن اس کے باوجود امیرالمومنین (علیہ السلام) کے مقابلے پر آکے جنگ کی اور ہلاک ہوئے۔ بنابریں ان کا تجزیہ غلط تھا۔
اپنے موقف کو پہچاننا اور پر ثابت قدم رہنا، سیاسی بینش، سیاسی سوجھ بوجھ، اور سیاسی تحلیل و تجزیئے کی قوت، البتہ سیاسی دھڑے بندیوں سے دور رہتے ہوئے، خود ان ظریف نکات میں سے ہے جو میں نے پیغام میں بھی آپ سے عرض کیا تھا اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بھی بارہا اور بارہا فرمایا تھا۔
البتہ کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگتا تھا کہ نہیں، سیاسی امور میں مداخلت کیوں نہ کریں؟ اسی زمانے میں مجھے یاد ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ارشاد کے چند مہینے بعد انتخابات کا ایک معاملہ در پیش تھا اور کوئی کسی شہر میں گیا تھا، یہ نہیں کہوں گا کہ کہاں، کیونکہ میں اس کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتا، وہاں تقریر کی تھی، کیسٹ لائے تھے اور میں نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ نہیں جناب' یہ کیوں کہتے ہیں کہ سپاہ پاسداران سیاست میں مداخلت نہ کرے؟ آپ سے بہتر کون ہے؟
دیکھئے! یہ بڑی دلفریب اور پرکشش باتیں ہیں کہ یہ مجاہد نوجوان جس کی رگوں میں انقلابی خون ہے، جوش میں آ جائے کہ ہاں ہم سے بہتر کون ہے؟ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ بات صراحت کے ساتھ کہی تھی۔ یہ لوگ سیاسی آگاہی اور انقلاب کے میدان میں سیاسی موجودگی کو، جو اچھی چیز ہے اور سیاسی تنازعات ، سیاسی دھڑے بندیوں اور کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں کام کرنے کو، جو بری اور بہت خطرناک بات ہے اور امام نے ایک تحقیقاتی کمیٹی متعین کی تھی اور فرمایا تھا کہ دیکھیں کون ایسا ہے ، اس کو، سپاہ پاسداران سے نکال باہر کیا جائے، خلط ملط کر رہے تھے۔
توجہ رکھیں کہ سیاسی اور جماعتی محرکات سپاہ پاسداران جیسے مخلص، کارآمد اور صحیح و سالم ادارے سے کام نہ لے سکیں۔ یہ ایسا ذخیرہ ہے جس کو ضرورت پڑنے پر انقلاب کے کام آنا ہے۔ یہ ذخیرہ اصلی حالت میں باقی رہنا چاہئے تاکہ اس جگہ اس سے کام لیا جائے جہاں کے لئے اس کو محفوظ رکھا گيا ہے۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اپنے تمام امتیازات اور عظیم خوبیوں کے ساتھ اپنے خاص فرائض کے ہمراہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا جز ہے۔ اس کو فراموش نہ کریں۔ البتہ میری تشخیص یہ ہے کہ واقعی اور حقیقت میں سپاہ پاسداران کی ذمہ داری دیگر شعبوں سے زیادہ سنگین ہے۔ اس ذمہ داری کے لئے بہت زیادہ دقت نظر اور ظرافت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کی اصلی ذمہ داری انقلاب مخالف اقدامات کے مقابلے میں انقلاب کا دفاع ہے، جس میں خطرات بہت ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس کو سرحدوں کا دفاع بھی کرنا ہے۔ اس وقت عملی طور پر اس کے کندھوں پر دونوں ذمہ داریاں ہیں اور شاید بہت کم مواقع ایسے آئیں گے جب سپاہ پاسداران کے کندھوں پر دوسری ذمہ داری ( یعنی سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری ) نہ ہو۔ بنابریں اس کی ذمہ داری سنگین ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ مسلح افواج کا جز بھی ہے۔
اپنے فوجی بھائیوں اور پولیس کے اہلکاروں کو احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔ دیگر فوجی اداروں کے ارکان کو بھی برادری محبت اور مہربانی کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا کبھی نہ ہو کہ تکبر کی نگاہ سے دیکھیں، اس سے آپ کی منزلت گر جائے گی۔ جیسے ہی ہمارے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ بھائی جو ہمارے پہلو میں بیٹھا ہے، ہم اس سے بہتر ہیں، وہ جہاں ہے وہیں رہے گا لیکن یہ احساس ہوتے ہی ہم گر جائیں گے، ہماری منزلت اس سے نیچے ہو جائے گی۔ ولاترفعنی فی الناس درجۃ الا حططتنی عند نفسی مثلھا (12) دعائے مکارم الاخلاق میں ہم پڑھتے ہیں کہ میرے خدا! لوگوں کی نگاہ میں مجھے بلندی کا ایک درجہ عطا نہ کر الا یہ کہ اسی مناسبت سے میں خود کو ایک درجہ کم سمجھوں۔ یہ بہت اچھا ہے۔ اگر آپ ایک درجہ بلند ہوئے تو اپنی نگاہ میں خود کو ایک درجہ کمتر سمجھیں۔ یہ ہوگا کمال؛ خود کو مسلح افواج کا حصہ سمجھیں۔
ایک اصول اور ہے اور وہ اپنے اندر محکمہ جاتی ضوابط کی پابندی ہے۔ یعنی بھائیوں کی قدردانی اور تنبیہ کا مسئلہ۔ قدردانی اور تنبیہ کے مسئلے کو اہمیت دیں۔ آپ کمانڈر اور افسران ہیں، اپنے ماتحتوں کے ساتھ اس طرح پیش آئیں۔ امیر المومنین ( علیہ السلام) نے اپنے مخلص شاعر یعنی حسان بن ثابت کو جس کو معاویہ والے اپنی طرف کھینچنا چاہتے تھے مگر وہ نہیں جا رہا تھے، ایک گناہ پر کوڑے لگائے۔ انہوں نے کہا یا امیرالمومنین مجھے کوڑے لگا رہے ہیں؟ جبکہ میں نے اتنی آپ کی خدمت کی ہے، آپ کی شان میں اتنے قصیدے کہے ہیں اور آپ کا اتنا دفاع کیا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے اقدام کا کم سے کم مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ پر ہے اور یہ اپنی جگہ ہے۔
اگر اچھا کام کیا تو ہمارا ثواب خدا دے گا۔ اس اصول پر دنیا میں اگر کوئی اجر ہے تو وہ اجر ہمیں ملنا چاہئے۔ اگر کوئی برا کام کیا تو یہ نہ کہیں کہ فلاں صاحب بہت اچھے آدمی ہیں اس لئے ان کے اس برے کام کی سزا نہ دی جائے۔ یہ باریکیاں سپاہ پاسداران کی بنیادوں کو مستحکم کریں گی۔ اگر اس طرح کے روئے سے کام نہ لیا گیا تو سپاہ پاسداران اندر ہی اندر خود کو کھا جائے گی ۔
ہم نے اتنا کہا کہ فوج اور سپاہ پاسداران کی ذمہ داری الگ الگ ہے۔ ہزاروں گھنٹے صرف ہوئے، لوگ بیٹھے اور فوج اور سپاہ پاسداران کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ اس لئے کہ یہ دونوں ادارے ضروری ہیں۔ اس کے باوجود ہم یہ دیکھیں کہ کوئی صاحب شاید اعلا ذمہ داری کے درجے پر فائز ہوں اور کہیں کہ جی ہاں سرانجام فوج اور سپاہ پاسداران ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں گے۔ آپ کی نظر میں ایسے آدمی کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟
کیا واقعی مناسب ہے کہ کچھ لوگ اتنی محنت کریں کہ کسی ادارے کو اس کی جگہ پر منظم کریں اور پھر اس طرح کے لوگ ان کی زحمتوں پر پانی پھیر دیں؟ یہ غلطی، وقت ضائع کرنا اور نقصان پہنچانا ہے۔ اس غلطی پر سزا ملنی چاہئے۔ اگر ہم نے اس طرح کی خلاف ورزیوں پر سزا نہ دی تو سپاہ پاسداران ختم ہو جائے گی۔ اگر آپ نے اپنے زیر کمان دستے میں غلطیوں کا نوٹس نہ لیا تو آپ کو نقصان پہنچے گا اور آپ اندر سے بکھر جائیں گے۔
قرآن اتنی حکمت والا ہے اور پیغمبر اتنے عفو و در گزر کرنے والے ہیں لیکن خدا وند عالم پیغمبر سے فرماتا ہے۔ لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینۃ لنغربنک بھم ( 13) یعنی جو لوگ اندر سے وار لگانا چاہتے ہیں، تخریبی اقدام کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کے دلوں سے امیدیں ختم کر دینا چاہتے ہیں اگر یہ نہ رکیں تو لنغربنک بھم ہم یعنی خدا وند عالم آپ یعنی پیغمبر کو ان کی جان کے پیچھے لگا دے گا۔ قرآن کا لہجہ دیکھئے، کتنا تند اور سخت ہے۔
البتہ افسوس کہ کچھ لوگ یہ کام معاشرے کی سطح پر کرتے ہیں۔ مسلسل دلوں میں مایوسی پیدا کرتے ہیں کہ جناب ختم ہو گیا، جناب سب لے گئے، جناب دشمن ایسا ہو گیا، جناب قدریں یہ ہو گئیں۔
میری صدارت کے دور میں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی زندگی میں اور وہ بھی آپ کے مقتدرانہ زمانے میں اکثر اوقات جو مجھ سے ملاقات ہوتی تھی، میں نے لکھا ہے، اب جو میں نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ جو اب باتیں کرتے ہیں کہ جناب ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا، اس وقت بھی ہمارے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا۔
کچھ لوگوں کو اچھا لگتا ہے کہ کہیں کہ جناب لے گئے، غارت کر دیا، ایسا کر دیا، دشمن کامیاب ہو گیا، دشمن مسلط ہو گیا۔ دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دشمن کی کامیابی اس میں ہے کہ مومنین کے دلوں کو برگشتہ کر دے۔ دشمن کی کامیابی یہ ہے کہ اس مملکت کے بہترین نوجوان اس کشتی نجات نور نجات نہ دیکھیں۔
سخت ترین اوقات میں جب جنگ میں ہم پر وار لگتا تھا تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس عظیم قلب اور اس منور الہی پیشانی کے ساتھ آتے تھے اور امید عطا کرتے تھے۔ ایک واقعے میں ہم پر سخت وار لگا، امام کی خدمت میں آئے اور کہا کہ ہمیں شکست ہوئی ہے۔ فرمایا کہ شکست نہیں تھی، عدم فتح تھی۔ عدم الفتح یعنی کامیاب نہیں ہوئے۔
آپ دیکھیں کہ ایک واقعے کی دو طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہزار افراد مارے گئے، پانچ ہزار افراد مارے گئے، لیکن دو طرح سے اس کی تشریح کی جا سکتی ہے۔ شکست اور عدم الفتح۔ امام کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ کچھ نہیں ہوا ہے۔ آپ کامیاب ہونا چاہتے تھے لیکن ابھی کامیاب نہ ہوئے۔ ہمیشہ اس طرح ہمیں امید عطا کرتے تھے۔ اس طرح معاشرے اور مملکت کو چلاتے تھے۔ اب کچھ لوگوں کا سارا ہم و غم یہ ہے کہ اس کے برعکس عمل کریں۔
اگرچہ مشرقی سلطنت کے ختم ہونے کے بعد بظاہر امریکا طاقتور ہو گیا ہے ، اس وقت پروردگار کے فضل سے، قوت الہی کے بھروسے، پورے وجود سے میرا یقین یہ ہے کہ اگر امریکا اپنی تمام قوتیں اس انقلاب کو زک پہنچانے کے لئے لگا دے تب بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کوشش کرتا ہے، محنت کرتا ہے، کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن ان کا اوج غرور ان کا ضعف ہے۔ میں اس وقت ان ظاہری لیکن اندر سے کھوکھلی طاقتوں کے کمزوری کے نقاط کا احساس کرتا ہوں۔ ان کے تضاد تدریجی طور پر واضح ہوں گے۔
جی ہاں' وہ اسلامی محاذ کے مقابلے پر آئیں گے، اسلامی محاذ اس مارکسی سلطنت سے جس میں اپنے لوگوں کو ڈرا کے اپنے درمیان وہ اتحاد اور وحدت لائے تھے، مختلف ہے۔ ختم ہو گیا، دولت و طاقت کی حکومت کی شکست کی آواز دور سے کانوں میں پہنچ رہی ہے۔
ہمیں اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم قوی ہیں۔ ہمیں اپنے ایمان اور عشق کو اعلا اہداف میں لگانا چاہئے ۔ ہمارے عوام مومن ہیں۔ عوام اسلام کے عاشق ہیں۔ ہمارے عوام نے اپنا سب کچھ اسلام کے لئے دے دیا ہے۔ اتنا ہی کافی ہے کہ ہم مسلمان رہیں اور اسلامی اقدار کے وفادار رہیں، یہ عوام میدان میں باقی رہیں گے۔
جو نا امیدی کا احساس کرتا ہے، یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے دیکھنے میں یا اس کے وجود کی حقیقت میں کیا غلطی اور خلل پایا جاتا ہے۔ ہم کس سے ڈرتے ہیں؟ سپاہ پاسداران کے اندر بھی اسی طرح۔ سپاہ پاسداران کے اندر بھی بعض کو اچھا لگتا ہے کہ مسلسل ان نوجوانوں، سپاہ پاسداران کے ان سپاہیوں اور ان پرجوش نوجوانوں میں اضمحلال پیدا کریں اور انہیں کمزور کریں۔ اس کام کا مقصد کیا ہے؟
بہرحال سب آمادہ رہیں۔ آپ جہاں بھی ہوں، خدمت کے لئے تیار رہیں۔ ومنھم من ینتظر (14) ینتظر یعنی کیا؟ یعنی مرنے کے منتظر ہیں؟ یعنی فریضے کی انجام دہی کے منتظر ہیں۔ کہاں ان کا فرض انہیں آواز دیتا ہے۔ تاکہ وہاں موجود رہیں۔ ہمیں اپنے فریضے کی انجام دہی کے لئے منتظر رہنا چاہئے۔ فریضہ الہی کا جو بھی تقاضا ہو، اسے انجام دینا چاہئے۔ یہ ہمیں کامیاب کرے گا اور بڑی کامیابی تک پہنچائے گا۔
دعا ہے کہ خدا وند عالم آپ کو توفیق عنایت فرمائے اور انشاء اللہ آپ کے پاک اور منور دلوں کو اپنی محبت اور ایمان سے روز بروز زیادہ مانوس کرے ، ہم سب کی صحیح راستے کی ہدایت فرمائے، ہم سب کو اپنے فریضےکی انجام دہی کی توفیق عنایت فرمائے، ہمارے عزیز شہداء کی ارواح مقدسہ اور ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو منور و معطر فرمائے۔ واقعی ان کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اپنا فضل و کرم، اعضائے بدن کا نذرانہ پش کرنے والے اور دشمن کی قید کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ہمارے جانباز سپاہیوں کے جو سخت آزمائش سے گزرے ہیں، شامل حال کرے اور خدا ہمیں ہمارے حال پر نہ چھوڑے، اپنا کرم، ہدایت اور نصرت ایک لمحے کے لئے بھی منقطع نہ کرے اور حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی خوشنودی اور آپ کی مستجاب دعائیں ہمارے شامل حال فرمائے۔

 

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

---------------------------------------------------------------------------
1- یہ آپریشن اکیس مارچ انیس سو بیاسی کو صبح تیس منٹ پر دریائے کرخہ کے مغرب میں، شوش اور دزفول کے مغربی علاقے میں یا زہرا (سلام اللہ علیہا) کے رمزیہ لفظ سے شروع ہوا۔ اس آپریشن میں عین خوش، دشت عباس اور دہلران روڈ، صوبہ خوزستان کے شمال مغربی علاقے، اور کمر سرخ نیز تین سو پچاس اور دو سو دو نمبر کی پہاڑیاں دشمن کے قبضے سے آزاد ہوئیں اور شہر دزفول، اندیمشک، اور شوش فضائیہ کا چوتھا ہیڈکوارٹر، اندیمشک اہواز روڈ اور سیکڑوں گاؤں ، دشمن کی توپوں کی رینج سے خارج ہوئے۔ تینہ کی پہاڑیوں پر ابوغریب کے تیل کے کنویں حاصل ہوئے اور پانچ سرحدی چوکیوں پر قبضہ ہوا۔
2- یہ آپریشن انتیس اپریل انیس سو بیاسی کو صبح تیس منٹ پر کارون کے مغرب، شہر اہواز کے جنوب مغرب اور خرمشہر کے شمال میں یا علی بن ابی طالب کے کوڈ کے ساتھ شروع ہوا۔ اس آپریشن میں شہر خرمشہر، ہویزہ، حمید فوجی چھاؤنی، اہواز- خرمشہر روڈ اور سوسنگرد - ہویزہ روڈ آزاد ہوا، جنوبی ایران کا وسیع علاقہ دشمن کی گولہ باری کی رینج سے خارج ہو گیا اور آٹھ سرحدی چوکیوں پر قبضہ ہوا۔
3- یس؛ 13 اور 14
4- یس ؛ 15
5- یس؛ 15، 16، اور17
6- یس؛ 18
7- یس ؛ 19
8- بقرہ؛ 249
9- سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفاتر کے سربراہوں اور کمانڈروں کے چوتھے اجلاس (25-6-1370 مطابق 15-9-1991 )
10- نہج البلاغہ ، خطبہ 50
11- بحارالانوار ، ج 32،ص 406
12- صحیفہ سجادیہ ، دعائے مکارم الاخلاق
13- احزاب؛ 60
14- احزاب؛ 23