ان عناصر نے پہلے تو حیلوں اور بہانوں سے اور پھر باقاعدہ مسلحانہ کارروائيوں کے ذریعے انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ اس سازش کے مقابلے میں جہاں انقلاب سے وابستہ مختلف حلقوں اور ملک کے مختلف علاقوں کے عوام نے قابل تعریف ذہانت و شجاعت کا مظاہرہ کیا وہیں صوبہ مازندران کے عوام نے شجاعت کی ایک تاریخ رقم کر دی۔ مازندران کے عوام کا انقلابی اقدام چھبیس جنوری کو اپنے اوج پر پہنچا اور اس دن لوگوں نے اپنی جان پر کھیل کر تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اس دن متعدد افراد شہید بھی ہوئے۔ اسی مناسبت سے چھبیس جنوری دو ہزار نو کو مازندران کے عوام نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی، اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے چھبیس جنوری کے قیام کی خصوصیات پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ملک کے حالات خاص طور پر جون دو ہزار آٹھ کے دسویں صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں پیش آنے والے واقعات پر گفتگو اور ملک کے اندر دشمنوں سے آس لگانے والے عناصر پر سخت نکتہ چینی کی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

اپنے تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں کہ جنہوں نے ایک لمبی مسافت طے کرکے یہاں آنے کی زحمت قبول کی اور آج حسینیۂ ( امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کو جوش و خروش سے معمور دلوں کے ساتھ اپنے عاشقانہ ورود سے روشن و منور کیا۔ میرے عزیز بھائیواور بہنو! خصوصا شہدائے معظم کے خاندان والو! محترم علماء اور حکام کی صف سے تعلق رکھنے والے خدمتگار محنت کشو! آپ سب کی خوشگوار آمد نے 26 جنوری کی ان عظیم یادوں کو، جو ملت ایران کی سرفروشی کے اہم کارناموں میں سے ہے اور جس کا تعلق شہر آمل کے عوامی افتخارات سے ہے، ذہنوں اور خیالوں میں ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔
جی ہاں! میں بھی یہی مانتا ہوں کہ یہ پرشکوہ یادیں اور تاريخ انقلاب کے فیصلہ کن بے مثال واقعے ذہنوں میں پھیکے نہ پڑنے پائیں، ہماری نوجوان نسل کو ان یادگار واقعوں کی صحیح معلومات ہونی چاہئے تا کہ وہ اس کا جائزہ لیں اور اپنے شاندار مستقبل اور بلند و بالا مقاصد کے لئے ان کو چراغ راہ قرار دیں۔ یقینا مازندران کے افتخارات اور اس مناسبت کے تحت عرض کر دوں، خصوصا شہر آمل کے لوگوں کے افتخارات کم نہیں ہیں چاہے وہ خدا کی راہ میں جہاد و قربانی کا میدان ہو، چاہے وہ علم و فقاہت اور عرفان و معرفت کی وادی ہو، حق یہ ہے کہ آمل کا چہرہ ایک روشن و درخشاں چہرہ رہا ہے۔ آج بھی الحمد للہ آمل کے بزرگ علماء حوزۂ علمیہ کے افتخارات اور ملک کے اہم اور ممتاز ذخیروں میں شمار ہوتے ہیں، مسلط شدہ آٹھ سالہ جنگ کے عظیم امتحان میں بھی، چاہے وہ شہر آمل ہو، چاہے وہ مازندران کا وسیع و عریض صوبہ ہو، ملک کے پرافتخار حصوں میں رہا ہے۔ میں اس زمانے میں بھی چاہے وہ مازندران میں تعینات لشکر ہو، چاہے رضاکار دستے ہوں، وہاں کے صاحب ایثار نوجوانوں ہوں، میں پوری آشنائی رکھتا ہوں، ان کو قریب و دور سے پہچانتا ہوں، ان کی مجاہدت اور قربانیوں سے واقف ہوں، یہ وہ باتیں ہیں جو انقلاب کی یادوں سے کبھی محو نہیں ہو سکیں گی ایک عمارت جسے آپ آج نہایت ہی مستحکم، پرشکوہ اور سربلند دیکھ رہے ہیں، کس نے اس کی اینٹیں اور اس کے پتھر ایک پر ایک رکھکر، یہ عمارت کھڑی کی ہے؟ کس نے اس منصوبے کی نقشہ کشی کی ہے اور اس عمارت کو وجود عطا کیا ہے؟ کیا ان واقعوں کا کردار اور ان شخصیتوں کے کارنامے، ان کے جہاد، ان کی قربانیاں اور ان کا احساس ذمہ داری جو اس عمارت کو آہستہ آہستہ اوپر اٹھانے، بلندی عطا کرنے اور عمارت کی شکل دینے اور پرشکوہ بنانے میں موثر رہا ہے فراموش کرنا ممکن ہے؟! ایک بڑی بھول جو بعض اوقات پیش آئی ہے ان ہی عظیم کرداروں کی طرف سے اپنی نگاہیں بند کر لینا کہی جا سکتی ہے۔ اسے ہزار مورچوں کے شہر سے تعبیر کرنا کیا کم ہے ؟ اور کوئی چھوٹی بات ہے؟ 26 جنوری کا واقعہ اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ہمارے رہبر کبیر امام خمینی (رح) نے بھی اپنے تاریخی وصیت نامہ میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس کو یادگار بنا دیا ہے۔ یعنی یہ کبھی فراموش نہ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں فراموش نہ ہونے پائے؟ اس لئے کہ تاریخی حوادث اور واقعات بھی درس ہیں، عبرت ہیں، ایک ملت پر گزرنے والے واقعات، وہ واقعات ہیں جو مختلف ادوار میں اکثر و بیشتر دہرائے جاتے ہیں، آج تقریبا 28 سال اس واقعے کو گزر چکے ہیں لیکن اسلامی جمہوریۂ ایران کی راہ تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے دشمن بھی نہیں بدلے ہیں، لہذا جو کچھ وہاں پیش آیا ممکن ہے اس وقت کے لئے اور آئندہ کے لئے اس وقت تک کہ جب تک ملت ایران بحول و قوت الہی اس اصول اور اس انقلاب سے وابستہ ہے یہ واقعہ عبرت ہو، درس ہو، لہذا کبھی فراموش نہیں ہونا چاہئے ۔
آمل کے چھبیس جنوری کے (تاریخی قیام) کی خصوصیات کی بابت میں ایک بات اور عرض کر دوں، یہ ہزار مورچے کا کیا مطلب ہے ؟ ظاہر واقعہ یہ ہے کہ خود شہر کے اندر عوام نے حملہ آور شرپسند گروہوں سے مقابلے کے لئے جگہ جگہ مورچے بنائے تھے۔ اب ان کی تعداد ہزار یا کم و بیش جو بھی رہی ہو، لیکن میں اس کی ایک اور انداز سے تفسیر کرتا ہوں، یہ مورچے شہر کی مختلف سڑکوں پر بنائے گئے مورچے نہیں تھے، یہ دلوں کے مورچے تھے اور ان کی تعداد بھی ہزار میں محدود نہیں تھی، ہزاروں مورچے تھے، تمام مومنین کی تعداد کے مطابق جذبوں سے مالامال تمام با شرف انسانوں نے دشمن کی یلغار کے خلاف ایک مورچہ بنا رکھا تھا۔ اگر ایک قوم کسی وقت ایک ہدف و مقصد کے لئے نکل پڑے لیکن اسے معلوم نہ ہو کہ راستے میں کیا خطرات پیش آ سکتے ہیں؟ کون سے لوگ کہاں کہاں کمین میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ ان سے مقابلے کے لئے کیا کرنا ضروری ہے؟ ان سب کا خیال کئے بغیر بس نکل پڑے، اپنی تمام ذمہ داریوں سے خود کو آزاد کرکے بس چل پڑے، کسی چیز کا خیال نہ ہو تو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پوری قوم نے ایک عظیم ہدف و مقصد کے تحت ایک ہی رخ پر قدم بڑھائے مگر راستے میں ہی منھ کی کھانا پڑی، اور کبھی تو ایسی زبردست چوٹ لگتی ہے کہ پھر صدیوں اٹھ نہیں پاتے۔ ان کی مشکل یہیں سے شروع ہوئی۔ نہیں معلوم تھا کہ کیا ان کے انتظار میں ہے؟ خود کو ان مشکلات سے مقابلے کے لئے تیار نہیں کیا بس نکل پڑے؛ ماضی کے سبق ہماری مدد کرتے ہیں کہ ہم اپنی راہ کو سمجھیں، پہچانیں کہ کہاں کہاں دشمنوں نے کمین بنا رکھی ہے؟ اور کمین میں بیٹھنے والے کون لوگ ہیں؟ ان کو بھی پہچانیں۔
اسلامی انقلاب اپنی ان عظمتوں کے ساتھ کامیاب ہوا، لوگ خود اپنے تن بدن کے ساتھ جان ہتھیلی پہ لئے۔ اسلحوں سے لیس، ظالم و جابر حکومت کے کارگزاروں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انقلاب کو کامیاب بنایا؛ پھر ان ہی عوام نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا اور اسلامی جمہوری نظام اپنے لئے منتخب کیا۔ ایک شریف و انصاف پسند انسان کو لوگوں کے اس مطالبے کے سامنے کیا کرنا چاہئے تھا؟! بعض لوگ میدان میں نکل آئے، لوگوں کی حمایت و طرفداری کا دعوی کیا، خود کو جمہوریت نواز کہتے ہوئے بزبان خود اپنے آپ کو طرفدار خلق قرار دیا اور پھر اسی خلق کے خلاف، کہ جنہوں نے اس نظام کو اتنی بھاری قیمت ادا کرکے قائم کیا تھا، مقابلے پر اتر آئے اور مخالفت شروع کر دی، ان کے درمیان منافق تھے، کھلے ہوئے کافر تھے، مغرب کے طرفدار تھے اور دین کا تظاہر کرنے والے بھی تھے؛ یہ سب کے سب ایک ہو گئے تھے، ایک محاذ بنا کر اسلامی نظام کے خلاف، ملت ایران کے مقابلے میں ایک ساتھ اقدام کر رہے تھے۔ لوگوں کی حمایت کے دعویدار تھے اور لوگوں سے ہی لڑ رہے تھے! عوام کی رائے اور جمہوریت کی طرفداری کے دعویدار تھے اور عوامی رائے اور عوامی انتخابات کے نتائج سے بر سر پیکار تھے؛ روشن خیالی، آزاد فکری اور روشن خیالی کے دعوے کرتے تھے اور جمود فکری سے کام لیکر مغربی مفکرین کے معین کردہ دائروں میں حرکت کیا کرتے تھے کہ جن میں بدخواہی اور بددلی کی آمیزش تھی۔ آئے اور ملت ایران کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے، پہلے تو روشن خیالی یا اس سے ملتی جلتی ترقی پسند باتیں شروع کیں اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)، اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام سے متعلق امام خمینی(رح) کی بنیادی باتوں پر اعتراض کیا، تنقید و تبصرے سے کام لیا اور بیانات جاری کئے پھر آہستہ آہستہ رو رعایت سے بھی دست بردار ہوکر میدان میں اتر آئے اور فکری و نظریاتی جنگ اور سیاسی مقابلہ آرائی کو مسلحانہ جنگ اور فتنہ گری میں تبدیل کر دیا یہ سب ہمارے ملک کے اندر پیش آیا ہے، تاریخ کا حصہ نہیں ہے اسی انقلاب کی پہلی دہائی کی بات ہے، ان لوگوں نے مخالفت شروع کر دی؛ بجائے اس کے کہ بیٹھتے غور و فکر کرتے، دیکھتے کہ ہمارے ملک کی مشکلات کیا ہیں؟ ہمارا ملک اس وقت کس قدر مشکلات سے دوچار تھا؛ کچھ مشکلیں تو زمانۂ گزشتہ سے ( ورثہ میں) ملی تھیں اور کچھ انقلاب کے بعد ہم پر مسلط کر دی گئی تھیں، چاہئے تو یہ تھا کہ ان مشکلات کے حل میں مدد کرتے، ملک کے حکام کی مدد کرتے اگر ان کی نگاہ میں تھا کہ رہنمائی کر سکتے ہیں تو رہنمائی کرتے؛ اگر کوئی بوجھ اٹھانے میں مدد کر سکتے تھے تو مدد کرتے مگر ہاتھا پائی پر اتر آئے، مقابلہ آرائي کی، اعتراض اور برائیاں کرنے لگے، اور پھر جہاں کہیں بھی موقع ملا لوگوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی، مختلف شعبوں میں۔ ملک سرحدوں پر جنگ میں مشغول تھا، اس جنگ کی طرف سے بھی بے توجہی سے کام لیا، ملک کے اندر تہران کی ان ہی سڑکوں پر ، جہاں کہیں کسی چوراہے پر ممکن ہوا، جس کسی موڑ پر انکے ہاتھ پہنچ سکے انہوں نے اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام کی راہ میں روڑے اٹکائے اور مقابلے کئے؛ اسلامی جمہوریہ کی پہچان اسکے عوام کی پہچان، عوام کے ایمان اور عوام کے عزم و ارادے کے سوا اور کیا ہے؟! اس وقت بھی یہی صورت ہے، ہم کیا ہیں؟ ہماری کیا حقیقت ہے؟ ہم کچھ نہیں ہیں۔ خداوند متعال نے ان عوام کے ذریعے، انکے دلوں میں اس نظام کی حمایت پیدا کی ہے ھوالّذی ایّدک بنصرہ و بالمؤمنین ( انفال / 62 ) ( اسی نے آپ کی تائید اپنی اور صاحبان ایمان کی نصرت و مدد کے ذریعے کی ہے ) جی ہاں! خداوند متعال نے اپنے پیغمبر(ص) سے فرمایا ہے کہ آپ کا پروردگار مومنین کے ذریعے آپ کی مدد کرتا ہے؛ آج اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں بھی یہی صورت ہے اور اس وقت بھی یہی صورت تھی؛ ہمارے پاس کوئی اور وسیلہ نہیں ہے، لوگوں کا ایمان ہی ہمارا وسیلہ ہے جو ہر طرح کے ہتھیار سے زيادہ کارگر ہے اور ہر وسیلے سے زيادہ موثر ہے؛ اس زمانے میں بھی ایسا ہی تھا، لوگ میدان میں آ گئے اور ان سازشوں پر جھاڑو پھیر دیا؛ یقینا ایک سازش پر جھاڑو پھر جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سازش ختم ہو گئی۔ دشمن جاگ رہا ہے، اس نے ایک کھیل اور شروع کر دیا، ایک سازش اور رچی، ایک ماجرا اور کھڑا کر دیا۔ اب اگر عوام بھی ہوشیار ہیں تو فرق نہیں پڑے گا۔ سو سازشیں وہ رچتے رہیں، عوام ان کے مقابلے میں کھڑے رہیں گے اور اپنی راہ پر آ گے بڑھتے چلے جائیں گے، ملت ایران کا عظیم انقلاب متوقف نہیں ہوگا۔
آگے بھی بڑھتے جائیں گے اور مخالفتوں سے، دشمنیوں سے اور رکاوٹوں سے مقابلہ بھی کرتے رہیں گے۔ اب تک یہی کیفیت رہی ہے کہ اس تیس سال کے عرصے میں اسلامی انقلاب اسی طرح آگے بڑھتا رہا ہے، غلطیاں اسلامی جمہوریہ کے مخالفین نے کی ہیں اور جب تک یہ خطائیں جاری رہیں گی جو کام بھی کریں گے ممکن ہے، لوگوں کو کچھ آزار و اذیت سے گزرنا پڑے لیکن اس کا زيادہ نقصان خود ان ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ پہلی غلطی یہ ہے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے مخالفین زیادہ تر خود کو عوام سے بالاتر سمجھتے رہے ہیں، دوسری غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ان عوام کے دشمنوں سے امید باندھ رکھی ہے اور انکے دوست بن گئے ہیں۔ یہ دوبڑی غلطیاں ہیں۔ جب یہ لوگ خود کو عوام سے بالاتر خیال کریں گے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ اگر عوام نے ایک قانونی اقدام اور حق کی بنیاد پر ایک چیز اپنے لئے پسند کی یا ایک چیز ناپسند قرار دے دی، انتخاب کیا، کوئی اقدام انجام دیا تو یہ لوگ کہیں گے، نہیں ہم یہ نہیں چاہتے۔ یہ عوام پسندی ہے؟! یہ جمہوریت نوازی ہے؛ ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔ خود کو عوام سے بالاتر سمجھنا؟! یہاں پتہ چلتا ہے کہ دعوے معیار نہیں ہیں کہ زبان سے عوامی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ عمل میں عوام دوست ہونا چاہئے، یہ ان کی پہلی مشکل ہے؛ دوسری مشکل یہ ہے کہ ایرانی عوام کے دشمنوں سے، کہ جن کی دشمنی ثابت ہو چکی ہے اور بالکل واضح ہے، یہ لوگ امید باندھے ہوئے ہیں؛ اس تیس سال کے دوران ایرانی عوام کا دشمن کون رہا ہے؟ سب سے پہلے نمبر پر امریکہ اور صیہونیت ہے، اسلامی جمہوریہ کے لئے ان سے بڑے دشمن کا ہمیں علم نہیں ہے، پہلے دن سے امریکی حکومت اور صیہونی نظام اور دنیا کے صیہونیت نواز اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ آج بھی حق و انصاف یہی ہے کہ دشمنوں میں سخت ترین دشمن یہی لوگ ہیں۔ میں جس وقت نگاہ اٹھاتا ہوں دیکھتا ہوں کہ بعض مغربی حکومتیں کبھی کبھی ایک بے ربط و بے معنی سی بات کرتی ہیں؛ لیکن ان کے محرک یہی صیہونی عناصر ہیں۔ اس کا باعث وہی طبقہ ہے جو امریکی حکومت پر مسلط ہے، وہ امریکی حکومت اور امریکی انتخابات پر بھی تسلط رکھتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ہدایت کار کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ لہذا یہی لوگ ملت ایران کے بدترین دشمنوں میں ہیں ۔
اب اگر وہ لوگ جو ایرانی عوام کے مقابلے میں کھڑے ہیں اپنی امیدیں ان لوگوں سے وابستہ کر لیں تو یہ ان کی دوسری غلطی ہے جو ان سے سرزد ہوئی ہے۔ دشمن سے امید باندھ رکھی ہے؟! جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا کھلا ہوا دشمن میدان میں ہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے اور پہچان لینا چاہئے؛ اگر خطا سرزد ہوئی ہے ہم نے کوئی غلطی کی ہے تو اپنی غلطی کو برطرف کر لینا چاہئے۔
روز اول سے ہی امریکیوں نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں رچی ہیں۔ واضح ہے کہ یہ سازشیں بے اثر ہی ثابت ہوئی ہیں۔ اگر یہ سازشیں بے اثر نہ ہوتیں تو اب تک اسلامی جمہوریہ کا کوئی نام و نشان باقی نہ ہوتا، جبکہ آپ کے سامنے ہے کہ اسلامی جمہوریہ آج روز اول کے مقابلے میں دسیوں گنا قوی تر ہے لہذا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سازشیں بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔ اس وقت بھی مسلسل نئے نئے منصوبے بنایا کرتے ہیں، اب بھی سازشیں رچا کرتے ہیں، عبرت حاصل نہیں کرتے، مجھے تو تعجب ہوتا ہے! یہ لوگ ماضي کے بارے میں نہیں سوچتے کہ اس قدر سازشیں رچیں، اسلامی جمہوریہ کے خلاف اس قدر پیسے خرچ کئے، اتنا زيادہ یہاں وہاں یہ دیکھا اور وہ دیکھا، ملک کےاندر مہرے پالے، بیرون ملک ان کو اور ان کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف صف آرا کیا، کوئی اثر نہیں ہوا، پھر، دوبارہ سر جوڑکر بیٹھے ساڑھے چار کروڑ ڈالر کا بجٹ پاس کر دیا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ایران کے انقلاب کو ختم کر دیں۔ بجٹ پاس کر رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کو شکست دے دیں! اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کردیں!!
دیکھئے تو! یہ دشمن کس قدر بے بسی کے شکار ہیں؟! ٹھیک ہے تم نے کئی دہائیوں تک، ساڑھے چار چار کروڑ ڈالر اب تک خرچ کئے ہیں؟ تم نے اسلامی جمہوریہ کو شکست دینے کے لئے کس قدر سفارتی عمل انجام دئے۔ اقتصادی بائیکاٹ کئے، طرح طرح کی، کیسی کیسی سازشیں رچیں، جاسوس بھیجے، جاسوس تیار کئے، کیا فائدہ حاصل ہوا کہ ایک بار پھر چاہتے ہو اس طریقے سے داخل ہو اور ملت ایران کو بہ خیال خود انقلاب سے الگ کردو؟! اس بات کو دشمن نہیں سمجھتا!! یہ وہی الہی سنت ہے؛ یہ وہی آنکھ اورکان بند ہو جانا ہے کہ (جس کے نتیجے میں ) خدائے متعال سے غافل دشمن حقائق کو نہیں سمجھ پاتے؛ یہی دشمن کو غافل بنا دینا ہے فَسَیُنفِقُونَھَا ثُمّ تَکُونُ عَلَیھمُ حَسرَۃً ( انفال / 36) ( پھر وہ اسے خرچ کریں گے اور اس کے بعد یہ خرچ ان کے لئے افسوس کا باعث بھی بنے گا) پیسے خرچ کر رہے ہیں، بعد میں ان کو حسرت و افسوس بھی کرنا پڑے گا کیونکہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کتنی مرتبہ بیٹھے ہوں گے، منصوبہ بندی کی ہوگي، کام کئے ہوں گے کہ کسی طرح تہران میں آشوب برپا کرنے کا کوئی بہانہ ہاتھ آ جائے، خدا ہی جانے کتنی مدت پہلے سے یہ لوگ بیٹھے ہوں گے اور منصوبے تیار کئے ہوں گے۔ نتیجہ کیا حاصل ہوا ؟ اس کے علاوہ کچھ ہوا کہ عوام جس قدر تھے اس سے زیادہ بیدار و ہوشیار ہو گئے؟ اگر کوئی پہلے سوچتا رہا ہو کہ اب میدان میں آنے اور اسلامی جمہوریہ کی حمایت کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے تو ان واقعوں کے بعد سب کو محسوس ہونے لگا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پشتپناہی کے لئے ہر وقت میدان میں رہنا چاہئے۔ کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ کھیل جو دشمن کھیل رہا ہے اسلامی جمہوریہ سے غنڈہ ٹیکس لینے کی فکر میں ہے؛ انقلاب کے آغاز میں بھی ایسا ہی تھا، بعض عناصر بندروں کے ناچ کا اہتمام اس لئے کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کو مجبور کریں کہ وہ اقتدار اعلی میں ان کو بھی سہیم و شریک کر لے۔ چاہے وہ استحقاق نہ رکھتے ہوں، عوام ان کو پسند نہ کرتے ہوں، انہیں عوام کی پشتپناہی حاصل نہ ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے بین الاقوامی دشمن اس طرح کے جنجال کھڑے کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کو غنڈہ ٹیکس دینے پر مجبور کریں۔ اسی طرح جیسے بہت سی حکومتیں ادھر کسی طرح کے خطرے کااحساس ہوا، اپنے بڑے آقاؤں کو غنڈا ٹیکس دینے پر تیار ہوجاتی ہیں؛ مالی گھوس اور تاوان دیں یا سیاسی غنڈہ ٹیکس اور تاوان دیں؛ امام ( خمینی رح) نے غنڈہ ٹیکس نہیں دیا، اس کو سب جانتے ہیں، ہم بھی کسی کو ملت ایران کی طرف سے اور اپنی طرف سے غنڈہ ٹیکس نہیں دیں گے۔ ہم ایک حق بات جانتے ہیں اور اسی حق بات پر ڈٹے ہوئے ہیں؛ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے، ہم ایک ایسی قوم کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں کہ ہم پر دنیا کی طاقتیں مسلط نہ ہوں، ہم خود اپنے امور چلانے کا اختیار رکھتے ہوں، ہم ایک ایسی ملت بننا چاہتے ہيں جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ترقی کی طرف پیش قدم ہو۔ ہم ایک ایسی ملت ہونا چاہتے ہیں جو اپنا مسلمان ہونا صرف زبانی دعوے کے بجائے عمل سے ثابت کرے۔ ہم الہی احکام پر عمل کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہمارا معاشرہ ایک مسلمان معاشرہ ہو، اسلامی معاشرہ ہو۔ ہم کو یہ پسند نہیں ہے کہ مادہ پرست مفکرین کے نظریات اور خیالی تانے بانے اور مغربی سیاست دانوں کی سیاست ہماری اپنی زندگی میں دستور عمل کے طور پر قبول کی جائے۔ ہم حکم خدا پر چلنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ جرم ہے؟ ہم کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے اگر ہم ایک مسلمان کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو طاقتور ہونا پڑے گا تا کہ ہم دشمن کے مقابلے میں خود اپنا، اپنے اہداف و مقاصد کا اور اپنے عقائد کا دفاع کر سکیں۔ ہم طاقتور ہوں تا کہ اپنے ملک کے حقوق اور ایک ملت کی حیثیت سے اپنے حقوق کا ہم خود دفاع کریں۔ ہم اس فکر میں ہیں۔ کیا یہ ایک ملت کے لئے جرم ہے؟ معلوم ہوا ہماری بات حق ہے اور ہم اپنے اس حق پر قائم و استوار ہیں اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ جس وقت حق و باطل میں جنگ ہو اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں اگر ارباب حق سچے ہوں اور حق پر ثابت قدم رہیں تو یقینی طور پر باطل کو شکست ہوگی۔ ہمارا تجربہ بھی یہی کہتا ہے۔ ہم نے تیس برس کی اس مدت میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ باطل کے خلاف ڈٹے رہے اور آگے بڑھتے رہے ، آپ نے دیکھا ہے جہاں کہیں بھی پسپائی اختیار کی گئي ایک طرح کی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے یہ اس لئے ہوا کہ ہمارے ثبات و استقامت میں سستی پیدا ہوگئی تھی اور جہاں بھی ڈٹ گئے، آگے بڑھے ہیں آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ جو چیز ہم پر لازم ہے وہ یہ کہ عوام کی ایک ایک فرد، حکام ہوں یا غیر حکام خاص طور پر ہمارے نوجوان اور وہ لوگ کہ جن کا کلام اور جن کی باتیں اثر رکھتی ہیں، وقت ضرورت میدان میں اپنی موجودگي کے تعلق سے اپنے احساس ذمہ داری کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ کوئی بھی شخص یہ نہ کہے کہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سب کے سب ذمہ دار ہیں، ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلحہ باندھ کر سڑکوں پر نکل آئیں اور پریڈ شروع کر دیں بلکہ جو کام بھی کررہے ہیں (اس کے سلسلے میں) ذمہ داری کا احساس کریں انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام یعنی اسلام کی پشتپناہی، عوام کے حقوق کی پشتپناہی یعنی ملک کی عزت و سرافرازي کی حمایت و پشتپناہی؛ یہ پہلی شرط ہے۔ ہم سب کے یہاں ذمہ داری کا یہ احساس ہونا چاہئے اور میں دیکھ رہا ہوں ذمہ داری کا یہ احساس ہم سب کے یہاں موجود ہے۔ اس بات کو ملک کے عوام نے ثابت کر دیا ہے اور ثابت کر رہے ہیں۔ گیارہ فروری ( اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن ) نزدیک ہے۔ عشرۂ فجر میں ہم داخل ہونے والے ہیں، عوام الناس نے اپنی موجودگي، اپنی آمادگی، اپنی زندگی اور سرور و نشاط کا عندیہ دے دیا ہے اور ضرورت ہوئی تو پھر دنیا کو دکھائیں گے۔ ملک کے حکام کو علی الخصوص، اپنی تمام تر سعی و کوشش بروئے کار لانا چاہئے تاکہ ملک و قوم کے مسائل اور مشکلات ناخن تدبیر کے ذریعے، مسلسل جد وجہد اور کبھی نہ تھکنے والے جذبوں کے ذریعے ، پورے ذوق و شوق اور خدا پر بھروسے اور امداد و استعانت کی دعاؤں کے سہارے حل و برطرف کریں۔ میرا مقصود صرف سیاست اور امن و سلامتی کی مشکلات نہیں ہے، یہ تو جزئی مشکلات ہیں، ملک کی ترقی، ملک کا اقتصاد، علمی فروغ اور بہت سے دوسرے سماجی مسائل حل کرنا بھی حکام کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے تینوں محکموں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) کے ارکان اور دوسرے تمام حکام اپنے فرائض سے آگاہ ہیں، انہیں ملت کے لئے کام کرنا چاہئے۔ کام، کام اور صرف کام؛ تدبیر، تدبیر اور صرف تدبیر۔ ایک لمحے کے لئے بھی بے توجہی نہ برتیں، ہم نے آگے بڑھنے کے لئے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ یہ قدم بیچ میں رکنا نہیں چاہئے۔ ہم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں اسی طرح، اسی رفتار کے ساتھ بڑھتے رہنا چاہئے۔ رفتار میں اور زیادہ تیزی کی ضرورت ہے اور ہر رخ سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، مسدود نقطوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ عوام الناس کو بھی حکام کے سلسلے میں ان پر اعتماد کرنا اور انکے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہئے۔ حکام پر اعتماد اور ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی مسئلے میں حکام کو یاد دہانی بھی نہ کرائیں۔ جی نہیں! جہاں کہیں لازم ہو تنقید بھی کرنی چاہئے۔ تنقید ضرور کریں، لیکن ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ دشمن کا ایک مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو ملک کے حکام کے بارے میں بے اعتماد کر دیں۔ یہی تو دشمن کا ہتھکنڈہ ہے۔ تمام لوگوں کا، صدر سے لیکر تحت تک، عمومی فریضہ یہ ہے کہ تمام انقلابی میدانوں میں، ملک کے تمام دفاعی میدانوں میں، دشمن کے بکھرے ہوئے محاذ کے مقابلے میں ایک ہوکر ثابت قدم رہیں۔ چنانچہ خوش قسمتی یہ ہے کہ دشمن کا یہ محاذ بھی تیس سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ پسپائی کا شکار اور مشکلات سے دوچار ہے۔ افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں، عراق کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، پاکستان میں اسیر ہیں اور اب تو خود کو یمن میں بھی گرفتار کر چکے ہیں۔ ہمارے علاقے کی ملتوں سے ٹھنی ہوئی ہے، خود اپنی ملتوں سے بھی الجھے ہوئے ہیں، یورپ میں مشکلوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ دشمن کے اس محاذ کے خلاف ثابت قدمی کا احساس، اپنی موجودگي کی ذمہ داری کا احساس، ہر ایک کا فریضہ ہے۔ حکام کا فریضہ کام کرنا، وقت کو خدمت کے لئے غنیمت سمجھنا، عوام الناس کی خدمت کے لئے خود کو وقف کر دینا اور ہر لمحے اور ہر گھڑی کو کام کے لئے غنیمت خیال کرنا ہے تاکہ لوگوں کی گرہیں وا ہوں اور ان کی مشکلات برطرف ہوں۔ حکام کے سلسلے میں لوگوں کی عمومی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان پر اعتماد کریں، ان کے ساتھ رہیں، پشتپناہی اور مدد کریں۔ اگر کوئی مدد کے لئے کوئی نظریہ رکھتا ہے تو پیش کرے، اگر کوئی اعتراض ہے تو اپنا اعتراض پیش کرنے میں بھی کوئي حرج نہیں ہے لیکن اعتراض کی نوعیت مقابلہ آرائی کی نہ ہو، ہمراہی ہو جس طرح محاذ کے دو سپاہی ایک ہی مورچے پر ساتھ ساتھ بیٹھتے ہیں، ممکن ہے ایک دوسرے پر اعتراض کرے کہ کیوں تم نے پاؤں پھیلا رکھے ہیں، یا تم کو نیند کیوں آرہی ہے؟! لیکن یہ ایک دوسرے کے خلاف اسلحے نہیں اٹھاتے۔
میرے عزيز دوستو! یاد رکھئے کہ قدرت کے ہاتھ اور الہی ارادے اور فیصلے، بے شمار شواہد اور قرائن کے مطابق، اس ملت کے پشتپناہی اور تائید کرتے آئے ہیں۔ انشاء اللہ حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ) کی مقبول و مستجاب دعائیں آپ کی ملت کے شامل حال ہوں گی اور یہ یاد رکھئے کہ خداوند متعال اپنے فضل و توفیق کے تحت اس ملت کو اپنے بلند مقاصد اور عظیم آرزوؤں کے حصول میں کامیاب کرے گا اور انشاء اللہ دشمن کو جو آپ کے مقابل کھڑے ہیں ذلیل ار رسوا کرے گا، وہ دھول چاٹنے پر مجبور ہونگے۔
پروردگارا! اس ملت کے ساتھ اس کے ایمان کے مطابق، اس کی نیتوں اور اس کے پاکیزہ دلوں کے مطابق برتاؤ کر، ہمارے عزيز و محترم شہداء کو آمل کے حادثے میں شہید ہونے والوں اور صوبۂ مازندران کے شہیدوں کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے رہبر کبیر امام خمینی (رح) اور شہداء کی روحوں کو ائمہ ھدی علیہم السلام کے ساتھ محشور فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ