بسم اللہ الرحمن الرحیم

کاروباری اور تاجر بھائیوں اسی طرح کارخانوں اور پیداواری یونٹوں نیز بازار میں لین دین اور تجارت سے اور اسلامی انجمنوں سے تعلق رکھنے والے تمام بھائیوں کو جو یہاں تشریف لائے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں۔ دعا ہے کہ خداوند عالم ان فرائض کی ادائیگی اور اس بار گراں سے عہدہ بر آ ہونے میں جو ہمارے کندھوں پر ہے، ہماری ہدایت کرے اور اپنا لطف و کرم ہمارے شامل حال رکھے۔
اسلامی ملک اور نظام میں کاروباری طبقے کے ماضی کے ادوار سے آج تک ایک بات تسلیم کی گئی ہے کہ تاجر برادری، کاروباری حضرات اور وہ لوگ جو خرید و فروش کے کام میں مصروف رہے ہیں، وہ دین پر عمل کرنے والے، دینی عقیدہ رکھنے والے، علمائے دین پر یقین رکھنے والے اور ہمیشہ ان کا ساتھ دینے والے رہے ہیں۔ یہی دینداری اور علماء سے تعلق اس بات کا باعث ہوا ہے کہ جس میدان میں، جدوجہد اور گوناگوں سیاسی و دینی معاملات میں جہاں علماء رہے ہیں وہاں تاجر برادری اور کاروباری حضرات کی موجودگی یقینی رہی ہے۔ چنانچہ علمائے کرام نے جدوجہد کے دوران، چاہے وہ حالیہ تحریک کی جدوجہد رہی ہو یعنی ساٹھ اور ستر کے عشرے کی جدوجہد یا اس سے پہلے کی، جب بھی یہ چاہا ہے کہ عوام کی واضح موجودگی کا ثبوت دیں تو حکم دیتے تھے کہ بازار بند کر دئے جائیں اور تاجر نیز کاروباری حضرات بازار بند کر دیتے تھے۔ یعنی علماء کی حمایت کرتے تھے۔ اس کا بہت زیادہ اثر ہوا ہے۔ جابر حکومتیں بھی اس کو سمجھ گئی تھیں۔ اس لئے ظالم شاہی حکومت کے دور میں مختلف طریقوں سے اس عوامی لشکر کو، ڈرا دھمکا کے، مرعوب کرکے، بھاری ٹیکس لگاکے یا پروپیگنڈوں کے ذریعے علماء سے الگ کرنے کی کوشش کی گئ لیکن اکثر اوقات یہ کوشش بے اثر رہی ہے۔
ابتدائے انقلاب سے ہی ہمارے تاجر اور کاروباری حضرات نے انقلاب کے تمام میدانوں میں، جلوسوں میں، محاذوں پر اور مالی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ بنابریں ہم اس طبقے کو ایک انقلابی اور اسلامی طبقہ سمجھتے ہیں۔ انقلابی کا مطلب یہ ہے کہ انقلابی موقف پر باقی رہیں۔ یعنی جہاں بھی انقلاب کو ان کی ضرورت ہو، وہاں موجود رہیں۔ ماضی کے تمام ادوار میں اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے دور کے اہم حصے میں ملک کی کاروباری برادری کی نسبت یہ بات ہمیشہ دیکھی گئی ہے، اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کرنا چاہئے۔
بعض لوگوں کو عادت ہو گئی تھی اور اب بھی کچھ لوگ اس کے عادی ہیں کہ تاجر اور کاروباری برادری کی مطلقا برائی کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ہاں غیر اسلامی افکار جیسے مارکسی افکار وغیرہ میں تاجر اور کاروباری برادری کا وجود غیر ضروری اور ایک اضافی چیز سمجھا جاتا ہے۔ یہ طبقہ انہیں منظور نہیں ہے۔ انہیں تاجر برادری کے دین، مذہب اور اعتقاد سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اچھے برے کو الگ بھی نہیں کرتے۔ جدوجہد کے زمانے میں بعض الحادی افکار اس طبقے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان باتوں اور نعروں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں تک ہم نے سمجھا ہے، دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے، ایران اسلامی میں کاروباری اور تاجر برادری نے اسلام اور انقلاب کی خدمت اور امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی اطاعت کی ہے اور انقلاب کے تمام میدانوں میں موجود رہی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ خود تاجر برادری کو بھی اپنی اس اسلامی اور انقلابی حیثیت کی حفاظت کرنا چاہئے اور اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہئے کہ تجارت اور کاروبار میں ایسی صورتحال وجود میں آئے جو ایک تو انہیں ان کے انقلابی موقف سے جدا کر دے اور دوسرے وہ لوگ ان کے بارے میں بولنا شروع کر دیں جو شاید ان کے خیر خواہ بھی نہ ہوں۔ کاروباری برادری کو اسلام کی خدمت اور قوانین کی پابندی کرنی چاہئے۔
میں آپ عزیزوں سے، جو اسلامی انجمنوں کے اراکین ہیں اور ان اسلامی انجمنوں پر ہم اعتماد رکھتے ہیں، ان انجمنوں کے عہدیدار اچھے ماضی کے مالک، انقلابی اور امام کے لئے قابل اعتماد رہے ہیں اور ہمیں ان پر اعتماد رہا ہے اور اب بھی ہے، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جنگ کے برسوں میں اور مجموعی طور پر انقلاب کے بعد کے برسوں میں بعض تاجروں اور کاروباری حضرات نے بہت برا عمل کیا ہے۔ ایسا کام کیا ہے کہ اگر کوئی کاروباری برادری کی برائی کرنا چاہتا تو اس کو انہوں نے بہت زیادہ بہانے اور نمونے فراہم کئے تھے۔
بعض نے غلط فائدہ اٹھایا، قوانین کو پامال کیا اور بڑی دولت جمع کی۔ ایسی حالت میں کہ عوام، تنخواہ پانے والے، مزدور، سرکاری ملازم اور مسلح افواج کے کارکن جنگ اور اقتصادی محاصرے سے پیدا ہونے والی مشکلات کے دباؤ میں تھے، انہوں نے دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرنے میں خود کو عوام کا شریک نہیں بنایا بلکہ ان میں سے بعض نے یہ دباؤ بڑھایا ہے۔ یہ بات اسلامی جمہوریہ کے مسلمان تاجروں اور کاروباری برادری کی اسلامی اور انقلابی حیثیت کے لئے مناسب نہیں ہے۔
اسلامی جمہوری نظام اور عوام کی خدمت گزار حکومت کی پالیسی یہ نہیں ہے کہ سخت کنٹرول کے ذریعے عام تاجر اور کاروباری طبقے کے لئے مشکلات پیدا کر دے۔ لیکن اس کے نتیجے میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کچھ لوگ ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں، آپ بھی یقینا جانتے ہیں اور میں بھی بے خبر نہیں ہوں کہ بہت سے لوگوں نے غلط فائدہ اٹھایا ہے۔
میں نے ایک بار، تہران کے بازار کی اسلامی انجمنوں کے اراکین کی ایک جماعت سے جو چند سال قبل میری صدارت کے دور میں میرے پاس آئی تھی، کہا تھا کہ آپ کسی کو غلط فائدہ نہ اٹھانے دیں۔ غلط فائدہ اٹھانے والوں کو بے نقاب کریں۔ غلط فائد اٹھانے والے ٹیکس اور قانون سے بچنے کے لئے جن مخصوص چالوں سے کام لیتے ہیں اور خلاف ورزی کرتے ہیں اور دھوکہ دہی کرتے ہیں، ان سے حکومت کے کارکنوں کو مطلع کریں۔ یہ کام اب بھی ہونا چاہئے۔
البتہ ملک کے اقتصادی حالات عام طور پر ایک طرح کے نہیں رہتے۔ ملک کے اقتصادی مسائل گوناگوں عوامل سے وابستہ ہوتے ہیں کہ ان میں سے اکثر عوامل کا تعلق سرحدوں کے باہر سے ہوتا ہے۔ عالمی افراط زر کی صورتحال، گوناگوں عالمی سپلائی، دنیا کی مالیاتی حالت اور اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جو کسی ملک کے اقتصاد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک جیسے خود مختار ملک کی، جو خود مختار رہنا چاہتا ہے، معیشت میں زیادہ تر یا بعض اوقات اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ بعض لوگ اس اتار چڑھاؤ اور کمی و زیادتی سے غلط فائدہ اٹھاکے اپنی جیبیں بھریں اور جب کسی کاروبار پر ٹیکس لگایا جائے تو اس ٹیکس کی رقم جو انہیں خود دینی چاہئے، صارفین سے وصول کریں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ عدل اسلامی کے مطابق بھی نہیں ہے۔ آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ اسلامی انجمنوں کو ہوشیاری سے کام لینا چاہئے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ٹیکس ایک ضروری اور شرعی امر ہے اور اسلامی معاشرے میں حکومت اگر ضروری سمجھے تو قانون کے مطابق آمدنی پر ٹیکس لگائے۔ کچھ لوگ ہیں جو بھاری آمدنی کے باوجود، اس قانونی، شرعی اور ضروری فریضے پر جو ملک اورکم آمدنی والے طبقات کے فائدے میں اور اسلامی مصلحتوں کے مطابق ہے، عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ آپ ایسا راستہ تلاش کریں کہ یہ غلط کام نہ ہو سکے۔
مومن کاروباری، دیندار تاجر، انقلابی شخصیات، اچھے ماضی کے لوگ، نوجوان حضرات اور جو لوگ محاذوں پر گئے ہیں، کیسے کیسے کارواں تیار کئے، کتنی زحمتیں اٹھائیں، جن لوگوں نے گذشتہ حکومت میں جدوجہد کی، بازار میں وہ استقامت دکھائی، جن لوگوں نے انقلاب کے دوران تمام سیاسی میدانوں میں موجود رہ کر دشمن کو مایوس کیا ہے، انہیں چاہئے کہ بنیادی ترین شعبوں یعنی اقتصادی میدان میں صرف اپنے منافع کی ہی فکر میں نہ رہیں بلکہ حکومتی، اسلامی اور اسلامی انقلاب کے اہداف کو مد نظر رکھیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان اہداف کے لئے سرگرم عمل رہیں۔
یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ ہم تاجر ہیں، کاروباری ہیں اور منافع کے لئے کام کرتے ہیں۔ نہیں، ہم ایسے مومن اور دیندار لوگوں سے واقف ہیں کہ جنہوں نے انقلاب کے لئے، دکان، کاروبار، خریدوفروخت، نفع اور فائدے، سب کو خیر باد کہہ دیا اور انقلاب کے میدان میں آ گئے اور اپنی زندگی، شب و روز کو انقلاب کے لئے وقف کر دیا۔ ہم سب سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ اس طرح ہوں لیکن انصاف کی توقع سب سے رکھتے ہیں۔
میں کاروبار پرعام نگرانی کور بعض غلط فائدہ اٹھانے والوں کی گوناگوں خلاف ورزیوں کی روک تھام کو اسلامی انجمنوں بالخصوص انجمنوں کے سربراہوں اور بازار کے معتمد حضرات کی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ ان حضرات پر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اعتماد کیا ہے اور ہم بھی اعتماد کرتے ہیں۔ ہم انہیں برسوں سے جانتے ہیں۔ انہیں حکومت کی مدد کرنی چاہئے اور ان لوگوں کو غلط فائدہ اٹھانے سے روکنا چاہئے جو بازار میں عدم استحکام اور بحرانی کیفیت دیکھتے ہی غلط فائدہ اٹھانے اور اپنی جیب بھرنے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ کیا یہ اسلامی زندگی کا مسئلہ ہے؟ کیا اپنی جیب بھرنا مد نظر ہوتا ہے؟ یہ دوسرا نکتہ ہے کہ میں یہ چاہتا تھا کہ تاجر برادری کی اسلامی انجمنوں کے عزیز اراکین ، بازار اور کاروباری طبقے کے دیندار اور نیکوکار حضرات کی توجہ اس طرف مبذول کراؤں۔ یہ ایک فریضہ ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ملک کی کاروباری برادری میں مختلف بہانوں سے اختلاف اور تفرقہ نہ پیدا ہونے دیں۔ کاروباری برادری ہمیشہ متحد رہی ہے۔ خدا کے لئے اب بھی متحد رہیں۔ آج جو چیز دشمن کو خوفزدہ کرتی ہے وہ ملت ایران کا اتحاد ہے۔ یہ عالمی خونخوار، ہر چیز سے زیادہ عوام کے اتحاد سے ڈرتے ہیں۔ اگر کسی قوم سے مقابلہ نہیں کر سکتے تو اس لئے نہیں ہے کہ وہ مقابلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس لئے ہے کہ اس قوم کے اتحاد، شجاعت اور ایمان سے ڈرتے ہیں۔ ورنہ عالمی سامراج اور استکبار نے ثابت کر دیا ہے کہ انہیں کسی بھی جرم کے ارتکاب میں کوئی عار نہیں ہے۔
آج سے چند سال پہلے انہی ایام میں خلیج فارس میں امریکا کے ایک بحری بیڑے نے ایران کے ایک مسافر طیارے کو تقریبا تین سو مسافروں کے ساتھ مار گرایا تھا اوراس کے سارے مسافرین کا قتل عام کر دیا تھا۔ بعد میں جب ہنگامہ ہوا احتجاج ہوا اور دنیا اس واقعے میں ایران کی حقانیت سے واقف ہوگئی تو انہوں نے معافی مانگی اور کہا کہ معاف کر دیجئے غلطی ہو گئی۔ اچھا؟غلطی ہو گئی؟ آج کی انہی دنیاوی طاقتوں کے جو انسانیت اور اخلاقی اصولوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں، اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، مسافر طیارے کو جو محترم ہے اور کسی کو بھی مسافرطیارے پر حملہ کرنے کا حق نہیں ہے، تم نے مار گرایا اور پھر کہتے ہوکہ غلطی ہو گئی۔ غلطی کیسے ہو گئی؟ غلطی ہو گئی کا کیا مطلب ہے؟ اگر اس جنگی جہاز کے کمانڈر نے غلطی کی تھی تو اس پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا؟ اس کو تمغہ کیوں دیا؟ الٹی سیدھی باتیں کرکے ایرانی قوم سے دشمنی کیوں جاری رکھی؟ غلطی کیسی؟ غلط اہداف کی تلاش میں تم سے غلطی نہیں ہوتی۔ خود مختار اقوام کے خلاف گھناؤنے کاموں میں تم کبھی غلطی نہیں کرتے۔ بدترین اور گھناؤنے ترین اقدام تک پہنچ جاتے ہو۔ آج عالمی سامراج ایسا ہے۔ آج امریکا ایسا ہے۔ انہیں جرائم کے ارتکاب میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔
اگر کہیں کوئی اقدام نہیں کرتے تو اس لئے کہ انہیں خود اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور کچھ تحفظات ان کے پیش نطر ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہیں وہ قوم کا اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی گراں قیمت جواہر کی طرح حفاظت کریں۔ الحمد للہ آج بھی ہماری قوم انقلاب کے بعد کے تمام ادوار کی طرح متحد ہے۔ سب انقلاب کی خدمت کر رہے ہیں اور نظام کے ذمہ دار عہدیداروں کے پشت پناہ ہیں۔
بعض عناصر عوام کے درمیان اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ بعض عوام کے درمیان نظام اور حکام کی نسبت بد گمانی پھیلانا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کام خیانت ہے اور میں برداشت نہیں کروں گا کہ یہ کام جاری رہے۔ متنبہ ہونے کے لئے مہلت دی جاتی ہے کہ شاید ہوش میں آ جائیں ورنہ جو لوگ آج اس کوشش میں ہیں کہ جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط کاموں کے ذریعے، جیسے بھی ہو عوام کے درمیان اختلاف ڈالیں یا عوام اور حکام کے درمیان جو دل و جان سے نظام کی خدمت کر رہے ہیں اور ہمارا یہ صدر مملکت واقعی خدمتگزار ہے، ان کے درمیان تفرقہ ڈالیں ، مجرم اور خیانتکار ہیں۔ یہ معمولی جرم نہیں ہے۔
آپ بھی اپنے درمیان، کاروباری اور تاجر برادری میں اختلاف، تفرقہ اور گروہ بندی نہ ہونے دیں۔ سب اسلامی جمہوریہ کی پالیسی کے مطابق عمل کریں۔ کاروبار اور تجارت سے منسلک تمام افراد اہل سیاست ہوں لیکن یہ سیاسی اختلافات تاجر برادری میں گروہ بندی پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ سب یک جہتی کے ساتھ ، اسلامی اہداف اور اسلامی نظام پرمتحد اور متفق رہیں۔ خاص طور آپ، اسلامی انجمنوں کے اراکین ان باتوں کا خیال رکھیں جو میں نے دوسرے نکتے کے تحت عرض کی ہیں۔ یہ ایک فریضہ ہے۔
آپ کے محترم حکام ممتاز شخصیات ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات کو میں نے برسوں، جنگ کے میدانوں میں، جیلوں میں، ایذارسانیاں برداشت کرنے میں پہچانا ہے، یہ آزمودہ لوگ ہیں۔ یہ سب امام کو منظور اور آپ کی توجہ کا مرکز تھے۔ ان نمایاں شخصیات کو عوام کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ کاروباری اور تاجر برادری کی اسلامی انجمنوں کے اراکین، ملک میں جہاں بھی ہوں، اپنی نگرانی کے ذریعے تاجر برادری میں اختلاف کی روک تھام اور نظام کی خدمت کریں۔
خداوند عالم ہمیں اور آپ سب کو توفیق عنایت کرے، ہدایت کرے، تاکہ ہم راہ خدا کو اچھی طرح پہچانیں اور اس پر چلیں۔ خداوندعالم حضرت ولی عصر( ارواحنا لتراب مقدمہ فداہ) کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے، آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال کرے اور ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح کو ہم سے شاد فرمائے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ