ہفتہ 31 تیر سنہ 1391 ہجری شمسی مطابق 21جولائی سنہ 2012 عیسوی کو تہران میں قاریان و حافظان و اساتذہ قرآن کے اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے قرآن و تعلیمات الہیہ کی روشنی میں روحانیت پر استوار تمدن کے قیام کو اسلامی جمہوریہ کا نصب العین قرار دیا۔ آپ نے مادہ پرست اور اخلاقیات و روحانیت سے بے بہرہ مغربی تمدن میں انسانوں کے استحصال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام پر مغرب کا سکوت اخلاقیات و انسانی حقوق کے سلسلے میں اہل مغرب کے دعوؤں کے بے بنیاد ہونے کی دلیل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران جہاں کہیں بھی مغربی تہذیب کے قدم پڑے ہیں وہاں فساد اور انسانوں کے استحصال کے علاوہ کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ عزت و سربلندی، رفاہ و آسائش، مادی و روحانی پیشرفت، اخلاق حسنہ اور دشمنوں پر غلبہ صرف قرآنی تعلیمات پر عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کی لہر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مسلم قومیں اخلاقیات و روحانیت پر استوار تمدن کی داغ بیل رکھنے میں کامیاب ہو جائيں تو انسانیت کی سعادت و کامرانی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے قرآن سے انس میں عقل و جذبات کی باہمی آمیزش کو انتہائي سودمند قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جب قرآن سے ماخوذ عقلی عقائد محبت و مودت میں گھل مل جائیں تو قرآنی تعلیمات پر عمل آوری کی راہ ہموار ہو جائے گی اور امت اسلامیہ کی پیشرفت و ترقی میں اضافہ ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر خاص طور پر نوجوانوں کے درمیان قرآن سے بڑھتے ہوئے انس پر اظہار مسرت کیا اور قرآنی مفاہیم کے بارے میں تفکر و تدبر اور ان پر عمل آوری کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللّه الرّحمن الرّحيم

اللہ تعالی کا دل کی گہرائیوں اور پورے وجود سے شکرگزار ہوں کہ اس نے ہمیں، ہماری قوم اور ہمارے عوام کو تلاوت قرآن کی اور لذت قرآن سے مانوسیت کی نعمت عنایت فرمائی۔ قرآن کے موضوع پر اور تلاوت قرآن کی یہ تمام نشستیں جن میں عندلیبان قرآنی نغمہ سرائی کرتے ہیں، قرآن سے ہمارے عشق و ارادت اور ہمارے ایمانی استحکام میں قابل قدر اثرات ڈالتی ہیں۔ اگر کوئی قوم برحق عقیدے کی حامل ہو اور قرآن و اسلامی معارف پر عقیدے کے تناور درخت کے نیچے پناہ لے جو گل محبت کی لطیف خوشبو سے معطر ہے، جو سچے ایمان کے ثمرات سے انسانی زندگی کی وادی کو مالامال کر سکتا ہے، اگر یہ عقائد، یہ دانشمندانہ پابندی محبت و الفت کے جذبات سے آمیختہ ہو جائے تو پھر سامنے آنے والا منظرنامہ قرآنی منظرنامہ قرار پائے گا، توفیقات میں روز افزوں اور پے در پے اضافہ ہوگا۔ ہم اسی کے متلاشی ہیں۔ اگر یہ محفل قرآنی ہمارے قلوب کو عقلی پہلو سے بالاتر سطح پر جذبات اور عشق و محبت کے پہلو سے قرآن کے قریب کرے تو اسلامی معاشرے کو در پیش مشکلات رفع ہو جائیں گی۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔
البتہ ہم محض جذبات و احساسات پر اکتفاء کرنے کے قائل ہرگز نہیں ہیں۔ تاہم ان کے وجود کو ضروری مانتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اہل بیت علیہم السلام کے توسط سے حاصل ہونے والے دینی معارف و تعلیمات میں یہ خصوصیت موجود ہے۔ عقل و جذبات دونوں ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔
خوش قسمتی سے ہمارا ملک، ہماری قوم اور ہمارے نوجوان قرآن سے انس و شغف کے مرحلے میں امتحان پر پورے اترے ہیں۔ ان نشستوں میں اور ان تلاوتوں میں صاف محسوس ہونے والی یہ مہارت، عالمانہ آشنائی ، قرآن فہمی اور آگاہی، اسی طرح ان نشستوں کے باہر بھی جو کچھ ہم سنتے اور دیکھتے ہیں وہ گزشتہ برسوں اور اوائل انقلاب کے ایام میں اس ملک میں جو صورت حال تھی اس سے بالکل متفاوت ہے۔ بحمد اللہ ہمارے نوجوان، ہمارے بچے، ہمارے مرد اور ہماری عورتیں قرآن سے انس و شغف کے لحاظ سے ارتقائی مراحل میں ہیں۔ یہ بہت بڑی نوید ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم اس سے محروم تھے۔
جب قرآن سے انس پیدا ہو جاتا ہے تو قرآنی معارف پر غور و خوض اور تفکر و تدبر کی زمین بھی ہموار ہو جاتی ہے۔ قرآن کو سرسری طور پر پڑھ کر نہیں گزرا جا سکتا۔ قرآن میں تدبر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ہر لفظ اور الفاظ کی ہر ترکیب پر یکسوئی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ جتنا زیادہ غور کیجئے، تدبر کیجئے آپ کا اشتیاق اتنا ہی بڑھتا جائے گا اور آپ اس سے اتنا ہی زیادہ بہرہ مند ہوں گے۔ قرآن کچھ اس طرح کی ایک بے نظیر کتاب ہے۔
ہر معاشرے کی مشکلات کے لئے قرآن اکسیر ہے۔ معارف قرآنی سے مشکلات حل ہوتی ہیں۔ قرآن انسانی زندگی کے مسائل کا حل بنی آدم کو بطور تحفہ پیش کرتا ہے۔ یہ قرآن کا وعدہ بھی ہے اور اسلامی دور کے تجربات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہم قرآن سے جتنا زیادہ قریب ہوں گے اور روح و جان کی سطح پر یا جسمانی اعتبار سے، انفرادی طور پر یا معاشرے کی سطح پر ہمارے درمیان قرآنی عمل جتنا زیادہ ہوگا ہم سعادت و کامرانی اور مشکلات سے نجات کی منزل کے اتنے ہی قریب ہوں گے۔
عزت قرآن کے سائے میں ملتی ہے، رفاہ و آسائش قرآن کے سائے میں حاصل ہوتی ہے، مادی و روحانی پیشرفت قرآن کے سائے میں نصیب ہوتی ہے، اخلاق حسنہ قرآن کے سائے میں ملتا ہے اور دشمنوں پر غلبہ بھی قرآن کے سائے میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ ہم مسلم اقوام کو اگر ان حقائق کا بخوبی ادراک ہو جائے اور ہم ان اہداف کے حصول کے لئے کوشاں رہیں تو یقینا یہ ہمارے لئے بہت سودمند ثابت ہوگا۔
اس وقت مسلم اقوام گوناگوں مشکلات سے دوچار ہیں۔ ایک طرف ایسے افراد کا غلبہ ہے جن کا خلقت سے متعلق نقطہ نگاہ مادہ پرستانہ ہیں، مفاد پرستانہ ہے، ایسے شخص کا طرز فکر ہے جو معنویت و روحانیت کے قریب سے بھی نہیں گزرا ہے۔ آج جس تہذیب و تمدن نے فوجی وسائل و امکانات استکباری طاقتوں کے ہاتھ میں دے دیئے ہیں وہ عالم خلقت کے تعلق سے مادہ پرستانہ نقطہ نگاہ پر استوار تمدن ہے۔ اسی مادی نقطہ نگاہ نے دنیا کو برباد کرکے رکھ دیا ہے اور خود یہ طاقتیں بھی تباہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ جب مادہ پرستانہ نقطہ نگاہ، مفاد پرستانہ طر‌ز فکر اور روحانیت و اخلاقیات سے دور سوچ کا غلبہ ہو جائے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ سیاسی قوت، فوجی وسائل اور اطلاعاتی امکانات کو قوموں کو پا بہ زنجیر کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ مغربی تہذیب جو ان چند صدیوں میں اپنے نقطہ اوج پر پہنچی ہے، اس کا انسانیت کا استحصال کرنے اور قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینے کے علاوہ کوئی دوسرا کارنامہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اہل مغرب نے دیگر اقوام کی تہذیب و ثقافت کو نابود کر دینے اور ان پر، ان کی ثقافت پر اور ان کی معیشت پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنے علم کو بطور حربہ استعمال کیا۔
اگر آپ نے اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے حالات کا مطالعہ کیا ہو، انہیں باتوں کا مطالعہ جو خود مغرب والوں نے بیان کی ہیں اور جنہیں قلمبند کیا ہے، یعنی یہ ان کے دشمنوں اور مخالفین کی تحریر کردہ باتیں نہیں ہیں، تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے مشرقی ایشیا، ہندوستان، چین، افریقا اور امریکا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں؟! انسانیت پر کیسی کیسی مصیبتیں نازل کی ہیں؟! قوموں اور انسانوں کی زندگی کو کس طرح جہنم میں تبدیل کیا اور اس آگ میں لوگوں کو جلایا ہے؟! مقصد تھا استحصال کرنا، اپنا الو سیدھا کرنا۔ سائنس کے شعبے میں انہوں نے ترقی کی، ٹکنالوجی کے شعبے میں انہیں پیشرفت حاصل ہوئی، انہوں نے اپنی صنعت کو بلندیوں پر پہنچا دیا لیکن ان سارے وسائل اور ترقیوں کو انہوں نے قوموں کو تباہ کر دینے کے لئے استعمال کیا۔ کیوں؟ کیونکہ ان اہل مغرب کی تہذیب و تمدن میں روحانیت و معنویت کی بنیادیں ختم ہو چکی تھیں، دین و مذہب کا نام و نشان مٹایا جا چکا تھا۔ اگر روحانیت و معنویت نہ رہے تو اخلاقیات بھی رخصت ہو جاتے ہیں۔ اخلاقیات کے تعلق سے ان کے جو بھی دعوے ہیں سب جھوٹے ہیں۔ ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ بیشک فلموں میں، ہالی وڈ کے انداز میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں میں آپ کو اخلاق بھی نظر آئے گا، صبر و رواداری بھی دکھائی دیگی، دانشمندی بھی بھرپور انداز میں نمایاں رہے گی لیکن حقیقی زندگی میں ان باتوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ روحانیت کو ترک کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔
آج بھی آپ دیکھئے! مشرقی ایشیا کے ایک ملک میں، میانمار کے اندر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، تعصب اور جہالت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ یعنی اگر ہم یہ مان لیں کہ اس مسئلے میں کچھ سیاسی عناصر دخیل نہیں ہیں اور اس دعوے کو صحیح تسلیم کر لیں کہ دینی و مذہبی تعصب کے نتیجے میں یہ سب ہو رہا ہے، (تب بھی حیرت کا مقام ہے کہ) انسانی حقوق کے علمبردار زبان ہلانے تک کی زحمت نہیں کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو جانوروں تک کے لئے جذبہ ہمدردی سے سرشار نظر آتے ہیں، وہی حلقے جو کسی خود مختار اور ان کی اجارہ داری سے آزاد ملک میں اگر کوئی معمولی سا بہانہ بھی ہاتھ آ جاتا ہے تو اسے رائی کا پربت بنا دیتے ہیں، یہاں بے گناہ انسانوں، نہتے مرد و زن اور بچوں کے قتل عام پر مہر بلب ہیں، اسے حق بجانب قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ہے ان کے انسانی حقوق کی حقیقت، اخلاقیات سے دور انسانی حقوق، روحانیت سے عاری انسانی حقوق اور اللہ کی ذات سے بے بہرہ انسانی حقوق۔ کہتے ہیں کہ یہ برمی نہیں ہیں۔ چلئے ہم نے مان لیا کہ برمی نہیں ہیں، البتہ یہ سراسر جھوٹ ہے، جیسا کی ہمیں رپورٹ دی گئی ہے تین سو چار سو سال سے یہ لوگ وہاں زندگی بسر کر رہے ہیں، تو بھی کیا ان کا قتل عام کر دیا جانا چاہئے؟! اسی ملک میں اور اس کے ہمسایہ ممالک میں ان عوام کے ساتھ یہی رویہ مغرب اور بالخصوص برطانیہ نے اپنایا تھا۔ ان عوام کو انہوں نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ ان کے قدم جہاں بھی پڑے ہیں انہوں نے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے زراعتوں اور نسلوں کو نابود کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی مصنوعات کے لئے بازار تلاشنے کے لئے کچھ بازار سجائے، لوگوں کو اپنی نئی نئی مصنوعات سے واقف کرایا تا کہ اپنی تجارت کو فروغ دیں۔ یہ ہے روحانیت و قرآن سے بے بہرہ تہذیب و تمدن۔
ہمارا نصب العین ایسا تمدن ہے جو روحانیت پر استوار ہو، جس کی تکیہ گاہ اللہ تعالی کی ذات اقدس ہو، جو الہی تعلیمات کے ستونوں پر قائم ہو، ہدایت الہی سے آراستہ ہو۔ آج اگر مسلم قومیں جو بحمد اللہ کافی حد تک بیدار ہو چکی ہیں اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، ایسے تمدن کی داغ بیل رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو انسانیت کو سعادت و کامرانی کی منزل مل جائے گی۔ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کا نصب العین یہ ہے۔ ہم ایسے تمدن کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ نوجوان اس بات کو اپنے ذہن و دل میں اتار لیجئے اور اسی کو معیار عمل قرار دیجئے۔
آئیے اپنے عمل کو قرآنی بنائیں، الہی عمل میں تبدیل کریں۔ صرف زبان سے کہنا کافی نہیں ہے، دعوے کرنا کافی نہیں ہے، عملی طور پر ہمیں اس سمت میں حرکت کرنا اور آگے بڑھنا ہے۔ آپ جب قرآن کی تلاوت کر رہے ہوں، جب قرآن سے انس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو جب بھی کہیں کوئی حکم نظر آئے، کوئی رہنمائی دکھائی پڑے، کوئی نصیحت مل جائے تو سب سے پہلے اسے اپنے وجود میں، اپنے باطن میں اور اپنے خانہ دل میں اتارنے کی کوشش کیجئے اور اسے اپنے عمل میں لانے کی سعی کیجئے۔ ہم میں سے ایک شخص بھی اگر عملی طور پر اس کا پابند بنے گا تو معاشرے کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ معاشرے میں قرآنی فضا قائم ہوگی۔
بحمد اللہ ہمارے معاشرے میں، ہمارے ملک میں، قرآن سے انس کی یہ فضا بڑی اچھی اور دل آویز فضا ہے۔ حفظ قرآن کی خصوصیت جس کی ہم نے پہلے سفارش کی تھی بحمد اللہ ہمارے نوجوانوں میں عام ہو رہی ہے، اسے عام ہونا بھی چاہئے، قرآن سے ہماری آشنائی و قربت بڑھنی بھی چاہئے، قرآن سے ہمارا انس بڑھنا ہی چاہئے۔ جب آپ قرآن کو حفظ کر لیں گے تو قرآن کے معانی کو صحیح طور پر سمجھنا آپ کے لئے آسان ہو جائے گا اور جب انسان قرآن کے مفہوم کا ادراک کر لے تو اس میں تدبر اور غور و خوض کرنے پر قادر ہو جائے گا اور جب اس مقام پر پہنچ جائے گا تو اسے اعلی معارف حاصل ہوں گے اور بلند مقامات پر اس کے قدم پہنچیں گے۔ قرآن سے مانوس ہو جانے کی صورت میں انسان کے اندر باطنی نشونما ہوتا ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں قرآن سے کبھی جدا نہ کر۔ پالنے والے! ہمارے معاشرے کو قرآنی معاشرہ قرار دے، ہماری زندگی کو قرآن کے ہمراہ اور ہماری موت کو راہ قرآن کی موت قرار دے۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ قیامت میں قرآن کو ہمارا شفاعت کنندہ بنا۔ ہمیں قرآن اور اہل بیت سے جنہیں پیغمبر اکرم نے ہمارے درمیان دو گراں قدر چیزوں کے طور پر چھوڑا ہے، کبھی محروم نہ فرما۔ پالنے والے! قرآن کو ہم سے رضامند رکھ۔ اہل بیت اور امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ پالنے والے! ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب فرما۔ رمضان کے اس مبارک مہینے میں، ان بابرکت لیل و نہار میں ہمیں بندگی، تضرع، گریہ و مناجات اور اپنے قرب کی نعمتوں سے نواز۔
و السّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته