اتوار تیس تیر سنہ تیرہ سو بانوے ہجری شمسی مطابق اکیس جولائی 2013 برابر 12 رمضان المبارک سنہ 1434 ہجری قمری کو ملاقات کے لئے جمع ہونے والے اسلامی نظام کے عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے سب سے پہلے تو ایک اور ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے مستفیض ہونے کا موقعہ حال ہونے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ انسان کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اللہ کے ہر فضل اور نصرت و مدد کے بعد اللہ سے راز و نیاز اور مناجات میں اضافہ کر دے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے شامل حال رہنے والی پے دے پے نصرت خداوندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فضل خدا اور نصرت الہی کی تازہ ترین مثال صدارتی انتخابات کے موقعے پر انجام پانے والا سیاسی کارنامہ ہے اور اس عظیم جہاد کے ثمرات رفتہ رفتہ مختلف شعبوں میں واضح ہوکر سامنے آئيں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ممتاز جغرافیائی محل وقوع، پرافتخار تاریخ اور قدیمی تمدن، قدرتی ذخائر اور نمایاں افرادی قوت کو تین اہم ترین حقائق سے تعبیر کیا اور چوتھی اہم حقیقت کا تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران داخلی استبداد و آمریت اور بیرونی سیاسی و ثقافتی یلغار کی وجہ سے ایران کو بڑی گہری ضربیں لگیں، چنانچہ حالات کے کلی جائزے میں ان کو ہمیشہ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ رجعت پسندی، استکبار، بعض مغربی عمائدین اور علاقے کی کچھ کمزور حکومتوں اور عہدیداروں نے ملت ایران کے مد مقابل ایک ایسا وسیع محاذ قائم کیا ہے جو اب تک کسی بھی ملک کے مقابل قائم نہیں کیا گیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد مذکورہ سات حقائق کو مستقبل کے راستے کے تعین کا معیار قرار دیا اور فرمایا کہ مذکورہ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ عشرہ حقیقت میں پیشرفت و انصاف کا عشرہ قرار پا سکتا ہے اور اس سلسلے میں حکام اور انتظامی عہدیداروں کی محنت اور جدت عملی در حقیقت نعمت خداوندی شمار کی جائیگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ترقی کے عمل کو جاری رکھنے اور مطلوبہ اہداف کی جانب پیش قدمی کے تسلسل کے لئے صبر و توکل اور دشمن محاذ کے مقابل استقامت و پائيداری کے ساتھ ہمیں داخلی اور قومی قوت کی بنیادوں کو مستحکم کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اعلی حکام، پالیسی ساز افراد اور تمام عہدیدار موجودہ حالات میں اپنی تمام تر توجہ دو اصلی ترجیحات یعنی معیشت اور سائنسی پیشرفت پر مرکوز کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دنیا کے ملکوں سے تعاون اور لین کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ہمیشہ دنیا سے تعاون پر تاکید کی ہے اور آج بھی ہم اس پر زور دیتے ہیں لیکن دنیا کے ملکوں سے تعاون کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ مد مقابل ملک کی شناخت اور اس کے اہداف اور روش کا ادراک ضروری ہے کیونکہ اگر ہم نے اس کو اچھی طرح نہیں پہچان لیا تو ہمیں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا سے تعاون کی خاطر ہم اگر اپنے دشمنوں کی ماضی کی حرکتوں کو کچھ مصلحتوں کی وجہ سے آشکارا نہیں کرنا چاہتے تو بھی ہمیں ان حرکتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهدييّن سيّما بقيّة الله فى الأرضين.

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری عمر میں برکت دی اور یہ موقعہ عنایت فرمایا کہ ایک اور ماہ رمضان المبارک کے فیض سے مستفیض ہوں۔ اس مہینے کی برکتوں میں ایک یہی ہے کہ ملک کے عہدیدار اور اسلامی نظام کے خدمت گزار افراد اپنائیت کے ماحول والی اس نشست کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہ احباب اور عہدیداروں کی ایک دوسرے سے ملاقات اور دیدار کی نشست بھی ہوتی ہے اور اسی طرح اس میں اہم باتیں بیان کی جاتی ہیں جو انشاء اللہ وطن عزیز کے لئے، عوام کے لئے معاشرے کی عمومی فضا کے لئے مثبت اور مفید ثابت ہوں گی۔ میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں کہ یہاں تشریف لائے اور اس نشست کو زینت بخشی۔ جناب صدر محترم کا بھی میں شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کی تفصیلی رپورٹ پر جو انہوں نے پیش کی۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ تمام حکام کو، آپ سب کو پورے ملک میں کسی بھی شعبے میں مصروف عمل خدمت گاروں کو توفیقات اور اجر جزیل سے نوازے اور آپ سب کی زحمات و خدمات میزان عدل میں رکھے اور جزائے خیر عنایت فرمائے۔ اس نشست میں حقیر کی سب سے اہم گزارش یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جانب سے جب بھی انسان کی نصرت و مدد ہو تو انسان کا فرض ہے کہ اللہ تعالی کا شکر بجا لائے۔ جب بھی کسی موقعے پر اللہ تعالی نے ہمیں کوئی کامیابی عطا فرمائی، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں راز و نیاز کریں اور سجدہ شکر بجا لائیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:۔ «اذا جاء نصرالله و الفتح. و رأيت النّاس يدخلون فى دين الله افواجا. فسبّح بحمد ربّك و استغفره انّه كان توّابا». (1) نصرت، فضل پروردگار ہے، یہ اللہ تعالی سے ہماری قربت بڑھنے کا باعث بننا چاہئے، اس سے اللہ تعالی سے ہمارا رابطہ بحال ہونا چاہئے، نصرت پروردگار حاصل ہونے پر ہمارے اندر خضوع و خشوع کی حالت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔ بحمد اللہ نصرت پروردگار بار بار ہمارے عوام کے شامل حال ہوتی رہی ہے۔ تازہ ترین مثال جو بہت عظیم نصرت الہی کا نمونہ ہے یہی انتخابات اور اس میں عوام کی پرشکوہ شرکت ہے۔ اس سیاسی جہاد اور کارنامے میں عوام اور خاص طور پر ملک کے حکام نے اپنا کردار ادا کیا اور سب لطف و نصرت الہی سے بہرہ مند ہوئے۔ جب ہمیں نصرت الہی حاصل ہوئی ہے اور اسی کی بنیاد پر ہم سیاسی کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کے ثمرات و اثرات رفتہ رفتہ مختلف شعبوں میں نظر آئيں گے، تو اللہ تعالی کی اس عنایت پر ہمارے اندر توسل اور خضوع و خشوع کے جذبے میں اضافہ ہونا چاہئے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ ماہ رمضان المبارک کا موقعہ ہے، یہ بہت عظیم موقعہ ہے، یہ بھی ایک توفیق اور عنایت ہے کہ یہ سیاسی عمل انجام دیتے کے لئے ہمیں ماہ رمضان المبارک کے ایام حاصل ہوئے ہیں۔ معصوم کا ارشاد گرامی ہے؛ «و هذا شهر الانابة و هذا شهر التّوبة و هذا شهر المغفرة و الرّحمة و هذا شهر العتق من النّار و الفوز بالجنّة»؛(۲) یہ ماہ رمضان المبارک کی دعاؤں کے جملے ہیں۔ رمضان توبہ اور انابہ کا مہینہ ہے۔ توبہ یعنی اس غلط راستے سے واپسی جس پر ہم اپنے گناہوں کی وجہ سے اور اپنی غفلتوں کے نتیجے میں چل پڑے ہیں۔ انابہ کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ وقت اور مستقبل کے لئے ہم اللہ تعالی پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ کہتے ہیں کہ توبہ اور انابہ کا فرق یہ ہے کہ توبہ کا تعلق ماضی کے فعل سے ہے جبکہ انابہ کا تعلق زمانہ حال اور مستقبل سے ہے۔ یعنی ہمیں چاہئے کہ جو گناہ سرزد ہوئے ہیں، جو غلطیاں ہوئی ہیں اور بد طینتی کی وجہ سے ہم سے جو بھی حرکتیں ہوئی ہیں ان پر اللہ کی بارگاہ میں طلب عفو کریں، استغفار کریں اور اس راستے سے واپس لوٹ جائیں اور اس کے ساتھ ہی زمانہ حال اور مستقبل کے سلسلے میں انابہ کریں، اللہ پر توجہ مرکوز رکھیں اور گناہ انجام نہ دیں۔ اللہ سے اپنے قلبی رابطے کو مستحکم بنائیں۔ رمصان ماہ رحمت و ماہ مغفرت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:۔ «و هذا شهر العتق من النّار» نار جہنم سے نجات۔ آتش جہنم سے نجات کا مطلب ہے غلطیوں اور گناہوں سے آزادی اور دوری۔ ہمارے یہ گناہ، ہماری یہ خطائیں در حقیقت عذاب آخرت کا ہی کریہ المنظر روپ ہے۔ اگر ہم یہاں ظلم کریں گے، اگر غیبت کریں گے، بدگوئی کریں گے، اگر ہم اپنی حدود سے تجاوز کریں گے، اگر اپنے فرائض سے تجاوز کریں گے، تو اس طرح کا ہمارا ہر برا فعل عالم برزخ اور عالم قیامت میں اپنی خاص شکل میں ظاہر ہوگا، مجسم ہوکر سامنے آ جائے گا۔ یہی عذاب الہی ہے۔ شاعر کہتا ہے:۔

«اى دريده پوستين يوسفان / گرگ برخيزى از اين خواب گران».(۳)

اس دنیا میں اگر کوئی دوسروں پر حملے کرتا ہے تو قیامت میں عذاب الہی یہ ہوگا کہ اسے بھیڑئے کی شکل میں محشور کیا جائے گا۔ «هذا شهر العتق من النّار و الفوز بالجنّة»؛ فوز بالجنۃ بھی یہی ہے۔ یہاں ہمیں اپنے امور کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، اپنے دلوں کو پاکیزہ بنانے کی ضرورت ہے، عبادتیں انجام دینے کی ضرورت ہے، نوافل بجا لانے کی ضرورت ہے، مومنین کے سلسلے میں صداقت، سچائی، امانت، محبت اور صدق دلی برتنے کی ضرورت ہے، مختلف شعبوں میں فرائض کی انجام دہی کی ضرورت ہے، قیامت کے دن ہمارے یہی اعمال مجسم ہوکر ہماری نگاہوں کے سامنے آئیں گے، اللہ کی نعمتوں کی شکل میں سامنے آئیں گے جس کا وعدہ مومنین اور ایقان رکھنے والوں کو دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:۔ «و اذكر ربّك فى نفسك تضرّعا و خيفة»؛(۴) تضرع کے ساتھ، خضوع و خشوع میں ڈوب کر اللہ کا ذکر کرنا، زندگی کی اس مدت میں انسان کو حاصل ہونے والی تمام برکتوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے۔ ذکر الہی صرف سخت اور دشوار حالات تک محدود نہ رہے، سختیوں اور رنج و محن کے حالات تک محدود نہ رہے۔ نہیں، راحت و آسانی کے دور میں، اس دور میں جب انسان کو کوئی مادی فکر و تشویش نہیں ہے، انسان کے دل میں ذکر خدا کی شمع روشن رہنا چاہئے۔ جب ہم انسان سختی اور دشواری میں گرفتار ہو جاتے ہیں تب ہمیں خدا یاد آتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:۔ «فاذا ركبوا فى الفلك دعوا الله مخلصين له الدّين فلمّا نجّاهم الى البرّ اذا هم يشركون»؛(۵) بلاؤں میں گرفتار ہونے کی صورت میں تو انسان اللہ کی جانب متوجہ رہتا ہے لیکن جیسے ہی بلاؤں اور مصیبتوں سے چھٹکارا ملا وہ اللہ کو بھول جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بار بار، شاید دس دفعہ یا اس سے بھی زیادہ بار اللہ نے انسانوں کے سلسلے میں یہ فرمایا ہے کہ جب وہ سختیوں میں پڑ جاتے ہیں تو اللہ کی طرف ان کی توجہ مبذول ہوتی ہے اور جیسے ہی سختیوں سے نجات ملی پھر اپنی دنیا میں مست ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز آپ کی پیشرفت کو روک دینے والی ہے، آپ کا راستہ مسدود کر دینے والی ہے۔ سورہ مبارکہ یونس میں یہ بات دو دفعہ کہی گئی ہے۔ ایک دفعہ تو بڑا عجیب لہجہ ہے، ہم انسانوں سے اللہ نے بڑی سختی سے شکوہ کیا ہے کہ
: «و اذا مسّ الانسان الضّرّ دعانا لجنبه او قاعدا او قائما» جب انسان سختیوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے تو ہمیں یاد کرتا ہے، دعا کرتا ہے، گریہ و زاری کرتا ہے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر جگہ ہماری طرف متوجہ رہتا ہے۔ «فلمّا كشفنا عنه ضرّه مرّ كأن لم يدعنا الى ضرّ مسّه» جب مشکل برطرف ہو گئی تو ایسا برتاؤ کرتا ہے گویا اس نے ہم سے کبھی کچھ مانگا ہی نہ ہو اور ہم نے اسے کوئی چیز عنایت ہی نہ کی ہو۔ پوری طرح غافل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:۔ «كذلك زيّن للمسرفين ما كانوا يعملون»؛(۶) بڑے تلخ اور ملامت آمیز لہجے میں یہ بات کہی گئی ہے۔
بھائیو اور بہنو! ہمیں ہر طرح کے حالات میں اللہ سے طلب نصرت کرنا چاہئے۔ آسائش و آسودگی کے حالات میں بھی، کرب و غم اور رنج و الم کے حالات میں بھی اللہ سے ہمارا قلبی رابطہ قائم رہنا چاہئے، یہ چیز انسان کے ارتقائی عمل کی ضامن ہے۔ یہی چیز ہمیں خلقت کے اصلی اور اساسی ہدف تک پہنچا سکتی ہے۔ میری نظر میں یہ توسل اور راز و نیاز تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ کی جانب انسان کا دل متوجہ رہے تو جمود، مایوسی، قنوطیت، پسماندگی جیسی چیزیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں نظر نہیں آئیں گی۔ عمل کرنے کے لئے صبر و توکل کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ ملک کے عہدیدار ہیں، مختلف شعبوں سے آپ کا تعلق ہے اور آپ کے دوش پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ آپ کے جو کام ہیں ان میں دنیاوی کام بھی ہیں اور اخروی کام بھی ہیں۔ یعنی جب آپ اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں تو آپ دنیا کو بھی آباد کر رہے ہوتے ہیں، زندگی کو سنوار رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے باطن کی بھی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ عمل جو دنیاوی عمل بھی ہے اور اخروی عمل بھی ہے، دو اہم عناصر یعنی صبر و توکل کا متقاضی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:۔ «نعم اجر العاملين. الّذين صبروا و على ربّهم يتوكّلون» (7) صبر یعنی استقامت، مزاحمت، پائیداری، ہدف کو ہرگز فراموش نہ کرنا۔ ارشاد ہوتا ہے:۔ «ان يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مئتين»؛(۸) جنگ کے سلسلے میں، دشمن سے مقابلہ آرائی کے سلسلے میں اگر آپ صبر سے کام لیں تو تعداد کم ہونے کے باوجود آپ دشمن کو مغلوب کر سکتے ہیں۔
ہم نے بارہا یہ بات عرض کی ہے کہ مختلف عالمی میدانوں میں تصادم اور ٹکراؤ قوت ارادی کا ہے، ارادوں کی جنگ ہوتی ہے۔ جس فریق کی قوت ارادی جلدی کمزور پڑ گئی وہ شکست کھا جاتا ہے۔ صبر کا مطلب ہے اس عزم کو اور اس ارادے کو محفوظ رکھنا اور قائم رکھنا۔ توکل کا مطلب ہے کاموں کو انجام دینے کے بعد اللہ سے نتیجے اور ثمرات کی دعا کرنا۔ یہ غلط فہمی نہ ہو، البتہ آج کے دینی ماحول میں اس غلط فہمی کی گنجائش نہیں ہے، ماضی میں ایسا تھا اور اس کا بڑا پرچار کیا جاتا تھا اور یہ غلط فہمی پائی جاتی تھی، کہ توکل کا مطلب ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا تاکہ روزی خود خدا پہنچائے، خود ہی تمام امور کو سنبھالے، خدا خود تمام گرہوں کو کھولے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، توکل کا مطلب ہے تم کام انجام دو اور نتیجے کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دست بدعا رہو۔ بنابریں توکل کے موضوع میں کام کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ شخصی اور ذاتی امور میں صبر و توکل کے ساتھ ہی ملکی امور کو چلانے کے لئے بھی صبر و توکل کی بہت ضرورت ہے۔ ذاتی اور شخصی معاملات میں بھی صبر اور توکل دونوں کی بڑی افادیت ہے۔ تعلیمی امور میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے، توکل رکھنا چاہئے، آگے بڑھنا چاہئے، دفتری کاموں کے سلسلے میں بھی یہی روش ہونا چاہئے، کھیل کود کے میدان میں بھی یہی روش ہونا چاہئے، گھریلو امور کی انجام دہی میں بھی اس پر کاربند رہنا چاہئے، اسی طرح تمام کاموں میں اسی روش کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ ملک کے انتظامی امور کے سلسلے میں بھی توکل اور صبر کا بڑا اہم کردار ہے۔ انسان صبر و توکل کے بغیر ملک کے انتظامی امور کے تناظر میں جو ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے، اسے انجام نہیں دے سکتا۔ بے صبری، عجلت پسندی، بے رغبتی، تساہلی اور مایوسی کے ساتھ جو توکل سے تضاد رکھتی ہیں، بڑے کام انجام نہیں دئے جا سکتے، پیشرفت نہیں کی جا سکتی، ملکی ترقی کے اہم فرائض کو انجام نہیں دیا جا سکتا۔ ملک کے انتظامی امور کا جہاں تک تعلق ہے تو کسی نہ کسی طرح آپ سب اس میں دخیل ہیں، مختلف معاشی، ثقافتی، علمی وغیرہ جیسے شعبوں میں آپ انتظامی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں اگر صبر و توکل کی عادت ڈالنی ہے تو اس کے لئے چند بنیادی عناصر کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے۔
پہلی چیز ہے صحیح سمت کا انتخاب۔ ہمارا رخ اور سمت درست ہونا چاہئے۔ یہ قطب نما ہے، یہ اصلی معیار ہے۔ اگر ہم نے غلط سمت کا انتخاب کر لیا، اگر رخ غلط ہو گیا تو ہماری دگنا محنت و کوشش نہ صرف یہ کہ ہمیں منزل پر نہیں پہنچائے گی بلکہ ہمیں اس سے دور کرتی جائے گی۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:۔ «قل هل ننبّئكم بالأخسرين اعمالا. الّذين ضلّ سعيهم فى الحياة الدّنيا»؛(۹) ان کی محنت و کوشش گمراہی میں جا پڑی ہے۔ یعنی صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ سمت کا انتخاب صحیح ہونا چاہئے۔ اگر ہم نے اس معیار کو مد نظر نہ رکھا تو ہماری گوناگوں کوششیں ہمیں مقصد اور ہدف سے دور کر دیں گی۔ صحیح سمت کا انتخاب بہت اہم ہے۔ میں نے چودہ خرداد مطابق چار جون کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے موقعے پر آپ کے مزار پر تقریر کے دوران امام خمینی کے نقطہ نگاہ کے مطابق جو ہمارے لئے حجت کا درجہ رکھتا ہے، انقلاب کے رخ اور سمت کی تشریح کی تھی۔ داخلہ سیاست کے سلسلے میں کیا رخ ہونا چاہئے، خارجہ پالیسی کے سلسلے میں کیا رخ ہونا چاہئے، ثقافت کے میدان میں کیا سمت ہونا چاہئے، معیشت کے شعبے میں کیا سمت ہونا چاہئے، اسے ہم نے تفصیل سے بیان کیا۔ یہ تشریح امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بیانوں اور صریحی تحریروں پر استوار تھی۔ آج بحمد اللہ پورے ملک میں ہمارے دانشور، ممتاز ہستیاں، ہمارے حکام اور عوام سب امام خمینی کو مانتے ہیں اور آپ کو معیار اور کسوٹی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی امام خمینی کے نقطہ نظر کی غلط تشریح بھی کی جاتی ہے، آپ کی سمت اور جہت کو غلط انداز سے پیش کیا جاتا ہے جو بہت بری اور خطرناک بات ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے سامنے امام کا واضح اور صریحی موقف موجود ہے۔ امام خمینی کی تقریریں، آپ کی آواز، آپ کی تحریریں، آپ کی تصنیفات سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس دن بھی میں نے عرض کیا کہ امام خمینی کا وصیت نامہ ان کی روش اور طرز فکر کا خلاصہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ یعنی امام خمینی کی سمت بالکل واضح ہے اور سمت و جہت کو سمجھنے میں بھی ہمیں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے، کسی چیز کو واضح اور مشخص کرنے کی ہمیں احتیاج ہی نہیں ہے۔ امام حمینی ایک فقیہ تھے، صاحب حکمت انسان تھے، باخبر انسان تھے، دانشمند انسان تھے، پختہ انسان تھے، بہت نپی تلی گفتگو کرتے تھے، بالکل صحیح فکر رکھتے تھے اور اپنے اسی طرز فکر کی مدد سے آپ نے انقلاب برپا کیا، اس اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کی، اسے اپنے پیروں پر کھڑا کیا، خطوط اور ضوابط بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کئے۔ بنابریں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے عہدیدار کی سب سے پہلی ذمہ داری صحیح سمت کا انتخاب کرے۔
دوسری چیز ہے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا۔ تمام وسائل اور توانائیوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ تا کہ یہ رخ اور سمت عملی سیاست کا روپ اختیار کرے۔ کلی سیاست اسی عملی سیاست کا ایک جز ہے۔ بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ اسی عملی سیاست کا ایک جز ہے۔ مختلف شعبوں کے سلسلے میں حکومت کی اجرائی پالیسیاں اسی عملی سیاست کا ایک جز ہے۔ جو منصوبے حکومتیں اور پارلیمانیں منظور کرتی ہیں اور ان کے اجراء کا فیصلہ کرتی ہیں وہ بھی اسی عملی سیاست کا ایک جز ہے۔ عملی سیاست کے تناظر میں کلی اہداف اور سمتوں کو بیان کیا جائے، نمایاں کیا جائے اور انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔
تیسری چیز ہے ترجیحات پر خاص توجہ۔ یہ بھی بہت اہم عنصر ہے۔ کام بہت ہیں، لیکن بسا اوقات توانائی، سرمایہ اور بجٹ اتنا نہیں ہوتا کہ تمام ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے۔ لہذا ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ ہم صبر اور توکل کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے یہ نسخے آزما سکتے ہیں۔
ملک کا ہمیں کلی جائزہ لینا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ملک بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اقتدار کی منتقلی کے ادوار ہمارے ملک اور سیاسی تاریخ کے بہت اچھے ادوار رہے ہیں۔ حکومتوں کا بدلنا بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ ہمیں حاصل ہونے والا عظیم موقعہ ہے۔ تازہ دم لوگ، نیا ابتکار عمل، جدت عملی، نئی پسند اور الگ فکر کے لوگ میدان عمل میں آتے ہیں۔ آئین میں اس کا تعین ہو چکا ہے۔ یہ بھی بہت اہم موقعہ ہے۔ لیکن اگر غلط رخ اختیار کر لیا گیا تو یہی موقعہ، ایک خطرے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اگر کوئی اور روش اختیار کی گئی، جیسا کہ بعض ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے کہ اقتدار کی منتقلی زور آزمائی کے ذریعے ہوتی ہے، خونریزی اور تشدد کے واقعات کے ساتھ ہوتی ہے، خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ صورت حال نہیں ہے، البتہ سنہ دو ہزار نو میں بعض افراد نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا، ملک کو گہری کھائی کے دہانے تک پہنچا دیا، ملک کے لئے اس طرح کی بہت بڑی مشکل کا راستہ ہموار کر دیا، وہ تو اللہ تعالی نے بحمد للہ مدد فرمائی اور قوم اس بحران کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئی۔ سنہ دو ہزار نو کے اس محدود وقفے کے علاوہ انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آج تک ہمیشہ اقتدار کی منتقلی اطمینان خاطر کے ساتھ، برادرانہ اور مسرت آمیز ماحول میں انجام پائی ہے۔ یہ بہت بڑی خصوصیت ہے۔
بنابریں آج جب اقتدار منتقل ہو رہا ہے، ایک نئی ٹیم، ایک نیا گروہ، نئے افراد، نئے افکار، الگ الگ جدت عملی کی صلاحیت رکھنے والے افراد میدان میں وارد ہو رہے ہیں، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ تاحال جو کچھ انجام پایا ہے، پیشرفت کی یہ عمارت جہاں تک تعمیر کی گئی ہے اس کے بعد اس سلسلے کو آگے لے جائیں۔ یہ بہت سازگار صورت حال ہے، یہ بڑا اہم موقعہ اور ملک کے لئے ایک اہم عید ہے۔ واقعی اقتدار کی منتقلی کا یہ موقعہ بڑا مبارک موقعہ ہے۔ جو ٹیم اقتدار میں آئے اسے چاہئے کہ سابقہ ٹیم کی کارکردگی کا مثبت ذہنیت کے ساتھ جائزہ لے۔ صدر محترم جناب ڈاکٹر احمدی نژاد کی تفصیلی رپورٹ آپ نے سنی۔ بے شمار کام انجام دئے گئے ہیں، بڑے نمایاں کام انجام پائے ہیں۔ بعد والی حکومت ممکن ہے اتنا ہی یا اس سے دگنا یا دگنے سے بھی زیادہ کام انجام دے۔ تو وطن عزیز کے لئے اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سمت و جہت کو قائم رکھا جائے۔ میں آئندہ تقاریر میں سمت و جہت کے بارے میں محترم حکام اور عظیم الشان ملت ایران کی خدمت میں انشاء اللہ کچھ باتیں اور نکات عرض کروں گا۔ ابھی انہیں بیان کرنے کی ضرورت اور مناسب موقعہ نہیں ہے۔ آج جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور جس پر توجہ دینا لازمی ہے وہ ہے ملک کی کلی اور مجموعی صورت حال۔ جزوی اور فروعی باتوں میں ہمیں نہیں الجھنا چاہئے، فروعات تو بہت زیادہ ہیں۔ ملکی امور اور اسلامی جمہوری نظام کے امور کا کلی نگاہ سے جائزہ لینا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم کس منزل پر پہنچے ہیں۔ میں نے چند حقائق نوٹ کئے ہیں جنہیں یہاں بیان کرنا ہے۔
پہلی حقیقت: ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جو بہت اہم جغرافیائی محل وقوع کا مالک ہے۔ ہمارا جغرافیائی محل وقوع دنیا کا بہترین محل وقوع ہے۔ اگر جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے دنیا کے ملکوں کی درجہ بندی کی جائے تو یقینی طور پر ایران بالکل اوپر کے ملکوں میں بلکہ شاید سب سے اوپر نظر آئے گا۔ تو جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے ہمیں یہ خاص امتیاز حاصل ہے۔ ہمیں یہ نعمت حاصل ہے اور یہ خداداد نعمت ہے۔
دوسری حقیقت: ہماری تاریخ اور قدیمی تہذیب و تمدن ہے۔ ہمارے قدیمی تمدن کی جڑوں اور ہماری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ قابل فخر تاریخ و تمدن ہے۔ خاص طور پر اسلام آنے کے بعد کی تاریخ۔ اسلام سے قبل کی تاریخ میں بھی بہت سے نمایاں اور قابل فخر امور نظر آتے ہیں لیکن اسلام آنے کے بعد ان افتخارات میں کئی گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ علم و دانش کے اعتبار سے صنعت کے اعتبار سے، ثقافتی مسائل کے اعتبار سے، گوناگوں سیاسی افتخارات کے اعتبار سے اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے، خواہ ترقی کی وسعت کو دیکھا جائے یا اس کے عمق اور کیفیت کو دیکھا جائے، ہر اعتبار سے افتخارات میں اضافہ ہوا ہے۔ تو یہ ہے ہماری تاریخ۔ سائنس و دانش بشری کا شعبہ ہو یا روحانیت و معنویت کا میدان، ہر جگہ ہمارے پاس جو میراث ہے وہ کم نظیر ہے۔ واقعی معدودے چند ممالک ہی ہیں جو اس خصوصیت سے آراستہ ہیں، ایشیا میں دنیا کی قدیمی تہذیبوں میں جیسے ہندوستان، چین، مصر وغیرہ کی تہذیبوں میں بھی اس کی مثالیں بہت کم ہیں۔ مغربی تہذیب تو خیر اتنی پرانی نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ہمارا شمار نمایاں ترین اور ممتاز ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔
تیسری حقیقت: قابل لحاظ قدرتی اور افرادی قوت ہے۔ بیس پچیس سال قبل کہا جاتا تھا کہ ایران کے تیل کے ذخائر ایک خاص مدت میں، خالی ہو جائیں گے۔ لیکن تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کے بعد اس مدت میں چار پانچ گنا کا اضافہ ہو گیا۔ دھاتوں کے میدان میں، انرجی کے میدان میں، مختلف ذخائر کے میدان میں جن کی ہر ایک ملک کو ضرورت ہوتی ہے، ہمارا ملک دنیا کے مالامال ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ایک منفرد اور استثنائی ملک ہے۔ افرادی قوت کے اعتبار سے بھی یہی صورت حال ہے۔ ہم نے یہ بات بارہا کہی ہے، پہلے اندازے اور تخمینے کی بنیاد پر ہم یہ بات کہتے تھے لیکن بعد میں عالمی اعداد و شمار سے اس کی تائید و توثیق ہو گئی کہ ماہر افرادی قوت کے اعتبار سے ہم بہت بلند مقام پر ہیں۔ یعنی دنیا میں انسانی معاشروں کی اوسط صلاحیت و مہارت سے ہم بلند تر ہیں۔ ہمارے یہاں صلاحیت کی اوسط شرح دنیا کی اوسط شرح سے زیادہ ہے۔ ہماری صلاحیتیں اور ہمارے نوجوان بالکل منفرد ہیں، آپ خود بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میں نے یہ بات بار بار عرض کی ہے کہ میرے پاس جو اطلاعات ہیں اور مجھے جو رپورٹیں ملتی رہتی ہیں اور مشاہدے ہیں ان کے مطابق سائنس و ٹکنالوجی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کا بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی تنصیبات ملک کے اندر موجود ہوں اور پھر بھی اس شعبے میں ہمارے نوجوان اور سائنسداں کوئی بڑا کام انجام دینے میں کامیاب نہ ہوئے ہوں۔ وہ صرف اسی شعبے میں کوئی کام نہیں کر سکے جس کا بنیادی ڈھانچہ اور جس کی بنیادی تنصیبات ہمارے ملک میں موجود نہیں ہیں۔ البتہ ان شعبوں کی بنیادی تنصیبات بھی ہمیں تیار کرنا ہیں، بحمد اللہ اس سلسلے میں کام انجام پا رہا ہے۔ یہ قدرتی دولت اور یہ افرادی سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ان حقائق کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت بھی ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران بڑے گہرے زخم کھائے ہیں۔ داخلی استبداد اور داخلی امریت سے بھی ہمیں ضربیں پڑیں اور بیرونی جارحیتوں اور لشکر کشی کا بھی ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیں بڑی ضربیں پڑی ہیں۔ ہمارے ملک میں بیرونی طاقتوں کی دراندازی اور ریشہ دوانی کی تاریخ سنہ 1800 عیسوی سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی دو سو بارہ سال قبل پہلی دفعہ ہندوستان میں حکومت کرنے والے انگریزوں نے ہمارے ملک میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کی کوشش کی۔ جان میلکم ایران آيا، اس کی آمد کی تاریخ وغیرہ وہ افراد جانتے ہیں جو اس میدان سے تعلق رکھتے ہیں، ایران میں اس کے وارد ہونے کے جو نتائج نکلے اس سے بھی اہل علم باخبر ہیں۔ مغربی ثقافت، مغربی سیاست اور مغربی حکمرانی کے نفوذ اور غلبے کا مقابلہ کرنے میں اس وقت کی حکومتوں کی کمزوری اور نااہلی ملک کے کمزور ہو جانے کا باعث بنی اور پھر ہم رفتہ رفتہ کمزور ہوتے چلے گئے، شکست سے دوچار ہونے لگے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ہم اپنے ملک کے حالات کا اندازہ لگانے اور موجودہ صورت حال کو سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ماضی کے اس اہم دور کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہم پر بڑی سخت ضرب پڑی، انہوں نے ہمارے ملک میں سیاسی غلبہ بھی حاصل کر لیا، ثقافتی نفوذ بھی قائم کر لیا اور ہمارے ذخائر کو جی بھر کے لوٹا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں اب تک باقاعدہ علمی کام نہیں ہو سکا ہے۔ ہمارے مورخین ار محققین کو چاہئے کہ بااثر اور تسلط پسند بیرونی ممالک کے ہاتھوں وطن عزیز کے معاشی ذخائر کی لوٹ اور غارت گری کے سلسلے میں تفصیلی تحقیق کریں۔ مثال کے طور پر برطانیہ نے ایک خاص دور میں، روس نے دوسرے دور میں، ویسے کچھ دوسرے ممالک بھی آئے لیکن بنیادی طور پر انہی دونوں نے لوٹا، اس کے بعد باری آتی ہے امریکا کی۔ سرمائے کی لوٹ کھسوٹ، سیاسی تسلط اور قوم کی تحقیر۔ آپ مغربی سیاست کے غلام اور داخلی استبدادی اداروں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور عہدیداروں سے جو سنتے تھے کہ ایرانی عوام تو کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح اور بھی نہ جانے کیا کیا باتیں کرتے تھے! یہ سب کچھ ہمارے ملک پر مغربی ثقافت کے غلبے اور مغربی سیاست کے نفوذ کی دین تھی۔ یہ حقائق ہیں۔
پانچویں حقیقت: تین مراحل میں نمایاں ہونے والی قومی بیداری ہے۔ تین ادوار میں ہمارے یہاں عمومی قومی بیداری پیدا ہوئی۔ پہلا دور آئینی انقلاب کا دور ہے۔ دوسرا دور آیت اللہ کاشانی اور ڈاکٹر مصدق کی نیشنلائیزیشن کی تحریک کا دور ہے اور تیسرا دور اسلامی انقلاب کا دور ہے۔ پہلے دو ادوار میں ملت ایران کی تحریک شکست سے دوچار ہوئی۔ اس شکست کے عوامل و اسباب کیا تھے یہ ایک الگ تفصیلی بحث ہے۔ ہر ایک کے خاص علل و اسباب تھے۔ تیسرا دور اسلامی انقلاب کا دور ہے۔ یہ ہماری قومی تحریکیں ہیں۔ البتہ محدود پیمانے پر غیر عمومی تحریکیں بھی اٹھیں، جیسے تنباکو کی تحریک وغیرہ، لیکن یہ تحریکیں ملک میں قومی سطح پر بنیادی تبدیلی لانے والی تحریکیں نہیں تھیں، کسی خاص مسئلے اور اشو تک محدود تھیں۔ جن تحریکوں کو قومی تحریک اور عظیم اور بنیادی تبدیلی کی تحریک کہا جا سکتا ہے وہ یہی تینوں ادوار کی تحریکیں ہیں۔ اول الذکر دونوں تحریکیں شکست سے دوچار ہوئيں لیکن اسلامی انقلاب کی تحریک وہ نمایاں تحریک تھی جس نے مغربی طاقتوں اور دیگر مخالفین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ کارنامہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت کی برکت سے اور ان اصولوں کی برکت سے انجام پایا جو ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی تکیہ گاہ قرار پائے اور جن کی بنیاد پر امام خمینی نے اسلامی جمہوری نظام کی عمارت تعمیر کی اور واضح خطوط کا تعین فرمایا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ بنابریں ماضی کی ان دو صدیوں کے دوران ہمیں مغربی یلغار کے مقابل اگر شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ایک مقابلہ آرائی میں ہم نے مغرب کو ہزیمت سے دوچار بھی کیا۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے۔
چھٹی حقیقت: مختلف شعبوں میں حاصل ہونے والی پیشرفت ہے۔ بعض افراد سیاسی میدان کے سلسلے میں خواہ وہ خارجہ سیاست کا میدان ہو، داخلی سیاست کا میدان ہو یا اقتصادی میدان ہو، اکثر کہتے ہیں کہ جناب ہمیں حقیقت بیں ہونا چاہئے۔ بہت اچھی بات ہے! یہ سب جو ہم نے بیان کیا، حقائق ہیں، ان حقائق کو دیکھنا چاہئے۔ ایک اور اہم ترین حقیقت ملک کی ترقی و پیشرفت ہے۔ سنہ انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے لگاتار اسلامی جمہوریہ ایران بدلتا رہا ہے اور اتنی تبدیلی آئی ہے کہ ہم اس مدت میں کسی بھی دوسرے میں اتنی تبدیلی نہیں دیکھتے۔ مجھے کوئی بھی ملک ایسا نظر نہیں آتا۔ تمدن، صنعت اور سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے جہاں آج ہم پہنچے ہیں، ہم سے بہت زیادہ وقت صرف کیا ہے۔ یہ ایک طویل سفر تھا۔ جہاں تک مجھے اطلاع ہے اور جہاں تک میری فکر کام کرتی ہے دنیا میں اس وسیع پیمانے پر اتنی تیز رفتار ترقی شاید کہیں بھی نہیں ہوئی۔ ہم نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی ترقی کی، جس کے ایک حصے کا ذکر آج صدر محترم نے اپنی تقریر میں کیا، البتہ ہماری علمی ترقی اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی رپورٹ آج پیش کی گئی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف ایرانی حکام یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ دنیا کے علمی مراکز کی رائے یہی ہے۔ اسی طرح ہم نے سیاسی شعبے میں بھی زبردست ترقی کی ہے۔ داخلی سیاست کے میدان میں دیکھا جائے تو یہی دینی جمہوریت کا جو نمونہ ہم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، یہی انتخابات اور اجرائی و قانون سازی کے اداروں میں اقتدار کی منتقلی کی روش ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔ دینی جمہوریت ایک پاکیزہ جمہوری نظام ہے، اس میں وہ چالیں، حربے اور فریب نہیں ہے جو دنیا میں رائج ہے۔ مجھے بڑا افسوس ہے اس بات کہ ہمارے بہت سے نوجوان دنیا میں، خاص طور پر امریکا میں، مغرب میں یورپی ممالک میں انتخابات کے لئے جو حربے اختیار کئے جاتے ہیں اور جو بظاہر جمہوری طریقے معلوم پڑتے ہیں لیکن در حقیقت بالکل غیر جمہوری حربے ہوتے ہیں، ان سے بے خبر ہیں۔ اس موضوع پر بڑی اچھی کتابیں ضبط تحریر میں آ چکی ہیں، خود مغربی مصنفین نے لکھی ہیں، نوجوانوں کو چاہئے کہ ان کتابوں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ امریکی ریاستوں میں میئر اور گورنر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے، کوئی سنیٹر کسے بنتا ہے؟! اس کے بعد صدر کی کرسی پر کیسے پہنچتا ہے۔ کس طرح لوگوں کو دھکا دے دے کر یہاں تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ عمل کیسی کیسی چالوں کی مدد سے انجام پاتا ہے؟! اس کے بعد وہ تقابلی جائزہ لیں وطن عزیز کی صورت حال کا جہاں ایک شخص عوام کے سامنے آتا ہے، ان سے ہمکلام ہوتا ہے اور بعض اوقات اجرائے شعبے میں بغیر سابقہ تجربے کے، عوام کے ووٹ حاصل کر لیتا ہے۔ ایک ماحول بنتا ہے، فضا بنتی ہے، عوام پولنگ مراکز پر جاتے ہیں، ووٹ دیتے ہیں، اپنے پسندیدہ کینڈیڈیٹ کا انتخاب کرتے ہیں! بھاری اکثریت سے چنتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا ایک الگ نمونہ ہے۔ یہ ہماری سیاسی ترقی و پیشرفت ہے۔
خارجہ سیاست کے میدان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران گوناگوں علاقائی مسائل اور امور میں ناقابل انکار کلیدی کردار کا حامل ہے، اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے علاقائی مسائل ایک طرح سے عالمی مسائل بھی ہیں، ضمنا یہ حقیقت بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ داخلی سیاست کے میدان میں پیشرفت، جمہوریت کا نیا نمونہ، قومی انتخاب کی قوت، خارجہ سیاست میں اتنے گہرے اثرات، یہ سب حقائق ہیں۔
تعمیراتی شعبے میں ترقی۔ ان تیس برسوں میں جو تعمیراتی کام ہوئے ہیں وہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔ انقلاب سے پہلے ہم مختلف شہروں، قریوں اور محروم علاقوں میں جا چکے ہیں اور حالات کا قریب سے مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت کس طرح کام ہوتا تھا؟ اگر کبھی زلزلہ آ جاتا تھا تو ہمیں معلوم ہے کہ امداد رسانی کا کام کس طرح انجام دیا جاتا تھا، میں نے خود کئی بار بڑے زلزلوں کے بعد امدادی ٹیمیں تشکیل دیں اور متاثرہ علاقوں میں کام کیا۔ مگر آپ آج کے دور میں دیکھئے تو ملک کے ایک چھوٹے سے علاقے میں زلزلہ آیا، کوئی قدرتی آفت آئی اور عوام مشکلات سے دوچار ہوئے تو کس سرعت کے ساتھ امدادی کام انجام پاتا ہے؟! یہ تبدیلی ناقابل یقین ہے، مگر یہ عین حقیقت ہے۔
ثقافتی میدان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ انقلاب سے قبل کے طاغوتی دور کے مقابل اس وقت ہمارے حالات ایک سو اسی درجہ تبدیل ہو چکے ہیں۔ میں جزوی چیزوں کی بات نہیں کرتا، کلی جائزہ لیا جائے تو سو فیصدی تبدیلی ہوئی ہے۔ البتہ اگر ہم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں، زیادہ سنجیدگي سے کام کریں تو جزوی چیزیں بھی درست ہو جائیں گی اور ہم ان میں بھی کامیاب ہوں گے۔
امید افزا مستقبل بھی ملک کی ایک اور اہم حقیقت ہے۔ موجودہ نوجوان نسل کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ میں نے گزشتہ سال ماہ رمضان میں یہیں کچھ باتیں بیان کی تھیں، ان پر کسی حد تک عمل ہوا، مکمل طور پر ابھی عمل نہیں ہوا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا مسئلہ ہمارے ملک کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ فیملی پلاننگ ہمارے وطن عزیز کے لئے بے حد خطرناک ہے۔ ہم اس خطرناک سمت میں کافی آگے چلے گئے ہیں، ہمیں لوٹنا ہوگا۔ ہم اس عمل کا سد باب کر سکتے تھے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ماہرین نے تحقیقاتی عمل کے نتیجے میں جو رپورٹ تیار کی ہے وہ یہ کہتی ہے کہ اگر ملک میں موجودہ روش جاری رہی تو آگے چل کر ہم سب بڑی سنگین مشکل سے دوچار ہوں گے۔ ملک عمومی بڑھاپے کی مشکل سے دوچار ہو جائے گا۔ فیملی پلاننگ بڑی بری شئے ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں ایک بل زیر غور ہے لیکن ہمیں جو رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق یہ بل کارگر نہیں ہوگا، اس بل میں جو سہولیات اور چیزیں شامل کی گئی ہیں وہ کافی نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اس سلسلے میں کام کرنے والے ماہرین کو چاہئے کہ حالات کے تقاضوں کو صحیح طریقے سے زیر غور لائیں اور ان کے مطابق کام کریں۔
ساتویں مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سامنے دشمنوں کا ایک محاذ ہے۔ دوسری بہت سی چیزوں اور میدانوں کے اعتبار سے بھی ہم دنیا سے بالکل الگ ہیں، اسی طرح اس دشمنی کے معاملے میں بھی ہماری بالکل منفرد صورت حال ہے۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے مد مقابل دشمنوں کا اتنا وسیع وعریض محاذ ہو۔ رجعت پسندوں کا محاذ ہے، استکباری طاقتوں کا محاذ ہے، مغربی ممالک کے بعض حکام ہیں، بعض علاقائی حکومتوں کے کمزور افراد ہیں۔ تو یہ طے ہے کہ ہمارے مقابل ایک محاذ موجود ہے۔ اس کی واضح وجوہات ہیں جن کا تجزیہ اور تشریح کی جا سکتی ہے تاہم یہ اس کا مناسب موقعہ نہیں ہے،البتہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ہمارے سامنے یہ محاذ موجود ہے۔ اس محاذ کے مقابلے میں ہمیں مذکورہ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور کلی اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ ہر شعبے کے ہر عہدیدار کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان حالات میں مستقبل کا راستہ کیا ہونا چاہئے۔ اس کی تشخیص کی صلاحیت اس کے اندر ہونی چاہئے۔ ہماری نظر میں تو یہ حقائق مستقبل کے راستے کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ حکومتیں اور مختلف شعبوں کے عہدیدار جو ابتکار عمل انجام دیتے ہیں وہ وطن عزیز کے لئے اللہ کی ایک نعمت ہے، ایک اہم موقعہ ہے۔ اسلامی انقلاب کی چوتھی دہائی میں ہم پہنچ چکے ہیں، یہ دہائی حقیقت میں پیشرفت و انصاف کی دہائی بن سکتی ہے۔ یہ جو حقائق ہماری نگاہ کے سامنے ہیں، ہمیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ ہم اس عشرے کو حقیقی معنی میں پیشرفت و انصاف کے عشرے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
مطلوبہ اہداف کی جانب پیش قدمی کے عمل میں ہمیں اپنی اندرونی قوت اور ڈھانچے میں استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اقدامات کی رخ یہی ہونا چاہئے۔ اگر ہم اس سفر کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس سمت میں آگے جانا چاہتے ہیں، ان اہداف تک رسائی کے متمنی ہیں، ان اہداف پر نظریں مرکوز کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مخالفتوں اور مخاصمتوں کا ثابت قدمی سے سامنا کرنا ہوگا اور صبر و توکل پر کاربند رہنا ہوگا۔ ہمیں ملک کے اندر قومی طاقت کے ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے، اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ اس استحکام کے لازمی عناصر میں بعض ایسے ہیں جو دائمی ہیں اور بعض ایسے عناصر ہیں جو وقتا فوقتا بدلتے رہتے ہیں۔ دائمی عناصر میں عزم راسخ ہے جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ ملک کے حکام کو چاہئے کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے اپنا عزم و ارادہ قائم رکھیں، عزم راسخ میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہونے دیں۔ اعلی اہداف کی جانب پیش قدمی کے لئے عزم راسخ ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کی برہمی، تلخ کلامی، گوناگوں معاندانہ حرکتوں، سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی حربوں سے ہمارے قدموں میں تزلزل پیدا ہو جائے۔ حکام کے یہاں بھی عزم راسخ ضروری ہے اور عوام الناس کے اندر بھی اس کی سخت ضرورت ہے۔ البتہ آخر الذکر یعنی عوام کے عزم راسخ کے کچھ لوازمات ہیں۔ واضح ہے کہ اگر ہمیں عوام الناس کے عزم راسخ کو قائم رکھنا ہے تو اس کے لئے کچھ ذمہ داریوں پر عمل ضروری ہے۔
جو وقت گزرنے کے ساتھ بدلنے والے عناصر ہیں اور اس وقت جو وطن عزیز کی اہم ترجیحات میں شامل ہیں، میری نظر میں وہ اقتصاد اور سائنس و ٹکنالوجی کا مسئلہ ہے۔ ملک کے اعلی حکام، اہم پالیسی ساز، وہ افراد جو ملک کے سیاسی امور کے ذمہ دار ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ پیشرفت کے لئے ان دونوں باتوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔ ملکی معیشت کے مسئلے پر توجہ ضروری ہے، ملک کی علمی پیشرفت پر توجہ ضروری ہے۔ اقتصاد پر توجہ عمومی ہے اور سب اس جانب متوجہ ہیں۔ اس سال کے نعرے میں اقتصادی جہاد کا پہلو بھی شامل ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح سیاسی جہاد انجام پایا اسی طرح حکام کی بلند ہمتی کے نتیجے میں اقتصادی جہاد بھی انجام پائے گا۔ البتہ اقتصادی امور کوتاہ مدتی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک مہینے، دو مہینے اور ایک سال کا کام نہیں ہے۔ لیکن بہرحال عمل کا آغاز ہو جانا ضروری ہے۔ میں علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے مسئلے پر بھی تاکید کروں گا۔ گزشتہ دس سال کے اندر سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہماری پیشرفت اچھی رہی ہے، علمی پیشرفت کا عمل اور اس پیشرفت کی رفتار بہت اچھی رہی۔ اس تیز رفتاری میں کوئی کمی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم مطلوبہ سطح تک پہنچنا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا میں علم و دانش کے میدان میں صف اول کا حصہ بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی اس رفتار کو قائم رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ ہے دنیا کے ساتھ باہمی تعاون، جس کے بارے میں ان دنوں کچھ زیادہ گفتگو ہو رہی ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ تعاون کے قائل ہیں۔ تاہم دنیا کے ملکوں سے تعاون کے لئے ہمیں مد مقابل فریق کی شناخت ہونا چاہئے، اگر ہمیں یہ شناخت نہ ہوگی تو ہم پر کبھی بھی ضرب پڑ سکتی ہے۔ ہمیں اپنے دشمن کے اقدامات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ممکن ہے انسان مصلحتا ماضی کی باتوں کو بیان نہ کرے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آپ کا سامنا کبھی کسی شخص سے ہوا ہے اور آپ کوئی کام انجام دینا چاہتے ہیں تاہم اس شخص کا ماضی کا برتاؤ آپ کے ذہن میں ہے مگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پرانی بات کو چھیڑنا مناسب نہیں ہوگا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن ماضی کے اس کے اقدامات آپ کے ذہن میں ضرور ہونا چاہئے، اگر آپ نے ماضی کی باتوں کو اپنے ذہن سے مٹا دیا تو ممکن ہے آپ کوئی وار کھا جائیں۔
امریکی کہہ رہے ہیں کہ ہم ایران سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات وہ برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلا موقعہ ہے جو ہمیں ملا ہے۔ میں نے آغاز سال (ہجری شمسی سال جو اکیس یا بیس مارچ سے شروع ہوتا ہے) کی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میں کسی خوش فہمی میں نہیں ہوں۔ کسی خاص مسئلے میں مذاکرات کی ہم ممانعت نہیں کرتے۔ جیسے عراق کے مسئلے میں یا بعض دیگر معاملات میں مذاکرات سے ہم نے نہیں روکا لیکن اس بارے میں مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ میرا تجربہ شاہد ہے کہ امریکی غیر منطقی بھی ہیں اور ناقابل اعتماد بھی ہیں، ان کے یہاں صداقت نہیں ہے۔ ہماری اس تقریر کو چار مہینے کا عرصہ ہو رہا ہے، اس مدت میں امریکیوں کا جو رویہ رہا ہے اس سے میرے خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ امریکی حکام اور سیاستدانوں کے طرز عمل سے ثابت ہو گیا کہ امریکیوں کے بارے میں جو ہم نے کہا تھا کہ میں کسی خوش فہمی میں نہیں ہوں تو بالکل درست کہا تھا۔ انہوں نے اپنے عمل سے اس نظرئے کی تصدیق کر دی۔ برطانوی حکام نے بھی اور دیگر ملکوں کے حکام نے بھی ایک الگ انداز سے اس خیال کی تصدیق کی۔ دنیا سے تعاون کرنے اور معاملات انجام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہم تو شروع سے ہی دنیا سے تعاون کر رہے ہیں، لیکن تعاون اور معاملات میں ضروری ہے کہ ہم مد مقابل فریق کو پوری طرح پہچانتے ہوں، اس کی چالوں اور حربوں سے واقفیت رکھتے ہوں، کلیدی اور بنیادی اہداف ہمارے مد نظر رہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی دشمن آپ کا راستہ روک دے اور کہے کہ اب اس سے آگے آپ نہیں جا سکتے۔ ایسے میں مفاہمت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اس کی بات قبول کر لیں اور وہیں سے لوٹ جائیں! فن تو یہ ہے کہ آپ ایسی روش اختیار کیجئے کہ آپ کی پیشرفت بھی جاری رہے اور دشمن آپ کا راستہ روکنا بھی بند کر دے۔ ورنہ اگر مفاہمت اس طرح ہو کہ وہ کہے آپ یہیں سے لوٹ جائیے اور آپ کہیں کہ جیسا حکم! تو یہ تو بہت بڑا خسارہ ہے۔ ان باتوں پر حکام اور عہدیداروں کی توجہ رہنا چاہئے۔ بیشک علاقائی مسائل بہت اہم ہیں جن پر بحث ضروری ہے لیکن اب وقت نہیں رہ گیا ہے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! آپ نے یہ گفتگو سنی، تحمل کا مظاہرہ کیا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب پر اپنے فضل و کرم کا سایہ رکھے۔ پالنے والے! اس ماہ مبارک میں ہمیں توفیق دے کہ تیری بارگاہ میں خضوع و خشوع کی حالت پیدا کر سکیں۔ پروردگار! ہمیں اس جہنم سے نجات دے جس کی آگ ہم خود اپنے اعمال سے شعلہ ور کرتے ہیں۔ پروردگار ہمیں عمل صالح کی توفیق عطا فرما۔ پروردگار! محمد و آل محمد کا صدقہ، ملت ایران، ملک کے حکام، وہ حکام جو تاحال مصروف خدمت تھے اور وہ حکام جو کل کو اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، سب کو اپنے لطف و عنایت کے سائے میں رکھ۔ جن لوگوں نے اس قوم کے لئے اور اس ملک کے لئے زحمتیں اٹھائی ہیں، محنت کی ہے، ان کی خدمات کو قبول فرما! پالنے والے! جو لوگ اس ملک کی خدمت کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں اس میں کامیاب فرما، انہیں صحیح راستے کی، اس راستے کی جو تجھے پسند ہے ہدایت فرما۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ ہمارے عظیم الشان امام، امام خمینی کی روح مطہرہ اور شہدا کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔

و السّلام عليكم و رحمة الله و بركاته

۱) نصر: ۳-۱
۲) مصباح المتهجد، ج ۲، ص ۶۱۰
۳) مولوى
۴) اعراف: ۲۰۵
۵) عنكبوت: ۶۵
۶) يونس: ۱۲
۷) عنكبوت: ۵۸ و ۵۹
۸) انفال: ۶۵
۹) كهف: ۱۰۳ و ۱۰۴