قائد انقلاب اسلامی نے 1392/05/18 ہجری شمسی 09-08-2013 عیسوی جمعے کو نماز عید الفطر کے خطبوں میں یوم القدس کے جلوسوں میں عوام کی پرشکوہ شرکت کو ماہ رمضان المبارک میں ملت ایران کی مجاہدانہ کوشش سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ملت ایران نے یوم القدس کے ملک گیر جلوسوں میں شرکت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک زندہ قوم ہے جو دنیا اور عالم اسلام کے اہم ترین مسائل کے سلسلے میں ہمیشہ میدان میں رہتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے ملکوں کے حالات و واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں نئی حکومت کی تشکیل کی مسرت بخش خبر کے برخلاف علاقے میں اسلامی ملکوں کے حالات تشویشناک ہیں۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صیہونیوں کے مظالم کا سلسلہ جاری رہنے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ موجودہ دنیا کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے جھوٹے دعویدار، غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کی اعلانیہ حمایت کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر کے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہمیں گہری تشویش ہے کہ اس ملک میں خانہ جنگی کا خدشہ موجودہ تغیرات کے تحت بڑھتا جا رہا ہے اور یقینی طور پر یہ ایک المیہ ہے، اس لئے مصر کی سیاسی، علمی اور مذہبی شخصیات کو موجودہ حالات کے بھیانک نتائج اور شام کی صورت حال کا بغور جائزہ لینا چاہئے اور بیرونی طاقتوں کو مداخلت کا موقعہ نہیں دینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح عراق کے حالات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس ملک میں جمہوری بنیادوں پر عوامی ووٹوں سے ایک حکومت بر سر اقتدار آئی ہے لیکن چونکہ بڑی طاقتیں اور علاقے کی رجعت پسند حکومتیں اس صورت حال کو پسند نہیں کرتیں اس لئے وہ عراقی عوام کو چین و سکون کا سانس نہیں لینے دینا چاہتیں۔
عید الفطر کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے دونوں خطبوں کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
خطبه‌ی اول
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد لله ربّ العالمين بارئ الخلائق اجمعين نحمده و نستعينه و نستغفره و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهدييّن المعصومين المكرّمين سيّما بقيّة الله فى الأرضين.

آپ تمام بھائیوں اور بہنوں، عزیز نمازیوں اور اس عظیم الشان اجتماع میں شریک تمام مومنین کو نیز خود کو تقوی و پرہیزگاری قائم رکھنے کی سفارش کرتا ہوں، اس کی دعوت دیتا ہوں جو دنیا و آخرت میں سعادت و کامرانی کی کنجی ہے۔ آپ سب کو، تمام ملت ایران اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید سعید فطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
برکات الہیہ سے سرشار مہینہ رمضان المبارک ہمارے درمیان سے گزرا، بہت سے خوش قسمت افراد اس مہینے کی برکتوں سے بہرہ مند ہوئے۔ لوگوں نے اس شدید گرمی کے موسم میں، ان طولانی دنوں میں، روزے کے عالم میں، بھوک اور پیاس کے احساس کے ساتھ، نفسانی خواہشات سے اجتناب کرتے ہوئے دنوں کو اطاعت پروردگار میں گزارا اور بہتوں نے اپنی راتیں دعا و ذکر و مناجات اور عبادت پروردگار میں بسر کیں۔ جن افراد نے اللہ کی عبادتیں کرکے، فرائض الہیہ کو ادا کرکے اپنی تکلیف شرعی کو پورا کیا، ان میں احساس طمانیت و مسرت ہے۔ اس مہینے میں انجام پانے والے روحانی اعمال اور جہاد بالنفس صاحبان ہمت و ارادہ یعنی آپ حضرات کو جنہوں نے روزے کی سختیوں کو برداشت کیا، روحانی خوشی عطا کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے لئے کام کرنے اور اللہ کے راستے میں مجاہدت کی خصوصیت ہے کہ اس میں سختی اور دشواری اٹھانے کے باوجود انسان کے اندر احساس فرحت و مسرت پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس فرحت و خوشی کو عید فطر کے دن کی خوشی سے متصل کر دیا ہے اور اس دن کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نماز میں پڑھے جانے والے نو قنوتوں میں آپ اللہ کو اس دن کی قسم دیتے ہیں:۔«اسئلك بحقّ هذا اليوم»(۱) - یہ اس دن کی عظمت و رفعت کی علامت ہے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی عبادتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور ملت ایران پر اپنی رحمتوں اور فضل و کرم کا نزول فرمائے، اس مہینے میں انجام پانے والی محنتوں پر آپ سب کو ثواب جزیل مرحمت فرمائے۔ اس مہینے کی اہم مجاہدانہ کوششوں میں سے ایک یوم قدس کے جلوسوں میں شرکت ہے۔ آپ کے اس عمل کی عظمت کو کسی طرح بھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے کس طرح تمازت آفتاب میں، روزے کے عالم میں، ان سڑکوں پر، پورے ملک میں جلوس نکالے تا کہ عالم اسلام اور تاریخ اسلام کے اس اہم ترین مسئلے کے تعلق سے اپنی پائیداری و استقامت کا ثبوت پیش کریں۔ اسی کو زندہ قوم کہتے ہیں۔ ملت ایران کے اس عزم و حوصلے کا دل کی گہرائیوں اور پورے وجود سے شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
اس سال ایک سنت حسنہ گزشتہ برسوں سے زیادہ وسیع پیمانے پر نظر آئی اور بڑی اچھی ہوگی کہ اس پر خوب توجہ دی جائے۔ یہ سنت حسنہ مساجد میں اور سڑکوں پر بڑی سادگی کے ساتھ اور ہر طرح کے دکھاوے سے اجتناب کرتے ہوئے افطاری دینا ہے۔ ملک کے بہت سے شہروں میں یہ انتہائی شائستہ عمل انجام پایا کہ اسراف اور فضول خرچی کے بجائے جو بعض لوگ افطاری کے نام پر انجام دیتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک میں فقرا و مساکین کی باطنی کیفیت سے خود کو آشنا کرنے کے بجائے اپنے اس عمل سے اور اپنی اس روش سے خود کو جسمانی لذت میں غرق کر لیتے ہیں، لوگوں نے سادہ افطاری تقسیم کی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اگر افطاری میں کوئی شخص اپنا پسندیدہ کھانا کھاتا ہے تو یہ ممنوع ہے، نہیں، شریعت نے اس کی ممانعت نہیں کی ہے۔ شریعت نے اسراف سے روکا ہے، فضول خرچی کرنے سے منع کیا ہے۔ اس طرح کی محفلوں میں ہونے والی چیزوں کی بربادی ممنوع ہے۔ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ لوگ اگر افطاری دینا چاہیں تو اسی رائج شدہ روش اور انداز کے مطابق افطاری دیں کہ لوگوں کو، راہگیروں کو، افطاری کرنے والوں کو ان مفت دسترخوانوں پر، گلی کوچوں میں، امام بارگاہوں میں اور مساجد میں، سڑکوں پر افطار کرائیں۔ اس پر اپنا پیسہ صرف کریں، فراخدلی دکھائیں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران کو برکتوں سے نوازے، آپ کے اعمال قبول فرمائے اور آئندہ سال تک ماہ رمضان المبارک کے ثمرات کو محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے!

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين ءامنوا و عملوا الصّالحات‌
و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.(۲)

خطبه‌ی دوم

بسم ‌الله‌ الرّحمن‌ الرّحيم‌
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و سيّدة نساء العالمين و الحسن و الحسين سبطى الرّحمة و امامى الهدى و علىّ‌ بن ‌الحسين زين ‌العابدين و محمّد بن‌علىّ الباقر و جعفر بن ‌محمّد الصّادق و موسى‌ بن ‌جعفر الكاظم و علىّ ‌بن ‌موسى ‌الرّضا و محمّد بن ‌علىّ الجواد و علىّ‌ بن ‌محمّد الهادى و الحسن ‌بن ‌علىّ ‌العسكرى و الحجّة القائم المهدىّ صلوات الله عليهم اجمعين و السّلام على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين و نستغفر الله و نتوب اليه.

تمام بھائیوں اور بہنوں کو گفتار، کردار اور موقف میں اور مختلف سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں میں تقوا کو ملحوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔
ان ایام میں، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا بلکہ پورے عالم اسلام کی سطح پر بڑے واقعات و تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ ہم ان واقعات میں کچھ کا اجمالی طور پر جائزہ لیں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں ایک اہم واقعہ نئی حکومت کی تشکیل ہے اور بحمد اللہ عوام کی بلند ہمتی اور ہمہ جہتی مساعی کے نتیجے میں یہ قانونی خواہش اور قومی عمل بہترین انداز میں سرانجام پایا اور انشاء اللہ بہت جلد پارلیمان کی جانب سے اہلیت و لیاقت رکھنے والے وزراء کے ناموں کی توثیق کے بعد کابینہ تشکیل پا جائے گی اور وہ بڑے اور اہم کام شروع کر دے گی جو اس کے سامنے ہیں۔ ویسے ابھی سے ہی کچھ کاموں کا آغاز ہو گیا ہے۔ اللہ سے ہماری دعا ہے کہ اپنی توفیقات، صدر محترم اور ملک کے اجرائی عہدیداروں کے شامل حال رکھے، عوامی حمایت سے انہیں مدد اور حوصلہ ملے، عوام کی دعائیں ان کے شامل حال ہوں اور وہ اپنے دوش پر عائد عظیم ذمہ داریاں انجام دے سکیں، ان کے سامنے بڑے قومی مفادات ہیں اور ساتھ ہی بڑی دشواریاں بھی ہیں، ایسے میں وہ اپنے فرائض منصبی بنحو احسن ادا کر سکیں۔
ہمارے اطراف میں واقع دیگر ممالک، یعنی مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے ممالک میں جاری تغیرات اور واقعات اس طرح کے خوش کن واقعات نہیں بلکہ تشویش پیدا کرنے والے واقعات ہیں۔ ایک مسئلہ مظلوم فلسطینیوں کا ہے جو فلسطین پر رسمی طور سے غاصبانہ قبضہ ہونے کے پینسٹھ سال بعد بھی ہنوز لا ینحل باقی ہے اور روزانہ اس مظلوم قوم پر ظلم و زیادتی کے مںاظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ گھروں کی مسماری، بے گناہوں کی گرفتاری، بچوں کو ماں باپ سے جدا کر دینا، بے گناہوں سے جیلوں کو بھر دینا اور ان افراد کو دوبارہ جیلوں میں ڈالنا جو اپنی سزا اس سے پہلے کاٹ چکے ہیں۔ بڑی دردناک حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتیں جرائم پیشہ صیہونیوں کی کھلی حمایت کر رہی ہیں۔ یہ موجودہ دنیا کی بڑی افسوسناک حقیقت ہے کہ اس ظلم کی جس کے اندر درجنوں بلکہ سیکڑوں مظالم مضمر ہیں، ایسے لوگ حمایت کر رہے ہیں جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسداری کی حمایت کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے، جن کی زبانوں پر بڑے مسحور کن نعرے ہیں لیکن عملی میدان میں دیکھا جائے تو جرائم پیشہ افراد کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اس وقت ایک بار پھر فلسطینی انتظامیہ اور صیہونیوں کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے ہیں جن کا نتیجہ یقینی طور پر سابقہ مذاکرات کے نتیجے سے مختلف نہیں ہوگا جن میں فلسطینیوں کو اپنے حقوق سے بار بار دست بردار ہونا پڑا، جارح کو مزید گستاخی کی جرئت ہوئی اور فلسطینی عوام کی حق بجانب تحریک کو کچلنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے گھروں کو مسمار کیا، قابض اسرائیلی عوام کے لئے وہ غصبی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں اور اوپر سے فرماتے ہیں کہ ہم تو مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس وقت انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مذاکرات خفیہ طور پر انجام دئے جائیں گے، یقینی طور پر اس دفعہ کے مذاکرات میں بھی استکباری طاقتوں کی سازش فلسطینیوں کو نقصان پہنچانا ہے۔
ہمارا ماننا ہے کہ عالم اسلام کو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اپنے عزم و ارادے اور مضبوط جذبے میں ذرہ برابر تزلزل نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ درندہ صفت صیہونی بھیڑیوں کے غاصبانہ اقدامات اور ان کے بین الاقوامی حامیوں کی کھل کر مذمت کرے۔ یہ مذاکرات امریکا کی نام نہاد ثالثی میں انجام پا رہے ہیں، نام نہاد اس لئے کہ امریکا حقیقت میں اس مسئلے میں ثالثی نہیں بلکہ خود اس مسئلے کا ایک فریق ہے جو فلسطین کے غاصبوں اور صیہونیوں کے محاذ میں شامل ہے، کہیں یہ مذاکرات فلسطینی عوام پر مزید مظالم اور ان کی مزید تنہائی کا باعث نہ بنیں۔
دوسرا مسئلہ مصر کے حالات ہیں۔ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہمیں بڑی تشویش ہے۔ جو تبدیلیاں ہو رہیں ان کے نتیجے میں مصر میں خانہ جنگی شروع ہو جانے کے امکانات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ ایک المیہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عظیم مصری قوم، اس ملک کے دانشور، مذہبی رہنما اور سیاسی قائدین موجودہ صورت حال کا بنظر غائر جائزہ لیں اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ اس صورت حال کے جاری رہنے کی صورت میں کیا عواقب اور نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ شام کے حالات کو دیکھیں، اس ملک میں جہاں بھی مغرب اور اسرائیل کے مہرے اور دہشت گرد موجود ہیں ان کی موجودگی کے نتائج کا جائزہ لیں، ان خطرات کو سمجھیں۔ جمہوریت پر توجہ دی جانی چاہئے اور قتل عام کی شدت سے کھلے لفظوں میں مذمت کی جانی چاہئے۔ عوامی حلقوں کا ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوکر تلخ لہجے میں بات کرنا اور دھمکیاں دینا بالکل بے سود ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے جو اس وقت صاف طور پر نظر آ رہی ہے، مصر کے عوام کو خسارے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ مصر کی مشکل کو خود مصری عوام ہی حل کر سکتے ہیں، اس ملک کے مفکر اور دانشور ہی حل کر سکتے ہیں۔ انہیں غور کرنا چاہئے اور اس صورت حال سے جو خطرناک عواقب سامنے آ سکتے ہیں ان کا اندازہ لگانا چاہئے۔ اگر خدانخواستہ نراجیت پھیل گئی، اگر خدانخواستہ خانہ جنگی شروع ہو گئی تو پھر کون اس کا سد باب کر سکے گا؟ بڑی طاقتوں کو مداخلت کا بہانہ مل جائے گا جو کسی بھی ملک اور قوم کے لئے سب سے بڑی آفت اور مصیبت ہیں۔ ہمیں بڑی تشویش ہے۔ میں برادرانہ سفارش کر رہا ہوں مصر کے دانشوروں کو، مصر کے عوام کو، سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور علمائے کرام کو کہ خود غور کریں، خود اقدام کریں اور غیروں کو اور بڑی طاقتوں کو جن کی خفیہ ایجنسیاں مصر کی موجودہ صورت حال کے وجود میں آنے کے سلسلے میں قطعی بے قصور نہیں ہیں، پھر دخل اندازی کا موقعہ نہ دیں۔
ایک اور مسئلہ عراق کا ہے۔ عراق میں جمہوری ضوابط کے مطابق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایک حکومت تشکیل پائی ہے۔ چونکہ بڑی طاقتیں اور علاقے کی رجعت پسند قوتیں اس صورت حال سے ناخوش ہیں، وہ نہیں چاہتیں کہ عراقی عوام کو چین کی زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملے۔ یہ دھماکے، یہ قتل عام، یہ دہشت گردی، یقینی طور پر ان بعض علاقائی اور بیرونی طاقتوں کی مالیاتی، سیاسی اور اسلحہ جاتی مدد سے انجام پا رہی ہے، جو عراقی قوم کو سکون کا سانس نہیں لینے دینا چاہتیں۔ ایسی صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عراقی سیاستداں، عراقی حکام، عراقی جماعتیں، شیعہ و سنی فرقے اور عرب و کرد قومیتیں، بعض دیگر ممالک کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ داخلی اختلافات اور خانہ جنگی کے نتیجے میں کسی ملک کا بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی تنصیبات کس طرح تباہ اور تہس نہس ہو جاتی ہیں، کس طرح ایک قوم کا مستقبل نابود ہوکر رہ جاتا ہے۔ ان تمام مسائل اور حالات میں صیہونی حکومت اور اسرائیلی غاصب خوش ہو ہوکر تماشا دیکھ رہے ہیں اور بڑی فرحت محسوس کر رہے ہیں۔ کیا یہ صورت حال مناسب ہے۔
پالنے والے محمد و آل محمد کا صدقہ ہم سب کو غفلت کی نیند سے بیدار کر دے۔ پالنے والے! شرپسندوں اور جارح قوتوں کی دست برد سے مسلم اقوام اور اسلامی ملکوں کو محفوظ رکھ۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کے صدقے میں اسلام اور مسلمانوں کو ہر جگہ اور ہر مقام پر نصرت عطا کر۔

بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحيم‌
انّا اعطيناك الكوثر. فصلّ لربّك و انحر. انّ شانئك هو الأبتر.(۳)

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) مفاتيح‌الجنان، اعمال روز عيد فطر
۲) عصر: ۳-۱
۳) كوثر: ۳-۱