قائد انقلاب اسلامی نے 12 آبان 1392 ہجری شمسی مطابق 3نومبر 2013 عیسوی کو اتوار کی صبح استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے ہزاروں طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملت ایران سے امریکا کی دشمنی کی بنیادی وجوہات کا جامع جائزہ پیش کیا اور جاری مذاکرات سے تعلق رکھنے والے محنتی حکام کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکا سے مذاکرات کا نتیجہ برآمد ہوا تو چہ بہتر اور اگر کوئي نتیجہ نہ نکلا تو اس مکرر سفارش کی اہمیت اور واضح ہو جائے گی کہ مشکلات کے حل کے لئے ہمیں اپنے داخلی وسائل و ذرائع کا ہی سہارا لینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے استکبار کے معنی و مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ استکبار کا اطلاق ان افراد اور حکومتوں پر ہوتا ہے جو دیگر اقوام کے امور میں مداخلت اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کو اپنا حق سمجھتی ہیں اور کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ استکبار کے مد مقابل، وہ قومیں اور وہ انسان ہوتے ہیں جو استکبار کے جبر و استبداد، مداخلت پسندی اور توسیع پسندی کو برداشت نہیں کرتے بلکہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ملت ایران کا شمار اسی زمرے کی ملتوں میں ہوتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی حکومت استکباری حکومت ہے جو دنیا بھر کی اقوام کے امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر آج دنیا میں منصفانہ طور پر سروے کرایا جائے تو دنیا کے عوام کی نظر میں کوئی بھی حکومت امریکی حکومت جتنی قابل نفرت نہیں ہوگی۔ بنابریں استکبار سے مقابلہ اور عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ جو درست تجزئے پر استوار ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام نوجوانوں کو استکبار سے مقابلے کے موضوع کا درست تجزیہ کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اوائل انقلاب کے نوجوانوں کو امریکا کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں کسی تجزئے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہوں نے امریکا کے ظلم و ستم اور اس کی جانب سے بے رحم شاہی حکومت کی حمایت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا، لیکن آج کے نوجوانوں کو چاہئے کہ درست تجزیہ و تحلیل سے اس حقیقت کو سمجھیں کہ ایرانی قوم استکبار اور امریکا کے روئے کی کیوں مخالفت کرتی ہے اور امریکا سے ملت ایران کی بیزاری کی وجہ کیا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم

آج آپ عزیز نوجوانوں کی سانسوں کی یہ حرارت اوائل انقلاب سے تاحال ان برسوں کے دوران بار بار نظر آنے والے خاص جوش و خروش کی یاددہانی کرا رہی ہے، وہ جوش وخروش جو ملت ایران کی اس انقلابی تحریک کی پشت پناہ اور اس کی بقا کا ضامن رہا ہے۔ وطن عزیز اور اسلامی جمہوری نظام کے لئے اللہ کی عظیم نعمت یہی نوجوان نسل ہے جو روشن احساسات و جذبات کے ساتھ، منطق پر استوار سوچ کے ساتھ، پاکیزہ قلوب اور پاک و صاف نیت کے ساتھ ہمارے سامنے ہیں۔
ہماری آج کی یہ نشست تیرہ آبان (مطابق چار نومبر) کے واقعات کی یاد منانے کے لئے منعقد ہوئی ہے، جو اسلامی انقلاب سے قبل اور انقلاب کی فتح کے بعد الگ الگ برسوں میں رونما ہوئے۔ یہ تین اہم واقعات ہیں۔ سنہ انیس سو چونسٹھ میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی کا واقعہ ہوا، سنہ انیس سے اٹھہتر میں تہران میں اسکولی طلبہ کے قتل عام کا دلدوز سانحہ ہوا اور سنہ انیس سے اناسی میں تہران میں جاسوسی کے مرکز (امریکی سفارت خانہ) پر طلبہ کے قبضے کے شجاعانہ اقدام کا واقعہ ہوا۔ یہ تینوں ہی واقعات کسی نہ کسی طرح ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت سے مربوط ہیں۔ سنہ انیس سو چونسٹھ میں ایران میں امریکی مشیروں اور اہلکاروں کو عدالتی استثنا دینے والے کیپیچولیشن قانون کے خلاف احتجاج کی وجہ سے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کو جلا وطن کیا گیا، لہذا یہ معاملہ بھی امریکا سے مربوط کہا جائے گا۔ سنہ انیس سو اٹھہتر میں امریکا کے اشارے پر کام کرنے والی ایران کی شاہی حکومت نے تہران کی سڑکوں پر اسکول اور کالج کے طلبہ کا قتل عام کیا اور تہران کی سڑکیں ہمارے بچوں کے خون سے رنگین ہو گئیں، امریکا کی پٹھو حکومت کی حفاظت کے لئے یہ اقدام انجام دیا گيا، بنابریں یہ مسئلہ بھی امریکا سے مربوط ہے۔ سنہ انیس سو اناسی میں جوابی وار کیا گیا۔ یعنی ہمارے صاحب ایمان نوجوانوں اور طلباء نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دیا اور اس سفارت خانے کی اصلی حقیقت کو جو جاسوسی کا اڈہ بن چکا تھا آشکارا اور ساری دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس وقت ہمارے نوجوانوں نے امریکی سفارت خانے کو 'جاسوسی کے گھونسلے' کا نام دیا تھا۔ آج تیس چونستیس سال گزر جانے کے بعد امریکا کے قریبی ترین اتحادیوں یعنی یورپی ملکوں میں امریکی سفارت خانوں کے لئے جاسوسی کے گھونسلے کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے نوجوان دنیا کی تاریخ سے تیس سال آگے تھے۔ یہ مسئلہ بھی امریکا سے ہی مربوط ہے۔ اس دن تین واقعے ہوئے اور تینوں کا کسی نہ کسی صورت میں رابطہ امریکا سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیرہ آبان مطابق چار نومبر کے دن کو جو کل آنے والا ہے، استکبار سے مقابلے کا دن قرار دیا گیا۔
استکبار کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ استکبار کا لفظ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ بروئے کار لایا گيا ہے۔ مستکبر انسان، مستکبر حکومت اور مستکبر گروہ یعنی وہ افراد اور وہ حکومت جو دیگر انسانوں اور اقوام کے امور میں مداخلت کی فکر میں رہتی ہے، ان کے تمام امور میں مداخلت کرتی ہے تاکہ اپنے مفادات کی حفاظت کرے۔ خود کو آزاد سمجھتی ہے، دیگر اقوام پر اپنی مرضی مسلط کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، دیگر ممالک کے امور میں مداخلت کو اپنا حق جانتی ہے اور کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہے۔ اسے کہتے ہیں مستکبر۔ اس ظالم و جابر محاذ کے مد مقابل وہ گروہ ہے جو استکبار سے لڑتا ہے، استکبار سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی یہ کہ اس کے جبر و استبداد پر خاموش نہیں رہتا۔ استکبار سے مقابلہ کوئی مبہم اور پیچیدہ چیز نہیں ہے۔ استکبار سے مقابلے کے معنی یہ ہیں کہ قوم، استکباری طاقت، مستکبر انسان اور مستکبر حکومت کی مداخلتوں اور منمانیوں کو برداشت نہ کرے۔ یہ ہے استکبار سے مقابلے کا مفہوم۔ میں ان شاء اللہ کسی اور موقعے پر آپ نوجوانوں اور طلبہ و طالبات سے استکبار سے مقابلے کے بارے میں اور تفصیل سے گفتگو کروں گا، ابھی اس کا موقعہ نہیں ہے۔ اجمالی طور پر آپ یہ ذہن میں رکھئے کہ استکبار کا یہ مفہوم ہے اور استکبار کے مقابلے کی یہ روش ہے۔
ملت ایران خود کو استکبار کی مخالف اس لئے کہتی ہے کہ اس نے امریکی حکومت کی زور زبردستی برداشت نہیں کی۔ امریکی حکومت استکباری حکومت ہے، دیگر ملکوں کے امور میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، جنگ کی آگ بھڑکاتی ہے، ملکوں کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرتی ہے، آج آپ دیکھئے کہ یہ سلسلہ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے ملکوں سے آگے بڑھتے ہوئے یورپ تک پہنچ گیا ہے۔ ان کے امور میں بھی امریکی حکومت مداخلت کر رہی ہے۔ ملت ایران امریکا کے اسی استکبار کے مقابلے میں، اس کی انہی مداخلتوں کے مقابلے میں، اس کے جبر و استبداد کے مقابلے میں اور برسوں سے ہمارے وطن عزیز پر اس نے اپنا جو تسلط قائم کر رکھا تھا اس کے مقابلے میں علم بغاوت بلند کیا۔ طاغوتی شاہی حکومت امریکا کی غلام حکومت تھی جسے ملک کے اندر عوام کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ وہ امریکا کی پشت پناہی سے ایران میں جو جی چاہتا تھا کرتی تھی، عوام الناس پر ظلم کرتی تھی، عوام کے حقوق پامال کرتی تھی، عوام کے درمیان تفریق و امتیاز کے ساتھ برتاؤ کرتی تھی، اس نے ملک کو ترقی و پیشرفت سے جو اس کا فطری اور تاریخی حق تھا محروم کر دیا تاکہ ایران مین امریکی مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ ملت ایران نے اس کا مقابلہ کیا، انقلاب برپا کر دیا اور اس کے بعد ملک کے اندر مستکبرین کی ساری جڑیں کاٹ دیں اس نے بعض دیگر ملکوں کی روش نہیں اپنائی جنہوں نے شروع میں تو استکبار کے خلاف جنگ کی لیکن اس مہم کو بیچ راستے میں ادھورا چھوڑ دیا جس کا بعد میں انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔
میں نے ایک ملک میں جس کا میں یہاں نام نہیں لینا چاہتا، وہاں کے عوام نے برطانیہ سے مقابلہ کیا تھا اور اپنی برسوں پر محیط جدوجہد کے ذریعے برطانیہ کے ظلم و استبداد کی بساط سمیٹ دی تھی اور خود مختاری حاصل کر لی تھی، اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انہوں نے اپنی ایک اہم تفریح گاہ میں ایک انگریز کمانڈر کا مجسمہ نصب کر رکھا تھا۔ ہم نے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے اسی مستکبر و استعماری شخص کے نام پر جس نے اس ملک میں ہزاروں جرائم انجام دئے تھے اس تفریحی مرکز کا نام رکھا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس رواداری اور مراعات سے انہیں کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچ سکا۔ یعنی اس ملک پر مغرب کا دباؤ بدستور قائم تھا۔ استکباری عناصر کے ساتھ رواداری اور دوستی کسی بھی ملک کے لئے نفع بخش نہیں ہو سکتی۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور ایران کی عظیم الشان قوم امریکی استکبار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے اس مہم کو ادھورا نہیں جھوڑا، کیونکہ اسے اپنے جسم میں تا حال امریکا کے ہاتھوں پڑنے والی ضربوں کی ٹیس واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی، اسے معلوم تھا کہ یہ کس قماش کے لوگ ہیں، یہ کیا ہیں؟!
یہی استکباری انداز امریکیوں کا ہے اور وہ دسیوں سال سے اب تک اسی روش پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں، یہی وجہ ہےکہ دنیا کی اقوام میں امریکا کے تعلق سے ایک طرح کا احساس بیزاری اور بے اعتمادی ہے۔ یہ تاثر اور بے اعتمادی صرف ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ جس قوم نے بھی امریکا پر اعتماد کیا اس نے ضرور چوٹ کھائی، یہاں تک کہ ان لوگوں نے بھی چوٹ کھائی جو امریکا کے دوست تھے۔ ہمارے ملک میں ڈاکٹر مصدق نے امریکا پر اعتماد کیا تھا تا کہ خود کو برطانیہ کے دباؤ سے نجات دلا سکیں، انہوں نے امریکیوں کے دامن میں پناہ لی۔ امریکیوں نے ڈاکٹر مصدق کی مدد کرنے کے بجائے جو امریکا کے سلسلے میں کافی خوش فہمی میں تھے، برطانیہ سے سازباز کر لی اور اپنا ایلچی ایران بھیج کر انیس اگست کی بغاوت کروا دی۔ مصدق نے اعتماد کیا تو اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی امریکا نے نہیں بخشا جن کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے اور جو امریکا پر بڑا بھروسہ کرتے تھے۔ سابق طاغوتی شاہی حکومت کے امریکا سے بڑے گہرے تعلقات تھے، لیکن اس کے باوجود امریکیوں کے نت نئے مطالبات اور توسیع پسندی نے شاہی حکومت کے بھی ناک میں دم کر دیا تھا۔ یہی کیپیچولیشن جس کا میں نے تذکرہ کیا، جس کی بنیاد پر امریکیوں کو عدالتی استثنا حاصل ہوا تھا، شاہی حکومت پر امریکیوں نے مسلط کر دیا تھا، شاہی حکومت کے پاس امریکا کے علاوہ کوئی پشت پناہ نہیں تھا تو وہ امریکا کا یہ مطالبہ پورا کرنے پر مجبور تھی۔
کیپیچولیشن کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی امریکی افسر کسی سینیئر ایرانی افسر کو طمانچہ رسید کر دے تو کسی کو اس امریکی افسر کے خلاف کوئي کارروائی کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر کوئی معمولی سا امریکی ایجنٹ تہران میں کسی باشرف ایرانی شہری یا با وقار ایرانی خاتون کی توہین کر دے تو کسی کے پاس اس امریکی افسر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ آپ کو کچھ کرنے کا حق نہیں ہے، معاملے کو ہم خود نمٹائیں گے۔ کسی قوم کی اس سے زیادہ توہین نہیں ہو سکتی۔ امریکیوں نے یہ قانون مسلط کر دیا، حالانکہ شاہی حکومت امریکا کی دوست بھی تھی، لیکن انہوں نے اپنے دوست پر بھی رحم نہیں کیا۔ یہی (شاہ ایران) محمد رضا جب ایران سے فرار ہوا اور ایک مختصر مدت کے لئے امریکا گیا تو اسے وہاں سے باہر نکال دیا گیا، امریکیوں نے اسے پناہ نہیں دی، یعنی اس کی وفاداری کا اتنا سا صلہ بھی دینے کو تیار نہیں ہوئے۔ اس طرح کے ہوتے ہیں امریکی!!!
امریکی پالیسی کے اسی انداز اور رخ کی وجہ سے قومیں بلکہ حکومتیں بھی امریکا کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا رہتی ہیں۔ جس نے بھی امریکا پر اعتماد کیا اسے ضرور چوٹ کھانی پڑی ہے۔ بنابریں یہ کہنا شاید غلط نہیں ہے کہ دنیا کی قوموں کے درمیان امریکی حکومت سے زیادہ نفرت انگیز کوئی اور حکومت نہیں ہے۔ اگر دنیا میں قوموں کے درمیان آزاد اور منصفانہ سروے کروایا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ امریکی حکومت کے بارے میں جتنی منفی سوچ سامنے آئے گی اتنی منفی سوچ کسی اور حکومت کے بارے میں ہوگی۔ آج دنیا میں ان امریکیوں کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ آپ خود بھی آج سن رہے ہیں کہ یورپ کے لوگ امریکیوں کے بارے میں کیا باتیں کر رہے ہیں؟! بنابریں استکبار سے مقابلہ اور استکبار سے مقابلے کا قومی دن ایک کلیدی اور اساسی معاملہ ہے۔ صحیح تجزئے اور درست فکر پر استوار مسئلہ ہے۔ آپ عزیز نوجوان اور ملک میں بسنے والے دسیوں لاکھ نوجوان جو کالجوں یا یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں، آپ کے پاس ان واقعات اور مسائل کے بارے میں صحیح تجزیہ ہونا چاہئے۔ اوائل انقلاب کا نوجوان کسی تجزئے کا محتاج نہیں تھا، وہ قیاس آرائی نہیں کرتا تھا کیونکہ اس کے سامنے سب کچھ واضح اور عیاں تھا، وہ ساری چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ امریکیوں کے موذی وجود کو، ، امریکیوں کی قسی القلبی کو، امریکیوں کے ہاتھوں تربیت پانے والی (خفیہ ایجنسی) ساواک کو، (اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا)۔ لیکن آج آپ کو غور کرنے کی ضرورت ہے، تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہونا چاہئے بلکہ آپ کو بخوبی علم ہونا چاہئے کہ ملت ایران استکبار کی مخالفت کیوں کرتی ہے، ریاستہائے متحدہ امریکا کے روئے کی مخالفت کیوں کرتی ہے۔ ایرانی عوام کی اس بیزاری کی کیا وجہ ہے؟ آج کے نوجوان کو ان چیزوں کا علم ہونا چاہئے، ان چیزوں کو تحقیق اور مطالعے کے ذریعے سمجھنا چاہئے۔
امریکا کے ساتھ ہمارے جو معاملات آج کل جاری ہیں اور جو آج کل موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ان کے تعلق سے میں چند نکات آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ ذہنوں میں سوال پیدا ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے تو میں ایک انتباہ دینا چاہوں گا؛ اس گروپ سے جس میں امریکا بھی شامل ہے، یعنی ان چھے ممالک سے جنہیں گروپ پانچ جمع ایک کہا جا رہا ہے، مذاکرات کرنے والی ہماری ٹیم پر کوئی بھی ساز باز کا الزام لگانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ الزام لگانا غلط ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مامور کردہ افراد ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فرزند ہیں، یہ انقلاب کے فرزند ہیں جو ایک مہم انجام دینے میں مصروف ہیں۔ بڑا دشوار کام ہے جو ان کے دوش پر رکھا گیا ہے۔ ان کے ذمے جو مہم سونپی گئی ہے اسے بے تکان محنت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ لہذا جو ذمہ دار شخص ایک اہم کام میں مصروف ہے، ایک عمل انجام دے رہا ہے اس کی توہین نہیں کی جانی چاہئے، اسے کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ بعض اوقات اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ یہ تو ساز باز کرنے میں لگے ہیں! یہ نہیں کرنا چاہئے، صورت حال ایسی نہیں ہے۔ یہ بھی مد نظر رکھئے کہ آج جو مذاکرات انجام پا رہے ہیں چھے ممالک کے ساتھ جن میں امریکا بھی شامل ہے، یہ مذاکرات صرف نیوکلیائی مسائل سے متعلق ہیں کسی اور موضوع سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ حقیر نے اس سال کے آغاز میں مقدس شہر مشہد میں اپنی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ کچھ خاص موضوعات کے بارے میں مذاکرات کرنے مین کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے اعتماد نہیں ہے۔ مذاکرات سے مجھے امید نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ ان شاء اللہ مذاکرات سے ہمیں کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔
یہ بھی ملت ایران کے لئے ایک تجربہ ہوگا، اس کے بارے میں میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔ یہ تجربہ ہماری قوم کی فکری توانائی میں اضافہ کرے گا۔ جیسے سنہ دو ہزار تین اور دو ہزار چار میں یورینیم کی افزودگی معطل کرنے کے سلسلے میں بھی ہمیں تجربہ حاصل ہوا تھا۔ اس وقت انہی یورپی ملکوں سے مذاکرات کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے کچھ مدت کے لئے یورینیم کی افزودگی معطل رکھنے کا مطالبہ مان لیا۔ ہم دو سال پیچھے رہ گئے لیکن معاملہ ہمارے فائدے میں رہا۔ کیوں؟ کیونکہ ہم یہ واضح طور پر سمجھ گئے کہ یورینیم کی افزودگی معطل کرکے مغربی ملکوں سے تعاون کی امید رکھنا عبث ہے۔ اگر ہم نے یورینیم کی افزودگی کی رضاکارانہ معطلی کو، جو ایک طرح سے جبری معطلی تھی تاہم ہم نے اسے رضاکارانہ طور پر قبول کیا تھا، ہمارے حکام نے قبول کیا تھا، اس وقت قبول نہ کیا ہوتا تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ یہ کہتے کہ اگر آپ ذرا سا نرمی دکھاتے تو ساری مشکلات حل ہو جاتیں، ایران کا ایٹمی معاملہ معمول کی حالت پر لوٹ جاتا! یورینیم کی افزودگی کی معطلی سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ پسپائی اختیار کرکے، یورینیم کی افزودگی معطل کرکے، کاموں کو روک کے، اپنی بہت سی سرگرمیوں کو بند کرکے ہم اپنی مشکلات حل نہیں کر سکتے۔ ہمارا مد مقابل فریق کسی اور ہی فکر میں ہے۔ ہم اسے سمجھ گئے۔ لہذا ہم نے اس کے بعد یورینیم کی افزودگی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی آج کی حالت اور سنہ دو ہزار تین کی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت ہم دو تین سنٹری فیوج مشینیں چلانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور آج کئی ہزار سنٹری فیوج مشینیں کام کر رہی ہیں۔ ہمارے نوجوان، ہمارے سائنسداں، ہمارے محققین، ہمارے حکام سب نے کمر ہمت کسی اور کاموں کو آگے بڑھایا۔ بنابریں اس وقت جو مذاکرات انجام پا رہے ہیں ان سے بھی ہمیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ میں جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، مذاکرات کے سلسلے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ مذاکرات کا وہ نتیجہ برآمد ہوگا جو ملت ایران کو مطلوب ہے لیکن پھر بھی یہ ایک تجربہ ہے، اس سے ملت ایران کے تجربات میں اضافہ ہوگا۔ اسے ایک طرح کی تقویت ملے گی، لہذا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن عوام کو چاہئے کہ بیدار رہیں۔ ہم اپنے ان حکام کی جو سفارتی محاذ پر سرگرم عمل ہیں، محنت سے کام کر رہے ہیں، ٹھوس انداز میں حمایت کریں گے لیکن عوام بیدار رہیں، توجہ رکھیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ تا کہ دشمن کے زر خرید تشہیراتی عناصر اور بعض سادہ لوح ابلاغیاتی عناصر رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہوں۔
ایک چال اور غلط بیانی یہ ہوتی ہے کہ رائے عامہ میں یہ تاثر پھیلایا جائے کہ اگر ہم ایٹمی مسئلے میں مد مقابل کے سامنے جھک جائیں تو ہماری تمام اقتصادی اور معیشتی مشکلات ختم ہو جائیں گی، اس کا بڑا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ماہرانہ تشہیراتی چالوں کے ذریعے ایک فکر رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملک کے اندر بھی کچھ لوگ عناد کے تحت نہیں بلکہ اپنی سادہ لوحی کی بنیاد پر جبکہ کچھ عناصر تو واقعی خاص عناد کے ساتھ یہی پرچار کر رہے ہیں کہ اگر ہم ایٹمی مسئلے میں پسپائی اختیار کر لیں اور مد مقابل فریق کے سامنے جھک جائیں تو ہماری تمام اقتصادی و غیر اقتصادی مشکلات حل ہو جائيں گی۔ یہ غلط ہے، کیوں غلط ہے؟ اس کی کئی وجہیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ نوجوان حضرات جو اس نشست میں موجود ہیں اور اسی طرح ملک بھر کی نوجوان نسل، نوجوانوں کا طبقہ، ہمارے پرجوش نوجوان ہمارے طلبہ جنہیں میں ایک موقعے پر سافٹ وار کے کمانڈروں سے تعبیر کر چکا ہے، آپ سب ان مسائل اور معاملات پر غور کیجئے!
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ سے امریکا کی دشمنی در اصل ایٹمی مسئلے کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ امریکا سے ہمارا سارا تنازعہ ایٹمی مسئلے کی بنا پر ہے۔ ایسا نہیں ہے، ایٹمی مسئلہ تو بس ایک بہانہ ہے۔ ایٹمی مسئلہ اٹھنے سے پہلے بھی یہ دشمنیاں جاری تھیں، اوائل انقلاب سے ہی یہ مخاصمت موجود تھی۔ اگر کبھی یہ ایٹمی مسئلہ حل ہو گیا، فرض کیجئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پسپائی اختیار کر لے جو وہ چاہتے ہیں، تب بھی آپ یہ نہ سمجھئے کہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہرگز نہیں، وہ دوسرے درجنوں بہانے بتدریج پیش کر دیں گے:۔ آپ کے پاس میزائل کیوں ہے؟ آپ کے پاس ڈرون طیارے کیوں ہیں؟ آپ صیہونی حکومت کی کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ آپ صیہونی حکومت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ آپ علاقے میں، جسے وہ مشرق وسطی کا نام دیتے ہیں، اسلامی مزاحمت کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ یہ کیوں؟ وہ کیوں؟۔۔۔۔۔۔ تو حقیقت امر یہ نہیں ہے کہ ایٹمی مسئلے میں اسلامی جمہوریہ ایران سے ان کے اختلافات ہو گئے ہیں، نہیں۔ امریکی پابندیاں تو اوائل انقلاب سے جاری ہیں، ان میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اس وقت یہ پابندیاں بہت آگے جا چکی ہیں۔ انہوں نے اور بھی معاندانہ حرکتیں کی ہیں:۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کا مسافر طیارہ مار گرایا، دو سو نوے مسافروں کو مار ڈالا، انہوں نے اوائل انقلاب میں جب عوام انقلاب کے ہیجانی دور سے ابھی پوری طرح باہر بھی نہیں نکلے تھے، 'شہید نوژے چھاونی' کی بغاوت کروائی، انقلاب کے خلاف کودتا کروایا، انہوں نے ملک میں جہاں بھی انقلاب دشمن عناصر تھے ان کی مدد کی، انقلاب کے مخالفین کو ہتھیار دئے اور دیگر وسائل فراہم کئے۔ وہی ساری حرکتیں جو انہوں نے بعد میں دوسرے کچھ ملکوں میں انجام دیں، ایران میں بھی انجام دی تھیں۔ تو تنازعہ ایٹمی مسئلے کا نہیں ہے۔ یہ حقیقت سب کے پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا کی دشمنی صرف ایٹمی مسئلے کی وجہ سے ہے۔ نہیں، ماجرا کچھ اور ہے۔ اصلی ماجرا یہ ہے کہ ملت ایران نے امریکی مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا، ملت ایران نے اعلان کر دیا کہ امریکا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، تو وہ اسلامی جمہوریہ کے وجود کی مخالفت پر اتر آیا، امریکا اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و نفوذ کا مخالف ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک امریکی سیاستداں نے جو وہاں کے فکری عناصر میں شمار ہوتا ہے، بیان دیا اور اس کا یہ بیان نشر بھی ہوا یعنی کوئی راز نہیں ہے کہ ایران ایٹمی طاقت ہو یا ایٹمی طاقت نہ ہو دونوں صورتوں میں خطرناک ہے۔ اس آدمی نے صریحی طور پر کہا کہ علاقے میں ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ، خطرناک ہے۔ وہ ایران جو آج خاص اعتبار اور ساکھ کا مالک ہے، جو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جو طاقتور بن چکا ہے، وہ اس ایران کے دشمن ہیں، وہ اس ایران کے مخالف ہیں۔ یہ تب خوش ہوں گے جب ایران ایک کمزور، تنہا اور عزت و وقار سے محروم ملک ہو جائے۔ تو تنازعے کی جڑ ایٹمی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو رہا ایک نکتہ۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کے سلسلے میں ہماری ساری کوششیں داخلی وسائل پر مرکوز رہنا چاہئے، اسی پیشرفت اور راہ حل کی اہمیت اور قدر و قیمت ہوتی ہے جو قوم کے داخلی وسائل اور توانائیوں پر استوار ہو۔ اگر قوم اپنی داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر منحصر ہو تو کسی ملک کے غصے اور پابندیوں سے کبھی بھی متلاطم نہیں ہوگی، اس مسئلے کو ہمیں حل کرنا ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکام سے ہماری یہی تاکید ہے کہ ملکی مسائل اور قومی مشکلات کے تصفئے کے لئے، منجملہ اقتصادی مسائل کے ازالے کے لئے ہمیں داخلی وسائل پر توجہ دینا ہے۔ ہمارے ملک میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ قوم کی صلاحیتوں سے یہ مراد ہے کہ ہمیں افرادی قوت، قدرتی وسائل، جغرافیائی امکانات اور علاقائی پوزیشن سب کو بروئے کار لانا ہے۔ البتہ ہم سفارتی کوششوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اندرونی طور پر مشکلات کا ازالہ کرنا چاہئے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہمیں اپنی آنکھیں بند کر لینی ہیں، کسی طرح کی سفارتی سرگرمیاں انجام نہیں دینی ہیں، دنیا سے ہمیں کوئی تعاون نہیں کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہے، سفارتی سرگرمیاں، سفارتی شراکت اور موجودگی بہت ضروری ہے، جو حکام یہ امور انجام دیتے ہیں وہ ہماری مہم کا حصہ ہیں لیکن ہمارا انحصار داخلی صلاحیتوں اور امور پر ہونا چاہئے۔ سفارتی میدان میں بھی وہی ملک کامیاب ہوتا ہے جو اپنی داخلی توانائیوں کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے، سفارتی مذاکرات کی میز پر وہی حکومت اپنی بات محکم انداز میں پیش کر پاتی ہے اور اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر پاتی ہے جو داخلی حمایت و استحکام سے بہرہ مند ہو، ایسی حکومت سے سب متاثر ہوتے ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ جس پر یہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ ماضی کے ان برسوں میں ہم دشمن کے مقابل کبھی بھی بے دست و پا نہیں ہوئے اور آئندہ بھی کبھی ہم بے بس نہیں ہوں گے۔ انقلاب کے پہلے عشرے میں خاص طور پر شروع کے چند سال میں بیشتر مادی وسائل تک ہماری رسائی نہیں تھی۔ پیسے نہیں تھے، اسلحہ نہیں تھا، تجربہ نہیں بھی، انتظامی صلاحیتیں نہیں تھیں، تجربہ کار مسلح فورسز نہیں تھیں، جنگی وسائل کی قلت تھی، اور ہمارے دشمن خواہ میدان جنگ میں ہمارے سامنے صف آرا دشمن یعنی صدام کی بعثی حکومت ہو یا وہ دشمن جو صدام کی پشت پر تھے یعنی امریکا، نیٹو، سوویت یونین، یہ سب اپنی قوت و توانائی کے اوج پر تھے۔ اس وقت ریگن کے زمانے کی امریکی حکومت دنیا میں سیاسی و عسکری سطح پر انتہائی محکم، قوی اور توانا حکومتوں میں سے ایک تھی، اور ہم تہی دستی، تنگ دستی اور غربت میں مبتلا تھے، لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
آج حالات پوری طرح تبدیل ہو چکے ہیں، آج اسلامی جمہوریہ کے پاس ہتھیار بھی ہے، پیسہ بھی ہے، سائنس و ٹکنالوجی بھی ہے، طاقت بھی ہے، عالمی ساکھ بھی ہے، دسیوں لاکھ کی تعداد میں انتہائی با صلاحیت نوجوان بھی موجود ہیں، بے شمار صلاحیتیں ہیں، آج ہماری پوزیشن کا یہ عالم ہے۔ تیس سال قبل کی حالت سے آج ہمارا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے مد مقابل محاذ میں صورت حال بالکل برعکس ہے۔ اس زمانے میں امریکی اپنی قوت کے نقطہ اوج پر تھے لیکن آج نہیں ہیں، موجودہ امریکی حکام میں سے ایک نے، جو کافی مشہور شخصیت کا مالک ہے، حال ہی میں ایک جملہ کہا، یہ امریکی عہدیدار کی بات ہے، یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود ان کا کہنا ہے کہ امریکا کی آج یہ حالت ہو گئی ہے کہ اس کے دوست بھی اس کا احترام نہیں کرتے اور دشمن اس سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران وہ شدید سیاسی مشکلات سے دوچار ہیں۔ آپ نے حکومت کے بجٹ کے سلسلے میں امریکی سیاستدانوں کے اختلافات کو دیکھا جس کی وجہ سے سولہ سترہ دن امریکی حکومت شٹ ڈاؤن کی حالت میں رہی۔ آٹھ لاکھ ملازمین کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ یہ کمزوری کی علامت ہے، یہ ناتوانی کی علامت ہے۔ مالیاتی و اقتصادی امور میں وہ بہت بڑی مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کی مشکلات کے سامنے ہمارے مسائل کچھ بھی نہیں ہیں۔
میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ سنہ دو ہزار ایک یا دو ہزار دو میں یعنی گیارہ بارہ سال قبل، امریکا کے مالیاتی شعبے کے حکام نے پیشین گوئی کی اور کہا کہ سنہ دو ہزار گیارہ یا دو ہزار بارہ میں ہم چودہ ہزار ارب ڈالر کی اضافی آمدنی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ آپ پوری توجہ سے سنئے! انہوں نے سنہ 2001 میں تخمینہ لگایا سنہ 2011 اور 2012 کے لئے اور کہا کہ سنہ 2011 اور 2012 میں ہمیں چودہ ہزار ارب ڈالر کی اضافی آمدنی ہوگی۔ اس وقت سنہ 2013 چل رہا ہے اور وہ تقریبا سترہ ہزار ارب ڈالر کے خسارے میں ہیں۔ اضافی آمدنی کا تو خیر ذکر ہی کیا؟! یعنی انہوں نے اپنے تخمینے اور اندازے میں تقریبا تیس ہزار ارب ڈالر کی غلطی کی۔ یہ ہے ان کی معاشی حالت اور یہ ہے ان کے تخمینے اور اندازے کا حال۔ تو ہمارے مد مقابل محاذ کی یہ پوزیشن ہے۔ اختلافات بھی بہت زیادہ ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مشترکہ مفادات نے امریکیوں اور یورپیوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا ہے، ورنہ اندر سے وہ ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ یورپی قوم امریکیوں سے متنفر ہے۔ مختلف مسائل میں، شام کے قضیئے میں امریکی چاہتے تھے کہ حملہ کر دیں، لیکن اس قضیئے میں اپنی سب سے قریبی اتحادی حکومت یعنی برطانوی حکومت کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے میں ناکام ہو گئے، برطانوی حکومت نے کہا کہ وہ حملے میں شریک نہیں ہوگی۔ حالانکہ جب انہوں نے عراق پر حملہ کیا تھا تو تقریبا چالیس ملکوں نے ان کا ساتھ دیا تھا، انہوں نے جب افغانستان پر حملہ کیا تھا تو تیس سے زائد ممالک نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن آج امریکیوں کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ جبکہ ہماری پوزیشن بہت بہتر ہے۔ ہم نے پیشرفت اور ترقی کی ہے، ہماری قوت بڑھی ہے، ہماری قوم پوری طرح بیدار ہو چکی ہے۔ البتہ وہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن اس دباؤ کا اپنی داخلی توانائیوں اور وسائل پر تکیہ کرکے پامردی سے مقابلہ کرنا چاہئے اور اس مشکل کو عبور کرنا چاہئے، یہ انتہائی دانشمندی کا کام ہوگا۔ البتہ میں نے عرض کر دیا ہے اور اسے دہراتا ہوں کہ ہماری حکومت اور ہمارے ملک کے عہدیدار جو محنت کر رہے ہیں، ہم اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا تجربہ ہے، احتمال یہ ہے کہ یہ مفید اقدام ہوگا۔ یہ کام انجام دیکر اگر انہوں نے نتیجہ حاصل کر لیا تو چہ بہتر! اور اگر کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا تو یہ بات اور بھی واضح ہو جائے گی کہ ملکی مشکلات کے حل کے لئے وطن عزیز کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ میں اپنی بار بار کی اس سفارش کو پھر دہراؤں گا کہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر ملنے والے دشمن پر بھروسہ نہ کیجئے! اپنے حکام کے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اپنے فرزندوں کے لئے، سفارتی کوششوں میں یہ افراد جو مشغول ہیں یہ ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان ہیں، ان کے لئے ہماری سفارش یہ ہے کہ بہت ہوشیار رہئے، کہیں پرفریب مسکراہٹ دیکھ کر آپ کسی غلط فہمی میں نہ پڑ جائیں، کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں، دشمن کے اقدامات کی باریکیوں پر نظر رکھئے!
آج امریکی حکام پست فطرت صیہونی حکومت کی بڑی خوشامدیں کر رہے ہیں، صیہونی حلقوں کی خوشی کا بڑا خیال رکھتے ہیں، ہم ان کی حالت کو دیکھ رہے ہیں۔ صیہونی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے طاقتور پنجے میں امریکی حکومت، امریکی کانگریس اور امریکی حکام اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ وہ ان کی خوشنودی حاصل کرنے پر مجبور ہیں، لیکن ہم تو ان کا خیال رکھنے پر مجبور نہیں ہیں! ہم نے روز اول ہی کہہ دیا اور آج پھر یہی بات دہراتے ہیں اور آئندہ بھی اپنے اس موقف کا اعادہ کریں گے کہ ہم صیہونی حکومت کو ایک غیر قانونی اور ناجائز حکومت سمجھتے ہیں۔ یہ ایسی حکومت ہے جو سازش کی بنیاد پر تشکیل دی گئی۔ سازش کی بنیاد پر اور سازشی پالیسیوں کی مدد سے اس کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ امریکی حکام انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ صیہونیوں کا پیسہ، سرمایہ اور طاقت اپنا اثر دکھا رہی ہے، یہ بیچارے امریکی حکام جکڑے ہوئے ہیں، خیال رکھنے پر مجبور ہیں۔ صرف امریکیوں کی یہ حالت نہیں ہے، بلکہ دوسرے بہت سے مغربی سیاستداں بھی اسی بے بسی سے دوچار ہیں۔ بنابریں ہمارے حکام کو چاہئے کہ محتاط رہیں۔ باتوں کا بہت باریکی سے جائزہ لیں۔ وہ ایک طرف تو مسکرا کر ملتے ہیں، اظہار دوستی کرتے ہیں، مذاکرات کی رغبت اور دلچسپی کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف جھٹ پٹ یہ بھی اعلان کر دیتے ہیں کہ سارے آپشن میز پر ہیں! آپ کیا بگاڑ لیں گے؟ اسلامی جمہوریہ ایران کا آپ کیا بگاڑ لیں گے؟ اگر وہ اپنے نئے رخ میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ خود کو قابو میں رکھیں اور اس قسم کی مہمل بیانی کرنے والوں کو لگام دیں۔ ایک دولتمند امریکی سیاستداں یہ لن ترانیاں کرتا ہے کہ ہمیں ایران کے فلاں بیابانی علاقے میں ایٹم بم مار دینا چاہئے! دھمکی دینا چاہئے، انہیں چاہئے کہ ایسے سیاستداں کا منہ توڑ دیں! جو حکومت اس غلط فہمی میں ہے کہ وہ دنیا کے مسائل اور امور کے تعلق سے خاص ذمہ داری رکھتی ہے اور دوسرے ملکوں کے ایٹمی مسائل کی روک تھام کرنے کو اپنا فریضہ جانتی ہے، یہ اس کی حماقت ہے کہ ان حالات میں ایک ملک کو آج کے زمانے میں ایٹمی حملے کی دھمکی دیتی ہے۔ ان مہمل بیانیوں کا سد باب ہونا چاہئے۔
بحمد اللہ ہماری قوم بیدار اور ہوشیار قوم ہے۔ ہمارے حکام بھی اسی قوم کے حکام ہیں، وہ بھی بیدار ہیں، ان کے حواس بجا ہیں۔ جو فعل بھی ہمارے حکام ملکی مفاد میں انجام دیں گے ہم اس کی حمایت کریں گے، ان کی مدد کریں گے، ان کے لئے دعائے خیر کریں گے، لیکن میں عوام کو بھی، حکام کو بھی اور خاص طور پر نوجوانوں کو یہ سفارش کروں گا کہ اپنی آنکھ اور کان کھلے رکھیں۔ قوم اپنی آگاہی سے، ہوشیاری سے، ہمیشہ جاگتے رہنے کے نتیجے میں اور غفلت کا شکار نہ ہونے کے نتیجے میں بلند اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی نظر عنایت آپ سب پر ہو۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح مطہرہ آپ کو دعائیں دے۔ شہدا کی پاکیزہ روحیں آپ کے لئے دعائے خیر کریں۔ آپ نوجوان، بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ ملکی ذمہ داریوں کو سنبھالیں اور اپنی خلاقانہ صلاحیتوں سے ملک کو بلندیوں پر پہنچائیں۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌