26 شھریور 1392 مطابق 17ستمبر 2013 عیسوی کو امام ہشتم فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہما السلام کے یوم ولادت با سعادت پر پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں، جوانوں اور ریٹائرڈ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے پاسداران انقلاب فورس کی درخشاں کارکردگی کو ایک قوم کے تشخص کی گہرائی اور کامیاب تجربات کا آئینہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کی عمومی پاسبانی کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کا اصلی اور پرکشش پیغام ہے ظلم سے اجتناب کے ساتھ ساتھ ظلم کی چکی میں پسنے سے بھی انکار، چنانچہ تمام مسائل منجملہ تسلط پسند طاقتوں کے بیانوں اور طرز سلوک کا جائزہ اس پیغام سے استکباری طاقتوں کے ٹکراؤ کے تناظر میں لینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے روحانی مقامات عقل کی قوت ادراک اور زبان کی قوت بیان سے بالاتر ہیں تاہم ان عظیم ہستیوں کی زندگی، جاودانہ عملی درس ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام ہشتم حضرت علی ابن موسی الرضا علیہما السلام کی پچپن سالہ زندگی اور تقریبا بیس سالہ دور امامت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اسی مختصر سی مدت میں اور ہارون کے زمانے میں شدید گھٹن کے ماحول میں انتہائی وسیع النظری اور دور اندیشی کے ساتھ حقیقت اسلام اور مکتب اہل بیت پیغمبر کو اس طرح سے گہرائی و گیرائی عطا کی کہ وقت کی آمریت اسے روکنے میں ناکام رہی اور اپنی سابقہ سازش کے برخلاف امام کو شہید کرنے پر مجبور ہو گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کی استبدادی حکومتوں، تسلط پسندانہ نظام سے وابستہ ممالک اور بین الاقوامی سطح پر لوٹ کھسوٹ کرنے والے نیٹ ورکوں کو ملت ایران کے انقلاب کے پیغام کا دشمن قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ 34 سال کے دوران دشمنوں کی تمام سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو اسی بنیادی ٹکراؤ کے تناظر میں دیکھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایٹمی مسئلے کا بھی اسی نقطہ نگاہ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔

 

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے میں تمام حاضرین کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس عید سعید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں(۱(۔ آپ نے اپنی تشریف آوری کے ذریعے، گرمی جذبات کے ذریعے اور اپنے ان خوبصورت پروگراموں کے ذریعے ہمارے اس دن کو حقیقی معنی میں عید کا دن بنا دیا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کے دلوں کو ہمیشہ شاد، ہمیشہ بیدار اور ہمیشہ بلندتر مقامات کی جانب ارتقائی عمل میں مصروف رکھے۔
چند جملے امام ہشتم، ‏عالم آل محمد حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے تعلق سے عرض کروں گا۔ ان مقدس ہستیوں کی روحانیت اور اعلی روحانی مقامات حقیقت میں ہماری عقل کی حد پرواز سے بالاتر ہیں تو پھر ہماری زبان کی توصیف اور مدح سرائی کا ذکر ہی کیا۔ تاہم ہماری آنکھوں کے سامنے اور تاریخ کی نگاہوں کے سامنے ان عظیم ہستیوں نے جو زندگی بسر کی وہ جاوداں، ناقابل انکار اور عملی درس ہے۔ اگر ہم بعض اوقات ائمہ علیہم السلام کی زندگی اور سوانح حیات کا مطالعہ کرتے ہیں، ان کی حکمت عملی، تدابیر اور ان کے حالات زندگی کو اپنی تکیہ گاہ قرار دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان ذوات مقدسہ کی زندگی کے یہی پہلو سب سے اہم اور با عظمت ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ان لا ثانی ہستیوں کے قلوب میں عالم معنی، قرب الی اللہ اور معرفت الہی کا جو سمندر متلاطم ہے وہ اپنی ایک الگ ہی کائنات لئے ہوئے ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جو چیز ہے وہ ان عظیم ہستیوں کی زندگی ہے اور ہمیں اسی سے درس لینے کی ضرورت ہے۔
امام رضا علیہ السلام کی عمر مبارک تقریبا پچپن سال ہے۔ یعنی سنہ 148 ہجری قمری سے جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کا سال ہے، سنہ 203 ہجری قمری تک حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی مختصر زندگی کے دوران ہی یہ تمام عظمتیں رونما ہوئیں جن کے گوناگوں پہلوؤں کو ہم آج تک بیان کر رہے ہیں اور جن کی تصویر کشی کے لئے کوشاں ہیں۔ پچپن سال کی اس عمر میں تقریبا بیس سال کا عرصہ آپ کی امامت کا دور ہے۔ آپ غور کیجئے! اسی مختصر سی مدت میں امام نے عالم اسلام پر ایسے گہرے اثرات مرتب کر دئے اور جس طرح حقیقی اسلام کے دائرے میں وسعت و گہرائی پیدا ہوئی اور لوگ مکتب اہل بیت سے آشنا ہوئے اور اس میں شامل ہوئے، یہ سب بڑی حیرت انگیز حقیقت ہے۔ یہ اپنی جگہ حقائق کا ایک بحر بیکراں ہے۔ جب حضرت نے منصب امامت سنبھالا تو آپ کے احباب، عقیدتمند اور قریبی افراد کہتے تھے کہ ان حالات میں علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کیا کر پائیں گے؟! دور ہارونی کے سخت گھٹن کے ماحول میں، جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ و سیف ھارون تقطر دما ہارون کی تلوار سے ہمیشہ خون ٹپکتا رہتا تھا۔ نوجوانی کے عالم میں امام علی رضا علیہ السلام ان حالات میں شیعہ اماموں کے جہاد کو آگے بڑھانے اور اپنے دوش پر عائد عظیم ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے سلسلے میں کیا کر سکیں گے؟ یہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے دور امامت کی شروعات کی بات ہے۔ انیس یا بیس سال کے بعد جب حضرت کی امامت کا دور مکمل ہوا اور حضرت علی ابن موسی الرضا کو شہید کر دیا گیا، اگر آپ اس وقت کے حالات دیکھئے تو محسوس کریں گے کہ ولایت اہل بیت علیہم السلام اور خاندان رسول سے عقیدت کا سلسلہ عالم اسلام میں ایسی گیرائی و گہرائی پیدا کر چکا ہے کہ ظالم و مستبد عباسی سلطنت اس پر قابو پانے سے قاصر ہے۔ یہ کارنامہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے انجام دیا۔ آپ نے سنا ہے کہ دعبل مرو اور خراسان آئے تھے اور انہوں نے امام علی رضا علیہ السلام کی شان میں وہ یادگار اشعار پڑھے اور انعام حاصل کیا۔ آپ غور کیجئے کہ انہوں نے چند ایام ہی مرو اور خراسان کے دیگر شہروں میں گزارے اور پھر بغداد و کوفے یعنی اپنی مطلوبہ منزل کی طرف روانہ ہو گئے، راستے میں رہزنوں نے اس کارواں پر حملہ کر دیا جس میں دعبل بھی موجود تھے۔ کارواں لوٹ لیا گیا۔ کارواں کے افراد اپنی آنکھوں سے اپنا مال و منال لٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ سارا سامان لٹ گیا۔ رہزنوں کا سردار ایک بڑے پتھر کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خوش ہوکر دیکھ رہا تھا کہ کارواں کے افراد کو قید کیا جا رہا ہے، سامان لوٹا جا رہا ہے، ضبط کیا جا رہا ہے۔ دعبل نے سنا کہ رہزنوں کا سردار ایک شعر گنگنا رہا ہے، انہوں نے توجہ سے سنا تو دیکھا کہ وہ خود انہی کا شعر پڑھ رہا تھا۔ یعنی انہوں نے ایک ڈیڑھ مہینہ پہلے جو قصیدہ مرو میں پڑھا تھا۔:
«أرَى فَيئَهُم فى غَيرِهِم»(۲) الی اخرہ
وہی شعر ری یا عراق کے قریب رہزنوں کا سردار پڑھ رہا ہے، یعنی اسے قصیدے کے یہ اشعار یاد ہیں۔ دعبل خوش ہو گئے، انہوں نے اٹھ کر رہزنوں کے سردار سے پوچھا کہ جو اشعار تم پڑھ رہے ہو کس شاعر کے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ یہ اشعار دعبل خزاعی کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ہی دعبل خزاعی ہوں! رہزنوں کے سردار نے جب یقین حاصل کر لیا کہ واقعی یہ دعبل خزاعی ہیں تو فورا انہیں گلے لگا لیا، ان کی پیشانی چومی۔ اس نے بلند آواز میں کہا کہ کارواں میں اس شاعر کی موجودگی کی برکت کا لحاظ کرتے ہوئے کارواں کا سارا لٹا ہوا سامان لوٹا دیا جائے! سارا مال لوٹا دیا گیا، کارواں کے افراد سے رہزنوں نے معذرت خواہی کی اور کارواں کو صحیح و سالم روانہ کرکے چلے گئے۔ تاریخ میں یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں۔ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی شان میں جو قصیدہ مرو میں پڑھا گیا، ایک ڈیڑھ مہینے کے اندر وہ قصیدہ ری اور عراق میں ایک رہزن کی زبان سے سنا جاتا ہے وہ بھی اس طرح کہ اشعار اسے یاد ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مکتب اہل بیت کی ترویج اور حضرت امام رضا علیہ السلام کے لئے ایسے موافق حالات ہیں کہ یہ اشعار اتنی کم مدت میں بیابانوں میں زندگی گزارنے والے راہزن تک پہنچ جاتے ہیں، اس زمانے میں اشعار سب سے موثر ذریعہ ابلاغ سمجھے جاتے تھے۔ یہ اس عظیم تحریک کا شاخسانہ ہے جو حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے دور امامت میں مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کے لئے چلی اور جس کے نتیجے میں آل رسول کی محبت و عقیدت کا دائرہ وسیع تر ہوا، اسلامی دنیا میں ان کا وجود لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتر گیا۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ کثیر تعداد میں ہمارے اماموں کی اولادیں اس خطے میں تشریف لائیں اور جس کا غمناک پہلو راستے میں ان کی شہادت کے واقعات ہیں، اس پہلو سے قطع نظر ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے اس علاقے کے رہنے والے لوگ ان سے تشریف آوری کا تقاضا کرتے تھے، درخواست کرتے تھے اور لوگوں میں اہل بیت کے لئے خاص عقیدت پیدا ہو گئی تھی۔ جب ہم اہل بیت کہتے ہیں تو ہماری مراد مکتب اہل بیت ہوتا ہے جو اہل بیت پیغمبر، اسلام کی حقیقی تصویر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ یعنی یہ پوری طرح گہرا اور وسیع ثقافتی، روحانی اور اعتقادی عمل تھا جو انجام دیا گيا۔
یہ ہے امام علی رضا علیہ السلام کا کارنامہ، آپ جانتے ہیں کہ ان واقعات کی خبر تواتر کے ساتھ مامون تک پہنچ رہی تھی، سرانجام اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ اس کے پاس حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو شہید کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے جبکہ اس نے خود اپنے ارادے سے حضرت کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا، انہیں اپنے پاس بلایا تھا، حضرت کو خود سے قریب کر لیا تھا اور امام کو قتل کرنے کا اس کا ارادہ نہیں تھا، اس نے اپنی حکمت عملی اور چال تبدیل کرکے امام کو شہید کر دیا۔ یہ بھی شاید خاص حکمت خداوندی تھی کہ جگر گوشہ رسول مدینہ منورہ سے دور ایک علاقے میں مدفون ہو اور یہ کام دشمنان اہل بیت کے ہاتھوں انجام پائے۔
دور رس نتائج والے کام اس انداز سے انجام دئے جاتے ہیں، دراز مدتی منصوبوں کو ان جذبات کے ساتھ، ان ارادوں کے ساتھ اور ان امیدوں کے ساتھ جامہ عمل پہنایا جاتا ہے۔ پاسداران انقلاب فورس آج ایسے ہی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی پوزیشن میں ہے۔ بحث یہ نہیں ہے کہ انقلاب کے بعد ایک نئی حکومت تشکیل پائی جس کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہیں، اس کے کچھ محافظ ادارے اور مسلح فورسز ہیں، حقیقت امر اس سے بالاتر ہے۔ اسلامی انقلاب جس کے آپ محافظ و پاسباں ہیں اس کا معاملہ ان باتوں اور اندازوں سے بالکل مختلف ہے۔ میں پہلے تو ان طویل برسوں کے دوران سپاہ پاسداران انقلاب کے تجربات کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ اس کے بعد اپنے وہ معروضات پیش کروں گا جو میرے مد نظر ہیں۔ تیس سال سے زائد کے اس عرصے میں پاسداران انقلاب فورس نے انتہائی درحشاں کارکردگی پیش کی ہے، میں درخشاں کارکردگی کا لفظ عام طور پر رائج اور متعدد چیزوں کے لئے استعمال کئے جانے والے لفظ کے طور پر استعمال نہیں کر رہا ہوں، یہ عین حقیقت ہے۔ اس عرصے میں پاسداران انقلاب فورس کی کارکردگی حقیقت میں ایک قوم کے کامیاب تجربے کا آئينہ ہے۔ یعنی اس مرقعے میں ملت ایران کے تشخص اور ماہیت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پاسداران انقلاب فورس جذبہ ایمانی کے ساتھ میدان عمل میں اتری۔ کس میدان میں؟ مجاہدت و استقامت کے میدان میں۔ اس نے انتہائی باہوش اور مضبوط فوجی کمانڈروں کی تربیت کی، ایسے کمانڈر پیش کئے جنہوں نے نوجوانی کے ایام میں، تیس سال سے کم عمر میں ہی میدان جنگ کے اہم منصوبہ ساز اور فرنگیوں کے بقول ممتاز اسٹریٹیجسٹ بن گئے۔ یہ کمانڈر کسی بھی کیڈٹ یونیورسٹی میں نہیں گئے، ان کی تربیت پاسداران انقلاب فورس کے ہاتھوں ہوئی تھی، اس خاص فضا میں انہیں تربیت دی گئی جسے نورانی فضا کہا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تربیت کا مسئلہ پوری طرح ایمان و عقیدے پر استوار رہا ہے۔ اس نے ان عظیم ہستیوں کی تربیت کی کہ جنہیں ہماری قوم اور ہماری تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ یہ پاسداران انقلاب فورس کا کمال ہے۔ یہ تو میدان جنگ کی خدمات ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے بہترین دماغ اور مدبرانہ صلاحیتوں کے مالک بیورو کریٹ اور ٹکنو کریٹ بھی جو سول شعبے میں سرگرم عمل ہیں، پاسداران انقلاب فورس کے ہاتھوں تربیت کے مراحل سے گزرنے کے بعد سامنے آئے۔ ملک کے حکومتی اداروں کے لئے پاسداران انقلاب فورس سے ماہر افرادی قوت کی فراہمی کی فہرست بڑی افتخار آمیز اور طولانی ہے، یہ ہے پاسداران انقلاب فورس کارنامہ۔
پاسداران انقلاب فورس کی خصوصیات کی طویل فہرست میں ایک اہم خصوصیت انقلابی زندگی گزارنا اور انقلابی تشخص پر ثابت قدم رہنا ہے۔ تغیرات اور واقعات اس مضبوط نظام اور مستحکم ادارے کو اس کے اصلی اور صحیح راستے سے ان بہانوں کے ذریعے کہ دنیا بدل چکی ہے، زندگی بدل چکی ہے، منحرف نہیں کر سکے۔ بہت سے بہانے اور عذر پیش کئے جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اغیار کی پیروی اور اپنے نادمانہ و معذرت خواہانہ روئے کے لئے کیا بہانے اور عذر پیش کئے جاتے ہیں، یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا بدل چکی ہے، حالات بدل چکے ہیں۔ مگر کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کبھی نہیں بدلتیں، آغاز تاریخ سے تاحال انصاف اور انصاف پسندی کا حسن اور اس کی خوبی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، ظلم کی برائی اور قباحت بھی نہیں بدلی، قومی خود مختاری اور قومی وقار کا حسن اب تک تبدیل نہیں ہوا، اس کے علاوہ بھی متعدد اصول ایسے ہیں جو کبھی بدلنے والے نہیں ہیں۔ 'دنیا بدل گئی ہے' یہ کوئي معقول وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنا رویہ، اپنا نصب العین، اپنے مقاصد بدل لیں۔ جب نصب العین بدل جائے تو راستہ بھی دگرگوں ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارا نصب العین بدل گیا تو پھر اپنے سابقہ راستے پر ثابت قدم رہنے کے کوئی معنی باقی نہیں رہ جائیں گے، اب آپ ایک نئی منزل اور نئے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کا راستہ الگ ہے۔ پاسداران انقلاب فورس کی بہت بڑی خوبی اپنے اسی نورانی راستے پر قائم اور ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ تو تھیں پاسداران انقلاب فورس سے متعلق چند باتیں، اس باب میں بہت کچھ بیان کیا جا سکتا ہے، ہم نے بہت کچھ بیان بھی کیا ہے، بہت باتیں بیان کی گئی ہیں، بہت سی باتیں ہیں جو ابھی بیان نہیں کی گئي ہیں تاہم آج اس موضوع کے سلسلے میں اتنے پر ہی اکتفاء کرنا ہے۔
سب سے اہم بات یہ عرض کرنا ہے کہ پاسداران انقلاب فورس در حقیقت انقلاب کی محافظ و پاسباں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس پاسداری و محافظت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام شعبوں میں، سائنسی شعبے میں، فکری شعبے میں، ثقافتی و اقتصادی شعبے میں پاسداران انقلاب فورس ہر جگہ آئے اور محافظت و پاسبانی کا کام انجام دے۔ میری مراد یہ نہیں ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک زندہ و با شعور وجود کی حیثیت سے پاسداران انقلاب فورس کو یہ علم ہونا چاہئے کہ اسے کس چیز کی حفاظت کرنی ہے؟ انقلاب کیا ہے جس کی اسے حفاظت کرنا ہے؟ یہ ضروری نہیں ہے کہ پاسداران انقلاب فورس سیاسی میدان میں اتر جائے اور محافظت و پاسداری کا فریضہ انجام دے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سیاسی میدان کا مکمل ادراک رکھے۔ بعض افراد اس سلسلے میں خلط ملط کر دیتے ہیں، لہذا حقیقت حال عیاں رہنا چاہئے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ملک میں ایک ادارے کو انقلاب کا پاسباں و محافظ قرار دیا جائے لیکن وہ گوناگوں سیاسی مسائل اور رجحانات کے تعلق سے جن میں بعض انحرافی رجحانات ہیں، بعض غیر انحرافی رجانات ہیں، بعض کا سرچشمہ کہیں ہے اور بعض کا کہیں اور ہے، سب پر اپنی آنکھیں بند رکھے، سب سے لاعلم رہے۔ یہ بالکل بے معنی بات ہے۔ اسے علم ہونا ضروری ہے کہ کس چیز کی حفاظت کرنی ہے۔ اگر ہم انقلاب کو در پیش چیلنجوں اور خطرات کو سیاسی اور جماعتی چیلنجوں اور دو چار افراد کے آپسی چیلنجوں تک محدود سمجھ بیٹھیں تو یہ سراسر کوتاہی اور غفلت ہوگی۔ انقلاب کو در پیش چیلنج یہ ساری باتیں نہیں ہیں۔ ایک سیاسی حلقہ، ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت سے تنازعہ رکھتی ہے، فلاں صاحب اور فلاں صاحب کے مابین اختلافات ہیں، تو ان چیزوں کو انقلاب کے چیلنج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی انقلاب نے عالم انسانیت کے سامنے ایک جدید نظام پیش کیا ہے، لہذا انقلاب کے چیلنج بھی اسی سطح کے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انقلابی تحریک میں روز اول سے ہی پوری بشریت کو مخاطب قرار دیا گیا۔ اسلامی انقلاب ایران کا انقلاب تھا، اس کی توجہ ایران کے مسائل پر تھی، اس کا مقصد ایران میں بنیادی تبدیلیاں لانا تھا، لیکن اس انقلاب کا لہجہ اور اس کا پیغام ایسا تھا کہ فطری طور پر وہ ایران کی سرحدوں کے اندر محصور رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ انقلاب کے پیغام کی صورت میں ایک عالمی مفہوم، ایک عالمی حقیقت اور ایک انسانی حقیقت دنیا کے سامنے پیش کی گئی۔ دنیا میں جو بھی اسے سنے گا محسوس کرےگا کہ یہ اس کے دل کی آواز ہے۔ وہ پیغام کیا ہے؟ اگر ہم اس پیغام کے سماجی اور انسانی پہلو کو ایک جملے میں کہنا چاہیں تو ہم اتنا ہی کہیں گے کہ یہ تسلط پسندانہ نظام سے مقابلے کا پیغام ہے۔ یہی انقلاب کا پیغام ہے۔ تسلط پسندانہ نظام در حقیقت دنیا کو ظالم و مظلوم دو حصوں میں تقسیم کرنے والا نظام ہے۔ انقلاب کا پیغام جو در حقیقت اسلام کا پیغام ہے، یہ ہے کہ«لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون»(۳) نہ دوسروں پر ظلم کرو اور نہ کسی کو اپنے اوپر ظلم کرنے کا موقعہ دو۔ عالم انسانیت میں کون ہے جو اس پیغام کو سن کر خوش نہ ہو، جو اس پیغام کو دل سے قبول نہ کرتا ہو؟ نہ ظلم کرو اور نہ اپنے اوپر ظلم ہونے دو! پورے عالم انسانیت اور اس کائنات میں کون ہے جو اس پیغام کو سن کر خوش نہ ہو؟! اس پیغام کی دل سے پذیرائی نہ کرے؟! یہ دنیا پر حکمفرما نظام کو جو جدید صنعتی تمدن کے معرض وجود میں آنے کے بعد، صنعتی وسائل کی فراوانی اور نتیجتا دنیا میں تسلط پسندانہ نظام کے قیام کے بعد رائج ہوا ہے، چیلنج کرنے والا پیغام ہے۔ دنیا میں تسلط پسندانہ نظام سے جو بھی وابستہ ہے وہ اس پیغام کا مخالف ہے۔ جو تسلط پسند طاقتیں ہیں یعنی استبدادی حکومتیں اور قومی دولت اور اقوام کے اثاثوں کو لوٹنے اور ہڑپ لینے والے اقتصادی نیٹ ورک، وہ اس پیغام کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ ظلم ان کی سرشت کا حصہ ہے۔ ان کے زیر اثر کام کرنے والی حکومتیں جو غریب یا دولت مند اقوام پر راج کر رہی ہیں اور عالمی سامراجی نظام کی مطیع اور تابعدار ہیں، ان کے پاس اپنی کوئی قوت و طاقت نہیں ہے، بس ان کا کام سامراجی طاقتوں کی فرمانبرداری اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہے، وہ سب اس پیغام کی مخالفت کرتی ہیں۔ جو حکومت سامراج کی پالیسیوں پر، مثلا امریکا کی پالیسیوں پر یا ماضی میں برطانیہ کی پالیسیوں پر مو بمو عمل کرتی تھی ظاہر ہے کہ وہ «لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون» کے پیغام کی مخالفت ہی کرے گی۔ دنیا کی بین الاقوامی کمپنیاں، کثیر القومی اور دیگر کمپنیاں جو دنیا بھر کی ثروت سمیٹ لینے کے در پے رہتی ہیں وہ اس پیغام کی مخالف ہیں۔ دنیا میں جنگ و غربت و بدعنوانی کی ترویج کرنے والی پالیسیاں اور منصوبے تیار کرنے والے اس پیغام کے شدید مخالفین میں شامل ہیں۔ حالیہ ادوار میں، گزشتہ دو تین صدیوں میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں ان میں بیشتر سامراجی نظام کی کارستانیوں کا نتیجہ تھیں۔ یعنی یا تو خود سامراجی طاقتوں نے براہ راست یہ جنگیں لڑیں یا پھر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے انہوں نے دو گروہوں کو آپس میں لڑوا دیا۔ غربت بھی انہی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ بہت سے ممالک جہاں لوگ غربت و بھکمری کا شکار ہیں اور اپنے ذخائر اور وسائل سے استفادہ کرنے سے محروم ہیں ان کی اس بدحالی کی ذمہ داری سامراجی طاقتوں پر ہے۔ ان طاقتوں نے بہت سے ممالک کو اپنے سامراجی چنگل میں اس طرح جکڑا کہ خود ان ملکوں کے پاس بھی جو علم و دانش کا خزانہ تھا اسے بھی لوٹ لیا۔ آپ پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب 'دنیا کی تاریخ پر ایک نظر' پڑھئے! جس حصے میں انہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کا اثر و نفوذ بڑھنے کا ذکر کیا ہے اور اس کی جو تصویر کشی کی ہے وہاں وہ تشریح کرتے ہیں کہ ہندوستان میں جو صنعت تھی، جو علم تھا وہ یورپ، برطانیہ اور مغرب سے کمتر نہیں بلکہ بہتر تھا، یاد رہے کہ یہ بہت ایماندار اور انتہائی باخبر قلمکار ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب انگریز ہندوستان میں آئے تو انہوں نے ایک یہ منصوبہ بنایا کہ مقامی صنعت کے فروغ کا سد باب کر دیا جائے۔ نتیجتا ہندوستان کی وہ درگت ہوئی کہ اس زمانے میں دسیوں ملین افراد اور بعد میں سیکڑوں ملین افراد حقیقی معنی میں بھکمری، بھیک مانگنے اور فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور ہو گئے۔ افریقا میں بھی یہی ہوا۔ لاطینی امریکا کے بہت سے ملکوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ معلوم ہوا کہ سامراجی نظام جنگ افروزی کے ساتھ ہی غربت آفرینی بھی کرتا ہے۔ آپ جو آج دیکھ رہے ہیں کہ دولت و ثروت کے یہ بے پناہ ذخائر دنیا کے صف اول کے سرمایہ داروں کے پاس جمع ہو گئے ہیں وہ «ما رَأيتُ نِعمَةً مَوفورَة، اِلّا وَ فى جانِبِها حَقٌّ مُضَيَّع، میں نے کبھی بھی وافر نعمت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ اس وافر نعمت کے پہلو میں کسی نہ کسی کا حق مارا گیا ہے» کے مصداق ہیں۔ جب کسی ملک کا تیل لوٹا جائے گا، کسی ملک کی زراعت کو غارت کیا جائے گا، جب کسی ملک کی چائے لوٹ لی جائے گی، جب کسی ملک کی تجارت ہڑپ لی جائے گي تو ظاہر ہے کہ اس ملک کے عوام اس سے محروم ہو جائیں گے، صنعت اور قومی ترقی کے دیگر ذرائع اس قوم سے چھن جائیں گے تو ظاہر ہے کہ وہ قوم غربت و بھکمری کا شکار ہوگی۔ بنابریں جنگ و جدال بھی انہی کا کام ہے، غربت و بھکمری کی ذمہ دار بھی یہی سامراجی حکومتیں ہیں اور بدعنوانیاں بھی انہی حکومتوں نے پھیلائی ہیں۔ دنیا میں جو فسق و فجور پھیلا ہے اور جنسیات کی جو آگ بھڑکائی گئی ہے یہ انہی حکومتوں کا کام ہے۔ ظاہر ہے جنسیات کا مسئلہ ایک فطری چیز ہے، جسے بھڑکانا آسان ہوتا ہے۔ ان تمام معاملات کی اپنی الگ تفصیلات ہیں۔ سامراجی نظام دنیا میں غربت، جنگ اور بدعنوانیوں کی ترویج کرتا ہے، دنیا کو ظالم و مظلوم دو حصوں میں تقسیم کر دینے کی اپنی خاص چال کے ذریعے۔ اسلام اور اسلامی انقلاب جو اسلامی تعلیمات سے اخذ کیا گيا ہے، آکر دو ٹوک انداز میں کہہ دیتا ہے کہ لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون، یعنی ان تمام سازشوں اور چالوں کی نفی کر دیتا ہے۔ یہیں پر ٹکراؤ اور تصادم ہوتا ہے۔ سارا جھگڑا یہی ہے۔ انقلاب سے ان کی دشمنی اسی بات کی ہے۔ دوسری جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ سب عذر لنگ ہے۔ پابندیاں، خانہ جنگی، بغاوتیں، اسی طرح دوسری چیزیں جو ان برسوں میں نظر آتی رہی ہیں، ایٹمی توانائی کا مسئلہ، سب کو اسی تناظر میں اور اسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے ضرورت ہے۔ ایک انقلابی لہر اٹھتی ہے اور ساری دنیا کے اندازوں اور تصورات کے برخلاف کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے، یہ انقلاب ایک حکومت تشکیل دیتا ہے، یہ حکومت پائیدار ثابت ہوتی ہے، اسے دوام حاصل ہو جاتا ہے ساری دنیا کے تصورات اور خیالات کے برخلاف جو یہ سمجھ رہی تھی کہ اسلامی جمہوریہ چھے مہینے، ایک سال یا دو سال بعد، پھر میں کہا جانے لگا کہ تین چار سال کے اندر ختم ہو جائے گی، وہی اسلامی جمہوریہ روز بروز زیادہ طاقتور بن کر ابھر رہی ہے، روز بروز «اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّماء. تُؤتى اُكُلَها كُلَّ حينٍ بِاِذنِ رَبِّها»(۴) کا حقیقی مصداق ثابت ہو رہی ہے، علاقائی طاقت میں تبدیل ہو جاتی ہے، دنیا کے اہم مسائل کے سلسلے میں ایک موثر فریق کی حیثیت سے اپنی پہچان بناتی ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ طاقتیں اسے کیسے برداشت کریں گی، وہ تو یقینا اس سے دشمنی نکالیں گی۔
جوہری ہتھیاروں کا شگوفہ چھوڑتے ہیں۔ ہم جوہری ہتھیار کے مخالف ہیں، ہماری نظر میں یہ ہتھیار کسی کے بھی پاس نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ ہمارا یہ موقف امریکا یا کسی اور ملک کی منشا و خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے عقیدے کی وجہ سے ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آپ کے پاس یہ چیز نہیں ہونا چاہئے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے بارے میں بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ یہ ہتھیار ہمارے پاس بھی نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ ان کا معاملہ الگ ہے۔ انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کچھ ممالک آکر ان کی اس جارہ داری کو ختم کر دیتے ہیں، ویسے وہ خود تو ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کی اجارہ داری ٹوٹے لیکن اگر اجارہ داری کچھ ملکوں کی وجہ سے ختم ہو گئی ہے تو اس پر قیامت نہیں مچاتے، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کا معاملہ ہو تو پھر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، کیوں؟ اس نظام کا بنیادی اصول ہے «لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون» اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی زاویہ نگاہ سے امریکا، مغرب اور ان سے وابستہ ممالک اور حلقوں کے اقدامات اور کارروائیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ تو یہ ہے اسلامی انقلاب۔
ان دشمنوں کی نگاہ میں ہمارے عظیم الشان امام خمینی کے چہرہ تابناک سے زیادہ غصہ دلانے والی کوئی چیز نہیں ہے، وہ امام خمینی کی عظمت سے آگاہ تھے لیکن دل کی گہرائی سے ان سے عناد رکھتے تھے۔ کیونکہ امام خمینی نے استقامت کا مظاہرہ کیا، اس لئے کہ امام خمینی میں دو بے نظیر خصوصیات تھیں، 'بصیرت کاملہ اور عزم محکم'۔ امام خمینی انہی دو خصوصیات کی وجہ سے حقائق کو من و عن سمجھ لیتے تھے اور پھر پوری ثابت قدمی اور عزم و ارادے سے ڈٹ جاتے تھے، ان دو خصوصیات کی وجہ سے امام خمینی دشمنوں کی پیش قدمی کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ امام خمینی دشمنوں کو ڈنک مارنے اور زک پہنچانے کا موقعہ نہیں دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دشمن ان پر چراغ پا رہتے تھے۔ البتہ دشمن ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ امام خمینی کی عظمت کا انہیں ادراک تھا، لیکن جو انسان جتنا زیادہ با عظمت ہو ان کی نگاہ میں وہ اتنا ہی زیادہ قابل نفرت ہوتا ہے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ آج بھی جو ان اقدار اور اصولوں کا جتنا زیادہ پابند ہے جو انقلاب کے سیاسی تشخص کا تعین کرتے ہیں، جو 'لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون' پر جتنی زیادہ سختی سے کاربند ہے اور جسے اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کی ایجاد کردہ اور مسلط کردہ مشکلات اسی اصول پر کاربند ہونے کی وجہ سے ہیں، جو شخص اس نقطہ نگاہ کا مالک ہے اور جو راہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ ان کی نظر میں اتنا ہی زیادہ مستحق عتاب قرار پائے گا۔ البتہ سفارت کاری کی دنیا مسکراہٹوں اور تبسم کی دنیا ہے، چہروں پر تبسم ہوتا ہے، گفت و شنید کا سلسلہ رہتا ہے، مذاکرات کی درخواست بھی ہوتی ہے اور اس کا اعلان بھی ہوتا ہے۔ چند روز قبل کی بات ہے، مغرب کے ایک سیاسی رہنما سے کہا گیا کہ آپ ایران سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایران دشمن ملک ہے! اس نے جواب دیا کہ انسان دشمن سے بھی گفتگو کرتا ہے! یعنی وہ ایران سے اپنی دشمنی کا صریحی طور پر اعتراف کرتے ہیں۔ اس دشمنی کی وجہ کچھ افراد نہیں ہیں بلکہ اس عناد کی جڑ یہ حقیقت اور یہ تشخص ہے۔ وہ جو کچھ بھی بیان بازی کرتے ہیں سب کو اسی زاویہ فکر سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
ہم درست منطقی سفارت کاری کے مخالف نہیں ہیں، بین الاقوامی سفارت کاری کے میدان میں بھی اور داخلی سیاست کے میدان میں بھی۔ میں اسی روش پر یقین رکھتا ہوں جسے میں نے کئی سال قبل 'شجاعانہ اور فاتحانہ لچک' کا نام دیا تھا۔ بعض جگہوں پر لچک بہت ضروری ہوتی ہے، بہت مستحسن ثابت ہوتی ہے۔ ایسے موقعے پر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن جو پہلوان اپنے حریف سے مقابلہ آرائی کر رہا ہے اور فنی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھی لچک کا مظاہرہ کرتا ہے وہ کبھی یہ فراموش نہیں کرتا کہ اس کے مد مقابل کون ہے۔ کبھی فراموش نہیں کرتا کہ وہ کس عمل میں مصروف ہے۔ یہ بنیادی شرط ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا واسطہ کیسے افراد سے ہے، کون لوگ ہمارے مد مقابل کھڑے ہیں، ان کے حملوں کا رخ کس طرف ہے، یہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے۔
آپ اسلامی انقلاب کے محافظ ہیں۔ اسلامی انقلاب کے محافظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر شعبے اور ہر میدان میں جاکر مصروف کار ہو جائے اور ہر جگہ اس کے دوش پر ایک ذمہ داری ہے۔ نہیں، اس کا فریضہ واضح، معین اور طے شدہ فریضہ ہے جس کا ذکر ہمارے محترم کمانڈر نے اپنی تقریر میں کیا۔ آج پاسداران انقلاب فورس کی سرگرمیوں کے سلسلے میں یہی نقطہ نگاہ درست ہے۔ میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ پاسداران انقلاب فورس کو ہمیشہ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کس منزل کی جانب بڑھنا ہے، اسے کس چیز کی حفاظت کرنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ثابت قدمی کو جو پاسداران انقلاب فورس کے افتخار آمیز تشخص کا جز ہے، کبھی فراموش نہ ہونے دیجئے، اس پر ہر سطح پر توجہ دی جانی چاہئے۔
ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ پاسداران انقلاب فورس کا کام روحانیت و معنویت پر استوار ہے، علمی ترقی، گوناگوں سائنسی ایجادات، نئی روشوں کے تعین اور دانشمندانہ انتظامی اقدامات کا روحانیت و معنویت سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ جب انسان روحانیت و معنویت کی طرف مائل ہو جاتا ہے تو پھر اسے دنیوی امور میں نہیں پڑنا چاہئے۔ جی نہیں، صدر اسلام میں بہترین اور انتہائی فنکارانہ جنگی حکمت عملی پیغمبر اکرم ، حضرت امیر المومنین اور مسلمانوں نے جنگ کے میدان میں متعارف کرائی۔ ہمارے اس زمانے میں بھی مقدس دفاع کے دوران، انقلابی فورسز نے خواہ وہ پاسداران انقلاب فورس ہو، فوج ہو یا دیگر انقلابی تنظیمیں ہوں، سب نے انتہائی دانشمندانہ اور ہوشیارانہ روشیں ایجاد کیں، حکمت عملی تیار کی۔ روحانیت مادی امور کی انجام دہی، کاموں کو نظم نسق دینے کے اقدامات میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ روحانیت کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے، یہی روحانیت ہی کاموں کی اصلی بنیاد ہے۔
آخری نکتہ یہ عرض کرنا ہے کہ میری نظر میں اسلامی انقلاب کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ یہ صرف خوش فہمی نہیں ہے۔ یہ ہماری نگاہوں کے سامنے جو زمینی حقائق موجود ہیں ان کی بنیاد پر قائم کی جانے والی رائے ہے۔ ہمارے سامنے دو استدلال ہیں۔ ایک استدلال تجربے کا استدلال ہے۔ آغاز انقلاب کے دور میں ہم افرادی قوت کے فقدان سے دوچار تھے، مادی وسائل کی حد درجہ کمی تھی، اسلحہ نہیں تھا، انتظامی تجربہ نہیں تھا، اسی طرح دیگر بہت سی خامیاں اور کمیاں تھیں لیکن آج ہم کس مقام پر ہیں؟ افرادی قوت کی بہتات، مادی وسائل کے لحاظ سے بے نیازی، علمی میدان میں خود انحصاری، سیاسی استغناء، عالمی وقار و حیثیت۔ ان تیس برسوں میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟! ان پینتیس برسوں میں ہم نے جو پیشرفت کی ہے وہ مد مقابل فریق کے شدید دباؤ کے عالم میں کی ہے۔ یعنی ہوا کا رخ ناموافق تھا، لیکن اس کے باوجود ہم آگے بڑھے، تیز رفتار مخالف ہوائیں ہمارے سامنے ہمیشہ موجود رہیں لیکن اس کے باوجود ہم آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ کیا یہ ایک قیمتی تجربہ نہیں ہے؟ کیا یہ کافی نہیں ہے؟ ناموافق حالات اور دشمنیاں کسی ایسی قوم کا راستہ نہیں روک سکتیں جس کی صفوں میں اتحاد ہے، جس کے پاس قوت ارادی ہے، جو دولت ایمان سے مالامال ہے، جسے معلوم ہے کہ وہ کس ہدف سے کیا عمل انجام دے رہی ہے، یعنی سراسیمہ نہیں ہے۔ حال ہی میں جو واقعات و تغیرات عالم اسلام میں اور ہمارے اس علاقے میں رونما ہوئے ہیں، جہاں بھی نظر ڈالئے مشکلات اور نقصانات نظر آتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ہدف واضح نہیں ہے، کوئی رہنما فکر اور نظریہ نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے، البتہ حالات ایسے ہی نہیں رہیں گے۔ عالم اسلام میں، اسلامی ملکوں میں جو اسلامی بیداری کی لہر اٹھی ہے وہ بے مثال چیز ہے، یہ اپنا کام کرکے رہے گی۔ یہ ایک استدلال ہے، اور یہ استدلال تجربے پر استوار ہے۔
ایک اور استدلال یہ ہے کہ ہم فکر و منطق کے دائرے میں آگے بڑھ رہے ہیں، علمی اندازوں کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں، ہمارے مد مقابل فریق کو اندرونی تضادات اور کمزوریوں کا سامنا ہے، اس تمدن کے داخلی ڈھانچے کی واضح اور نمایاں خامیوں کی وجہ سے یہ تضادات پیدا ہوئے ہیں، وہ پسپائی کرنے پر مجبور ہیں، البتہ ضروری نہیں ہے کہ اس پسپائی کا وہ اعتراف بھی کریں، یا اس بارے میں واشگاف الفاظ میں کچھ کہیں، لیکن حقیقت امر یہی ہے، امر واقعہ یہی ہے۔ جب کوئی قوم درست اندازوں کی بنیاد پر، کام اور سعی و کوشش کے درست مقام کا تعین کر لینے کے بعد، اپنا کام شروع کرتی ہے تو یقینی طور پر مطلوبہ نتائج تک پہنچتی ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ نظام کی اندرونی ساخت کو مستحکم بنانا ہے، ہم نے علمی نمو کی بات کہی ہے، ہم نے کہا ہے کہ قومی پیداوار اور داخلی مصنوعات کو بنیادی ہدف قرار دیا جائے، ہم نے کہا ہے کہ ملک کی مقامی استعداد اور صلاحیتوں پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جائے، صلاحیتوں کو نکھارنا اور پروان چڑھانا چاہئے، یہ سب اہم بنیادیں ہیں۔ جب کوئی ملک داخلی صلاحیتوں کی مدد سے، مقامی افرادی قوت پر تکیہ کرکے، اپنے علم و دانش کے سرمائے کی مدد سے، جذبہ ایمانی کے ساتھ اور داخلی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو یقینی طور پر مطلوبہ نتائج تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ بنابریں ہمیں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہمارا مستقبل تابناک ہے، ہم کب اس تابناک مستقبل کو زمانہ حال میں تبدیل کر سکتے ہیں اس کا انحصار خود ہم پر ہے۔ اگر ہم نے درست انداز میں پیش قدمی کی تو بہت جلد ہم اس مقام پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے تساہلی، کوتاہی، تن پرستی، دنیا پرستی اور ظاہر پرستی میں اپنے چشم و دل کو مبتلا کر لیا، خود کو گرا لیا، اپنے اندر ہم نے انحطاط اور بکھراؤ کی کیفیت پیدا کر لی تو ظاہر ہے کہ اس مستقبل تک پہنچنے میں بہت وقت لگ جائے گا لیکن سرانجامد ہم اس مستقبل کی دہلیز تک یقینا پہنچیں گے۔ یہ نتیجہ ہے فداکاری و ایثار کا اور بحمد اللہ آپ بھی فداکاری و ایثار کے میدان میں مصروف کار ہیں، آپ نے بڑے درخشاں انداز میں پیش قدمی کی ہے، مستقبل میں بھی انشاء اللہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ خداوند عالم آپ سب کو حضرت بقیۃ اللہ کی دعاؤں سے بہرہ مند فرمائے، ہمیں اور آپ کو اسلام اور اسلامی انقلاب کا حقیقی محافظ و پاسباں بنائے، شہیدوں کی ارواح مطہرہ اور امام خمینی رحمت اللہ کی روح مطہرہ کو اپنے اولیاء اور اپنے پیغمروں کے ساتھ محشور فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) یہ ملاقات پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے کمانڈروں اور عہدیداروں کے بیسویں قومی اجلاس کی مناسبت سے انجام پائی۔
۲) أرَى فَيئَهُم فى غَيرِهِم مُتَقَسِّما / وَ أيديَهُم مِن فَيئِهِم صَفِرات‌
۳) سوره‌ بقره، آیت ۲۷۹
۴) سوره‌ ابراهيم، آيات ۲۴ و ۲۵