قائد انقلاب اسلامی نے چھٹے ترقیاتی منصوبے کی تدوین کے سلسلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے تین بنیادی ترجیحات خود کفیل معیشت، دینی و انقلابی کلچر اور علمی پیشرفت پر تیز رفتاری کے ساتھ عملدرآمد پر توجہ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ملک کی اقتصادی و سیاسی مشکلات کا حل ملکی سرحدوں کے باہر تلاش نہیں کیا جا سکتا، مشکلات کا حقیقی حل ملک کے اندر اور داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں کی مدد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے1393/03/04 ہجری شمسی مطابق 25 مئی 2014 کو اپنے خطاب میں فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے یوم شہادت کی تعزیت پیش کی اور اسلامی نظام کی تشکیل اور مجاہدت و پائیداری کی بنیاد پر اس کی بقا کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت اور گزشتہ پینتیس سال کے دوران فیصلہ کن اور انتہائی اہم مراحل سے اس کی کامیاب پیش قدمی، ملت ایران کی صادقانہ اور دانشمندانہ مجاہدت کا ثمرہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج کی دنیا بشریت کی عزت و وقار اور اخلاقیات کو غارت کرنے والے قزاقوں سے پر ہے جو جدید علوم اور دولت و ثروت کی مدد سے انسان دوستانہ شکل و صورت میں بڑی آسانی سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، انسانیت کی اعلی امنگوں کے سلسلے میں خیانت اور دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ کی آگ شعلہ ور کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان حالات میں جدوجہد کو جاری رکھنے اور تمام امور مملکت میں خارجہ و داخلی سطح پر مجاہدانہ نظریئے کی روش کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمدلله و الصلاة على رسول‌الله و على آله الطاهرین

برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جیسا کہ جناب عالی (1) نے فرمایا یہ سالانہ ملاقات اس حقیر کے لئے بھی بڑا اچھا موقع ثابت ہوتی ہے۔ محترم ارکان پارلیمنٹ کے چہروں کی قریب سے زیارت ہو جاتی ہے، ان کی سرگرمیوں اور کارکردگی کے بارے میں رپورٹ بھی سننے کو ملتی جو عام طور پر بڑی اچھی اور مسرت بخش رپورٹ ہوتی ہے۔ اسی طرح اپنے معروضات بھی چند جملوں میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تو یہ ہمارے لئے ایک اچھا موقع ہے اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس سال بھی اس نے یہ توفیق ہمیں عنایت فرمائی۔ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے، اس مناسبت سے تعزیت پیش کرتا ہوں، یہ بعثت پیغمبر اکرم کے ایام بھی ہیں اس تعلق سے مبارک باد و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح یہ ایام، تین خرداد (مطابق 24مئی)، خرم شہر کی آزادی، اور ہمارے مخلص اور ایثار پیشہ جوانوں کی قربانیوں اور عظیم جہاد کی یاد دلانے والے دنوں کی آمد بھی ہے، اس کی بھی میں مبارکباد دینا چاہوں گا۔
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، چاہے آپ ہوں، یا یہ حقیر ہو یا پھر دیگر حکام، ہم سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ ہمارے ہاتھ میں آج جو کچھ ہے وہ ایک امانت ہے اور اس امانت کی ادائیگی شرعی طور پر واجب ہے۔ اللہ تعالی اس بارے میں ہم سے بازپرس کرے گا۔ اس کے بارے میں بھی جو ہم نے انجام دیا ہے اور ان کاموں کے بارے میں بھی جو انجام دینے سے رہ گئے۔ اس پر ہماری توجہ رہنی چاہئے۔
ذمہ داری کا یہ دور بھی گزر جانے والا ہوتا ہے۔ نویں پارلیمنٹ کے چار سالہ دور کے دو سال آپ گزار چکے ہیں۔ دنیا کے تمام حوادث و واقعات اسی طرح تیزی سے گزر ہو جاتے ہیں، انسان کی عمر کا بھی یہی حال ہے۔ قرآن میں دی گئی یہ تشبیہ بڑی سبق آموز اور ہلا دینے والی ہے؛ وہ سبزہ جو آغاز بہار کے وقت زمین سے اگتا ہے یا درخت کی خشک ہو چکی شاخ سے سر ابھارتا ہے، وہ بڑا پرکشش سبزہ ہوتا ہے۔ انسان ہرے پتوں کو دیکھ کر اور بہار کی ہریالی کا نظارہ کرکے محظوظ ہوتا ہے، نئی کونپلیں ہیں، نمو کی منزل طے کر رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گرمی کا موسم آ پہنچتا ہے، یہ سبزہ اپنی استعداد کے مطابق ثمر دیتا ہے، چاہے وہ پھل ہوں یا زرعی محصول۔ تھوڑا وقت اور گزرتا ہے تو خزاں اور جاڑے کا موسم آ جاتا ہے۔ جب خزاں آتی ہے تو بہار کا وہی سبزہ اور ہرے بھرے پتے سب سوکھ جاتے ہیں اور خس و خاشاک میں تبدیل ہو جاتے ہیں؛ فَاَصبَحَ هَشیمًا تَذروهُ الرِیح؛ (۲) وہی پرکشش، جاذب نظر اور ترو تازہ چہرہ خاشاک میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ہوا اسے کبھی کہیں اور کبھی کہیں اڑا کر لے جاتی ہے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ یہ در حقیقت ہماری اپنی زندگی کی کہانی ہے۔ ایک خاص نقطے سے اس کا آغاز ہوتا ہے، بچپن آتا ہے، جوانی آتی ہے، نشاط و شادابی بھر جاتی ہے، حوصلہ بلند ہو جاتا ہے اور بڑی آرزوئیں کروٹیں لینے لگتی ہیں، اس کے بعد ہم ادھیڑ عمر کے ہو جاتے ہیں اور ہمارے اندر جو صلاحیتیں اور توانائیاں تھیں وہ ہماری محنت کے مطابق اور ہماری ہمت اور حوصلے کے مطابق نمایاں ہوتی ہیں، پھر اس کے بعد ہمارا سفر بڑھاپے کی جانب شروع ہوتا ہے۔
شاعر کہتا ہے:

دیر بماندم در این سراى کهن من‌
تا کهنم کرد صحبت دى و بهمن(۳)

ہم بھی پرانے ہو جاتے ہیں، فرسودگی طاری ہونے لگتی ہے، ؛ فَاَصبَحَ هَشیمًا تَذروهُ الرِیح؛ (۴) ہم بھی خس و خاشاک کی مانند ہو جاتے ہیں۔ یہی انسانی عمر ہے، یہی مزاج زندگی ہے، اسے سمجھنا چاہئے۔ جب انسان جوان ہوتا ہے تو یہ باتیں نہیں سمجھ پاتا، ہم لوگوں کے سن میں پہنچنے کے بعد اس کا احساس زیادہ ہوتا ہے، زیادہ گہرائی سے ادراک ہوتا ہے۔ اس زندگی کی درازی کی حقیقت ہماری نگاہوں کے سامنے ہے؛ سبزہ، تازگی، شادابی، آمادگی اور پھر اس کے بعد بتدریج پختگی اور اس کے بعد اضمحلال اور فرسودگی، اسے انسان اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ اسی نقطہ نگاہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کی جانب سے محاسبہ بھی ہونا ہے۔:«ما یَلفِظُ مِن قَولٍ اِلا لَدَیهِ رَقیبٌ عَتید» (۵) ہمارے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ محفوظ ہو جاتا ہے، درج کر لیا جاتا ہے، ہمارا ہر عمل اور ہمارا ہر اقدام بلکہ ہماری ہر فکر و خیال محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ آپ پارلیمنٹ کی سیٹ پر بیٹھے ہیں، پارلیمنٹ کی صدارتی کمیٹی کی سیٹ پر بیٹھے ہیں، میں کمیٹی کے ارکان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ارکان پارلیمنٹ نے ایک بار پھر ان پر اعتماد ظاہر کیا اور انہیں دوبارہ منتخب کیا۔(۶) صدر کی سیٹ پر یا دیگر عہدیداروں کی سیٹ پر آپ بیٹھے ہیں یا یہ حقیر اپنی جگہ پر، حکومتی عہدیدار سب اپنی جگہ پر اس زاویئے سے فکر کریں۔ ہمارے پاس یہ عہدہ امانت ہے اور ہمیں اس امانت کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ ؛ اِنَ اللهَ یَأمُرُکُم اَن تُؤَدُوا الاَمانتِ اِلى‌ اَهلِها. (۷) امانت کا حق ادا کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض کو پہچانیں اور جہاں تک ہماری توانائی میں ہو، ظاہر ہے ہماری توانائي سے باہر ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ہے، ہم اتنی محنت کریں اور جہاں تک کوشش کر سکتے ہیں کوشش کریں۔
عزیز خواہران و برادران گرامی! ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام جد وجہد اور پیکار کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، مقابلے کے بغیر اس نظام کی تشکیل ممکن نہیں تھی۔ دنیا میں ساری بڑی آرزوئیں اسی طرح پوری ہوتی ہیں۔ اس نظام کی حفاظت و پائیداری بھی جدوجہد کی ہی مرہون منت ہے۔ اگر عوام کی یہ مجاہدتیں نہ ہوتیں، اگر امام خمینی نے مقابلہ نہ کیا ہوتا، اگر مختلف میدانوں میں عہدیداروں نے جہاد نہ کیا ہوتا تو یہ نظام باقی نہ رہتا بلکہ ختم ہو گیا ہوتا۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض ایسے خطوں میں جو ہمارے یہاں سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہیں، ایک واقعہ رونما ہوا، ایک موقعہ ہاتھ آیا، لیکن متعلقہ افراد اس موقعے کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے یہ موقعہ گنوا دیا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ شمالی افریقا میں اور دوسری جگہوں پر آج کیا ہو رہا ہے۔ بالکل یہی انجام اسلامی جمہوریہ کا بھی ہو سکتا تھا کہ کہیں کوئی واقعہ ہوتا، جس پر کوئی تحریک شروع ہو جاتی اور پرکشش اور رنگین نعروں کے ساتھ اسلامی نظام تشکیل پاتا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد حالات یکسر دگرگوں ہو جاتے اور سب کچھ ختم ہو جاتا۔ ایسا ہونے میں جو چیز سد راہ بنی وہ مجاہدت اور جہاد ہے، خالصانہ، خردمندانہ اور سنجیدہ پیکار ہے۔ ملت ایران کا طرز عمل خالصانہ اور صادقانہ تھا؛ فَلَما رَأَى اللهُ صِدقَنا اَنزَلَ بِعَدُوِنَا الکَبتَ وَ اَنزَلَ عَلَینَا النَصر؛ (۸) یہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ مختلف میدانوں میں ملت ایران کی صداقت ثابت ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال میں یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایک گوشے میں بیٹھے اور عیب جوئي کرے، کچھ عیوب اور خامیاں تلاش کر لے، اعتراض کرے، اشکالات کی نشاندہی کرے، ٹھیک ہے، ایسا ہو سکتا ہے لیکن ان خامیوں کو پورے نظام پر حمل نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ ہمارا اور آپ کا کام جہدو جہد اور مجاہدت کرنا ہے، مجاہدت کے بغیر منزل حاصل نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بھی بالکل ظاہر ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کوئی جنگ پسند نظام ہے۔ نہیں امر واقعہ یہ ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ سمندر میں کسی ایسے راستے سے گزرنا چاہتے ہیں جہاں بحری قزاق موجود ہیں تو آپ کو اپنی کشتی کو لیس کرنا ہوگا، یہ فطری امر ہے۔ آپ کے اندر اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے، آپ کے اندر دفاع کا جذبہ ہونا چاہئے، اگر آپ کے اندر دفاعی جہاد کا جذبہ نہ ہو تو انجام بالکل صاف ہے؛ لٹ جائیں گے، خالی ہاتھ رہ جائیں گے، کشتی بھی آپ کے ہاتھ سے چھن جائے گی، آپ کی زندگی بھی یا تو ختم ہو جائے گی یا ذلت و اسیری میں گزرے گی۔ دنیا میں صورت حال یہی ہے۔ عصری دنیا کے بحری ‍قزاقوں جو سمندر میں، زمین پر، فضا میں، ہر جگہ ہیں، اور تارخی، داستانوں، افسانوں اور واقعات کے معروف بحری قزاقوں میں فرق یہ ہے کہ آج کے قزاق علم و سائنس سے آراستہ ہیں۔ آج انسانیت کو لوٹنے والے قزاق، پیسہ بھی لوٹتے ہیں، ذخائر بھی لوٹتے ہیں، عزت و آبرو بھی لے لیتے ہیں، اخلاقیات بھی غارت کر لیتے ہیں، یہ ٹکنالوجی سے لیس ہیں اسی وجہ سے وہ بظاہر آبرومند اور با وقار بھی نظر آتے ہیں۔ علم نے لوگوں کی آنکھوں میں ان کے چہرے کے اس وحشیانہ انداز کو چھپا دیا ہے اور اس سے ان کی دولت میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے، فرق صرف اتنا ہی ہے۔ انہوں نے بڑی چالاکی سے کام کیا کہ خود کو علم سے آراستہ کر لیا لیکن اخلاق سے نہیں، لہذا بڑی آسانی سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بڑی آسانی سے انسانی اقدار اور اہداف کے سلسلے میں خیانت کر دیتے ہیں، بڑی آسانی سے جنگ کی آگ شعلہ ور کر دیتے ہیں، بڑی آسانی سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرتے ہیں، کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والے کو بڑی آسانی سے یہ ہتھیار فراہم کر دیتے ہیں، انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ جب گفتگو اور استدلال کا موقعہ ہوتا ہے تو مختلف بہانوں سے اس پر پردہ ڈالتے ہیں۔ لوگوں کو حقیقت امر کے ادراک کا موقعہ ہی نہیں دیتے۔ تو ان کے جرائم روایتی بحری قزاقوں سے جن کا ذکر افسانوں اور فلموں میں ملتا ہے، کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ اس لئے کہ وہ بڑے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسے درست عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس قماش کی دنیا ہے۔ ہمارے سامنے اس قماش کا محاذ ہے۔ لہذا ہمارے پاس اپنا دفاع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ جو لوگ ان تسلط پسند طاقتوں کے سامنے سر جھکا دینے اور ان سے ساز باز کر لینے کی روش کو ایک تھیوری کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسلامی نظام پر جنگ پسند ہونے کا الزام لگاتے ہیں یا کہتے ہیں کہ اسلامی نظام جنگ کی تھیوری پر گامزن ہے، وہ در حقیقت خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ اسلامی نظام ایک انسانی نظام ہے، شرف و وقار کا نظام ہے، انسانی وقار کا پاس و لحاظ کرنے والا نظام ہے، امن وآشتی کا نظام ہے: وَ الصُلحُ خَیر. (۹) تمام میدانوں میں خواہ وہ ملک کا نظام نسق چلانے کا مسئلہ ہو، گوناگوں اقتصادی، علمی، ثقافتی سرگرمیوں کا مسئلہ ہو، پالیسی سازی کا معاملہ ہو، قانون سازی کا مرحلہ ہو، غیر ملکی مذاکرات کا مسئلہ ہو ہر جگہ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی ہے کہ ہم مقابلہ آرائی کی حالت میں ہیں۔ ہم اسی جہاد اور اسی راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں اسلامی نظام وجود میں آیا ہے اور جس کی وجہ سے اسے بقا و دوام ملا ہے۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے۔ یہ خیال ہمہ گیر نظریئے کی طرح ہماری تمام سرگرمیوں اور نقل و حرکت پر اثرانداز رہنا چاہئے۔ خواہ ہم کوئی بھی قدم اٹھائیں یہ نظریہ ضرور ملحوظ رکھا جائے۔ دنیا کی شیطانی طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی خطہ کوئی مرکز یا کوئی انسانی تمدن ہے جو ان کی خدمت نہیں کر رہا ہے، اسے منہدم کر دیں، یہ ان کا منصوبہ ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، ان کی خدمت کیجئے، ان کی زبردستی پر خاموش رہئے، ان کے تشدد آمیز نعروں کو سنئے اور تسلیم کر لیجئے، ورنہ اگر آپ نے مخالفت کی، مقابلہ کیا تو آپ سے لڑنے لگیں گی۔ ان کے سامنے خود کو مستحکم کرکے ڈٹ جانا چاہئے، یہ بنیادی چیز ہے۔ آپ تقنین اور قانون سازی کے عمل میں، حکومتی ادارے قانون کے نفاذ کے عمل میں، مختلف شعبوں کے عہدیدار اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر اس نکتے پر توجہ رکھ کر کام کریں۔ یہ ہماری گزارش ہے۔ پارلیمنٹ کا بنیادی کام اس جہاد کو آگے بڑھانا ہے جو اس سے پہلے اسلامی انقلاب کی فتح پر منتج ہوا اور جس نے اس انقلاب کو دوام عطا کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ پیکار اور مقابلہ آرائی کب تک جاری رہے گی؟ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو جہاد اور مزاحمت کا سلسلہ لا متناہی ہے۔ کیونکہ شیطان ہمیشہ دنیا میں موجود ہے اور ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو مختلف مواقع پر اس جہاد کی شکل مختلف ہو جاتی ہے۔ اگر دنیا کے ممالک اور قومیں کمر ہمت کسیں اور انسانی معاشرے کو اور عالمی برادری کو استعمار اور استکبار کی اس لعنت سے نجات دلا دیں تو مشکل حل ہو جائے گی۔ یعنی انسانیت کی سب سے بنیادی مشکل یہی ہے۔ آج دنیا کا استکباری نظام اور اس میں سر فہرست امریکا انسانیت کے پیکر اور انسانیت کے ذہن پر کسی بدبختی کی طرح مسلط ہو گيا ہے، اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اسے کچل رہا ہے، اس آشفتہ و پریشاں حال کئے ہوئے ہے، انسانی زندگی میں انتشار برپا کئے ہوئے ہے۔ اگر انسانیت خود کو اس نحوست کے سائے سے، اس ڈراؤنے خواب سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ سکون کا سانس لے سکتی ہے۔ البتہ یہ آسان کام نہیں ہے، بڑی دشوار مہم ہے، اس کے لئے دراز مدتی اور طولانی جہاد و مزحمت کی ضرورت ہے۔ ملت ایران نے اس راستے میں بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ خود اسلامی نظام کی تشکیل بہت بڑا قدم ہے۔ تسلسل کے ساتھ قانون ساز اسمبلی کی تشکیل جو اسلامی جمہوریت کا مظہر ہے، بہت بڑا کام ہے، اس پلیٹ فارم پر آپ کا موجود ہونا بھی، عوام کے نمائندے کی حیثیت سے ایوان میں آپ کی موجودگی بھی دینی جمہوریت کا مظہر اور ایک طرح کا جہاد ہے۔ اس کی قدر و قیمت کو سمجھنے اور اس مہم کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ہم نے اس سال کے آغاز میں 'مجاہدانہ انتظام و انصرام' کا موضوع اٹھایا۔ مجاہدانہ انتظام و انصرام صرف حکومت اور مجریہ سے مختص نہیں ہے، اس کا اطلاق پارلیمنٹ پر بھی ہوتا ہے۔ البتہ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ کے اپنے دائرہ کار کے اندر، یعنی قانون سازی اور نگرانی کے مرحلے میں جو پارلیمنٹ کی سب سے بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ فرائض پوری لگن اور سنجیدگی سے اور ہر طرح کے ذاتی رجحان اور مفاد سے ہٹ کر ملکی مفادات کی خدمت و حفاظت کے علاوہ ہر جذبے اور رجحان سے دور رہتے ہوئے انجام دیئے جائیں تو یہی بہت بڑا جہادی عمل ہوگا۔ اسی کو کہتے ہیں جہادی عمل، کام اور اقدام میں دوسرے جذبات دخیل نہ ہونے پائیں اور ترجیحات کو مد نظر رکھ کر کام انجام دیا جائے۔ میں مزاحمتی معیشت کے بارے میں بھی کچھ گفتگو کروں گا۔ آغاز سال پر میں نے عرض کیا اور اس وقت آپ سے بھی یہ سفارش کروں گا کہ چھٹیں ترقیاتی منصوبے میں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے، معیشت، ثقافت اور علم پر خاص توجہ اور تاکید کی جائے۔ مزاحمتی یا خود کفیل اقتصاد بہت بڑا قدم ہے جس کے لئے انہی میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ملک کے سرکاری اداروں اور انتظامی شعبوں کی، خواہ وہ پارلیمنٹ کے تحت آتے ہوں، حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوں یا دوسرے شعبوں کے تحت آتے ہوں، سب کی اس سلسلے میں ذمہ داریاں ہیں۔ وطن عزیز کی مشکلات کا حل خود کفیل اقتصاد ہے۔ خواہ وہ معاشی مشکلات ہوں یا سیاسی مشکلات ہوں۔ ان کا حل وطن عزیز کی سرحدوں کے باہر تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ بیشک سب کام کریں، جس کے اندر جو توانائی ہے اسے استعمال کرے، ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں اور بارہا یہ بات کہہ بھی چکے ہیں۔ ہم ان تمام افراد کی، جو داخلہ یا خارجہ کسی بھی سطح پر محنت کر رہے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر رہے ہیں، کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، حمایت کرتے ہیں، حقیقی حمایت صرف ظاہری اور دکھاوے کی حمایت نہیں۔ لیکن ہمارا یہ موقف ہے کہ ملکی مشکلات کا حل ملک کے اندر ہے، ہمارے اور آپ کے وجود کے اندر ہے۔ اقدام کی توانائی خود ہمارے اندر ہونی چاہئے، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کیا کرنا ہے اور ہمیں علم ہونا چاہئے کہ صحیح راستہ کیا ہے، پھر ہم پوری جرئت و دلیری کے ساتھ اپنا کام کریں۔ اس طرح ملکی مشکلات کا ازالہ یقینی ہوگا۔ ایک اہم اور بڑا قدم یہی مزاحتمی اور خود کفیل معیشت ہے۔ البتہ جس دن سے خود کفیل معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اور اس کا تذکرہ بار بار کیا جا رہا ہے (10)، تبھی سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حکام، مجریہ کے افراد، محترم ارکان پارلیمنٹ، دیگر ادارے اور مختلف حکام سب مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کی حمایت و ستائش کر رہے ہیں، بار بار اس کا ذکر ہو رہا ہے لیکن حقیر کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ستائش ہی کافی نہیں ہے، تعریف کر دینا ہی کافی نہیں ہے، اقدام اور عمل ضروری ہے۔ عموما یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آتے ہیں، ڈائس یا منبر سے عمومی جلسوں میں مزاحمتی معیشت کے خصائص بیان کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر ان کی باتیں درست ہوتی ہیں، لیکن عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ میں جو کچھ انجام پایا ہے اور جس کی پہلے بھی مجھے رپورٹ مل چکی ہے اور آج پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے بھی رپورٹ پیش کی (11) وہ قابل قدر و ستائش ہے۔ حکومت کی سطح پر بھی اقدامات انجام پائے ہیں لیکن ایک ایک قدم کرکے آگے بڑھتے رہنے کی ضرورت ہے، قانون سازی کے میدان میں بھی اور نظارت و نگرانی کے میدان میں بھی۔ قانون سازی کی میدان میں سازگار اور مددگار قوانین کا وضع کیا جانا اور متصادم قوانین کو ختم کرنا ضروری ہے اور اس دوسرے عمل کی اہمیت پہلے سے کسی صورت کم نہیں ہے۔ بعض قوانین واقعی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں یا باقاعدہ متصادم ہوتے ہیں، متصادم قوانین کو حذف کرنا اور ایسے قوانین بنانا جو مزاحمتی معیشت کے مختلف پہلوؤں کے لئے سازگار ہوں، بہت اہم کام ہے۔ نگرانی کی ذمہ داری، اس عظیم مہم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں موجود مجریہ کی کارکردگی کی نگرانی کی ذمہ داری بھی پارلیمنٹ کی ہے۔ قانون سازی کے سلسلے میں ضروری ہے کہ حکومت مناسب بل تیار کرے، پارلیمنٹ صرف قراردادوں پر اکتفا نہیں کر سکتی، اس کے لئے بل لانے کی ضرورت ہے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پارلیمنٹ کے علاوہ کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو مزاحمتی معیشت یا دیگر امور سے متعلق قانون سازی کے مسئلے میں مداخلت کرے، قانون سازی کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے۔ پارلیمنٹ اپنی صوابدید پر کسی قانون کو پاس یا حذف کر سکتی ہے۔
پارلیمنٹ کی نگرانی کی ذمہ داری میں ایک اور اہم مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کا ہے۔ بدعنوانی کا مقابلہ واقعی بہت ضروری ہے۔ ہرگز ایسے آلودہ مراکز کو وجود میں نہ آنے دیں کہ جن کا بعد میں علاج مشکل ہو جائے۔ اگر نگرانی کا عمل درستگی کے ساتھ انجام دیا جائے تو بسا اوقات بالکل ابتدائی مراحل میں کسی غلط اور گناہ آلود سلسلے کو روک دیا جاتا ہے، لیکن اگر ہم نے ابتدائی مراحل میں ہی اس کا سد باب نہ کیا اور یہ بیماری بڑھ گئی، یہ زخم ناسور (12) بن گيا تو پھر اس کا علاج بہت مشکل اور انتہائي دشوار ہوگا۔ وہ بھی اگر اس کے علاج کی نوبت آئي، ورنہ یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس کے علاج کی نوبت ہی نہ آ پائے، تو علاج بہت سخت اور دشوار ہوگا اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ شروع ہی سے اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے اسلامی نظام میں سیاسی و معاشی میدانوں میں ہمارے پاس اس کا اچھا تجربہ ہے۔
چھٹے ترقیاتی منصوبے کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ اس کے لئے آمادہ ہو جانے، ضروری تیاریاں کرنے اور اسے آخری شکل دیکر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ چھٹے ترقیاتی منصوبے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کی پانچ سالہ پالیسیوں کی تدوین کا عمل انجام دیا جائے گا، آپ ان شاء اللہ اس پانچ سالہ منصوبے کے لئے ایک عملی روڈ میپ تدوین کریں گے۔ تین انتہائي کلیدی نکات ہیں اور ترقیاتی منصوبے میں ایسے نکات کا شامل ہونا ضروری ہے۔: ایک تو معیشت ہے، اس منصوبے میں خود کفیل معیشت پر بالکل نمایاں طور پر توجہ دی جانی چاہئے۔ دوسرے ثقافت کا مسئلہ ہے۔ ہم جب بھی ثقافت کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد انقلابی ثقافت ہوتی ہے، اسلامی ثقافت ہوتی ہے، اسلامی ثقافت کی تقویت و ترویج، اسلامی عقائد کا فروغ، اسلامی آداب، اسلامی اخلاقیات اور اسلامی طور طریقے کی ترویج۔ یہ ہے ثقافت۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک کے اندر چاہے جیسے ثقافتی وسائل وجود میں آ جائیں سب پر پر خوش ہوں کہ ہم نے ثقافتی میدان میں پیشرفت کی ہے۔ جی نہیں، ثقافتی ترقی اور ثقافت پر توجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ انقلابی ثقافت کی ترویج کی جائے، مراد اسلامی ثقافت ہے، دینی ثقافت ہے، انقلابی و اسلامی اقدار کی تقویت مراد ہے، ہماری مراد یہ ہے اور ہم سے اور آپ سے جو اس انقلاب کے سپاہی ہیں اسی کی توقع ہے کہ ہم سینہ سپر ہو جائیں اور انقلاب کے لئے کام کریں۔ تیسری چیز ہے علم و سائنس۔ ملک کے اندر بڑی اچھی علمی مہم کی شروعات ہو چکی ہے۔ بحمد اللہ ان گزشتہ برسوں میں، اس دس بارہ سال کے عرصے میں ملک میں بڑا اچھا ماحول بنا ہے، یہ سلسلہ ہرگز ماند نہ پڑنے پائے، اس کی سرعت میں مسلسل اضافہ کیا جانا چاہئے۔ قومی افتخارات میں بیشتر، قومی وقار کا بڑا حصہ اور قومی ثروت کی بڑی مقدار علم و دانش کی برکت سے حاصل ہوتی ہے۔ مختلف علمی میدانوں میں تحقیق و پیشرفت کا مسئلہ، سائنس و ٹکنالوجی کے مختلف میدانوں میں نئی نئی اختراعات و انکشافات کا مسئلہ بہت اہم اور حیاتی ہے۔ ترقیاتی منصوبے میں اس پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔
ایک اور اہم مسئلہ آبادی کا ہے جس کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے (13)۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ حکام نے بھی خوب تعاون کیا آبادی سے متعلق پالیسیوں کے سلسلے میں۔ ہم نے سنا ہے کہ پارلیمنٹ میں بھی آبادی میں اضافے کے سلسلے میں اور آبادی میں کمی کے سد باب کے مقصد سے ایک قرارداد زیر غور ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ ہم ایک طرف نوزائيدہ بچوں اور ماؤں کی صحت و سلامتی کا پورا خیال رکھیں جو اپنی جگہ پر بہت ہی اہم ہے اور دوسری طرف اس سلسلے میں بھی محتاط رہیں کہ جو غلطی ہم سے پہلے ہو چکی ہے اسے اب پھر نہ دہرائیں، اسی راستے پر دوبارہ نہ چلیں۔ آبادی گھٹنے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ان دشمنوں کے نزدیک جن کا ہم نے شروع میں ذکر کیا بہترین صورت یہ ہے کہ ایران کی آبادی دو تین کروڑ تک محدود رہے اور اس آبادی میں بھی آدھے بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگ ہوں۔ یہ ان کے لئے بہترین تحفہ ہوگا۔ دشمن اگر اس کے لئے منصوبہ بندی کرنے پر قادر ہوگا تو ضرور کرے گا، اگر پیسہ خرچ کرنا پڑے تو وہ بھی کرے گا۔ ہمیں اس کے برعکس سمت میں کام کرنا اور آگے بڑھنا ہے، ہماری روش منطقی، صحیح، دانشمندانہ اور ماہرانہ ہونی چاہئے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں کچھ احباب اس قضیئے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔
آپ جیسے باایمان، با اخلاص اور قریبی دوستوں، بھائیوں اور بہنوں سے ہماری گفتگو ختم ہونے والی نہیں ہے۔ کہنے کے لئے بہت کچھ ہے، اسی طرح آپ بھی ہم سے بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس کا موقع نہیں مل پاتا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے، آپ کی مدد کرے کہ آپ بالکل اسی انداز اور نہج پر جو اللہ تعالی کو پسند ہے اپنی اس ذمہ داری کے پورے دور میں اور زندگی کے آخری لمحات تک اپنے امور انجام دیں۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) پارلیمنٹ کے اسپیکر
۲) سوره‌ کهف، آیه‌ ۴۵
۳) کلیات ناصرخسرو، قصیده‌ نمبر ۱۸۴
۴) سوره‌ کهف، آیه‌ ۴۵
۵) سوره‌ ق، آیه‌ ۱۸
۶) پارلیمنٹ کی صدارتی کمیٹی کے انتخابات 25 مئی 2014 کو منعقد ہوئے
۷) سوره‌ نساء، آیه نمبر ‌۵۸
۸) نهج البلاغه، خطبه‌ نمبر ۵۶
۹) سوره‌ نساء، آیه‌ نمبر ۱۲۸
۱۰) مزاحمتی و خود کفیل معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن 18 فروری 2014 کو جاری کیا گیا۔
۱۱) پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاری جانی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے اسٹڈیز سنٹر میں ایک سکریٹریئٹ قائم کیا گیا ہے جو ملک کی علمی انجمنوں، پارلیمنٹ کے کمیشنوں اور پارلیمنٹ اسپیکر کے معاونین کے تعاون سے اور ڈپٹی اسپیکر کی نگرانی میں نیز مجریہ سے ہم آہنگی کے ساتھ ان پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے کام کرے۔
۱۲) سخت یا لا ینحل
۱۳) آبادی سے متعلق کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن 20 مئی 2014 کو جاری کیا گیا۔