قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے پہلے خطبے میں اس مبارک و مسعود دن کی تبریک و تہنیت پیش کی اور ماہ رمضان کے دوران پورے ایران میں تلاوت کلام پاک کی محفلوں کے وسیع پیمانے پر اہتمام، ذکر و مناجات، افطاری کے پروگراموں، شب قدر میں دعا اور توسل و تضرع اور یوم قدس کے موقعے پر قوم کے عظیم جوش و خروش اور غیظ و غضب کو رحمت و برکات الہیہ کے حصول کی تمہید قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سال یوم قدس کی ریلیوں کو ملت ایران کی عمومی ہمت و شجاعت کی آئینہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید الفطر کے دوسرے خطبے میں غزہ کے تازہ واقعات کے بارے میں گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے غزہ کے بحران کو عالم اسلام اور دنیائے بشریت کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا اور غزہ کے معصوم بچوں کے قتل عام اور اس سرزمین کی ماؤں کی مظلومیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ صیہونی حکومت نام کا خونخوار بھیڑیا غزہ میں المیہ رقم کر رہا ہے لہذا دنیا کو چاہئے کہ اس خونخوار اور کافر حکومت کے جرائم پر اپنا رد عمل دکھائے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
 
 
بسم ‌الله ‌‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله‌ ربّ العالمین، الحمد لله‌ الّذى خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّهم یعدلون، و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا و شفیع ذنوبنا ابى ‌القاسم المصطفى محمّد و على آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین، احمد الله‌ و استعینه و استغفره و اتوکّل علیه.

تمام برادران و خواہران گرامی کو اس باشرف اور بابرکت دن پر رحمت و مغفرت خداوندی کی خوش خبری دیتا ہوں اور سب کو اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی آپ سب پر اپنی برکتیں نازل فرمائے اور آپ کے نیک اعمال اور مجاہدانہ بندگی کو جو آپ نے ماہ مبارک رمضان کے تپتے ہوئے دنوں میں اور بابرکت شبہائے قدر میں انجام دی، شرف قبولیت عطا فرمائے۔
ہمارے عوام نے بحمد اللہ کسب فیض کیا رمضان کے مبارک مہینے سے اور اس مہینے میں تلاوت کلام پاک کی محفلوں سے، ذکر و دعا کی مجلسوں سے، افطاری کے پروگراموں سے، شبہائے قدر کی جذبات سے معمور راتوں سے اور توسل و مناجات کی نشستوں سے جو بحمد اللہ پورے ملک میں وسیع پیمانے پر منعقد ہوئیں۔ یہ توسل اور مناجات وغیرہ رحمت الہیہ کا دریچہ اور فیض پروردگار کے نزول کا دروازہ ہیں۔ اس مہینے کے اختتام کے قریب یوم قدس کے موقعے پر ملت ایران کا عظیم جلوس بھی نکلا جس کے ذریعے اس زندہ اور بیدار قوم کا غیظ و غضب بلند آہنگ میں دنیا والوں تک پہنچا۔ یہ اس عظیم مہینے کے اہم واقعات و تغیرات ہیں اور ہماری قوم اس مہینے کو سربلندی کے ساتھ گزار کر عید کی اس وادی میں پہنچی ہے۔
پیارے بھائیو اور بہنو! آپ نے ماہ رمضان میں جو اعمال انجام دیئے ان میں ہر ایک فعل ایک حسنہ اور بہشت بریں کا ایک ٹکڑا ہے۔ رمضان المبارک کی دعا میں آپ اللہ تعالی سے یہ التجا کرتے ہیں کہ آپ کو جنت تک رسائی میں کامیاب کرے، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو ان اعمال کی انجام دہی کی توفیق حاصل ہو کہ آخرت میں جن کی عملی تصویر بہشت بریں ہے۔(1) بحمد اللہ یہ توفیق آپ کو ملی۔ آپ نے ماہ رمضان میں جو کچھ سیکھا ہے اس کی قدر کیجئے اور اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ رمضان کے مہینے میں شخصی، عوامی اور اجتماعی سطح پر جو اعمال حسنہ نظر آئے، جیسے لوگوں کو عمومی طور پر کھانا کھلانا، سادگی کے ساتھ روزہ افطار کروانا، بحمد اللہ یہ اعمال رائج ہو گئے ہیں۔ گزشتہ سال ملک کے عوام سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ افطاری کے سلسلے میں تکلفاتی چیزوں کو ختم کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو افطاری تقسیم کرنے پر توجہ دیں، اس سال عمومی مقامات پر، مذہبی مقامات پر، سڑکوں پر، حسینیوں میں، ملک بھر میں جگہ جگہ لوگوں کی طرف سے اس عمل کو وسیع پیمانے پر انجام دیئے جانے کی خبریں موصول ہوئیں۔ اس حقیر کی گزارش یہ ہے کہ ان عادات و اطوار کو جو اسلامی زندگی کی تشکیل میں موثر واقع ہوتی ہیں، زیادہ سے زیادہ وسعت دیجئے۔
یوم قدس واقعی بڑے با عظمت انداز میں منایا گیا۔ اس شدید گرمی میں ہمارے عوام روزے کےعالم میں، عورتیں، مرد، خاص طور پر خواتین جو حجاب میں تھیں، چادر اوڑھے ہوئے، گود میں بچوں کو اٹھائے ہوئے اس دن کے جلوس میں شریک ہوئیں۔ جب کوئي قوم یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ زندہ ہے، جب اپنے عمومی حوصلے اور بلند ہمتی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے جو کسی خاص گروہ اور جماعت سے مختص نہیں بلکہ پوری قوم میں ہمہ گیر طور پر پایا جاتا ہے، تو ایسے ہی مواقع پر اس کا مظاہرہ کرتی ہے اور ہماری قوم نے بحمد اللہ اس کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالی آپ ملت ایران پر اپنی برکتیں نازل فرمائے، آپ کے عز و وقار میں روز بروز اضافہ کرے، آپ کی پیشرفت میں اضافہ کرے اور ملک کے حکام کو یہ توفیق عطا کرکے کہ آپ کی روز افزوں خدمت کر سکیں۔

بسم‌ الله‌‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌
قُلْ هُوَ الله‌ اَحَد. الله‌ الصَّمَد. لَمْ یَلِد وَ لَم یُولَد. وَ لَمْ یَکُن لَهُ کُفُوًا اَحَد. (۲)

 

*****

بسم ‌الله ‌‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله‌ فى الارضین و صلّ على علىّ امیرالمؤمنین و على الصّدّیقة الطّاهرة سیّدة النّساء العالمین و على الحسن و الحسین سبطى الرّحمة و امامى الهدى و على علىّ‌ بن‌ الحسین و على محمّد بن علىّ و على جعفر بن‌ محمّد و على موسى ‌بن‌ جعفر و على علىّ‌ بن‌ موسى الرّضا و على محمّد بن ‌علىّ و على علىّ ‌بن ‌محمّد و على الحسن‌ بن‌ علىّ و على الحجّة القائم.

میں اپنے عزیز نمازی بھائیوں اور بہنوں کو، خود اپنے نفس اور تمام ملت ایران کو تقوائے الہی کی پابندی کی سفارش کرتا ہوں۔ یہ تقوا ہر میدان میں اپنا اثر رکھتا ہے۔ حتی اہم ترین سماجی و عالمی مسائل کے سلسلے میں فیصلہ اور عمل کرنے کے سلسلے میں، عالم اسلام سے متعلق امور اور انسانیت سے متعلق مسائل کے بارے میں اس کا اثر ہے۔
آج عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ غزہ کا بحران ہے، بلکہ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دنیائے انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ کا مسئلہ ہے۔ پاگل کتا اور خونخوار بھیڑیا مظلوم انسانوں پر حملہ آور ہوا ہے۔ ان معصوم بچوں سے زیادہ مظلوم کون ہو سکتا ہے جو ان حملوں میں انتہائی بیکسی کے عالم میں لقمہ اجل بن رہے ہیں؟ ان ماؤوں سے بڑا مظلوم کون ہوگا جنہوں نے اپنی آغوش میں اپنے نونہال کو تڑپتے اور آخری سانسیں لیتے دیکھا ہے؟ کافر و غاصب صیہونی حکومت آج یہ جرائم ساری دنیا کے انسانوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دے رہی ہے اور دنیا کوئی رد عمل نہیں دکھا رہی ہے۔
غزہ کے مسئلے میں تین اہم نکتے قابل ذکر ہیں:۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے عمائدین آج جس چیز کا ارتکاب کر رہے ہیں وہ کھلی نسل کشی ہے، ایک عظیم تاریخی المیہ ہے۔ اس مجرم اور عالمی سطح پر اس مجرم کی پشت پناہی کرنے والوں کی مذمت ہونی چاہئے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔ انہیں قرار واقعی سزا دیئے جانے کا مطالبہ قوموں کے ترجمانوں، دنیا کے مصلحین اور دردمند دل رکھنے والے افراد کی طرف سے پرزور انداز میں کیا جانا چاہئے۔ اگر اس کو کچھ وقت گزر چکا ہے تو بھی کوئي فرق نہیں پڑتا۔ انہیں ہر حال میں سزا دی جانی چاہئے، خواہ وہ اقتدار میں ہوں، یا اقتدار سے ہٹ چکے ہوں، سرنگوں ہو چکے ہوں۔ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو اعلانیہ ان کی پشت پناہی کرتے ہیں، آپ اس سلسلے میں خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں، یہ تو ہے پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اپنی حق بات پر ثابت قدمی سے ڈٹ جانے والے لوگوں کی قوت استقامت اور برداشت، قابل دید ہے۔ ایک چھوٹی سی جگہ پر ہر طرف سے محصور قوم، جس پر بحری راستے بند ہیں، زمینی راستے بھی مسدود ہیں، تمام سرحدیں بند کر دی گئی ہیں، پینے کا پانی، بجلی، دیگر اشیائے ضروریہ کوئی بھی چیز اطمینان بخش صورت حال میں نہیں ہے۔ یہ سب کچھ دشمن کے معاندانہ اقدامات اور وحشیانہ حملوں کا نتیجہ ہے اور عالم یہ ہے کہ کوئی بھی ان کی مدد کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ عوام صیہونی حکومت جیسے بے رحم اور سر سے پاؤں تک مسلح خبیث دشمن اور اس حکومت کے نجس، انتہائی پست فطرت اور خبیث عمائدین کے نشانے پر ہیں اور یہ دشمن شب و روز بغیر کسی بات کا لحاظ کئے ہوئے، سرکوبی کر رہا ہے، لیکن یہ قوم استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے، پائيداری کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے، یہ بہت بڑا سبق ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اندر پائیداری و استقامت کی طاقت، اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کی ہچکی لیتے ہوئے دیکھنے والی ماں کے صبر و تحمل کی طاقت کیسی ہوتی ہے۔ یا ایک عورت اپنے شوہر، بھائی یا باپ کو تڑپتا ہوا دیکھتی ہے تو اس کی تکلیف ہمارے تصور اور خیال سے بالاتر ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے اندر پنہاں طاقت و توانائی سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ انسانوں کے اندر اس طرح کی طاقت موجود ہے۔ ان کے پاس استقامت کا ایسا جذبہ پایا جاتا ہے۔ تقریبا اٹھارہ لاکھ انسان چار سو پانچ سو مربع کلومیٹر کے محصور علاقے میں جہاں دشمن باغات کو تباہ کرتا رہتا ہے، دکانوں کو منہدم کر دیتا ہے، گھروں کو ویران کر دیتا ہے، ان کے اوپر تجارت کے راستے بند کر دیتا ہے، ہر طرح کی لین دین پر پابندی عائد کر دیتا ہے، اور پھر اس طرح ان پر حملے کرتا ہے اور یہ عوام ہیں کہ اس انداز سے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ایک قوم کی استقامت و مزاحمتی قوت کی اعلی سطح اور اونچائی کی مثال ہے۔ میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ سرانجام توفیق الہی اور اذن پروردگار سے ان جیالوں کو اپنے دشمن پر فتح حاصل ہوگی۔ چنانچہ دشمن ابھی سے پچھتانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس نے جو قدم اٹھایا ہے اس کے نتیجے میں پھنس کر رہا گیا ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کرے۔ اگر پسپائی اختیار کرے تو عزت چلی جائے گي، حملہ جاری رکھے تو روز بروز اس کی مشکلات بڑھتی ہی جائیں گی۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا، یورپ اور دنیا کی جرائم پیشہ طاقتیں متحد ہو گئی ہیں کہ غزہ کے عوام پر جنگ بندی مسلط کر دیں۔ تاکہ صیہونی حکومت کو نجات دلا سکیں۔ ابھی تو وہ بری طرح سے پھنسی ہوئی ہے اور آئندہ اس کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہی ہوگا۔ یہ رہا دوسرا نکتہ۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ عالم استکبار کے عمائدین کہتے ہیں کہ حماس(3) اور جہاد اسلامی (4) کو غیر مسلح کر دیا جانا چاہئے۔ انہیں غیر مسلح کرنے کا کیا تک ہے؟ یعنی اس وقت ان کے پاس جو چند میزائل ہیں جنہیں وہ دشمن کے شدید حملوں کی صورت میں دفاعی طور پر استعمال کر لیتے ہیں، وہ میزائل بھی ان سے چھین لئے جائیں! یعنی غزہ سمیت پورا فلسطینی علاقہ ایسا ہو کہ جب بھی صیہونی حکومت کا دل چاہے حملہ کر دے اور فلسطینی اپنے دفاع میں کچھ بھی نہ کر پائیں، یہ ہے منشا اور مقصود! امریکی صدر نے فتوی جاری کیا بے کہ مزاحمتی تنظیم کو غیر مسلح کر دیا جانا چاہئے۔ ظاہر ہے، آپ تو یہی کہیں گے۔ آپ چاہتے ہیں کہ وہ غیر مسلح ہو جائے تا کہ اس مقدار میں بھی دفاعی کارروائي کرنے کے قابل نہ رہے جس مقدار میں ابھی وہ کر لیتی ہیں۔ صیہونی حکومت کی مجرمانہ کارروائیوں کا کوئي جواب نہ دے سکے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ اس کے بالکل برعکس ہونا چاہئے۔ ساری دنیا اور خاص طور پر عالم اسلام کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہے فلسطینی عوام کو وسائل فراہم کرے۔

الّلهُمّ انصر الاسلام و المسلمین، وانصر جیوش المسلمین، و اخذل الکفّار و المعاندین و المنافقین، و استغفر الله‌ لى و لکم.
بِسمِ ‌الله ‌‌الرَّحمنِ ‌الرَّحیم‌
قُل هُوَ الله‌ اَحَد. اَلله‌ الصَّمَد. لَم یَلِد وَ لَم یولَد. وَ لَم یَکُن لَهُ کُفُوًا اَحَد.

والسّلام علیکم و رحمة الله‌ و برکاته‌

۱) اقبال‌الاعمال، جلد‌۱، صفحہ ‌۲۵؛ «اَللهمَّ...هذا شَهرُ العِتقِ مِنَ النّارِ وَ الفَوزِ بِالجَنَّة»
۲) سوره‌ توحید
۳) اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس، جو سن 2007 سے غزہ پٹی کا نظم و نسق چلا رہی ہے۔
۴) جہاد اسلامی نامی فلسطینی مزاحمتی تنظیم