قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 31 اردیبہشت 1393 ہجری شمسی مطابق 21 مئی 2014 کو بیت المقدس سے موسوم افتخار آمیز دفاعی آپریشن اور خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کے موقعے پر امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں شرکت کی اور اس موقعے پر مقدس دفاع کے شہیدوں کے لئے فاتحہ خوانی کی اور ان کی ارواح طیبہ کے علو درجات کی دعا کی۔ آپ نے یونیورسٹی کے وسیع میدان میں موجود مقدس دفاع کے ان سپاہیوں سے ملاقات کی جو دفاع وطن کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو گئے اور جنہیں ایران میں 'جانباز' کہا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے کیڈٹس کی پاسنگ آوٹ تقریب سے خطاب میں امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی میں صاحب ایمان، دیندار، انقلابی، محقق اور ماہر افراد کی تربیت کو اسلامی انقلاب کے نشو نما اور ثمرات کی واضح مثال قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے استکباری محاذ اور اس محاذ کی طرف سے دنیا کو سامراجی قوتوں اور اور تسلط میں گرفتار ممالک جیسے دو حصوں میں تقسیم کر دینے کی پالیسی کے مقابلے میں ملت ایران کی استقامت و پائیداری کی قدردانی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے اہداف کی وفادار نوجوان نسل کو ایک نکتے کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ نئی نسل کو چاہئے کہ اپنی نگاہیں مستقبل کے وسیع افق یعنی جدید اسلامی تمدن کی تشکیل پر مرکوز کرے اور کوتاہ بینی اور محدود طرز فکر سے اجتناب کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلام گزشتہ صدیوں کے دوران بار بار گوناگوں حوادث کے نتیجے میں لہولہان ہو جانے والی بشریت کی نجات کا واحد راستہ اور انسانی وقار کی بازیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دیندار اور فرض شناس نوجوان ملک کے مستقبل کے معمار اور جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کے محوری عناصر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد للَه و الصلاة على رسوله و آله الطیبین الطاهرین‌

مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ عزیز جوانوں، علم و معرفت اور ثقافت کے اس مرکز سے فارغ التحصیل ہونے والوں اور داخلہ لینے والے نئے طلباء کو۔ یہ مرکز اسلامی انقلاب کے شیریں ثمرات میں سے ایک ہے۔ گراؤنڈ میں جو خوبصورت اور نئے انداز کی فوجی آرائش نظر آئی وہ لایق تشکر ہے۔
بیشک اسلامی جمہوری نظام میں مستقل طور پر نئی نئی روشوں کا سامنے آنا بڑا بنیادی موضوع ہے۔ دنیا میں جس انقلاب اور جس تحریک کے اندر بھی مسلسل نئی روشیں اور انداز اختیار نہ کئے جائیں اس کا مقدر زوال اور فنا ہوتا ہے۔ گزشتہ پینتیس سال کی مدت میں اسلامی جمہوریہ ہر موڑ اور ہر موقع پر ضرورتوں کے مطابق ایک نیا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔ کچھ لوگ ساتھ چھوڑنے والوں کی طرف سے تشویش میں مبتلا ہوتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ نئے اضافے ساتھ چھوڑنے والوں پر غالب آ جائیں گے (1) اور یہی ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنی قوت شباب کو اعلی اہداف اور بلند مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، ان کی نگاہیں مستقبل بعید اور تابناک افق پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ صرف چند قدم کے فاصلے تک محدود نہ ہوں۔ مستقبل بعید ہے اسلامی تمدن کی تعمیر، نئے تمدن کی تشکیل، بشریت کی عصری ضرورتوں اور صلاحیتوں کے مطابق جو گزشتہ صدیوں کے گوناگوں واقعات و حوادث سے مجروح ہے اور غمزدہ ہے۔ جس کے نوجوان مایوسی، قنوطیت اور افسردگی میں مبتلا ہیں۔ اسلام ان نسلوں کو نئے افق سے روشناس کرا سکتا ہے، ان کے دلوں کو مسرتوں سے بھر سکتا ہے، انہیں وہ وقار و سربلندی عطا کر سکتا ہے جو انسانی مرتبے کے شایان شان ہو۔ یہی ہے جدید اسلامی تمدن کا مفہوم۔ آپ اس تمدن کی تشکیل کے بنیادی عناصر اور ستونوں میں شامل ہیں۔ مستقبل آپ کا ہے۔ اس ملک کے مستقبل، اس تمدن کے مستقبل بلکہ دنیا کے مستقبل کے معمار آپ نوجوان ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کے نمو اور توسیع کے عمل کا ایک حصہ اسی شعبے یعنی امام حسین (علیہ السلام) کیڈٹ یونیورسٹی میں انجام پا رہا ہے۔ آپ جہاں کہیں بھی ہیں، خواہ اس یونیورسٹی کے اندر یا ملک کے دوسرے حصوں اور شعبوں میں مصروف کار ہیں اور احساس ذمہ داری رکھتے ہیں، کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی بہت اہم ہے۔ یہ علم و دانش کا مرکز ہے۔ تحقیق و مطالعے کا مرکز ہے۔ انقلابی اقدار کی تعلیم کا مرکز ہے۔ ذہنی و روحانی آمادگی کا گہوارا ہے۔ آپ نوجوانوں کو اس کی قدر و قیمت سمجھنا چاہئے۔ حکام اور عہدیداران کو چاہئے کہ اس موقع سے بھرپور استفادے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ الحمد للہ یہ مساعی وہ انجام دے رہے ہیں۔
آج اسلامی نظام کے سامنے کچھ مسائل ہیں۔ مسائل در پیش ہونے کا مطلب ہے مسلسل پیش قدمی اور مستقل بنیاد پر جدت عملی کا مظاہرہ۔ مسائل کا در پیش ہونا شجاع اور بابصیرت انسانوں کے تشویش میں مبتلا ہونے کا باعث نہیں بنتا۔ مسائل فرض شناس انسان کو دستیاب صلاحیتوں اور بسا اوقات معطل پڑی توانائیوں کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کے اندر پیشرفت کی توانائی، استحکام کی قوت اور پختگی کی استعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہمارے دشمنوں کو اس کا بخوبی ادراک ہے۔ میں آپ نوجوانوں کی خدمت میں یہ نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا حالیہ ایک دو صدیوں کے دوران بین الاقوامی استعمار اور سامراج کے منحوس وجود سے بڑی مصیبتوں میں گرفتار ہو گئی ہے۔ ان میں سب سے بڑی مصیبت ہے تسلط پسندانہ نظام۔ تسلط پسندانہ نظام کا مفہوم یہ ہے کہ روئے زمین پر قومیں دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں۔ ایک گروہ تسلط پسند طاقتوں کا ہو اور دوسرا تسلط کی شکار اقوام کا۔ استکباری حکومتوں کی یہ عادت ہے کہ تسلط پسندانہ انداز میں پیش آئیں۔ طاقت کی زبان بولیں، اقوام کی معیشت میں، اقوام کی ثقافت میں، اقوام کی سیاست میں، اقوام کی تربیت میں، اقوام کے طرز زندگی میں تسلط پسندانہ مداخلت کریں۔ دنیا کے تمام وسائل ان کے قبضہ قدرت میں ہوں۔ مغربی حکومتیں اور گزشتہ چند عشروں کے دوران سب سے پیش پیش امریکی حکومت اس منحوس اور نفرت انگیز صورت حال کی خوگر ہو گئی ہے کہ دھونس جمائے، دنیا کی معیشت کی باگڈور اس کے ہاتھ میں ہو، قوموں کی ثقافت اس کے اختیار میں ہو، دیگر ممالک کے تمام اختیارات اس کے پاس ہوں۔ اسے اس چیز کی عادت پڑ گئی ہے۔ جب کوئی ملک یا قوم اس بری خو کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو سامراجی حکومتیں برہم ہو جاتی ہیں۔ اسلامی انقلاب آیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بڑا ملک، حساس جغرافیائي علاقے میں واقع ملک، ذخائر اور معدنیات سے مالامال ملک یعنی ایران جو شجاع، با استعداد اور استقامت کی قوت رکھنے والی قوم کا مالک ہے، اس نفرت انگیز اور مذموم روش کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ عالمی استکبار کو جس چیز نے برآشفتہ کر دیا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ایک اہم ملک میں بسنے والی ایک قوم جو بڑا درخشاں ماضی رکھتی ہے، جو انفرادی خصوصیات کی مالک ہے، تسلط پسندانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اس سے امریکا غضبناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے مقابل استکباری طاقتوں کا متحدہ محاذ ریشہ دوانیاں کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اقوام کے دل ملت ایران کی جانب مائل ہیں، یہی چیز وجہ بھی بنی کہ دنیا کی بہت سی حکومتیں جو اس سے پہلے ہمت نہیں کر پاتی تھیں کہ تسلط پسندانہ نظام کے سامنے ڈٹ جائیں، آج اسلامی جمہوری نظام کی استقامت کو دیکھ کر محظوظ ہوتی ہیں۔ البتہ ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ آشکارا اس کا اظہار کریں لیکن ہم عالمی سطح کے امور میں ان چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
ہمارے دشمنوں کے عناد کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام، عالمی استکبار کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ دنیا کو تسلط پسند اور تسلط کے شکار ملکوں میں تقسیم کئے جانے کی قبیح سوچ کے خلاف ثابت قدمی سے کھڑا ہو گیا ہے۔ دشمنی کی جو دوسری وجوہات بیان کی جاتی ہیں وہ سب بہانے بازی ہے۔ آج ایٹمی مسئلے کو بہانہ بنا لیا گیا ہے۔ کبھی انسانی حقوق کو بہانہ بنا لیا جاتا ہے۔ کبھی کسی اور مسئلے کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو دنیا کے غنڈوں، باج وصولی کرنے والوں اور بدمعاشوں کی مخالفت سے منصرف کر دیں اور یہ کبھی نہیں ہوگا۔ ملت ایران نے مختلف میدانوں میں اپنی توانائی ثابت کر دی ہے۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکا کا سہارا لئے بغیر بھی سائنسی ترقی کی جا سکتی ہے۔ سماجی ارتقاء کے مراحل بھی طے کئے جا سکتے ہیں، عالمی اثر و رسوخ بھی پیدا کیا جا سکتا ہے، دنیائے بشریت میں عزت و وقار بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسے ثابت کر دیا ہے۔ دشمن اسی پر بہت ناراض ہے کہ ایک قوم، ایک ملک اور ایک نظام بین الاقوامی غنڈوں اور باج خواہوں کی مدد سے بے نیاز رہتے ہوئے اور ان سے مکمل بے اعتنائی کے ساتھ بلکہ ان کی دشمنی و عناد کے باوجود مشکلات کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، خود کو منوانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ وہ اپنا وجود اور اپنا اثر نفوذ ان کی لاکھ مخالفت کے باوجود خود انہی سے تسلیم کروانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس پر وہ بہت سیخ پا ہیں۔ وہ بہت غصے میں ہیں۔ خیر وہ غصہ ہوتے ہیں تو ہوں اور بقول شہید بہشتی مرحوم کے اسی غصے میں ہلاک ہو جائیں۔ ملت ایران نے صحیح راستے کا انتخاب کر لیا ہے۔ راستے کی صحیح شناخت حاصل کر لی ہے۔ ہم نے تجربہ کر لیا ہے کہ دنیا کی توسیع پسند اور باج خواہی کرنے والی طاقتوں کی مدد کے بغیر بھی ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ خود کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ انسانی فکر اور انسانی علم و دانش کے ناشناختہ ابواب میں بھی قدم رکھ سکتے ہیں۔ دنیا کی اقوام کے دلوں کو اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں۔ اس کی ہم شناخت حاصل کر چکے ہیں۔ ہم نے اس سمت میں کام کیا ہے اور یقینا ہمیں پیشرفت بھی حاصل ہوگی۔ دشمن ہمارے سد راہ نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی اکثریت اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ ہے۔ یہاں تک کہ ان ملکوں کے عوام بھی جہاں سامراجی حکومتیں ہیں، حقائق سے باخبر افراد ان ملکوں میں بھی ملت ایران کو پسند کرتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کی ستائش کرتے ہیں، اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ استکبار سے وابستہ میڈیا ملت ایران کی آواز دنیا کے کانوں تک نہیں پہنچنے دیتا لیکن اس کے باوجود آج بحمد اللہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں لوگوں کی نگاہیں، دل اور زبانیں ملت ایران کی تعریف و ستائش کا آئینہ بنی ہوئی ہیں۔
ہمارے دشمن جو اسلامی جمہوریہ ایران اور عالمی برادری کے مقابلے کی باتیں کرتے ہیں، اگر کوئی انہیں باتوں کو ملک کے اندر دہراتا ہے تو یہ مجھے پسند نہیں ہے۔ کیسی عالمی برادری؟ اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل جو لوگ ہیں انہیں عالمی برادری نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو مٹھی بھر استکباری حکومتیں ہیں جن میں بیشتر بدنام، بد دماغ، لٹیری صیہونی کمپنیوں کے مالکان کے دباؤ میں رہنے والی حکومتیں ہیں۔ یہ عالمی برادری نہیں ہے۔ وہ خود کو عالمی برادری کہتے ہیں۔ عالمی برادری تو وہ مظلوم حکومتیں ہیں جن کے پاس مخالفت کے اظہار کی ہمت نہیں ہے۔ اگر انہیں موقع ملے تو وہ اپنی مخالفت کا اعلان کریں گی۔ عالمی برادری وہ مفکرین، دانشور، علماء اور خیر خواہ و حریت پسند افراد ہیں جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔
عزیز نوجوانو! مستقبل آپ کا ہے۔ نئے افق آپ کو فتح کرنے ہیں اور آپ یقینا اس میں کامیاب ہوں گے۔ خود کو آمادہ کیجئے، خود کو سنوارئے۔ اس یونیورسٹی میں کوشش کیجئے کہ علم و دانش، تحقیق و مطالعہ اور دفاعی مہارت، میں دفاعی مہارت پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا، ہر فرد پیشرفت حاصل کرے۔ بحمد اللہ بڑی اچھی صلاحیت ہے، توانائی کی کمی نہیں ہے۔ آپ بڑے کام انجام دے سکتے ہیں۔ خود کو مستقبل میں بڑے کاموں کے لئے آمادہ کیجئے۔ توفیق خداوندی سے شہدا کی ارواح طاہرہ جن کی ایک تجلی آج اس گراؤنڈ پر دیکھنے میں آئی، اسی طرح ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی روح مطہرہ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی ارواح طیبہ آپ کی پشت پناہی کریں گی۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کا قلب مقدس آپ سے خوش ہوگا۔ آپ سب ان شاء اللہ آقا کی دعاؤں کے حقدار قرار پائیں گے۔

والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته

۱) منجملہ مورخہ (۱۳۸۴/۵/۲۸ ہجری شمسی مطابق 19 اگست 2005) کو تہران کی نماز جمعہ میں دئے گئے خطبے