یوم مئی کے موقع پر 9 اردیبہشت 1371 ہجری شمسی مطابق 28 اپریل 1992 عیسوی کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے مسائل کا جائزہ لئے جانے اور ان کے تصفیئے کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ہی ملک اور معاشرے کو مثالی ملک و معاشرہ بنانے میں اساتذہ کے کردار اور عظیم ذمہ داریوں کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو میں ٹیچر اور محنت کش بہنوں اور بھائیوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ امید ہے کہ خدا کی توفیق اور فضل سے معاشرے کے آپ دونوں فعال اور تعمیری طبقے وطن عزیز کے اندر اسلامی ماحول میں، اپنی ‏عظیم ذمہ داری میں ہمیشہ کامیاب رہیں گے اور یہ بات خود ملک کی پیشرفت کی ضامن ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم شہادت کی آقا کے تمام شیعوں اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ آیت اللہ مطہری مرحوم کی شہادت کی بھی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ ان کی شہادت کو جتنے دن گذرتے جا رہے ہیں اتنا ہی ان کی فکر کی معنوی برکات اور اثرا ت کے نئے نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے علمی و فکری آثار روز بروز زیادہ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن سے انسان یہ سمجھتا ہے کہ ایک مفکر اور ذمہ دار عالم دین کی زندگی کتنی پر برکت ہو سکتی ہے۔
ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان بالخصوص وہ جو علم و دانش سے سروکار رکھتے ہیں، جیسے علمائے کرام، معلمین، طلبا اور مصنفین، شہید مطہری کی تصنیفات سے واقفیت حاصل کریں اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ یہ کتابیں بہت سے معاملات میں قاری کو نئی اور وسیع بینش عطا کرتی ہیں۔ دعا ہے کہ خداوند عالم ان کی روح پر اپنا فضل و کرم نازل فرمائے۔ ہمارے معاشرے کو ان کا قدرداں بنائے اور ہمارے معاشرے میں انسانی و اسلامی علوم میں تحقیق اور نئی جہتیں پیش کرنے کے لئے زمین زیادہ سے زیادہ ہموار کرے۔
آج دو بڑی مناسبتیں ہیں۔ ایک مناسبت کا تعلق محنت کشوں سے ہے اور دوسری کا تعلق معلمین سے ہے اور یہ دونوں طبقے معاشرے کے معمار ہیں۔
محنت کشوں کے بارے میں جو ضروری نکتہ عرض کرنا ہے، یہ ہے کہ محنت، ایک اسلامی فضیلت ہے۔ صرف یہی نہیں ہے کہ جو شخص کام کرتا ہے وہ تعمیر اور مصنوعات تیار کرتا ہے، چاہے فنی اور صنعتی مصنوعات ہوں، یا زرعی پیداوار ہو یا ہر وہ پیداوار جو معاشرے کے لئے مفید اور تعمیری ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ کام کرتا ہے تاکہ اپنے لئے نان شبینہ کا بندوبست کر سکے۔ بلکہ ہر محنت کش ایک اسلامی فضیلت کو مجسم بنانے والا اور اسے عملی شکل دینے والا ہوتا ہے۔ محنت، فضیلت ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ہم یہ عرض کر سکتے ہیں کہ اسلامی نظام اور وطن عزیز برسوں، اسلامی انقلاب کے بعد سے آج تک، دشمنوں سے دوچار رہا ہے، ان کے سامنے سینہ تان کے کھڑا رہا ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ طویل برسوں کے دوران آج تک، ایران کے دشمنوں نے، اسلام کے دشمنوں نے، فضیلت کے دشمنوں نے اور صداقت کے دشمنوں نے اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران پر وار لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ اکثر شکست کھائی ہے لیکن اپنی خباثت اور بری نیت کا ثبوت ہمیشہ دیا ہے۔ البتہ اکثر کچھ کر نہیں سکے ہیں۔ بنابریں اسلامی مملکت ایران کا ماحول، دشمنوں سے مقابلے کا ماحول ہے۔ آج کی دنیا جد و جہد کی دنیا ہے۔ جو بھی انسان خود بھیڑیوں کے مقابلے میں جدوجہد نہ کرے، اس کو یہ بھیڑیئے کھا جائیں گے۔ جس قوم نے بھی دشمنوں اور عالمی لٹیروں سے مقابلہ نہ کیا وہ ختم ہو گئی۔ اس کے واضح نمونے ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔
اسلامی جدوجہد اور جہاد کے اس میدان میں، محنت ایک جہاد ہے۔ آپ محنت کش ہیں، جس کارخانے میں بھی، جس کھیت میں بھی، جس جگہ پر بھی آپ کام کرتے ہیں، آپ کی یہ محنت، ملک کو دشمنوں اور غیروں سے بے نیاز بنا رہی ہے اور ملک کی ترقی اور عوام کی آسائش کی فراہمی میں مدد کر رہی ہے۔ آپ مجاہدت کر رہے ہیں اور یہ مجاہدت بہت موثر ہے۔ اگر جنگ کے دوران، پیداواری یونٹوں اور کارخانوں میں محنت کشوں کی مجاہدت نہ ہوتی تو جنگ میں ہماری حالت بری ہوتی۔ آپ نے دیکھا کہ اس دوران بالخصوص اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اوائل میں، دشمن کوشش کر رہے تھے کہ ہمارے کارخانوں اور کھیتوں میں کام نہ ہو۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اوائل انقلاب میں کتنے پمفلٹ تقسیم ہوتے تھے۔ کارخانوں کو بند کرنے کے لئے کتنی کوشش اور پروپیگنڈے کرتے تھے۔ البتہ دشمن یہ تو نہیں کہے گا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کارخانے بند ہو جائیں تاکہ اسلام ناکام ہو جائے۔ اس کا صراحت سے اعتراف تو نہیں کرے گا۔ دشمن یہ تو نہیں کہے گا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کارخانے بند ہو جائیں تاکہ ایران محتاج رہے۔ دشمن اپنے اقدامات کو ایک نام دیتا ہے تاکہ اس کی گندی نیت چھپی رہے۔
مزدور کے حقوق کے نام پر، محرومین کا حقوق کی بازیابی کے نام پر اور اسی طرح کے دوسرے جھوٹے نعروں کے ساتھ ہمارے کارخانوں کو بند کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کوششوں کو کس نے ناکام بنایا؟ کس نے اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا؟ اسی محنت کش طبقے نے۔ ہمارے صاحب ایمان محنت کشوں کے انہیں ہاتھوں نے۔ جب ہنرمند ہاتھ، صاحب ایمان دل کے ساتھ ہوں تو کام بہت معیاری انداز میں انجام پاتا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کے محنت کش جہاں بھی ملک کی ترقی کے لئے تعمیری کام میں مشغول ہیں، جان لیں کہ وہ مجاہدت کر رہے ہیں۔ اس مجاہدت کو جتنا ہو سکے بہتر اور محکم انداز میں انجام دیں۔
یہ حدیث میں نے بارہا عرض کی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ (1) خدا رحمت کرے اس محنت کش اور کام کرنے والے پر جو کسی کام کو ہاتھ لگاتا ہے تو اچھے اور محکم انداز میں انجام دیتا ہے۔ مسلمان محنت کش کو کام کے معینہ معیاروں سے بھی بہتر اور برتر کام انجام دینا چاہئے۔ یہ اسلامی حکم اور تہذیب ہے۔
یہ محنت کشوں کی قدردانی کے ایام ہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ محنت کش بھی، ملک کے محنت کشوں کے نظام کے اعلا عہدیدار بھی اور اہل قلم بھی اس نکتے پر زور دیں کہ آج کام ایک فضیلت، عبادت اور مجاہدت ہے۔ کام کو صرف فرض ادا کرنے کی نیت سے نہ انجام دیں۔ ذہن میں یہ سوچ نہ رکھیں کہ ایک کام کر دیا تو گویا سر سے بوجھ ہٹ گیا۔ کام کو مجبوری کی چیز نہ سمجھیں۔ کام کو روزی کمانے کا ذریعہ ہی نہ سمجھیں۔ محنت کش اپنے کام سے اپنی زندگی چلانے کے علاوہ معاشرے کی زندگی بھی چلاتا ہے اور یہ ایک دینی عمل اور بڑی عبادت ہے۔
اور اب معلمین اور تعلیمی اداروں کے بارے میں چند باتیں؛ اگر معلمین کے تعلق سے روایات کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کے سامنے تعلیم و تربیت کے بارے میں حقایق روشن ہوتے ہیں۔ مثلا ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ان اللہ و ملائکتہ خدا اور اس کے فرشتے حتی النملۃ فی جحرھا حتی چونٹیاں اور تمام مخلوقات یصلّون علی معلم الخیر اچھے معلمین پر درود بھیجتے ہیں۔ یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ ایک اور روایت میں آپ سے ہی منقول ہے کہ تمام مخلوقات، فرشتے اور دنیا کے تمام جاندار، معلمین کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ ان جملوں کے معنی کیا ہیں؟ تعلیم و تربیت دینا اسلام کی نگاہ میں کتنا اہم ہے؟
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاذ بن جبل کو یمن کے لوگوں کے امور چلانے اور ان کے درمیان اسلام پھیلانے کے لئے بھیجا تو ان سے جو سفارشات کی ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ و بسّ فی الناس المعلمین لوگوں کے درمیان معلمین کو پھیلاؤ یعنی معلمین لوگوں کے درمیان جائیں اور انہیں تعلیم دیں۔ یہ ابتدائی ستونوں میں سے ہے۔ یعنی جہاں اسلام پہلی بار جاکر معاشرے کے امور چلانا چاہتا ہے وہاں ایک بنیادی کام معلمین کو لوگوں کے درمیان پھیلانا ہوتا ہے۔ ایک اور روایت میں اس طرح آیا ہے کہ تین لوگ ایسے ہیں جن کی توہین کرنے والا منافق ہے۔ یعنی کوئی ان کی توہین نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ منافق ہو۔ ان میں سے ایک شرف کا امر ہے اور اسلام میں ایک شرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذو شیبت فی الاسلام جس نے اسلام اور اسلام کی راہ میں عمر گذاری ہو اور اس راہ میں اپنے بال سفید کئے ہوں۔ دوسرا بہت اہم مسئلہ ہے، امام مقسط عادل رہبر اور پیشوا۔ اور تیسرے معلم الخیر نیکیاں سکھانے والا معلم۔ یعنی وہ جو لوگوں کو درس دیتا ہے دین اور علم سکھاتا ہے۔ اس کی توہین ایسا عمل ہے جو منافق کے بجز کوئی نہیں کرتا۔ معاشرے میں تعلیم و تربیت اور معلم کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ ممکن ہے کہ خاندان میں، کام کی جگہ پر، زندگی میں، لین دین میں، کسی سے معلم کا اختلاف ہو جائے۔ ایک بات یہ کہے اور ایک بات وہ کہے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر معلم سے کسی کی کوئی بات ہو جائے تو کہہ دیں کہ یہ منافق ہے۔ نہیں، یہ باتیں سماج میں زندگی میں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ نکتہ معاشرے میں معیارات اور اقدار کی وضاحت کے لئے ہے۔ یعنی معلم کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی کو اس کی توہین کرنے کا حق نہیں ہے۔
حالیہ برسوں میں ہمارے معاشرے میں معلمین کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ معلمین کے اخلاقی حقوق، معلمین کے مادی حقوق اور اس بارے میں کہ اس طبقے کے لئے کوشش ہونی چاہئے فکر کی جانی چاہئے، مدد ہونی چاہئے اور ان کی زندگی کو آسودہ بنانا چاہئے تاکہ لوگوں کے بچوں کی تربیت کر سکیں۔ یہ باتیں بہت زیادہ کہی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں بہت حد تک کام بھی ہوا ہے اور حکام اب بھی مشغول ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ ایک دن ہمارے معلمین کو مادی زندگی کی کوئی فکر نہیں رہے گی اور وہ سکون سے تعلیم و تربیت کا کام انجام دے سکیں گے۔ لیکن میری نظر میں یہ مسئلہ اس سے بالاتر ہے اور صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ ہم معلمین کا احترام کریں یا ان کی زندگی کی آسانیاں فراہم کر دیں۔ معاملہ صرف یہ نہیں ہے۔ بہت سے معلمین اپنی اہمیت ان باتوں سے بالاتر سمجھتے ہیں اور وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔ یہ روایات اور تعلیم و تربیت اور معلم کے مقام و مرتبے پر اسلام کی یہ تاکید کسی اور امر کی خاطر ہے۔ کس لئے ہے؟ میرے خیال میں اس لئے ہے کہ معاشرے کا ماحول ایک مدرسے کی طرح، تعلیم و تربیت کا ماحول ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے۔ آپ سب یہ احساس کریں کہ اسلامی معاشرے میں حصول علم میں مشغول ہیں۔ ہر شخص جس مرحلے میں بھی ہے، تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ کوئی علامہ دہر ہی کیوں نہ ہو اس کو بھی سیکھنا چاہئے۔ اتفاق سے جن لوگوں کی معلومات زیادہ ہیں اور علم کا مزہ چکھ چکے ہیں، وہ حصول علم کی فکر میں زیادہ رہتے ہیں۔ آپ کو کون سا عالم ایسا ملے گا جس کے پاس چند کتابیں نہ ہوں اور وقت بے وقت وہ مطالعہ نہ کرتا ہو؟ اہل علم، اہل دانش اور ان لوگوں کو جو علم کا مزہ چکھ چکے ہیں، علم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشرے میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس معلومات کم ہیں، افسوس کہ ان کے اندر سیکھنے کی رغبت نہیں ہے۔ یہ خطرناک بات ہے۔ اس کے بالکل بر عکس ہونا چاہئے۔ یعنی آپ معاشرے میں محنت کش ہوں، کاروباری ہوں، ٹیچر ہوں، طالب علم ہوں، پیداواری یونٹوں میں کام کرتے ہوں، سروسز کے کام میں مشغول ہوں، عورت ہوں، مرد ہوں ہر ایک، جس عمر میں بھی ہو، حصول علم میں مشغول رہے۔ ما شاء اللہ کتابیں بہت ہیں۔ لہذا کتاب پڑھنے کے لئے وقت نکالیں۔ ہمارا کتنا وقت، آنے جانے میں، بسوں میں، انتظار کرنے میں اور اس گوشے اور اس گوشے میں بیٹھ کے بیکار کی باتوں میں ضائع ہوتا ہے۔ اس ضائع ہونے والے وقت کا اگر حساب کریں تو ایک محنتی طالب علم پڑھنے میں جتنا وقت لگاتا ہے اس سے زیادہ ہو جائے گا۔ اگر ان اوقات سے کام لیں اور گھر میں، کام کی جگہ پر، راستے میں ان وقت کو مطالعے کے لئے استعمال کریں تو دیکھئے گا کہ ہمارا معاشرہ کیا ہو جائے گا! اہم معلومات حاصل کرنا ہے، کتاب اور تعلیم و تعلم سے انس ہے۔ یہ قضیے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ سب کوشش کریں کہ معلم بھی ہوں۔ یعنی جو جانتے ہیں دوسروں کو اس کی تعلیم دیں۔ تعلیم کے سلسلے کی روایات میں اس کا بہت ذکر کیا گیا ہے۔ وہ عالم جو اپنے علم کو چھپاتا ہے، اس پر لعنت کی گئ ہے۔ یہ صرف علم دین سے مخصوص نہیں ہے۔ البتہ علم دین کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ ڈاکٹر جو اپنے علم کو چھپائے اور اپنے طالب علموں کو تعلیم نہ دے، وہ انجینئر جو اپنے علم کو چھپائے، وہ ماہر کاریگر جو اپنے علم اور تجربے کو چھپائے اور صرف اپنے تک محدود رکھنا چاہے، اسی طرح جو بھی اپنے علم کو چھپائے، اس پر لعنت کی گئی ہے الا یہ کہ کسی علم کا عام ہونا برائیاں پھیلنے کا سبب بنے۔ بہرحال معاشرے کا ماحول تعلیم و تعلم، سیکھنے اور سکھانے کا ماحول ہونا چاہئے۔
معلم کی اہمیت علم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہے۔ اگر تمام مخلوقات معلم پر درود بھیجتی ہیں تو یہ اس لئے ہے کہ معلم طالب علم کو علم دیتا ہے۔ یہ در حقیقت معلومات کو اہمیت دینا ہے۔ برسوں کوشش کی گئ کہ معاشرے سے علم کو دور کیا جائے۔ کسی زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ماضی بعید میں سبھی لوگ عالم تھے۔ نہیں جہالت زیادہ تھی۔علم کم تھا۔ لیکن اہل معرفت کے درمیان علم کا شوق روز افزوں تھا۔ علم، علم کے لئے حاصل کرتے تھے۔ برسوں کوشش کی گئی کہ ہمارے معاشرے کا یہ طریقہ تبدیل کر دیں۔ علم ایک وسیلے میں تبدیل ہو گیا اور علم سکھانا پیٹ بھرنے کا ذریعہ بن گیا۔ یہ علم کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے۔ اگر معاشرہ معلومات سے آراستہ ہو تو دشمن کے مقابلے میں استقامت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں علم کو اہمیت دی جائے تو دوسرے معاشروں اور ملکوں سے رابطہ برقرار ہوتا ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ ان کا علم حاصل کریں۔ ایران کے فرمانرواؤں نے گذشتہ برسوں، ماضی کے دور میں، ایسا کام کیا کہ جب ہمارے ملک اور دوسرے ملکوں کے درمیان، تبادلے کی بات آئی تو بجائے اس کے کہ ہم اپنی معلومات اور اپنی ثقافت دنیا کے سامنے پیش کرتے، بہت سی چیزیں ہیں جو ہم دوسروں کو سکھا سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم بھی غیروں سے علم حاصل کرتے، کچھ یوں ہوا کہ مثلا ہم نے انہیں دستکاری کی مصنوعات دیں کہ اپنی نمائشوں میں رکھیں یا تیل دیا کہ اپنے کارخانے چلائیں اور ہم اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ اپنی فاسد ثقافت ہمیں دیں۔ جو لوگ مغرب کے ساتھ ایران کے ثقافتی رابطے میں پیش پیش تھے، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہر ایرانی جہاں تک ہو سکے مغرب کا علم سیکھے۔ اگر یہ کہتے تو اچھا تھا۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے۔ ہم اب بھی کہتے ہیں کہ معلومات میں دنیا نے پیشرفت کی ہے۔ ہمیں دو سو سال تین سو سال پیچھے رکھا اور ترقی نہیں کرنے دی۔ ہمیں خود کو ان کی سطح تک پہنچانا چاہئے۔ ان کے علوم حاصل کرنا چاہئے۔ مذکورہ پیشروؤں نے یہ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو ظاہر و باطن میں، شکل و صورت میں، لباس اور اطوار میں فرنگیوں جیسا ہونا چاہئے۔ ان کا طریقہ اپنا لینا چاہئے۔ ان کا لباس اپنا لینا چاہئے۔ ان کا طریقہ زندگی اپنا لینا چاہئے۔ ان کے غلط روابط سیکھنے چاہیئں۔ یہ کہا اور نتیجہ وہی ہوا کہ جو منحوس شاہی دور کے اواخر میں ہم نے دیکھا۔ جو لوگ تھے انہوں نے دیکھا اور انہیں یاد ہے۔ اب بھی اس کے آثار اور برائیاں دبی ہوئی شکل میں موجود ہیں۔
تعلیم و تعلم اہم ہے۔ حصول علم اہم ہے۔ جس سے بھی علم ملے حاصل کریں۔ اسلام نے ہم سے کہا ہے کہ حصول علم کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ ان دنوں چین کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ آج دنیا کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جس سے اس کی مثال دی جا سکے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح حصول علم پر تاکید فرمائی ہے۔ آج بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ ہمیں ہر ایک سے علم حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ علم سیکھنا چاہئے اخلاقی برائیاں نہیں۔ بے راہروی اور ان کی مہلک نشے کی عادت نہیں۔ خطرناک بیماریاں نہیں۔ اس امریکی طاعون کو نہیں جس کا نام ایڈز رکھا ہے اور دیگر اخلاقی برائیوں کو بھی ان سے نہیں سیکھنا چاہئے۔ لیکن ان کا علم سیکھنا چاہئے۔
معاشرے کا ماحول تعلیم و تربیت کا ماحول ہونا چاہئے۔ سیکھنے اور سکھانے کا ماحول ہونا چاہئے۔ تربیت، اخلاقی پاکیزگی اور نفس کی طہارت کا ماحول ہونا چاہئے۔ اگر ہم صحیح تعلیم دیں تو اس میں پاکیزگی بھی ہے۔ اس مقام پر معلمین کو سمجھنا چاہئے کہ ان کا کردار کیا ہے؟ جس معاشرے کا محور تعلیم ہو اس میں معلم کا کیا درجہ ہے؟ مرکز دائرہ اور محور دائرہ معلم ہے، جس کلاس میں بھی آپ ہیں، یونیورسٹی میں ہیں، اعلا کلاسوں میں ہیں، کالج میں ہیں، اسکول میں ہیں، یا 'کے جی' میں ہیں، دینی مدرسے ہیں، تعلیم و تربیت کے نئے نظام میں ہیں، معلم محور ہے اور مرکز دائرہ ہے۔ معلم معاشرے میں، صحیح کام کا معیار ہے۔ اس کو تعلیم دینا ہے۔ یہ اہم ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ کوئی امور مملکت چلانے اور معاشرے کی پیشرفت میں اتنا اہم اور نمایاں کردار ادا کرے۔ ماضی میں یہ کردار صحیح طور پر ادا نہیں ہونے دیا۔
تعلیم کے ماحول میں معلم کا احترام، طالب علم کا معلم سے احترام آمیز رابطہ، معاشرے میں معلم کا قابل احترام مرتبہ ضروری ہے۔ جب کہیں کچھ لوگ موجود ہوں اور کوئی یہ کہے کہ فلاں صاحب معلم ہیں تو سب کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔ سب کو اس کی تعظیم کرنی چاہئے۔ آج لوگوں کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ تعلیم و تعلم میں مدد کریں۔ جو جس طرح بھی مدد کر سکے، کرے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا ملک تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بے نقص ہے۔ نہیں، انصاف کی بات یہ ہے کہ نقائص بہت ہیں۔ ہم اول انقلاب سے ہی ذمہ دار اداروں سے مسلسل اسکولوں اور کالجوں کی تعمیر کے اعداد و شمار معلوم کرتے رہتے ہیں۔ اعداد و شمار اطمینان بخش بھی ہیں لیکن اب بھی جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسکول اور کالج بعض جگہوں پر دو شیفٹ میں اور تین شیفٹ میں کام کرتے ہیں اور وہ بھی کتنی مشکلات اور وسائل کی کمی کے ساتھ، تو یہ بڑا نقص نظر آتا ہے۔ اس نقص کو کون دور کرے؟ میں عرض کرتا ہوں۔ لوگ، پیسے والے اور متمول حضرات اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے معاشرے کے متمول حضرات معلم نہیں تیار کر سکتے۔ اس کے لئے حکومت کو حالات سازگار بنانا ہے تاکہ معلم تیار ہوں۔ البتہ معلمین کی ٹریننگ بذات خود ایک الگ مسئلہ ہے جس کے لئے واقعی بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ لیکن متمول حضرات تعلیم و تربیت کے لئے جگہ فراہم کر سکتے ہیں۔ اسکول اور کالج بنوا سکتے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ جو لوگ تعلیم و تربیت میں مدد کر سکتے ہیں ان کا فریضہ ہے کہ مدد کریں۔ مختلف شہروں اور دور و نزدیک کے علاقوں میں اسکول اور کالج بنوائیں۔ آج خود تہران میں بھی اسکول اور کالج کم ہیں۔ البتہ گذشتہ چند برسوں میں خیر حضرات نے کم و بیش یہ کام کیا ہے۔ حکومت نے بھی کافی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ ہر محلے اور نئی کالونی میں دو، تین، پانچ اور بعض کالونیوں میں دس اور شاید اس سے بھی زیادہ کالجوں کی ضرورت ہے۔ یہ فریضہ خود عوام کو پورا کرنا چاہئے۔ البتہ اس قسم کے نیک کاموں کے لئے، ہمارے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کے دل اور ہاتھ زیادہ کھلے ہوئے ہیں۔ میرا خطاب متمول حضرات سے ہے۔ ان لوگوں سے میں مخاطب ہوں جو پیسے والے ہیں اور جن کی آمدنی نسبتا اچھی ہے۔ وہ آگے بڑھیں اور یہ کام کریں۔ تعلیم و تربیت میں مدد کریں۔ تاکہ تعلیم و تریبت کا سازگار ماحول تیار ہو۔
میں یہ نکتہ بھی عرض کروں گا کہ آج آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ دنیا دو طرفہ لڑائی کی دنیا ہے۔ ایک طرف طاقت والے ہیں اور دوسری طرف مظلوم اور کمزور اقوام ہیں۔ آج دنیا میں یہ لڑائی جاری ہے۔ لڑائی بالکل واضح ہے۔ یہ بڑی تلخ لڑائی ہے۔ یہ ایسی لڑائی ہے کہ جس میں طاقت والے انواع و اقسام کی خلاف ورزیاں بھی انجام دے رہے ہیں اور اقوام مظلوم واقع ہوئی ہیں۔ وہی ملئت ظلما و جورا کی علامتیں نظر آ رہی ہیں۔ طاقتوروں کے گندے ہاتھوں نے دنیا کو ظلم و جور سے بھر دیا ہے۔ کون سی جگہ ہے جہاں ظلم و جور کی علامتیں نمایاں نہیں ہیں۔ جس طرح امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام نے اس دور میں ایک نظام کے لئے فرمایا تھا اسی طرح آج بھی استکباری نظام کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ مامن بیت وبر ولا مدر الا دخل فیھا ظلمھم و نباء بھا سوء رایھم ان کے ظلم نے عالم کے تمام گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ ظلم عالمی ہے۔ دنیا کے مستکبرین اور تسلط پسندوں کا یہ ظلم ہمارے کندھوں پر ایک ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ وہ ذمہ داری کیا ہے؟ ظلم کے خلاف جدو جہد۔ ہماری قوم کا کام، ظلم، جور، ناانصافی، حقوق کی پامالی اور انسانوں کے قتل کے خلاف مجاہدت ہے۔ کس طرح یہ مجاہدت انجام دی جا سکتی ہے؟ یہ مجاہدت بغیر اسلحے کے، خالی ہاتھ تو انجام دی جا سکتی ہے لیکن بغیر علم و معرفت اور ایمان کے نہیں ہو سکتی۔ بیکار اور واہیات باتوں سے نسلیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اس مجاہدت کو پوری ہوشیاری کے ساتھ، ایمان کامل کے ساتھ اور تمام طبقات بالخصوص نوجوانوں کی ہمہ گیر سعی پیہم سے ہی انجام دیا جا سکتا ہے اور اس کی تیاری معلمین کا فریضہ ہے۔
دعا ہے کہ خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم جہاں بھی ہوں، تعلیم و تربیت اور معاشرے کے معنوی رشد و نمو کا فریضہ بفضل پروردگار ضروری حد تک انجام دے سکیں۔ خداوند عالم ہمارے تمام معلمین کو وہ جہاں بھی ہوں، برکت نصرت عنایت فرمائے اور اپنی رحمت، الطاف اور فضل خاص طور پر آپ کے اور ان تمام لوگوں کے شامل حال کرے جو ملک کی تعمیر و ترقی میں مشغول ہیں۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1-بحار الانوار؛ جلد 22، صفحہ 157