1394/08/12 ہجری شمسی مطابق 3 نومبر 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کی عصری تاریخ میں بعض سیاسی رہنماؤں کی سادہ لوحی اور امریکا پر ان کے اعتماد کی وجہ سے پہنچنے والے نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: امریکا آج بھی وہی پرانا امریکا ہے، لیکن کچھ مفاد پرست یا سادہ لوح عناصر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کی نگاہ سے اس سازشی دشمن کی تصویر دور کر دیں اور اسے غفلت سے دوچار کر دیں تاکہ امریکا مناسب موقع دیکھ کر ایک بار پھر پیٹھ میں اپنا خنجر پیوست کر دے۔
تیرہ آبان مطابق 4 نومبر کو عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے طلبا سے ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ دور کو قوم کے وقار کو استحکام بخشنے اور ایرانیوں کی پیشرفت کا نقشہ راہ تیار کرنے کا دور قرار دیا اور اس دور میں عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کی بیداری، آگاہی اور بصیرت کی اہمیت پر زور دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ قوموں کے عبرت آموز تجربات پر توجہ رکھی جائے تو نظر کے دھوکے اور اندازوں کی غلطی سے خود کو بچایا جا سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر ہم ظلم و استکبار کے خلاف جدوجہد کا حکم دینے والی آیات قرآن کو الگ رکھ دیں تب بھی 19 اگست 1953 کی بغاوت کا بڑا واقعہ بھی یہ طے کر سکتا ہے کہ امریکا سے کس طرح پیش آنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ابتدائی مہینوں میں ہی اسلامی انقلاب سے امریکا کا عناد شروع ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے بعد کچھ عرصے تک تہران میں امریکیوں کا سفارت خانہ رہا اور ایران کی حکومت سے ان کے تعلقات رہے، لیکن اس دوران ایک دن بھی وہ سازش سے باز نہیں آئے، یہ تاریخی تجربہ ہے جس سے ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانی چاہئے کہ روابط اور دوستی کے ذریعے امریکا کی دشمنی اور سازشوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین. السّلام علی الحسین و علی علیّ ‌بن ‌الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین.

عزیز نوجوانوں اور طلبا کا یہ جلسہ ان ایام میں جو استکبار سے مقابلے اور اس کے خلاف جدوجہد کے ایام سے موسوم ہیں، بہت بر بمحل جلسہ ہے۔ جو تعداد یہاں موجود ہے وہ در حقیقت ہماری قوم کے باہوش اور بیدار نوجوانوں کا ایک نمونہ ہے۔ صرف نوجوانوں کا نمونہ نہیں بلکہ تمام آگاہ انسانوں، اہل نظر اور اہل بصیرت قوم کا نمونہ ہے۔ سب کا موقف یہی ہے جس کا اظہار آج آپ نے یہاں کیا اپنے نعروں سے اور اپنی تقاریر سے۔
یہ ایام حضرت امام حسین ابن علی علیہما السلام سے منسوب ایام ہیں۔ امت مسلمہ کے تاریخی ہیجان کے ایام ہیں۔ صرف شیعہ ہی نہیں، غیر شیعہ فرقے بھی امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو بہت بڑی، عظیم، سبق آموز اور قوموں کے لئے قابل تقلید نمونہ مانتے ہیں، البتہ جو لوگ آگاہ ہیں۔ جو لوگ بے خبر ہیں، اطلاعات نہیں رکھتے، ان کی بات الگ ہے۔ ہماری قوم کے افتخارات میں سے ایک یہی ہے کہ وہ سید الشہدا کی معرفت رکھتی ہے، کربلا سے واقف ہے۔ واقعہ عاشورا کے ذیل میں جو اہم واقعات پیش آئے یا اس کے تناظر میں رونما ہوئے ان سے بھی واقفیت رکھتی ہے۔
یہ ایام حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا سے منسوب ہیں۔ زینب کبری سلام اللہ علیہا وہی ہستی ہیں جنھوں نے واقعہ عاشورا کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری پوری کی اور حاکم وقت کی سیاسی افسوں گری میں اس عظیم واقعے کو گم ہو جانے اور بھلا دئے جانے سے بچایا اور اس پر کہنگی کی گرد جمنے کا موقع نہیں دیا۔ اس قضیئے کو حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے زندہ رکھا۔ اس اعتبار سے بھی یہ ایام بہت اہم ہیں۔
ہمارے تاریخی ادوار بہت اہم ہیں۔ ملت ایران اپنی عزت اور اپنے وقار کی بنیادوں کو مستحکم کر رہی ہے اور اعلی اہداف کی جانب پیش قدمی کے دراز مدتی منصوبے تیار کر رہی ہے۔ بنابریں نوجوانوں کی آگہی بہت اہم ہے، موجودہ حالات کے بارے میں بصیرت بہت ضروری ہے۔ یہ اجتماع بہت مناسب موقع ہے اس بارے میں قدرے گفتگو کرنے کا۔
سب سے پہلے ایک نکتہ عرض کر دوں جو ہماری بہت سی بحثوں کی اساس بھی ہے، وہ یہ کہ اسلامی انقلاب میں استکبار کے خلاف جد جہد اور ہماری قوم کی جانب سے استکبار کی مخالفت یہ منطقی، معقول اور علمی پس منظر کی حامل مہم ہے، یہ خردمندانہ تحریک ہے۔ یعنی اس کے برخلاف جو بعض افراد تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ محض جذباتی معاملہ ہے، نعرے بازی ہے، عقل و منطق سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ یہ ملت ایران کی عقل و منطق پر استوار مہم ہے۔ اس بارے میں قرآن کی آیتوں سے اور دین سے جو دلائل ہیں اگر ان سے سر دست صرف نظر کر لیاجائے، اور «اَشِدّآءُ عَلَی الکُفّار» و «رُحَمآءُ بَینَهُم»(۱) و «قاتِلوا اَئِمَّةَ الکُفر»(۲) سے فی الحال قطع نظر کر لیا جائے، کیونکہ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ان باتوں پر ایمان نہیں رکھتے یا ان چیزوں کو باور نہیں کرتے۔ لہذا اگر ان چیزوں سے قطع نظر کر لیں تو ملت ایران کے تجربات کو بھی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں سنہ 1953 میں ایک واقعہ رونما ہوا، انیس اگست کا واقعہ۔ ایسا واقعہ جو ملت ایران کے لئے بہت اہم تجربہ ہو گیا۔ یہ واقعہ ملت ایران کو دوبارہ اندازے کی غلطی سے روکتا ہے۔ اس واقعے میں ملت ایران کو بہت بڑا سبق ملا۔ اس تجربے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بیشک 1953 کے واقعے کو اب ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس ساٹھ سالہ مدت میں اسی طرح کے واقعات بار بار دہرائے گئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی تاریخی واقعہ اگر عبرت اور سبق کا حامل ہے تو وقت گزر جانے سے اس کی تاثیر میں کمی نہیں ہوتی، اس سے ہمیشہ سبق حاصل کرنا چاہئے۔ واقعہ یہ تھا کہ مصدق کی حکومت جس نے تیل کو، ملک کی اس قومی ثروت کو آیت اللہ کاشانی مرحوم اور دیگر افراد کی مدد سے برطانیہ کے چنگل اور انگریزوں کے قبضے سے باہر نکال لیا تھا۔ اس حکومت نے ایک تاریخی غلطی یہ کی کہ امریکا پر اعتماد کر لیا۔ برطانیہ سے دشمنی مول لی تو اس نے یہ سوچ لیا کہ بین الاقوامی میدان میں اس کا کوئی پشت پناہ ہونا چاہئے، اس زمانے میں اس کی نظر میں یہ پشت پناہ امریکا ہو سکتا تھا۔ اس نے امریکیوں پر اعتماد کر لیا، اس نے امریکیوں سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ امریکیوں نے اس سادہ لوحی اور خوش فہمی کا فائدہ اٹھایا اور 19 اگست کی بغاوت کا راستہ ہموار کر دیا۔ ایک امریکی اہلکار جس کا نام پتہ سب معلوم ہے اور ہم سب اسے پہچانتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں، اس کا نام تاریخ میں درج ہے۔ وہاں سے اٹھ کر ایران آ گیا۔ وہ امریکی تھا، مگر گیا برطانیہ کے سفارت خانے میں، یا کسی اور مغربی ملک کے سفارت خانے میں یا شاد کینیڈا کے سفارت خانے میں بیٹھ گیا۔ جو پیسے ساتھ لایا تھا وہ اس نے تقسیم کئے، کچھ افراد کو اپنے ساتھ ملا لیا، ملک کے اندر کچھ غدار قسم کے افراد موجود تھے۔ 19 اگست کی بغاوت کروا دی اور تیل کی صنعت کو قومیانے کے لئے چلنے والی دو تین سال کی تحریک کے دوران کی گئی ملت ایران کی ساری محنتوں پر پانی پھیر دیا گيا۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ مصدق کو بھی پکڑ لیا اور جیل میں ڈال دیا۔ محمد رضا پہلوی کو جو ایران سے فرار ہو گيا تھا، واپس لاکر تخت پر بٹھا دیا۔ سنہ 1953 سے لیکر 1979 تک تقریبا پچاس سال کی مدت میں اس قوم نے بیرونی طاقتوں کی گماشتہ اور پٹھو پہلوی حکومت کے زیر تسلط طرح طرح کی ذلتوں، خفتوں، سختیوں اور دباؤ کا سامنا کیا۔ یہ کام امریکیوں نے کیا۔ ان کے فوجی مشیروں نے ہماری فوج پر قبضہ کر لیا۔ ان کے اقتصادی عناصر نے اپنے ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کیا۔ یہ سب تو دکھائی پڑنے والے ظاہری اقدامات تھے۔ ان کے علاوہ انھوں نے بہت سے کام ایسے کئے جو نظر نہیں آئے اور اب تک ہمارے تجزیہ کار اس پچیس سالہ دور میں امریکیوں کی جانب سے ملت ایران کی افرادی اور روحانی قوت کو نابود کرنے کے لئے انجام دئے گئے خفیہ اقدامات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں تحقیق و مطالعے کی ضرورت ہے۔ ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 25 سال تک گھٹن کا ماحول، ملت ایران پر سخت دباؤ، اس ملک کے انسانی وسائل کی نابودی، اس ملک کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار، علاقے کی مسلم اقوام کے درمیان ملت ایران کو بدنام کرنا، وہ اقدامات تھے جو اس مدت میں امریکیوں نے کئے۔ کتنے انسان قتل کر دئے گئے، کتنے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، کتنے افراد کو ایذائیں دی گئيں، ملک کے اندر ملت ایران کے خلاف کیسی کیسی خائنانہ پالیسیاں اختیار کی گئیں؟! یہ سب کچھ امریکیوں کی نگرانی میں اور ان کی گماشتہ حکومت کے ہاتھوں ہوا۔ یہ نتیجہ تھا اس اعتماد کا جو ان صاحب نے اس وقت اپنی سادہ لوحی کی بنا پر امریکیوں کے سلسلے میں کیا تھا۔
جب واقعات رونما ہوتے ہیں تو قومیں دو طرح کی صورت حال میں دکھائی دیتی ہیں۔ بعض قومیں واقعے کو، سختیوں کو اور ایذاؤں کو محسوس تو کرتی ہیں، لیکن اس کے بارے میں صحیح تجزیہ نہیں کر پاتیں، صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ پاتیں کہ یہ صحیح تجزیہ اور صحیح نتیجہ انھیں جوابی کارروائی کرنے پر آمادہ کرے۔ کچھ قومیں ایسی بھی ہیں۔ لیکن جن قوموں کے پاس اچھے اور شائستہ رہنما ہوں وہ سختیاں تو برداشت کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات، اپنی بصیرت، صحیح راہ حل کی تلاش اور درست و منطقی نظریات کی تقویت پر بھی توجہ دیتی ہیں۔ ملت ایران ایسی ہی قوموں کے زمرے میں تھی۔ اللہ تعالی نے کرم فرمایا اور اپنی عظیم نعمت کے طور پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت اس قوم کو عطا کی۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے قوم کو بیدار کیا، اس میں بصیرت پیدا کی۔ خود سختیاں برداشت کیں، جیل گئے، جلا وطنی برداشت کی، لیکن تحریک سے دست بردار نہیں ہوئے۔ رفتہ رفتہ یہ آگاہی و بصیرت چار سو پھیل گئی اور سنہ 1978 اور 1979 میں ملت ایران کے اندر سے ایک ملک گیر تحریک نکلی۔ اس تحریک کی زد پر صرف سلطنتی نظام نہیں بلکہ امریکا بھی تھا۔ عوام سمجھ چکے تھے، انھیں بخوبی علم تھا کہ ان کے خلاف اور ملک کے خلاف جو جرائم انجام دئے جا رہے ہیں ان کی پشت پر امریکا ہے۔ اسے سب سمجھ چکے تھے۔ سنہ 1963 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی تحریک کے ابتدائی مرحلے میں فرمایا: آج امریکی صدر ایران میں سب سے زیادہ منفور شخص ہے۔(3)، رائے عامہ کے سامنے اس مفہوم کو پیش کیا۔ انھوں نے عوام کو آگاہ کیا کہ جو شرانگیزی اور شیطنت ہو رہی ہے اس کا ذمہ دار امریکا ہے۔ یہ جدوجہد اپنے نتیجے تک پہنچی۔
جب بھی عوام آگے بڑھتے ہیں، استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، صبر و مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں، فتح یقینی ہو جاتی ہے۔ یہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ جو تحریکیں ناکام ہو جاتی ہیں ان کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ یا تو قوموں میں جذبہ استقامت نہیں ہے، یا ان کے پاس قابل رہنما نہیں ہیں جو تحریک کو آگے لے سکیں۔ ہم نے ان حالیہ برسوں میں دیکھا کہ کچھ جگہوں پر قومیں حرکت مں آئیں، انھوں نے اپنے عزم و ارادے کا مظاہرہ کیا اور کچھ کامیابیاں بھی حاصل کر لیں۔ لیکن ایسے رہنما نہیں تھے جو امور کو صحیح انداز میں کنٹرول کرتے، اہداف کی صحیح نشاندہی کرتے اور عوام کو صحیح راستہ دکھاتے۔ نتیجتا شکست ہوئی۔ یہ آپ سب نے انھیں حالیہ برسوں میں دیکھا ہے۔ میں کسی ملک اور علاقے کا نام نہیں لینا چاہتا۔
ملت ایران نے صحیح راستہ چنا اور اس پر مناسب انداز میں آگے بڑھی۔ آگاہ، مقتدر، پرعزم، اللہ پر توکل کرنے والی، اللہ کی ذات پر تکیہ کرنے والی، اللہ کے وعدے؛ «اِن تَنصُرُوا اللَّهَ یَنصُرکُم» (۴) پر مکمل یقین رکھنے والی قیادت مل جانے کی وجہ سے اس ملت کو فتح حاصل ہوئی اور اغیار کی پٹھو اور گماشتہ پہلوی حکومت، منحوس اور شرمناک شاہی حکومت، ظاہر ہے صحیح انسانی منطق کی رو سے سلطنتی نظام ہر ملک کے لئے باعث ندامت ہے، ایران میں یہ حکومت ختم ہوئی، مٹ گئی اور امور عوام کے ہاتھ میں آ گئے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ اس عوامی تحریک کی سب سے پہلے مخالفت جس حکومت نے شروع کی وہ امریکا کی حکومت تھی۔ دوسری حکومتیں بھی اس مخالفت میں شامل تھیں، وہ بھی بہت ناراض تھیں ایران میں پیدا ہونے والی تبدیلی سے، لیکن انھوں نے اتنا شدید رد عمل نہیں دکھایا۔ بعض حکومتیں ایسی تھیں جو بہت خوش تھیں۔ امریکی حکومت نے صرف دلی ناراضگی پر اکتفا نہیں کیا۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی مہینوں میں، امریکا کی سینیٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انتہائی تند لب و لہجے کی قرارداد پاس کی۔ وہیں سے عملی طور پر دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ یہ سب اس وقت ہوا کہ ہنوز ایران میں امریکی سفارت خانہ کھلا ہوا تھا۔ جو لوگ اس خام خیالی میں ہیں کہ امریکا سے روابط قائم ہو جانے اور دوستی ہو جانے کے بعد امریکا کے خطرات سے خود کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، انھیں چاہئے کہ اس تاریخی تجربے پر نظر ڈالیں کہ ابھی ایران میں امریکا کا سفارت خانہ کھلا ہوا تھا۔ امریکیوں کا ہمارے ملک میں آنا جانا تھا۔ ابھی انقلاب نے امریکیوں کو ایران سے باہر نہیں نکالا تھا۔ دوسری حکومتوں کی طرح ان کا بھی سفارت خانہ تھا، ان کے اہلکارو موجود تھے، یہاں باقاعدہ رہ رہے تھے۔ ان حالات میں امریکی حکومت نے انقلاب سے اپنی دشمنی اور عناد کا ثبوت دیا۔ اس کے علاوہ محمد رضا کو جو ملت ایران کا کھلا ہوا دشمن تھا، امریکا نے اپنا مہمان بنایا۔ اسے لے جاکر امریکا میں رکھا گیا۔ در حقیقت انھوں نے ملت ایران کے اس دشمن کو پناہ دی۔ ظاہر ہے ان اقدامات پر جو رد عمل سامنے آیا وہ طلبا کی کارروائی تھی۔ طلبا نے جاکر امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو جاسوسی کا اڈا ہے۔ یہ حقیقت کھلی کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان چند مہینوں میں، اس مدت میں انقلاب کے خلاف سازشوں کا مرکز یہی سفارت خانہ تھا۔ یہ چیز امریکا سے ملنے والی دستاویزات کے بعد میں منظر عام پر آنے سے معلوم ہوئی اور ثابت ہوئی۔ عزیز نوجوانو! آپ جاسوسی کے اس مرکز سے ملنے والی دستاویزات کو لیکر پڑھئے، یہ بہت سبق آموز ہیں۔ جن طلبا نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کیا اور دیکھا کہ یہ تو جاسوسی کا مرکز ہے، انھوں نے بڑی مشقت کے بعد ان دستاویزات کو شائع کیا ہے کیونکہ امریکی اہلکاروں نے تمام کاغذات کو پیپر شریڈر کے ذریعے ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ بڑی مشقت سے ریزہ ریزہ شدہ کاغذات کو پھر سے جوڑا گیا اور ستر اسی جلدوں میں اسے شائع کیا گيا۔ ان چیزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تحریک کے اوج کے زمانے میں بھی، تحریک کے کامیاب ہو جانے کے بعد بھی اور اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آ جانے کے بعد بھی مستقل طور پر امریکیوں نے اسلامی نظام کے خلاف سازشیں کیں۔ یہ ہے امریکا۔ یہ انقلاب کے بعد کے واقعات ہیں۔
انقلاب سے پہلے، عظیم عوامی تحریک کے زمانے میں بھی، آٹھ ستمبر کے واقعے اور عوام کے قتل عام کے علاوہ جو امریکیوں کی آلہ کار حکومت کے ہاتھوں انجام پایا، 28 جنوری 1979 کو یعنی امام خمینی کی وطن واپسی سے چںد روز پہلے اسی شہر تہران کی سڑکوں پر، اسی انقلاب روڈ پر، عوام نے اجتماع کیا تھا۔ جنرل ہائیزر جو امریکا کا ایلچی تھا جو اس لئے آيا تھا کہ شاید کسی صورت سے (شاہی) حکومت کو انقلاب سے نجات دلائے اور اس کی حفاظت کرے۔ اس نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے، یہ سب تاریخی دستاویزات ہیں، وہ کہتا ہے کہ میں نے جنرل قرہ باغی سے کہا کہ عوام کے اوپر اپنی بندوقیں سیدھی کیجئے، یعنی لوگوں کو قتل کیجئے! بلا وجہ کی ہوائی فائرنگ نہ کیجئے! لوگوں کا قتل عام کیجئے! ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ بندوقوں کی نالیوں کا رخ عوام کی جانب موڑا، کئی نوجوان مارے گئے۔ لیکن عوام پیچھے نہیں ہٹے۔ ہائزر کہتا ہے کہ بعد میں قرہ باغی نے آکر مجھ سے کہا کہ تمہاری یہ حکمت عملی بے فائدہ رہی۔ عوام پیچھے نہیں ہٹے۔ جنرل ہائزر کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ شاہ کے جنرل کتنے بچکانہ انداز میں سوچتے ہیں۔ یعنی اس کا مقصد تھا کہ گولیوں کی بوچھار یونہی جاری رکھی جاتی، بے دریغ لوگوں کو قتل کیا جاتا۔ آپ دیکھئے کہ وہ پٹھو حکومت تھی۔ امریکی جنرل آکر ایک ایرانی جنرل کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کا قتل عام کرو اور یہ ایرانی جنرل حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ جب اس کا کوئي نتیجہ نہیں نکلتا تو جاکر امریکی جنرل سے شکوہ کرتا ہے کہ یہ ترکیب بے فائدہ تھی۔ امریکی جنرل دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ یہ فوجی افسران کتنے بچکانہ انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ ایران میں پہلوی حکومت کا خلاصہ ہے۔
امریکیوں نے ہمارے سلسلے میں یہ رویہ اختیار کیا، انقلاب کے سلسلے میں اس انداز سے ان کے برتاؤ کی شروعات ہوئی۔ اس کے بعد اس پوری مدت میں جہاں تک ہو سکا انھوں نے سازشیں رچیں۔ انقلاب کے خلاف جو گروہ بھی کوئی اقدام کرتا، امریکیوں کی فورا اسے پشت پناہی حاصل ہو جاتی تھی۔ ہمدان کی شہید نوژہ چھاونی کے نام سے جو بغاوت ہوئی، وہ بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ ملک کے گوشہ و کنار میں اسلامی انقلاب کے خلاف الگ الگ قومیتوں کے نام پر سرگرمیاں انجام دینے والوں کی پشت پناہی بھی انھیں نمونوں میں شامل ہے۔ اس کے بعد صدام کو ایران پر حملے کے لئے اکسانا اور آٹھ سالہ جنگ میں صدام حسین کی مدد کرنا، اس کی مثالیں ہیں۔ آٹھ سال! امریکیوں نے پوری جنگ کے دوران خاص طور پر دوسرے اور تیسرے سال کے بعد اپنی امداد بہت وسیع کر دی، وسائل فراہم کئے، امریکیوں نے بھی اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے یورپی اتحادیوں نے بھی۔ انقلاب کے سلسلے میں یہ تھا امریکیوں کا رویہ، ان کا ارادہ یہ تھا کہ اس بنیاد کو ہی ختم کر دیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کا غلط تجزیہ تھا، حقیقت ماجرا کے ادراک میں ان سے غلطی ہوئی۔ وہ اس خیال میں تھے کہ کچھ افریقی ملکوں اور ایشیائی ریاستوں کی مانند یہاں بھی بغاوت ہو جائے گی جسے وہ فورا انقلاب کا نام دے دیں گے اور اس طرح اصلی انقلاب کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔ انھیں یہ خبر ہی نہیں تھی کہ یہ انقلاب ایک تو عوام پر ٹکا ہوا ہے، یہ عوام کا انقلاب ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ انقلاب دینی عقائد پر استوار ہے۔ ان حقائق کو وہ سمجھ نہیں سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس 36 سال 37 سال کے عرصے میں امریکیوں نے جو کچھ بھی انقلاب کے خلاف کیا، ناکام رہا۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ شکست ہی ان کا مقدر بنے گی۔ اس گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایرانی قوم کی حیثیت سے، اپنے وطن سے محبت کرنے والی ملت کی حیثیت سے، ایسے عوام کی حیثیت سے جنھوں نے اپنے لئے ایک خاص مستقبل اور منزل کا تعین کیا ہے اور وہاں پہنچنے کے لئے کوشاں ہیں، امریکا کو بخوبی پہچان لیں۔ یہ ہے اس گفتگو کی غرض و غایت۔
ان حالیہ برسوں میں امریکیوں نے ایک کام یہ کیا ہے کہ کچھ لوگوں کو امریکا کی شبیہ اور ساکھ کو سنوارنے پر مامور کر دیا ہے؛ یہ تاثر دینے پر مامور کیا ہے کہ امریکی کسی زمانے میں دشمن رہے ہوں گے لیکن آج وہ دشمن نہیں ہیں۔ یہ ہے ان کا ہدف۔ ہدف یہ ہے ک دشمنی والا پہلو ملت ایران کی نگاہ کے سامنے سے ہٹ جائے تا کہ وہ اس مخاصمت کی طرف سے غافل ہو جائے اور امریکا خاموشی سے اپنے معاندانہ اقدامات کرے اور پیٹھ میں خنجر گھونپ دے۔ یہ ہے ہدف۔ کچھ لوگ یہ کام دشمنی میں کرتے ہیں اور کچھ سادہ لوحی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ حقیقت ماجرا یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں امریکا کے عزائم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے۔ آج بھی اگر ان کا بس چلے تو وہ اسلامی جمہوریہ کو نابود کر دیں۔ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ ان کے بس میں ہی نہیں ہے اور ان شاء اللہ آپ نوجوانوں کی بلند ہمتی کی برکت سے، آپ نوجوانوں کی پیشرفت کے نتیجے میں اور ملت ایران کی بصیرت کی وسعت و گہرائی کی وجہ سے وہ آئندہ بھی اپنا ہدف پورا نہیں کر سکیں گے۔ وہ رونے بھی لگتے ہیں! اسی ایٹمی مذاکرات میں دیکھا گيا کہ امریکی عہدیدار نے کہا کہ 'میں تو نوجوانی کے ایام سے ہی جنگ کے خلاف ہوں' یہ کہہ کر وہ رونے لگا!(5) اب شاید کچھ لوگ سادہ لوحی کی بنا پر یہ کہنے لگیں کہ واقعی یہ سب بڑے اچھے آدمی بن گئے ہیں۔ مژدگانی که گربه عابد شد(۶)
مگر یہی آدمی جو جنگ سے اس قدر متنفر ہے کہ جنگ کو یاد کرکے رو پڑتا ہے اور کیمروں کے سامنے اس کی آنکھیں آشکبار ہو جاتی ہیں، ان لوگوں میں شامل ہے جو اس وقت جب غزہ میں سکڑوں بچوں کے جسم ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، صیہونی حد درجہ بے رحمی اور بے دردی سے عورتوں، بچوں اور پیر و جواں سب کو نشانہ بناتے ہیں تو 'اف' تک نہیں کرتا! اگر واقعی آپ کو جنگ سے اتنی ہی نفرت ہے تو بے گناہ انسانوں کا اور بچوں کا قتل عام کرنے والی اس خبیث اور جلاد صیہونی حکومت کے خلاف کچھ بولئے، ناراضگی دکھائیے! ناراضگی دکھانا تو در کنار اس کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں! اس زمانے میں جب صیہونی، غزہ میں بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے تھے، اسی طرح آج جب غرب اردن اور غزہ میں لوگوں کی الگ انداز سے جانیں لی جا رہی ہیں تو باہر امریکیوں نے، ان کے بڑے عہدیداروں نے بیان دیا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ تو کیا ملت فلسطین کو اپنے دفاع کا حق نہیں ہے۔ اس کے کھیتوں کو تباہ کیا جائے، اس کے نوجوانوں کا قتل عام کیا جائے، اس کے گھروں کو آگ لگائی جائے، محض چند مہینوں کے بچے کو آگ میں جلا دیا جائے، اس کے ماں باپ کو آگ میں جلا دیا جائے اور فلسطینی عوام کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ جوابی کارروائیں کریں؟! آج بھی وہ صیہونیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مدد کر رہے ہیں، حمایت کر رہے ہیں۔ مہینوں سے یمن کے عوام پر بمباری ہو رہی ہے۔ ان کے اسپتالوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ بنیادی تنصیبات کو تہس نہس کیا جا رہا ہے۔ بے گناہ انسانوں کا جارح طیاروں کے ذریعے قتل عام کیا جا رہا ہے، مگر امریکی حکام ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں ہیں، اف تک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ بلکہ مدد کر رہے ہں۔ یہ ہے امریکا۔ ان چیزوں کے باوجود کیمرے کے سامنے آکر آنسو بہا دینے کو کیا سچا گریہ مانا جا سکتا ہے؟ کوئی اس پر یقین کر سکتا ہے؟
ملت ایران نے اپنا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ ایرانی قوم ان اقوام اور حکومتوں سے کوئی تعرض نہیں کرتی جو اس کے خلاف کوئی جارحیت نہیں کرتیں، اس کے لئے مشکلات نہیں کھڑی کرتیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں۔ میں قوموں کی بات نہیں کر رہا ہوں، کچھ حکومتیں ایسی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں جن کی نیت صاف نہیں ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں۔ اسے سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت پوری طرح نمایاں بھی ہے، لیکن وہ ہم سے کبھی تعرض نہیں کرتیں تو ہم بھی ان سے کوئی مطلب نہیں رکھتے۔ ان سے ہمارے تعلقات بھی ہیں، تجارتی رشتے ہیں۔ ہم آپس میں ملتے ہیں، بیٹھتے ہیں۔ لیکن جو حکومت تعرض کریگی، جو حکومت ملت ایران کو نابود کرنے کے لئے، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کے لئے اور اسلامی اہداف کو مٹانے کے لئے ہر موقع کو استعمال کرے گی، ملت ایران اس سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ نہ تو عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے، نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے، نہ ہی ضمیر اسے گوارا کرتا ہے، نہ انسانیت اسے قبول کرتی ہے کہ اس دشمن کے سامنے بیٹھ کر اسے دوست کی نظر سے دیکھا جائے، اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے، یہ چیز ممکن ہی نہیں ہے! ایسے ہیں امریکی۔ اپنی پوری طاقت و توانائی استعمال کر رہے ہیں کہ کسی صورت سے اسلامی جمہوریہ کو اس راستے سے ہٹا دیں جس پر وہ رواں دواں ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف روشوں سے کام کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس وقت بھی پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ انقلاب کے اوائل میں ان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ وہ اس کا ادراک نہیں کر پائے کہ عوام کیوں میدان میں آکر اس طرح قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو وہ رفتہ رفتہ اب جاکر سمجھ سکے ہیں۔ انھیں اب معلوم ہوا ہے کہ یہ عوام کا ایقان و عقیدہ ہے، یہ نوجوانوں کا عقیدہ ہے، یہ ان عوام کا عقیدہ ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس کا درس انھیں قرآن و دین سے ملا ہے۔ اب انھوں نے ان عقائد پر حملے شروع کر دئے ہیں۔ اس یقین و باور کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنا لیا ہے۔ آج وہ مختلف اور گوناگوں جدید وسائل کے ذریعے جو اس زمانے میں دستیاب نہیں تھے، عقائد و نظریات پر حملے کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو اس مسئلے کی طرف متوجہ رہنا چاہئے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ پہلے ملت ایران کی جدوجہد کی تاریخ کا مطالعہ کریں، اس بارے میں تفصیلات سے باخبر ہوں۔ جو لوگ قوت بیان رکھتے ہیں، اچھے خطیب ہیں وہ آج کے نوجوانوں کے لئے ان حقائق کی تشریح کریں کہ ملت ایران کی جدوجہد کے دوران کیسے کیسے حالات پیش آئے۔ کون لوگ ملت ایران کے مقابلے پر آئے۔ 'ساواک' کی تشکیل کس نے کی، ساواک کے اہلکاروں کو ایذا رسانی کے طریقے کس نے سکھائے۔ کن لوگوں کی نگرانی میں ملک کے اندر دیندار اور مومن افراد کو ایذائیں دی گئیں؟ ہمارے نوجوانوں کو ان حقائق کا علم ہونا چاہئے۔
خوش قسمتی سے ایرانی قوم بیدار ہو چکی ہے، بحمد اللہ یہ قوم جاگ رہی ہے، یونیورسٹیاں بیدار ہیں، طلبا بیدار ہیں۔ بیشک حالات کو دگرگوں کر دینے کی بڑے پیمانے پر کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن وہ اب تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور آئندہ بھی انھیں کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبا بھی بیدار ہیں اور اسکولوں کے طلبا پوری طرح ہوشیار ہیں۔ اس بہکاوے اور ظاہر سازی ملت ایران کے عقیدے اور نظرئے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کس منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ہماری یونیورسٹی مغرب کی سمت لے جانے والے 'پل' کا کردار ادا کرتی تھی؛ چلئے صاحب یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ کل کو مغرب کے دامن میں سما جائیں۔ یا جو با صلاحیت ہیں، جن کا وجود فائدہ بخش ہے، وہ جائیں ان میں شامل ہو جائیں، ان کے لئے کام کریں اور بعض لوگ آلہ کار بن جائیں اور زندگی کی لذتوں میں ڈوب جائیں۔ آج یونیورسٹیاں ایسی نہیں ہیں۔ آج یونیورسٹی کا یہ رول نہیں ہے۔ آج یونیورسٹی بلند اہداف تک رسائی کی سیڑھی ہے۔ کچھ لوگ اس سیڑھی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور ان کی مرضی یہ ہے کہ دوبارہ یونیورسٹی مغرب کی سمت لے جانے والے 'پل' کا کردار ادا کرے۔ یونیورسٹیاں اپنی پرانی حالت کی جانب لوٹ جائيں۔ لہذا ہمارے نوجوانوں کو بیدار رہنا چاہئے، ہمارے نوجوان بحمد اللہ بیدار بھی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ، اسلام کے دامن سے اپنے تمسک کی برکت سے، عوام کے سہارے کی برکت سے، عوام کے اندر بحمد اللہ موجود بصیرت و آگاہی کی برکت سے، نہ صرف یہ کہ اب تک ثابت قدمی رہی ہے اور مستحکم ہے بلکہ پیشرفت کی منزلیں لگاتار طے کر رہی ہے۔ ہم نے ترقی کی ہے۔ ایٹمی مذاکرات کے مسئلے کو ہی لے لیجئے! یہ ملت ایران کی پیشرفت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والی طاقتیں آپس میں متحد ہوکر ملت ایران کے سامنے بیٹھتی ہیں، ملت ایران کے خلاف اپنی مخاصمانہ تدابیر بروئے کار لاتی ہیں کہ شاید اس طرح ملت ایران کو شکست دے دیں، یہ ہے ملت ایران کی طاقت۔
بیرونی دشمنوں کے عناد پر اتنا زور دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی اندرونی خامیوں کو نظر انداز کر دیں۔ میں آپ عزیز نوجوانوں کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے اندر کچھ خامیاں موجود ہیں اور دشمن بسا اوقات ہماری انھیں کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمیں اپنی یہ کمزوریاں دور کرنی ہوں گی۔ ہمارے یہاں پالیسی سازی میں خامیاں ہیں، اجرائی امور میں خامیاں ہیں، سعی و کوشش اور محنت میں نقائص موجود ہیں۔ کبھی کبھی ہم اپنے کاموں میں تساہلی اور کاہلی سے بھی دوچار ہو جاتے ہیں۔ ملک کی ترجیحات کی تشخیص میں بھی نقائص موجود ہیں۔ بعض اوقات کسی جزوی اور فروعی بات پر ملک کے اندر ہماری اپنی جماعتیں آپس میں الجھ پڑتی ہیں۔ ایسی چیز پر جس کے سلسلے میں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، اتنی ضروری بات نہیں ہوتی، ہم اپنے دشمن کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری خامیاں ہیں، جنھیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دشمن کے وجود سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے، اس دشمن کی طرف سے جو چوکنا ہے، وہ دشمن پیسے خرچ کر رہا ہے، وہ دشمن جو ممکن ہو تو کوئی بھی مجرمانہ فعل انجام دینے میں نہیں ہچکچائے گا۔ بعض لوگ ہیں جو انھیں داخلی فروعی مسائل کی وجہ سے بیرونی دشمن کو بھول جاتے ہیں، امریکا کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ جو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ بار بار فرماتے تھے کہ 'جتنا چیخنا ہے امریکا کے خلاف چیخئے' اس کا مقصد یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کم آواز اٹھائیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تنقید نہ کیجئے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے۔ بلکہ معاشرہ آزاد ہے، سوچنے کی آزادی ہے، تنقید کا حق ہے۔ تنقید پیشرفت میں مددگار بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں دوسرے درجے کے دشمن یا ایسے دوستوں کو جن سے ہمارا صرف اختلاف رائے ہے دشمنی نہیں ہے، اپنا اصلی دشمن نہیں سمجھ لینا چاہئے۔ اصلی دشمن تو کہیں اور بیٹھا ہوا ہے۔ اصلی دشمن تو وہ ہے جو اپنی پوری توانائی سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ ملت ایران کی عظیم کامیابیوں کو اس سے چھین لے۔ یہ کامیابیاں عوامی شراکت، قومی اقتدار اعلی اور عوام کے اندر قرآن و اسلام کا نفوذ ہے۔ یہ عظیم کامیابیاں ہیں جو ہماری پیشرفت کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ ہم اب تک کافی پیشرفت حاصل کر چکے ہیں، آئندہ بھی یہی حصولیابیاں ہمیں اور بلندیوں پر لے جائیں گی۔ وہ ان کامیابیوں کو عوام سے سلب کر لینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پھر ظالم حکومت، مغرب کی دلدادہ حکومت، مغرب سے مرعوب اور اس کے سامنے سربسجود رہنے والی حکومت اقتدار میں آ جائے۔ یہ ہے ان کا ہدف۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور دشمن پر ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے۔
نوجوانوں کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی تعلیم اور درس پر توجہ دیں۔ علم طاقت کا ذریعہ ہے۔ قومی اقتدار اعلی کا ایک اہم ستون ہے علم و دانش۔ علم و دانش کے لئے کوشاں رہیں۔ عمومی اہداف کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں۔ موحودہ حالات کے بارے میں اور ماضی قریب کی تاریخ کے بارے میں اپنی معلومات اور بصیرت بڑھائيں اور آج کے عالمی منظر نامے کا مشاہدہ کرنے کی توانائی پیدا کریں۔
آج دنیا کا وسیع منظر نامہ ایسا ہے کہ ایک طرف مستکبر طاقتیں ہیں اپنی تمام مادی توانائیوں کے ساتھ، اپنے رعب و دبدبے اور ہیبت کے ساتھ جو وہ ظاہر کرتی رہتی ہیں اور دوسروں کو مرعوب کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں، ایک طرف یہ طاقتیں ہیں۔ کچھ کمزور حکومتیں بھی ہیں جو خود کو سامنے لانے کی جرئت اور ہمت نہیں جٹا پاتیں۔ جبکہ اسی منظرنامے میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں سے پرزور آواز بلند ہو رہی ہے اور معروضی صورت حال کی کھل کر مذمت کی جا رہی ہے، وہ جگہ ہے اسلامی جمہوریہ ایران۔ اسلامی جمہوریہ ایران آج دور دور تک پہنچنے والی اپنی بلند آواز میں بے جھجک، دشمن کی دھمکیوں سے گھبرائے اور مرعوب ہوئے بغیر، ظلم کے خلاف، توسیع پسندی کے خلاف، استحصال کے خلاف اور استکبار کے خلاف بول رہا ہے۔ یہ آواز دنیا کی قومیں بھی سن رہی ہیں اور اس سے متاثر بھی ہو رہی ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ بات عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ دنیا کی قومیں ملت ایران کی مہم سے متاثر ہو رہی ہیں، یہ حقیقت دنیا میں بخوبی دکھائی دے رہی ہے۔ خاص طور پر عالم اسلام میں یہ بہت نمایاں ہے۔ ملت ایران کے لئے، انقلاب کی اہم ہستیوں کے لئے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے لئے ان کے دل میں ایسا احترام ہے جو کسی اور کے لئے نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آواز ان کے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ تو آپ آس اثردار آواز کو دبنے نہ دیجئے (7)۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا 'امریکا مردہ باد' کا یہ نعرہ، ملت ایران کی یہ گھن گرج، مستحکم منطقی پس منظر کی حامل ہے۔ خردمندانہ پس منظر کی حامل ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ 'امریکا مردہ باد' سے مراد 'امریکی قوم مردہ باد' نہیں ہے۔ اس سے مراد ہے 'استکبار مردہ باد'۔ یہ ہے اس نعرے کا مطلب۔ اس کا معقول پس منظر ہے۔ ہمارا آئین اس بارے میں بات کرتا ہے۔ اصولی اور عمیق منطقی نظریات اس کے پس منظر میں ہیں۔ ہم اس پس منظر کی تشریح جس قوم کے سامنے بھی کریں گے، وہ ضرور پسند کرے گی، قبول کریگی اور قومیں قبول کر رہی ہیں۔
بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ نے اپنا راستہ چن لیا ہے اور اس پر رواں دواں ہے۔ مجھے ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ آپ عزیز نوجوان وہ دن دیکھیں گے جب آپ کے ملک میں اسلامی جمہوریہ کے بیشتر بلند اہداف و مقاصد حاصل کئے جا چکے ہوں گے، آپ کی زندگی میں وہ اہداف عملی جامہ پہنچ چکے ہوں گے۔ مجھے ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ مستقبل یہی ہوگا۔ آپ ان شاء اللہ اپنے ملک کو سنوارنے میں کامیاب ہوں گے اور دوسری قوموں کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں گے۔ توفیق الہی سے آپ قوموں کو ہراساں کرنے والے عفریتوں کو اکھاڑ پھینکیں گے اور قوموں کو خوف و وحشت سے نجات دلائيں گے۔ توفیق خداوندی سے وہ دن آپ نوجوان یقینا دیکھیں گے، بشرطیکہ آپ اسی راستے پر گامزن رہیں۔ بشرطیکہ آپ ایمان کے ساتھ اور امید کے ساتھ آگے بڑھتے رہئے۔ بصیرت کا دامن نہ چھوڑئے۔ ملک کے گوناگوں معاملات میں، بہت سے امور ہیں جن کے بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے، اصلی معیاروں کو مد نظر رکھئے۔ اس طرح آپ راہ راست پر ان شاء اللہ آگے بڑھتے رہیں گے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے عزیز شہیدوں کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرمائے۔ ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کو اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرمائے۔ ہمارے عزیز نوجوانوں کو اعلی اہداف کی جانب بڑھنے میں روز بروز کامیابیاں عطا کرے۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ «... کفار کے سلسلے میں سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔...»
۲) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲ کا ایک حصہ «... کفر کے رہنماؤں سے جنگ کیجئے...»
۳) صحیفه‌ امام، جلد ۱، صفحہ ۴۲؛ عوامی اجتماع سے خطاب مورخہ 26 اکتوبر 1964
۴) سوره‌ محمّد، آیت نمبر۷ کا ایک حصہ «... اگر اللہ کی نصرت کرو تو اللہ تمہاری نصرت فرمائے گا۔...»
۵) امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری
۶) حاضرین کا قہقہہ عبید زاکانی‌ کی نظم «موش و گربه» کا ایک مصرعہ ہے پورا شعردرج ذیل ہے؛ مژدگانی که گربه عابد شد / عابد و زاهد و مسلمانا»
۷) حاضرین کے 'امریکا مردہ باد' کے نعرے