رہبر انقلاب اسلامی نے 1394/07/22 ہجری شمسی مطابق 14-10-2015 کو بدھ کی صبح ہونے والی اس ملاقات میں نالج بیسڈ کمپنیوں کو مستحکم مزاحمتی معیشت کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے فرمایا: اہداف، نعروں، معاشرے کی انقلابی انداز میں پیش قدمی، کثیر تعدید میں 'نوجوان الیٹ افراد' کی موجودگی اور شروع ہو چکی تیز رفتار اور عظیم علمی و سائنسی مہم کی برکت سے وطن عزیز کا مستقبل روشن، تابناک، پیشرفت و توانائی سے آراستہ اور علاقے اور دنیا میں ایران کے روز افزوں روحانی اثر و نفوذ سے مزین ہوگا اور جو لوگ ان حالات میں حال و مستقبل کے تعلق سے نوجوانوں کو قنوطیت میں مبتلا کرنے کے در پے ہیں وہ ملک اور قومی وقار سے غداری کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آغاز میں الیٹ، پرعزم اور جوش و جذبے سے معمور نوجوانوں سے اپنی ملاقات کو امید افزا قرار دیا اور ملک کے نوجوانوں میں فہم و فراست کی اوسط عالمی سطح سے بالاتر ذہانت پائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اپنی قوت و توانائی کو داخلی سرچشموں کا ثمرہ مانتا ہے، لہذا ذی فہم، فرض شناس اور صاحب استعداد نوجوان اس ملک کا سب سے بڑا سرمایہ اور سب سے عظیم مواقع شمار ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

سب سے پہلے تو میں خوش آمدید کہتا ہوں عزیز نوجوانوں کو (1)۔ ہم جیسے افراد کی آپ لوگوں سے ملاقات حقیقت میں حوصلہ دینے والی اور امید بخش ہوتی ہے۔ جب انسان جذبہ عمل سے سرشار، پرعزم، صاحب استعداد اور شاداب چہروں کو دیکھتا ہے تو اللہ تعالی نے بحمد اللہ ہمارے دلوں میں امید کا جو جذبہ رکھا ہے وہ روز بروز بڑھتا اور مزیر بارور ہوتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ آپ سب اور اس ملک کے سارے نوجوان ہدایت و لطف الہی کے مستحق قرار پائیں اور اپنے ملک کے لئے اور بعد کے مرحلے میں ساری بشریت کے لئے منفعت بخش اور مفید ثاب ہوں۔ ان شاء اللہ۔
ایک بات ہے جو مکرر کہی جاتی ہے، جس کے بارے میں زیادہ گفتگو مقصود نہیں ہے، وہ افرادی قوت کا عظیم سرمایہ ہے۔ کسی بھی ملک کی افرادی قوت در حقیقت اس کا عظیم سرمایہ ہوتی ہے۔ بالخصوص اگر افرادی قوت نوجوان اور باہوش بھی ہو۔ میں گزشتہ برسوں کی اپنی تقاریر میں بار بار دنیا کی اوسط سطح کے مقابلے میں ایرانیوں کی ذہانت کی بلند تر سطح کے بارے میں گفتگو کرتا رہا ہوں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بات قوم پرستی اور نیشنلزم کے جذبے کے تحت کہی جا رہی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں تھا۔ اس مسئلے کے سلسلے میں میرے پاس اعداد و شمار تھے۔ خوش قسمتی سے گزشتہ دو تین سال کے دوران دنیا کی معروف شخصیات نے بھی جن میں ملت ایران کے دشمن سیاست داں بھی شامل تھے، مختلف مواقع پر ملت ایران کی اعلی درجے کی ذہانت کا اعتراف کیا:۔ اَلفَضلُ ما شَهِدَت بِهِ الاَعداء (۲)، البتہ سارے ممالک اور دنیا کی ساری حکومتیں ایسی نہیں ہیں جو نوجوانوں کے وجود کو سنہری موقع کے طور پر دیکھتی ہوں۔ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پہلوی حکومت ہی نوجوانوں کے وجود کو اور نوجوانوں کی سرگرمیوں کو سنہری موقع نہیں بلکہ خطرہ تصور کرتی تھی۔ یہ ایسی بات ہے جس کے لئے باقاعدہ اعداد و شمار کے ساتھ دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں اس کا موقع و محل نہیں ہے۔ پہلوی حکومت کی خواہش یہ تھی کہ نوجوانوں کی شراکت نہ ہو۔ نہ علمی میدان میں شراکت ہو، نہ سیاسی میدان میں شراکت ہو، نہ سماجی میدانوں میں ان کی سرگرمیاں ہوں۔ بہت سی چیزوں کی ترویج نوجوانوں کی شراکت کو کمزور کرنے کے لئے ہوتی تھی۔ نوجوانوں کو واقعی خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جہاں تک ممکن تھا وہ انھیں بیرون ملک بھیج دیا کرتی تھی، تاکہ جو لوگ قابلیت رکھتے ہیں، جو لیاقت رکھتے ہیں، بیرون ملک چلے جائیں، ایران میں نہ رہیں۔ اسلامی جمہوری نظام قائم ہو جانے کے بعد ایسا نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ اس کی قدرت و توانائی داخلی ذرائع سے حاصل ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام اپنی قوت و توانائی اپنے وجود کے اندر اور دستیاب سرمائے کے اندر سے تلاش کرتا ہے۔ اس طرح اسلامی جمہوریہ کی سب سے بڑی دولت حقیقتا اس کی افرادی قوت ہے۔ یعنی یہی باہوش، فرض شناس، دردمند، پڑھنے لکھنے والے اور تابناک مستقبل کے مالک نوجوان ہیں۔ یہ ہماری مسلمہ پالیسی ہے۔
آج ملک کے پیارے نوجوانوں کی ایک تعداد سے ہماری یہ جو ملاقات ہے، اس میں آپ سے میں کچھ سفارشات کرنا چاہوں گا۔ یہ پدرانہ سفارشات ہیں۔ آپ نوجوان میرے بیٹوں جیسے ہیں، کچھ بیٹوں کی جگہ ہیں اور کچھ پوتے پوتیوں جیسے ہیں۔ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی خدمت میں چند نکات پدرانہ انداز میں عرض کروں۔ انتظامی امور اور روزگار سے متعلق بھی کچھ سفارشات ہیں وہ بھی عرض کروں گا جن کا تعلق نوجوانوں کے روزگار سے ہے۔ ایک انتباہ اور تشویش بھی ہے، وہ بھی اگر وقت رہا تو آپ کے سامنے رکھوں گا۔
پدرانہ سفارشات میں سب سے پہلی سفارش یہ ہے کہ آپ اپنے سرمائے کو، یعنی اعلی ذہانت کو اللہ کا عطیہ سمجھئے، نعمت خداداد سمجھئے، یہ اللہ تعالی کا دیا ہوا انعام ہے، یہ ایک نعمت ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔ تو اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مستحکم کیجئے۔ ہمیشہ شکر ادا کیجئے، اللہ سے اپنے راز و نیاز میں اظہار تشکر کیجئے۔ اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالی آپ کو عطا کی گئی نعمتوں میں اضافہ کرے گا۔ اسے آپ اللہ کا عطیہ جانئے، انقلاب کی برکت سمجھئے۔ یہ بھی اس عظیم سرمائے کے بارے میں ایک طرز فکر اور زاویہ نگاہ ہے کہ علم و دانش کے میدان میں وطن عزیز کی یہ عظیم پیشرفت انقلاب کی برکات و ثمرات کا جز ہے۔ اگر انقلاب نہ ہوتا تو یہ چیزیں بھی نہ ہوتیں۔ ابھی جناب ستاری صاحب نے میرے حوالے سے ایک بات نقل کی (3)، اس کے آگے کا قصہ یہ ہے کہ وہی طیارے جن کے بارے میں ہم سے کہا جا رہا تھا کہ تیس دن یا اکتیس دن کے اندر پوری طرح گراؤنڈ ہو جائیں گے، آج بھی کام کر رہے ہیں۔ اس دن کو اب تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ فضائیہ میں ہمارے نوجوانوں نے فنی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہمت دکھائی، قدم آگے بڑھائے، جناب ستاری صاحب کے والد بھی انھیں نوجوانوں میں شامل تھے (4)۔ ان نوجوانوں نے اپنے معجز نما ہاتھوں کے ذریعے اور اپنے ذہن و دماغ سے انھیں طیاروں کو جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ گراؤنڈ ہو جائیں گے، جنگ کے آخر تک کام کرنے کے قابل بنائے رکھا اور آج بھی وہ طیارے کام کر رہے ہیں۔ وہی سی 130، وہی ایف 14، وہی ایف 5 طیارے آج بھی موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ہاتھوں کے ان کرشموں کا راستہ اسلامی انقلاب نے تعمیر کیا ہے۔ ہمارے وہ احباب جو کہہ رہے تھے کہ اب کام تمام ہے، وہ بھی اچھے لوگ تھے، ان میں بعض شہید بھی ہوئے، لیکن بہرحال ان کی سوچ انقلابی سوچ نہیں تھی۔ انقلاب سے قبل کا طرز فکر رکھتے تھے اور اسی طرز فکر کی بنیاد پر سوچتے تھے۔ جب ان طیاروں کے کل پرزوں کی اوور ہالنگ کرنا چاہتے تھے تو کسی بڑے پارٹ کو جس کے اندر چالیس پچاس چھوٹے کل پرزے ہوتے تھے، کھولنے کی انھیں اجازت نہیں تھی۔ اس بڑے پارٹ کو اسی طرح ہوائی جہاز میں رکھ کر امریکا لے جاتے تھے اور وہاں سے بدل کر دوسرا پارٹ لے آتے تھے۔ یعنی ایرانی فضائیہ کے اہلکاروں اور فنی ماہرین کو بھی ان پارٹس کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی کہ دیکھتے کہ اس کے اندر کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔ یہ اسلامی انقلاب سے پہلے کی صورت حال تھی۔ یہ اس زمانے کی سوچ تھی۔ انقلاب آیا تو نیا باب شروع ہو گیا۔ ایرانیوں کو تشخص ملا، ایرانی تشخص بحال ہوا، جرئت عمل ملی، انھیں ترغیب ملی کہ اپنے وجود میں پائی جانے والی توانائیوں اور مہارتوں کو بروئے کار لائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے اتنے سارے ممالک میں آج سائنس و ٹیکنالوجی کی رینکنگ میں ہمارا ملک پندرہویں نمبر پر ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ دنیا کے دو سو ملکوں میں اور ان دو سو ملکوں میں بعض ایسے ممالک ہیں جو صنعتی میدان میں اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دو سو سال اور تین سو سال کی کاوشوں کا طولانی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جبکہ ایران نے انقلاب کے بعد، انقلاب سے پہلے تو کچھ تھا ہی نہیں، انقلاب کے بعد وہ بھی جنگ کا سامنا کرتے ہوئے، پابندیوں کی سختیاں جھیلتے ہوئے اور ان تمام مشکلات کے باوجود خود کو اس منزل پر پہنچایا ہے۔ یہ انقلاب کی دین ہے۔ آپ ان توانائیوں کو اور اس سوچ کو کہ 'آپ ہر کام کرنے کی توانائی رکھتے ہیں' انقلاب کی دین اور ملکی سلامتی کو یقینی بنانے والوں کی دین سمجھئے۔ یہی شہید ہمدانی جو ابھی چند دن پہلے شہید ہوئے (5)۔ آپ نے دیکھا کہ ان کی میت ہمدان گئی تو پورا شہر جمع ہو گیا ان کی تشییع جنازہ کے لئے، یہ قدردانی اور اظہار تشکر ہے۔ یہ افراد شہرت بھی نہیں رکھتے۔ ان میں صرف بعض ایسے ہوتے ہیں جو معروف ہو جاتے ہیں اور لوگ پہچاننے لگتے ہیں۔ ان میں اکثر کو شہرت حاصل نہیں ہے۔ وہ ہماری اور آپ کی خاطر ملکی سلامتی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اگر امن و سلامتی نہ ہو تو یونیورسٹی بھی نہیں ہوگی، تحقیق و مطالعہ بھی نہیں ہوگا، بہترین دماغوں کی پرورش بھی نہیں ہوگی۔ جہاں امن و سلامتی نہیں ہے، وہاں در حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں انسانوں کی زندگی دائمی طور پر خطرے میں رہتی ہے۔ تو آپ اس تعلیم کو، اس آمادگی کو اور ان مواقع کو امن و سلامتی کی ضمانت بننے والے ان افراد کی دین سمجھئے۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔ ایک بوڑھے باپ کی حیثیت سے میری یہ سفارش ہے آپ نوجوانوں سے۔ آپ سے قبول کیجئے اور یاد رکھئے۔
دوسری سفارش؛ خود کو سب سے الگ اور نرالا سمجھنے کے بجائے مجاہدانہ جذبے کو ترجیح دیجئے۔ جن لوگوں کے پاس غیر معمولی ذہانت ہوں ان کے سلسلے میں ایک خطرہ اور اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو سب سے الگ اور نرالا نہ سمجھنے لگیں! خود کو سب سے برتر تصور نہ کرنے لگیں۔ یہ بڑا خطرہ ہے۔ یہ انسان کی شخصیت سے متعلق ایک نفسیاتی بیماری اور ایک اہم خطرہ ہے۔ آپ اپنے اندر اس بیماری کو پنپنے کا موقع نہ دیجئے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کی تقویت کیجئے۔ مجاہدانہ جذبے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لئے کام کرنا، کام کو اپنا فریضہ سمجھنا، صحیح کام کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لانا، یہی جہادی عمل اور مجاہدانہ جذبہ ہے۔ اپنے اندر اس مجاہدانہ جذبے کو مستحکم بنانے کے لئے آپ جہادی کیمپنگ میں اپنی شراکت بڑھائيے۔ یہ نہ کہئے کہ ہمارا وقت ضائع ہوگا، بالکل نہیں۔ وقت کا بہترین اور بھرپور استعمال یہی ہے۔ آپ پڑھائی بھی کیجئے، ریسرچ بھی جاری رکھئے، اپنے تمام کام انجام دیجئے، ساتھ ہی جہادی کیمپنگ میں بھی شرکت کیجئے جو سال بھر میں کچھ ہفتے کے لئے انسان کو مصروف رکھتی ہے۔ یہ کیمپنگ آپ کو عوام کی اصلی زندگی سے روشناس کرائے گی۔ یہ آپ کو معاشرے کی ان مشکلات و مسائل سے آگاہ کرے گی جو عام طور پر حکام کی نگاہوں سے دور رہتی ہیں۔ بعض عہدیداران ہیں جنھیں معاشرے کے حقائق کا علم نہیں ہے، صرف اپنے اطراف اور ایک دائرے تک ان کی نگاہ محدود رہتی ہے۔ دیہی علاقوں میں کیا حالات ہیں، دور دراز کے شہروں میں کیا حالات ہیں، نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی کیا حالت ہے، ان چیزوں کی جانب بالکل متوجہ نہیں ہیں۔ میں نے بیس تیس سال کے اپنے ان تجربات کے دوران بارہا یہ چیز دیکھی ہے۔ میں نے بعض لوگوں کے اندر یہ چیز دیکھی ہے جو آپ سے بیان کر رہا ہوں۔ انھیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ جسمانی توانائی رکھتے ہیں۔ ہمت و حوصلہ رکھتے ہیں۔ وقت بھی ہے۔ الجھنیں اور مسائل بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اس موقع سے بھرپور استفادہ کیجئے۔ ایک بہترین موقع یہی جہادی کیمپنگ ہے۔ یہ جہادی کیمپنگ اس کیمپنگ سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی جاری ہے۔ حالانکہ میں انتباہ دے چکا ہوں۔ بعض لوگ کیمپنگ کے لئے یورپ بھیجتے ہیں۔ یورپ میں طلبا کی کمپنگ کرواتے ہیں۔ یہ انتہائی غلط کام ہے۔ جہادی کیمپنگ اس سے بدرجہا بہتر، مفید اور شرافت مندانہ ہے۔ جہادی کیمپنگ میں شرکت کے نتیجے میں عوام سے براہ راست رابطے کا موقع ملتا ہے۔ احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان لوگوں کی براہ راست خدمت کرتا ہے تو اس خدمت سے اسے لگاؤ ہو جاتا ہے۔ وہ کمیوں سے آگاہ ہوتا ہے۔
ایک سفارش اور کروں گا۔ ہمارے 'الیٹ طلبا' (غیر معمولی ذہانت کے مالک طلبا) کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہجرت کا ہے۔ جیسا کہ ابھی بتایا گیا، دنیا کے مختلف ملکوں میں ہمارے ذہین طلبا کے طلب گاروں کی کمی نہیں ہے، ان کی کافی مانگ ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں نوجوانوں کی تعداد کم ہے، یا با صلاحیت نوجوانوں کی تعداد کم ہے، یا ایسے غیر ملکی نوجوانوں کی کمی ہے جن کے مطالبات بہت کم ہوں۔ وہ ایسے نوجوانوں کو بلانا چاہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر رفاہ و آسائش کا ایک تصوراتی نقشہ انسان کے ذہن پر سوار ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ نقشہ بالکل خیالی اور توہماتی ہو اور ممکن ہے کہ حقیقت رکھتا ہو، واقعی وہاں انسان کو سہولیات اور آسائش میسر ہوں، بہرحال آپ اپنے وطن کو ترجیح دیجئے۔ دوسرے معاشروں کے بے رحم معدوں میں اپنے وجود کو ہضم نہ ہونے دیجئے۔ آپ خود اپنے معاشرے میں رہ کر اپنے معاشرے کی ہڈیوں، اعصاب اور ذہن و مغز کی تعمیر کیجئے۔ اس کی خامیاں دور کیجئے۔ ہمارے اندر بہت سی خامیاں ہیں۔ میں ملکی حالات کی بہت تعریف کرتا ہوں لیکن ملک میں جو خامیاں موجود ہیں ان کے بارے میں جتنی اطلاعات میرے پاس ہیں، شاید ہی کسی کے پاس ہوں گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سی کمیاں ہیں۔ ان کمیوں کو برطرف کرنا ہے۔ آپ ان کمیوں کو دور کیجئے۔ آپ وہ انسان بن سکتے ہیں جس کے ہاتھوں ملک کی صحت عامہ کا خاکہ تیار ہو اور اس کے ایک حصے پر عملدرآمد بھی ہو جائے۔ لیکن اگر آپ کہیں اور چلے گئے تو ممکن ہے آپ کو پیسے بھی مل جائیں، رفاہی وسائل بھی فراہم ہو جائیں، وہ بھی اس صورت میں جب ذہن میں پیدا ہونے والا نقشہ حقیقت رکھتا ہو، مگر وہاں آپ غیر سماج کے معدے میں ہضم ہوکر رہ جائيں گے، جبکہ یہاں آپ اثرات و نتائج کا سرچشمہ قرار پا سکتے ہیں۔
آخری سفارش، چونکہ میں بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا، یہ ہے کہ مغرب سے مرعوب نہ ہوئيے۔ یہ بات صحیح ہے کہ مغربی ممالک سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ہم سے بہت آگے ہیں، لیکن آپ اس ترقی سے مرعوب مت ہوئیے۔ کیوں؟ اس لئے کہ آپ ان سے بالاتر ہیں۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج کچھ ملکوں کے پاس پیشرفتہ ٹیکنالوجی ہے، صنعتیں ہیں ایجادات وغیرہ ہیں، تو انھوں نے 200 سال قبل کام شروع کر دیا تھا۔ آپ محض 35 سال سے کام کر رہے ہیں۔ آپ صرف 35 سال میں اتنا طویل راستہ طے کرنے اور اس تیز رفتاری سے ترقی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ممالک خود مختاری حاصل کرنے کے بعد شروع کے 35 سال میں بہت پیچھے تھے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے تسلط سے خود مختاری حاصل کرنے کے بعد امریکا شروع کے 35 سال میں کسی بھی مقام تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ خود مختاری حاصل کرنے کے 35 سال یا 40 سال بعد امریکا کی جو حالت تھی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے 35 سال بعد ایران کی جو حالت ہے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آپ ان سے بہت آگے ہیں۔ اگر آپ روحانیت و معنویت سے قطع نظر صرف مادی تمدن کے اعتبار سے ان کے مقام پر پہنچنا چاہیں تو آپ کو بہت کم وقت درکار ہوگا۔ ان سے مرعوب نہ ہوئيے۔ برطانوی فوج پر امریکیوں کی فتح اور امریکا کو خود مختاری ملنے کے 100 سال بعد امریکا کا معروف 'مجسمہ آزادی' بنایا گيا۔ یہ مجسمہ آزادی بھی امریکیوں نے نہیں بنایا۔ اگر میری یادداشت غلطی نہیں کر رہی ہے، کیونکہ میں نے بہت پہلے دیکھا تھا، تو فرانس کے ایک انجینیئر نے وہاں جاکر مجسمہ آزادی تعمیر کیا۔ یعنی خود مختاری ملنے کے سو سال بعد بھی امریکی، سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت کے میدان میں اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ مجسمہ آزادی خود تعمیر کر لیں۔ فرانس سے ایک انجینیئر جاتا ہے اور وہ اس کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ بہت آگے ہیں۔ لہذا مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے اندر پنہاں صلاحیتیں ان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ آپ آگے بڑھئے!
ہمارے اس دور کی نوجوان نسل یعنی آپ لوگ یہ افتخار اپنے نام کر سکتے ہیں کہ ملک کو علمی پیشرفت کے عظیم مرحلوں میں آپ کی نسل نے پہنچایا۔ یہ بہت بڑا افتخار ہے۔ آج کی نوجوان نسل یہ افتخار حاصل کر سکتی ہے کہ دوسروں کے پیچھے جانے کے بجائے اس نے پروقار انداز میں ملک کے اندر سائنسی پیشرفت اور سائنسی خود کفالت کی بنیادوں کو استحکام بخشا، اس کے لئے محنت کی، کام کیا۔ یہ افتخار ہمارے موجودہ دور کی نوجوان نسل اور انقلاب کے شروعاتی دور کی نوجوان نسل کو بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ آپ عزیزوں، بھائیوں اور بہنوں اور عزیز نوجوانوں کے لئے ہماری سفارشات ہیں۔
کچھ سفارشات انتظامی شعبے کے لئے ہیں۔ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے عہدیداران اور علمی شعبوں کے ذمہ داران کے لئے بھی یہ سفارشات ہیں اور آپ سب کے لئے بھی میری یہ سفارشات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کی آپ قدر کیجئے۔ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن ایک قومی ادارہ ہے، ایک اسٹریٹیجک ادارہ ہے، اسے بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ میں نے سنا ہے کہ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے کچھ کام یونیورسٹیوں کے سپرد کر دئے گئے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ یونیورسٹیاں اگر نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کا کام انجام دینے پر قادر ہوتیں تو ہم اس ادارے کو قائم ہی کیوں کرتے؟! ہماری بعض یونیورسٹیاں واقعی بہت اہم ہیں۔ غیر معمولی صلاحیتوں کا مرکز ہیں، لیکن وہ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کا کام نہیں کر سکتیں۔ یونیورسٹی کی ذمہ داریاں الگ ہیں اور نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے فرائض مختلف ہیں۔ آپ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کو سنجیدگی سے لیجئے، یہ ایک قومی ادارہ ہے، اسٹریٹیجک ادارہ ہے۔ فاؤنڈیشن کے عہدیداران بھی اور ملک کے حکام بھی، خواہ وہ پلاننگ اور بجٹ کے ادارے کے حکام ہوں، یا متعلقہ وزرائے محترم ہوں، علمی کونسلوں کے عہدیداران ہوں یا آپ نوجوان ہوں، سب توجہ دیں۔ یہ بہت اہم ادارہ ہے۔
ایک سفارش اور بھی ہے۔ نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے پروگرام اس طرح ترتیب دئے جائیں کہ الیٹ طلبا کو یہ محسوس ہو کہ اس کی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ میں ابھی آپ نوجوانوں سے بھی کچھ عرض کروں گا، کیونکہ آپ کا کردار بہت اہم ہے اور آپ اس سلسلے میں بڑا اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ باصلاحیت نوجوانوں کو کام کا میدان ملنا چاہئے، انھیں یہ محسوس ہونا چاہئے کہ ان کی ذات سے فائدہ پہنچ رہا ہے، وہ مفید واقع ہو رہے ہیں۔ یہ احساس نوجوان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرے گا اور اس سے نوجوان کو اپنے وطن میں اور اپنے ملک میں باقی رہنے اور ملک کے لئے کام کرنے کی ترغیب بھی ملے گی۔ ان نوجوانوں کو کام کا میدان ملنا چاہئے۔ آپ یہ میدان کیسے فراہم کریں گے؟ ایک تو تعلیمی عمل کو مکمل کرنے کا معاملہ ہے۔ نوجوان اپنی تعلیم پوری طرح مکمل کر سکیں، اعلی تعلیم کے لئے راستہ ہموار کیا جائے، وہ اعلی تعلیم حاصل کریں۔ اگر رکاوٹ پیدا کرنے والے اور سد راہ بننے والے ضوابط ہیں تو انھیں سد راہ نہ بننے دیا جائے۔
ایک مسئلہ نالج بیسڈ کمپنیاں قائم کرنے کا بھی ہے۔ میں اس سلسلے میں بعد میں گفتگو کروں گا۔ نالج بیسڈ کمپنی بہت اچھی چیز ہے۔ البتہ مجھے معلوم ہے کہ آج ہزاروں نالج بیسڈ کمپنیاں ملک میں کام کر رہی ہیں، لیکن موجودہ تعداد میں دس گنا اضافے کی گنجائش ہے، انھیں دس گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نالج بیسڈ کمپنیوں میں بہت نتیجہ بخش کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یونیورسٹیوں میں اچھے اساتذہ کی نگرانی میں علمی گروہوں کی تشکیل بھی انھیں کاموں میں سے ایک ہے۔ یہ فاؤنڈیشن یونیورسٹیوں کے سلسلے میں یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں میں علمی گروہ تشکیل دئے جائیں اور ان گروہوں کا محور و مرکز ایک استاد یا ایک سے زیادہ اساتذہ کو قرار دیا جائے۔ البتہ ضروری ہے کہ وہ دردمند اساتذہ ہوں، فرض شناس اساتذہ ہوں، ایران سے محبت کرنے والے اساتذہ ہوں۔ میں ایسے اساتذہ سے بھی واقف ہوں جو ایران سے محبت نہیں کرتے، ویسے یہ آشنائی بہت دور کی ہے۔ ان کے لئے ایران کی ترقی اور ایران کے مستقبل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس طرح کے اساتذہ سے یہ کام نہیں ہوگا۔ میں ایسے استاد سے امیدیں وابستہ نہیں کر سکتا۔ جو استاد اپنے وطن سے محبت نہ کرتا ہو، جس استاد کو اپنے ملک کے اتحاد و یکجہتی سے دلچسپی نہیں ہے، جو استاد اپنی کلاس میں ایسی باتیں کر رہا ہے جن کے نتیجے میں قومیتی اختلافات بڑھیں، خواہ اس موضوع کا کلاس کے موضوع سے کوئی ربط بھی نہ ہو، جو استاد طلبا کو ان اختلافات میں الجھائے، اسے پسندیدہ استاد نہیں کہا جا سکتا۔ جو استاد کسی طالب علم میں دینداری کا جذبہ دیکھ کر اسے تنگ کرنے لگے، وہ اچھا استاد نہیں ہو سکتا۔ جو اساتذہ فرض شناس ہیں، دردمند ہیں، اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں، اپنے اسلامی انقلاب سے پیار کرتے ہیں اور علمی اعتبار سے اعلی مقام پر فائز ہیں، ان کو محور قرار دیکر علمی ٹیمیں اور گروہ تشکیل دئے جائیں! یہ بہت اچھی چیز ہوگی۔ یہ ٹیم طالب علم میں تحرک پیدا کرے گی اور طالب علم کو بھی محسوس ہوگا کہ اس کی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اس طرح وہ آگے بڑھے گا۔
علمی انجمنیں تشکیل پائیں۔ الیٹ طالب علم کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملنا چاہئے، اسے محسوس ہونا چاہئے کہ اس پر توجہ دی جا رہی ہے، اس کی قدر کی جا رہی ہے، اس کو اہم اور قابل بھروسہ سمجھا جا رہا ہے، اسے عملی طور پر اس کا احساس ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن اور اس کے ساتھ ہی دوسرے ادارے بھی جائزہ لیں کہ کیا نتیجہ حاصل ہو رہا ہے۔ کیونکہ اگر نتیجے میں کوئی نقص ہوگا، کوئی اشکال ہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ جو طریقہ کار اختیار کیا گيا ہے اس میں کوئی نقص ہے۔ نقائص کی نشاندہی کی جائے اور ان کے ازالے کا بندوبست کیا جائے۔ یہ بھی میری ایک سفارش ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور سفارش بھی کروں گا جو مستحکم مزاحمتی معیشت سے متعلق ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مزاحمتی معیشت کا موضوع بحمد للہ زیر بحث آ چکا ہو۔ متعلقہ پالیسیوں کا بھی اعلان کر دیا گيا اور اقتصادی و سیاسی اور دیگر شعبوں کے ماہرین نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ مزاحمتی معیشت کا ذکر بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اب یہ کہ ملک کے اندر مزاحمتی معیشت نے کس حد تک پیشرفت کی ہے، ایک الگ بحث ہے۔ ویسے میں ملک کے اندر اس فکر اور اس بنیادی مہم کی پیشرفت کی مقدار سے خوش نہیں ہوں، لیکن بہرحال کچھ تحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ مزاحمتی معیشت کے محکم ستونوں میں سے ایک نالج بیسڈ معیشت ہے۔ مزاحمتی معیشت میں سب سے بنیادی چیز ہے نالج بیسڈ معیشت۔ کیونکہ مزاحمتی معیشت در حقیقت اندرونی طور پر نمو پانے والی معیشت ہے۔ ایسی معیشت ہے کہ ملک کے اندر اس کے ستون بڑے مستحکم ہوتے ہیں اور بین الاقوامی سطح کے اقتصادی تلاطم اسے اپنی جگہ سے اکھاڑ نہیں سکتے۔ یہ ہے مزاحمتی معیشت، مستحکم معیشت۔ اس معیشت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے نالج بیسڈ معیشت۔ ایسی معیشت جو علم و سائنس پر ٹکی ہوئی ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ میری نظر میں 'الیٹ نوجوان' نالج بیسڈ معیشت کے سلسلے میں جو مزاحمتی معیشت کا اہم ستون ہے، بہت اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیسے کردار ادا کریں گے؟ ظاہر ہے اس کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہمارے نوجوان مزاحمتی معیشت میں اپنا رول ادا کریں؟ اس سوال کا جواب مجھے آپ طلبا سے چاہئے۔ آپ خود بیٹھئے، منصوبہ بندی کیجئے! اس انتظار میں نہ رہئے کہ دوسرے منصوبہ بندی کریں۔ آپ الیٹ طلبا کو چاہئے کہ اسی موضوع پر ایک جلسہ کر لیجئے۔ مزاحمتی معیشت یا نالج بیسڈ معیشت میں الیٹ نوجوانوں کے کردار کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ ٹیمیں تشکیل دی جائیں، کام کریں، غور کریں، مطالعہ کریں اور پوری ذہنی آمادگی کے ساتھ اس جلسے میں شرکت کریں۔ تجویز پیش کریں۔ نیشنل الیٹ فاؤنڈیش کو چاہئے کہ ان تجویزوں کی حمایت کرے جو خود الیٹ نوجوانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ فکر و مطالعے کے میدان میں بھی اور زمینی حقائق کے تعلق سے بھی۔ یقینا اقتصادی میدان میں تبدیلی رونما ہوگی۔
ایک اور نکتہ، جو آخری نکتہ ہے؛ تعلیم و تربیت کے شعبے میں اعلی صلاحیتوں کی شناخت اور ان کی پرورش ہے۔ 'شہاب منصوبہ' (6) کا ذکر کیا گيا، یہ بہت اچھا منصوبہ ہے۔ میں نے سنا ہے کہ 'شہاب منصوبہ' کے سلسلے میں بے اعتنائی اور بے توجہی برتی جا رہی ہے، اس کا خیال رکھئے۔ پرائمری ایجوکیشن اور سیکنڈری ایجوکیشن کے ادوار میں ہی ممتاز صلاحیتوں کی شناخت کر لینا بہت اہم ہے۔ اس طرح ہم حقیقی معنی میں 'الیٹ طلبا' کو پہچان سکتے ہیں۔ اس روش کے ذریعے ہم نابغہ طلبا سے واقف ہو سکتے ہیں۔ ہر معاشرے میں نابغہ صلاحیت کے افراد گنے چنے ہی ہوتے ہیں۔ بہت سے نابغہ صلاحیت کے افراد اس وجہ سے بے اثر ہوکر ختم ہو جاتے ہیں اور بھیڑ میں گم ہو جاتے ہیں کہ ان کی صلاحیت کا کسی کو علم ہی نہیں ہو پاتا، ان کی شناخت ہی نہیں ہو پاتی۔ کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی گاؤں میں کوئی ان پڑھ شخص بھی ایسی بات کہہ جاتا ہے، کوئی ایسا کام کر دیتا ہے جس سے اس کی نابغہ صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر اس کی شناخت کر لی گئی ہوتی، اگر اس کی صلاحیتوں کو نکھارا گیا ہوتا، اگر اس کی استعداد کو استعمال کیا جاتا اور اس کی اہمیت کو سمجھا گیا ہوتا تو وہ کوئی عظیم ہستی بن سکتا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے اس کی شناخت ہی نہیں ہو سکی۔ ہمیں ملک کو اس طرح کے نقصان سے بچانا ہوگا۔ یہ چیز تعلیم و تربیت کی مدت میں بہت اہم ہے۔ اس منصوبے پر آپ کام کیجئے۔ وزیر محترم کو چاہئے کہ خود دیکھیں کہ یہ منصوبہ کس حالت میں ہے۔ ٹھیک طریقے سے اس پر کام ہو رہا ہے یا نہیں۔
اب یہ سن لیجئے کہ میری نظر میں جو چیز ایک وارننگ اور خطرے کا درجہ رکھتی ہے وہ کیا ہے؟ ملک کے اندر حوصلہ شکنی کرنے والے کچھ عناصر ہیں۔ آپ بہت ہوشیار رہئے، عہدیداران بہت ہوشیار رہیں۔ کیسے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے؟ موجودہ مثبت پہلوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ دنیا میں علمی پیشرفت کے انڈیکس کی نشاندہی کرنے والے کچھ علمی مراکز ہیں، یہ خاص مراکز ہیں جن سے سب واقف ہیں۔ یہ مراکز اسلامی جمہوریہ کے حق میں کوئی رپورٹ پیش کرتے ہیں تو ملک کے اندر بیٹھے یہ عناصر اخبارات و جرائد میں یا سرکاری و غیر سرکاری پلیٹ فارموں پر ان حصولیابیوں کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں، انھیں توہم قرار دے دیتے ہیں! بعض اوقات ہم بھی یہ باتیں سنتے ہیں۔ جبکہ یہ توہم نہیں عین حقیقت ہے۔ ساری دنیا اسے مانتی ہے، لیکن یہ انکاری ہیں۔ پندرہ سولہ سال پہلے اگر کوئی اس کا انکار کرتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔ کیونکہ اس وقت شروعاتی دور تھا، تسلیم کیا جا سکتا تھا کہ شاید انھیں خبر نہیں ہے۔ لیکن آج تو ساری دنیا مانتی ہے۔ وہ مراکز جن کا ان امور سے تعلق ہے، جانتے ہیں کہ ایران سائنس و ٹیکنالوجی کی شاہراہ پر بڑی برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ آکر نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کریں، موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی اور مستقبل کے تعلق سے بھی حوصلہ شکنی کی بات کریں؛ اس طرح کی باتیں کریں کہ صاحب کیا فائدہ ہے؟ کس لئے؟ تو یہ حوصلہ شکنی ہے، یہ خیانت ہے۔ جو بھی یہ کام کر رہا ہے خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر کوئی عہدیدار یہ کام کر رہا ہے تو وہ بھی خیانت ہے، کوئی استاد یہ فعل انجام دے رہا ہے تو وہ بھی خیانت ہے، اخبار یا جریدے کا کوئی قلمکار اس طرح کی باتیں کہہ رہا ہے تو وہ بھی خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ ملک سے خیانت ہے، یہ قومی وقار کے ساتھ خیانت ہے۔
ایک اور خطرہ یہ ہے کہ غیر ملکی عناصر کے لئے ملک کے اندر بہترین صلاحیت والے نوجوانوں کا سراغ لگایا جائے۔ یہ بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، مجھے اس کی بھی خبر ہے۔ جائزہ لیتے ہیں، تلاش کرتے ہیں، اچھی صلاحیت کے افراد کا سراغ لگاتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ملک کے اندر ہی ان کی تربیت کی جائے، ان کی ہمت بندھائی جائے، یہ کام بیرونی عناصر کے لئے کرتے ہیں۔ اچھی صلاحیت کے نوجوانوں کو ملک کے باہر متعارف کراتے ہیں اور بہترین دماغوں کی بیرون ملک ہجرت کے لئے رابطے کا کام کرتے ہیں۔ یہ بھی خیانت ہے۔ یہ غداری ہے۔ چاہے یہ کام اس طالب علم کے ساتھ ہمدردی کے نام پر ہی کیوں نہ کیا جائے۔ حقیقت میں یہ ہمدردی نہیں ہے۔ اگر ہم کسی طالب علم کو اکساتے ہیں اور اسے یہ سمجھاتے ہیں کہ یہاں کیا رکھا ہے؟ یہاں کون تمھیں پوچھنے والا ہے؟ تمہاری کون خبر لینے والا ہے؟ تم سب کچھ چھوڑو اور بیرون ملک نکل جاؤ! وہاں زندگی گزارو، آگے بڑھو، پیشرفت کرو! یہ سراسر خیانت ہے۔ یہ ملک، ملکی مفادات اور ملک کے مستقبل سے روگردانی ہے اور غیر معمولی صلاحیت کے طالب علم کو بھی خیانت پر اکسانے کے مترادف ہے۔
ایک اور انتباہ ہے جس پر وزرائے محترم کو واقعی بھرپور توجہ دینی چاہئے، اور وہ انتباہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں انقلابی اور دیندار طلبا کو پریشان نہ کیا جائے۔ انقلاب سے محبت کرنے والے، انقلابی اقدار کے پابند، دینی اقدار کے پابند اور دینی وضع قطع میں رہنے والے کچھ افراد کو بعض عہدیداران، کچھ اساتذہ، ذمہ داران کی سطح کے لوگ روک ٹوک کریں، کسی دیندار طالب علم یا طالبہ کے ساتھ سختی برتیں تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔ دیندار افراد کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ اس طرح کے مسائل بھی موجود ہیں۔
میں اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ مستقبل کے تعلق سے میں مدلل وجوہات کی بنا پر پرامید ہوں۔ یہ صرف نعرہ یا رجز خوانی نہیں بلکہ امر واقعہ ہے۔ توفیق خداوندی سے، فضل پروردگار سے ملک کا مستقبل تابناک ہے۔ ملک کے نوجوانوں کی اس عظیم تعداد کے اندر بہت سے نابغہ صلاحیت کے نوجوان موجود ہیں۔ الیٹ نوجوانوں میں اکثریت طلبا کی ہوتی ہے تاہم دوسرے شعبوں میں بھی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے نوجوان موجود ہیں۔ وہ یونیورسٹی سے تو وابستہ نہیں ہیں لیکن بہترین صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ حقیقی معنی میں الیٹ نوجوان ہیں۔ بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں اور غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے یہ نوجوان یقینا اپنا کام انجام دیں گے۔ انھیں یقینا اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا۔ بحمد اللہ انقلابی اہداف و مقاصد اور انقلابی نعرے زندہ ہیں۔ دشمن انقلابی نعروں کو کم رنگ نہیں کر سکا ہے۔ ایسا ماحول ہے کہ وہ افراد بھی جو دل سے ان نعروں کی حمایت نہیں کرتے، رائے عامہ کا خیال کرکے، عوام کی منشا کو دیکھتے ہوئے اور عوامی حمایت کی وجہ سے، زبانی طور پر ہی سہی ان نعروں کو دہراتے ہیں۔ نعرے بحمد اللہ زندہ ہیں۔ انقلابی تحریک ایک زندہ تحریک ہے اور یہ تاریخ کے مستثنیات میں سے ہے۔ دنیا میں ہمیں ایسا کوئي انقلاب نظر نہیں آتا جو اتنی مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود پینتیس سال تک، چالیس سال تک اپنے صراط مستقیم پر اٹل ہو، رواں دواں ہو۔ چھوٹی موٹی تبدیلیوں کو یا بغاوتوں کو جو انقلاب کہہ دیا جاتا ہے، ہم ان کی بات نہیں کر رہے ہیں، ان کی تو کوئی گنتی ہی نہیں ہے، آپ کے پیش نظر دنیا کے جو بڑے انقلابات ہیں، حقیقی معنی میں جو انقلابات آئے ہیں، وہ بھی اپنے راستے پر قائم نہیں رہ سکے، ان کے بھی اہداف بدل گئے، منزل تبدیل ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمن چراغ پا ہیں۔ اگر آپ عالمی خبروں پر نظر رکھتے ہیں تو کچھ لوگوں کا بار بار یہ بیان سنتے ہوں گے کہ جب تک ایران انقلاب کی راہ پر چلتا رہے گا، ایران کے ساتھ ہماری مشکلات موجود رہیں گی۔ ان کی یہ بات صحیح ہے۔ بلکہ میں اس میں ایک جملہ اور جوڑنا چاہتا ہوں؛ جب تک یہ انقلابی فکر اور انقلابی تحریک موجود ہے اس وقت تک توفیق خداوندی سے ایران کی پشرفت، ایران کا روز افزوں اثر و رسوخ، علاقے کے اندر اور علاقے کے باہر ایران کا روحانی و معنوی رسوخ ان شاء اللہ روز بروز بڑھتا ہی رہے گا (7)۔ بہت شکریہ آپ کا، بظاہر یہ تکبیر جلسے کی برخاستگی کا اعلان بھی ہے (8)۔
اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔ آپ سب انقلاب کے مستقبل کے لئے باعث برکت بنیں۔ ان شاء اللہ تیس سال، چالیس سال پچاس سال بعد جب یہ ملک آپ کے ہاتھوں میں ہوگا، آج کے ان ایام کو فخر کے ساتھ یاد کریں گے کہ ان ایام نے آپ کو اس طرح صحیح خطوط پر قائم اور ثابت قدم رکھا اور بہترین مستقبل سے آپ کو بہرہ مند کیا۔
و السّلام علیکم و رحمة الله‌ و برکاتہ

۱) یہ ملاقات 'مستقبل کے الیٹ نوجوان' کے عنوان سے منعقدہ قومی سیمینار کی مناسبت سے ہوئی۔ اس سہ روزہ سیمینار کا افتتاح 13 اکتوبر 2015 کو تہران میں ہوا۔ ملاقات کے آغاز میں نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے امور کے نائب صدر ڈاکٹر سورنا ستاری نے ادارے کی سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی۔
۲) من لا یحضره الفقیه، جلد ۴، صفحہ ۴۳۸
۳) نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ کا اشارہ اس واقعے کی جانب تھا جس کا ذکر رہبر انقلاب اسلامی نے مورخہ 27 جولائی 2009 کے خطاب میں کیا تھا۔
۴) فضائیہ کے کمانڈر، میجر جنرل منصور ستاری
۵) سپاہ پاسداران انقلاب کے سینیئر کمانڈر جو تکفیری گروہوں کے خلاف جنگ میں شام کی فوج کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے تعاون کر رہے تھے اور مورخہ 8 اکتوبر 2015 کو شہید ہو گئے۔
۶) 'شہاب منصوبہ' سے موسوم پروگرام پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے مراحل میں زیر تعلیم طلبا میں سے بہترین دماغوں کی شناخت اور رہنمائی کے لئے مورخہ 14 فروری 2008 کو نیشنل الیٹ فاؤنڈیشن کے ٹرسٹیوں کی کمیٹی کے ذریعے منظور کیا گيا تھا۔
۷) حاضرین جلسہ نے نعرہ تکبیر لگایا
۸) حاضرین بے ساختہ ہنس پڑے