1395/03/14 ہجری شمسی مطابق 3 جون 2016 کو رہبر انقلاب اسلامی نے انقلابی ہونے کے پانچ اہم معیارات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی مذاکرات سے حاصل ہونے والے اس تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے کہ امریکا ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، ملک کی پیشرفت کے عمل کو جاری رکھنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ستائیسویں برسی کے اجتماع میں اپنے خطاب میں فرمایا کہ اطاعت گزار، انقلابی مومن کی صفت امام خمینی کی جامع صفت ہے، آپ نے مزید فرمایا کہ امام خمینی اللہ، عوام، ہدف اور اس راستے پر پختہ یقین رکھنے والے تھے جو اس ہدف تک پہنچاتا ہے۔
امام خمینی کے اطاعت گزار ہونے کے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ اللہ تعالی کے بندہ صالح، اہل خضوع و خشوع اور اہل ذکر و مناجات تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری اہم صفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی انقلابی قائد تھے اور یہی صفت آپ سے بڑی طاقتوں کی برہمی کی بنیادی وجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے؛

 

بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

بڑا عظیم اور پرشکوہ اجتماع ہے جو یہاں ہمارے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی یاد منانے کے لئے عمل میں آیا ہے۔ ملک کے دوسرے بھی متعدد مقامات پر امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی یاد منانے اور آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایسے ہی اجتماعات منعقد ہوئے ہیں۔
یہ برکتوں سے معمور ماہ شعبان کے آخری ایام ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اس مہینے سے بہت زیادہ روحانی فیض کسب کیا کرتے تھے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا نورانی قلب اس مہینے کی نورانیت سے اور بھی منور ہو جایا کرتا تھا۔ مناجات شعبانیہ کا یہ معروف فقرہ؛ اِلهی هَب لی کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضِیآءِ نَظَرِها اِلَیک (۱) ان جملوں میں ہے جسے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بیانوں میں بار بار دہرایا گيا ہے۔ آپ مختلف مناسبتوں سے اپنی تقاریر میں دعا کا یہ فقرہ بار بار دہرایا کرتے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عظیم ہستی کو اس مناجات، اس کے مضمون اور ان بابرکت ایام سے خاص انسیت تھی۔ میں نے بھی کبھی آپ سے اگر دعاؤں کو بارے میں سوال کیا تو جن دعاؤں پر آپ کی خاص تاکید ہوتی تھی اور جنھیں بہت ترجیح دیتے تھے ان میں ایک یہی مناجات شعبانیہ تھی۔ اس دعا میں بڑے اہم فقرے ہیں؛ اِلهی هَب لی قَلباً یُدنیهِ مِنکَ شُوقُه، وَ لِسانًا یُرفَعُ اِلَیکَ صِدقُه، وَ نَظَراً یُقَرِّبُهُ مِنکَ حَقُّه (۲) اشتیاق سے معمور ایسا دل جو بارگاہ قرب خداوندی سے مانوس ہوتا ہے۔ ایسی صادق زبان کہ جس کی صداقت قرب الہی حاصل ہونے کا سبب بنتی ہے، ایسی حق نگر نگاہ جو اللہ تعالی سے انسان کے نزدیک ہونے کا ذریعہ قرار پاتی ہے۔ اس دعائے شریفہ میں، اس مناجات میں اللہ تعالی سے ان خصوصیات کی التجا کی گئی ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ امام خمینی کی شخصیت ایسی تھی جو ان دروس سے ساری عمر خاص لگاؤ رکھتی تھی۔ قرب الہی اور حق و حقیقت کے انھیں مراتب و مدارج کی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ کو یہ قوت ودیعت فرمائی کہ آپ نے عظیم اور لازوال کارنامہ سرانجام دیا۔
ہم اپنے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ اوصاف ایسے ہیں جنھیں ہمارے عظیم الشان امام کے بارے میں قدرے کم استعمال کیا گیا ہے، یہ ایک جامع الصفات عنوان ہے جسے میں اس طرح بیان کرتا ہوں؛ 'مؤمنِ متعبّدِ انقلابی'۔ ہم امام خمینی کی ہمیشہ گوناگوں صفتوں سے توصیف کرتے ہیں، لیکن یہ صفت جس کے ذریعے ہم نے امام خمینی کی توصیف قدرے کم کی ہے ایک جامع صفت ہے۔ آپ مومن ہیں، متعبد ہیں اور انقلابی ہیں۔
مومن: یعنی اللہ پر ایمان، ہدف پر ایمان، اس راستے پر ایمان جو اس ہدف تک لے جانے والا ہے اور عوام پر ایمان۔ یُؤمِنُ بِاللهِ وَ یُؤمِنُ لِلمُؤمِنین؛(۳) رسول اکرم کے بارے میں بھی یہ صفت قرآن میں بیان کی گئی ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے، ہدف پر ایمان رکھنے والے، راستے پر ایمان رکھنے والے اور عوام الناس پر ایمان رکھنے والے۔
وہ عبد ہیں، متعبد ہیں، یعنی خود کو پرورگار کی بارگاہ کا بندہ مانتے ہیں، یہ بڑی اہم صفت ہے۔ آپ غور کیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن کری میں پیغمبر اکرم کی توصیف کے لئے متعدد صفات کا استعمال کیا ہے؛ وَ اِنَّکَ لَعَلَی‌ٰ خُلُقٍ عَظیم،(۴) فَبِما رَحمَةٍ مِنَ اللهِ لِنتَ لَهُم؛(۵) اسی طرح دیگر متعدد صفات جن میں سے ہر ایک صفت پیغمبر اکرم کی خصوصیات کے ایک باب کی تشریح ہے۔ لیکن پیغمبر اکرم کی وہ صفت جس کے بارے میں ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی یومیہ نمازوں میں پیغمبر کے بارے میں اسے دہراتے رہیں وہ ہے؛ «اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسولُه» اس سے بندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عبد ہونا اتنی عظیم صفت ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ اپنی نمازوں میں، ہر روز کئی بار اس صفت کو دہرائیں۔ امام خمینی کے اندر یہ صفت موجود تھی، بندگی کی صفت۔ وہ خضوع و خشوع، تضرع اور دعا و مناجات والے مومن بندے تھے۔ امام خمینی کی تیسری اہم صفت جس کے بارے میں ہم آج خاص طور پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں، ان کا انقلابی ہونا ہے۔ امام خمینی انقلابی تھے۔
انقلاب ویسے تو ایک لفظ ہے لیکن اس کے اندر بے شمار حقائق مضمر ہیں اور انقلاب کا امام ہونا یعنی لفظ انقلاب میں جتنی بھی خصوصیات اور حقائق مضمر ہیں سب کا پیشوا اور نمونہ ہونا۔ امام خمینی سے مادی طاقتیں جو ہمیشہ خشمگیں رہتی تھیں، چراغ پا رہتی تھیں، البتہ ہمارے عظیم الشان امام سے خائف بھی رہتی تھیں، اس کی وجہ آپ کی یہی صفت تھی۔ امام خمینی کی انقلابی ہونے کی صفت۔ وہ در حقیقت امام خمینی کی انھیں خصوصیات کی دشمن تھیں۔ آج بھی ملت ایران کے دشمن اس کی انقلابیت کی صفت سے عناد اور دشمنی رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر مادی طاقتیں انقلاب کے لفظ سے وحشت زدہ رہتی ہیں۔ اسلامی انقلاب کے نام سے وحشت کھاتی ہیں، ہراساں ہو جاتی ہیں اور بھاگتی ہیں۔ یہ جو اتنا دباؤ ڈال رہی ہیں اس کی وجہ بھی یہی انقلابیت کی صفت ہے۔ میں اس کی تشریح کروں گا کہ انقلابیت میں کیا مفاہیم، معانی اور روشیں پنہاں ہیں۔ ان طاقتوں کا خوف زدہ ہونا فطری ہے۔ دباؤ دالنے کے لئے ویسے تو گوناگوں بہانے تلاش کئے جاتے ہیں، کبھی ایٹمی مسئلے کے بہانے سے، کبھی انسانی حقوق کے بہانے سے، کبھی اسی طرح کے کسی اور بہانے سے، لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ملت ایران کے دشمن اور اسلامی مملکت ایران کے دشمن انقلابیت کی خصوصیت سے پریشان اور تشویش میں مبتلا ہیں۔ ابھی حال ہی میں، چند ماہ قبل ایک امریکی سیاسی رہنما نے کہا؛ ایران اپنے اسلامی انقلاب کی وجہ سے پابندیوں کی زد پر ہے، پابندیوں کا تعلق انیس سو اناسی کے انقلاب سے ہے۔ یہ عین حقیقت ہے۔
وجہ کیا ہے؟ وہ انقلاب کے مخالف کیوں ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ یہ وسیع و عریض ملک، برکتوں سے معمور یہ ملک، یہ دولتمند سرزمین، جس کے پاس قدرتی ثروت بھی ہے اور افرادی قوت بھی ہے، پوری طرح ان کے اختیار میں تھی۔ امریکا کے ہاتھ میں تھی۔ انقلاب آیا اور اس نے انھیں اس ملک سے نکال باہر کیا۔ تو انقلاب سے دشمنی اسی وجہ سے ہے، انقلاب نے انھیں مار بھگایا۔ اس کے علاوہ انقلاب نے دوسروں کو حوصلہ بھی دیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے جو اس ملک کے عوام کے ہاتھوں برپا ہوا اور آج تک جاری ہے، دیگر اقوام کو بھی حوصلہ دیا، یہ نکتہ اپنے آپ میں تفصیلی بحث کا متقاضی ہے اور اس کے گوناگوں دلائل موجود ہیں۔
ہمارے انقلابی امام نے ملک کو دلدلوں سے باہر کھینچا۔ انقلاب کی مدد سے ملک کو گوناگوں دلدلوں سے باہر نکالا۔ ہمارے عزیز نوجوان جنھوں نے انقلاب سے قبل کا دور نہیں دیکھا ہے، باقاعدہ محسوس نہیں کیا، اچھی طرح غور کریں اور توجہ دیں کہ اصل بات یہ ہے، اصلی ماجرا یہ ہے۔ اگر کسی قوم کو اپنے بنیادی مسائل کا علم نہ ہو تو وہ گمراہ ہو جاتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انقلاب آیا اور اس نے ملک کو دلدلوں سے نجات دلائی۔ اغیار پر انحصار کی دلدل سے، پسماندگی کی دلدل سے، سیاسی بدعنوانی کی دلدل سے، اخلاقی بے راہروی کی دلدل سے، بین الاقوامی تحقیر کی دلدل سے۔ ہم ان چیزوں میں گرفتار تھے۔ ہم دوسروں کے محتاج بھی تھے، ہماری تحقیر بھی کی جاتی تھی، پسماندہ بھی تھے، ہمیں پیشرفت سے دور کر دیا گيا تھا، علم و دانش کے میدان میں، معیشت کے میدان میں، ٹیکنالوجی میں، عالمی شراکت میں، ہر چیز میں ہم پیچھے تھے۔ ان ساری چیزوں کا بدلہ ہمیں یہ ملا تھا کہ امریکی اور برطانوی آقاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا۔ اس زمانے میں ہم آج سے چار گنا زیادہ تیل برآمد کرتے تھے اور ملک کی آبادی آج کی نسبت نصف سے بھی کم تھی۔ لیکن اس کے باوجود ملک کے بیشتر علاقے عمومی خدمات سے محروم تھے جو حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملک غربت و پسماندگی میں پھنسا ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اخلاقی تنزل میں گرفتار تھا۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ سڑکوں، بجلی، پانی، گیس، اسکول، یونیورسٹی، شہری خدمات ہر چیز کے اعتبار سے بحران زدہ تھا، پسماندگی میں مبتلا تھا، تہی دستی کا شکار تھا۔ ملک کی قدرتی دولت کو اغیار کے حوالے کر دیا جاتا تھا، حکومتی طبقہ اس سے فائدہ اٹھاتا تھا اور عوام کو یا تو فریب دیا جاتا تھا یا دھمکا کر خاموش کر دیا جاتا تھا۔ لیکن عوام کے دل خون تھے، وہ حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امام خمینی کی اس الوہی اور ربانی آواز پر سب نکل پڑے اور انقلاب وجود میں آ گیا۔
ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے راستہ بدل دیا اور بہت بنیادی تبدیلی پیدا کر دی۔ آپ نے ملت ایران کا راستہ بدل دیا۔ پٹری تبدیل کر دی۔ ہمیں عظیم اہداف کی جانب موڑ دیا۔ امام اور پیشوائے انقلاب نے جن اہداف کی جانب ہمیں گامزن کر دیا اور ایرانی معاشرے کو جن مقاصد کی راہ پر ڈالا وہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان اہداف کا ماحصل ہے دین خدا کی بالادستی و حکمرانی۔ دین خدا کی حکمرانی عبارت ہے حقیقی معنی میں سماجی مساوات سے، غربت کی بیخ کنی سے، عبارت ہے جہالت کے ازالے سے، استحصال کے خاتمے سے۔ دین خدا کی حاکمیت کا مطلب ہے اسلامی اقدار کے نظام کا عملی طور پر رائج ہو جانا، سماجی مشکلات کا تصفیہ، جسمانی و اخلاقی صحتمندی کی ضمانت اور ملک کا علمی ارتقا، اس کا مطلب ہے قومی وقار، ایرانی ملی تشخص کی حفاظت اور بین الاقوامی اعتبار۔ دین خدا کی حکمرانی کا مطلب ہے ان صلاحیتوں کو متحرک کرنا جو اللہ تعالی نے اس سرزمین پر قرار دی ہیں۔ یہ ساری چیزیں دین خدا کی حاکمیت میں شامل ہیں اور امام خمینی نے ہمیں اسی سمت میں پہنچایا۔ اس سمت کے بالکل برعکس سمت میں لے گئے جدھر طاغوتی حکومت ہمیں کھینچ رہی تھی۔
یہ اہداف کہ جن کی جانب اسلامی معاشرے کی ریل اسلامی انقلاب کی برکت سے روانہ ہوئی ہے، دسترسی سے کافی دور اہداف ہیں، ان تک رسائی کے لئے وقت درکار ہے، ایک مدت درکار ہے، محنت کی ضرورت ہے۔ تاہم ان تمام اہداف تک رسائی ایک شرط پر ممکن ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ ریل گاڑی اسی پٹری پر آگے بڑھتی رہے۔ انقلاب کی پٹری پر چلے۔ امام خمینی نے ہمیں راستہ دکھا دیا، معیاروں اور کسوٹیوں کو معین کر دیا، ہمارے اہداف کا تعین کر دیا اور خود اس سفر کا آغاز بھی کیا۔ ہم انقلاب کی سمت میں اپنی پیش قدمی کی برکت سے اب تک کافی کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں، لیکن ان اہداف تک ابھی کافی راستہ طے کرنا باقی ہے۔ ہم اس منزل تک پہنچ سکتے ہیں لیکن شرط وہی ہے کہ ریل گاڑی اسی پٹری پر چلے۔ اسی پٹری پر چلے جس پٹری پر امام خمینی نے اسلامی معاشرے کی ریل گاڑی کو ڈالا ہے۔ امام خمینی کی رحلت کے بعد جہاں بھی ہم نے انقلابی انداز میں کام کیا ہے ہمیں کامیابی ملی ہے اور جہاں بھی انقلابی اور مجاہدانہ انداز میں کام کرنے سے گریز کیا ہے، غفلت برتی وہاں ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ہم پیچھے رہ گئے۔ یہ عین حقیقت ہے۔ ان برسوں کے دوران میں خود بھی عہدے پر تھا، لہذا اگر کہیں کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری اس حقیر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہم نے جہاں بھی انقلابی انداز میں کام کیا ہے، جہادی طرز پر عمل کیا ہے، اسی پٹری پر آگے بڑھے ہیں ہم نے کامیابی سے پیش قدمی کی ہے۔ جہاں بھی ہم سے غفلت ہوئی، ہم نے کوتاہی برتی وہاں ہم پسماندگی سے دوچار ہوئے۔ ہم منزل پر پہنچ سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ انقلابی بن کر کام کریں اور انقلابی انداز میں آگے بڑھیں۔
میرا یہ خطاب موجودہ نسل اور آئندہ نسلوں سے ہے۔ یہ خطاب ہم سب سے ہے۔ حکام سے بھی ہے، سیاسی کارکنوں سے بھی ہے، ثقافتی کارکنوں سے بھی ہے، سماجی کارکنوں سے بھی ہے، یہ پیغام سب کے لئے ہے۔ نوجوان، یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد، دینی مدارس کے افراد، مختلف پیشوں سے وابستہ افراد، دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ، شہروں میں آباد افراد، سب سے یہ خطاب ہے۔ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس راستے کو انقلابی انداز میں طے کیا جا سکتا ہے اور اگر اس انداز سے پیش قدمی کی گئی تو پیشرفت یقینی ہے۔ دوسرے انداز سے بھی سفر کیا جا سکتا ہے، آگے بڑھا جا سکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں انجام بڑا دردناک ہوگا۔ امام خمینی ایک جملہ کہا کرتے تھے، بارہا یہ جملہ آپ نے دہرایا کہ اسلام کو ضرب لگے گی۔ اگر ہم نے راستہ بدلا تو ملت ایران کو ضرب پڑیگی اور اسلام کو بھی ضرب لگے گی۔
آپ توجہ فرمائیے (6)، ابھی باتیں باقی ہیں، اس سلسلے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے، ضروری باتیں کافی زیادہ ہیں، میں اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں اور ملت ایران کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے عزیزو! ھانقلاب ہمارے ملک اور ہماری قوم کے پاس ممتاز اور عدیم المثال سرمایہ ہے۔ انقلاب کے لئے ہم نے بڑی قیمت چکائی ہے۔ بہت بھاری قیمت چکائی ہے، لیکن اس بھاری قیمت سے سیکڑوں گنا زیادہ مفادات ملے ہیں، یہ قوم کے لئے بڑا منافع بخش سودا ثابت ہوا ہے۔ بیشک آٹھ سالہ جنگ، بہت بڑی قیمت تھی، شورشیں بھی بڑی قیمت تھی، پابندیاں بھی بڑی قیمت تھی، یہ سب انقلاب کی وجہ سے چکائی جانے والی بڑی قیمتیں تھیں، لیکن اس قیمت سے سیکڑوں گنا زیادہ فوائد اس راستے میں موجود ہیں۔ قربانیاں اور فوائد دونوں ہی شروع سے ساتھ ساتھ تھے۔ ہم نے قربانی بھی دی اور فائدہ بھی حاصل کیا۔ جنگ میں ہمارے نوجوان گئے اور شہید ہوئے لیکن اسی بھاری قیمت والی جنگ سے ملک اور ملت کو بہت بڑی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ شروع سے یہ قربانیاں اور مفادات ساتھ ساتھ رہے۔ البتہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے بھاری قیمت چکانے کا سلسلہ کم ہوتا گیا، ہلکا ہوتا گیا، برداشت کے قابل ہوتا گیا۔ لیکن مفادات زیادہ بڑھتے گئے۔ آج وہ دور آن پہنچا ہے کہ ملت ایران بغیر کوئی قیمت ادا کئے انقلاب سے بہت بڑے مفادات اور فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ آج یہ توانائی موجود ہے۔ انقلاب کی جڑیں گہرائی تک پہنچ چکی ہیں، اسلامی نظام کا درخت بہت مضبوط ہو چکا ہے۔ بہت سے حقائق روشنی میں آ چکے ہیں، طریقے اور تدابیر معلوم ہو چکی ہیں۔ آج ملت ایران کے لئے حالات پہلے سے زیادہ واضح ہو چکے ہیں، راستہ زیادہ ہموار ہو چکا ہے۔ قیمت تو اب بھی ادا کرنی ہے لیکن یہ قیمت اور قربانی کافی ہلکی ہو چکی ہے، اسے آسانی سے ادا کیا جا سکتا ہے اور اس سے بچا بھی جا سکتا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ انقلاب کسی کودتا کا نتیجہ نہیں ہے، کسی فوجی بغاوت کا ثمرہ نہیں ہے جیسا کہ بعض انقلابات میں ہوا کہ کچھ فوجی افسران آگے بڑھے اور انھوں نے ایک حکومت کو سرنگوں کر دیا اور اس کی جگہ دوسری حکومت تشکیل دے دی۔ ایسا نہیں ہوا، یہ انقلاب عوام کے ذریعے وجود میں آیا، عوام کی قوت ارادی سے، عوام کے جذبہ انقلاب سے، عوام کی قوت ایمانی سے وجود میں آیا اور اسی قوت کے سہارے اس کا دفاع کیا گیا اور اسی قوت کی بنا پر انقلاب محفوظ رہا اور اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ یہ عوام ہی تھے جنھوں نے خوف کو قریب نہیں آنے دیا، یہ عوام ہی کا کارنامہ تھا کہ وہ ڈٹ گئے اور اس آیہ شریفہ کے مصداق قرار پائے؛ اَلَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ایمانًا وَ قالُوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل.(۷) ہمیں مسلسل دھمکیاں دی گئیں، بار بار ڈرایا گيا کہ ہم حملہ کر دیں گے، بار بار کہا گيا کہ پابندیاں لگا دیں گے، عوام الناس نہ تو فوجی دھمکیوں سے ڈرے اور نہ پابندیوں سے ہراساں ہوئے۔ پابندیاں انھیں مفلوج نہ کر سکیں، وہ بے خوف ہوکر شجاعت و سربلندی کے ساتھ اپنے راستے پر رواں دواں رہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمارے عوام، مختلف طبقات، ہمارے نوجوان، ہمارے علما، ہمارے پیشہ ور افراد، یونیورسٹیوں سے وابستہ حلقے، ہمارے محققین، ہمارے عہدیداران، ہمارے حکومتی عمائدین، ہمارے ارکان پارلیمان سب کو چاہئے کہ انقلابی رہیں اور انقلابی انداز میں آگے بڑھیں، اس سلسلے میں میں کچھ معیارات اور نشانیاں بیان کروں گا۔ سب انقلابی بنے رہیں تاکہ ہم اس راستے پر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں اور اس سفر کو جاری رکھیں۔
یہ سوچنا غلط ہے کہ انقلابی صرف وہ ہے جو امام خمینی کے زمانے میں تھا یا جد و جہد کے زمانے میں امام خمینی کے ہمراہ تھا۔ ایسا نہیں ہے، شاید کچھ لوگوں کے یہاں یہ تصور ہے کہ انقلابی صرف وہی افراد ہیں جو امام خمینی کے زمانے میں، آپ کی تحریک کے زمانے میں یا اسلامی حکومت قائم ہو جانے کے بعد امام خمینی کے دور میں موجود تھے، امام خمینی کے ساتھ تھے۔ یہ تصور درست نہیں ہے۔ اگر انقلابی کا یہ مفہوم اخذ کیا جائے گا تو ہم جیسے سن رسیدہ افراد ہی انقلابی رہ جائیں گے۔ انقلاب تو سب کا ہے۔ نوجوان انقلابی ہیں، انقلابی ہو سکتے ہیں ان معیاروں اور نشانیوں کے مطابق عمل کرکے جن کا ذکر میں ابھی کروں گا۔ آج کا ایک نوجوان مجھ جیسے انقلابی ماضی رکھنے والے شخص سے زیادہ بڑا انقلابی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے مقدس دفاع کے زمانے میں دیکھا؛ ایسے افراد نکلے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر امام خمینی کے فرمان کی تعمیل میں محاذ جنگ پر پہنچ گئے اور اپنی جان قربان کر دی۔ سو فیصدی انقلابی اور مکمل انقلابی تو وہ لوگ ہیں، وہ لوگ جو قربانی دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ لہذا ہم انقلابیت کو صرف ان افراد تک محدود نہ کریں جو امام خمینی کی جدوجہد کے دور میں آپ کے ہمراہ تھے یا امام خمینی کو جانتے تھے اور آپ کا ساتھ دے رہے تھے۔ نہیں، انقلاب تو ایک بہتا ہوا دریا ہے اور پوری تاریخ میں جو لوگ ان معیارات پر پورے اتریں گے اور محنت کریں گے وہ انقلابی سمجھے جائیں گے، خواہ انھوں نے امام خمینی کو نہ دیکھا ہو۔ جیسے آپ نوجوانوں کی اکثریت ہے۔
یہ تصور بھی غلط ہے کہ اگر ہم نے کسی کے بارے میں کہہ دیا کہ فلاں انقلابی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انتہا پسند ہے۔ یا جب ہم انقلابیوں کی طرف اشارہ کرنا چاہیں تو انتہا پسند کا لفظ استعمال کریں۔ نہیں، یہ غلط ہے۔ انقلابی ہونے کا مطلب انتہا پسند ہونا نہیں ہے۔ یہ دوہرے معیارات جو اغیار اور ایران دشمن طاقتوں کے پھیلائے ہوئے ہیں، ایران کے اندر اور ہماری سیاسی ثقافت میں جگہ نہ بنانے پائیں! وہ لو‏گ عوام کو انتہا پسند اور اعتدال پسند میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اعتدال پسند اور انتہا پسند کی بحث نہیں ہے کہ انقلابی افراد کو انتہا پسند اور غیر انقلابی لوگوں کو اعتدال پسند کہا جائے! یہ اغیار کی طرف سے پھیلائی جانے والی دوگانگی ہے۔ اس کی ترویج ان کی نشریات، ان کے پروپیگنڈوں اور ان کے بیانوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ہمیں ان الفاظ کو دہرانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انقلابی صرف انقلابی ہوتا ہے۔
یہ بھی غلط ہے کہ ہم جتنے بھی انقلابی ہیں سب سے ایک ہی طرز کے انقلابی عمل کی توقع رکھیں۔ یا سب سے ایک ہی درجہ کی انقلابیت کی امید رکھیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ دینی طلبا کی زبان میں یوں کہا جانا چاہئے کہ انقلابیت 'مقول بہ تشکیک' ہے (یعنی اس کے الگ الگ درجے ہیں)۔ ممکن ہے کوئی شخص انقلابی مفاہیم اور انقلابی اقدامات کے سلسلے میں بہتر انداز سے عمل کرے اور دوسرا شخص اس خوبی کے ساتھ عمل نہ کر سکے، لیکن راستہ اس کا بھی وہی ہو۔ اب اگر کسی نے بہترین انداز سے عمل نہیں کیا یا مکمل طور پر عمل نہیں کیا تو اس پر غیر انقلابی ہونے یا انقلاب دشمن ہونے کا الزام لگا دیں تو یہ غلط ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص ایسا ہے جس کے اقدامات سو درجے کی قدر و قیمت رکھتے ہیں اور دوسرا شخص ہے جس کے اقدامات کی قیمت اتنی نہیں کچھ کم ہے۔ کوئی تیسرا ہے جس کے اقدامات کی ارزش اور بھی کم ہے، مگر یہ سب اسی راستے پر گامزن ہیں۔ کلیدی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان معیارات پر پورا اترتا ہو۔ اگر یہ معیارات اس میں موجود ہوئے تو وہ انقلابی فریق، انقلابی شخص، انقلابی جماعت، انقلابی حکومت، انقلابی ادارہ مانا جائے گا۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ ہم ان معیارات سے واقف ہوں۔
انقلابی ہونے کی کچھ نشانیاں ہیں۔ میں یہاں پانچ نشانیوں اور معیارات کا ذکر کروں گا۔ البتہ اور بھی کچھ خصوصیات بیان کی جا سکتی ہیں، لیکن میں سر دست انقلابی ہونے کی پانچ نشانیوں کا ذکر کروں گا اور ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے اندر یہ نشانیاں اور معیارات پیدا کریں اور انھیں قائم رکھیں، خواہ ہم کسی بھی شعبے میں ہوں۔ کوئی فن و ہنر کے میدان میں ہے، کوئی صنعتی شعبے میں ہے، کوئی سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے، کوئی علمی کاوشوں میں مصروف ہے، کوئی اقتصادی و تجارتی میدان میں کام کر رہا ہے۔ کچھ فرق نہیں پڑتا، یہ معیارات اور یہ نشانیاں ملت ایران کی ہر فرد کے اندر موجود ہو سکتی ہیں۔ میں پانچ نشانیاں بیان کروں گا۔ ان میں پہلی نشانی ہے؛ انقلاب کے بنیادی اقدار اور اصولوں کا پابند رہنا، دوسری نشانی ہے؛ انقلاب کے اہداف کو مد نظر رکھنا اور ان تک رسائی کے لئے پرعزم رہنا، انقلاب کے اعلی اہداف اور امنگیں ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے اور ان تک رسائی کے لئے ہمارے حوصلے بلند رہنے چاہئے۔ تیسری نشانی ہے؛ ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کا پابند رہنا، اس میں سیاسی خود مختاری، اقتصادی خود مختاری، ثقافتی خود مختاری جو سب سے زیادہ اہم ہے، سیکورٹی کے شعبے کی خود مختاری شامل ہے۔ چوتھی نشانی؛ دشمن، اس کے اقدامات اور اس کی سازشوں کی طرف سے محتاط رہنا اور اس کی پیروی نہ کرنا۔ البتہ اس کے لئے دشمن کی شناخت حاصل کرنا، اس کی سازشوں اور منصوبوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ قرآن نے اس عدم پیروی کو 'جہاد کبیر' قرار دیا ہے۔ میں نے حالیہ عرصے میں دو تین دفعہ اس بارے میں گفتگو کی ہے (8)، پانچویں نشانی؛ دینی و سیاسی تقوی ہے، یہ بھی بہت اہم ہے۔ اگر کسی کے اندر یہ پانچ معیارات موجود ہیں تو وہ یقینی طور پر انقلابی ہے۔ البتہ انقلابی ہونے کے درجے جیسا کہ میں نے عرض کیا الگ الگ ہیں۔ میں ان معیارات میں سے ہر ایک کی مختصر تشریح کروں گا۔
ہم نے عرض کیا کہ پہلا معیار اور پہلی نشانی ہے انقلاب کے بنیادی اصولوں اور اقدار کا پابند رہنا۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجتماع میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر کے بنیادی اصولوں کا ذکر کیا تھا، یہی ہمارے بنیادی اصول ہیں۔ پہلا اصول ہے امریکی اسلام کے مقابلے میں حقیقی اور خالص اسلام کی پابندی۔ حقیقی اسلام امریکی اسلام کے مد مقابل ہے۔ امریکی اسلام کی دو شاخیں ہیں؛ ایک ہے رجعت پسند اسلام اور دوسرا الحادی اسلام۔ یہ امریکی اسلام ہے۔ استکبار اور مادی طاقتوں نے اسلام کی ان دونوں قسموں کی حمایت کی ہے اور کر رہی ہیں، کہیں وہ اس اسلام کو وجود میں لاتی ہیں، کہیں اس کی رہنمائی کرتی ہیں، کہیں اس کی مدد کرتی ہیں۔ حقیقی اسلام اس کے مد مقابل ہے۔ حقیقی اسلام وہ ہے جو ہمہ گیریت رکھتا ہے، انسان کی شخصی اور انفرادی زندگي سے لیکر اسلامی نظام حکومت کی تشکیل تک سب کچھ اس کے اندر موجود ہے۔ حقیقی اسلام وہ ہے جو خاندان کے اندر اور تنہائی میں ہر جگہ ہماری اور آپ کی ذمہ داریوں اور فرائض کا تعین کرتا ہے۔ معاشرے کے اندر ہماری ذمہ داریوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے، اسلامی نظام کے تعلق سے اور اسلامی نطام قائم کرنے کے بارے میں ہماری ذمہ داریاں بیان کرتا ہے۔ یہ ہے حقیقی اسلام۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے جس کا پابند رہنا ضروری ہے۔
ایک اور بنیادی اصول ہے عوام کو محور و مرکز ماننا۔ جب ہم عوامی ہونے اور عوام کو محور سمجھنے کی روش کو اسلام سے جوڑتے ہیں تو دونوں کا آمیزہ اسلامی جمہوریہ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہی ہے اسلامی جمہوریہ کا مفہوم۔ محور و مرکز عوام ہیں، سارے اہداف و مقاصد عوام کے لئے ہیں، مفادات عوام کے لئے ہیں، مال و منال سب کچھ عوام کا ہے، اختیارات عوام الناس کے ہاتھ میں ہیں، یہ عوامی ہونے کا تقاضا ہے۔ اسلامی نظام میں عوام کی رائے، عوام کی مرضی، عوام کا اقدام، عوام کا عمل، عوام کی شراکت اور عوام کی موجودگی بنیادی چیز ہے۔ یہ بھی بنیادی اصولوں میں شامل ہے اور اس پر دل کی گہرائی سے یقین و عقیدہ رکھنا چاہئے۔
ان بنیادی اقدار اور اصولوں میں سے ایک ہے پیشرفت میں یقین، تبدیلی میں یقین، تکامل میں یقین، ماحول سے سازگار رشتہ لیکن ان انحرافات اور غلطیوں سے اجتناب کے ساتھ جو ممکن ہے کہ اس راستے میں سرزد ہوں۔ تغیر و تکامل کا جہاں تک مسئلہ تو ہماری فقہ بھی، ہمارے ماہرین عمرانیات بھی، ہمارے ماہرین بشریات بھی، ہماری سیاست بھی، ہماری گوناگوں روشیں بھی سب روز بروز بہتر ہونی چاہئیں۔ البتہ متعلقہ ماہرین کے ذریعے، اہل نظر افراد کے توسط سے۔ اہل تدبر اور ان افراد کے ہاتھوں جو نئی راہوں کی تعمیر کی لیاقت رکھتے ہیں۔ ناتجربہ کار اور بڑے بڑے دعوے کرنے والے نااہل افراد کچھ نہیں کر سکتے۔ اس نکتے پر توجہ رہنی چاہئے۔ یہ ساری چیز اس راستے کی مانند ہیں جن میں دائیں بائیں نکل جانے کے امکانات ہوتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ درمیانی حصے سے آگے بڑھا جائے۔
اسلامی نظام کے بنیادی اقدار اور اصولوں میں ایک اور چیز ہے محروم طبقات کی پشت پناہی، ایک اور اصول ہے مظلومین کی حمایت خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہوں۔ یہ انقلاب کے بنیادی اقدار ہیں۔ انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئي شخص، کچھ افراد یا کوئی جماعت محروم اور کمزور طبقات کی جانب سے بے اعتنائی برتے یا مظلومین عالم کی طرف سے غفلت برتے تو گویا یہ معیار اور نشانی اس کے اندر معدوم ہے۔
اگر ان اقدار کی پابندی کی گئی جو پہلے معیار میں شامل ہیں تو پیش قدمی اور اقدام مستقیم اور دائمی ہوگا اور طوفانوں یا حوادث سے اس کی سمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ لیکن اگر یہ التزام نہیں ہے تو اس کی برعکس صورت حال پیش آئے گی یعنی انتہا پسندانہ عمل۔ یعنی آئے دن ایک نئي سمت کی طرف رجحان ہوگا اور ہر واقعہ انسان کو کسی الگ سمت میں لے جائے گا۔
میکِشد از هر طرف، چون پَر کاهی مرا
وسوسه‌ی این ‌و آن، دمدمه‌ی خویشتن‌
طرز عمل یہ ہو جائے گا، ہر دن کسی نئی سمت اور کسی نئی جہت کی طرف میلان۔ یہ اس التزام اور پابندی سے تضاد رکھتا ہے۔ قرآن کی زبان میں اقدار کی اس پابندی اور التزام کو استقامت کا نام دیا گيا ہے؛ فَاستَقِم کَمآ اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک (9) سورہ ھود کی آیہ مبارکہ ہے، یا پھر؛ اِنَّ الَّذِینَ قالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ استَقاموا تَتَنَزَّلُ عَلَیهِمُ المَلٰئِکَةُ اَلّا تَخافُوا وَ لَا تَحزَنوا وَ اَبشِروا بِالجَنَّة (10) قرآنی زبان میں اقدار اور اصولوں کے تئیں اس پابندی و التزام کو استقامت کہا گيا ہے۔
دوسرا معیار ہے اہداف کے حصول کے لئے پرعزم رہنا، اعلی امنگوں سے صرف نظر نہ کرنا، بڑے اہداف کو نظرانداز نہ ہونے دینا۔ اس کی برعکس صورت ہے تساہلی اور قنوطیت۔ بعض لوگ معاشرے کو اور نوجوانوں کو مایوسی میں مبتلا کر دینے پر تلے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں؛ جناب کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ کام ہونے والا نہیں ہے، ہم نہیں کر پائيں گے، اتنی مخالفتوں اور دشمنی کے بعد کیسے ممکن ہے؟! یہ سوچ اس دوسرے معیار سے متصادم ہے۔ دوسرا معیار اور نشانی یہ ہے کہ اعلی اہداف اور بلند امنگوں سے ہم ہرگز صرف نظر نہ کریں اور دباؤ اور سختیوں کے سامنے نہ جھکیں۔ جب آپ ایسے راستے پر چل رہے ہوں کہ سر راہ دشمن بھی موجود ہے تو وہ آپ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرے گا لیکن یہ رکاوٹیں آپ کی پیش قدمی کا عمل روکنے نہ پائيں، آپ کے آگے بڑھنے کے عمل کو مسدود نہ کرنے پائيں، ہم دباؤ کے سامنے ہرگز نہ جھکیں، حاصل ہو چکی کامیابی پر ہی اکتفا نہ کریں، کیونکہ اگر موجودہ صورت حال پر ہم مطمئن ہوکر بیٹھ گئے تو اس کا نتیجہ پسماندگی کی صورت میں نکلے گا۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ نوجوان پیشرفت کی منزلوں کی جانب بڑھیں، مثبت تبدیلیوں کی طرف پیش قدمی کریں۔ اگر ہم اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ گئے جو ہمارے پاس موجود ہے، مثال کے طور پر علمی میدان میں ہم نے کوئی کامیابی حاصل کی، جسے ساری دنیا مانتی ہے، آج ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ ہم نے پیشرفت حاصل کی ہے، لیکن اتنے پر ہی اگر ہم مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں تو یقینا پیچھے رہ جائیں گے، پسماندگی کا شکار ہو جائیں گے۔ اس لئے پیشرفت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، بس آگے ہی بڑھتے رہنا چاہئے یہاں تک کہ چوٹیاں فتح کر لی جائیں۔
تیسرا معیار ہم نے عرض کیا کہ خود مختاری پر قائم رہنا ہے۔ خود مختاری بہت اہم ہے۔ داخلی خود مختاری، علاقائی خود مختاری، عالمی اور بین الاقوامی خود مختاری، ان تمام مسائل میں ملک اور نظام کی خود مختاری کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سیاسی میدان میں کسی فریب میں نہ آئیں۔ وہ دشمن جس کا مطمح نظر یہ ہے کہ حکومتوں اور قوموں کو اپنے پیچھے گھسیٹ لے وہ گوناگوں حربے استعمال کرے گا۔ وہ ہمیشہ دھمکی آمیز لہجے میں بات نہیں کرے گا۔ کبھی کبھی خوشامدانہ لہجے میں بھی بات کرے گا۔ کبھی خط لکھے گا کہ آئيے ہم سے یعنی امریکا سے تعاون کیجئے اور مل کر عالمی مسائل کو حل کرتے ہیں۔ اس انداز سے وہ بات کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر ممکن ہے کہ انسان کا دل چاہنے لگے کو چلو ایک سپر پاور کے ساتھ مل کر بین الاقوامی مسائل کا حل نکالنے میں تعاون کرتے ہیں۔ سفارتی مراسلہ نگاری میں وہ اس لہجے میں بات کرتے ہیں، لیکن در پردہ حقیقت ماجرا کچھ اور ہوتی ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ آپ سے کہہ رہے ہیں کہ آئيے اور ہمارے اس منصوبے کے مطابق اس میدان میں جو ہم نے تیار کر رکھا ہے اپنا کردار ادا کیجئے، وہ کردار ادا کیجئے جو انھوں نے پہلے سے طے کر رکھا ہے۔ آپ آئیے اپنا کام انجام دیجئے تاکہ اس منصوبے کا وہ نتیجہ برآمد ہو جائے جو ان کے پیش نظر ہے۔ ہم جو علاقے کے مسائل کے بارے میں، شام کے قضیئے میں اور شام جیسے دیگر معاملات میں نام نہاد امریکی اتحاد میں شامل نہیں ہوئے، حالانکہ انھوں نے بارہا کہا، زور دیا، مطالبہ کیا، تو اس کی وجہ یہی ہے۔ انھوں نے ایک نقشہ تیار کر رکھا ہے اور کچھ اہداف معین کر رکھے ہیں۔ وہ ان اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ان کا دل چاہتا ہے کہ تمام ملکوں منجملہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قوت، توانائی اور اثر و نفوذ سے استفادہ کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران اس موقع پر دھوکا کھا جائے اور ان کی چال میں آ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے ان کا منصوبہ پورا کر دیا ہے اور یہ خود مختاری کے خلاف ہے۔ یہ بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک پر کوئی شخص یا حکومت مسلط ہو جائے گی اور ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ملکی خود مختاری ختم ہو گئی لیکن اس کے باوجود یہ چیز سیاسی خود مختاری کے برخلاف ہے۔
اقتصادی خود مختاری بھی بہت اہم ہے لیکن اس سے پہلے میں ثقافتی میدان کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ ثقافتی خود مختاری میری نظر میں ان ساری چیزوں سے زیادہ اہم ہے۔ ثقافتی خود مختاری یہ ہے کہ ہم طرز زندگی کے معاملے میں اسلامی و ایرانی طرز زندگی کا انتخاب کریں۔ میں نے دو تین سال قبل طرز زںدگی کے موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی (11)۔ طرز زندگی، معماری، شہری زندگی، انسانی زیست اور سماجی رشتوں سے لیکر دوسرے گوناگوں مسائل تک، ساری چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ طرز زندگی میں مغرب اور اغیار کی پیروی ثقافتی خود مختاری کے منافی ہے۔ آج توسیع پسندانہ نظام اس سلسلے میں کام کر رہا ہے۔ یہی اطلاعات کا جمع کرنا۔ یہ نئے نئے وسائل جو سامنے آ رہے ہیں، یہ سب کسی بھی ملک کی ثقافت پر غلبہ پانے کے وسائل ہیں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ان وسائل کو ہم اپنی زندگی سے خارج کر دیں۔ نہیں، یہ ایسے وسائل ہیں جو نفع بخش بھی واقع ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان وسائل کو دشمن کے غلبے سے باہر نکال لیا جائے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اگر آپ کو ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات سے استفادہ کرنا ہے تو اسے آپ دشمن کے اختیار میں دے دیں۔ انٹرنیٹ بھی اسی طرح ہے، سائیبر اسپیس بھی اسی طرح ہے۔ اطلاعاتی سسٹم اور وسائل بھی اسی طرح ہیں۔ ان چیزوں کو دشمن کے ہاتھ میں نہیں سونپا جا سکتا۔ اس وقت یہ وسائل دشمن کے اختیار میں ہیں، یہ ثقافتی نفوذ اور غلبے کے وسائل ہیں، دشمن کے ثقافتی تسلط کے ذرائع ہیں۔
اقتصادی خود مختاری کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ عالمی برادری کی معیشت کے ہاضمے میں خود کو ہضم ہونے سے بچایا جائے۔ دیکھئے امریکیوں نے ایٹمی مذاکرات کے بعد خود بھی کہا کہ ایٹمی اتفاق رائے عالمی برادری کی معیشت میں ایران کی معیشت کے ادغام کا مقدمہ بننا چاہئے۔ ادغام کا کیا مطلب ہے؟ عالمی برادری کی معیشت کیا ہوتی ہے؟ کیا عالمی برادری کی معیشت کسی منصفانہ، منطقی اور عقلی نظام پر استوار ہے؟ ہرگز نہیں ہے۔ جس معیشت کا نقشہ عالمی برادری نے کھینچا ہے اور جس کی گوناگوں علامات ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں وہ در حقیقت ساری دنیا کے مالیاتی ذرائع پر بنیادی طور پر صیہونی اور کچھ غیر صیہونی سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم کرنے کا نقشہ و خاکہ ہے۔ یہ عالمی برادری کا نظام اور عالمی معیشت ہے۔ عالمی معیشت میں اگر کوئی ملک اپنی معیشت ضم کر دے تو یہ کوئی افتخار کی بات نہیں، نقصان ہے اور خسارہ ہے، یہ ایک شکست ہے۔ پابندیوں میں بھی ان کی نظر معیشت پر ہی تھی۔ انھوں نے پابندیاں لگائیں تو بعد میں خود امریکیوں نے بھی کہا کہ یہ پابندیاں ایرانی معیشت کو مفلوج کر دینے والی ہیں۔ جب ایٹمی مذاکرات ہوئے اور کچھ نتائج تک پہنچے تو اب بھی ان کے نشانے پر ایران کی معیشت ہے۔ یعنی ان کے اہداف میں ہماری معیشت شامل ہے۔ یعنی بین الاقوامی اور عالمی معیشت جس کی باگڈور امریکا کے ہاتھ میں اس کے ہاضمے میں ایران کی معیشت کو ہضم کر لینا۔
اقتصادی خود مختاری کا واحد راستہ ہے استقامتی معیشت۔ چنانچہ اس سال کے لئے ہم نے نعرہ رکھا؛ 'استقامتی معیشت اور اقدام و عمل'۔ خوش قسمتی سے حکومت نے اقدام و عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ جو رپورٹ مجھے دی ہے اس کے مطابق بہت اچھے کام انجام پائے ہیں۔ اگر اسی انداز سے اور اسی مضبوطی کے ساتھ پوری سنجیدگی سے وہ آگے بڑھتی رہی تو یقینی طور پر اس کے ثمرات عوام کے سامنے آئيں گے، استقامتی معیشت۔ سارے بڑے اقتصادی فیصلے مزاحمتی معیشت کے تحت کئے جائیں۔ مثال کے طور پر ہم کسی ملک سے کوئی معاہدہ کر رہے ہیں، کوئی تجارتی یا صنعتی سودا کر رہے ہیں تو یہ پہلے سے واضح ہونا چاہئے کہ معاہدہ استقامتی معیشت کے کس خانے کو مکمل کرنے والا ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت کو رونق حاصل ہو جائے گی تو یہ ہماری بھول ہوگی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بیشک اچھی چیز ہے۔ لیکن یہ مزاحمتی معیشت کے خاکے کے کسی ایک خانے کو پر کر سکتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ اہم ہے اندرونی اور داخلی توانائیوں کو متحرک کرنا۔ ہمارے پاس وسیع پیمانے پر ایسی صلاحیتیں ہیں جو اب تک متحرک نہیں کی جا سکی ہیں، انھیں حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ زیادہ اہم ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی اس کے ساتھ ہونی چاہئے، لیکن یہ کہ ہم ساری چیزوں کو اس پر منحصر مان لیں کہ غیر ملکی آئیں اور یہاں سرمایہ کاری کریں، یہ درست نہیں ہے۔ کبھی کبھی کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار نئی ٹیکنالوجی لاتے ہیں، تو اچھی بات ہے، کوئی حرج نہیں ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ملک میں نئی ٹیکنالوجی آئے۔ البتہ اگر وہ لے آئیں! اگر لے آئیں! اور اگر وہ نہیں لاتے تو میں نے عرض کیا کہ ہمارے یہی نوجوان جنھوں نے نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، ایٹمی میدان میں کامیابیاں حاصل کیں، پیچیدہ ٹیکنالوجیاں ڈیولپ کیں، بعض شعبوں میں انھوں نے ملک کو دنیا کے پانچ، چھے یا دس ملکوں کی صف میں پہنچا دیا، کیا تیل کے کنؤوں کو بہتر پروڈکشن کی پوزیشن میں نہیں پہنچا سکتے؟ یا ہماری ریفائنریوں کی جدیدکاری نہیں کر سکتے؟ یا دوسرے شعبوں کو جہاں ہمیں جدید غیر ملکی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، ڈیولپ نہیں کر سکتے؟ البتہ غیر ممالک کے ساتھ تعاون میں اگر یہ ٹیکنالوجی ملک میں آتی ہے تو ہمیں اس سے اتفاق ہے، ہماری طرف سے کوئی مخالفت نہیں ہے۔
آپ توجہ دیجئے! آج دنیا کے اقتصادی و سیاسی مسائل کے حساس تجزیہ کار ہمارے ملک کی استقامی معیشت پر شرطیں لگا رہے ہیں، یعنی یہ اتنی اہم اور حساس چیز ہے۔ اس بات پر شرط لگا رہے ہیں کہ جس استقامتی معیشت کی بحث ایران نے شروع کی ہے وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔ ماہرین کے درمیان اس پر بحثیں ہو رہی ہیں، شرط بندی کی جا رہی ہے۔ یہ اتنی اہم ہے۔ تو اقتصادی خود مختاری کا مطلب یہ ہے۔ یہ تیسرا معیار اور تیسری نشانی ہے۔
چوتھا معیار ہے دشمن کی طرف سے ہوشیار رہنا۔ ہم دشمن کو پہچانیں، دشمن کی سرگرمیوں کا باریکی سے جائزہ لیتے رہیں۔ جو لوگ مقدس دفاع کے دوران محاذ جنگ پر جا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ فوجی مراکز میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے تھے جو اپنے خاص عناصر کی مدد سے دشمن کی ہر چھوٹی سے چھوٹی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھتے تھے اور ہر اقدام پر چوکنے ہو جاتے تھے۔ مثال کے طور پر آج دشمن نے اگر کوئی منتقلی انجام دی ہے تو اس پر غور کرنا کہ ایسا کیوں کیا ہے، اس کی وجہ تلاش کرتے تھے۔ دشمن کے اقدامات کی طرف سے پوری طرح ہوشیار رہنا۔ دشمن کو پہچانیں، اس کے منصوبوں کو سمجھیں، اس کے اقدامات، اس کی باتوں اور بیانوں پر گہری نظر رکھیں۔ اس کی طرف سے ممکنہ طور پر استعمال کئے جانے والے زہر کا توڑ پہلے سے تیار رکھیں تاکہ اس کے حملے کو ناکام بنا سکیں۔ دشمن کے مقابلے میں یہ چوکسی ہونی چاہئے۔
اس کے برعکس صورت حال کیا ہوگی؟ برعکس صورت حال یہ ہے کہ بعض لوگ سرے سے اسی کا انکار کر دیتے ہیں کہ کوئی دشمن موجود ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا دشمن موجود ہے تو وہ کہتے ہیں کہ 'جناب آپ توہم میں مبتلا ہیں، سازش کے توہم میں مبتلا ہیں۔' جبکہ میری نظر میں سازش کو توہم قرار دینا بھی اپنے آپ میں ایک سازش ہے اور اس سازش کا مقصد ہے حساسیت اور چوکسی کو کم کرنا۔ کہتے ہیں کہ 'جناب دشمن کیا ہوتا ہے، کیسی دشمنی؟' بالکل سامنے کی چیزوں کا انکار کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ امریکا انقلاب کا دشمن ہے، توسیع پسندانہ نظام کی ماہیت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام جیسے نطام حکومت سے دشمنی برتے، ان دونوں کے مفادات میں 180 درجے کا فرق ہے۔ توسیع پسندانہ نظام خیانت کا عادی ہے، جنگ افروزی کرتا ہے، دہشت گرد گروہوں کی تشکیل کرتا ہے، حریت پسند تنظیموں کی سرکوبی کرنے کا عادی ہے، مظلومین پر جیسے فلسطینی قوم اور اسی طرح کی دوسری اقوام پر سخت دباؤ ڈالنا اس کا وتیرہ ہے، 1948 میں صیہونی حکومت کی تشکیل سے پہلے بھی اور اس کی تشکیل ہو جانے کے بعد بھی آج تک وہ فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ یہ توسیع پسندانہ نظام کی پالیسی ہے، اسلام اس پر خاموش تو نہیں رہ سکتا، اسلامی نظام تو خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ توسیع پسندانہ نظام یمن کے عوام پر بمباری کرنے والے ملک کی براہ راست مدد کرتا ہے، امریکا کھلے عام یمن پر ہونے والی بمباری میں براہ راست مدد کر رہا ہے، کس بمباری میں مدد کر رہا ہے؟ محاذ جنگ پر ہونے والی بمباری میں؟ نہیں، اسپتالوں پر ہونے والی بمباری میں، بازاروں پر ہونے والی بمباری میں، اسکولوں پر ہونے والی بمباری میں، عوام کے جمع ہونے والے عمومی میدانوں پر ہونے والی بمباری میں امریکا مدد کر رہا ہے۔ اسلامی نظام تو لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ تو یہ دونوں آپس میں دشمن ہیں، ماہیت و ذات کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اس دشمنی کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ امریکا نے 19 اگست کی بغاوت کروائی اور ملی حکومت کو سرنگوں کر دیا، امریکا اوائل انقلاب سے آج تک ہم سے دشمنی کا برتاؤ کرتا آ رہا ہے، طاغوتی حکومت کے دور میں امریکا نے ساواک کی تشکیل کی جس نے عوام کو اور مجاہدین کو ایذائیں دیں، آٹھ سالہ جنگ میں امریکا نے ہمارے دشمن کا جہاں تک ممکن تھا ساتھ دیا، امریکا نے ہمارے مسافر بردار طیارے کو گرایا، ہماری جیٹی کو تباہ کیا، امریکا نے ہم پر پابندیاں لگائیں، یہ سب دشمنی نہیں ہے؟
جو شخص اور جو تحریک بھی اسلام کے لئے اور اسلام کے نام پر کام کرتی ہے، اگر اس نے امریکا پر اعتماد کیا تو اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے، اس کا خمیازہ اسے ضرور بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ کچھ نے یہ خمیازہ بھگتا بھی ہے۔ انھیں حال کر چند برسوں کے دوران اسلامی تحریکوں نے مصلحت کوشی کے تحت، بقول خود عقل سیاسی کے تحت، اپنے اس اقدام کے تحت جسے وہ ٹیکٹک قرار دیتے ہیں، امریکیوں سے پینگیں بڑھائیں، ان پر اعتماد کیا تو اس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑا، ضرب کھانی پڑی اور آج اسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ جو کوئی بھی اسلام کے نام پر اور اسلام کے لئے کام کر رہا ہے اگر اس نے امریکا پر اعتماد کیا تو اس سے یقینا بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔ ویسے تو ہمارے چھوٹے بڑے بہت سے دشمن ہیں، معمولی دشمن بھی ہیں حقیر دشمن بھی ہیں، لیکن اصلی دشمنی امریکا کی جانب سے، خبیث برطانیہ کی جانب سے ہے۔ واقعی اسے خبیث برطانیہ ہی کہنا چاہئے، ماضی میں بھی طاغوتی (شاہی) حکومت کے اوائل سے لیکر اسلامی انقلاب کے زمانے تک اور اسی طرح انقلابی تحریک شروع ہو جانے کے بعد سے لیکر انقلاب کامیابی ہو جانے تک اور انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آج تک ہمیشہ برطانیہ نے ہم سے دشمنی نکالی ہے۔ اس موقع پر بھی امام (خمینی) کی برسی کی مناسبت سے برطانوی حکومت کے تشہیراتی ادارے نے امام (خمینی) کے خلاف ایک نام نہاد دستاویزی فلم جاری کی ہے، ہمارے عظیم، پاکیزہ و طاہر امام کے خلاف دستاویز جاری کی ہے! یہ دستاویز کہاں سے حاصل کی ہے؟ امریکی ذرائع سے حاصل کی ہے! جو امریکی تقریبا تین سو مسافروں سے بھرے طیارے کو مار گراتے ہیں کیا جعلی دستاویز بنانے میں کوئی دریغ کریں گے؟ برطانیہ کی دشمنی ایسی ہے۔ منحوس و سرطانی صیہونی حکومت کی جانب سے دشمنی ہے۔ یہ اصلی دشمن ہیں۔ اس دشمن کو پہچاننا اور اس کے اقدامات کی طرف سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ حتی اگر وہ کوئی اقتصادی نسخہ بھی ہمیں دیں تو اسے بھی بہت احتیاط سے دیکھنا چاہئے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی دشمن آکر انسان کو کوئي دوا دے اور کہے کہ اس دوا کو کھاؤ فلاں بیماری ٹھیک ہو جائےگی۔ ظاہر ہے آپ احتیاط کریں گے کیونکہ یہ امکان ہے کہ اس دوا کے اندر زہر ملا دیا گيا ہو۔ اسی طرح دشمن کی سیاسی تجاویز اور اقتصادی تجاویز کو بھی بہت احتیاط اور ہوشیاری سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کے سلسلے میں حساس اور بیدار رہنے کا یہی مطلب ہے۔ اگر ہوشیاری اور چوکسی ہوگی تو انسان، دشمن کی پیروی سے بچے گا اور ہم نے عرض کیا ہے کہ عدم پیروی جہاد کبیر ہے۔ یہ رہا چوتھا معیار۔
پانچواں اور آخری معیار ہے دینی و سیاسی تقوی جو شخصی تقوے سے الگ ہے، البتہ وہ بھی اپنی جگہ لازمی ہے۔ ایک شخصی و انفرادی تقوا ہوتا ہے کہ ہم اور آپ خود کو گناہ سے بچائیں، اپنی حفاظت کریں۔؛ قُوا اَنفُسَکُم وَ اَهلیکُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَ الحِجارَة (12) خود کو دوزخ کی آگ سے بچائیں، غضب پروردگار کی آگ سے دور رکھیں، یہ شخصی تقوا ہے۔ سماجی تقوی، جس کا تعلق سماج سے ہے، یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کے لئے جن کا مطالبہ اسلام نے ہم سے کیا ہے سعی و کوشش کریں۔ وہ تمام اہداف اور امنگیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اسلام کے اعلی اہداف ہیں۔ یعنی یہ صرف عقلی نتیجہ گیری نہیں ہے، ہم نے جو عرض کیا کہ ان اہداف کا پابند رہا جائے، سماجی مساوات کے لئے کام کیا جائے، محروم طبقات کی پشت پناہی کی جائے، مظلومین کی مدد کی جائے، ظالم و استکباری قوت کا مقابلہ کیا جائے، اس کے دباؤ میں ہرگز نہ آیا جائے، یہ سب اسلامی مطالبات ہیں۔ اسلام نے ان چیزوں کا ہم سے مطالبہ کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف انسانی اور عقلی اندازے ہوں، یہ دینی فریضہ بھی ہے۔ جو بھی ان چیزوں کو اسلام سے الگ کرے اس نے اسلام کو سمجھا نہیں ہے، جو بھی اسلام کے معرفتی پہلو کو اور اسلام کے عملی پہلو کو عوام الناس کی سماجی زندگی سے اور عوام کی سیاسی زندگی سے الگ کرے طے ہے کہ اس نے اسلام کو نہیں پہچانا ہے۔ قرآن ہم سے کہتا ہے؛ اُعبُدُوا اللهَ وَ اجتَنِبُوا الطّاغوت (13) اللہ کی بندگی کا مطلب ہے اس کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرنا اور طاغوت سے اجتناب۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛ اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَرُوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلُوا اَولِیآءَ الشَّیطٰنِ اِنَّ کَیدَ الشَّیطٰنِ کانَ ضَعیفًا» (14) یہ قرآن کے اوامر ہیں۔ ہم جو خود کو، اپنے عوام کو، اپنے نوجوانوں کو اور اپنے حکام کو ان چیزوں کے تعلق سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ صرف فکری و عقلی سفارشات نہیں ہیں، یہ محض سیاسی ہدایات نہیں ہیں، یہ در حقیقت دینی مطالبات ہیں اور ان کو ملحوظ خاطر رکھنا دینی تقوی ہے۔ یہی دینی تقوا ہے اور سیاسی تقوی بھی اسی میں شامل ہے۔ اگر یہ دینی تقوی اپنے اندر پیدا کر لیا جائے تو سیاسی تقوا بھی پیدا ہو جائے گا۔ سیاسی تقوے کا مطلب یہ ہے کہ انسان لغزش کی ان جگہوں پر جانے سے جنھیں دشمن اپنے مفاد کے لئے استعمال کر سکتا ہے، پرہیز کرے۔
میں آخر میں کچھ سفارشات کرنا چاہوں گا۔ ہم نے جو روڈ میپ بیان کیا امام (خمینی) اس کا قابل تقلید نمونہ ہیں، واقعی نمونہ کامل ہیں۔ ان تمام معیارات میں امام (خمینی) بلند ترین مقام پر نظر آتے ہیں۔ امام (خمینی) کے ساتھ برسوں ہماری معاشرت رہی ہے، آپ کا ساتھ رہا ہے۔ اس زمانے میں بھی جب آپ قم میں تدریس میں مصروف تھے، اس زمانے میں بھی جب نجف اشرف میں جلا وطنی کا دور گزار رہے تھے، اس وقت بھی جب حکومت اور اقتدار کی چوٹی پر تھے اور بین الاقوامی سیاسی اعتبار کے بام ثریا پر تھے۔ ہم نے ان تمام حالات میں امام (خمینی) کو دیکھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان تمام معیارات میں جن کا ہم نے ذکر کیا، امام (خمینی) بلند ترین مقام پر فائز تھے۔ امام (خمینی) کے فرمودات اور سیرت پر توجہ دیجئے۔ صحیفہ امام کو ہمارے عزیز نوجوان ضرور پڑھیں، اس سے خود کو مانوس بنائیں۔ امام (خمینی) کا وصیت نامہ پڑھیں، اس سے بھی خود کو مانوس بنائیں۔ اس میں غور کریں۔ یہ پہلی سفارش ہے۔
دوسری سفارش؛ ایٹمی مذاکرات میں ہمیں ایک تجربہ ملا۔ اس تجربے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ تجربہ یہ ملا ہے کہ اگر ہم مراعات بھی دیں تب بھی امریکا اپنی تخریبی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔ ہم نے ایٹمی مذاکرات میں اس کا تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے۔ ہم نے گروپ پانچ جمع ایک کے تحت بھی اور الگ سے بھی امریکا سے مذاکرات کئے ایٹمی قضیئے کے بارے میں۔ ہمارے برادران عزیز اور محنتی عہدیداران ایک مشترکہ نتیجے پر پہنچ بھی گئے، نتیجے تک پہنچ گئے۔ فریق مقابل یعنی امریکا نے کچھ چیزوں کا وعدہ بھی کر لیا۔ اسلامی جمہوریہ نے تو اپنے وعدے پورے کر دئے۔ لیکن وعدہ خلاف، عہد شکن اور عیار فریق مقابل بہانہ جوئی کر رہا ہے، اب تک صرف بہانہ جوئی کرتا رہا ہے۔ تو کوئی بات نہیں، اس طرح ایک تجربہ تو مل ہی گیا۔ ویسے بعض لوگ اس تجربے سے پہلی بھی جانتے تھے، لیکن جو لوگ نہیں جانتے تھے وہ اب جان لیں کہ آپ امریکا سے اگر کسی اور مسئلے میں بھی مذاکرات کریں، بحث و گفتگو کریں، پھر آپ اپنے موقف سے کسی حد تک پسپائی اختیار کر لیں، مراعات دے دیں تب بھی وہ اپنی شرپسندی نہیں چھوڑے گا۔ تمام مسائل میں یہی صورت حال ہے۔ انسانی حقوق کی بحث ہو، میزائل توانائی کی بحث ہو، دہشت گردی کا مسئلہ ہو، فلسطین کا قضیہ ہو، لبنان کا موضوع ہو، کسی بھی قضیئے میں آپ فرض کیجئے، ویسے یہ محال ہے، کہ ہم اپنے موقف سے قدرے پیچھے ہٹ گئے، نظر انداز کر دیا تو یاد رکھئے کہ امریکا اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔ وہ پہلے تو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ سامنے آئے گا لیکن جب عملی اقدام کی باری آئے گی تو عیاری شروع کر دے گا، اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرے گا۔ یہ ملت ایران کے لئے ایک اہم تجربہ ثابت ہوا ہے۔ ہمیں اس تجربے کو غنیمت سمجھنا چاہئے، یہ دوسری سفارش ہے۔
توجہ فرمائیے! تیسری سفارش پر توجہ دیجئے تو شاید ممکن ہے کہ آپ اپنے ان نعروں میں بعض پر نظر ثانی کریں (15)۔ تیسری سفارش یہ ہے کہ حکومت اور ملت کے اتحاد کو ٹوٹنے نہ دیجئے۔ ممکن ہے کہ آپ کو ایک حکومت پسند ہو اور دوسری پسند نہ ہو، جبکہ کسی دوسرے شخص کو وہ پہلی حکومت ناپسند ہو اور دوسری پسند ہو۔ یہ ممکن ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ انتخابی رقابت اپنی جگہ، اختلاف نظر اپنی جگہ، یہاں تک کہ تنقید بھی اپنی جگہ، لیکن حکومت اور عوام کو متحد رہنا چاہئے۔ یعنی اگر اس ملک میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جس سے پورے ملک کے لئے خطرہ پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں حکومت اور عوام کو شانہ بشانہ آگے بڑھنا چاہئے۔ کدورت اور رنجش کا ماحول نہیں ہونا چاہئے۔ عوام اور حکومت کا اتحاد قائم رکھئے۔ یہ تمام حکومتوں کے زمانے میں میری سفارش رہی ہے۔ امام (خمینی) کی رحلت کے بعد جب سے میں نے (رہبر انقلاب اسلامی کا) عہدہ سنبھالا ہے، میری یہی سفارش رہی ہے۔ حالانکہ الگ الگ حکوموتوں کی الگ الگ پالیسیاں رہی ہیں۔ الگ الگ رجحانات کی حکومتیں رہی ہیں۔ ہر دور میں ملت اور حکومت کو متحد رہنا چاہئے۔ اتحاد کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ یہ چیز تنقید کرنے، تبصرہ کرنے اور مطالعہ کرنے میں رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ ان میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ انتخابی رقابت اپنی جگہ ہے۔ تینوں محکمے متحد رہیں۔ حکومت، مقننہ اور عدلیہ متحد ہیں تب بھی اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ حکومت کے سلسلے میں پارلیمنٹ اپنے فرائض پر عمل کرے، اپنی آئینی ذمہ داریوں پر عمل کرتی رہے، حکومت سے سوال کرے، مطالبہ کرے، چاہے، قانون سازی کرے، امپیچمنٹ وغیرہ جیسے اقدامات انجام دے۔ یہ سب کچھ ہو لیکن شعبے آپس میں متحد رہیں۔ ملک کے اساسی مسائل کے بارے میں ایک پلیٹ فارم پر نظر آئيں۔ سب کے سب۔ مسلح فورسز بھی، عوام الناس بھی۔ تو ہماری تیسری سفارش یہ ہے کہ اپنے ذاتی احساسات و جذبات کو یا جماعتی احساسات کو بلکہ سرے سے جذبات کو کبھی بھی عقل و منطق پر غالب نہ آنے دیجئے۔ منطق یہ ہے کہ جب دشمن دور سے ہمیں دیکھے تو اسے یہ محسوس ہو کہ یہاں سب متحد ہیں، اسے یکجہتی نظر آئے۔ اگر ایسی باتیں ہوں گي جن سے عوام کے اندر یا اسلامی نظام کے اندر تقسیم، دوگانگی اور اختلاف کا عندیہ ملے تو یہ ملک کے نقصان میں ہوگا۔
چوتھی سفارش؛ امریکا سے ہمارا مقابلہ در حقیقت ایک محاذ سے مقابلہ ہے۔ ایک محاذ سامنے موجود ہے جس کے مرکز اور محور میں امریکا ہے، لیکن اس کا پھیلاؤ مختلف جگہوں یہاں تک کہ بعض اوقات ملک کے اندر تک پہنچ جاتا ہے، آپ اس سے ہرگز غافل نہ ہوئیے۔ امریکا کی معاندانہ کارروائیوں کی طرف سے ہوشیار رہنے کا یہی مطلب ہے کہ اس پورے محاذ پر توجہ رکھئے۔ یاد رکھئے کہ دشمنی صرف امریکا کے سیکورٹی ادارے کی طرف سے نہیں برتی جاتی، اس سیکورٹی ادارے کے آلہ کار بھی ہوتے ہیں اور یہ آلہ کار بعض اوقات علاقائی حکومتوں کی شکل میں یا کسی اور صورت میں سامنے آتے ہیں۔
پانچویں سفارش؛ اپنے اور دشمن کے درمیان خط فاصل کو نمایاں رکھئے۔ جو انقلاب کا دشمن ہے، اسلامی نظام کا دشمن ہے یا امام (خمینی) کا دشمن ہے، اپنے اور اس کے درمیان خط فاصل کو زائل نہ ہونے دیجئے۔ ہمارے ملک میں بعض حلقوں نے اس نکتے سے غفلت برتی اور دشمن اور اپنے درمیان سرحد کو قائم نہیں رکھا، زائل اور کمرنگ ہونے دیا۔ جیسے ملک کی سرحد ہوتی ہے، اگر سرحد نہ ہو تو ممکن ہے کہ دوسری طرف سے کوئی غلطی سے اس طرف چلا آئے یا ادھر سے کوئي غلطی سے دوسری طرف چلا جائے۔ لہذا سرحدی خطوط کو واضح اور نمایاں رکھنا چاہئے۔
چھٹی اور آخری سفارش؛ «اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم»(16) کے وعدے پر یقین و اطمینان رکھئے۔ ملت عزیز اور عزیز نوجوان یاد رکھیں کہ فتح آپ کو ملے گی اور دشمن بس دیکھتے رہ جائیں گے۔
پالنے والے! ہمارے عزیز امام (خمینی) کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمارے شہدائے عزیز کو صدر اسلام کے شہدا کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! کسی بھی جگہ، کسی بھی لباس اور کسی بھی شکل میں اس ملک کی خدمت کرنے والوں کی حفاظت، تائید اور ہدایت فرما۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ ہمیں ان بزرگوار کی دعاؤں میں جگہ دے۔ پروردگارا! ہماری گفتار و رفتار کو اپنی مرضی اور اپنے راستے کے مطابق قرار دے۔ اپنے کرم سے اسے قبول فرما۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ ہم زندہ رہیں تو اسی راستے پر اور موت آئے تو اسی راستے پر۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۱) اقبال‌الاعمال، صفحہ ۶۸۷، مناجات شعبانیّه؛ « اے میرے پروردگار مجھے ساری توجہ صرف اپنی بارگاہ کی طرف مرکوز کرنے کی توفیق دے اور ہمارے دلوں کی آنکھوں کو اپنی نظر کی تابندگی سے منور فرما۔
۲) ایضا
۳) سوره‌ توبه، آیت نمبر 61 کا ایک حصہ؛
۴) سوره‌ قلم، آیت نمبر ۴ کا ایک حصہ؛ «بیشک (اے پیغمبر) آپ اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہیں.»
۵) سوره‌ آل عمران، آیت نمبر ۱۵۹ کا ایک حصہ؛ «پس رحمت پروردگار (کی برکت) سے، تم ان کے ساتھ رحمدل ہو گئے»
۶) حاضرین کے فلک شگاف نعرے
۷) سوره‌ آل ‌عمران، آیت نمبر ۱۷۳؛ « وہی لوگ جن سے کچھ افراد نے کہا کہ لوگ تم سے جنگ کرنے کے لئے اکٹھا ہو گئے ہیں، تو تم ان سے ڈرو، (لیکن اس بات سے) ان کا ایمان اور مستحکم ہوا اور انھوں نے کہا؛ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین پشت پناہ ہے۔
‌8) منجملہ ماہرین اسمبلی کے ارکان سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 26 مئی 2016 کا خطاب
9) سوره‌ هود، آیت نمبر ۱۱۲ کا ایک حصہ؛ « تو جیسا کہ تمھیں حکم دیا گیا کہ استقامت کا مظاہرہ کرو اور وہ بھی استقامت کا مظاہرہ کرے جس نے آپ کے ساتھ توبہ کیا۔»
10) سوره‌ فصّلت، آیت نمبر ۳۰ کا ایک حصہ « در حقیقت جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا معبود اللہ ہے، پھر اس پر استقامت کا مظاہرہ کیا، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، (اور کہتے ہیں) کہ خوفزدہ اور غمگین نہ ہو اور اس بہشت پر خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا گيا ہے۔»
11) منجملہ صوبہ خراسان شمالی میں نوجوانوں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب مورخہ 14 اکتوبر 2012
12) سوره‌ تحریم، آیت نمبر ۶ کا ایک حصہ: «خود کو اور اپنے قرابتداروں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔»
13) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۳۶ کا ایک حصہ «... اللہ کی پرستش کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔»
14) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۶؛ «جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، تو شیطان کے مددگاروں سے جنگ کرو کہ شیطان کا نیرنگ آخرکار) کمزور پڑ جانے والا ہے۔
15) حاضرین کے نعرے‌
16) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ « اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔»