آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ استکباری طاقتوں کا مقصد فلسطین کے محوری موضوع کو ذہنوں سے نکال کر صیہونی حکومت کے لئے آزادانہ سانس لینے کی فضا فراہم کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان سازشوں کے مقابلے کا واحدہ راستہ حقیقی دشمن کی شناخت اور اس کے سامنے استقامت ہے، چنانچہ ملت ایران نے ثابت بھی کر دیا ہے کہ پیشرفت کا واحد طریقہ استقامت و ثابت قدمی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کو محصور و مظلوم فلسطینی عوام پر اپنے مظالم کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے اور کسی بھی اسلامی حتی باضمیر غیر اسلامی ملک کو بھی مسئلہ فلسطین فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یمن کے حالات اور عوام کے گھروں، اسپتالوں، مساجد اور بنیادی تنصیبات پر روز مرہ کی بمباری ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جارح قوت کو جارحیت بند کرنا چاہئے اور عالم اسلام کو چاہئے کہ جارح قوت کے خلاف جس نے یمن کے عوام پر بلا وجہ حملہ کیا ہے، تادیبی کارروائی کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

عید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو، اسلامی ملکوں کے سفیروں کو جو یہاں تشریف رکھتے ہیں اور تمام ملت ایران کو۔ واقعی سزاوار تو یہی ہے کہ انسان اپنے پورے وجود سے اور دل کی گہرائی سے اس عظیم، مومن، وفادار، شجاع اور فداکار قوم کو عید فطر کی مبارکباد پیش کرے۔ اسی طرح اس عید کی مبارکباد عظیم الشان مسلم امہ کو پیش کرتا ہو کہ «اَلَّذى جَعَلتَهُ لِلمُسلِمینَ عیدا»؛(2) اللہ تعلی نے اس دن کو امت اسلامیہ کے لئے عید کا دن قرار دیا ہے۔
اس عید میں عوام الناس کو دو بنیادی چیزوں کی دعوت دی گئی ہے؛ ایک ہے توحید اور دوسرے اتحاد۔ توحید نماز عید کے اس پرمغز اور نہایت عمیق ذکر میں موجود ہے، جس کے بعد زکات کا ذکر آیا ہے۔ یعنی نماز بھی ہے اور اس کا تکملہ زکات ہے۔ یہ دن توحید کا مظہر ہے۔ اتحاد کا سرچشمہ بھی یہی توحید ہے، یہ مسلمانوں کی ہمدلی کا سرچمشہ ہے۔ عید کے اجتماعات میں مسلمانوں کا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا، ان کے دلوں کا مرکز واحد کی جانب مرکوز ہونا، عظمت الہی کے مرکز کی جانب، قدرت و رحمت حق کے مرکز کی جانب۔ یہ ان اوصاف کا حامل دن ہے۔
البتہ آج دنیائے اسلام اتحاد سے محروم ہے۔ مشکلات اور تصادم سے دوچار ہے۔ جب آشفتگی اور انتشار پیدا ہو جائے، جب مسلمانوں کے درمیان تصادم شروع ہو جائے تو روحانیت بھی کم ہو جاتی ہے۔ روحانیت اور ایمان کا کافی حد تک دارومدار آسودگی اور امن و طمانیت پر ہوتا ہے؛ هُوَ الَّذى اَنزَلَ السَّکینَةَ فى قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِهم (3) اگر 'سکینہ' ہے، اگر طمانیت و آسودگی ہے، اگر تحفظ و سلامتی ہے تو پھر وہ مرحلہ آئے گا کہ انسان اپنے ایمان میں اضافہ کریں، عمل صالح کے ذریعے، ذکر و مناجات اور توجہ الی اللہ کے ذریعے۔ اگر کسی اسلامی ملک میں، کسی اسلامی معاشرے میں لوگوں کو اپنی جان و مال کی فکر لاحق ہو، وہ امن و سلامتی سے محروم ہوں تو وہاں آسودگی اور طمانیت بھی نہیں ہوگی، اگر سکینہ نہ ہو تو ایمان میں اضافہ بھی نہیں ہوگا۔ آج مسلمان ایسے ہی حالات میں الجھے ہوئے ہیں۔
خطبہ نماز عید میں میں نے عوام کی خدمت میں عرض کیا کہ آج بغداد سوگوار ہے۔ بہت سے دوسرے اسلامی ممالک جنگوں کے باعث، خونریزی کے باعث، سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں، شام عزادار ہے، یمن سوگوار ہے، لیبیا میں ماتم چھایا ہوا ہے، بحرین میں سوگ کا عالم ہے۔ امت مسلمہ اتنی مشکلات و مسائل کی حقدار نہیں ہے۔
یہ مشکلات کہاں سے پیدا ہو جاتی ہیں؟ ان مشکلات کی خبیث و ناپاک جڑ کیا ہے؟ دنیائے اسلام میں دہشت گردی کا یہ ناپاک نطفہ کس نے رکھ دیا ہے؟ زبانی طور پر تو سب دہشت گردی سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں، کبھی ظاہری طور پر کچھ عملی اقدام بھی کر دیتے ہیں، صدر محترم کے بقول دہشت گردی کے خلاف ایک نمائشی، جھوٹا اور جعلی الائنس بھی تشکیل دیتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے الگ ہوتی ہے۔ باطنی طور پر وہ دہشت گردی کی ترویج کرتے ہیں۔ ہم وہ شروع کے ایام بھولے نہیں جب بحران شام کے اوائل میں امریکا کے سفیر مخالفین کے درمیان جا پہنچے اور ان کی حوصلہ افزائی شروع کر دی اور مخالفین کو اکسایا کہ وہ ایک سیاسی تنازع کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیں۔ یہ معمولی کارروائی تھی؟ سیاسی تنازعے بہت سے ممالک میں ہیں۔ سیاسی تنازعے کو جنگ میں کیوں تبدیل کیا جائے؟ وہ بھی ایک قوم کے اندر کی جنگ اور برادرکشی کی جنگ میں۔ اس کے بعد تیل کی ناجائز آمدنی کی مدد سے گوشہ و کنار سے نوجوانوں کو جمع کرکے وہاں بھیجا جائے، شام میں کسی طرح اور عراق میں کسی اور انداز سے۔ اب تو خیر اس کا دائرہ وسیع تر ہو گیا ہے؛ بنگلہ دیش، ترکی اور دوسری جگہوں تک یہ سلسلہ جا پہنچا ہے۔ یہ چیزیں دنیائے اسلام کو بدبختی میں دھکیل دیتی ہیں اور یہ بد امنی پیدا کرتی ہیں۔ ہم اپنے دشمن کو آخر پہچان کیوں نہیں پاتے؟ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو اپنے خلاف امریکا کی دشمنی کی اتنی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہمارا تعصب ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ یہ صحیح شناخت پر استوار سوچ ہے۔ یہ سوچ تجربات پر مبنی ہے۔ ہم 37 سال سے اس دشمنی کا تجربہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے اوائل انقلاب سے ہی ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کی تحریک سے دشمنی شروع کر دی تھی۔ انقلاب کے آغاز سے ہی انھوں نے سازش رچنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو اب بھی جاری ہے۔ انھوں نے ایرانی قومیتوں کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی مگر انھیں کامیابی نہیں ملی۔ اپنے آلہ کاروں کو عوام کے خلاف شورش میں استعمال کیا اور کسی حد تک انھیں کامیابی بھی ملی، لیکن آخرکار عوام ان پر غالب آ گئے۔ وہ آج بھی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، تاہم ملت ایران بیدار ہے، حکومت ہوشیار ہے، حکام پوری طرح آمادہ ہیں۔
بد قسمتی سے دوسرے ملکوں میں اور دوسری جگہوں پر ان کا یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا ہے۔ کچھ لوگ پیسے سے، روابط سے، جدید ہتھیاروں سے دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو یہ جدید اسلحے کہاں سے مل رہے ہیں؟ یہ ہتھیار خریدنے کے لئے ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ وہ چیزیں ہیں جنھوں نے دنیائے اسلام کو اور ملت اسلامیہ کو تباہ حال بنا دیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے، اس صورت حال کا ادراک حاصل کرنا چاہئے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی یہی سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ ہم نے بحرین کے مسئلے میں کوئی مداخلت نہیں کی اور آئندہ بھی نہیں کریں گے، تاہم انھیں (بحرینی حکام کو) ہم نصیحت کریں گے کہ اس ملک میں سیاسی تنازع جاری ہے، ایسے اقدامات نہ کریں کہ ایک سیاسی تنازع خانہ جنگی میں بدل جائے۔ اگر ان کے پاس سیاسی خرد ہے، سوجھ بوجھ ہے، شعور و ادراک ہے تو اس طرح کے اقدامات نہ کریں۔ سیاسی تنازعہ اور سیاسی اختلاف کسی بھی ملک میں ہو سکتا ہے۔ ایسا کام کیوں کیا جائے کہ جس کے نتیجے میں قومیں الجھ پڑنے اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے پر مجبور ہو جائیں؟ یہ بہت بڑی غلطی ہے جو بد قسمتی سے بعض دیگر اسلامی ملکوں میں بھی نظر آ رہی ہے۔
امریکا کی سرکردگی میں عالمی استکبار چاہتا ہے کہ یہ علاقہ اپنے معاملات میں اتنا الجھ جائے کہ صیہونی حکومت سکون کا سانس لے سکے۔ یہ مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک جغرافیائی علاقے اور ایک قوم کا سرے سے انکار کر دینا چاہتے ہیں۔ فلسطین کوئی آج گڑھ لیا جانے والا جعلی ملک نہیں ہے۔ فلسطین کی ہزارو‎ں سال پر محیط تاریخ ہے، فلسطینی قوم ایک سرزمین کی مالک قوم ہے، ایک جغرافیائی خطے کی مالک قوم ہے۔ استکبار چاہتا ہے کہ ان حقائق کا انکار کر دے، ملت فلسطین کے وجود کا ہی انکار کر دے۔ آج ملت فلسطین پر یہ صیہونی درندے جو سختیاں اور زیادتیاں کر رہے ہیں اس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑے گا، اسے وہ یاد رکھیں۔ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے۔ مسئلہ فلسطین وہ اہم مسئلہ ہے جسے کسی بھی ملک کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی بھی اسلامی ملک بلکہ بیدار انسانی ضمیر رکھنے والا کوئی بھی ملک ہرگز نہ بھولے، یہ فراموش نہ کرے کہ یہ ایک بنیادی اور اساسی مسئلہ ہے۔ ایک مظلوم قوم ہے، محاصرے میں گھری ایک قوم ہے، ایک قوم ہے جو ستر سال سے مسلسل ظلم و زیادتی برداشت کر رہی ہے۔ اسے ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔ دنیائے اسلام کے دیگر مسائل میرے خیال میں غالبا اس لئے کھڑے کئے گئے ہیں کہ مسلمان مسئلہ فلسطین کو بھول جائیں، اس مقصد سے بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔
آپ یمن کی مثال لے لیجئے! جو کچھ یمن میں رونما ہو رہا ہے وہ ایک المیہ ہے۔ ایک سال اور کچھ مہینوں سے اس ملک کے عوام ایک بے بنیاد وجہ کی بنا ایک نام نہاد اسلامی ملک کے حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ صرف جنگ کے محاذوں پر بمباری نہیں کی جا رہی ہے، اسپتالوں پر بھی بم برسائے جا رہے ہیں، رہائشی مکانات پر بم گرائے جا رہے ہیں، مساجد پر بم گر رہے ہیں، ملک کی بنیادی تنصیبات کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال اسی طرح جاری نہیں رہ سکتی۔ جارح کی جارحیت بند ہونی چاہئے، دنیائے اسلام کو چاہئے کہ جارح قوت کے خلاف تادیبی کارروائی کرے تاکہ آئندہ کوئی جارحیت کا خیال ذہن میں نہ لائے۔
ملت ایران ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی ہے۔ ملت ایران نے ان 37 برسوں میں اپنی استقامت ثابت کر دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ پیشرفت کا راستہ بھی استقامت ہی ہے۔ اگر ملت ایران ہتھیار ڈال دیتی، کمزوری کا مظاہرہ کرتی، دنیا کی بڑی طاقتوں اور متکبر قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتی تو یہ ترقی اسے ہرگز نصیب نہ ہوتی۔ ترقی کا راستہ استقامت و مزاحمت ہے، داخلی ڈھانچے کی تقویت ہے، ملی عزم و ارادے کا استحکام ہے اور اللہ سے رابطے اور رشتے کی گہرائی ہے۔
میرے عزیزو! ماہ رمضان کے اس راز و نیاز کی قدر کیجئے! راتوں کو جاگ کر کی جانے والی ان عبادتوں کی قدر کیجئے، شبہائے قدر میں، دعا و مناجات کی ان نشستوں میں آنکھوں سے بہنے والے ان آنسوؤں، اس طلب نصرت اور خضوع و خشوع کو غنیمت جانئے۔ یہ چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں مومن انسان کے دلوں کو قوت عطا کرتی ہیں، اللہ کی ذات پر اس کے توکل میں اضافہ کرتی ہیں۔ جب آپ اللہ پر توکل کرنے لگتے ہیں تو پھر غیر اللہ کا آپ کو کوئی خوف نہیں رہ جاتا۔ جب آپ غیر اللہ سے ہراساں نہیں ہوں گے تو اپنے اعلی اہداف کی جانب گامزن رہ سکیں گے۔
پالنے والے! ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو جنھوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور ہمیں اس راستے پر پہنچایا اور ان شہدا کی ارواح طاہرہ کو جنھوں نے اسی راہ میں اپنی جانیں قربان کیں، پیغمبر اور آل پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) رہبر انقلاب اسلامی سے اس ملاقات میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے رہبر انقلاب سے پہلے تقریر کی۔
2) مصباح، جلد‌۲، صفحہ ۶۰۴ (قنوت نماز عید)
3) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۴ کا ایک حصہ«وہ وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب پر سکینہ نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ کرے۔»