رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر سماج ان اوصاف سے مزین ہو تو یقینی طور پر تیل کی آمدنی پر انحصار سے آزاد استقامتی معیشت، خود مختار ثقافت، معیار صرف کی اصلاح اور تسلط پسندی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کا جذبہ جیسے اہداف کو جامہ عمل پہنایا جا سکے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ تدریس کا ایک دشوار کام ہے اور اگر یہ کام خلوص نیت کے ساتھ رضائے پروردگار کے لئے انجام دیا جائے تو باعث نجات ہوگا اور تدریس کے پیشے میں خالصانہ نیت کے ساتھ کام کرنے کیلئے سازگار حالات بھی موجود ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا، صیہونی سرمایہ داروں اور بعض استکباری حکومتوں کو عالمی تسلط پسندانہ نظام کا مظہر قرار دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ تسلط پسندانہ نظام چاہتا ہے کہ ملکوں کی آئندہ نسلیں ایسی ہوں کہ عالمی مسائل میں ان کی فکر، ثقافت، نظر اور پسند سب کچھ اسی نظام کی مرضی کے مطابق ہو اور دانشور، سیاسی رہنما اور بااثر افراد بھی اسی طرز پر سوچیں اور چاہیں اور عمل کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوان نسل کی مہارت بڑھانے اور اسے کارآمد بنانے کے لئے فنی اور ہنر آموز مراکز کی اہمیت پر توجہ کو تعلیم و تربیت کے شعبے کی ترجیحات میں قرار دیا اور فرمایا کہ رپورٹوں کے مطابق سماج میں 12 ہزار قسم کے کام اور پیشے پائے جاتے ہیں، تو کیا یہ مناسب ہے کہ الگ الگ استعداد رکھنے والے سارے طلبہ تعلیم کے دوران یکساں انداز سے ایک ہی راستہ طے کریں؟ آپ نے زور دیکر کہا کہ طلبہ کی استعداد کی شناخت اور پھر اس استعداد کی پرورش ہونی چاہئے تاکہ یہ تربیت یافتہ استعداد گوناگوں پیشوں اور کاموں میں جدت عملی کا مظاہرہ کر سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میرے عزیزوں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یوم استاد اور اس دن کی گراں قدر یادیں پیارے بچوں اور میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں کے لئے مسرت بخش اور سعادت و افتخار آفریں ہوں۔
اس دن کی مبارکباد پیش کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ کے شہیدوں کو میں خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا۔ جن میں شہید اساتذہ بھی ہیں جن کی تعداد تقریبا چودہ ہزار ہے جو کوئی معمولی تعداد نہیں ہے، شہید طلبا بھی ہیں جن کی تعداد 36 ہزار سے زیادہ ہے جو مقدس دفاع کے برسوں کے دوران شہید ہوئے۔ اگر اساتذہ کی وہ گراں قدر خدمات نہ ہوتیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان سخت حالات میں طلبہ محاذ جنگ کے لئے روانہ ہوتے یا نہیں، اس طرح یہ افتخار بھی اساتذہ سے متعلق ہے۔
اس کے بعد میں آپ سب کا، ملک کے اساتذہ کی صنف کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، کیونکہ اساتذہ کی صنف ایسی ہے جس نے کم محنتانے اور بہت زیادہ دشواریوں والے کام کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ استاد نوجوانوں اور بچوں کی تربیت کی سختیاں برداشت کرتے ہیں، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، بہت دشوار ہے۔ بڑی سنگین ذمہ داری ہے۔ اساتذہ سے سب کو توقعات بھی رہتی ہیں۔ سب کا دل یہی چاہتا ہے کہ ان کے نونہال اور ان کے نوجوان جب اسکول اور کالج جائیں تو استاد کی تربیت کے سائے میں خاندان کے اندر گلدستے کے پھولوں کی مانند مہکیں! ہر انسان کی یہی آرزو ہوتی ہے۔ استاد سے سب کو توقعات ہوتی ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک استاد کی آمدنی کو کسی سرمایہ دار، کسی دولت مند، کسی تاجر کے بیٹے کی آمدنی کے مقابلے میں رکھ کر دیکھئے! ہر استاد دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر یہ اساتذہ تدریس کا پیشہ اختیار کرنے کے بجائے کوئی اور راستہ چنتے، آمدنی کا کوئی اور ذریعہ تلاشتے تو انھیں زیادہ پیسے ملتے۔ اگر سارے نہیں تو ان میں سے بہت سے اساتذہ کامیابی سے ایسا کر سکتے تھے، لیکن جانتے ہوئے بھی انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ تدریس کے پيچھے جو عزائم اور محرکات ہیں ان میں عشق و محبت اور احساس ذمہ داری بھی ہے۔ اساتذہ قناعت پسندی کے ساتھ مستقبل کی تعمیر میں مصروف رہتے ہیں۔ بڑے صبر و سکون کے ساتھ اور اعلی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے نوجوانوں اور بچوں کی تربیت کی سختیاں اٹھاتے ہیں۔ میں کلیہ قائم نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ ہر صنف اور ہر لباس میں ممکن ہے کہ کچھ ایسے افراد بھی ہوں جو مناسب نہ ہوں، لیکن اساتذہ کی صنف میں عام طور پر وہ افراد ہیں جن کے اندر یہی خصوصیات ہوتی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا۔ ہم نے خود بھی اساتذہ سے درس پڑھا ہے، ان کی باتیں سنی ہیں، ان سے سیکھا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ استاد کیا ہوتا ہے۔
استاد کی ایک اہم خصوصیت جس پر آپ عزیز اساتذہ اور مدرسین کی صنف توجہ دے تو بہت اچھا ہے، یہ ہے کہ اس پیشے میں جس کے تعلق سے میں نے عرض کیا کہ دشواریاں اس میں بہت زیادہ اور آمدنی کم ہے، اخلاص نیت کے ساتھ کام کرنے کے امکانات ہیں، یہ بڑی اہم چیز ہے۔ حیات ابدی میں انسان کی نجات کا وسیلہ اخلاص عمل ہی ہے۔ اللہ کے لئے اور حقیقت کے لئے کام کرنا اور خلوص نیت کے ساتھ کام کرنا نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو بیشتر جگہوں پر عنقا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ اس نے اللہ کے لئے انجام دیا ہے، لیکن بعد میں جب منصفانہ انداز میں غور کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ نہیں، اس میں دوسرے بھی بہت سے محرکات شامل ہیں۔ وَ اَستَغفِرُکَ مِمّا اَرَدتُ بِه‌ وَجهَکَ فَخالَطَنی ما لَیسَ لَک (۲)، یہ دعا نافلہ صبح اور نماز صبح کے درمیان بڑھی جانے والی دعاؤں میں سے ہے جس میں بندہ کہتا ہے کہ خدایا! میں اس عمل سے استغفار کرتا ہوں کہ جسے میں نے تیرے لئے انجام دینا چاہا لیکن اس میں «فَخالَطَنی ما لَیسَ لَک» دوسرے عزائم اور محرکات شامل ہو گئے، غیر الوہی نیت شامل ہو گئی۔ ہمارے بہت سے عمل اسی طرح انجام پاتے ہیں۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں۔ تو جہاں یہ امکانات فراہم ہیں کہ انسان خلوص نیت کے ساتھ عمل انجام دے تو وہ بڑی غنیمت کا مقام ہے اور تدریس کا پیشہ انھیں میں سے ایک ہے۔ آپ اخلاص نیت کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے خلوص نیت کے ساتھ کام کیا تو اس میں برکت بھی ہوگی۔
اس کا واضح، روشن اور بالکل سامنے کا نمونہ ہیں شہید مطہری۔ آیت اللہ مطہری نے خلوص نیت کے ساتھ کام کیا، ان کی کاوشیں فی سبیل اللہ تھیں، ان کے ساتھ ہماری نشست و برخاست رہی ہے۔ ہم نے ان کا کام قریب سے دیکھا ہے، ان کی نیت سے ہم واقف ہیں۔ زمانے اور ضرورت کا ادراک رکھنے والے انسان تھے۔ احتیاج سے بخوبی آگاہ تھے، بخوبی سمجھتے تھے اور خوشنودی خدا کے لئے اس خلا کو اور ان ضرورتوں کو پر کرنے میں لگ جاتے تھے۔ خلوص نیت کے ساتھ کام کرتے تھے، اخلاص کے ساتھ غور و فکر کرتے تھے، بیان کرتے تھے، خامہ فرسائی کرتے تھے، محنت کرتے تھے اور مزاحمت کرتے تھے۔ ان کے اس اخلاص عمل کا ثمرہ یہ ملا کہ ان کی کاوشیں لازوال بن گئیں۔ ان کی شہادت کو دسیوں سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کی کتابیں بقول شیخ سعدی؛ «چون کاغذ زر میبرند» (۳) جو اہل نظر ہیں، جو ذی فہم ہیں اور حقیقت سے آشنائی کے لئے کوشاں ہیں وہ شہید مطہری کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ ہے اخلاص عمل۔
جب آپ خلوص نیت کے ساتھ کام کرتے ہیں تو جتنے بھی نوجوان اور بچے آپ کی نگرانی میں ہیں وہ اس ملک کے لئے ایسا مستقبل تعمیر کر دیں گے کہ یہ مستقبل آپ کے لئے جو ان بچوں کے استاد ہیں سعادت ابدی کا گہوارا بن جائے گا، خواہ آپ کو کوئی بھی نہ پہچانتا ہو۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے اساتذہ کو جنھوں نے آپ کو بچپن میں تعلیم دی، کوئی نہیں پہچانتا، لیکن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم خدمات ان کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوں گی جنھوں نے اس عظیم ہستی کی اس انداز سے تربیت کی اور انھیں ایسا بنایا۔
ہم نے اخلاص کی بات کی اور ہمارا خطاب آپ سے تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اساتذہ کی صنف خلوص نیت کے ساتھ اور قناعت پسندی کے ساتھ کام کر رہی ہے تو ملک کے حکام اساتذہ کے مادی مسائل کے سلسلے میں غفلت برتیں! ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے بارہا کہا ہے اور آئندہ بھی کہتے رہیں گے۔ حکام یاد رکھیں کہ تعلیم و تربیت کے شعبے پر جو بھی بجٹ صرف کر رہے ہیں وہ ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے۔ صرف خرچ نہیں ہے۔ جو پیسہ وہاں صرف ہو رہا ہے، در حقیقت اس کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کو اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس زاویہ فکر کے ساتھ بجٹ مختص کریں۔ اس نگاہ کے ساتھ معیشتی وسائل فراہم کریں۔ بعض بدخواہ بھی ہیں جو معلمین کی معیشتی مشکلات سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ بعض تو خود تعلیم و تربیت کے محکمے کے اندر ہی اس چیز کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اساتذ کی خراب معیشتی صورت حال کی وجہ سے کچھ لوگ استحصال کر رہے ہیں۔ توفیق خداوندی سے اب تک اساتذہ کی صنف نے خود کو پاک و پاکیزہ بنائے رکھا ہے، لیکن بعض عناصر اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ آلودہ رجحان پیدا ہو۔
اب میں آتا ہوں اصلی موضوع کی طرف۔ میرے عزیزو! آپ ایک نسل کی تربیت کرنے جا رہے ہیں۔ آپ کے ملک اور آپ کے مستقبل کو کس طرح کی نسل کی ضرورت ہے؟ یہ سمجھنا بہت اہم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک خالی میدان میں کام کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کبھی یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی جوڈو کا ایتھلیٹ یا کنگ فو کا ماہر خالی میدان میں جوڈو کے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بہت آسان ہے۔ یا کوئی ایسے ہی خالی میدان میں شمشیر زنی کر رہا ہے، وار کر رہا ہے۔ کوئی اس کے مد مقاب نہیں ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے حریف موجود ہوتا ہے جو آپ کے وار کو ناکام بناتا ہے۔ اپنے اوپر ضرب نہیں لگنے دیتا، بلکہ جوابی حملہ بھی کرتا ہے۔ آج ہمارے سامنے ایک ایسا ہی حریف ہے۔ حریف کون ہے؟ بین الاقوامی تسلط پسندانہ نظام۔ بعض لوگوں کو شاید یہ سن کر تعجب ہو کہ ہمارے تعلیم و تربیت کے شعبے کو بین الاقوامی توسیع پسندانہ نظام کا سامنا ہے۔ جی ہاں، بین الاقوامی توسیع پسندانہ نظام، جس کا مظہر اس وقت امریکی حکومت ہے، بڑے صیہونی سرمایہ دار اور بعض دیگر استکباری حکومتیں۔ یہ سب بین الاقوامی توسیع پسندانہ نظام کے نمائندے اور مظاہر ہیں۔ میں نے عمومی ملاقاتوں میں توسیع پسندانہ نظام کے موضوع کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور نشاندہی کی ہے کہ توسیع پسندانہ نظام سے کیا مراد ہے۔ یہ بین الاقوامی توسیع پسندانہ نظام قوموں کے لئے، یعنی صرف ہماری ملت کے لئے نہیں بلکہ ہر قوم کے لئے پہلے سے منصوبہ تیار کئے بیٹھا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جو نسل اس ملک بلکہ ان ملکوں کے مستقبل کو سنوارنا چاہتی ہے اسے اس نہج پر تربیت دے کہ اس نظام کے لئے مفید واقع ہو، ملکوں میں نئی نسلوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ اسی کے انداز میں سوچے، اسی کا کلچر اپنائے، عالمی مسائل کے بارے میں اسی کا نظریہ صحیح سمجھے۔ یعنی یہ نسل تربیت بھی حاصل کر رہی ہے، تعلیم بھی پا رہی ہے، ریسرچ بھی کر رہی ہے، اس میں سے سیاست داں بھی نکل رہے ہیں، مختلف ملکوں میں وہ بڑے بڑے عہدیدوں پر فائز بھی ہو رہے ہیں۔ ایک استعماری قوت کے لئے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ کسی ملک کے عہدیداران، مفکرین، اہل نظر افراد اسی کی نہج پر سوچیں، اسی کی پسند کے مطابق کام کریں؟ اس سے ان قوتوں کا کام آسان ہو جائے گا۔ یہ ثقافتی استعماری منصوبہ ہے۔ البتہ یہ منصوبہ آج کا نہیں ہے بلکہ شاید دسیوں سال سے اس پر کام ہو رہا ہے۔
مغرب کے سیاسی مفکرین نے بارہا کہا ہے کہ ہم انیسویں صدی کے استعمار کے انداز میں کشور گشائی کرنے، دوسرے ملکوں میں اپنے فوجی حکمراں مامور کرنے، پیسے خرچ کرنے، اسلحہ بھیجنے اور جنگیں کرنے کے بجائے، اس سے بہتر، آسان اور سستا راستہ یہ اپنائیں کہ ان ملکوں کے دانشور طبقے کے اندر اپنی فکر انجیکٹ کر دیں، پھر انھیں ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیں تو وہ وہاں جاکر ہمارے بندہ بے دام رہیں گے، یہ اپنے ملک میں وہی سب کرے گا جو ان قوتوں کی مرضی ہوگی۔ کیا آپ کے پیش نظر آج اس طرح کی حکومتیں نہیں ہیں؟ کیا ہمارے علاقے میں اس قسم کی حکومتوں کی کمی ہے؟ کہ جو وہی بات کرتی ہیں جو امریکا چاہتا ہے، وہی کام کرتی ہیں جو امریکا کی مرضی ہوتی ہے۔ اس کے اخراجات بھی خود ہی اٹھاتی ہیں، اور اس کے لئے کام بھی کرتی ہین۔ اس کے بدلے میں وہ امریکا سے کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتیں، کوئی پیسہ نہیں مانگتیں، بلکہ خود ہی پیسے بھی خرچ کرتی ہیں، انھیں مراعات کے نام پر بس یہ ملتا ہے کہ استکبار انھیں مخالفین کے ہاتھوں سرنگوں ہونے سے بچائے رکھتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ہماری نسل کے لئے بھی انھوں نے اسی طرح کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ یہی طالب علم جو آپ کی نگرانی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اس کے لئے انھوں نے منصوب بنا رکھا ہے۔ اب یہ قوتیں کہاں تک کامیاب ہو پاتی ہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن بہرحال ان کا یہ منصوبہ موجود ہے۔ اپنی فکر کی ترویج کرتی ہیں، اپنی ثقافت کی ترویج کرتی ہیں، اپنی زبان کی ترویج کرتی ہیں۔
میں یہ ایک بات جو اس سے پہلے بھی تعلیم و تربیت کے شعبے کے حکام سے کہتا رہا ہوں ایک بار پھر دہراتا ہوں، کیونکہ شاید موجودہ حکام سے میں نے یہ بات نہ کی ہو، لیکن اس سے پہلے میں بارہا عرض کر چکا ہوں۔ ہمارے ملک میں انگریزی زبان کی ترویج پر کیا جانے والا اصرار ٹھیک نہیں ہے۔ بیشک غیر ملکی زبان سیکھنا چاہئے، لیکن صرف انگریزی تو غیر ملکی زبان نہیں ہے، علم و دانش کی زبان صرف انگریزی تو نہیں ہے۔ اسکولوں میں دوسری زبانوں کو درسی زبان کے طور پر کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ انگریزی پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ یہ طاغوتی (شاہی) دور کی میراث ہے۔ یہ پہلوی دور کی میراث ہے۔ مثال کے طور پر ہسپانوی زبان ہے۔ آج ہسپانوی زبان میں گفتگو کرنے والوں کی تعداد انگریزی بولنے والوں سے کم نہیں ہے۔ مختلف ملکوں میں۔ لاطینی امریکا کے ملکوں میں اور افریقا میں بہت بڑی تعداد ہے۔ میں مثال دے رہا ہوں، ورنہ میں ہسپانوی زبان کا مروج نہیں ہوں کہ ان کے لئے کام کروں۔ یہ میں مثال دے رہا ہوں۔ فرانسیسی یا جرمن زبان کی تعلیم کیوں نہ دی جائے؟ مشرقی پیشرفتہ ممالک کی زبان بھی تو غیر ملکی زبان ہے۔ یہ بھی علم و دانش کی زبان ہے۔ جناب عالی دیگر ممالک میں اس نکتے پر توجہ دی جاتی ہے اور بیرونی زبان کے پھیلاؤ کا سد باب کیا جاتا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ پوپ سے بھی بڑے کیتھولک بن گئے ہیں! ہم نے آکر اپنے دروازے کھول دئے ہیں، ہم نے اس ایک زبان کو اپنے اسکولوں کی واحد غیر ملکی زبان بنا دیا ہے اور اسے بالکل نچلی کلاسوں تک پھیلاتے چلے جا رہے ہیں۔ پرائمری اور 'مہد کودک' (کنڈر گارڈن) تک میں اسے لے جا رہے ہیں! کیوں؟ ہم جب فارسی زبان کی ترویج کرنا چاہتے ہیں تو کتنا سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے، محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر کسی ملک میں ہماری فارسی زبان کی کلاس بند کروا دی جاتی ہے تو ہمیں سفارتی کوششیں کرنا پڑتی ہیں، ہم سوال کرتے ہیں کہ آپ نے فارسی زبان کی تدریس کیوں بند کروا دی۔ اجازت نہیں دیتے۔ اسٹوڈنٹ کو داخلہ دینے کی اجازت نہیں دیتے، کوئی مراعات نہیں دیتے، اس لئے کہ ہم جس زبان کی ترویج کرنا چاہتے ہیں وہ فارسی ہے۔ اس صورت حال کے باوجود ہم ان کی زبان کو اپنے پیسے سے، اپنے خرچے پر پھیلا رہے ہیں، اپنی تمام مشکلات کے باوجود اس کی ترویج کر رہے ہیں۔ یہ عقلمندی ہے؟ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی! میں نے ضمنی طور پر یہ بات عرض کر دی کہ سب اسے سمجھیں اور اس پر توجہ دیں۔ البتہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کل سے ہم اپنے اسکولوں میں انگریزی زبان کی تدریس بند کر دیں۔ نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ہم جو کر رہے ہیں اس کے مضمرات کیا ہیں۔ ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ فریق مقابل ہمارے ملک میں آئندہ نسل کی تربیت کس انداز سے کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی کیا خصوصیات ہوں گی۔
یہ ایسی نسل ہوگی جو بین الاقوامی توسیع پسندانہ نظام کو پسند ہے، لیکن ہمیں کیا پسند ہے؟ ہم کیسی نسل چاہتے ہیں؟ یہ حلف نامہ بہت اچھا تھا۔ میں نے یہ حلف نامہ یہاں آنے سے پہلے اسی طرف دیکھا تھا اور اب میں نے بہت غور سے اسے سنا۔ آپ یہ بھی جان لیجئے کہ جب آپ نے قسم کھا لی تو یہ آپ کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔ جب انسان باقاعدہ نیت کے ساتھ قسم کھاتا ہے تو اس پر عمل واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حلف نامہ بہت اچھا تھا۔
طالب علم کے لئے جو چیز سب سے پہلے ہمیں مد نظر قرار دینا چاہئے یہ ہے کہ اس کے اندر آزاد ملی و دینی تشخص پیدا ہو۔ یہ بنیادی چیز ہے۔ خود مختار اور باعزت تشخص۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کی تربیت اس طرح کرنا چاہئے کہ وہ آزاد پالیسیوں کی طرف مائل ہوں، خود مختار معیشت پر توجہ دیں۔ خود مختار ثقافت میں دلچسپی رکھیں، اغیار پر انحصار اور دوسروں پر تکیہ کرنے، غیروں پر اعتماد کو اپنے مزاج اور سرشت کا حصہ نہ بنائیں۔ اس پہلو سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ میں آپ واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی انگریزی لفظ ملک میں آتا ہے، فورا ہر چھوٹا بڑا، معمم اور غیر معمم سب اسے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم اتنے مشتاق اور تشنہ کیوں ہیں انگریز الفاظ استعمال کرنے کے سلسلے میں؟ کیا وجہ ہے؟ یہ وہی حالت ہے جو ورثے کے طور پر ہمارے لئے چھوڑی گئی تھی۔ یہ وہی صورت حال ہے جو طاغوتی دور میں ہماری نوجوانی کے زمانے میں تھی۔ مجھے یاد ہے۔ جب ہم لوگ نوجوان تھے تو اس وقت گویا ایک مقابلہ سا رہتا تھا کہ انگریزی الفاظ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ جو زیادہ انگریزی الفاظ استعمال کرتا تھا وہ زیادہ روشن فکر سمجھا جاتا تھا، زیادہ علم والا سمجھا جاتا تھا۔ یہ غلط ہے۔ خود مختار تشخص بالکل اولین اور بنیادی چیز ہے جو ہمارے نوجوانوں کے اندر تعمیر ہونا چاہئے، پروان چڑھایا جانا چاہئے۔ ایسا ہو جانے کی صورت میں استقامتی معیشت بامعنی نظر آئے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ جب ہم استقامتی معیشت وجود میں لانا چاہیں تو اعلی سرکاری حکام جمع ہوں پے در پے سو میٹینگیں کریں۔ بار بار منشور تیار کریں، سرکولر جاری کریں، یہ سب کچھ کریں اور آخر میں نتیجہ یہ سامنے آئے کہ مکمل طور پر استقامتی معیشت کی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔ اس وقت کوشش ہو رہی ہے کہ استقامتی معیشت کو عملی جامہ پہنا دیا جائے۔ لیکن اگر اندر سے جذبہ، خود مختاری کا مزاج اور اغیار کے سامنے استقامت و مزاحمت والے عزائم نہیں ہیں تو پھر اس منصوبے پر عملدرآمد کافی مشکل ہوگا۔ جب ہم اپنی عادت ڈال لیں کہ اس ذخیرے کو جو گھر میں رکھا ہے، دور اندیش گھرانے اپنے لئے کچھ ذخیرہ محفوظ رکھتے ہیں، ہمارے پاس بھی ایک خداداد ذخیرہ ہے اور وہ تیل کا ذخیرہ ہے۔ ہماری عادت ہو گئی ہے کہ اسے پابندی کے ساتھ نکالتے رہیں اور فروخت کرتے رہیں، نکالیں اور بیچیں۔ ایڈڈ ویلیو کے بارے میں کچھ نہ سوچیں۔ کیونکہ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تیل کو ہم ایسی شکلوں میں تبدیل کر لیں کہ اس کی ایڈڈ ویلیو حاصل ہو۔ ایسی صورت میں یہ چیز قابل قبول ہے۔ لیکن ہم یہ کرنے کے بجائے اسے یونہی بغیر ایڈڈ ویلیو کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی کئے، بیچتے جا رہے ہیں۔ بعض سربراہان مملکت جو یہاں ہمارے پاس آغے، انھوں نے شکوہ بھی کیا کہ ہماری باہمی تجارت میں برابری نہیں ہے۔ آپ ہمیں چیزیں زیادہ فروخت کرتے ہیں اور ہم سے خریداری کم کرتے ہیں۔ میں نے ان میں سے کئی سربراہوں سے کہا کہ آپ جو چیزیں خریدتے ہیں ان میں سب سے زیادہ مقدار خام تیل کی ہے۔ تیل تو بالکل پیسے کی مانند ہوتا ہے۔ تیل یعنی سونا۔ ہم تیل سے کوئي ایڈڈ ویلیو حاصل نہیں کرتے۔ اپنی دولت زمین کے نیچے سے نکالتے ہیں اور آپ کو دے دیتے ہیں۔ لہذا تجارتی لین دین کی سطح کا تخمینہ اس طرح نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ اگر خود مختار تشخص ہوگا تو انسان اس طرح کی زندگی سے دور رہے گا اور ایسی صورت میں مزاحمتی معیشت کا مفہوم واضح ہوگا، تیل سے آزاد معیشت کا مفہوم سمجھ میں آئے گا اور خود مختار ثقافت کے معنی واضح ہوں گے۔
ہمیں اپنے طلبہ کے اندر ممتاز اور نمایاں معیاروں کو زندہ کرنا ہوگا۔ اسی حلف نامے میں بھی کہا گیا کہ طالب علم کی خداداد فطرت کو متحرک کریں۔ یہ بالکل صحیح ہے۔ اللہ تعالی نے مجھ میں اور آپ میں اللہ نے ایک سرمایہ رکھ دیا ہے، جو رشد و نمو کی منزل طے کر سکتا ہے، اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے آپ اس بچے کے اندر متحرک کیجئے اور اس نمو کے مراحل سے گزارئے۔
یہ معیارات کچھ اس طرح ہیں؛ ایمان، تدبر، غور و فکر کی عادت، سماجی شراکت، ناپسندیدہ تنہائی سے اجتناب، سماجی فرض شناسی جو ایک اہم اسلامی مفہوم ہے۔ ہمیں پہلے مرحلے میں ان کے اندر یہ رجحان ساز مفاہیم پیدا کرنا چاہئے، بیدار اور متحرک کرنا چاہئے۔
معیار صرف کی اصلاح؛ اس حقیر نے بارہا معیار صرف کی اصلاح کے بارے میں گفتگو کی ہے، آغاز سال کی تقاریر میں، حکام سے ملاقاتوں، نجی ملاقاتوں میں، عمومی جلسوں میں ہر جگہ، لیکن آج بھی ہمارے یہاں معیار صرف کی اصلاح نہیں ہو سکی ہے۔ ہم غلط طریقے سے چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی غیر ملکی مصنوعات کا مسئلہ جس کے بارے میں میں نے چند روز قبل (4) اسی حسینیہ میں بات کی، کچھ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو ہوئی۔ یہ درجنوں بلکہ سیکڑوں ارب کے گراں قیمت وسائل اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یہ سڑکوں پر جو کھلواڑ ہوتا ہے، نئے نئے دولت مند ہو جانے والے لوگوں کے بچے حد درجہ مہنگی گاڑیوں میں سوار ہوکر آتے ہیں، ریس کرتے ہیں، دکھاوا کرتے ہیں، یہ سب اسی وجہ سے ہے۔ معیار صرف کی اصلاح کی تعلیم بچپن سے دی جانی چاہئے۔
مخالف رائے کو برداشت کرنا؛ اگر کسی نے ذرا سا ہم پر طنز کر دیا اور ہم نے فورا اسے گھونسا جڑ دیا تو یہ بردباری اور تحمل کے خلاف ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا۔ اسلام اس کے برخلاف چاہتا ہے؛ رُحَمآءُ بَینَهُم (5)
ادب اور مودب رہنا؛ آپ میں سے بیشتر کو سائیبر اسپیس سے آشنائی ہے۔ کیا واقعی سائیبر اسپیس میں آداب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ شرم و حیا کا خیال رکھا جاتا ہے؟ نہیں رکھا جاتا۔ عام طور پر خیال نہیں رکھا جاتا۔ نوجوانوں اور بچوں کو اس کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔
دینداری، پرتعیش زندگی کا عادی نہ بنانا، دولتمندانہ زندگی کی تعلیم نہ دینا۔ اگر میں فہرست تیار کروں تو کئی صفحات بھر جائیں گے، یہ تو ان میں سے چند باتیں تھیں جو میں نے عرض کر دیں۔
یہ سب آپ کو کرنا ہے۔ یہ آپ کا کام ہے، یہ آپ کا مقدس فریضہ ہے۔ آپ ہی اس نسل کی اس انداز سے تربیت کر سکتے ہیں اور ماحول سازی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے طلبہ کے ذہن میں یہ رجحان ساز مفاہیم اتارنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ نے اپنے وطن عزیز کے مستقبل کی بڑی خدمت کی ہے۔ خوش قسمتی سے استاد کا مقام و مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ تعلیم دینے کی وجہ سے، طلبہ کو نئی چیزیں سکھانے کی وجہ سے ان پر فطری طور پر ذہنی و ثقافتی بالادستی رکھتا ہے، کلاسوں میں بعض بد اخلاق طلبہ جو ہوتے ہیں ہم ان کی بات نہیں کر رہے ہیں، عمومی ماحول یہی ہوتا ہے۔ دینی مدارس میں تو طلبہ اور شاگرد استاد کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ رہتے ہیں۔ نئے کلچر میں ایسا نہیں رہ گیا ہے لیکن پھر بھی شاگرد پر استاد کا ایک تسلط رہتا ہے۔ آپ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
اس میں مختلف اداروں کا کردار اور فرائض ہیں۔ وہ مل کر تعلیم و تربیت کے شعبے میں یہ ماحول پیدا کر سکتے ہیں تاکہ استاد اپنا کام آسانی سے انجام دے سکے اور اس حلف نامے کے مضمون کے تئیں وفادار بنا رہے اور ان چیزوں کی پابندی کرے جو ہم نے عرض کیں۔
ایک ہے کلچرل ایجوکیشن کا شعبہ جو خوش قسمتی سے تشکیل پا چکا ہو۔ اس شعبے کو شروع کر دیا گيا ہے۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ اس شعبے کے ذمے زیادہ اہم فرائض ہیں۔ لگن کے ساتھ، با مقصد، دانشمندانہ اور صحتمند عقیدے کے اعتبار سے بھی صحتمند، سیاسی لحظا سے بھی صحتمند اور اخلاقی لحاظ سے بھی صحتمند سرگرمیاں انجام دینا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ ان چیزوں کا آپ خیال رکھئے۔ اگر ان تمام چیزوں میں کہیں بھی خواہ استقامت کے مسئلے میں، دینی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے انجام دی جانے والی کارکردگی میں کوئی غلطی سرزد ہوئی تو یہ تعلیم و تربیت کے شعبے کو نقصان پہنچانے اور اس نسل کو ضرر پہنچانے کے مترادف ہوگا۔
اس سلسلے میں جن اداروں پر ذمہ داری ہے ان میں ایک قومی نشریاتی ادارہ بھی ہے۔ قومی نشریاتی ادارہ (آئی آر آئی بی) بہت موثر رول ادا کر سکتا ہے۔ میں نے سال گزشتہ بھی کہا تھا (6)، لیکن عمل نہیں ہوا۔ جس طرح ہونا چاہئے تھا اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ قومی نشریاتی ادارے کے پاس تعلیم و تربیت کے محکمے سے متعلق ایک مستقل باب ہونا چاہئے۔ اہل نظر افراد بیٹھیں اور منصوبہ بندی کریں۔ چند روز قبل، شاید گزشتہ ہفتے کی بات ہے، کچھ نوجوان طلبہ یہاں اس حسینیہ میں تھے۔ میں نے ان کے درمیان تقریر کی (7)۔ ان میں سے ایک نے مجھے ایک خط دیا، میں نے دیکھا کہ بڑی اچھی باتیں اس میں لکھی تھیں۔ لکھا تھا کہ آئی آر آئی بی میں بچوں کے لئے پروگرام ہیں، بڑوں کے لئے بھی پروگرام ہیں، لیکن ہم ہائی اسکول کے طلبہ کے لئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ میں نے دیکھا کہ بالکل صحیح بات لکھی ہے۔ آپ نے کون سا پروگرام تیار کیا جو اس بچے کو فکری، ذہنی، دینی اور علمی اعتبار سے سیراب کرے۔ البتہ کچھ چینلوں پر بعض علمی پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں، تاہم ضرورت ہے فنکارانہ انداز میں کام کرنے اور پروگرام بنانے کی۔ اس کی ذمہ داری اسی ادارے پر ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور ذمہ دار ادارہ ہے وزارت مواصلات۔ آج یہ سائیبر اسپیس ہماری حقیقی زندگی کی فضا سے کئی گنا بڑی ہو چکی ہے۔ بعض افراد تو سائبر اسپیس میں ہی سانس لیتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی ہی سائیبر اسپیس میں گزر رہی ہے۔ نوجوانوں کا بھی بڑا سروکار رہتا ہے سائیبر اسپیس سے۔ گوناگوں چیزوں، مختلف النوع کاموں، علمی پروگراموں، انٹرنیٹ، سماجی رابطے کی ویب سائٹوں، پیغامات کی ترسیل وغیرہ سے ان کا بڑا سروکار رہتا ہے۔ یہیں پر لغزش کے امکانات بھی ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ بھائی سڑک نہ بناؤ! اگر کسی علاقے میں آپ کو سڑک کی ضرورت ہے تو اچھی بات ہے آپ سڑک بنائيے، بلکہ شاہراہ بنائیے، لیکن بہت محتاط رہئے! اگر کہیں مٹی کے تودے گرنے کا اندیشہ ہے تو اس کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ مواصلاتی شعبے کے لئے، وزارت مواصلات کے لئے سپریم کونسل برائے سائیبر اسپیس کے لئے جس سے مجھے کچھ شکایتیں بھی ہیں، ہماری یہی سفارش ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ یہ راستہ مسدود کر دیجئے۔ یہ تو بے عقلی کی بات ہوگی۔ کچھ لوگوں نے محنت کرکے، غور و فکر کرکے ایک راستہ بنایا ہے سائیبر اسپیس کے نام سے۔ تو کوئی بات نہیں اس سے استفادہ کیجئے مگر اس کا صحیح استعمال کیا جانا چاہئے۔ بہت سے لوگ ہیں جو اس کا صحیح استعمال کر رہے ہیں۔ بعض ملکوں نے اپنی ثقافت کے مطابق ان وسائل کو کنٹرول کیا ہے۔ ہم یہی کام کیوں نہیں کرتے؟ ہماری توجہ اس جانب کیوں نہیں ہے؟ ہم سائیبر اسپیس کو اس طرح آزاد کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ اس کے ذمہ داران موجود ہیں۔ ان ذمہ داروں میں ایک یہی وزارت مواصلات ہے۔
ان سب کو چاہئے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کی مدد کریں۔ تعلیم و تربیت کا محکمہ اکیلے یہ سارے کام انجام نہیں دے سکتا۔ ان اداروں کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ادارے تعلیم و تربیت کے شعبے سے تعاون کریں، تعاون اسی طرح ہو سکتا ہے۔ مدد کا نام سن کر صرف مالیاتی اور مادی مدد کی طرف ذہن نہیں جانا چاہئے۔ یہ بھی تو مدد ہے۔ سب کو چاہئے کہ تعاون کریں تاکہ تعلیم و تربیت کا شعبہ حقیقی معنی میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور اپنے کام خود انجام دینے کے قابل بنے۔
تعلیم و تربیت کے شعبے میں ایک اور ضروری کام جو انجام پانا چاہئے، اساتذہ کے اندر جوش و جذبہ پیدا کرنا ہے۔ ہمیں استاد پر بڑھاپا طاری نہیں ہونے دینا چاہئے۔ یہاں بڑھاپے سے مراد ضعیف العمری نہیں ہے۔ بعض لوگ ہوتے ہیں جو سن کے اعتبار سے تو نوجوان ہیں مگر حوصلے پست ہیں، اور اس کے برخلاف کچھ عمردراز ہیں لیکن ان کے اندر نوجوانوں کا جوش و جذبہ موجزن ہے۔ میں ایک استاد کو جانتا ہوں جن کی عمر تقریبا ستر سال ہے، اب بھی تدریس میں مصروف ہیں، اب تک انھوں نے تدریس کا سلسلہ بند نہیں کیا ہے۔ ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں اس جذبے کا احیا کیا جانا چاہئے۔
ہمارا تعلیمی نظام بہت قدیمی اور فرسودہ ہے۔ تعلیمی نظام بہت پرانا ہے۔ ہم نے یہ نظام یورپ سے لیا تھا اور اسے اسی طرح باقی رکھا ہے۔ جیسے میوزیم میں کوئی مقدس چیز رکھ دی جاتی ہے کہ کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے! کبھی کبھار اس میں معمولی سا رد و بدل کر دیا گیا۔ تو یہ تعلیمی نظام بہت پرانا ہے۔ اس کی جدیدکاری ضروری ہے۔ وزیر محترم نے جس اصلاحی منصوبے کا ذکر کیا، یہ اس راستے میں آگے کی سمت ایک قدم کے مترادف ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تعلیمی نظام کی جدیدکاری کرنی ہے تو ہمیں دوسروں کی تقلید نہیں کرنا چاہئے۔ ہم یہ نہ دیکھیں کہ فلاں یورپی ملک میں کیا ہوا اور پھر اسی کی نقل کریں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اہل فکر حضرات مل کر بیٹھیں، بیشک دوسروں کے تجربات سے بھی استفادہ کریں لیکن، منصوبہ بندی کا کام خود انجام دیں۔ ایک نیا تعلیمی نظام تیار کریں۔ یہی اصلاحی منصوبہ جو بظاہر اچھی طرح تیار کیا گيا ہے، اچھا قدم ہے۔ اس کو بھی پوری توجہ سے اور ناقدانہ نظر کے ساتھ عملی جامہ پہنانا چاہئے۔ جائزہ لیا جائے اور غور کیا جائے کہ اس میں کہاں خامی رہ گئی ہے۔ غیر اللہ کے ذریعے انجام پانے والے ہر کام میں کسی نہ کسی غلطی کا امکان رہتا ہے۔ آپ اس کمی کو تلاش کیجئے۔ خامیوں کی نشاندہی کیجئے، عیوب کو پہچانئے اور ایک منظم اور غلطیوں سے پاک تعلیمی نظام تیار کیجئے۔
ایک اور چیز جو تعلیم و تربیت کے شعبے میں بڑی اہمیت رکھتی ہے یہی 'فرہنگیان یونیورسٹی' (ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی) ہے۔ یہی جہاں ہمارے نئے اساتذہ تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس ادارے کی توسیع کی خاطر اور اس کا معیار اور بلند کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔ ایسی توسیع کے لئے جو استاد کو اعلی معیارات تک لے جانے والی ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو 'حلف نامہ' ابھی پڑھا بہت اچھا تھا، لیکن شرط یہ ہے کہ اس پر آپ عمل کریں۔ صحیح معنی میں ہمیں اپنے حلف کا پابند رہنا چاہئے۔ کوتاہ مدتی تربیتی کورس کرائے جاتے ہیں لیکن ان کی افادیت بہت زیادہ نہیں ہے۔
تعلیم و تربیت کے شعبے میں ایک اور چیز جو بڑی اہم ہے، پیشوں اور فنی مہارتوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے بارہا اس کے بارے میں بات کی ہے۔ ہمارا بچہ نوجوانی تک درس پڑھتا ہے کہ یونیورسٹی میں داخل ہو۔ کیا معاشرے میں موجود تمام پیشوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ پورا راستہ طے کیا جائے اور یونیورسٹی تک پہنچا جائے؟ جو رپورٹ مجھے ملی ہے اس کے مطابق تو 12 ہزار اقسام کے کام اور پیشے معاشرے میں رائج ہیں۔ کیا ان بارہ ہزار پیشوں اور فنی مہارتوں کے لئے یہی دروس پڑھنا، اسی راستے کو طے کرنا اور یونیورسٹی میں داخلہ لینا ضروری ہے؟ یا یہ کہ ہمارا مقصد مختلف کاموں کے لئے اور مختلف استعداد کے لئے، فنی مہارت حاصل کرنا ہونا چاہئے، ہمارا مقصد کام میں پختگی پیدا کرنا ہونا چاہئے؟ بعض افراد ایسے ہیں جو آرٹ کے میدان میں نابغہ ہیں، لیکن اگر انھیں کوئی صنعتی کام سونپ دیا جائے تو نہیں کر پاتے۔ بعض دوسرے افراد اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ وہ صنعتی کاموں میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ فکری اور فلسفیانہ میدان میں منفرد صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں، کوئی سماجی مسائل کے بارے میں عدیم المثال صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ہم نئی ایجادات و اختراعات پر کتنا زور دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اختراعات اور ایجادات کون کرے گا؟ ہر انسان تو اختراعات پر قادر نہیں ہوتا۔ صلاحیت اور استعداد کو پروان چڑھانا ہوگا تب کسی میدان میں انسان اختراع اور ایجاد کی منزل تک پہنچے گا۔
ایک بات طاغوتی (شاہی) دور کی علامات کو استعمال کئے جانے کے بارے میں کہنی ہے، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ اس پر مصر نظر آتے ہیں۔ مجھے اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا، صاحب 'پیش آہنگی' (اسکاؤٹنگ) کی اصطلاح ہی استعمال کیجئے۔ 'پیش آہنگی' طاغوتی دور کی اصطلاح ہے۔ اسی کو استعمال کرنا کیوں ضروری ہے؟ یہ الفاظ اور یہ اصطلاحات در حقیقت ایک خاص پس منظر کی حامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے بڑے کارناموں میں سے ایک ایسی اصطلاحات وضع کرنا تھا جن کا اپنا الگ مفہوم ہے، جیسے استکبار، مستضعفین، تسلط پسندانہ نظام، یہ ایسی اصطلاحات ہیں جنھیں دوسری اقوام نے، دوسرے ممالک کی سیاسی شخصیات نے اور دیگر ملکوں نے ہم سے لیا ہے۔ تو پھر طاغوتی دور کی اصطلاحات کو دوبارہ رائج کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے پاس 'بسیج دانش آموزی' (رضاکار طلبہ)، 'گروہ پیشتاز دانش آموزی' (طلبہ کا ہراول دستہ)، یا طلبہ کی اسلامی برادری، اسی طرح طلبہ کی اسلامی انجمنیں، یہ اصلاحات موجود ہیں، یہ اسلامی جمہوریہ کی صطلاحات ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہم ہر حال میں پرانی اصطلاحات ہی استعمال کریں۔
ایک بات اپنے اسکولوں کے بارے میں بھی عرض کرتا چلو۔ تعلیم و تربیت کا مسئلہ آئین کی رو سے، جیسا کہ انسان کے ذہن میں بھی آتا ہے ایک حکومتی مسئلہ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا بوجھ حکومت کے دوش پر ڈال دیا جائے۔ تاہم حکومت کو چاہئے کہ اس میں ہمیشہ بنیادی کردار ادا کرے۔ یہ جو ہم مسلسل سرکاری اسکولوں کو غیر سرکاری اسکولوں میں تبدیل کرتے جا رہے ہیں، یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمل درست ہے۔ ان کا نام تو پرائیویٹ اسکول رکھ دیا گيا ہے جبکہ ان میں بعض ایسے بھی اسکول ہیں جو ایڈ لیتے ہیں اور بہت زیادہ فیس وصول کرتے ہیں۔ ہمیں سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا بلند کرنا چاہئے کہ والدین ان اسکولوں کو زیادہ پسند کریں۔
وقت کافی گزر چکا ہے، ہماری گفتگو طولانی ہو گئی۔ میری آخری گزارش یہ ہے کہ میرے عزیزو آپ ملک کو سنوارئے۔ ملک کی تعمیر آپ کو کرنی ہے۔ جو افراد ملک کی تعمیر و ترقی کا کام انجام دے سکتے ہیں ان میں آپ اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اس موقع کا بخوبی استعمال کیجئے، اپنی توانائیوں کو بروئے کار لائیے۔ ہم نے وزیر محترم کے بارے میں جو کچھ سنا اور دیکھا ہے اس کے مطابق آپ فکری و عملی پاکیزگی سے بہرہ مند ہیں، اس موقع سے استفادہ کیجئے۔ البتہ جناب عالی اور آپ کے رفقائے کار کو بھی یہ کوشش کرنا چاہئے کہ ان عظیم امور کی انجام دہی کے لئے خود کو فکری و عملی اعتبار سے قابل اعتماد بنائیں۔ ملک کو آپ سنوارئے اور طاقتور بنائيے۔ طاقت صرف اسلحہ سے نہیں حاصل ہوتی۔ طاقت کا سب سے اہم ذریعہ اور سب سے اہم عنصر ہے علم اور قومی تشخص۔ افراد کی شخصیت، ان کا جذبہ استقامت، تشخص اور انقلابی ماہیت یہ چیزیں طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ ایمان سے ہماری قوم کو قوت ملی، انقلاب نے ہماری قوم کو قدرت عطا کی۔ جب آپ کے پاس قوت و توانائی ہوگی اور دشمن آپ کو طاقتور پائے گا تو پسپا ہونے پر مجبور ہو جائے گا۔ لیکن جب ہم دشمن کے سامنے اپنی قوت و توانائی کی علامات پیش کرنے سے اجتناب کریں گے، پرہیز کریں گے، ڈریں گے، تکلف کریں گے تو وہ گستاخ ہوتا چلا جائے گا۔
یہ جو آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کرتا ہے۔ اس کا ملت ایران کی طرف سے جواب دیا جا سکتا ہے۔ دشمن بیٹھتے ہیں، منصوبہ بناتے ہیں کہ ایران کو خلیج فارس میں فوجی مشق نہیں کرنے دیں گے۔ کیسے کیسے احمقانہ عزائم ہیں؟! وہ دنیا کے دوسرے سرے سے اٹھ کر یہاں آتے ہیں اور فوجی مشقیں کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ جائیے وہیں 'خلیج خنزیر' جائیے (8)، وہاں جس جگہ بھی دل چاہے مشقیں کیجئے۔ خلیج فارس میں آپ کا کیا کام؟ خلیج فارس تو ہمارا وطن ہے۔ خلیج فارس تو ملت ایران کی جلوہ نمائی کی جگہ ہے۔ خلیج فارس کا ساحل، اسی طرح بحیرہ عمان کے ساحل کا کافی بڑا حصہ ملت ایران کا ہے۔ وہاں اس کا موجود رہنا فطری ہے، اسے فوجی مشقیں کرنا چاہئے، اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ہماری قوم قدیمی تاریخ رکھنے والی طاقتور قوم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ کمزور اور روسیاہ بادشاہ ایسے آئے جنھوں نے کچھ عرصے کے لئے ہمیں پسماندگی میں مبتلا کر دیا اور اس ملک کو بدبختی سے دوچار کر دیا، مگر وہ گزر گئے، ختم ہو گئے۔ ہماری قوم بیدار قوم ہے، بہت عظیم قوم ہے، کیا ایسی قوم آپ کو منمانی کی اجازت دیگی؟ توسیع پسند، تسلط پسند استعماری طاقتوں سے اسی انداز میں پیش آنا چاہئے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارے مقابلے میں انھیں یقینی طور پر شکست ہوگی۔ ان کی شکست کی وجہ پوری طرح واضح ہے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ اسلامی جمہوریہ کا وجود باقی نہ رہے، مگر اسلامی جمہوریہ نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ شروعاتی دور کی نسبت اس کی توانائیوں میں دسیوں گنا کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ ان کی شکست ہی تو ہے۔ یہ تعلیم ہمیں قرآن نے دی ہے؛ تُرهِبونَ بِه‌ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم (9) خود کو اس طرح آمادہ کرو کہ اللہ کا دشمن اور تمہارا دشمن تم سے خوفزدہ رہے، ہراساں رہے۔ یہاں مراد ہمسایہ نہیں ہے، حریف طاقت نہیں ہے، مراد وہ ملک نہیں ہے جو ہم سے دشمنی نہیں برتتا۔ دشمن یعنی وہ جو دشمنی کا برتاؤ کرتا ہے اور اسے سب پہچانتے ہیں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو اور ہم کو توفیق دے کہ اس راستے پر چلتے رہیں جو باعث رضائے پروردگار ہے۔ ان شاء اللہ اس ملک کا مستقبل آپ کے باعزت اور سرگرم عمل وجود کی برکتوں سے ایسا ہوگا کہ ساری قوم کی سعادت و خوشبختی کا ضامن بنے گا۔

 
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس نے رہبر انقلاب اسلامی کے سامنے 'معلمی کا حلف نامہ' پڑھا جس کے بعد وزیر تعلیم و تربیت علی اصغر فانی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) اقبال‌الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۱۲۳ (معمولی سے فرق کے ساتھ)
۳) گلستان، مقدّمه‌
4) یوم مئی کی مناسبت سے مورخہ 27 اپریل 2016 کو محنت کش طبقے سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
5) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ « آپس میں مہربان ہیں۔»
6) اساتذہ اور دانشوروں سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 5 مئی 2015 کا خطاب
7) ملک میں اسکولی طلبہ کی اسلامی انجمنوں کے ارکان سے مورخہ 20 اپریل 2016 کو رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
8) اس فقرے پر حاضرین ہنس پڑے
9) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۰ کا ایک حصہ؛ اس سے دشمن خدا اور اپنے دشمن کو ہراساں کرو۔