اس تاريخ ساز دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت کی۔ گراؤنڈ پر پہنچنے کے بعد قائد انقلاب اسلامی پہلے گمنام شہیدوں کی یادگار پر گئے اور مقدس دفاع کے شہیدوں کے لئے فاتحہ خوانی کی اور انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اللہ تعالی سے ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 'جہاد کبیر' یعنی استکباری محاذ سے مزاحمت اور اس کے اتباع سے انکار کے قرآنی و اسلامی استدلال کی تشریح کی اور اسلامی جمہوری نظام میں اس کے لوازمات اور پہلوؤں کو بیان کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی ماہیت تبدیل کر دینے اور اس کے اندر دراندازی کے لئے استکباری محاذ کی وسیع کوششوں اور منصوبہ بندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت یونیورسٹیوں اور دینی مدارس، انقلابی و مومن نوجوانوں اور کارکنوں، اسی طرح پاسداران انقلاب فورس کی سب سے اہم ذمہ داری انقلاب کے نعروں کی گہرائی کو منظر عام پر لانے اور ان کی تشریح کے لئے نپے تلے اور دانشمندانہ اقدامات انجام دینا، سطحی اقدامات سے اجتناب، مستقبل کے لئے کیڈر کی تشکیل اور گزشتہ 38 سال کے دوران حاصل ہونے والے اسلامی انقلاب کے حیرت انگیز اور وسیع تجربات کی علمی روش کے تحت تدوین ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

یہ دن میرے لئے بڑا شیریں اور پرکشش ہے کہ جب میں پاکیزہ قلوب اور جوش و جذبے سے سرشار طبیعت رکھنے والے آپ عزیز انقلابی جوانوں کے درمیان ہوں، واقعی آپ اس ملک کے مستقبل اور اس انقلاب کے مستقبل کے لئے امیدوں کی شمعیں روشن کریں گے۔ سب سے پہلے عالم امکان کے محور و مرکز حضرت امام زمانہ علیہ السلام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ آپ سب آج بھی اور آئندہ بھی ان بزرگوار کے حقیقی منتظرین اور ناصرین میں قرار پائیں!
3 خرداد (مطابق 23 مئی) کا دن بھی بڑا اہم اور ناقابل فراموش دن ہے۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں اور ایران کے اس عزیز اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یہ دن درخشاں ورق کی مانند ہے۔ یہ مظہر ہے، یہ باطل پر حق کی فتح، قدرت خداوندی اور اس دست قدرت الہی کا مظہر ہے جس کے بارے میں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے فرمایا کہ ایک دست قدرت ہماری پشت پناہی کر رہا ہے، تین خرداد (مطابق 23 مئی) ایسا دن ہے، یہ خرمشہر کی آزادی کا دن ہے۔ آپ فارغ التحصیل ہونے والے عزیزوں کو، اسی طرح نیا داخلہ لینے والے نوجوانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے بڑے اچھے سفر کا آغاز کیا ہے۔ بڑے اچھے راستے کا آپ نے انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اس راستے پر پوری سنجیدگی، عزم راسخ اور بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ رواں دواں رہیں۔
خرمشہر کی آزادی کے وقت آپ میں سے اکثر یا تو پیدا نہیں ہوئے ہوں گے اور اگر پیدا ہوئے ہوں گے تو بہت کمسن رہے ہوں گے، خرمشہر کی آزادی کا دن بڑا عظیم دن تھا۔ یہ خبر موصول ہوئے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ میں ایوان صدر سے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے بیت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی جانب روانہ ہوا۔ سڑکوں پر، راستوں پر عوام کا ہجوم تھا، جیسے کوئی جلوس نکلا ہو، کوئی مظاہرہ ہو رہا ہو۔ ہماری گاڑی کو لوگ دیکھتے تو آکر مبارکباد دیتے تھے۔ پورے ملک میں عمومی جشن کا سماں تھا۔ یہ اتنا اہم واقعہ تھا۔
البتہ اس دن عوام کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ فتح کیسے حاصل ہوئی۔ عوام کو ان قربانیوں، ان حیرت انگیز اور ناقابل یقین کوششوں اور باریکیوں کی اطلاع نہیں تھی، آج بھی بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم ہے۔ میں سفارش کرنا چاہوں گا کہ 'الی بیت المقدس' آپریشن کی تفصیلات کے بارے میں جو خرمشہر کی آزادی پر منتج ہوا، جو کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں۔ اسی طرح دیگر آپریشنوں کے بارے میں جیسے فتح المبین اور دوسرے فوجی آپریشنوں کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، انھیں سب پڑھیں، پڑھیں اور دیکھیں کہ کیا ہوا تھا؟ میں نے ایک دفعہ مقدس دفاع کو ایک بڑی اور پرشکوہ تصویر سے تشبیہ دی تھی جو اوپر آویزاں ہے۔ ہم نیچے سے اس فنپارے کو دیکھتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں، لیکن اگر ہم قریب جائیں تو اس فنپارے میں جو باریکیاں اور ظرافتیں ہیں، فن و ہنر کے جو جوہر دکھائے گئے ہیں، اس مرقعے کی جو چھوٹی چھوٹی باریکیاں ہیں، مختلف رنگوں کی جو آمیزش ہے، جو نقش و نگار ہیں، جو قلم اور برش استعمال ہوئے ہیں، ان پر ہماری نظر پڑے گی اور ہم اس فنپارے کی دس گنا زیادہ تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں اس مرقعے کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے یہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا واقعہ یہ تھا کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اس مرد خدا نے، اس سراپا حکمت انسان نے، جب خرمشہر آزاد ہو گیا، جب ان مجاہدتوں کا ثمرہ حاصل ہوا، جس کے لئے جوانوں نے خون پسینہ ایک کر دیا، ہم نے کتنے شہیدوں کی قربانی دی، کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کیں، تو فرمایا کہ خرمشہر کو اللہ نے آزاد کرایا۔ 'خرمشہر را خدا آزاد کرد'۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے جدوجہد کی تو قدرت خداوندی آپ کی پشت پناہ بنے گی۔ ایسا لشکر جسے پشت پناہی اور سپورٹ حاصل نہ ہو، کچھ نہیں کر سکتا۔ جس فوج کے پاس سپورٹ ہوتی ہے، ریزرو فورس ہوتی ہے وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔ اب اگر کوئی لشکر ایسا ہے جس کی پشت پناہی قدرت خداوندی کر رہی ہو، کیا اسے کبھی شکست ہو سکتی ہے؟ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ہمیں یہ سکھایا، ہمیں بتایا کہ اگر تم جدوجہد کرو گے، تساہی نہیں برتوگے، اگر میدان میں ڈٹے رہوں گے، اگر اپنی تمام توانائیاں میدان میں لاؤ گے تو قدرت خداوندی تمہاری پشت پناہی کرے گی۔ اس طرح خرمشہر کو اللہ نے آزاد کرایا۔ اس زاویہ فکر کے مطابق استکبار کے زیر تسلط ساری دنیا کو اللہ تعالی آزاد کرا سکتا ہے۔ اس سوچ کے مطابق فلسطین بھی آزادی حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرز فکر کی مدد سے کوئی بھی قوم اتنی ہمت اپنے اندر پیدا کر لیگی کہ کسی کے ظلم کی چکی میں نہ پسے۔ شرط یہ ہے کہ یہ سوچ اور یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کر لے۔ اگر ہماری سوچ اور طرز عمل ایسا ہو تو ہم ناقابل شکست ہو جائیں گے۔ جب ہم اس طرز عمل کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو خوف و ہراس ہمارے قریب نہیں آئے گا، سامنے موجود تشہیراتی، مالیاتی اور اقتصادی طاقتوں سے ہمیں ڈر نہیں لگے گا۔ ہم نے قدرت الہیہ پر تکیہ کیا ہے۔ آرام طلب افراد کو قدرت خداوندی کی پشت پناہی نہیں ملتی۔ ایسی قوموں کو قدرت الہیہ کا سہارا نہیں ملتا جو ایثار اور قربانی سے دور بھاگتی ہیں۔ اللہ کی مدد ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو میدان میں اترتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں، محنت کرتے ہیں، خود کو تمام کاموں کے لئے آمادہ کرتے ہیں، در اصل یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ کی نصرت پر بھروسہ ہوتا ہے۔ ذلِکَ بِاَنَّ اللهَ مَولَی الَّذینَ ءامَنوا وَ اَنَّ الکٰفِرینَ لا مَولی‌ لَهُم (۲)، یہ قرآن کی آیت ہے۔ اللہ آپ کا مولا ہے، آپ کا مولا وہ اللہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات ہے۔ وہ ہے آپ کا مولا اور کافرین کا کوئی مولا نہیں ہے۔
جنگ بدر میں جب کفار نے اپنے بتوں کے نام کا نعرہ لگانا شروع کر دیا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو یہ نعرہ بلند کرنے کا حکم دیا؛ اَللهُ مَولانا وَ لا مَولی‌ لَکُم (۳)، ہمارا مولا اللہ ہے، ہمارا سہارا اللہ ہے، ہماری قوت و طاقت کا سرچشمہ وہی ہے اور تمہارے پاس یہ سرچشمہ نہیں ہے اور ایسا ہی ہوا۔
آج 37 سال 38 سال کا عرصہ ہو رہا ہے کہ اس مبارک پودے کو، اسلامی جمہوریہ کو، اس سراپا انقلابی وجود کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی؛ اَللهُ مَولانا۔ ملت ایران میدان عمل میں موجود ہے۔ کچھ کوسنے والے، طعنہ زنی کرنے والے اور خواہشات کے اسیر افراد کنارے بیٹھے ہوئے ہیں، جبکہ ملت ایران میدان عمل کے وسط میں موجود ہے۔ اس قوم کے اندر بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی جان قربان کر دینے کے لئے آمادہ ہیں۔ یہ صورت حال نصرت الہیہ کے نزول کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ یہی غیر مساوی جنگ ہے۔
غیر مساوی جنگ کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے دونوں فریقوں کے پاس وسائل کی مقدار اور صورت حال الگ الگ ہو، ان کی ماہیت مختلف ہو۔ اسے غیر مساوی جنگ کہتے ہیں۔ یعنی دونوں فریقوں میں ہر ایک کے پاس ایسے وسائل ہیں، ایسے ذخائر ہیں جو دوسرے فریق کے پاس نہیں ہیں۔ ہم عالمی استکبار سے غیر مساوی جنگ میں مصروف ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ ممکن ہے استکبار کے پاس کچھ ایسے وسائل ہوں جو ہمارے پاس نہیں ہیں اور اسی طرح ہمارے پاس ایسے وسائل ہوں جو عالمی استکبار کے پاس نہیں ہیں۔ وہ وسائل کیا ہیں؟ اللہ کی ذات پر توکل، خدا پر اعتماد، حتمی فتح کا یقین، افرادی قوت پر بھروسہ، مومن انسانوں کی قوت ارادی پر یقین، یہ چیزیں ہمارے پاس ہیں۔ اسی کو غیر مساوی جنگ کہتے ہیں۔ غیر مساوی جنگ میں اصلی مقابلہ ارادوں کا ہوتا ہے۔ جو قوت ارادی غالب آئی فتح اسی کا مقدر بنتی ہے۔ میدان پیکار میں ارادے کو مضمحل نہ ہونے دیجئے۔ میدان کارزار میں ارادے میں تزلزل پیدا نہ ہونے دیجئے۔ اس میدان جنگ میں اگر کسی فریق کی قوت ارادی میں تزلزل پیدا ہوا تو اس کی شکست یقینی ہے۔ اپنی قوت ارادی میں ضعف نہ آنے دیجئے۔ دشمن کے پروپیگنڈوں اور وسوسوں سے آپ کے عزم راسخ میں کوئی کمزوری نہیں آنی چاہئے۔ اس محکم ارادے کو اسی طرح قائم رکھئے، یہی فتح کی ضمانت ہے۔
آج عسکری ٹکراؤ کا موقع نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک کے سامنے روایتی عسکری جنگ کا مرحلہ نہیں ہے، اس کا امکان بے حد کم ہے، لیکن جہاد آج بھی جاری ہے۔ جہاد ایک الگ ہی چیز ہے۔ جہاد صرف قتال کی صورت میں نہیں ہوتا، صرف عسکری ٹکراؤ کی صورت میں نہیں ہوتا، جہاد بڑے وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ جہادوں میں ایک جہاد ایسا بھی ہے جسے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جہاد کبیر کا نام دیا ہے؛ وَ جٰهِدهُم بِه‌ جِهادًا کَبیرًا (۴)،۔ سورہ مبارکہ فرقان کی آیت ہے؛ «بِه‌» سے مراد ہے قرآن۔ «جٰهِدهُم بِه‌» یعنی قرآن کے ذریعے ان سے جہاد کرو؛ جِهاداً کَبیرًا، یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی۔ عزیز نوجوانو! آپ توجہ سے سنئے۔ مکے میں فوجی تصادم کی صورت حال نہیں تھی۔ پیغمبر اکرم اور مسلمانوں کو فوجی جنگ پر ابھی مامور نہیں کیا گيا تھا۔ اس وقت وہ جو کام کر رہے تھے وہ الگ کام تھا۔ یہ وہی کام تھا جسے اللہ تعالی نے اس آیہ کریمہ میں وَ جٰهِدهُم بِه‌ جِهادًا کَبیرًا، سے تعبیر کیا ہے۔ وہ دوسرا کام کیا ہے؟ وہ کام تھا استقامت، مزاحمت اور عدم پیروی۔ فَلا تُطِعِ الکٰفِرینَ وَ جٰهِدهُم بِه‌ جِهادًا کَبیرًا (۵)، مشرکین کی اطاعت نہ کرو۔ کفار کی پیروی نہ کرنا وہی چیز ہے جسے اللہ تعالی نے جہاد کبیر کہا ہے۔ جہاد کی یہ درجہ بندی، جہاد اصغر اور جہاد اکبر کی درجہ بندی سے الگ ہٹ کر ہے۔ جہاد اکبر جو سب سے زیادہ سخت ہے وہ جہاد بالنفس ہے۔ یعنی وہ عمل جو ہماری ماہیت اور ہمارے باطن کی حفاظت کرتا ہے۔ جہاد اصغر دشمن کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے، تاہم جہاد اصغر میں ایک جہاد ایسا ہے جسے اللہ تعالی نے جہاد کبیر قرار دیا ہے اور وہ جہاد کبیر یہی ہے۔ جہاد کبیر کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے دشمن کی فرمانبرداری نہ کرنا، کافر کی اطاعت نہ کرنا۔ جو دشمن تم سے بر سر پیکار ہے اس کی اطاعت نہ کرو۔ اطاعت کا کیا مطلب ہے؟ یعنی پیروی، یعنی اتباع۔ کس چیز میں پیروی؟ مختلف میدانوں میں پیروی، سیاست کے میدان میں پیروی، اقتصاد کے میدان میں پیروی، ثقافتی میدان میں اور فن و ہنر کے میدان میں اتباع۔ گوناگوں میدانوں میں دشمن کا اتباع نہ کرو، یہ ہے جہاد کبیر۔
اس عدم اتباع کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو بار بار اس کی سفارش کی ہے۔ سورہ احزاب کی شروع کی دل دہلا دینے والی آیتیں ہیں؛ بِسمِ ‌اللهِ ‌الرَّحمنِ ‌الرَّحیم * یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللهَ وَ لا تُطِعِ الکٰفِرینَ؛ ارشاد ہوتا ہے «اِتَّقِ اللهَ وَ لا تُطِعِ الکفِرین» پیغمبر! تقوا اختیار کرو اور کفار کی پیروی نہ کرو۔ اِنَّ اللهَ کانَ عَلیمًا حکیمًا (۶) ہم تمہاری مشکلات کو جانتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ وہ تم پر سختیاں کر رہے ہیں کہ تم اتباع کرنے پر مجبور ہو جاؤ، دھمکیاں دیتے ہیں، لالچ دیتے ہیں، مگر تم امر و نہی الہی پر توجہ رکھو؛ اِتَّقِ اللهَ، حواس بجا رکھو، وَ لا تُطِعِ الکٰفِرین، یہ عدم پیروی اور کفار کی اطاعت سے گریز اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر سے اس لہجے میں بات کی ہے؛ کافرین کی پیروی نہ کرو، وَ اتَّبِع ما یوحی‌ اِلَیکَ مِن رَبِّکَ اِنَّ اللهَ کانَ بِما تَعمَلونَ خَبیرًا.(۷) ارشاد ہوتا ہے؛ یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللهَ وَ لا تُطِعِ الکفِرینَ و المُنفِقینَ اِنَّ اللهَ کانَ عَلیمًا حکیمًا * وَ اتَّبِع ما یوحی‌ اِلَیکَ مِن رَبِّکَ اِنَّ اللهَ کانَ بِما تَعمَلونَ خَبیرا؛(۸) ان کی پیروی نہ کرو۔ تمہارے پاس اپنا منصوبہ ہے، دستور العمل ہے، لائحہ حیات ہے، وحی الہی نے تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ تمہارے پاس تو قرآن ہے، تمہارے پاس اسلام ہے، اسلام کے منصوبے تمہارے پاس ہیں، تم اس راستے پر چلو۔ یہ سب سورہ احزاب کی آیتیں ہیں۔ ایک کے بعد دوسری۔ سب سے پہلے ہے؛ اِتَّقِ اللهَ وَ لا تُطِعِ الکفِرینَ وَ المُنفِقین؛(۹) اس کے بعد؛ وَ اتَّبِع ما یوحی‌ اِلَیکَ مِن رَبِّک؛(۱۰) اس کے بعد اس سوال کا جواب کہ جب خطرہ موجود ہے، سخت دباؤ ڈالا جا رہا ہے تو کیا کرنا چاہئے؛ وَ تَوَکَّل عَلَی اللهِ وَ کَفی‌ بِاللهِ وَکیلا (۱۱) اس دباؤ اور ان سختیوں کا سامنا ہے تو اللہ پر توکل کرو، اللہ پر بھروسہ کرو۔ توکل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارے کام دھندے چھوڑ کر انسان بیٹھ جائے اور اللہ وہ سارے کام پورے کر دے۔ یہ مطلب نہیں ہے۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آپ آگے بڑھئے، عرق ریزی کیجئے، محنت کیجئے، اس کے بعد یہ یقین رکھئے کہ اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ آج اسلامی جمہوریہ کے سامنے یہی صورت حال ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے سامنے صورت حال یہ ہے کہ مستکبر دشمن انقلاب کو جھکانے پر تلا ہوا ہے، کس طرح؟ اپنی ثقافت پھیلا کر، اپنے اقتصادی دباؤ کے ذریعے، اپنی گوناگوں سیاسی کارروائیوں کے ذریعے، اپنی وسیع تشہیراتی مہم کے ذریعے اور ان خائن عناصر کے ذریعے جو اس کے اشارے پر کام کرتے ہیں، ان چیزوں کے ذریعے وہ اسلامی جمہوریہ کے ماحول کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ ایران اس کی اطاعت کرنے لگے۔ اسلامی جمہوریہ سے استکبار کی اتنی گہری ناراضگی کی بنیادی وجہ ایران کے عوام کا مسلمان ہونا نہیں ہے، بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران کے عوام مسلمان ہونے کے باعث استکبار کے دباؤ میں آنے پر تیار نہیں ہیں، اس کی فرمانبرداری کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ اس پر وہ سخت برہم ہیں۔ دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ اپنے ان عزائم کو پوشیدہ رکھیں، لیکن حقیقت قضیہ یہی ہے۔ ایٹمی مسئلہ محض ایک بہانہ تھا، میزائلوں کا مسئلہ بھی یہ جو انھوں نے چھیڑ رکھا ہے، 'میزائل میزائل' کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، البتہ اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے، وہ کچھ نہیں کر پائيں گے، یہ بھی بہانہ ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ بھی بہانہ ہے، دوسرے مسائل بھی ایسے ہی ہیں، یہ سب بہانہ جوئی ہے۔ اصل مسئلہ عدم اطاعت اور نافرمانی ہے۔
اگر اسلامی جمہوریہ، استکبار کی پیروی پر آمادہ ہو جاتی تو انھیں میزائلوں پر بھی کوئی اعتراض نہ رہتا، ایٹمی توانائی اور اس سے متعلق دوسری تمام چیزیں بھی ان کے گلے سے اتر جاتیں، انسانی حقوق کے بارے میں وہ ایک لفظ بھی نہ کہتے۔ مگر الہی تعلیمات کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کافر دشمن کی پیروی کے لئے آمادہ نہیں ہے، کفر و استکبار کے محاذ کی فرمانبرداری کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہی اصلی وجہ ہے اور ساری کوششیں اسی کے لئے ہو رہی ہیں۔
البتہ ان کی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ زبان پر یہ بات نہ آنے پائے، لیکن کبھی کبھی ان کے منہ سے یہ بات نکل ہی جاتی ہے۔ ابھی چند روز قبل ایک امریکی عہدیدار نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف الزامات عائد کئے؛ میزائل اور نہ جانے کن کن چیزوں سے متعلق الزامات لگائے اور پھر ساتھ ہی میں آئيڈیالوجی کی بات بھی منہ سے نکل گئی۔ حقیقت ان کی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ ان کا اصلی چہرہ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ آئیڈیالوجی یعنی نظریہ، وہ اسلامی نظریہ جو آپ کو یہ تلقین کرتا ہے کہ کافر دشمن اور کفر و استکبار کے محاذ کے دباؤ میں ہرگز نہیں آنا چاہئے۔ اس سے دشمنی پیدا ہوتی ہے اور یہی چیز آپ کو قوت بھی عطا کرتا ہے، اسی سے آپ کو طاقت ملتی ہے۔ یہی جذبہ ہے جس نے ملت ایران کے قدموں کو ثبات و استحکام عطا کیا ہے، اسی جذبے کی برکت سے ملت ایران کے اندر عزم راسخ پیدا ہوا ہے، استقامت بڑھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کے اسلامی و انقلابی تشخص کی حفاظت سے دشمن بہت برہم ہے لیکن اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ دشمنوں نے کوشش تو بہت کی کہ پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے مراکز پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیں، لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی اور توفیق خداوندی سے ان شاء اللہ آئندہ بھی انھیں کامیابی نہیں ملے گی۔
آپ انقلاب کے پاسباں ہیں، انقلاب کے محافظ ہیں۔ ویسے تو پوری ملت ایران انقلاب کی محافظ ہے، سب کو محافظ ہونا بھی چاہئے، لیکن آپ کا تعلق اس ادارے سے ہے جس کا نام ہی انقلاب کی حفاظت سے عبارت ہے؛ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی۔ آپ اس جہاد کبیر کو اپنا نصب العین قرار دیجئے۔ اس وقت دشمن پاسداران انقلاب فورس سے ہی سب سے زیادہ ناراض ہیں۔ جو نام وہ لیتے ہیں، جو بدکلامی کرتے ہیں، جو تہمتی زن کرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ ان کے نشانے پر پاسداران انقلاب فورس ہی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پاسداران انقلاب فورس نے اپنی استقامت ثابت کر دی ہے۔ آپ اس جذبے، اس کیفیت اور اس طرز عمل کو ہرگز ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔
میرے عزیز نوجوانو! میرے پیارے بچو! مستقبل آپ کا ہے، آپ کو اس تاریخ کی اس کے وقار کے ساتھ حفاظت کرنی ہے، یہ سنگین بوجھ آپ کے ہی دوش پر ہے۔ عسکری تصادم کے میدان میں نہیں بلکہ ایک ایسے میدان میں جہاں پر جاری کارزار عسکری تصادم سے زیادہ دشوار ہے۔ البتہ اس میں فوجی ٹکراؤ والا انہدام نہیں ہوتا، بلکہ تعمیرات انجام پاتی ہیں، مگر یہ جنگ زیادہ دشوار ہوتی ہے۔ یہ جو ہم نے استقامتی معیشت کی بات کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اساسی اور اہم سیاست کا اقتصادی پہلو استقامتی معیشت سے عبارت ہے۔ ہم نے جو یہ عرض کیا کہ مومن، دیندار اور انقلابی نوجوان اپنے ثقافتی کاموں کو ترک نہ کریں، اسی طرح جاری رکھیں، ہم نے اس کے ساتھ ہی ملک کے ثقافتی شعبے کے اداروں کو دعوت دی کہ اسی سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یہ اس عدم اطاعت کا ثقافتی پہلو ہے۔ یہ بھی جہاد بزرگ ہے، یہ بھی جہاد کبیر ہے۔ ہم جو بار بار کہتے ہیں کہ ملک میں موجود تمام تر توانائیوں کو ملک کی پیشرفت کے لئے استعمال کریں، میدان میں لائیں، اس کے ساتھ ہی ہم تمام عہدیداران کو دعوت دیتے ہیں کہ ان توانائیوں کا خیر مقدم کریں تو یہ اس جہاد کبیر کا سماجی پہلو ہے۔ اس جہاد کبیر کے متعدد پہلو ہیں؛ جٰهِدهُم بِه‌ جِهادًا کَبیرًا.(۱۲)
اس کا مطلب ساری دنیا سے قطع تعلق کر لینا نہیں ہے۔ بعض لوگ اس الوہی سیاست ہر حملہ کرنے کے لئے دروغگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انقلابیوں کا یہ کہنا ہے کہ ساری دنیا سے قطع تعلق کر لیا جائے! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم دنیا سے قطع تعلق کر لینے کے قائل نہیں ہیں، ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ملک کے ارد گرد ایک حصار کھینچ دیا جائے۔ ہمارا کہنا ہے کہ آمد و رفت کا سلسلہ رہے، روابط رہیں، لین دین بھی ہو، خرید و فروخت بھی ہو، لیکن اپنی اصلی شناخت اور تشخص کو محفوظ رکھیں۔ ہمارا بس یہ کہنا ہے؛ وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین (۱۳)، اسلامی نظام کے نمائندے کی طرح عمل کریں، اسلامی نظام کے نمائندے کی طرح گفتگو کریں۔ جہاں جس کسی کے بھی ساتھ معاہدہ کرنا ملکی مفاد میں ہو ضرور کریں، لیکن اسلامی مملکت ایران کے نمائندے کی حیثیت سے یہ عمل انجام دیں، اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے معاہدے کے لئے میز پر بیٹھیں۔ سب دانشمندی کے ساتھ کام کریں۔ اس جہاد کے لئے دانشمندی ضروری ہے۔ اس جہاد کے لئے اخلاص عمل ضروری ہے۔ یہ عسکری تصادم جیسا جہاد نہیں ہے کہ ہر حال میں اقبال بلند ہوگا، شہید ہونے والے افراد، زندہ بچ جانے والے افراد، زخمی ہو جانے والے افراد سب چیمپیئن کی طرح متعارف کرائے جائیں گے۔ یہ جو جہاد کبیر ہے یہ ایسا جہاد ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص اس کے لئے بے حد جانفشانی کرے لیکن کوئی بھی اسے نہ پہچانے۔ اس جہاد کے لئے خلوص نیت کی ضرورت ہے۔
دشمن اسلامی نظام پر کوئی کاری ضرب لگانے کی بابت مایوس ہو چکا ہے۔ اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ ملک کے اندر قابل لحاظ مقدار میں جذبات، آمادگی اور قوت ایمانی ہے۔ اسی لئے ان کے اندر اب یہ امید باقی نہیں رہ گئی ہے کہ کوئی کاری ضرب لگا پائیں گے، لیکن انھیں ہنوز یہ امید ضرور ہے کہ کسی طرح دراندازی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آج دراندازی کے وسائل بھی بہت وفور کے ساتھ موجود ہیں۔
وہ ایرانی نوجوان کو ایسا بنا دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کی پسند کا ہو جائے۔ اگر ایرانی نوجوان امریکا اور استکبار کی پسند کے مطابق خود کو ڈھال لے تو پھر ایران کے خلاف سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ نوجوان خود ہی خدمت گزار کی طرح ان کے لئے کام کرے گا۔ وہ ایرانی نوجوان کو ایسا ہی بنا دینا چاہتے ہیں۔ چار گمنام لوگوں نے کوئی بات کہہ دی، کچھ الگ حرکتیں کر دیں تو چند سال قبل ایران آنے والا ایک امریکی واپس جاکر کہتا ہے کہ ایران میں لوگ ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے ہوئے بس ہمارے اشارے کے منتظر ہیں، وہ فورا فائرنگ شروع کر دیں گے۔ چار فریب خوردہ افراد کو جن کا کوئی تشخص نہیں ہے، اس نے دیکھ لیا تھا۔ امریکیوں کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ ہمارے ملک کو پہچانتے نہیں، ہمارے عوام کو جانتے نہیں اور پہچان سکتے بھی نہیں۔ استکبار کی مشکل یہی ہے کہ وہ ظاہر بین ہے۔ ظاہری رنگ روپ دیکھتا ہے، باطنی حقائق کو نہیں دیکھ پاتا۔ اس کی طاقت بھی ظاہری ہی ہے، جسموں پر اس کی حکومت ہے، وہ دلوں پر اپنی مرضی کے مطابق راج نہیں کر سکتا۔ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی۔ لیکن اب بھی وہ ایران میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے سلسلے میں مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ دراندازی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دلوں پر قبضہ کر لینا چاہتے ہیں، ذہنوں کو بدل دینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
ملت ایران کے خیر خواہوں منجملہ پاسداران انقلاب فورس کے آپ جوانوں اور پاسداران انقلاب اسلامی کے دوش پر بحیثیت ایک ادارہ یہ اہم فریضہ ہے۔ آپ کا کام صرف جنگ کرنا نہیں ہے۔ پاسداران انقلاب فورس صرف انقلاب کی محافظ فورس ہے۔ البتہ پاسداران انقلاب فورس کا عسکری پہلو ہرگز کمزور نہیں ہونا چاہئے۔ ایک فوجی ادارے کی حیثیت سے اسے جدید ترین شکل میں، بہترین انداز میں اور اختراعی صلاحیتوں کے ساتھ آمادہ رکھا جائے، لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ آج حقائق بیان کرنے کی ذمہ داری سب کے دوش پر عائد ہے، آپ نوجوانوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے۔ میں حقائق کی تشریح پر اتنی تاکید اس لئے کرتا ہوں کہ آج جہاد کبیر کا کافی حد تک دار و مدار حقائق کی تشریح پر ہے۔ آج حقائق پر روشنی ڈالنے کی بہت ضرورت ہے۔ آپ یہ کوشش کیجئے کہ اذہان کو مسائل کی گہرائی اور تہہ تک پہنچائیں۔ اس سلسلے میں آپ کی یہ یونیورسٹی بہت کچھ کر سکتی ہے اور حقائق کی تشریح کو اپنے بنیادی پروگراموں کا حصہ بنا سکتی ہے۔ اپنے افراد کے درمیان بھی اور وسیع تر دائرے میں دوسروں کے بیچ جہاں تک وسائل اور امکانات اجازت دیں حقائ‍ق بیان کئے جائیں۔
انقلاب کے نعروں کی حفاظت کرنا چاہئے، یہ بنیادی اہداف میں ہے۔ اس عظیم جہاد کا ایک اہم حصہ ہے انقلاب کے نعروں کی حفاظت۔ نعرے اہداف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ نعرے ہمیں راستہ دکھاتے ہیں۔ نعرے ان علامتوں کی مانند ہیں جو راستے میں ہوتی ہیں تاکہ انسان راستے کی شناخت میں غلطی نہ کرے؛ اَلیَمینُ وَ الیَسارُ مَضَلَّةٌ و الطَّریقُ الوُسطی‌ هِیَ الجادَّة (۱۴) داہنے بائیں نہ بھٹکئے، راہ مستقیم اور صراط مستقیم پر چلئے۔ ان نعروں کا یہی کمال اور ان کا یہی کام ہے۔ ان نعروں اور حقائق کے بارے میں صرف احساسات و جذبات پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ جذبات و احساسات کی بھی میری نظر میں بڑی افادیت و اہمیت ہے، میری نظر میں جذبات کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، لیکن صرف جذبات و احساسات ہی کافی نہیں ہیں۔ ضروری ہیں مگر یہی کافی نہیں ہیں۔ ان نعروں کی گہرائی تک جانا ضروری ہے۔ مسائل کے بارے میں تدبر کیجئے، گہرائی تک جانے کی کوشش کیجئے۔ آپ جب تہہ تک پہنچیں گے تو پھر جو ایقان و ایمان پیدا ہوگا اسے آپ سے کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا۔ یہ افراد جو کبھی بہت زیادہ جوش میں نظر آتے ہیں اور کچھ دن بعد ان کا نظریہ 180 درجہ بدلا ہوا نظر آتا ہے، ایمان و ایقان کی کمی کے نمونے ہیں۔ ایسے افراد کو ہم دیکھ چکے ہیں۔ اوائل انقلاب میں وہ اتنے تند اور کسی آتشفشاں کی مانند تھے اور پرانے انقلابیوں کو بھی انقلابی ماننے پر تیار نہیں ہوتے تھے، ان پر بھی اعتراض کیا کرتے تھے۔ مگر ان کے اندر گہرائی نہیں تھی اور یہی چیز ان کے لئے وبال جان بن گئی۔ ان کا راستہ اور نظریہ 180 درجہ تبدیل ہو گیا۔ گہرائی اور عمق ہونا ضروری ہے۔ فکر و تدبر کی مدد سے تہہ تک پہنچئے اور اس کے لئے اچھے اساتذہ کی رہنمائی بھی حاصل کیجئے۔
کیڈر بنانا بھی ایک اہم کام ہے۔ مستقبل آپ کا ہے۔ آپ ملک کے عمومی سسٹم کو اور انتظامی شعبے کو اچھے کیڈر دینے میں قابل تعریف کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ انقلاب کے ان بے شمار تجربات کو، 37 سال کی مدت میں حاصل ہونے والے تجربات کو مدون کیجئے۔ یہ ایک علمی کام بھی ہے، ایک علمی و تاریخی تحقیق بھی ہے۔ آج ہمیں ماضی کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے۔ ہم جو راستہ طے کرکے آئے ہیں، ہم نے جو کام انجام دئے ہیں، جو کارروائیاں انجام دی گئی ہیں، جو تجربات کئے گئے ہیں۔ سر راہ پیش آنے والے یہ عجیب و غریب نشیب و فراز اور انقلاب کا اس گھماؤ دار راستے پر آگے بڑھنا اور اپنے اہداف تک پہنچنا، اپنی پیش قدمی کے عمل کو نہ رکنے دینا، ان ساری چیزوں کی تنقیح اور تدوین کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے علمی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ آپ کی یونیورسٹی الگ قسم کی یونیورسٹی ہے۔ البتہ میں یہ بات صرف آپ کی اس یونیورسٹی کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں، تمام یونیورسٹیوں، علمی مراکز اور دینی درسگاہوں کے لئے عرض کر رہا ہوں، تاہم امام حسین کیڈٹ یونیورسٹی، امام حسین دانشگاہ ہے۔ الگ قسم کی یونیورسٹی ہے، آپ کے اوپر زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔
ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ تشریح کو اپنے عمل کی بنیاد قرار دیجئے۔ میں بعض اوقات دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ، کوئی جماعت، نیک اور مومن نوجوان اگر کسی کے خلاف ہیں، کسی نشست کے مخالف ہیں تو وہاں نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں، شور مچانے لگتے ہیں۔ میں ان چیزوں سے اتفاق نہیں رکھتا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے شروع ہی سے اس طرح کے کام کرنے والوں کو روکا۔ ایک شخص تقریر کر رہا ہے اور آپ کو چونکہ وہ شخص پسند نہیں ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ آپ اپنی ناپسندیدگی میں حق بجانب ہیں یا نہیں، آپ جاکر اس کے پروگرام کو ہی خراب کر رہے ہیں، درہم برہم کر دے رہے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ فائدہ تشریح کرنے میں ہے، فائدہ صحیح طریقے سے کام کرنے میں ہے، دانشمندانہ اقدام انجام دینے میں ہے۔ ان چیزوں سے فائدہ ملتا ہے۔ بعض اوقات کچھ عناصر اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اور مومن و انقلابی نوجوانوں کے سر الزام رکھ دیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے۔
آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم نے جو کچھ بھی کہا، جو کچھ بھی ہمیں انجام دینا ہے اور ہمارے پاس جتنی بھی موثر توانائیاں ہیں، سب کا دارومدار اس پر ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہم گڑگڑائیں، اس سے آس لگائیں، اللہ سے اپنا توسل بڑھائيں، اللہ سے اپنے قلبی رابطے کو مستحکم بنائیں۔ یہ رابطہ ایسا ہے کہ اگر ایک بار قائم ہو گیا پھر انقلابی تشخص کی ہماری پونجی اور عزم و ارادے کی ہماری یہ طاقت ان تمام میدانوں میں کامیابی دلائے گی جن کا ذکر ہم نے کیا۔
میرے عزیز نوجوانو! آپ قرآن سے انسیت بڑھائیے، بحمد اللہ ہمارے یہاں حافظ قرآن نوجوانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ حفظ قرآن کو، تلاوت قرآن کو، قرآن کے معنی میں تدبر کو اور آیات الہیہ کے بارے میں غور و خوض کو اہمیت دیجئے۔ نماز پر توجہ دیجئے، نماز کو اچھے انداز سے، پوری توجہ کے ساتھ اور بارگاہ خداوندی میں موجود ہونے کے احساس کے ساتھ پڑھئے۔ حضور قلب کا مطلب یہی ہے کہ نماز کے وقت دل حاضر ہو، ذہن کہیں ادھر ادھر بھٹک نہ رہا ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم نماز پڑھ رہے ہیں اور ہمارا ذہن کہیں اور ہے۔ حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دل یہیں پر ہو، جانماز پر ہو، کہیں اور نہ ہو۔ آپ نوجوان اس کی مشق کیجئے، ممکن ہے کہ شروع میں تھوڑا سخت لگے لیکن مشق کیجئے تو آسان ہو جائے گا، یہی عادت ہو جائے گی۔ اگر آج آپ نے مشق کر لی تو وہ ہمیشہ کام آئے گی۔ اگر آپ نے نوجوانی کے ایام میں مشق نہیں کی ہے اور آپ ہماری عمر کو پہنچ گئے تو پھر یہی کام زیادہ دشوار ہو جائے گا۔ نماز سے، قرآن سے، توسل سے، ماہ شعبان کی دعاؤں سے مناجات شعبانیہ سے خود کو مانوس بنائیے۔ ماہ رمضان قریب ہے۔ ماہ رمضان کے ایام اور شبوں سے اپنا تزکیہ کیجئے، خود کو معطر کیجئے، منور کیجئے۔ ان شاء اللہ آپ بڑے کارنامے انجام دینے پر قادر ہوں گے۔
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عزیز امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر اس عظیم انسان پر جس نے یہ نیا راستہ تعمیر کیا، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں عزیز شہدا پر، شہدا کے اہل خانہ اور جانبازوں (دفاع وطن میں زخمی ہو جانے والے جوان) پر۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی میں منعقدہ اس تقریب میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے پاسداران انقلاب فورس کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے اور یونیورسٹی کے سربراہ مرتضی صفاری نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) سوره‌ محمّد، آیت ۱۱؛ «کیونکہ اللہ ایمان لانے والوں کا ولی ہے اور کافروں کا کوئی ولی نہیں۔»
۳) خصال، جلد ۲، صفحہ ۳۹۷ و ۳۹۸
۴) سوره‌ فرقان، آیت نمبر ۵۲ کا ایک حصہ؛ «قرآن کے ذریعے ان سے جہاد کبیر کرو۔»
۵) ایضا
۶) سوره احزاب، آیت نمبر ۱
۷) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲؛ «اللہ کی طرف سے جو تم پر وحی ہوتی ہے اس کی پیروی کرو کہ اللہ تمہارے ہر عمل کی ہمیشہ خبر رکھتا ہے۔»
۸) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ «...تم جو کچھ کرتے ہو وہ اس سے آگاہ ہے۔»
۹) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۱ کا ایک حصہ« تقوائے الہی اختیار کرو اور منافقین کی اطاعت نہ کرو۔»
۱۰) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ « اور جو تمہارے پروردگار کی جانب سے وحی آتی ہے اس کی پیروی کرو۔»
۱۱) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ؛ «اللہ پر توکل کرو حفاظت و پاسبانی کے لئے وہی کافی ہے۔»
۱۲) سوره‌ فرقان، آیت نمبر۵۲ کا ایک حصہ « قرآن کے ذریعے ان سے جہاد کبیر کرو۔»
۱۳) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۳۹ کا ایک حصہ «اگر تم مومن ہو تو برتر ہوگے۔»
۱۴) نهج‌ البلاغه، خطبه ۱۶ (قدرے فرق کے ساتھ) داہنے اور بائیں گمراہی ہے، بیچ کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔