بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

امّت مسلمہ نے ایک بار پھر اپنا عظیم الشان سالانہ اجتماع منعقد کیا ہے اور اس ندائے الہی پر شاندار طریقے سے لبیک کہا ہے: و اذّن فی النّاس بالحج ( اور لوگوں کو حج کی طرف بلاؤ )
یہ بے مثال فریضہ بھی دیگر الہی فرائض کی طرح رحمتوں کا خزانہ ہے جس کے دروازے اپنے مقرّرہ وقت پر بندوں کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے خداوند عالم کے فیض و برکت کے بحر بیکراں سے سیرابی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔
حج اس لحاظ سے ایک منفرد اور بے مثال فریضہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے دوران دل وجان کو جلا حاصل ہوتی اور ہر ایک حاجی اپنی توانائي اور گنجائش کے مطابق اس باران رحمت سے مستفیض ہوسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ ان ایام میں اتحاد و یکجہتی، جرات و بہادری اور بیداری و آگہی کے ذریعے امت مسلمہ کا اجتماعی تشخص بھی زیادہ اجاگر ہوکر سامنے آتا ہے جو مختلف قوموں، نسلوں، خطوں اور تہذیبوں سےتعلق رکھنے والے افراد سے مل کر تشکیل پائي ہے اور یہی آج کی دنیا کا اہم ترین تقاضہ ہے۔
عالم اسلام طویل عرصے تک جمود اور خواب غفلت کا شکار رہا جو اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا اور بالآخر اغیار کی سیاسی اور علمی بالادستی پر منتج ہوا اور جس کی وجہ سے اس ( عالم اسلام ) کے مادی اور انسانی ذخائر دشمنوں کی ترقی و پیشرفت اور عزت وعظمت اور تسلّط کے استحکام میں استعمال کئےگئے لیکن اب وہ ( عالم اسلام ) بیدار ہوچکا ہے اور آہستہ آہستہ غارت گروں اور لیٹروں کے سامنے صف آرا ہورہا ہے۔
اسلامی بیدری کی ہوا کے جھونکے عالم اسلام میں حرکت پیدا کر رہے ہیں اور علمی میدان میں اسلام کی کارکردگی کےمطالبے سنجیدگی سے کئے جارہے ہیں۔ اسلام کے سیاسی پہلو کو اہل نظر کے کے نزدیک ایک اہم مقام حاصل ہوچکا ہے اور ان کے سامنے ایک روشن اور امید افزا افق نمودار ہوا ہے ۔
سوشلزم اور مارکسزم جیسے بیرونی متنازعہ نظریات کی ناکامی اور بالخصوص لبرل ازم پر مبنی مغربی جمہوریت کےمکرو فریب کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد، اسلام کا انصاف و مساوات اور حریت و آزادی پر مبنی چہرہ ہر دور سے زیادہ نمایاں ہوا اور یہ ایسے واحد مکتب فکر کے طور پر نمودار ہوا ہے جو عدل و انصاف اور آزادی و حریت کے متوالوں کی امنگوں کے مطابق ہونے کے علاوہ اہل فکر و نظر کے معیارات پر بھی کھرا اترسکتا ہے ۔
بڑی تعداد میں اسلامی ممالک کے نوجوان اور بلند ہمت افراد اسلام کے نام پر اور عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کی آرزوئيں لئے ہوئے سیاسی، سماجی اور علمی میدانوں میں جد وجہد کرنے لگے ہیں اور اپنے معاشروں میں غیر ملکی سامراجی طاقتوں کےظلم و تسلط کے خلاف استقامت و ثابت قدمی کے عزم و ارادے کی تقویت کر رہے ہیں۔
عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں جن میں مظلوم ملک فلسطین سر فہرست ہے، بہت سے مرد و زن اسلام کے پرچم تلے، خود مختاری اور سربلندی و آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے آئے دن زندۂ جاوید رزمیہ داستانیں رقم کررہے ہیں اور دنیا پرست سامراجی طاقتوں کو اپنی جرات و بہادری سے قعر مذلت میں پہنچا رہے ہیں ۔
جی ہاں! اسلامی بیداری کی لہر نے سامراج کے اندازوں پر خط بطلان کھینچ دیا ہے، اور سامراجیوں کے وضع کردہ توازن کو بگاڑ کررکھ دیا ہے ۔
دوسری طرف سیاست اور سائنس کے میدانوں میں اسلام کے زریں اصولوں اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جدید اسلامی نظریات اور ان کے ارتقا نے عملی طور ثابت کردیا ہے کہ اسلام ایک زندہ جاوید نظریہ حیات ہے جو عالم اسلام کے اہل نظر اور روشن فکر افراد کے لئے راہیں وضع اور مقرر کر سکتا ہے۔
کل کی استعماری اور آج کی سامراجی طاقتیں جو اپنی مکارانہ پالیسیوں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو ایک طرف جمود و رجعت پسندی اور دوسری جانب غلامی اور اغیار کی نظریاتی تقلید کے درمیان الجھا کررکھنا چاہتی تھیں، آج وہ خود اسلامی فکر کے اس ارتقائی عمل کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں۔
عالم اسلام میں نئے افکار و نظریات پروان جڑھ رہے ہیں، ان میں بہت زیادہ فعالیت اور سعی و کوشش نظر آ رہی ہے۔ لوگ ایمان اور نیک اعمال کی طرف راغب ہورہے ہیں اور یہ ایک با برکت تبدیلی ہے جس نے سامراجی طاقتوں کے مراکز کو لرزہ بر اندام کردیا ہے۔
امّت مسلمہ کو چاہئے کہ اپنے آپ کو استعماری طاقتوں کے مراکز کی طرف سے در پیش خطرات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے جو وہ ( استعماری طاقتیں ) غم و غصہ اور شر پسندی کی عادت کے تحت اس عظیم تبدیلی کے رد عمل کے طور پر پیدا کررہی ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حق و باطل کے معرکے میں، بالآخر حق کوہی فتح ہوتی اور شکست و زوال باطل کا مقدّر بنتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ حق کی راہ میں لڑنے والے اپنی مادّی اور روحانی توانائیوں کو صحیح طریقے پر بروئے کار لائیں اور عقلمندی و پامردی، توکل بر خدا و شجاعانہ ثابت قدمی اور امید و اعتماد نفس کے ساتھ پہلے صحیح راستے کا انتخاب کریں پھر اس پر گامزن ہوجائیں ۔
اس صورت میں خدا کی نصرت و مدد کے وہ مستحق ہوں گے جیسا قرآن میں وعدہ کیا گيا ہے۔

ان تنصرواللہ ینصرکم و یثبّت اقدامکم
( اگر تم خدا کی نصرت کروگے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرےگا )

و لینصرنّ اللہ من ینصرہ
( اورخدا اس کی مدد کرتا ہے جو اس کی نصرت کرے )

انّ الارض یرثہا عبادی الصّالحون
( بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے )

صیہونزم کا سرطانی جال اور امریکی حکام کا شیطانی اور جنگ پسند ٹولہ جو آج سامراجیت کا خطرناک ترین اور سب سے بڑا جتھہ شمار ہوتا ہے، مختلف طریقوں سے امت مسلمہ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ نفسیاتی و تشہیراتی جنگ سے لے کر معاشی جدال تک، معاندانہ سیاسی اقدامات سے لے کر تشدد، قتل اور فوجی یلغار تک، وہ صرف اور صرف اپنے ناجایز مفادات کے درپے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتے ۔
فلسطین میں غاصب صیہونیوں کے ہولناک جرائم پر سرسری نظر جو حکومت امریکہ کے تعاون سے انجام پا رہے ہیں نیز عراق اور افغانستان میں غاصبوں کے وحشیانہ سلوک کا جائزہ ان لوگوں کی شقاوت و بربریت کو آشکارا کردیتا ہے جو دنیا میں انسانی حقوق، ڈیموکریسی اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جد وجہد کی آڑ میں بدترین قتل و غارتگری کا ارتکاب کررہے ہیں اور قوموں کو آزادی دلانے کے بہانے ان کو اپنی آمریت اور لوٹ مار کا نشانہ بنارہے ہیں ۔
امریکا علی الاعلان مختلف ملکوں پر چڑھائی اور قوموں کے خلاف جارحیت میں خود کو حق بجانب تصور کرتا ہے۔ صیہونی حکومت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فلسطینی رہنماؤں کو قتل کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ صیہونی، فلسطین کے اندر پیر و جواں، مرد و زن اور بچوں کا خون بہا رہے ہیں اور ان کےگھروں کو مسمار کررہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ عراق کے اندر نہتے مظاہرین پر حملے کررہے ہیں، لوگوں کے گھروں اور ان کے خیموں اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیاجا رہا ہے اورابھی ان کی بھڑکائی ہوئي آگ کےشعلے خاموش نہیں ہوئے ہیں کہ عالم اسلام کو ایک اور جنگ کی نوید سنائي جا رہی ہے۔
ان کا یہ اشتعال انگیز رویہ ان کی طاقت اور خود اعتمادی سے زیادہ ان کی سراسیمگی اور خوف و ہراس کا نتیجہ ہے۔ وہ اسلامی بیداری کا احساس کررہے ہیں اور اسلام کی سیاسی تعلیمات کے فروغ اور اسلام کی حاکمیت سے اپنے لئے سخت خطرہ محسوس کررہے ہیں، وہ اس دن سے ڈر رہے ہیں جب امت مسلمہ متحد ہوکر اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس روز ملت اسلامیہ اپنے قدرتی وسایل اور عظیم تاریخی ثقافتی ورثے، اپنی وسیع و عریض جغرافیایی قلمرو اور بےپناہ افرادی قوت کے ذریعے تسلط پسند طاقتوں کو جنہوں نے دو سو سال تک اس کا خون چوسا اور اس کی عزت و وقار کو مجروح کیا جارحیت و سرکشی بند کرنے پر مجبور کر دےگی۔ آج دنیاے اسلام کی سیاسی و نظریاتی شخصیات پر ایک اہم فریضہ عائد ہوتا ہے ۔
مسلمان مفکروں کو اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو قابل فہم اور مناسب طریقے سے لوگوں کے مختلف طبقات تک پہنچانا چاہئے، انہیں مسلمان قوموں کے اسلامی تشخص کو صحیح طور سے بیان کرنا چاہئے نیز انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، بد عنوانی کے خلاف اقدام، امتیازی سلوک کے خاتمے، غربت و افلاس اور علمی پسماندگی کے خلاف جد وجہد جیسے موضوعات سے متعلق اسلام کی روشن تعلیمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا چاہئے اور لوگوں کو دہشت گردی اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف جنگ کے دعوؤں کے پس پردہ کارفرما مغربی ذرائع ابلاغ کے ناپاک عزائم سے بھی آگاہ کرنا چاہئے ۔
آج نظریاتی اور عملی لحاظ سے ان موضوعات کے بارے میں مغربی دنیا کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، اسے عالمی رائے عامہ کے مقابلے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ مغربی دنیا کو فلسطین میں معصوم بچوں کے قتل عام، حقوق نسواں، عورتوں کی عزت واحترام اور قوموں کے حق خود ارادی کی پامالی اور قوموں کے ذخائر کی لوٹ مار اور حتی خود اپنے شہریوں کی آزادی کے بارے میں جواب دینا پڑےگا۔ کیا بعض یورپی ملکوں میں حجاب پر پابندی، آزادی کے ان کے بلند بانگ دعؤوں کی قلی نہیں کھول دیتے؟ اسلامی ملکوں کے سیاستدانوں اور اعلی سرکاری عہداروں کی اہم تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوموں پر بھروسہ کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں کے کبھی ختم نہ ہونے والے مطالبات کو ماننے سے انکار کردیں۔ یہ ان کا اہم ترین فریضہ ہے، وہ امت مسلمہ کے عظیم تشخص کو جو بہت سی مشکلات کا حل ہے فراموش نہ کریں ۔عالم اسلام کےمسائل کےحل میں فیصلہ کن امر ملت اسلامیہ کے مفادات کی تکمیل اوراس کے اقتدارکی برقراری ہونا چاہئے۔
آج عراق سے غاصبوں کا انخلا، اور اس ملک میں قومی اقتدار اعلی کا استحکام، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء اور اس ملک کی خود مختاری و اسلامی ماہیت پر تاکید، فلسطین کی مظلوم قوم کی مدد اور ان لوگوں کی اخلاقی اور مادی حمایت جو اپنی جان و مال اور عزت و ناموس کے دفاع اور اپنی آزادی و خودمختاری کی راہ میں غاصبوں سے بر سر پیکار ہیں۔ عالم اسلام کے گوشے گوشے میں دینی اقدار ار ایمان و اعتقاد کی ترویج، مسلمان حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت، آپسی مسائل کا حل، اسلامی کانفرنس تنظیم کا خود کو موثر تنظیم بنانا اور سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل کرنےکی امت مسلمہ کے مفادات ہیں، لہذا مسلمان حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات میں انہیں شامل کیا جانا چاہئے اور قوموں کے دانشوروں اور دیگر افراد کواپنی حکومتوں سے اس کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔
ایران کی قوم اور حکومت جو اپنے اسلامی جمہوری نظام کے قیام کی 25 ویں سالگرہ کا جش منا رہی ہے اس سلسلے میں کافی گرانبہا اور قابل فخر اقدامات کرنے کے علاوہ دنیا والوں کے سامنے مناسب نظام پیش کرچکی ہے ، ہم خدائے بزرگ و برتر پر بھروسے اور ایمان و معرفت سے سرشار قوم کی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے نیز اپنے عظیم نصب العین کی سمت گامزن رہتے ہوئے اس کی جانب ٹھوس قدم بڑھا چکے ہیں۔ دینی حدود ارو جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے معنویت اور آزادی و خود مختاری جیسے اقدار سے آمیختہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کا سرچشمہ قرآنی تعلیمات ہیں۔
اس دوران ہمارے ملک کو سامراج کی جانب سے دشمنی اور عناد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہماری قوم اس عرصے میں ایمان و استحکام اور افتخار کی اعلی منازل طے کر چکی ہے۔ ہم نے قرآنی تعلیمات پر عمل کیا ہے جو فرماتا ہے :

ان کید الشّیطان کان ضعیفا
( بے شک شیطان کی چال کمزور ہے )

انّ اللہ مع الّذین اتّقوا و الّذین ہم محسنون
( بے شک خدا ان کے ساتھ ہے جو تقوی و پرہیزگاری رکھتے اور جو احسان کرنے والے ہیں)

و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر
(اور بےشک خدا ان کی مدد پر قادر ہے )

ہم اپنی قوم اور عالم اسلام کے سامنے افق کو روشن دیکھ رہے ہیں اور الہی وعدوں پر یقین کامل رکھتے ہوئے اس راستے کو عزم راسخ کے ساتھ طے کررہے ہیں جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے معین کیا ہے۔

والعاقبتہ للمتقین
و السلام علی عباداللہ الصالحین

سیّدعلی حسینی خامنہ ای
ذی الحجہ 1424ھ مطابق جنوری 2004